Powered By Blogger

بدھ, مارچ 02, 2022

کرناٹک ہائی کورٹ کا حیرت انگیز اقدام : بنیادی حقوق پر عارضی روک - منو سیبسٹین ( مدیر مسئول ، لائیو لا ) ترجمہ : عمیر اعظمی

کرناٹک ہائی کورٹ کا حیرت انگیز اقدام : بنیادی حقوق پر عارضی روک - منو سیبسٹین ( مدیر مسئول ، لائیو لا ) ترجمہ : عمیر اعظمی

کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے معاملہ میں ناقابل تصور عمل کیا ہے۔ کرناٹک کے سرکاری کالیجوں میں لگائی گئی حجاب پر باندی کے خلاف مسلمان طالبات کی طرف سے دائر کردہ مقدمہ کی سنوائی میں مکمل بینچ نے عارضی فیصلہ کے ذریعہ مقدمہ مکمل ہونے تک بلا تفریق مذہب مذہبی لباس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ حجاب پر پابندی کے نتیجے میں ہونے والے ہنگاموں کے چلتے حکومت نے تعلیمی اداروں کی بندی کا اعلان کیا تھا، تعلیمی اداروں کو کھولنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے کہا:

"ان تمام عرضیوں کی سنوائی کے اثنا میں ہم بلا تفریق مذہب تمام طلباء کے کلاس میں بھگوا شال اور اس سے متعلقہ اشیاء دوپٹہ، حجاب، مذہبی جھنڈے وغیرہ زیب تن کرنے پر پابندی عائد کرتے ہیں۔" بنچ کے ارکان چیف جسٹیس ریتو راج اوستھی، جسٹیس کرشنا دکشت اور جے ایم قاضی نے وضاحت کی کہ اس فیصلے کا اطلاق صرف انھی اداروں پر ہوگا جن میں یونیفارم نافذ ہے۔ بظاہر تو یہ حکم غیر جانبدارانہ لگتا ہے، مگر اس سے متاثر صرف وہ طالبات ہوں گی جو حجاب کو اپنے مذہب کا حصہ ہونے کی بنیاد پر اس پر عمل کرنا چاہتی ہیں۔

یہ عارضی فیصلہ شدید ترین مذمت کا مستحق ہے کیوں کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران شہریوں کے بنیادی حقوق کو معطل کر دینا ایک انوکھا عمل ہے جس میں مدعی کی دلیلوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور "سہولت میں توازن" (balance of convenience) اور "ناقابل تلافی نقصان" (irreparable injury) کے مسلم قانونی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

اس مضمون کا مقصد نہ تو حجاب کے اسلام کا بنیادی جزو ہونے کی دلیل دینا ہے، نہ ہی تعلیمی اداروں میں یونیفارم کی افادیت کی وکالت کرنا ہے۔ موضوع بحث صرف عدالت کا عارضی فیصلہ ہے، جس نے عملاً حکومت کے اسی فیصلے کو نافذ کیا ہے، جس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا اور جس کے نتیجے میں مسلمان خواتین کے لئے تعلیم کا حصول اپنے مذہب پر عمل نہ کرنے کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے تا آں کہ ان کے اٹھائے ہوئے "کلیدی اہمیت کے حامل سوالات" کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ مسَلم قانونی اصولوں کے مطابق عارضی راحت کے لئے تین بنیادیں ہیں۔ اول یہ کہ بادی النظر میں کیس کی بنیاد ہو۔ دوم سہولت میں توازن۔ سوم ناقابل تلافی نقصان۔

بادی النظر میں اپنے موقف کی تائید میں مدعیوں نے کیرالا اور مدراس کے دو فیصلے پیش کئے، جن میں حجاب کو مذہب کا ضروری جزو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سوپریم کورٹ کے بیجوئے ایمانویل فیصلہ کا بھی حوالۂ ضمیر پر عمل پیرا ہونے کے آئینی بنیادی حق ہونے کی تائید میں پیش کیا گیا۔ یہ معاملہ جیہوا وٹنیس (Jehovah Witness) طلبہ کا تھا جنھیں مذہبی وجوہات کی بنا پر قومی ترانہ نہ پڑھنے کی پاداش میں اسکول سے نکال دیا گیا تھا اور عدالت نے انھیں اپنے فیصلے میں راحت دی تھی۔ حجاب کو اسلام کا ضروری جزو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیات اور احادیث کے حوالے پیش کئے گئے۔ دفعہ ۲۵ کے تحت مذہبی آزادی کے علاوہ یہ بھی دلیل پیش کی گئی کہ لباس شناخت کا حصہ ہونے کی بنا پر دفعہ ۱۹ (الف) کے تحت بنیادی حق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دلیل دی گئی کہ لباس کا اختیار دفعہ ۲۱ کے تحت پرائیویسی کے حق میں شامل ہے اور ریاست کو لباس تھوپنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

قانونی اصطلاح میں بادی النظر کا مطلب اتمام حجت ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب فقط یہ دکھانا ہوتا ہے کہ دعوٰی کی کوئی بنیاد موجود ہے۔ بے بنیاد نہ ہونے کے دعوی کے حق میں دو ہائی کورٹ کے فیصلوں اور دینی صحیفوں کے متعلقہ حوالوں کے بعد آخر اور کیا درکار ہے؟ مگر حیرت ہے کہ عارضی فیصلے میں معاملہ کے ان پہلووں کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ سہولت میں توازن کے قانونی اصول کے مطابق عدالت کو مدعی کو راحت دینے کی صورت میں مدعا علیہ کو ہونے والی دقت کا موازنہ اس تکلیف سے کرنا ہے جو راحت نہ دینے کی صورت میں مدعی پر لاحق ہوگی۔ ان کے ما بین توازن قائم کر کے یہ دیکھنا ہے کہ کدھر کا پلڑا بھاری ہے۔

یہاں مدعیان کا دعوٰی ہے کہ وہ کورس کی ابتدا سے ہی حجاب پہن کر کلاس جاتی رہی ہیں اور دسمبر ۲۰۲۱ میں اس میں خلل اندازی ہوئی۔ یہ بھی دعوٰی کیا گیا ہے کہ کچھ کالجوں میں یونیفارم کے رنگ کے حجاب سے متعلق ضوابط بھی موجود ہیں۔ اب جب کہ تعلیمی سال کی تکمیل میں صرف دو مہینے باقی ہیں، انھیں کلاس میں حجاب کے ساتھ داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ لمبے عرصے سے چلے آرہے طریقے پر انھیں تعلیمی سال مکمل کرنے اور امتحانات دینے کی اجازت دینے میں کیا دقت ہے؟ حکومت کا دعوٰی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں مذہبی شناخت ہٹاکر یکسانیت لاکر بھائی چارہ کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ (یہ الگ بحث ہے کہ آیا اس عمل سے بھائی چارہ کو فروغ مل رہا ہے یا طلبہ کے ما بین دوریاں بڑھ رہی ہیں؟) کیا یہ تبدیلیاں دو مہینے تک ملتوی نہیں کی جا سکتیں؟ کیا ایسے حساس موضوع سے متعلق اتنی بڑی تبدیلی بنا مذاکرات کے اچانک طلبہ پر تھوپی جا سکتی ہے؟ عدالت نے ان سوالات کو لائق التفات ہی نہیں سمجھا۔ عارضی فیصلے میں سہولت میں توازن کا اصول کہیں پر بھی کار فرما نہیں ہے۔

عدالت نے مسلمان خواتین کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ مذہب اور تعلیم کے بیچ ایک کا انتخاب کریں۔ ایک حق کے استعمال کے نتیجے میں دوسرے سے دست بردار ہونا ہوگا۔ چیف جسٹیس نے سنوائی کے دوران فرمایا کہ "بس کچھ دنوں کی بات ہے۔" جب کوئی شخص اپنے کسی مذہبی عمل کا عادی ہے تو کیا اس سے یہ کہنا کہ اپنے مذہبی عمل کو "کچھ دنوں" کے لئے چھوڑ دو اگر تعلیم حاصل کرنی ہے، کوئی معقول بات ہے؟ کیا کسی شہری کے سرکاری ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے کو اس کے مذہبی اور ثقافتی حقوق سے دست برداری کے ساتھ مشروط کرنا درست ہے؟ ایک آئینی عدالت کا ذمہ ہوتا ہے کہ وہ حقوق کے ما بین ہم آہنگی پیدا کرے۔ مگر یہاں عدالت نے حق مذہب اور حق تعلیم کے بیچ تضاد کی صورت پیدا کر دی ہے۔ ناقابل تلافی نقصان کے امکانات پر غور کرنے سے بھی عارضی فیصلہ عاری ہے۔

عدالت کی صوابدید پر مبنی عارضی فیصلوں کا اصل مقصد بھی عدل وانصاف ہی ہوتا ہے۔ مگر اس فیصلہ نے مسلمانوں کے خلاف اور خاص طور سے مسلمان خواتین کے خلاف تفریق کو مزید تقویت دی ہے۔ تعلیم کے معطل ہونے پر عدالت کی فکرمندی یقیناً بجا ہے مگر اس کو مسلمان لڑکیوں کے حجاب سے دست بردار ہونے کے ساتھ مشروط کرنے کی کوئی وجہ نہیں پیش کی گئی ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ "طلبہ کے حق میں یہی بہتر ہے کہ احتجاج اور اس کے نتیجے میں اداروں کے بند ہونے کے بجاے وہ کلاس میں لوٹ جائیں"۔ مگر حجاب پہننے کی اجازت کے ساتھ اور انتظامیہ کو سختی سے اداروں میں امن قائم کی ہدایات کے ذریعے تعلیمی نظام معمول پر کیوں نہیں آسکتا اس کی کوئی وجہ عدالت نے پیش نہیں کی ہے۔ وقتی امن کی خاطر حالت اصلی کو بدل کر مدعی کے موقف کو رد کرنا صرف جبر ہے، انصاف نہیں۔

حجاب کے معاملے کو ملک میں ہندوتوا سیاست کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مسلم مخالف فضا کے پس منظر میں دیکھنا لازمی ہے۔ کرناٹک حکومت کے حکم کو شہریت ترمیم بل، لو جہاد کے نام پر قوانین، گئوکشی سے متعلق قوانین کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جن کا قوی ترین اثر مسلمانوں پر ہی پڑا ہے۔

عارضی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ "ایک مہذب سماج میں کسی بھی شخص کو مذہب، ثقافت وغیرہ کے نام پر ایسے اعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس سے امن وامان برہم ہو۔" مگر اس کی تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کی گئی ہے کہ امن وامان برہم کرنے کے پیچھے کون ہے؟ ایک تنہا لڑکی کو کالج میں جاتے وقت بھگوا شال اوڑھے لڑکوں کے ذریعے ہراساں کرنے کی وائرل ویڈیو موجود ہے۔ کالج کیمپس میں بھگوا جھنڈا پھہرانے کی ویڈیو بھی موجود ہیں۔ کئی ویڈیو میں مستعمل بھگوا شال اور پگڑی کا پھینکا جانا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ تحقیقاتی رپورٹ حجاب کے خلاف تحریک کو منصوبہ بند عمل بھی قرار دے رہی ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل کا دعویٰ ہے کہ حالات حکومت کے قابو میں ہیں، اس کے باوجود عدالت نے صوبائی حکومت سے یہ سوال کرنا ضروری کیوں نہیں سمجھا کہ ان ہنگاموں کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ اگر ایک گروہ حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ ماحول خراب کرتا ہے تو کیا اس کی وجہ سے دوسری جماعت کا اپنے جائز مقاصد کے لئے احتجاج کرنے کا حق سلب کر لیا جائے گا؟ کیا حکومت خود ہاتھ پر ہاتھ دھر کر حالات خراب ہونے کے بعد یہ دعوی کر سکتی ہے کہ مدعی ہی اس ہنگامے کا ذمہ دار ہے؟

کچھ خبروں کے مطابق ایک کالج نے مسلمان طالبات کو الگ بٹھایا جو امریکہ کے خوفناک نسلی امتیاز کے قوانین کی یاد دلاتا ہے۔ اس پرسنگل بینچ کی توجہ دلائی گئی تھی جس پر جج نے سوال کیا تھا کہ کیا یہ "علاحدہ مگر مساوی" کے نظریہ پر مبنی تھا، جسے امریکی عدالتیں رد کر چکی ہیں، اس پر ایڈووکیٹ جنرل بھڑک گئے اور ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ کورٹ اس خبر کے متعلق تحقیق کرواتی مگر عدالت نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

اس معاملہ میں ایک عجیب وغریب حرکت بھگوا شال پہننے کا بھی ہے جو حجاب پہننے کی مخالفت میں بظاہر پلاننگ کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلے سے چل رہے حجاب پہننے کے عمل کو اور احتجاجاً شروع ہونے والے شال پہننے کے عمل کوعدالت نے یکساں قرار دیا ہے۔ عدالت اسے برابری پر محمول کرے گی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے اثرات فریقین پر برابر نہیں ہوں گے۔

ایسی صورت حال کے لئے فرانسیسی مصنف اناتول فرانسے کا قول نہایت موزوں ہے۔ "مساوات کے شاندار تصور کا تقاضا ہے کہ یکسانیت کے ساتھ سبھی کے لئے سڑکوں پر سونے کو، بھیک مانگنے کو اور روٹی چرانے کو خلاف قانون قرار دیا جائے، خواہ کرنے والا امیر ہو یا غریب۔" طالبات نے عدالت سے امیدیں وابستہ کیں ان پرعدالت نے پانی ڈالا ہے اور حقیقتاً حکومت اور کالجوں کے کارندہ کا کام کیا ہے، باوجودیکہ کہ سرکاری احکام کے خلاف مضبوط آئینی دلائل پیش کئے گئے، ضروری سوالات سے گریز کرکے اور اہم نکات کو نظر انداز کر کے افراد کے بنیادی حقوق کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اگر اس فیصلے کو جلد ہی درست نہ کیا گیا، تو یہ ہماری عدلیہ کی تاریخ پر ایک قابل شرم داغ ہوگا

منگل, مارچ 01, 2022

جہانِ آرزومفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جہانِ آرزو
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
محترم جناب محمد نجم الثاقب آرزوؔ (ولادت ۱۶؍نومبر ۱۹۵۸) بن الحاج محمد زکریا مرحوم دربھنگہ کی مشہور ومعروف بستی رسول پور نستہ کے رہنے والے ہیں، تعلیم کے اعتبار سے زولوجی میں ایم اس سی ہیں، لیکن شاعری اردو میں کرتے ہیں، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کے قائم کردہ قاضی احمد ڈگری کالج جالے میں زولوجی کے پروفیسر ہیں، کاروبار اینٹ بھٹہ کا کر رکھا ہے، دیندارانہ مزاج اور شریفانہ اخلاق واطوار کی وجہ سے علاقہ میں معروف ومشہور ہیں، حق بولنا اور حق کے لئے لڑنا بھی جانتے ہیں، صلبی اولاد تو کوئی ہے نہیں، اللہ کی مرضی، اپنی شاعری کو ہی اپنی اولاد سمجھتے ہیں، کیونکہ ادب کی زبان میں یہ بھی ایک تخلیقی عمل ہے، حالاںکہ اصل خالق تو اللہ ہی ہے، مجازاً بہت سارے لفظوں کا اطلاق غلط صحیح دوسری چیزوں پر بھی کیا جانے لگا ہے، جناب آرزو کا ’’جہان آرزو‘‘ عرف کے اعتبار سے ایک شعری تخلیق ہے۔
ایک سو برانوے (۱۹۲) صفحات پر مشتمل ’’جہان آرزو‘‘ کا انتساب جناب آرزوؔ نے اپنے گاؤں رسول پور نستہ کے نام کیاہے، جس کی گود میں آرزو پلے بڑھے، یہ انتساب ان کی جائے پیدائش سے والہانہ محبت اور غیرمعمولی تعلق کا اظہار ہے، کتاب کا آغاز اپنی بات سے ہوتا ہے، جس میں شاعر نے اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور خاندانی احوال وکوائف بیان کئے ہیں، اسی سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آرزوؔ کی شاعری کو آگے بڑھانے، پروان چڑھانے میں جناب نقی احمد رحمانی، ارم انصاری اور مشہور وباکمال شاعر اور محیر العقول شخصیت جناب ڈاکٹر عبد المنان طرزیؔ کا بڑا ہاتھ رہا ہے، عبد المنان طرزیؔ کے آرزوؔ تلمیذ رشید کہے جا سکتے ہیں، کیونکہ طرزی نے ’’جہان آرزو‘‘ میں شامل چند نعت، غزل اور نظموں کے نوک وپلک استاذانہ مہارت کے ساتھ سنوارے ہیں اور اس طرح یہ کتاب اشاعت کے مرحلہ تک پہونچی ہے۔
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی مرحوم بھی سیال قلم کے مالک تھے انہوں نے حوصلہ افزائی کرکے بہتوں کو شاعر اور نقاد بنا دیا، نجم الثاقب آرزو کے بھی وہ ہاتھ لگ گئے اور انہوں نے پوری تنقیدی مہارت کے ساتھ آرزوؔ کی شاعری کا جائزہ لیا، یہ تنقیدی جائزہ ’’نجم الثاقب آرزوؔ کی غزلوں میں اظہار کی صورتیں‘‘ کے عنوان سے شامل کتاب ہے، اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ 
’’نجم الثاقب آرزو کے یہاں غزل کے مقتضیات کا شعور اور اس کی روایت کو برتنے کا خیال کا ر فرمانظر آتا ہے، کہا جاسکتا ہے کہ وہ محسوسات کے شاعر ہیں، انہوں نے آس پاس کے ماحول اور گرد وپیش کے سماجی ومعاشرتی حالات کا گہری نظر سے مشاہدہ کیا ہے اور حالات کی نباضی کی ہے (ص:۱۷) 
آگے لکھتے ہیں ’’نجم الثاقب کلاسیکی انداز بیان کے ساتھ نئے تلازمات اور نئے پیمانے کو اپنائے ہیں، ذات اور کائنات کو مخصوص میزان ومعیار پر پرکھتے ہیں ۔اوردو قبول کی منزل سے گذرتے ہیں( ص:۱۷) 
اور بالآخر انہوں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ ’’نجم الثاقب آرزوؔ کی غزلوں میں جذبۂ طہارت کے مسائل اور اظہار کی صورتوں میں مطابقت پائی جاتی ہے ، بیش تر اشعار میں معانی کی گونج اس طرح سنی جاتی ہے جیسے سیپ میں سمندر کی آواز سنائی دیتی ہے، صوتی تاثر اور نفسیاتی توانائی کی ہم کاری بھی ان کے یہاں ملتی ہے‘‘ (ص:۲۰) 
عبد المنان طرزیؔ جنہوں نے آرزوؔ کی شرط کے مطابق ناگزیر ہونے ہی پر ہی اشعار میں ہلکی تبدیلی کی ہے جس سے آرزوؔ کے جذبات واحساسات اور خیالات میں واضح تبدیلی نہیں آئی ہے، طرزی صاحب نے آرزوؔ کے کلام کے محاسن ومعائب پر جو گفتگو کی ہے، اس کے مطابق ان کی غزلوںمیں عشقیہ جذبات اور خالص تغزل کا گذر نہیں ہے، سیدھے سادے الفاظ میں پیکر تراشی کی گئی ہے، نثرسیل وتفہیم میں تعقید نہیں پایا جاتا، فلسفیانہ اور مفکرات خیالات، رمز واشارہ، کنایہ، تلمیح و استعارہ سے گریز کیا گیا ہے، البتہ تخیلات میں اخلاق کریمانہ اور اقدار حسنہ کی پاسداری پائی جاتی ہے، اس وضاحت کے بعد طرزیؔ صاحب نے اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ بجا ہے کہ اسلوب بہت حد تک عالمانہ اور شاعرانہ نہیں ہے، آرزو صاحب اردو وادب کے طالب علم نہیں رہے، اس لئے ان سے عالمانہ اسلوب کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی، ان کا جو طرز بیان ہے وہ ان کی اردو دانی کے دائرے میں ہے‘‘ (ص:۲۳) 
خود آرزوؔ نے اسی مجموعہ کے ایک نظم میں واضح کردیا ہے کہ  ؎
اپنے فن کے بارے میں ہے ایک وضاحت لازمی
میں نے سیدھے سادے لفظوں میں کی ہے شاعری
واسطہ ہے دینی اور اخلاقی قدروں سے مرا
اور سلوک اہل حکومت کا بھی موضوع بن گیا
گیسو ورخسار میرے فن کی دولت ہے نہیں
اور ہجر ووصل کی تلخی، مسرت ہے نہیں 
در اصل آرزوؔ سچی شاعری کو پسند کرتے ہیں اور سچی شاعری میں منافقت نہیں ہوتی کہ دل میں کچھ ہے اور زبان پر کچھ ،چوں کہ آرزوؔ کے خیالات اسلامی اقدار وافکار سے ماخوذ ہیں، اس لئے ان کا اسلوب سادہ ہو گیا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا شمار ان شعراء میں نہ ہو جنہیں ٹامک ٹوئیاں مارنے والا قرار دیا گیا ہے اور جن کی کہنی اور کرنی میں فرق ہوتا ہے، آرزوؔ اپنی شاعری میں سچ کی آواز بلند کرتے ہیں اور حکومت کے طریقہ کار پر سچے انداز میں تنقید کرتے ہیں، اسے نقادوں کی اصطلاح میں عصری حست سے تعبیر کیا جاتا ہے، گو عصری حست کا دائرہ صرف حکمرانوں پر تنقید سے عبارت نہیں ہے، اس کے دائرہ میں، آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں، دماغ جو محسوس کرتا ہے، سب سما جاتا ہے، یہ صحیح ہے کہ آرزو کے یہاں شوکت الفاظ، ندرت خیال اور ادبی صنعتوں کا گزر نہیں ہے، تخیلات اعلیٰ وارفع ہیں، لیکن شوکت الفاظ کی کمی نے اسے عام سا بنا دیا ہے، اس اعتبار سے فکری ترفع کے باوجود ان کی شاعری فنی اعتبار سے کمزور معلوم ہوتی ہے، ادب نہ تو بنیے کا روز نامچہ ہے اور نہ ہی مولانا صاحب کی واعظانہ نصیحت، ادب کو ان دونوں سے اوپر ہونا چاہئے، نہ تو بنیے کے روزنامچہ کی طرح خشک اور کھردے اعداد وشمار ہوں اور نہ ہیئت واسلوب کے اعتبار سے وعظ،ادب میں کیا کہا جارہا ہے کی اصل اہمیت ہے، لیکن ہم ہیئت، فورم اور ادبی سلیقگی کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔
’’جہانِ آرزو‘‘ ایک حمدایک نعت، ایک وضاحت ، باسٹھ غزلوں اور پندرہ نظموں پر مشتمل ہے، طباعت، روشان پرنٹرس دہلی اور اشاعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کی ہے، دو سو روپے دے کر ارشاد بک ڈپو دربھنگہ بُک گیلری قلعہ گھاٹ دربھنگہ سے منگا سکتے ہیں، لائبریری کے لئے لینا ہو تو پچاس روپے مزید نکالنے پڑیں گے، نمونۂ کلام
اپنے دشمن ہی پہ ہم جان فدا کرتے ہیں
ہائے نادان بھی ہم کیسے ہیں کیا کرتے ہیں
ہم تو اس کو بھی سمجھتے ہیں ترا کوئی فریب
تجھ سے تعریف اگر اپنی سنا کرتے ہیں
تم کو آتا نہیں کچھ کرنا بُرائی کے سوا
ہم کو آتا ہے بھلا کرنا، بھلا کرتے ہیں
آپ میں، ہم میں جو ہے فرق فقط اتنا ہے
ہم وفا کرتے ہیں اور آپ جفا کرتے ہیں

ریلوے نے مسافروں کو دی بڑی راحت ، اب لوگ جنرل ٹکٹ کے ساتھ ٹرینوں میں کر سکیں گے سفر

ریلوے نے مسافروں کو دی بڑی راحت ، اب لوگ جنرل ٹکٹ کے ساتھ ٹرینوں میں کر سکیں گے سفرملک میں کورونا کے حوالے سے صورتحال بہتر ہونے کے بعد انڈین ریلوے نے ٹرینوں میں دوبارہ غیر ریزروڈ کوچز شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غور طلب ہے کہ اب تک کووڈ کی وجہ سے جنرل کوچوں کے لیے بھی ریزرویشن کرانا پڑتا تھا۔ جو ٹرینیں ایک زون سے دوسرے زون میں جاتی تھیں، وہ تمام ٹرینیں ‘صرف ریزرویشن ٹرینوں’ کی لائنوں پر چل رہی تھیں۔ تاہم، کووڈ کے نئے کیسز کی تعداد میں کمی کے بعد اب مسافر عام ٹکٹ لے کر عام ڈبے میں سفر کر سکیں گے، لیکن یہ سہولت اگلے 4 ماہ تک بک کرائی گئی سیٹوں کے لیے دستیاب نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن ٹرینوں میں ٹکٹ پہلے سے بک کر لیے گئے ہیں، وہاں پیشگی ریزرویشن کی مدت ختم ہونے کے بعد معمولات بحال ہو جائیں گے۔ تاہم ہولی کے لیے چلنے والی ٹرینوں میں لوگ عام مسافروں کے ڈبے میں عام ٹکٹ لے کر سفر کر سکیں گے۔

یوکرین کے لئے بھیجی جائے گی راحت سامگری کی پہلی کھیپ : مودی

یوکرین کے لئے بھیجی جائے گی راحت سامگری کی پہلی کھیپ : مودینئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کو کہا کہ یوکرین کی سرحدوں پر پیدا ہونے والی انسانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے منگل کو امدادی سامان کی پہلی کھیپ یوکرین بھیجی جائے گی۔ مودی نے پیر کو جنگ زدہ یوکرین میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کو واپس لانے کے لیے آپریشن گنگا کے تحت جاری کوششوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک میٹنگ کی صدارت کی۔ یوکرین کے معاملے پر وزیر اعظم کی یہ دوسری اعلی سطحی ملاقات تھی۔ اس دوران انہوں نے یوکرین بھیجے جانے والے امدادی سامان کے بارے میں معلومات دی۔ انہوں نے کہا کہ پوری سرکاری مشینری اس بات کو یقینی بنانے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہے کہ وہاں رہنے والے تمام ہندوستانی شہری محفوظ رہیں۔ انہوں نے کہا کہ چار سینئر وزرا کے خصوصی ایلچی کے طور پر مختلف ممالک کے دورے سے ہندوستانی شہریوں کے انخلا میں تیزی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے حکومت کی اس معاملے میں ترجیح ظاہر ہوتی ہے۔ دنیا کے لیے ایک خاندان ہونے کے ہندوستان کے نعرے سے متاثر ہو کر وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان پڑوسی ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے ان لوگوں کی مدد کرے گا جو یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ہم سے مدد کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل آپریشن گنگا پر اپنی پہلی اعلی سطحی میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے مودی نے روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی کے درمیان انخلا کے مشن کو مربوط کرنے اور پھنسے ہوئے طلبا کی مدد کے لیے یوکرین کے پڑوسی ممالک میں چار سرکاری ایجنسیوں سے بات کی۔ وزرا ان وزرا میں ہاؤسنگ اور شہری ترقی کے وزیر ہردیپ پوری، شہری ہوا بازی کے وزیر جیوترادتیہ سندھیا، وزیر قانون اور انصاف کرن رجیجو اور سابق آرمی چیف اور سڑک، ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے وزیر مملکت جنرل وی کے شامل ہیں۔ اس میٹنگ میں یوکرین سے ہندوستان کے انخلا کے مشن پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔مودی نے اتوار کو کہا تھا کہ یوکرین میں پھنسے ہندوستانی طلبا کی حفاظت اور انخلا کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے اتوار کی شام دیر گئے ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت بھی کی جو دو گھنٹے سے زائد جاری رہی تھی

شب معراج میں نمازوں و عبادات کا خشوع و خصوع سے اہتمام

شب معراج میں نمازوں و عبادات کا خشوع و خصوع سے اہتمامجلسوں کا بھی اہتمام ۔ امت مسلمہ کو شب معراج کے پیام کو زندگیوں کا حصہ بنانے کی تلقین
حیدرآباد 28 فبروری ( اردو دنیا نیوز ۷۲) شب معراج کا آج شہر میں خشوع و خضوع کے ساتھ اہتمام کیا گیا ۔ مساجد میں خصوصی نمازوں و عبادات کا اہتمام کیا گیا ۔ مساجد پر روشنی کا انتظام کرتے ہوئے انہیں بقعہ نور بنایا گیا ۔ اس کے علاوہ شہر کے مختلف مقامات پر خصوصی جلسہ شب معراج کا اہتمام بھی کیا گیا جن میں علماء کرام ' مفتیان عظام اور مشائخین نے خطاب کیا ۔ تاریخی مکہ مسجد میں مصلیان کرام کا سب سے بڑا مجمع دیکھا گیا جو نماز عشاء میں شریک تھا ۔ اس کے علاوہ شہر کی دوسری بڑی مساجد اور تقریبا سبھی مساجد میں نمازوں میں مصلیان کرام کی خاصی تعداد شریک رہی ۔ شہر کے مختلف مقامات اور مساجد میں منعقدہ جلسہ ہائے شب معراج سے خطاب کرتے ہوئے علماء کرام و مشائخین و مفتیان عظام نے امت مسلمہ کو تلقین کی کہ وہ شب معراج کا اہتمام کرتے ہوئے اس کے پیام کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس رات میں ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کو آسمانی دنیا کے سفر کے دوران دنیاوی خرافات کے عواقب کا نظارہ کروایا گیا ۔ غیبت ' چغلی ' جھوٹ ' سود خوری جیسے گناہوں پر ملنے والی ہیبتناک سزاوں کا ہمارے آقا ﷺکو مشاہدہ کروایا گیا اور پھر ہمیں ہمارے نبی ؐ کے ذریعہ نماز کے تحفہ سے اللہ تبارک و تعالی نے سرفراز فرمایا ۔ ہمیں نہ صرف نماز کے تحفہ کا ذکر کرنا چاہئے بلکہ اس کی اہمیت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ہماری اپنی زندگیوں میں نماز کو قائم کرنے کیلئے سبھی کو تہئیہ کرلینا چاہئے ۔ علماء کرام نے فرمایا کہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق صرف نماز ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہم وقتی طور پر جذباتیت کا شکار تو ہو جاتے ہیں لیکن ہم نماز کی فرضیت سے غافل ہوگئے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں مثبت اور بہتر تبدیلی لانی ہے تو ہمیں نماز کا پابند ہونا چاہئے اور دوسری برائیوں سے جس کی تلقین ہمارے نبی ﷺنے فرمائی ہے اجتناب کرنا چاہئے

پیر, فروری 28, 2022

یوپی الیکشن میں ایک نہیں ، بلکہ 4-4 اکھلیش یادو آزما رہے ہیں قسمت ، جانیں کون کہاں سے میدان میں

یوپی الیکشن میں ایک نہیں ، بلکہ 4-4 اکھلیش یادو آزما رہے ہیں قسمت ، جانیں کون کہاں سے میدان میںلکھنو: اترپردیش اسمبلی (UP Chunav) کی انتخابی جنگ میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو (Akhilesh Yadav) سمیت اس نام کے چار 'امیدوار' میدان میں ہیں۔ اسمبلی انتخابات میں اکھلیش یادو نام کے چار امیدواوں میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ سمتی دو امیدوار سماجوادی پارٹی کے ہیں جبکہ ایک کانگریس اور ایک آزاد امیدوار کے طور پر اپنی طاقت آزما رہے ہیں۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کے انتخابی حلقہ مین پوری ضلع کے کرہل میں ووٹنگ ہوچکی ہے اور رائے دہندگان نے ان کی قسمت الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) میں 'بند' کردی ہے۔ اکھلیش یادو نام کے دوسرے امیدوار اعظم گڑھ ضلع کی مبارکپور سیٹ سے ہیں۔ اس کے علاوہ ایودھیا ضلع کی بیکا پور اسمبلی سیٹ سے کانگریس امیدوار کا بھی نام اکھلیش یادو ہے۔ سنبھل کے گنور اسمبلی حلقہ میں ایک آزاد امیدوار بھی اکھلیش ہیں۔ رابطہ کرنے پر سماجوادی پارٹی کے سربراہ کے تینوں ہم ناموں نے 'پی ٹی آئی- بھاشا' کو بتایا کہ اس کے لئے یہ نام ہونا ایک فائدہ ہے۔ سات فروری کو سماجوادی پارٹی نے مبارکپور اسمبلی حلقہ سے امیدوار اکھلیش یادو کا اعلان کیا تو کچھ لوگوں کو لگا کہ پارٹی صدر اکھلیش یادو دو سیٹوں پر اسمبلی الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ چونکہ اس کے پہلے ہی سماجوادی پارٹی کے سربراہ کے مین پوری کے کرہل سے الیکشن لڑنے کا اعلان ہوچکا تھا اور اعظم گڑھ ان کا پارلیمانی حلقہ ہے تو لوگوں نے اندازہ لگایا کہ ممکنہ طور پر وہ دو سیٹوں سے الیکشن لڑیں گے۔ تاہم پارٹی لیڈروں نے صورتحال واضح کردیا اور بتایا کہ مبارکپور سے اعلان شدہ امیدوار اکھلیش یادو 2017 میں بھی اسمبلی الیکشن لڑچکے ہیں اور انہیں بی ایس پی کے شاہ عالم سے صرف 688 ووٹوں سے شکست ملی تھی۔ مبارکپور سے سماجوادی پارٹی سے امیدوار اکھلیش یادو نے 'پی ٹی آئی- بھاشا' سے کہا، 'مجھے اپنے انتخابی حلقہ، کے لوگوں کی اچھی حمایت مل رہی ہے، لوگ میرے تئیں ہمدردی محسوس کرتے ہیں، کیونکہ میں اس سیٹ سے 2017 کا اسمبلی الیکشن بہت ہی معمولی فرق سے ہار گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی سبھی لوگ چاہتے ہیں کہ اکھلیش یادو الیکشن جیتے۔ یہاں کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ اکھلیش یادو (سماجوادی پارٹی کے سربراہ) ہیں اور وہ یوپی کا وزیراعلیٰ بننے جا رہے ہیں، اس لئے مبارکپور سے رکن اسمبلی بھی اکھلیش یادو کو ہونا چاہئے'۔ مبارکپور سماجوادی پارٹی کے امیدوار کی قسمت کا فیصلہ ساتویں اور آخری مرحلے میں سات مارچ کو ہوگا۔ مبارکپور سے سماجوادی پارٹی کے امیدودار نے کہا کہ ان کے والد نے ان کا نام اکھلیش یادو رکھا ہے کیونکہ تین بھائیوں کا نام 'عیش' کے ساتھ ختم ہوا۔ اودھیش یادو، امیش یادو اور امریش یادو۔

مولانا احمداللہ صادق پوریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا احمداللہ صادق پوری
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بہار نہ صرف علم وادب کاگہوارہ رہاہے، بلکہ یہاں کی مٹی سے اٹھنے والے جیالوں نے اپنی جرأت وہمت، شجاعت وبہادری کا نقش چمن چمن قدم قدم ، ڈگرڈگر ،قریہ قریہ ،کوبکو اور شہر درشہر چھوڑا ہے ،جواں مردی، اولوالعزمی ،حب الوطنی یہاں کی خمیر میں شامل ہے، اوراس کا ثبوت یہاں کے بے شمارمجاہدین آزادی ہیں، جن کی ان تھک جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کی وجہ سے قافلۂ حریت ہمیشہ تیزگام رہاہے۔
تفصیل میں کہاں جائیے، صرف خاندان صادق پور کی خدمات کاہی تذکرہ کیاجائے تو کئی جلدیں تیار ہوجائیں، لکھنے والوں نے لکھا ہے اورتحقیق کرنے والوںنے کیاہے، اس کے باوجود حق ادانہ ہوا، ڈاکٹرامتیاز احمد ڈائریکٹر خدابخش خاں اورنٹیئل پبلک لائبریری پٹنہ نے بجالکھا ہے:
’’ہندوستا ن کوانگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے اورمذہب اسلام کوبدعات سے پاک وصاف کرنے میںالٰہی بخش ، احمد اللہ،یحییٰ علی، فیاض علی، اکبرعلی، ولایت علی ،عنایت علی وغیرہ…وغیرہ بزرگان صادق پور… نے جس جیالے پن کا ثبوت دیا ہے، حیرت ہے کہ کوئی تاریخ داں ،ان کی بے لوث خدمات کا صحیح اور مکمل طورپر ذکرتک نہیں کرتا‘‘۔ (سونیر مجاہدین صادق پور، بہار نمبر۳۳)
جیسا کہ ذکر ہوا، مولانا احمد اللہ صادق پوری ، اسی خاندان کے گل سرسبد تھے اوران کی حیات وخدمات اورجنگ آزادی میں ان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ان حضرات کے ساتھ برتی گئی بے اعتنائی کا احساس شدید ہوتاہے، تاریخ کی کڑیاں ملانے کے دشوار گزارعمل کے بعد بھی خیال آتاہے کہ کہیںکوئی کڑی گم ہے اورحلقۂ سلاسل کوجوڑنے کا عمل مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ مولانااحمد اللہ کی حیات مستعار اور جنگ آزادی میں خدمات مستزاد کا؛ مختصر مگر مکمل تذکرہ ہوجائے۔
مولانا احمد اللہ بن الٰہی بخش بن ہدایت علی جعفری کی ولادت ۱۲۲۳ھ؁ مطابق ۱۸۰۸ئ؁ میں ہوئی ، ابتدا میں نام احمد بخش تھا؛ لیکن سیداحمد شہیدؒ نے ان کا نام بدل کر احمد اللہ رکھ دیا،اور یہی نام متعارف ہوا، ابتدائی کتابیں مولانا ولایت علی سے پڑھیں، اور حدیث کی سند بھی انھیں سے حاصل کی، درمیا ن کے چند مہ وسال مولانا منور علی آروی کی شاگردی میںبھی گزرے، فراغت کے بعد درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا، توفیض عام ہوا، اورنامور شاگردوںکے ذریعہ دیر تک اور دورتک پھیلا۔ آپ کی ذکاوت، ذہانت، ہمت ،دلیری، حمیت، قومی ہمدردی، اور حب الوطنی مشہور تھی۔ مولانا عبدالحئی حسنی نے الاعلام بمن فی تاریخ الہند میں لکھا ہے:
’’وکان رجلاً کریماً، عفیفاً دیناًکبیرالمنزلۃ عند الولاۃ،جلیل القدر، یعیش فی اطیب بال وراغدحال‘‘(ج۵ص۵۵)
حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے لکھا ہے:
’’مولانا احمداللہ اور مولانایحییٰ علی سید صاحب کی جماعت کے رکن رکین اور پوری دعوت وتحریک کا مرکز تھے‘‘۔(سیرت سید احمد شہیدج۱ص۳۰۹حاشیہ)
تذکرۂ صادقہ میںآپ کی عقل ودانش کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے:
’’آپ کی عقل ودانش کااس قدرشہرہ تھاکہ گورنمنٹ انگریزی بھی آپ سے اکثر رفاہ عام کے کاموں میں مشورہ لیا کرتی تھی،آپ برابر کمیٹی کے رکن ممبر ہوا کرتے تھے،آپ حکام رس تھے،اورجلسۂ وائسرائے بہادر میں درجۂ اول میں شمار ہوتے تھے اکثر وہ مقدمات جورعایا اور گورنمنٹ کے درمیان آراضی کے متعلق ہوتے؛ مثلاً کوئی زمین حکومت کو خریدنی ہوتی تو اس کی قیمت کا فیصلہ آپ کے ہی سپرد ہوتاتھا اور آپ اس خوبی سے فیصلہ فرماتے کہ حاکم و محکوم دونوں راضی ہوجاتے‘‘۔(ص۱۴۶)
جب انگریزوں نے انکم ٹیکس لگایا اوراس کی وصولی کا انتظام حکومت کی طرف سے کیاجانے لگا تو جو چار افراد اس کام کے لیے منتخب کیے گئے، ان میں آپ سرفہرست تھے ۔آپ کی تقریر اور تحریر ایسی مدلل ،منطقی اور باوزن ہوتی کہ اس سے انکار کرنا مشکل ہوتا، ججوں کے درمیان اختلاف رائے کی صورت میں مقدمہ آپ کی رائے پر فیصل ہوتا، مولانا کے اس اثر ورسوخ کی وجہ سے کسی کوان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیںہوتی تھی۔ ۱۸۵۷ئ؁ کی جنگِ آزادی کے بعد مسٹر ٹیلر کمشنر پٹنہ نے جب آپ کو گرفتار کیا اور تین مہینے نظربندرکھا، بات اوپر تک پہنچی تو نہ صرف فوری آ پ کی رہائی کا حکم ہوا؛ بلکہ مسٹر ٹیلر کمشنر پٹنہ کو اس کے عہدے سے برخاست کردیاگیا۔
اس پہنچ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ انگریزوں سے ملے ہوئے تھے ؛بلکہ یہ کام کی حکمت عملی تھی، جس کا پتہ انگریزوں کو بہت بعدمیں چل سکا ۔ ڈاکٹر ہنٹر کو اس خاندان سے یہی شکایت تھی،ایک جگہ مولانا احمداللہ کے چھوٹے بھائی مولانایحییٰ علی(م فروری ۱۸۶۸ئ؁) کے بارے میںلکھتاہے:
’’یحییٰ علی اعلیٰ خاندا ن سے تعلق رکھتاتھا، پٹنہ میں انگریزی حاکموں کے ساتھ اس کے تعلقات بہت اچھے تھے، اس کے خاندان میں سے ایک ہماری حکومت میں اعزازی عہدے پر مامور تھااوردوسرا ہماری سرحد پر مجاہدین کی جماعت کی رہنمائی کررہا تھا، جوہماری فوجوں پر چھاپے ماررہی تھی‘‘۔ (ہما رے ہندوستانی مسلمان ،ص۴۸)
ہنٹر نے نے حکومت میں اعزازی عہدے پرمامور ہونے کی جوبات کہی ہے ، اس کا تعلق مولانا احمد اللہ ہی سے ہے، جس کی تصدیق ’’درمنثور ‘‘کی اس عبارت سے ہوتی ہے:
’’اپنی ریاست کے نظم ونسق سرکاری سطح پر اہل شہر کی خدمت اور رفاہ عام کے مشاغل کے ساتھ درس کا سلسلہ بھی جاری رکھا‘‘۔(ص۵۷)
۱۸۵۷ئ؁ کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جوحالات پیداہوئے، اس میں اس حکمت عملی کو دیر تک اور دور تک جاری رکھنا ممکن نہ ہوسکا، چنانچہ جلدہی مولانا احمد اللہ اس حکمت عملی کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے اور وہ جو کہا گیا ہے کہ سر مونڈاتے ہی اولے پڑے، مسٹر ٹیلر نے مولانا کو گرفتار کرلیا، جس کا ذکر پہلے آچکاہے ،تین مہینہ کی قید کے بعد رہائی ملی، مولانا پھراپنی پرانی روش پر چل پڑے ۔
مولانا کے چھوٹے بھائی مولانا یحییٰ علی؛ جو پٹنہ تحریک آزادی کے روحِ رواں تھے، اور سید صاحب کی شہادت کے بعد بھی پوری جرأت ،دلیری، مستعدی، اوربلند حوصلگی کے ساتھ اس مرکز کے نظم ونسق کوسنبھالے ہوئے تھے ،واقعہ یہ ہے کہ انھوںنے مولانا احمد اللہ اور اپنے رفقاء کے ساتھ ۱۸۵۷ئ؁ کے بعد حریت کی چنگاری کونہ صرف بجھنے سے بچانے کا کام کیاتھا؛ بلکہ جہد مسلسل سے اسے شعلہ جوالا اور آتش فشاں بنادیا تھا ، جس کے پگھلے لاوے اور مادے ایک طرف برطانوی لشکر کو نقصان پہنچا رہے تھے، دوسری طرف ان کے سارے خواب اس کے نتیجے میں جل کرخاکستر ہوئے جارہے تھے ، ظاہر ہے اس کے نتیجے میں ہونایہی تھا کہ اس تحریک کے قائد کو پابند سلاسل اورداخل زنداں کردیاجائے، چنانچہ ۱۸۶۴ئ؁ میں وہ گھڑی آگئی جب مولانا یحییٰ علی ایک بڑی جماعت کے ساتھ قید کرلیے گئے، ایسے میں اس مرکز آزادی کو جاری رکھنے اوراس کی خدمات کو تسلسل عطا کرنے کے لیے مولانا احمداللہ کو کھل کر میدان میں آنا پڑا ۔ انھوںنے جومثالی جدوجہد کی اس کے نتیجہ میں پٹنہ کے دارالاشاعت چھوٹا مال گودام سے سرحد تک جسے فوجی خفیہ زبان میںبڑا مال گودام کہتے تھے، مجاہدین کا تانتا لگ گیا،پنجاب کے وسیع و عریض علاقہ میں دوہزار میل (کلومیٹرنہیں) کی مسافت ان خطرات کے ساتھ طے کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، جگہ جگہ انگریزوں نے جاسوسوں کا جال پھیلا رکھا تھا،اس سے قطع نظر وہ اپنے قد وقامت اور زبان کی وجہ سے بھی خطرہ میں پڑتے تھے؛ لیکن اس خطرناک کام کے لیے جومنصوبہ بندی کی گئی اورجس ہوش مندی سے کام لیاگیا، اس کا ایک نقشہ مسٹر ہنٹر نے یوں کھینچا ہے۔لکھتاہے:
’’تمام راستے پر جماعت خانوںکاسلسلہ قائم کردیاگیا،اوران کاانتظام معتبر مریدو ں کے حوالہ کیاگیا،پتلی سڑک کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا، اس طرح سرحدی کیمپ کو جانے والا ہرباغی مختلف صوبوں میں بے خطر چلا جاتا تھا، اس کو یقین تھا کہ ہرپڑائو پر اس کوایسے دوست مل جائیں گے؛ جواس کے لیے چشم براہ ہیں ، جماعت خانے جو راستے میں پڑتے ،ان کے منتظم مختلف طبقات کے لوگ تھے،مگر تمام کے تمام انگریزی حکومت کا تختہ الٹنے میں ہمہ تن مصروف‘‘۔(ہمارے ہندوستانی مسلمان،ص۱۳۵)
مرکزی کمان سنبھالے ابھی مولانا احمد اللہ کو کچھ ہی ماہ ہوئے تھے کہ ان کے خلاف انگریزوںنے شکنجہ کسنا شرع کیا، گرفتاری کے منصوبے بننے لگے؛ لیکن بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ثبوت کیسے فراہم ہو، کچھ گواہ مل جائیں تو اس میں بھی کامیابی نہیں مل رہی تھی۔بقول ہنٹر:
’’کیونکہ ان میں سے کسی ایک نے بھی گرفتارہونے کے خوف سے یاکسی بڑے لالچ سے اپنے تباہ شدہ امام کے خلاف گواہی دینے پرآمادگی ظاہر نہیںکی‘‘۔(ہمارے ہندوستانی مسلمان، ص۱۳۶)
کوششیں جاری رہیں، اوربالآخر انگریزوںنے جھوٹی گواہی کے لیے میرمجیب الدین تحصیل دارساکن نارنول کوکھڑاکیا اور اسے یقین دلایاکہ اگر تم نے ان قیدیوں میں سے کچھ کو بہلا پھسلاکر مولانا احمد اللہ کے خلاف گواہ بنادیا، تو رہائی کے ساتھ تحصیل دار ی بھی تمہیں لوٹا دی جائے گی،اس لالچ میں اس نے قیدیوں کو بہلاناپھسلانا شروع کیا، لیکن قیدیوںکی سوچ یہ تھی کہ ہماری دنیاتو تباہ ہوہی چکی ہے، جھوٹی گواہی دے کر اپنی آخرت کو کیوںتباہ کریں۔ اس سوچ کو حوصلہ مولانا یحییٰ علی اور مولانا محمدجعفر تھانیسری کی وجہ سے ملتا تھا، انگریزوں کو جب یقین ہوگیاکہ ان دونوں کے رہتے اس مہم میں کامیابی نہیں مل سکتی تو ان دونوں حضرات کو سینٹرل جیل لاہور روانہ کردیا گیا، اب میدان صاف تھا، چنانچہ محمد شفیع وعبدالکریم وغیرہ سرکاری گواہ بن گئے اوران کی گواہی کی بنیادپر ماہ مئی ۱۸۶۵ئ؁ میں مولانا احمد اللہ کو حبس دوام بعبور دریائے شور مع ضبطی جائدادکی سزاسنائی گئی اس طرح۵؍جون ۱۸۶۵ئ؁ کو انڈمان میں جلا وطن اور قید کیے جانے والے آپ پہلے تاریخی شخص ہوگئے۔
انڈمان کی فضا انسانی زندگی کے لیے سازگار نہیں تھی، ۱۷۸۹ئ؁ میں اسے آباد کرنے کی کوشش کی گئی؛ لیکن ۱۷۹۶ئ؁ میں اس منصوبے کو ترک کردینا پڑا، انگریزوں نے اس جزیرہ کاانتخاب اس لیے کیاتھا تاکہ مجاہدین یہاں گھٹ گھٹ کر مرجائیں؛ بلکہ موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں،صاحب اعلام نے اس مصائب آلام کے لیے جوتعبیراختیا ر کی ہے اس سے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، لکھتے ہیں: فالقوا علیہ من المصائب ما تقشعر منہا الجلودوا تقدر القلوب (الاعلام ،ج ۷،ص۵۵)
مولانااحمداللہ جب انڈمان پہنچے تو انھیں ایک کچہری میں محرری کاکام سونپاگیا، آپ نے پانچ سال تک یہاں کام کیا؛ لیکن حب الوطنی کے نتیجے میں جوشدائد آنے تھے اورجن آزمائشوں سے گزرنا تھا، اس کی تکمیل ابھی نہیںہوئی تھی، چنانچہ لارڈ میووائسرائے ہند کے ایک مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوجانے کے بعدانگریزوں کا غصہ مسلمان قیدیوں پراترا اوراکثر مسلمان دور دراز کے خطرناک جزیروں میںبھیج دیے گئے ۔مولانا احمد اللہ کوبھی وائر آئی لینڈ بھیج دیا گیا اور اسپتال کے ایک شعبہ میں خدمت کا کام سونپا گیا، یہاں سترہ سال آپ نے مصائب وآلام کے ساتھ گزارے، جہاںوہ بقول غالبؔ   ؎
پرئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو پرسانِ حال
اور مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
کا منظرسامنے تھا،مولانا عبدالرحیم نے ان کی علالت کے پیش نظر بار بار درخواست کی کہ انھیںا برڈین منتقل کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کی تیمارداری کی جاسکے، بڑی جدوجہد کے بعد ۲۰؍نومبر۱۸۸۱ئ؁ کومولانا عبدالرحیم کووائٹر جانے کی اجازت دی گئی؛ لیکن ان کے وہاں پہنچنے سے قبل ہی ۲۱؍نومبر۱۸۸۱ئ؁ مطابق ۲۸؍محرم ۱۲۹۸ھ؁ شب دوشنبہ کوبوقت ایک بجے مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔مولانا عبدالرحیم نے تدفین کے لیے ابرڈین لے جانے کی اجازت مانگی تاکہ انھیں ان کے حقیقی بھائی یحییٰ علی کے قریب ابر ڈین میںدفن کیاجائے، یہ درخواست بھی رد کردی گئی،چنانچہ ڈنڈاس پیٹ میں جو وائپر (ویپر) سے تھوڑی دوری پر ہے، تدفین عمل میںآئی اور اس طرح اسلام کا یہ جاں باز سپاہی دیارِ غیر میں قیامت تک کے لیے آسودۂ خاک ہے، اور وطن کی دوگززمین بھی اسے میسر نہ آسکی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...