Powered By Blogger

ہفتہ, مارچ 19, 2022

ڈاکٹر اقبال نیر قاسمی پانچ دہائیوں سے قوم وملت کی بے لوث خدمت کررہے تھے : مولانا عبدالواجد چترویدی


ڈاکٹر اقبال نیر قاسمی پانچ دہائیوں سے قوم وملت کی بے لوث خدمت کررہے تھے : مولانا عبدالواجد 
چترویدی
بالوماتھ (ساجد حسین ندوی ) لمبا قد، توانا جسم، مسکراتا ہوا چہرہ، گفتگو میں شیرینی سی لذت یہ حلیہ ھے اس عظیم شخصیت کا ھے جس نے اپنی ملی خدمات، دینی فکر اور قائدانہ کردار سے ایک عالم کو متاثر کیا ۔ وہ ہستی جو بیک وقت کئی خوبیوں کا مجموعہ تھے جو اپنی ذات میں فرد نہیں انجمن تھے جسے علم وعمل کی دنیا میں مفسر قرآن حضرت مولانا ڈاکٹر اقبال نیرجانا پہچانا جاتا تھا۔ ان خیالات کا اظہار لاتے ہار جھارکھنڈ کے جنرل سکریٹری وخطیب جامع مسجد بالوماتھ مولانا عبدالواجد چترویدی نے فرمایا ۔انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر اقبال صاحب بالوماتھ ضلع لاتیہار، جھارکھنڈ کے مقامی باشندہ تھے پانچ دہائیوں تک قوم ملت کی بے لوث خدمت کرتے رہے، آپ کے کارناموں کی ایک لمبی فہرست ھے جسے اس مختصر وقت میں بیان کرنا ناممکن ھے۔
مولانا چترویدی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ادھرکئی سالوں سے بیمار چل رہے تھے۔ فالج کا حملہ ہوا تو صاحب فراش ہوگئے تھے 10/مارچ کو میں زیارت کے لیے حاضری ہوئی، کافی دیر تک ملک و ملت کے حالات دریافت کرتے رہے اور بعض خبروں پر تبصرہ بھی کیا۔ میں نے رخصت کی اجازت طلب کی تو فرمانے لگے تم ایک دو دن میں آیا کرو تمہارے آنے سے میری طبیعت بہلتی ھے کیا خبر تھی ملاقات آخری ملاقات ہوگی اور میں اپنے مخدوم کی ملاقات سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤں گا۔۱۲/مارچ شام میں پھر سے فالج کا اٹیک ہوا آناً فاناً رانچی میں ایڈمٹ کرایا گیا ڈاکٹر نے بتایا کے برین ہمریج ھے، ری کور ہو جائیں گے۔مگر  وقت موعود آپہنچا ۱۷مارچ رات ۲بجے علم و عمل کا یہ روشن سورج ہمیشہ کیلیے اپنے چاہنے والےمحبین متوسلین اولاد واحفاد کو غمگین کرکے غروب ہوگیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
بروز جمعہ تقریبا  3 بجے بالوماتھ کے قبرستان میں ڈاکٹر صاحب فرزند مولانا فاتح نے امامت کی اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی 

جمعہ, مارچ 18, 2022

نماز جمعہ اور شب برات: تبلیغی مرکز میں لوٹی وقتی رونق


نماز جمعہ اور شب برات: تبلیغی مرکز میں لوٹی وقتی رونق

شب برات کے موقع پر نظام الدین تبلیغی مرکز واقع  بنگلہ والی مسجد  میں رونق لوٹ آئی جب تبلیغی جماعت کے مرکز کو دو دن کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا-دو سال کے بعد نماز جمعہ ادا کی گئی۔اس کے ساتھ  نمازی شب برات پر نماز ادا کرسکیں۔یاد رہے کہ مرکز 3 مارچ 2020 سے بند تھا

شب برات کے موقع پر بنگلہ والی مسجد میں عدالت کی ہدایت کے مطابق تمام تر ضروری شرائط کو پورا کیا گیا تھا۔ نمازیوں کا داخلہ جسم کا درجہ حرارت چیک کرنے کے بعد ہاتھوں میں سنیٹائزر لگا کر ہورہا تھا۔ مسجد کے اندر بھی سماجی فاصلہ رکھا گیا تھا۔ مرکز کے صدر دروازے پر ایک نوٹس چسپاں تھا جس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ غیر ملکی  زائرین کا داخلہ ممنوع ہے اگر کسی غیر ملکی کو نماز ادا کرنی ہے تو پہلے مسجد انتظامیہ کے پاس اپنے سفری دستاویز جمع کرائے۔

تبلیغی مرکز کے صدر دروازے پر پولیس بھی تعینات تھی،جبکہ مقامی رضا کار دیگر انتظامات میں مصروف تھے۔نماز ادا کرنے والوں کو رکنے نہیں دیا گیا اور سب سے یہی درخواست کی گئی کہ نماز ادا کرکے مرکز سے فورا واپس چلے جائیں۔تاکہ بھیڑ نہ لگ سکے۔

بلاشبہ مقامی لوگوں میں  دو روزہ رونق کے لیے خوشی تھی مگر یہ امید بھی تھی کہ بہت جلد عدالت تبلیغی مرکز کو مکمل طور پر کھولنے کی اجازت دیدے گی۔کچھ لوگوں نے عدالت کے فیصلہ پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اب اس معاملہ کی اگلی سماعت 31 مارچ کو ہوگی۔ لوگوں کو امید ہے کہ جب رمضان المبارک کے لیے بھی عدالت عبادت کی اجازت دے گی اور بہت ممکن ہے کہ  اس کے بعد تمام پابندیاں ختم ہوجائیں ۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دو سال کے بعد رونق کی واپسی بہت اہم ہے لیکن سوال مستقبل کا ہے،کیونکہ  اب جب تمام تر پابندیاں اٹھالی گئی ہیں تو پھر صرف تبلیغی جماعت کے مرکز پر ہی یہ پابندی کیوں ؟

ایک اور مقامی شخص نے کہا کہ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی مہربانی ہے جو آج مرکز کو ان حالات کا سامنا ہے۔۔ایک جانب کیجریوال کے نائب ہولی میں بغیر کسی محفوظ فاصلہ کے ہولی کھیل رہے ہیں اور مرکز میں نماز کی ادائیگی  کے لیے شرائط کا اعلان ہورہا ہے۔ 

مقامی لوگوں نے دہلی ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کیا کہ کم سے کم دو سال کے بعد بنگلہ والی مسجد کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دی خواہ بات دو دن کی ہی ہے ۔ لیکن اس سے ایک امید جاگ گئی ہے۔

یاد رہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کے روز شب برات کے تہوار کے پیش نظر نظام الدین مرکز کی چار منزلوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دی  تھی اور ساتھ ہی حکام سے کہا کہ وہ مرکز کے احاطے میں عبادت کرنے والوں پر عائد تمام پابندیوں کو ہٹا دیں کیونکہ مرکز کی انتظامیہ نے  تمام شرائط کو یقینی بنانے کا یقین دلایا ہے۔ نمازیوں کی طرف سے کوویڈ پروٹوکول اور سماجی دوری کا خیال رکھیں۔ پولیس کے مطابق جمعرات کو مرکز کے دروازے تقریباً 12.30 بجے کھولے گئے تھے۔ 


یوپی:ہولی پر رنگ لگا نے کے سبب دو گروپ میں خونی تشدد ۲ہلاک،۶سنگین زخمی

یوپی:ہولی پر رنگ لگا نے کے سبب دو گروپ میں خونی تشدد ۲ہلاک،۶سنگین زخمی

آج ملک بھر میں ہولی کی دھوم ہے اور کئی مقامات پر ہندو بھائیوں کے ساتھ مسلم طبقہ بھی ہولی کے رنگ میں ڈوبا نظر آ رہا ہے۔ اس درمیان امیٹھی میں ہولی کھیلنے کے دوران دو گروپ میں خونی تشدد کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع کے جامو تھانہ حلقہ واقع ریوڑاپور گاؤں میں جمعہ کو ہولی کھیلنے کو لے کر ہوئے معمولی تنازعہ میں دو گروپ کے درمیان تصادم ہو گیا۔ اس تصادم میں دو افراد کی موت ہو گئی ہے جب کہ 6 دیگر سنگین طور پر زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں تین کی حالت انتہائی نازک بتائی جا رہی ہے جنھیں لکھنؤ کے ٹراما سنٹر ریفر کیا گیا ہے۔جامو تھانہ انچارج دھیریندر کمار یادو کا اس واقعہ کے تعلق سے کہنا ہے کہ ریوڑاپور گاؤں میں لوگ ہولی کا تہوار منا رہے تھے۔ اسی درمیان دو گروپ میں کسی بات کو لے کر لڑائی ہو گئی۔ اس ہنگامہ اور تشدد میں گاؤں بابو پور باشندہ اکھنڈ پرتاپ سنگھ (32 سال) اور ریوڑاپور باشندہ شیورام عرف کلڈو پاسی (55 سال) کی جائے حادثہ پر ہی موت ہو گئی۔ جامو تھانہ انچارج نے یہ بھی بتایا کہ مہلوک اکھنڈ پرتاپ سنگھ کا پرانا مجرمانہ ریکارڈ رہا ہے۔ بہرحال، دونوں مہلوکین کی لاشوں کو سخت سیکورٹی کے ساتھ پوسٹ مارٹم کے لیے گوری گنج بھجوایا گیا ہے۔اس خونی تشدد کے بعد علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ ضلع مجسٹریٹ راکیش کمار مشر اور پولیس سپرنٹنڈنٹ دنیش سنگھ کثیر پولیس فورس کے ساتھ جائے حادثہ پر پہنچ گئے ہیں۔ پورے گاؤں میں پولیس فورس کو تعینات کر دیا گیا ہے اور سیکورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے۔ ضلع مجسٹریٹ راکیش کمار مشر نے اس واقعہ کے تعلق سے بتایا کہ بابو پور کے لوگ اپنے گاؤں میں سڑک کنارے ہولی کھیل رہے تھے۔ اس درمیان وہاں سے گزر رہے ریوڑاپور گاؤں کے لوگوں کو رنگ لگا دیا۔ اس کے بعد ہی دونوں فریقین کے درمیان خونی تصادم شروع ہو گیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس خونی تصادم کے پیچھے پرانی رنجش کی بات بھی سامنے آ رہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس تنازعہ کی وجہ راشن تقسیم کا ایک پرانا معاملہ ہے۔ دراصل کوٹیدار نے دوسرے گاؤں کے لڑکے کو دیکھ لینے کی دھمکی دی تھی اور یہی وجہ ہے کہ آج معمولی تنازعہ خونی تصادم میں بدل گیا۔

جمعرات, مارچ 17, 2022

جاپان میں زلزلے کے شدید جھٹکے بلٹ ٹرین پٹری سے اترگئ،٢٠لآکھ گھر بجلی سے محروم

جاپان میں زلزلے کے شدید جھٹکے بلٹ ٹرین پٹری سے اترگئ،٢٠لآکھ گھر بجلی سے محروم

ٹوکیو: جاپان کے کئی شہروں میں گزشتہ روز زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے۔ زلزلے کے باعث 2 افراد ہلاک جبکہ 88 زخمی ہو گئے۔ زلزلے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بلٹ ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ جاپان کے محکمہ موسمیات نے سونامی کی وارننگ جاری کر دی ہے۔

جاپان میں آنے والے اس زلزلہ کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.3 درج کی گئی ہے اور اس کا مرکز راجدھانی ٹوکیو سے 297 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع تھا۔ جاپان کے محکمہ موسمیات کے مطابق زلزلے کا مرکز سمندر سے 60 کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ زلزلے کے جھٹکے سب سے زیادہ میاگی اور فوکوشیما شہروں میں محسوس کئے گئے۔ دونوں صوبوں میں لوگوں سے ساحلی علاقوں سے دور رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔ فوکوشیما میں ہی زلزلے سے دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

جاپان کی بلٹ ٹرین آپریٹر کمپنی کے مطابق توہوکو میں بلٹ ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ اس وقت ٹرین میں 100 مسافر سوار تھے۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی زخمی نہیں ہوا۔ جاپان کی ایسٹ نیپون کمپنی کے مطابق کئی ایکسپریس ویز کو نقل و حرکت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ان میں اوساکی میں توہوکو ایکسپریس وے، میاگی پری فیکچر اور سوما اور فوکوشیما کا جوبن ایکسپریس وے شامل ہیں۔

حکام کی جانب سے رہائشیوں کو آئندہ ہفتے کے دوران ممکنہ آفٹر شاکس سے خبردار کیا گیا ہے۔ حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ خطرے والے مقامات اور کسی بھی منہدم عمارت سے دور رہیں۔

زلزلے کے جھٹکوں کے بعد جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے 20 لاکھ گھروں میں اندھیرا چھا گیا۔ اے ایف پی نے ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کے حوالے سے بتایا ہے کہ جاپان میں زلزلے کے بعد ٹوکیو تاریکی میں ڈوب گیا۔ زلزلے کے ان جھٹکوں نے جاپان کے لوگوں کو 2011 کی یاد تازہ کر دی۔ 11 مارچ 2011 جاپان کے لیے بے مثال حادثے کا دن تھا۔ اس دن شمال مشرقی جاپان کے ساحل پر 9 شدت کا زلزلہ آیا جس سے سونامی آئی جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ آج بھی جاپان اس حادثے سے سنبھل نہیں سکا ہے۔ ان زلزلوں کے آفٹر شاکس میں 18 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اکیسویں صدی کے"ولی"کو میں نے کیسا دیکھا-ریحان غنی

اکیسویں صدی کے"ولی"کو میں نے کیسا دیکھا-
ریحان غنی
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے ایک ایسے بزرگ تھے جن کی قیادت پر لوگوں کو بھروسہ تھااور جن کی لوگ دل سے قدر کرتے تھے کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ یہ وہ شخضیت ہے جسے جرات و بےباکی ورثے میں ملی ہےاوروہ کسی بھی قیمت پر حالات سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قیادت پر لوگوں کا بھروسہ اس قدر مضبوط ہو جاتا ہے تو" لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا" کے مصداق حالات سازگار ہوتے جاتے ہیں اور راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ بڑے عالم دین تھے یا بڑے سیاسی مدبر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ ان کی مضبوط شناخت ایک ملی رہنما کی حیثیت سے زیادہ ہےیا ایک بے باک مقرر اور خطیب کی حیثیت سےزیادہ ہے.اسی طرح یہ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ وہ بڑے صحافی تھے یا بڑے مصلح قوم. لیکن یہ بات تو بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ قومی اور عالمی منظر نامے پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ وہ طاقتور سے طاقتور حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنا جانتے تھے. وہ چاہتے تھے کہ سیاسی تھپیڑوں سے مسلمانوں کوبچانے کے لئے انہیں ایک ایسا مضبوط پلیٹ فارم دیا جائے جو وقت آنے پر ان کے لئے ایک مضبوط ڈھال بن سکے۔

ان کی خواہش تھی کہ اس ملک میں ملت اسلامیہ کے افراد احساس کمتری سے نکل کر اپنا راستہ خود تلاش کریں اور عصری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم مسلم لڑکے اور لڑکیاں پورے اسلامی تشخص کےساتھ تعلیم حاصل کریں؛ لیکن وہ مخلوط تعلیم کے شدید مخالف تھے.اسی لئے انہوں نے لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا. وہ مسلم دلت اتحادکے لئے بھی آخر وقت تک کوشاں رہے. عالم دین ہونے کی حیثیت سے انہوں نے کوشش کی کہ وہ جن اداروں سے بھی وابستہ ہیں وہ ادارے مثالی ہوں، ان کی اپنی شناخت ہو، ان اداروں کے کارکنان مخلص ایماندار اور محنتی ہوں، ان میں قوم و ملت کے لئے کچھ کر گذرنے کا جذبہ ہو. حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ امارت شرعیہ بہار اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے امیر َ، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکریٹری اور کئی دوسرے بڑے اداروں کے سربراہ تھے۔ ان کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا زبردست بوجھ تھا.وہ باد مخالف میں چراغ روشن رکھنے کا فن جانتے تھے۔ وہ جن اداروں سے بھی وابستہ رہے انہیں مضبوط اور قوم وملت کے لئے مفید اور کارآمد بنایا. یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے"دین بچاؤ دیش بچاؤ" کا نعرہ دیا تو کیا امیر کیا غریب سب کے سب دیوانہ وار آن کی طرف دوڑ پڑے اور15اپریل 2018 کو پٹنہ کے گاندھی میدان کو بھر دیا.یہ وہ تاریخ ہے جسے دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔ آزادی کے بعد گاندھی میدان میں لوگوں نے مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع پہلی مرتبہ دیکھا تھا. اس دن ایک مجاہد کی حیثیت سے ہرکوئی اپنے دین اور ملک کوبچانے کے لئے ایک دوسرےپرسبقت لے جانا چاہتا تھا۔ یہ اسی "ولی" کی کرامَت تھی جو ہم سب سے3اپریل2021 کو ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا۔

حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے اوائل کے ایسے واحد عالم دین، ملی اور. مذہبی رہنما تھےجن کے لئے ملت اسلامیہ کے افراد نےان کی زندگی میں بھی دھوپ کی تمازت برداشت کی اور انتقال کے بعد بھی ان کے لئے چلچلاتی دھوپ میں گھنٹوں کھڑے رہے. وہ لوگ جنہوں نے 15 اپریل 2018 کو گاندھی میدان کا اورپھر 4اپریل2021 کومونگیر میں خانقاہ رحمانی کا منظر دیکھا ہے وہ میری اس بات کی تصدیق کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے ایسے عالم دین اور رہنما تھے جنہوں نے "خلوت یا حجرہ نشینی" کے بجائے" صحرا نوردی" کو ترجیح دی اور ہمیشہ "میدان عمل" میں دوسروں کے ساتھ کھڑے نظر آئے. انہوں نے آخر وقت تک اپنے کندھوں پر ذمہ دار یوں کا کبھی ختم نہ ہونے والا بوجھ اٹھانے رکھا. وہ ہمیشہ شجر سے پیوستہ رہے اور بہار کی آمید رکھی. مجھے یقین ہے کہ 15 اپریل 2018 کو" دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس " کا خاکہ بھی حضرت امیر شریعت علیہ رحمہ نے "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ " کو سامنے رکھ کر ہی بنایا ہوگا لیکن وہ اس موقع پر ٹھیک اسی طرح سازش کے شکار ہو ئے جس طرح نبی آخرالزماں صل اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر شکار ہوئے تھے اور انہیں مجبور ہو کر" قنوت نازلہ" پڑھنی پڑی تھی۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ کاہر معاملے میں اپنا نقطہ نظر تھا اور اپنی فکر تھی. وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے 2020 میں نئی قومی تعلیمی پالیسی بنائی توحضرت امیر شریعت پہلے ملی رہنما اور عالم دین تھے جنہوں نے اس کا اردو میں ترجمہ کرایا تا کہ عام اردو داں اس سے واقف ہو سکے اوریہ سمجھ سکےکہ یہ اس کے لئے نقصان دہ ہے یا مفید۔ اس قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں ان کا مضبوط خیال یہ تھا کہ یہ پالیسی ملک میں ایک خاص فکر اور نظریے کے فروغ کے لئے بنائی گئی ہے جو سیکولر تانے بانے کو ملیا میٹ کر دے گی اور اس سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوگا. انہوں نے اس خطرے کو پوری شدت سے محسوس کر لیاتھا کہ اس قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو پہنچے گا اور انہیں اپنے بچوں کو اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت برقرار رکھتے ہوئے جدید تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا. اس لئے انہوں نے مختلف طرح کے تعلیمی ادارے کھو لنے کی کوششیں تیز کردی تھیں َاور اس کے لئے تعلیمی بیداری مہم بھی شروع کر دی تھی. وہ چاہتے تھے کہ تمام اضلاع میں مسلمانوں کے اپنے معیاری تعلیمی ادارے ہوں جہاں بچے بچیاں پورے اسلامی تشخص کے ساتھ جدید تعلیم حاصل کر سکیں؛لیکن حضرت امیر شریعت کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا. امید ہے کہ امارت شرعیہ کی نئی قیادت اس طرف توجہ دے گی۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ کو اپنی مادری زبان سے بھی گہرالگاؤ تھا وہ سرکاری سطح پر اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی سے بے چین ہو جایا کرتے تھے. وہ چاہتے تھے کہ اردو ہر سطح پر پھلے پھولے. شاید یہی وہ بے چینی تھی جس نے اردو کو "اردو کارواں" کی شکل میں ایک مضبوط پلیٹ فارم عطا کیا جس کے تحت اردو کے لئے لڑائی لڑی جا سکے. وہ نوجوانوں پر مشتمل ایک" اردو دستہ" بھی بنانا چاہتے تھے جو سڑکوں پر آ کر جمہوری طریقے سے اردو کے حقوق کی لڑائی لڑ سکے. امارت شرعیہ کی موجودہ قیادت کو حضرت امیر شریعت علیہ رحمہ کے خاکے میں رنگ بھرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت امیر شریعت کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قربانیوں اورخدمات کو قبول فرمائے آمین۔

پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف انوکھا احتجاج

پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف انوکھا احتجاجحیدرآباد ۔ 17 ۔ مارچ : ( اردو دنیا نیوز۷۲ ) : ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوجانے اور مزید اضافہ کی قیاس آرائیوں کے بعد غریب و متوسط طبقہ کے افراد کافی پریشان ہیں اور گاڑیوں کے استعمال کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنے یا متبادل سواری کا انتظام کرنے کی حکمت عملی تیار کررہے ہیں ۔ مہاراشٹرا میں واقع ایک کالج کے لیاب اسسٹنٹ نے منفرد انداز میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بائیک کو گھر میں چھوڑ دیا اور گھوڑ سواری کرتے ہوئے کالج جارہا ہے ۔ جس کی ویڈیو سوشیل میڈیا میں تیزی سے وائرل ہوگئی ہے ۔ تفصیلات کے بموجب اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے شیخ یوسف نے لاک ڈاؤن کے دوران ' جگر ' نامی گھوڑے کو خریدا ۔ پٹرول کی قیمتیں سنچری پار کرلینے کے بعد اب گاڑی کے بجائے گھوڑے پر سوار ہو کر کالج جارہے ہیں ۔ جن کی ویڈیو کو اے این آئی نیوز ایجنسی نے ٹوئیٹر پر شیئر کیا ہے ۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی ہے ۔ شیخ یوسف نے بتایا کہ گھوڑ سواری سے پٹرول کا خرچ بچ گیا ہے اور ان کی فٹنس بھی بہتر ہوگئی ہے ۔۔ ن

بدھ, مارچ 16, 2022

karnataka hijab حجاب پر ارشد مدنی کاردعمل بتایا فیصلہ اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں

karnataka hijab حجاب پر ارشد مدنی کا
ردعمل بتایا فیصلہ اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں
نئی دہلی: صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی Syed Arshad Madni نے کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب karnataka hijab controversy کے سلسلہ میں دئے گئے فیصلہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کورٹ کا فیصلہ حجاب کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں ہے، جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ ضروری ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے۔ اس لحاظ سے حجاب ایک ضروری حکم ہے۔ اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام سے خارج نہیں ہوتاہے لیکن وہ گنہگار ہوکر اللہ کے عذاب اور جہنم کا مستحق ہوتا ہے ضرور ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ کہنا پردہ اسلام کا لازمی جزنہیں ہے شرعاغلط ہے، یہ لوگ ضروری کامطلب یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو آدمی اس کا حکم نہیں مانے گا، وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا، حالانکہ ایسانہیں ہے۔ اگر واجب اورفرض ہے تو ضروری ہے اس کے نہ کرنے پر کل قیامت کے دن اللہ کے عذاب کا مستحق ہوگا۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم اور ضروری نہیں ہے مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ یونیفارم مقرر کرنے کا حق اسکولوں کی حدتک محدود ہے جو معاملہ ہائی کورٹ میں زیرسماعت تھا وہ اسکول کا نہیں کالج کا تھا۔ اس لئے ضابطہ کے مطابق کالج کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں ہے رہا دستوری مسئلہ تو اقلیتوں کے حقوق کے لئے دستورکے آرٹیکل 25اور اس کی ذیلی شقوں کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں، وہ دستورمیں اس بات کی ضمانت دیتاہے کہ ملک کے ہر شہری کو مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، مذہبی قوانین پر عمل کرنے اور عبادت کی مکمل آزادی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: اویسی بولے: مسلمانوں کیلئے اللہ کا حکم ہے کہ وہ سختی سے نماز، حجاب، روزہ وغیرہ کی پیروی کرتے ہوئے تعلیم حاصل کریں لیکن اب لڑکیوں کو مجبور۔۔۔۔

ہندستان کی حکومت کا اپنا کوئی سرکاری ریاستی مذہب نہیں ہے لیکن یہ تمام شہریوں کو مکمل آزادی دیتاہے کہ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق کسی بھی مذہب پرچلیں اورعبادت کریں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ سیکولرازم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی فرد یا گروہ اپنی مذہبی پہچان ظاہر نہ کرے ہاں یہ بات سیکولرازم میں ضرورداخل ہے کہ حکومت کسی خاص مذہب کی پہچان کو تمام شہریوں پر مسلط نہ کرے حجاب ایک مذہبی فریضہ ہے جس کی بنیاد قرآن وسنت ہے وہی ہمارا فطری اورعقلی تقاضہ بھی ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...