Powered By Blogger

منگل, مارچ 15, 2022

آگرہ: کالج انتظامیہ نے ڈریس کوڈ میں لائ سختی

آگرہ: کالج انتظامیہ نے ڈریس کوڈ میں لائ سختی 

ریاست اترپردیش کے شہر آگرہ کے گورنمنٹ انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (آئی ٹی آئی) کے طلباء کے ایک گروپ نے برقعہ پوش طلباء کے خلاف احتجاج میں طلباء کی طرف سے پہنے ہوئے بھگوا اسکارف کو ہٹانے کی ہدایات پر کیمپس میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔

انسٹی ٹیوٹ نے ایک نوٹس جاری کیا ہے، جس میں تمام طلباء کو ہدایت کی گئی ہے کہ 'صرف مقررہ ڈریس کوڈ میں آئیں، بصورت دیگر ان کی حاضری نہیں مانی جائے گی۔

 انسٹی ٹیوٹ کے پرنسپل نواب سنگھ نے کہا کہ طالب علموں کے لباس کے بارے میں اصول مقرر ہیں اور ہر کسی کو ان پر عمل کرنا چاہیے۔ یہاں تقریباً 1500 طلباء ہیں جن میں 200 لڑکیاں بھی شامل ہیں،ان میں سے 20 مسلمان  لڑکیاں ہیں۔

ایک سینئر فیکلٹی ممبر، ہریش چندر نے کہا کہ پیر کے روز، کچھ طالب علم اپنے گلے میں 'گمچھا' (اسکارف) پہن کر کالج آئے۔ جب اس سے اسے ہٹانے کے لیے کہا گیا تو اس نے کیمپس میں طالبات کے برقعہ پہننے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔

اس نے پرنسپل کو 'ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی' کے بارے میں آگاہ کیا، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

اس نے کہا کہ جب میں بھگوا گمچھا پہن کر انسٹی ٹیوٹ میں آیا تو اساتذہ نے اعتراض کیا اور مجھے اسے ہٹانے کو کہا۔ لیکن میں نے ان سے کہا کہ پہلے طلباء کو کیمپس میں برقعہ پہننے سے روکیں۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ ہر طالب علم اس کی پیروی کرے گا۔ ڈریس کوڈ کی پیروی کریں گے۔

عورتوں کے لئے تعلیم کا مسئلہ_____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عورتوں کے لئے تعلیم کا مسئلہ_____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوپیداکیا، اورمرد وعورت کی تخلیق کی، توالد وتناسل کاسلسلہ جاری کیا اورہر دوصنف (مردو عورت) کو اوصاف حمیدہ اور اخلاق حسنہ کے حصول کے یکساں مواقع عطا فرمائے اور اپنے جود وکرم ،بخشش وعطامیںکوئی تفریق نہیںکی اور دونوں کے لئے تعلیم کو ضروری قرار دیا،یہی وجہ ہے کہ عہدنبویؐ میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی تعلیم کے حصول میں کوشاں رہتی تھیں اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی کمی کا انھیں احساس ہوتا تو دربار رسالت میں استفسار کرتیں اور تعلیم وتعلم کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتیں۔بخاری شریف کی ایک حدیث سے جس کے راوی حضرت ابوسعید خدریؓ ہیں، نقل کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عورتوں کاایک وفد آیااور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مردعلم حاصل کرنے میںہم سے آگے بڑھ گئے ؛اس لیے آپؐ ہمارے لیے کوئی دن مخصوص فرمادیں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن کا وعدہ فرمایا، اس دن آپؐ عورتوں کو نصیحت فرماتے، احکام الٰہی کی تعلیم دیتے، پھر عورتیںموقع بہ موقع حاضر ہوکر استفسارات کرتیں اور اپنے اشکالات دورکیاکرتیں ،مؤرخین اورسیرت نگاروں نے بہت ساری صحابیات کا تذکرہ کیا ہے، جن کا علم وفضل مسلّم تھا، خودام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بڑی عالمہ، فاضلہ اور فقہ وفتاویٰ میں مجتہدانہ درک رکھتی تھیں، ان کی مرویات کی تعداد دوہزار دوسو دس ہے، کثرت روایت میں پورے ذخیرہ حدیث میں آپ کا نمبر چوتھاہے، عمر رضا کحالہ نے اعلام النساء کی پانچ ضخیم جلدوں میں خواتین کے علمی مقام اور ان کی خدمات کا تذکرہ کیاہے۔ سلطا ن محمد تغلق ۱۳۲۴ھ؁ تا ۱۳۵۱ھ؁ کے عہد میں مقریزی کی روایت ہے کہ تعلیم اس قدر عام تھی کہ کنیزیں تک حافظ قرآن اور عالم ہوتی تھیں۔
اور دور کیوں جائیے ماضی قریب میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی والدہ خیر النساء بہترؔ اوربہن امۃ اللہ تسنیمؔ کے علم وفضل کودیکھئے، شعروشاعری ،حدیث وقرآن کا اتنا اچھا علم، بہت سارے ان مردوں کوبھی نہیں ہے، جنھوں نے اسلامی جامعات میںتعلیم حاصل کی ہیں۔
اس طرح عورتوں کاتعلیم حاصل کرنااسلامی بھی ہے اوراسلاف کی روایات کے عین مطابق بھی، لیکن یہاں یہ سوا ل باقی رہ جاتا ہے کہ انھیں کیا پڑھایا جائے؟ اور کس طرح پڑھایا جائے ،کیا پڑھایاجائے کہ اس کا جواب یہ ہے کہ انھیں دینیات ،تہذیب نفس اور تدبیر منزل کی تعلیم تولازماً دینی چاہئے، دینیات سے انھیں معاشرت ،معاملات اور عبادات میں اسلامی طریقہ کار کا پتہ چلے گا،تہذیب نفس کی تعلیم سے ان میںاخلاق حسنہ پیدا ہوں گے اور تدبیر منزل سے واقفیت انھیں خانگی امور کے بحسن وخوبی انجام دینے میں معاون ہوگی، اس طرح وہ گھر کی چہاردیواری میں رہ کر بھی اپنے خاندان کی نگہداشت بچوں کی تعلیم وتربیت اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں اپنی حصہ داری ادا کرسکیں گی۔
ان کے علاوہ کچھ علوم تووہ ہیں جن کی ضرورت عورتوں کوپڑتی ہے مثلاً طب ومیڈیکل سائنس ایسے علوم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے لازمی تو نہیں لیکن مستحسن ہے اس لیے کہ عورتوں میں میڈیکل سائنس کی تعلیم ہونے سے عورتیں اپنے امراض کے لیے زیادہ ان سے رجوع ہوں گی اوریہ مردوں کے ذریعہ تشخیص کرانے سے ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے۔
بعض علوم ایسے ہیں جوعورتوں کے لیے زوائد کے درجہ میںہیں، جیسے انجینئرنگ ، پولٹیکل سائنس وغیرہ ان علوم کی سماج کوضرورت ہے،لیکن عورتوں کے ان علوم کے نہ پڑھنے سے سماج میں کوئی پریشانی نہیں پیدا ہوتی بلکہ مرد کا ان علوم کا پڑھنا اور سماجی ضروریات کی تکمیل کرنا کافی ہے۔
کس طرح پڑھایاجائے ، کا جواب یہ ہے کہ ان کے مخصوص تعلیمی ادارے ہوں، جہاں مرد وعورت کے اختلاط کا کسی درجہ میں امکان نہ ہو، آمد ورفت میں پردہ کا معقول نظم ہواور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
آج سارا بگاڑ مخلوط تعلیم اور بے پردہ آمد ورفت کی وجہ سے پیداہوگیاہے، عصری درسگاہوں میں پڑھنے والی لڑکیوں نے اپنا حجاب اتار پھینکا ہے، اور مغرب کی فیشن پرستی نے انھیں اتنا بے لگام کردیاہے کہ ہر چیز میںانھیں مردو ں کی نقالی کی عادت سی پڑ گئی ہے، وہ خاتون خانہ کے بجائے سبھا کی پری ہونے میں فخر محسوس کرتی ہیں، اکبرالٰہ آبادی نے اسی صوت حال کو سامنے رکھ کر کہا تھا:
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر خاتون خانہ ہوں ، وہ سبھا کی پری نہ ہوں
آج جب کہ مدارس، اسکول اورجامعات کی بہتات ہے ، مسلمانوں کے ایسے کئی تعلیمی ادارے وجودمیں آگئے ہیں، جن میںلڑکیوںکی تعلیم کانظم اسلامی اصول کو سامنے رکھ کرکیاگیاہے،اب لڑکیاں عالمہ، فاضلہ بھی بن رہی ہیں ،اورعصری علوم میں دستر س بھی رکھ رہی ہیں۔
اس دور میں جبکہ ہر طرف لادینی ، مذہب بیزاری اورمادّیت کا غلبہ ہے، اورفضائوںمیں یہ افکار اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ ہر وقت فضائی آلودگی کی طرح ان سے دل ودماغ کے متاثر ہونے کاخطرہ رہتاہے، تعلیم نسواں کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم ان کی عفت وپاکدامنی کی حفاظت ہے ،ایسے میں ہمیں تعلیم نسواں کے سارے نظام کو ازسر نو ترتیب دینا ہوگا جس سے لادینی اور اخلاقی انارکی پر بند باندھا جاسکے، ایک نئی حکمت عملی اپنانی ہوگی جس سے ان کے سماجی شعور میں بیداری پیدا ہو اور انھیں اسلامی خد وخال کے موافق تبدیلی قبول کرنے پر آمادہ کیاجاسکے۔ ان کے اندر خدا پرستی کاجذبہ پیدا ہو، اور مادّیت کے اس دور میں وہ خود بھی روحانی قدروں کواپنائیں اوریہ صفت اگلی نسلوں تک منتقل کرسکیں۔ اگر ہم تعلیم نسواں کے میدان میں اپنے جدوجہد سے ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھئے کہ ہم نے آئندہ نسلوں تک دین کو اس کی اپنی اصلی شکل وصورت میں منتقل کرنے کاسامان کردیا۔ اورایک بڑی ذمہ داری سے ہم عہدہ برآ ہوسکے۔

پیر, مارچ 14, 2022

پے ٹی ایم کے بانی وجۓ شرما کی گرفتاری اور رہائی

پے ٹی ایم کے بانی وجۓ شرما کی گرفتاری اور رہائینئی دہلی: دہلی پولیس کے ایک افسر کی گاڑی کو ٹکر مارنے کے الزام میں گرفتار کئے گئے پے ٹی ایم کے بانی وجئے شیکھر شرما ضمانت پر رہا ہوگئے ہیں ۔دہلی پولیس نے اتوار کے روز بتایا کہ 22 فروری کو مالویہ نگر پولیس تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق مسٹر شرما نے اپنی کار سے دہلی پولیس کے ایک افسر کی کار کو پیچھے سے ٹکر مار دی تھی ۔ اس واقعہ کے بعد میں مسٹر شرما موقع سے فرار ہو گئے تھے ۔ بعد میں انہیں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا ۔مبینہ طور پر یہ حادثہ اروبندو مارگ پر واقع مدر انٹرنیشنل اسکول کے باہر پیش آیا۔ اس وقت جنوبی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) کے دفتر میں تعینات کانسٹیبل دیپک کمار پولیس افسران کی گاڑی چلا رہے تھے ۔ پولیس نے مسٹر کمار کی شکایت کی بنیاد پر مسٹر شرما کے خلاف لاپرواہی سے گاڑی چلانے کا معاملہ درج کیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ دوران جانچ پولیس افسر کی گاڑی کو ٹکرمانے والی کار کی شناخت کی گئی اور اس کے ڈرائیور مسٹر شرما کی شناخت کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ بعد میں اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا ۔

سڑک حادثہ میں موت پر مشتعل لوگوں نے کیا آمد ورفت ٹھپ

سڑک حادثہ میں موت پر مشتعل لوگوں نے کیا آمد ورفت ٹھپ

بیگوسرائے میں مسلسل سڑک حادثات کے باوجود گاڑیوں کی رفتار پر قابو نہیں پایا جا رہا ہے اور لوگوں کی بے وقت موت ہورہی ہے۔ پیر کے روز بھی صبح صبح بیگوسرائے۔ گڑھ پورہ ۔ حسن پور مین سڑک پر حادثے میں بچے کی موت ہوگئی ۔ واقعہ گڑھ پورہ تھانہ علاقہ کے سکڑا گاؤں کے قریب ہے۔ متوفی کی شناخت مقامی باشندہ رام وجے یادو کے بیٹے وکی کمار کے طور پر کیا گیا ہے ۔ حادثے موت سے ناراض لوگوں نے سکڑا گاؤں اور ہرسائن پل کے قریب سڑک جام کرآمدورفت ٹھپ کر دیا۔ اطلاع ملتے ہی پہنچے گڑھ پورہ تھانہ انچارج اور انتظامیہ نے لوگوں کو سمجھا بجھا کر کافی کوشش کے بعد سڑک جام ختم کرایا اور گاڑی ڈرائیور کو گرفتار کرکے کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔

واقعے کے سلسلے میں بتایا جا رہا ہے کہ وکی سڑک پار کر رہا تھا کہ اس دوران تیز رفتار سے آ رہی نامعلوم اسکارپیو گاڑی نے اسے روند دیا ، جس سے موقع پر ہی اس کی موت ہوگئی ۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی بڑی تعداد میں لوگ پہنچ گئے اور گڑھ پورہ بیگوسرائے سڑک کو دو مقامات پر جام کر کے آمدورت ٹھپ کر دئے ۔ سڑک جام کرنے والے مشتعل لوگوں کا کہنا تھا کہ ایک بڑی بس کمپنی کے مالک کی اسکارپیو روزانہ انتہائی بے قابو رفتار سے گزرتی ہے۔ دونوں طرف گھنی آبادی کی وجہ سے کئی بار لوگوں نے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی۔ لیکن رفتار پر قابو نہ پایا جاسکا جس کی وجہ سے آج حادثہ پیش آیا۔

درگاہ پر چڑھایا گیا بھگوا رنگ،مقدمہ درج

درگاہ  پر چڑھایا گیا بھگوا رنگ،مقدمہ درج

ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال سےمتصل نرمداپورم(ہوشنگ آباد) کی ایک درگاہ کو شر پسندوں نے توڑ پھوڑ کے بعد اس کو بھگوا رنگ سے رنگ دیا دیا۔

شرپسندوں نے ایک بار پھر ریاست میں فرقہ وارانہ اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہاں سمیری ہرچند روڈ پر واقع درگاہ کو شرپسندوں نے رات کے اندھیرے میں نہ صرف درگاہ میں توڑا بلکہ بھگوا رنگ سے رنگ دیا۔ جس کی وجہ سے علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پولیس نے مقامی مسلمانوں کی شکایت پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ کشیدگی کے پیش نظر پولیس نے موقع پر پہنچ کر جائے وقوعہ کا جائزہ لیا اور تفتیش شروع کردی۔

خیال رہے کہ حضرت مخدوم کی درگاہ نرمداپورم کے سمیری ہرچند روڈ پر درگاہ بڑا پیر کے قریب واقع ہے۔ یہاں تمام مذاہب کے لوگ آتے ہیں اور اپنی عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ہرروز شام کو مجاور درگاہ میں چراغاں کرتے ہیں۔ صبح جب عقیت مند درگاہ پر حاضری کے لیے پہنچے تو دیکھا کہ اسے بھگوا رنگ سے رنگا ہوا دیکھا۔

درگاہ کے مجاور محمد خالد کا کہنا ہے کہ درگاہ کو بھگوا رنگ سے رنگنے والے شرپسندوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہم نے پولیس انتظامیہ سے معاملے کی تحقیقات کرنے اور شرپسندوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے میں سخت کارروائی کی جائے۔

پولیس اسٹیشن انچارج ہیمنت سری واستو نے بتایا کہ سمیری ہرچند روڈ پر واقع درگاہ میں توڑ پھوڑ کےساتھ اندراورباہربھگوا رنگ پایا گیا۔ نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی۔

بچوں کو اردو ضرور پڑھائیں:ڈاکٹر اطہر فاروقی

بچوں کو اردو ضرور پڑھائیں:ڈاکٹر اطہر فاروقی

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب سمینار اختتام پذیر نئی دہلی،12مارچ:غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب سمینار اختتام کو پہنچا۔ "معاصر اردو ادب میں نئے تخلیقی روپے" کے عنوان سے منعقدہ غالب سمینار کے آخری روز کے پہلے سیشن کی صدارت ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کی۔

پروفیسر شافع قدوائی نے"تعزیری نظام کے خلاف مزاحمت کا استعارہ: اللہ میاں کا کارخانہ"،لندن سے تشریف لائے جاوید کاکرو نے"Contemporary Relevance Challenges And Prospects For Promotion Urdu Language"ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی نے"اردو افسانے کے رجحانات" کے عنوان پر اپنے مقالات پیش کیے۔

اختتام پر صدر اجلاس ڈاکٹر اطہر فاروقی نے اردو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 75برسوں سے اردو کی فکر کی جا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں بھی کی جاتی رہے گی۔ اردو کی بہتری اسی بات میں ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں، اگر ایسا نہیں کرتے ہیں تو لاکھ تقریریں کر لی جائیں کوئی فرق نہیں پڑتاہے۔

آپ تقریریں کریں اور دوسروں کے بچے اردو پڑھیں یہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شہزاد انجم نے کی۔ جب کہ پروفیسر خالد اشرف نے"اردو زبان کا بدلتا ہوا منظر نامہ اور چند اہم ناول"،پروفیسر ابن کنول نے"اردو افسانہ عہد حاضر میں"پروفیسر ثروت خان نے"ماضی کی بازیافت:اردو کے چند نئے ناولوں کے آئینے میں" کے عنوان پر اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے اپنے صدارتی خطبے میں فرداً فرداً سبھی مقالات پر سیر حاصل گفتگو کی، انھوں نے کہا کہ 21ویں صدی ناول کا عہد ہے، اس زمانے میں کئی اہم ناول لکھے گئے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہماری تہذیب و ثقافت کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان تمام باتوں کو بھی معاصر ادب میں شامل کیا جانا چاہئے۔تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کی جب کہ پروفیسر غضنفرنے"اردو ناول کی تجدید اور پیغام آفاقی"پروفیسر صغیر افراہیم نے"اردو ناولون میں تہذیبی بازیافت"،اور ڈاکٹر نفیس عبدالحکیم نے"اردو افسانہ اور نئی حقیقت نگاری"کے عنوان پر مقالات پیش کیے۔

سمینار کے آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے کی اورپروفیسر علی احمد فاطمی کا مقالہ ڈاکٹر نفیس عبدالحکیم نے پیش کیا۔ ڈاکٹر عرفان عارف نے"اردو افسانے کے نئے تخلیقی روپے اور رجحانات"، ڈاکٹر الطاف انجم نے"فائرنگ رینج کا بیانیاتی جائزہ" کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے کہا کہ سمینار کا موضوع متاثر کن اور بحث انگیز ہے، مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے اس موضوع کو مرکز میں لاکر اس سمینار کا انعقاد کیا۔

سبھی پیپر اہمیت کے حامل تھے۔ اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی، اس موقع پر انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اپنے سمیناروں کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کرے جو محض روایتی نہ ہوں بلکہ اس کے ذریعے نئے مباحث پر خاطر خواہ روشنی ڈالی جاسکے۔ یہ موضوع بھی اسی نوعیت کا تھا، مجھے خوشی ہے کہ تمام شرکاء نے بڑی محنت سے مقالے لکھے۔

پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اہم سوال ہے کہ معاصر کی تاریخ کا تعین کیسے ہو، کس قسم کے ادب کو معاصر کہا جا سکتا ہے۔ کیا وہ ادب معاصر کہلائے گا جو عصری،سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل کی نمائندگی کر رہا ہے یا وہ جس کی پہچان ادبی پیمانون سے کی جاسکتی ہے۔

ایسے ہی بہت سے سوال اس سیمنار میں ابھرے ہیں اور ان کا سب نے اپنے اپنے طور پر جواب تلاشنے کی کوشش کی۔ مجھے امید ہے کہ جب ہم سبھی مقالوں کو یکجا دیکھیں گے تو کسی نتیجے پر پہچنے میں آسانی ہوگی۔پروفیسر انیس اشفاق نے کہا کہ میں عرصے سے اس سمینار میں شریک ہوتا رہا ہوں اور مجھے یہاں ہونے والے سمینار متاثر کرتے ہیں۔ ایوان غالب کا سمینار تخلیقی بصریتوں کا خیال افروز محاکمہ ہے، یہاں خیالات کی یکسانیت کے بجائے خیالات کے تصادم کی صورتیں بھی ہوتی ہیں۔ جس سے ہم ایسے نتیجے پر پہنچتے ہیں جو پہلے سے ہمارے ذہن میں نہیں ہوتا۔

پروگرام کے اختتام پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج مجھے بڑی خوشی ہورہی ہے کہ اس سمینار کے بنیادی موضوع 'معاصر ارو ادب کے تخلیقی رویے' پریہا ں جو مقالات پیش کیے گئے، ان سے ہمارے عہد کے ادبی میلانات اور صورت حال کاایک عمدہ خاکہ مرتب ہوتاہے۔ سمینار میں جو مقالات پیش کیے گئے ان میں اکثر کو سنتے ہوئے یہ محسوس ہواکہ یہ موضوع ایک سمینار میں سامنے والا نہیں ہے۔ زیادہ تر مقالہ نگارنے بڑی محنت اور ذمہ داری سے مقالے لکھے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ سمینار ایک فضاکی تشکیل کرتاہے وہ مباحب یاوہ گوشے جن کی طرف ہماری توجہ کسی وجہ سے نہیں ہوپاتی انہیں مرکز میں لے آتاہے۔ ہمارے یہاں کلاسیکی ادب پر بہت گفتگو ہوئی، جدید ادب پر بھی خاصا لکھا گیالیکن جدید ادب جس سے میری مراد معاصر ادب ہے ایک دھند کی سی کیفیت بھی محسوس ہوتی ہے۔ یعنی وہ کون سے میلان ہیں جو پیش رو میلانات سے مختلف ہیں جن کی بنیاد پر ہمارا معاصر ادب اپنا وجود ثابت کررہاہے اور ہماری فہم کی بھی آزمائش کررہاہے۔ لیکن سمینارکی ایک خامی یہ بھی ہے کہ یہ بہت دنوں تک ہمارے ذہنو ں میں تازہ نہیں رہتا۔ یہ فریضہ کتاب ادا کرتی ہے اور جیسا کہ ہمارا روایت رہی ہے ہم بہت جلد ان مقالات کو کتابی شکل میں بھی شائع کریں گے۔

مجھے پورا یقین ہے کہ جب یہ کتاب منظرعام پر آئے گی تو اس موضوع پر اس کی حیثیت حوالے کی ہوگی۔ میں اعتراف کرتاہوں کہ اس کی علمی حیثیت آپ کی کاوشوں اور ذکاوتوں کے نتیجے میں ہوگی۔ لہٰذا آپ دوتین مہینے میں اپنے مقالے اور متعلقہ موضوع سے متعلق جتنا اضافہ کرنا چاہیں وہ اس کتاب کے حق میں مفید ہوگا۔

میں فرداً فرداً سب کا نام لوں تو ممکن ہے کہ کسی کا نام چھوٹ جائے میں تمام مقالہ نگار، صدور اور شرکاکادل کی گہرائیوں سے سے شکریہ ادا کرتاہوں اور آئندہ بھی آپ کے تعاون کی امید رکھتا ہوں۔ ایک ضروری بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ تمام شرکا کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، اس کے باوجود اگر ہماری طرف سے کچھ کمی رہ گئی ہوتو اسے در گزر فرمائیں۔ہاں ذاتی طور پرہمیں مطلع فرمائیں تاکہ ہم اس کا آئندہ خیال رکھیں۔اس موقع پر یونیورسٹیز کے ریسرچ اسکالرز کوسرٹیفکیٹ اور کتابوں کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔ شام میں اردو ڈرامہ"مشاعرہئ رفتگاں" پیش کیا گیا، تحریر و ہدایت کار ڈاکٹر محمد سعید عالم کی نگرانی۔جب کہ پیش کش تھی 'ہم سب ڈرامہ گروپ(غالب انسٹی

وہ آنکھیں پھیرلیں میں کیسے پھیروں

*وہ آنکھیں پھیرلیں میں کیسے پھیروں
یہ مہینہ شعبان المعظم کا ہے۔دوچار دن بعد ہی شب برأت کی وہ قیمتی رات آنے والی ہےجسکی فضیلت صحاح ستہ سے ثابت ہے۔اس موقع سے منبر ومحراب اور اجلاس کے اسٹیج سے اس مغفرت والی رات پر خوب خوب بات کی جاتی ہے۔بالخصوص اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وہ روایت جسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کی ہے کہ:رب العزت نصف شعبان کی شب کو آسمان دنیا میں نزول فرماتے ہیں، بنوکلب کی بکریوں کے بال برابر لوگوں کی بخشش اور مغفرت کا سامان کرتے ہیں،یہ روایت اس عنوان پر پیش کی جاتی ہے۔ساتھ ہی ابن ماجہ کی روایت جو حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مشرک اور کینہ پرور شخص کی مغفرت نہیں ہوتی ہے، لگے ہاتھ اسے بھی بیان کر دیتے ہیں۔
یہ تقریر سنکر ایک صاحب ایمان نے اپنی بات رکھی ہے ۔موصوف کہتے ہیں کہ: میرے سگے بھائی ہیں،سالوں سے گفت وشنید نہیں ہے۔میں نے یہ سن رکھا ہے کہ صاحب ایمان کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ اپنے ایمان والے بھائی سے تین دن سے زائد گفت وشنید چھوڑ دے۔پھر ایسے کینہ پرور اور قطع رحمی کرنے والے کی بخشش نہیں ہوتی ہے۔
یہ تو میرے ایمانی بھائی ہی نہیں بلکہ سگے بھی ہیں، میں تعلق بحال کرنا چاہتا ہوں، جب بھی وہ نظر آتے ہیں، سلام کرتا ہوں ،مگر وہ اپنا چہرہ پھیر لیتے ہیں،سلام کا جواب تک نہیں دیتے ہیں،ایسا کئی سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔بقول عاجز؛
وہ آنکھیں پھیرلیں میں کیسے پھیروں 
محبت ہے ادا کاری نہیں ہے۔

یہ واقعی بہت ہی اذیت ناک اور ایک صاحب کے لیے کربناک بھی ہے۔یہ واقعہ شاذ نہیں ہے بلکہ ہم سبھی ملک کے جس خطہ میں آباد ہیں، اسے سیمانچل کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، ڈھیروں واقعات اس نوعیت کے دیکھنے میں آتے ہیں۔افسوس تو اس بات پر ہے کہ حدیث شریف میں ہے منھ پھیرنے کی بات بھی لکھی ہوئی ہےاور اس کا حل بھی پیش کیا گیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ؛
 کسی مسلمان کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ تین دن سے زائد ترک کلام کرے، جب دونوں ملے تو وہ ادھر چہرہ پھیر لے اور یہ ادھر،ان دونوں میں بہتر وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے (مسلم)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سلام سے قبل منھ پھیرنے کا موقع ہوسکتاہے، مگر سلام کے بعد اس عمل کاکوئی محل نہیں ہے۔ مذکورہ واقعہ میں یہ آخری درجہ کی ایمان والے سگے بھائی سے نفرت اور دوری معلوم ہوتی ہے، اس کے لیے مذہب اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔اس مغفرت والے مہینہ میں بالخصوص شب برأت کی فضلیت حاصل کرنے کے لیے اس عنوان پر زمینی کوشش کی آج ضرورت ہے۔
سلام کرنے والے کو بظاہر یہاں یہ خوف ہورہا ہے کہ میری گفتگو بند ہے، اس کا گناہ گار میں بھی ہوں گا،شرعی اعتبار سے یہ خیال درست نہیں ہے۔وہ اس لیے بھی کہ انہوں نے شرعی طریقہ پر رہنمائی کی گئی باتوں پر عمل کرلیا ہے۔اب یہ تارک کلام کا گناہ گار نہیں ہے۔البتہ ہاں! منھ پھیر کر اس کے بھائی نے پھر غیر شرعی عمل کا ارتکاب کرلیا ہے بلکہ صاف زبان میں یہ کہا جائے کہ اس کی شامت آگئی ہے۔اعاذنا الله من ذالك. 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...