Powered By Blogger

پیر, مارچ 14, 2022

پے ٹی ایم کے بانی وجۓ شرما کی گرفتاری اور رہائی

پے ٹی ایم کے بانی وجۓ شرما کی گرفتاری اور رہائینئی دہلی: دہلی پولیس کے ایک افسر کی گاڑی کو ٹکر مارنے کے الزام میں گرفتار کئے گئے پے ٹی ایم کے بانی وجئے شیکھر شرما ضمانت پر رہا ہوگئے ہیں ۔دہلی پولیس نے اتوار کے روز بتایا کہ 22 فروری کو مالویہ نگر پولیس تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق مسٹر شرما نے اپنی کار سے دہلی پولیس کے ایک افسر کی کار کو پیچھے سے ٹکر مار دی تھی ۔ اس واقعہ کے بعد میں مسٹر شرما موقع سے فرار ہو گئے تھے ۔ بعد میں انہیں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا ۔مبینہ طور پر یہ حادثہ اروبندو مارگ پر واقع مدر انٹرنیشنل اسکول کے باہر پیش آیا۔ اس وقت جنوبی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) کے دفتر میں تعینات کانسٹیبل دیپک کمار پولیس افسران کی گاڑی چلا رہے تھے ۔ پولیس نے مسٹر کمار کی شکایت کی بنیاد پر مسٹر شرما کے خلاف لاپرواہی سے گاڑی چلانے کا معاملہ درج کیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ دوران جانچ پولیس افسر کی گاڑی کو ٹکرمانے والی کار کی شناخت کی گئی اور اس کے ڈرائیور مسٹر شرما کی شناخت کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ بعد میں اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا ۔

سڑک حادثہ میں موت پر مشتعل لوگوں نے کیا آمد ورفت ٹھپ

سڑک حادثہ میں موت پر مشتعل لوگوں نے کیا آمد ورفت ٹھپ

بیگوسرائے میں مسلسل سڑک حادثات کے باوجود گاڑیوں کی رفتار پر قابو نہیں پایا جا رہا ہے اور لوگوں کی بے وقت موت ہورہی ہے۔ پیر کے روز بھی صبح صبح بیگوسرائے۔ گڑھ پورہ ۔ حسن پور مین سڑک پر حادثے میں بچے کی موت ہوگئی ۔ واقعہ گڑھ پورہ تھانہ علاقہ کے سکڑا گاؤں کے قریب ہے۔ متوفی کی شناخت مقامی باشندہ رام وجے یادو کے بیٹے وکی کمار کے طور پر کیا گیا ہے ۔ حادثے موت سے ناراض لوگوں نے سکڑا گاؤں اور ہرسائن پل کے قریب سڑک جام کرآمدورفت ٹھپ کر دیا۔ اطلاع ملتے ہی پہنچے گڑھ پورہ تھانہ انچارج اور انتظامیہ نے لوگوں کو سمجھا بجھا کر کافی کوشش کے بعد سڑک جام ختم کرایا اور گاڑی ڈرائیور کو گرفتار کرکے کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔

واقعے کے سلسلے میں بتایا جا رہا ہے کہ وکی سڑک پار کر رہا تھا کہ اس دوران تیز رفتار سے آ رہی نامعلوم اسکارپیو گاڑی نے اسے روند دیا ، جس سے موقع پر ہی اس کی موت ہوگئی ۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی بڑی تعداد میں لوگ پہنچ گئے اور گڑھ پورہ بیگوسرائے سڑک کو دو مقامات پر جام کر کے آمدورت ٹھپ کر دئے ۔ سڑک جام کرنے والے مشتعل لوگوں کا کہنا تھا کہ ایک بڑی بس کمپنی کے مالک کی اسکارپیو روزانہ انتہائی بے قابو رفتار سے گزرتی ہے۔ دونوں طرف گھنی آبادی کی وجہ سے کئی بار لوگوں نے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی۔ لیکن رفتار پر قابو نہ پایا جاسکا جس کی وجہ سے آج حادثہ پیش آیا۔

درگاہ پر چڑھایا گیا بھگوا رنگ،مقدمہ درج

درگاہ  پر چڑھایا گیا بھگوا رنگ،مقدمہ درج

ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال سےمتصل نرمداپورم(ہوشنگ آباد) کی ایک درگاہ کو شر پسندوں نے توڑ پھوڑ کے بعد اس کو بھگوا رنگ سے رنگ دیا دیا۔

شرپسندوں نے ایک بار پھر ریاست میں فرقہ وارانہ اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہاں سمیری ہرچند روڈ پر واقع درگاہ کو شرپسندوں نے رات کے اندھیرے میں نہ صرف درگاہ میں توڑا بلکہ بھگوا رنگ سے رنگ دیا۔ جس کی وجہ سے علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پولیس نے مقامی مسلمانوں کی شکایت پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ کشیدگی کے پیش نظر پولیس نے موقع پر پہنچ کر جائے وقوعہ کا جائزہ لیا اور تفتیش شروع کردی۔

خیال رہے کہ حضرت مخدوم کی درگاہ نرمداپورم کے سمیری ہرچند روڈ پر درگاہ بڑا پیر کے قریب واقع ہے۔ یہاں تمام مذاہب کے لوگ آتے ہیں اور اپنی عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ہرروز شام کو مجاور درگاہ میں چراغاں کرتے ہیں۔ صبح جب عقیت مند درگاہ پر حاضری کے لیے پہنچے تو دیکھا کہ اسے بھگوا رنگ سے رنگا ہوا دیکھا۔

درگاہ کے مجاور محمد خالد کا کہنا ہے کہ درگاہ کو بھگوا رنگ سے رنگنے والے شرپسندوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہم نے پولیس انتظامیہ سے معاملے کی تحقیقات کرنے اور شرپسندوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے میں سخت کارروائی کی جائے۔

پولیس اسٹیشن انچارج ہیمنت سری واستو نے بتایا کہ سمیری ہرچند روڈ پر واقع درگاہ میں توڑ پھوڑ کےساتھ اندراورباہربھگوا رنگ پایا گیا۔ نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی۔

بچوں کو اردو ضرور پڑھائیں:ڈاکٹر اطہر فاروقی

بچوں کو اردو ضرور پڑھائیں:ڈاکٹر اطہر فاروقی

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب سمینار اختتام پذیر نئی دہلی،12مارچ:غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب سمینار اختتام کو پہنچا۔ "معاصر اردو ادب میں نئے تخلیقی روپے" کے عنوان سے منعقدہ غالب سمینار کے آخری روز کے پہلے سیشن کی صدارت ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کی۔

پروفیسر شافع قدوائی نے"تعزیری نظام کے خلاف مزاحمت کا استعارہ: اللہ میاں کا کارخانہ"،لندن سے تشریف لائے جاوید کاکرو نے"Contemporary Relevance Challenges And Prospects For Promotion Urdu Language"ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی نے"اردو افسانے کے رجحانات" کے عنوان پر اپنے مقالات پیش کیے۔

اختتام پر صدر اجلاس ڈاکٹر اطہر فاروقی نے اردو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 75برسوں سے اردو کی فکر کی جا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں بھی کی جاتی رہے گی۔ اردو کی بہتری اسی بات میں ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں، اگر ایسا نہیں کرتے ہیں تو لاکھ تقریریں کر لی جائیں کوئی فرق نہیں پڑتاہے۔

آپ تقریریں کریں اور دوسروں کے بچے اردو پڑھیں یہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شہزاد انجم نے کی۔ جب کہ پروفیسر خالد اشرف نے"اردو زبان کا بدلتا ہوا منظر نامہ اور چند اہم ناول"،پروفیسر ابن کنول نے"اردو افسانہ عہد حاضر میں"پروفیسر ثروت خان نے"ماضی کی بازیافت:اردو کے چند نئے ناولوں کے آئینے میں" کے عنوان پر اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے اپنے صدارتی خطبے میں فرداً فرداً سبھی مقالات پر سیر حاصل گفتگو کی، انھوں نے کہا کہ 21ویں صدی ناول کا عہد ہے، اس زمانے میں کئی اہم ناول لکھے گئے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہماری تہذیب و ثقافت کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان تمام باتوں کو بھی معاصر ادب میں شامل کیا جانا چاہئے۔تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کی جب کہ پروفیسر غضنفرنے"اردو ناول کی تجدید اور پیغام آفاقی"پروفیسر صغیر افراہیم نے"اردو ناولون میں تہذیبی بازیافت"،اور ڈاکٹر نفیس عبدالحکیم نے"اردو افسانہ اور نئی حقیقت نگاری"کے عنوان پر مقالات پیش کیے۔

سمینار کے آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے کی اورپروفیسر علی احمد فاطمی کا مقالہ ڈاکٹر نفیس عبدالحکیم نے پیش کیا۔ ڈاکٹر عرفان عارف نے"اردو افسانے کے نئے تخلیقی روپے اور رجحانات"، ڈاکٹر الطاف انجم نے"فائرنگ رینج کا بیانیاتی جائزہ" کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے کہا کہ سمینار کا موضوع متاثر کن اور بحث انگیز ہے، مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے اس موضوع کو مرکز میں لاکر اس سمینار کا انعقاد کیا۔

سبھی پیپر اہمیت کے حامل تھے۔ اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی، اس موقع پر انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اپنے سمیناروں کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کرے جو محض روایتی نہ ہوں بلکہ اس کے ذریعے نئے مباحث پر خاطر خواہ روشنی ڈالی جاسکے۔ یہ موضوع بھی اسی نوعیت کا تھا، مجھے خوشی ہے کہ تمام شرکاء نے بڑی محنت سے مقالے لکھے۔

پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اہم سوال ہے کہ معاصر کی تاریخ کا تعین کیسے ہو، کس قسم کے ادب کو معاصر کہا جا سکتا ہے۔ کیا وہ ادب معاصر کہلائے گا جو عصری،سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل کی نمائندگی کر رہا ہے یا وہ جس کی پہچان ادبی پیمانون سے کی جاسکتی ہے۔

ایسے ہی بہت سے سوال اس سیمنار میں ابھرے ہیں اور ان کا سب نے اپنے اپنے طور پر جواب تلاشنے کی کوشش کی۔ مجھے امید ہے کہ جب ہم سبھی مقالوں کو یکجا دیکھیں گے تو کسی نتیجے پر پہچنے میں آسانی ہوگی۔پروفیسر انیس اشفاق نے کہا کہ میں عرصے سے اس سمینار میں شریک ہوتا رہا ہوں اور مجھے یہاں ہونے والے سمینار متاثر کرتے ہیں۔ ایوان غالب کا سمینار تخلیقی بصریتوں کا خیال افروز محاکمہ ہے، یہاں خیالات کی یکسانیت کے بجائے خیالات کے تصادم کی صورتیں بھی ہوتی ہیں۔ جس سے ہم ایسے نتیجے پر پہنچتے ہیں جو پہلے سے ہمارے ذہن میں نہیں ہوتا۔

پروگرام کے اختتام پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج مجھے بڑی خوشی ہورہی ہے کہ اس سمینار کے بنیادی موضوع 'معاصر ارو ادب کے تخلیقی رویے' پریہا ں جو مقالات پیش کیے گئے، ان سے ہمارے عہد کے ادبی میلانات اور صورت حال کاایک عمدہ خاکہ مرتب ہوتاہے۔ سمینار میں جو مقالات پیش کیے گئے ان میں اکثر کو سنتے ہوئے یہ محسوس ہواکہ یہ موضوع ایک سمینار میں سامنے والا نہیں ہے۔ زیادہ تر مقالہ نگارنے بڑی محنت اور ذمہ داری سے مقالے لکھے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ سمینار ایک فضاکی تشکیل کرتاہے وہ مباحب یاوہ گوشے جن کی طرف ہماری توجہ کسی وجہ سے نہیں ہوپاتی انہیں مرکز میں لے آتاہے۔ ہمارے یہاں کلاسیکی ادب پر بہت گفتگو ہوئی، جدید ادب پر بھی خاصا لکھا گیالیکن جدید ادب جس سے میری مراد معاصر ادب ہے ایک دھند کی سی کیفیت بھی محسوس ہوتی ہے۔ یعنی وہ کون سے میلان ہیں جو پیش رو میلانات سے مختلف ہیں جن کی بنیاد پر ہمارا معاصر ادب اپنا وجود ثابت کررہاہے اور ہماری فہم کی بھی آزمائش کررہاہے۔ لیکن سمینارکی ایک خامی یہ بھی ہے کہ یہ بہت دنوں تک ہمارے ذہنو ں میں تازہ نہیں رہتا۔ یہ فریضہ کتاب ادا کرتی ہے اور جیسا کہ ہمارا روایت رہی ہے ہم بہت جلد ان مقالات کو کتابی شکل میں بھی شائع کریں گے۔

مجھے پورا یقین ہے کہ جب یہ کتاب منظرعام پر آئے گی تو اس موضوع پر اس کی حیثیت حوالے کی ہوگی۔ میں اعتراف کرتاہوں کہ اس کی علمی حیثیت آپ کی کاوشوں اور ذکاوتوں کے نتیجے میں ہوگی۔ لہٰذا آپ دوتین مہینے میں اپنے مقالے اور متعلقہ موضوع سے متعلق جتنا اضافہ کرنا چاہیں وہ اس کتاب کے حق میں مفید ہوگا۔

میں فرداً فرداً سب کا نام لوں تو ممکن ہے کہ کسی کا نام چھوٹ جائے میں تمام مقالہ نگار، صدور اور شرکاکادل کی گہرائیوں سے سے شکریہ ادا کرتاہوں اور آئندہ بھی آپ کے تعاون کی امید رکھتا ہوں۔ ایک ضروری بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ تمام شرکا کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، اس کے باوجود اگر ہماری طرف سے کچھ کمی رہ گئی ہوتو اسے در گزر فرمائیں۔ہاں ذاتی طور پرہمیں مطلع فرمائیں تاکہ ہم اس کا آئندہ خیال رکھیں۔اس موقع پر یونیورسٹیز کے ریسرچ اسکالرز کوسرٹیفکیٹ اور کتابوں کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔ شام میں اردو ڈرامہ"مشاعرہئ رفتگاں" پیش کیا گیا، تحریر و ہدایت کار ڈاکٹر محمد سعید عالم کی نگرانی۔جب کہ پیش کش تھی 'ہم سب ڈرامہ گروپ(غالب انسٹی

وہ آنکھیں پھیرلیں میں کیسے پھیروں

*وہ آنکھیں پھیرلیں میں کیسے پھیروں
یہ مہینہ شعبان المعظم کا ہے۔دوچار دن بعد ہی شب برأت کی وہ قیمتی رات آنے والی ہےجسکی فضیلت صحاح ستہ سے ثابت ہے۔اس موقع سے منبر ومحراب اور اجلاس کے اسٹیج سے اس مغفرت والی رات پر خوب خوب بات کی جاتی ہے۔بالخصوص اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وہ روایت جسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کی ہے کہ:رب العزت نصف شعبان کی شب کو آسمان دنیا میں نزول فرماتے ہیں، بنوکلب کی بکریوں کے بال برابر لوگوں کی بخشش اور مغفرت کا سامان کرتے ہیں،یہ روایت اس عنوان پر پیش کی جاتی ہے۔ساتھ ہی ابن ماجہ کی روایت جو حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مشرک اور کینہ پرور شخص کی مغفرت نہیں ہوتی ہے، لگے ہاتھ اسے بھی بیان کر دیتے ہیں۔
یہ تقریر سنکر ایک صاحب ایمان نے اپنی بات رکھی ہے ۔موصوف کہتے ہیں کہ: میرے سگے بھائی ہیں،سالوں سے گفت وشنید نہیں ہے۔میں نے یہ سن رکھا ہے کہ صاحب ایمان کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ اپنے ایمان والے بھائی سے تین دن سے زائد گفت وشنید چھوڑ دے۔پھر ایسے کینہ پرور اور قطع رحمی کرنے والے کی بخشش نہیں ہوتی ہے۔
یہ تو میرے ایمانی بھائی ہی نہیں بلکہ سگے بھی ہیں، میں تعلق بحال کرنا چاہتا ہوں، جب بھی وہ نظر آتے ہیں، سلام کرتا ہوں ،مگر وہ اپنا چہرہ پھیر لیتے ہیں،سلام کا جواب تک نہیں دیتے ہیں،ایسا کئی سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔بقول عاجز؛
وہ آنکھیں پھیرلیں میں کیسے پھیروں 
محبت ہے ادا کاری نہیں ہے۔

یہ واقعی بہت ہی اذیت ناک اور ایک صاحب کے لیے کربناک بھی ہے۔یہ واقعہ شاذ نہیں ہے بلکہ ہم سبھی ملک کے جس خطہ میں آباد ہیں، اسے سیمانچل کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، ڈھیروں واقعات اس نوعیت کے دیکھنے میں آتے ہیں۔افسوس تو اس بات پر ہے کہ حدیث شریف میں ہے منھ پھیرنے کی بات بھی لکھی ہوئی ہےاور اس کا حل بھی پیش کیا گیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ؛
 کسی مسلمان کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ تین دن سے زائد ترک کلام کرے، جب دونوں ملے تو وہ ادھر چہرہ پھیر لے اور یہ ادھر،ان دونوں میں بہتر وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے (مسلم)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سلام سے قبل منھ پھیرنے کا موقع ہوسکتاہے، مگر سلام کے بعد اس عمل کاکوئی محل نہیں ہے۔ مذکورہ واقعہ میں یہ آخری درجہ کی ایمان والے سگے بھائی سے نفرت اور دوری معلوم ہوتی ہے، اس کے لیے مذہب اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔اس مغفرت والے مہینہ میں بالخصوص شب برأت کی فضلیت حاصل کرنے کے لیے اس عنوان پر زمینی کوشش کی آج ضرورت ہے۔
سلام کرنے والے کو بظاہر یہاں یہ خوف ہورہا ہے کہ میری گفتگو بند ہے، اس کا گناہ گار میں بھی ہوں گا،شرعی اعتبار سے یہ خیال درست نہیں ہے۔وہ اس لیے بھی کہ انہوں نے شرعی طریقہ پر رہنمائی کی گئی باتوں پر عمل کرلیا ہے۔اب یہ تارک کلام کا گناہ گار نہیں ہے۔البتہ ہاں! منھ پھیر کر اس کے بھائی نے پھر غیر شرعی عمل کا ارتکاب کرلیا ہے بلکہ صاف زبان میں یہ کہا جائے کہ اس کی شامت آگئی ہے۔اعاذنا الله من ذالك. 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

اتوار, مارچ 13, 2022

ملک کا موجودہ منظر نامہ اور ہماری ذمہ داریاں __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ملک کا موجودہ منظر نامہ اور ہماری ذمہ داریاں __
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (،9431003131)
ہمارا ملک اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گذر رہا ہے، دن بدن حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں، گائے کے تحفظ کے نام پر لوگوں کو مارا جا رہا ہے، گائے کے علاوہ دوسرے جانوروں کے گوشت کھانے پر بھی آپ کی جان جا سکتی ہے، جب تک جانچ رپورٹ آئے گی ، اس نام پر آپ کا قتل ہو چکا ہوگا۔ داڑھی ٹوپی، حجاب اور شعائر اسلام کو اپنا نے والوں کو راستہ چلتے طنز کے ساتھ بھدی بھدی گالیاںسننی پڑتی ہیں، راستہ گذرتے ہوئے آپ کو چِڑھا نے کے لیے ’’بھارت ماتا کی جَے‘‘ کی آواز زور سے لگائی جاتی ہے، خواتین کی عزت وناموس سر عام لوٹی جا رہی ہے، کسانوں کی حالت درد ناک ہے، وہ خود کشی پر مجبور ہو رہے ہیں، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ نے چھوٹے کاروباریوں پر زندگی تنگ کر دی ہے اور کاروبار مندی کے دور سے گذر رہا ہے، کچے چمڑے لاتے لے جاتے لوگ ڈر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ٹینریاں بند ہو رہی ہیں، لاکھوں روپے کے چمڑے بُلو کر کے گوداموں میں پڑے ہوئے ہیں، ان کا خریدار کوئی نہیں ہے، ٹکسٹائل ورکروں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔دلت ہندوؤں کی حالت انتہائی خستہ ہے اور وہ تحریک کی راہ پر چل پڑے ہیں، کشمیر سلگ رہا ہے، دارجلنگ میں گورکھا لینڈ والے سر اٹھا رہے ہیںاور تیزی سے علاحدگی کی راہ پڑ بڑھ رہے ہیں۔ ملک کی سرحدیں غیر محفوظ ہیں، ہمارے جوان مر رہے ہیں، نکسل وادیوں کے زور میں کمی نہیں آرہی ہے، بھوٹان سے متصل سرحد پر چینی افواج ہمیں آنکھیں دکھا رہی ہیں اور دھمکیاں دے رہی ہے، ٹرینوں کا سفر محفوظ نہیں ہے ، فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ غیر ضروری اور غیر حقیقی نعروں سے مسلمانوں کو پریشان ، ہراساں اور خوف زدہ کرنے میں لگے ہیں،وزیر اعظم نے بعض موضوعات پر اپنی زبان کھولی ہے، جس کا کوئی بھی اثر فرقہ پرستوں پر نہیں ہوا کیوں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ وزیر اعظیم کا کام ’’نندا‘‘ کرنا نہیں، قانون کے نفاذ کو یقینی بنانا ہے، اسی لیے ایک لیڈر نے یہاں تک کہہ دیا کہ’’ تم مارتے رہے ہم نندا کرتے رہیں گے‘‘، مذہبی اسفار بھی محفوظ نہیں ہیں۔
ان حالات میں ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں، ملک سے محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم اس ملک کی سالمیت، قانون کے تحفظ اور اس کے نفاذ کے لیے ہر سطح پر کوشاں ہوں، ملک محفوظ اسی وقت رہے گا جب قانون کی بالا دستی ہو ، کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے ، تحفظ گائے کے نام پر جن لوگوں نے خون خرابہ مچا رکھا ہے ، ان سے سختی سے نمٹا جائے، یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے، عوام تو صرف ان کاموں میں مدد دے سکتی ہے، اور قانون توڑنے والوں کے خلاف ان اداروں کی مدد کر سکتی ہے جن کا کام لا اینڈ آرڈر کا تحفظ ہے۔
’’ہماری‘‘ کا مطلب صرف مسلمان نہیں، اس ملک کے سارے باشندے ہیں اور اس میں ذات برادری، علاقہ، زبان مسلک ومشرب کی قید نہیں ہے ، دوسری طرف ہر مذہب کے لوگ بھی جو اس ملک میں رہتے ہیں ، یہاں کے شہری ہیں، ان سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے آگے آئیں۔
 ہمارا ماننا ہے کہ اس ملک میں سیکولرزم اور جمہورت کی جڑ یں بہت مضبوط ہیں، بی جے پی کے دور حکومت میں اسے کمزور کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے، بحالیوں میں بھی آر ایس ایس سے وفاداری کو ملحوظ رکھا جا رہا ہے اور ہندوستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ ملک کے تین اعلیٰ عہدے پر صدر ،نائب صدر اور وزیر اعظم آر ایس ایس کے پر وردہ اور نمک خوار فائزہیں، اس کے با وجود یہاں کی اکثریت گنگا جمنی تہذیب کی عادی ہے، ایک بڑا گروپ وہ ہے جسے ہم سائلنٹ گروپ کہہ سکتے ہیں،ا س سائلنٹ گروپ کو جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے آگے لانے کی ضرورت ہے،دلتوں، آدی باسیوں اور اقلیتوں کا اتحاد بھی ان حالات کو بدلنے میں معاون ہو سکتا ہے، یہ ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے، اقتدار اعلیٰ چونکہ فرقہ پرستوں کے ہاتھ میں ہے، اس لیے یہ کام ذرا مشکل ہے، لیکن ہم اسے ناممکن نہیں کہہ سکتے ۔
 اس ملک میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہے ،ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ ہے کہ ان حالات کو بدلنے کے لئے وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں کیوں کہ مسلمان ہی وہ امت ہے جس کے پاس اعلیٰ اخلاقی اقدار اور Moral Valusکا بڑا ذخیرہ ہے، اسے خیر کے کاموں میں تعاون کا حکم دیاگیا ہے اور گناہوںکے کاموں سے بچنے کی بات کہی گئی ہے، یہ بھلائی کا حکم دیتی ہے اور بُرائی سے روکنے کا کام کرتی ہے، اسی لیے یہ خیر امت ہے، وقت آگیا ہے کہ حالات کو بدلنے کے لیے ہم اپنی جد وجہد کا آغاز کریں۔
 اس کے لیے سب سے پہلا کام انابت الی اللہ ہے، اللہ کی طرف رجوع کرنا ، اس کے سامنے گڑ گڑا کر حالات بدلنے کے لیے دعا کرنا ، اس لیے کہ اصل قوت وطاقت کا مرکز ومحور اللہ رب العزت کی ذات ہے وہ چاہے تو پل میں سب کچھ ٹھیک کردے؛کیوں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، لیکن ہماری بد اعمالی اور بے عملی نصرت خداوندی کے دروازے پر رکاوٹ بن گئی ہے، ہم اپنے اعمال کی اصلاح کریں، اللہ کا خوف ہمارے دل میں ہو اور ہماری تمام حرکات وسکنات احکام الٰہی اور ہدایت نبوی کے تابع ہو تو اللہ کی مدد آئے گی اور حالات کا رخ بدلے گا، لیکن اس کے لیے اپنا محاسبہ اور اپنے اعمال کا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ 
 دوسرا کام کرنے کا یہ ہے کہ غیر ضروری جوش سے گریز کیا جائے، فیصلے جوش کے بجائے ہوش اور اقدام جذباتیت کے بجائے عقلیت سے کیے جائیں، غیر ضروری جوش سے ملت کو نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے،ا س لیے ہر حال میں تحمل وبرداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور آخری حد تک کوشش کرنی چاہیے کہ ناگوار واقعات سامنے نہ آئیں، ٹالرنس کا ماحول بنانے سے یہ کام آسان ہوگا ۔
 تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ ٹالنے کی ساری کوشش ناکام ہوجائے تو اقدام کے طور پر نہیں اپنی دفاع اور جان ومال، عزت وآبرو کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے، یہ ہمارا دستوری اور قانونی حق ہے، اس سلسلے میں ’’وھن‘‘ یعنی دنیا کی محبت اور موت کے خوف سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ جد وجہد اتنی مضبوط ہو کہ فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں کو منہہ کی کھانی پڑے، وہ جان لیں کہ ہم گاجر ، مولی نہیں ہیں، ایک موقع سے حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ فسادات اسی شکل میں رک سکتے ہیں، جب مارنے والے کو یقین ہو کہ ہمیں بھی مارا جا سکتا ہے۔(لہو پکارے گا آستین کا)
ٹیپو سلطان شہید نے کہا تھا ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘، صبر اور بر داشت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی زندگی کی بقا کے لیے کوشش نہ کی جائے اور خوف ایسا مسلط ہوکہ ہم ہاتھ پاؤں تو کیا زبان بھی نہ ہلا سکیں، ملک کے سابق صدر اے پی جے عبد الکلام نے ایک بار کہا تھا کہ’’ طاقت وقوت کے ساتھ بر داشت، کام کی حکمت عملی اور بے سر وسامانی اور کمزوری کے ساتھ بر داشت کا مطلب مجبوری ہے‘‘۔
چوتھا کام یہ کرنا چاہیے کہ اسلام کی صحیح اور سچی تعلیمات لوگوں تک پہونچائی جائیں، غلط فہمیاں جو پھیلا ئی جا رہی ہیں اس کودور کرنے کے لیے عملی اقدام کیے جائیں، واقعہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہم مجرمانہ غفلت کے شکار ہیں، دعوت دین کے کام کو اس پیمانے پر ہم نے کیا ہی نہیں،جس قدر اس کی ضرورت تھی، دعوت کا یہ کام ہمیں زبان وقلم سے بھی کرنا چاہیے اور عمل سے بھی، اسلام کی خوبیاں کتابوں سے کم اور عمل سے زیادہ سمجھ میں آتی ہیں، تھیوری جاننا ضروری ہے، لیکن جب تک وہ پریکٹیکل کے مرحلہ سے نہیں گذرے گا اس کی افادیت سامنے نہیں آسکتی ۔
اس لیے ہم اپنے عمل سے اسلام کی حقانیت وصداقت واضح کریں، ہمیں شکوہ ہے کہ عوامی نمائندہ اداروں میں ہم تعداد میں بہت کم ہیں، اس لیے ہماری آواز نہیں سنی جاتی ، لیکن جہاں ہماری آواز کا سنا جانا یقینی ہے، اور جہاں جانے سے ہمیںکوئی روک نہیں سکتا ، وہاں ہماری نمائندگی کتنے فی صد ہے، ذہن نہیں منتقل ہوا ہو تو میں بتاتاچلوں کہ مساجد کی پنج وقتہ نمازوں میں ہماری تعداد کتنی ہے، یہ وہ در ہے جہاں سب بات سنی جاتی ہے، اور سب کی سنی جاتی ہے، لیکن اللہ کے دربار میں جانے اور اس سے اپنی مرادیں مانگنے ، اپنی تکالیف کو دور کرنے کے لیے درخواست کرنے سے ہم کس قدر گریزاں ہیں، یہی وہ در ہے جہاں آبرو نہیں جاتی اور جہاں مانگنا ذلت نہیں، عبادت ہے ، کاش مسلمان اس بات کو سمجھ لیتے۔
ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کے مقابلے ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں، ذات پات، مسلک ومشرب اور دوسرے فروعی مسائل میں الجھ کر ہم منتشر ہو گیے ہیں،ا س انتشار نے ہمیں انتہائی کمزور کر دیا ہے، اس خول سے باہر آکر کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کو فروغ دینا چاہیے، اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ، کفرو الحاد کے تیر چلانے سے گریز کرنا چاہیے، بعض فرقے واضح طور پر اسلام سے الگ ہیں، جیسے قادیانی، اس سے ہمارا اختلاف اساسی اور ختم نبوت کے اسلامی عقیدہ پر مبنی ہے، لیکن جن فرقوں سے اختلافات فروعی ہیں، ان سے چھیڑ چھاڑ اور ان کے خلاف آواز بلند کرنا جس سے فرقہ بندی کو فروغ ہو ، اسلام کے شایان شان نہیں، اللہ رب العزت نے جس اسلام کو اپنا دین قرار دیا ہے، وہ صرف اور صرف اسلام ہے ، اسکے آگے پیچھے کوئی مضاف، مضاف الیہ نہیں ہے۔

دیوبند میں مدرسہ کے تین طالب علم حراست میں

دیوبند میں مدرسہ کے تین طالب علم حراست میں

اترپردیش میں سہارنپور کے دیو بند میں پولیس کے انسداد دہشت گردی دستہ (اے ٹی ایس) نے مدرسہ کے تین مشتبہ طالب علموں کو حراست میں لیا ہے۔

اے ٹی ایس کے ذرائع کے مطابق ذیشان عرف نجمی کی ملکیت والے ہوسٹل پر سنیچر کی دوپہر سادی وردی میں اے ٹی ایس کی ایک ٹیم نے چھاپہ مارا۔ دیوبند کوتوالی کی خانقاہ چوکی کی پولیس بھی اس دوران موجود رہی۔ معلومات کے مطابق اے ٹی ایس نے جن تین طالب علموں کو اپنی حراست میں لیا ہے ان میں ایک طالب علم تلنگانہ، ایک بنگلہ دیشی اور برما کا بتایا جاتا ہے۔ اے ٹی ایس ٹیم تینوں سے پوچھ گچھ کررہی ہے۔

ہوسٹل مالک ذیشان نجمی نے بتایا کہ یہ تینوں طالب علم اس کے ہوسٹل میں کمرہ کرایہ پر لیکر رہ رہے تھے۔ ان کے پاس شناختی کارڈ وغیرہ ہیں۔ اسے نہیں معلوم یہ طالب علم کیا کرتے ہیں۔

حراست میں لئے گئے طلبا سے پوچھ گچھ کے بعد حقیقت کا پتہ چل سکے گا۔ بہرحال دیو بند میں ان کی گرفتاری سے سنسنی پھیلی ہوئی ہے۔ پولیس اور اے ٹی ایس کے حکام ابھی کچھ بھی نہیں کہہ پارہے ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...