Powered By Blogger

منگل, مارچ 29, 2022

حجاب معاملہ:آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی

حجاب معاملہ:آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے حجاب معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے 15 مارچ کے سنائے گئے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ واضح رہے کرناٹک ہائی کورٹ نے ریاستی اسکولوں میں لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔

مونسہ بشریٰ اور جلیسہ سلطانہ یاسین کی مشترکہ عرضی میں کہا گیا ہے کہ مذہب کے ماننے والے شخص کو "اپنے بالوں کو کپڑے کے ٹکڑے سے ڈھکنے کے لئے" ایڈجسٹ کیے بغیر لباس میں "یکسانیت" لانے پر بہت زیادہ زور دینا انصاف کا مذاق ہے۔

درخواست میں یہ بھی استدلال دیا گیا کہ جہاں تک قرآن پاک میں صحیفوں کی تشریح کا تعلق ہے اس پر تمام نظریات کے علمائے کرام جیسے کہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے درمیان اتفاق رائے ہے کہ حجاب کا رواج واجب (لازمی) ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ میں کئی اور عرضیاں دائر کی گئی تھیں۔ متعلقہ عرضی گزاروں نے اس معاملے کی فوری سماعت کی درخواست کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا

پردہ کیوں ضروری ہے؟ شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

پردہ کیوں ضروری ہے؟ 

 شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی 
مغربی تہذیب جو اخلاق ، شرافت اور حیا سے بالکل آزاد ہو چکی ہے ، وہ بجائے اپنی بے حیائی پر شرمسار ہونے کے مشرقی اور مذہبی اقدار و روایات کو ہی نشانہ بنا رہی ہے ، جیسے پاگل خانہ میں ایک صحت مند آدمی پہنچ جائے ، تو وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگے گا اور سارے پاگل سمجھیں گے کہ یہی شخص بیمار ہے ، اسی طرح بے حیائی کے غلبہ کی اس فضا میں جو لوگ شرم و حیا اور مذہبی اور اخلاقی قدروں کی بات کرتے ہیں وہ اجنبیِ شہر نظر آنے لگتے ہیں ؛ لیکن اس سے سچائی بدل نہیں سکتی ، حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے لیے پردہ فطرت کی آواز ہے ، یہ مہذب معاشرہ کی علامت ہے ، یہ مذاہب کی مشترکہ تعلیمات کا حصہ ہے اور خود ہندو روایات خواتین کے لیے پردہ کی قائل رہی ہیں ، یہ عورتوں کی تحقیر یا اُن کی اہانت نہیں ہے اور نہ یہ تعلیم و ترقی میں رکاوٹ ہے ۔

خدا کا نظام یہ ہے کہ جو چیز اہم بھی ہوتی ہے اور نازک بھی ، اسے حفاظتی حصار میں رکھا جاتا ہے ، انسان کے ہاتھ پاؤں پر کوئی حصار نہیں رکھا گیا ، لیکن دماغ کو سخت ہڈیوں والی کھوپڑی کے اندر رکھا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس کا تحفظ ہو سکے ، دل کی جگہ سینہ کی لچک دار ہڈیوں کے بیچ رکھی گئی ؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی حفاظت ہو سکے ، آنکھوں پر پلکوں کا پہرا بیٹھا یا گیا ، یہ ان اعضاء کی تحقیر ہے یا ان کی حفاظت ؛ بلکہ ان کا اعزاز ؟ —- نباتات ہی کو دیکھئے ، اگر آم پر دبیز چھلکوں کا لباس نہ ہوتا ، تو کیا مکھیوں اور بھڑوں سے بچ کر وہ انسانوں کے ہاتھ آسکتا ؟ اگر چاول اور گیہوں کے دانوں پر ان کی حفاظت کے لیے چھلکے نہ ہوتے ، تو انسان انہیں اپنی خوراک بنا بھی سکتا؟ خود انسانی معاشرہ میں دیکھئے ملک کا ایک عام شہری کھلے عام ہر جگہ آمد و رفت کرتا ہے ، نہ اس کے ساتھ سیکورٹی گارڈ ہے ، نہ اس کی رہائش گاہ پر پہرہ دار ہیں ۔

مردوں اور عورتوں میں عورتیں حفاظت کی زیادہ محتاج ہیں ، خدا نے ان کو مردوں کے لیے وجہ کشش بنایا ہے ، اسی لیے ان کی تراش و خراش میں حسن کاری اور لطافت کو قدم قدم پر ملحوظ رکھا گیا ہے ، اور لطافت ’’ نزاکت ‘‘ کو چاہتی ہیں ؛اسی لیے بھینس اور بیل تو لطافت سے خالی ہیں ، مگر خدا نے ہرن کو نازک اندام اور سبک خرام بنایا ہے ، عورتوں کے اس تخلیقی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے وہ حفاظت کی زیادہ محتاج ہوتی ہیں ، اگر کسی کا لڑکا شہر جائے ، اسے چار بجے شام کو آجانا چاہیے تھا ؛ لیکن وہ رات کے دس بجے لوٹے ، تو اس سے گھبراہٹ نہیں پیدا ہوتی ؛ لیکن اگر یہی واقعہ کسی لڑکی کے ساتھ پیش آئے ، تو دل کا قرار چھِن جاتا ہے ، اور ماں باپ کی کروٹیں بے سکون ہو جاتی ہیں ، اسی کو دیکھئے کہ پوری دنیا میں اور ہندوستان میں بھی مردوں اور عورتوں کے عددی تناسب میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے ، خدا نے ان دونوں صنفوں کو ایک توازن کے ساتھ پیدا فرمایا ہے ؛ تاکہ دونوں طبقات کی ضرورتیں پوری ہو سکیں اور پوری دنیا میں سو سال سے زیادہ عرصہ سے جمہوریت سکۂ رائج الوقت بنی ہوئی ہے ، جس کا ایک نعرہ عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینا بھی ہے ؛ لیکن اس کے باوجود آج بھی عورتیں حقوق مانگتی ہیں اور مرد انہیں حقوق و اختیارات دیتے ہیں ، یہ فرق کیوں ہے ؟ کیوں امریکہ و روس میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی اور یورپ میں مارگریٹ تھیچر کے علاوہ کوئی خاتون وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر نہیں پہنچ سکی ؟، یہ ظلم و حق تلفی کا معاملہ نہیں ہے ؛ بلکہ یہ قانونِ فطرت کا فیصلہ ہے ، قدرت نے خود دونوں کی صلاحیتوں میں فرق رکھا ہے اور صلاحیتوں کے لحاظ سے دائرۂ کار متعین کیا ہے ۔

پردہ بھی اسی فرق کا ایک حصہ ہے ، جانور بھی کھاتے پیتے ہیں ، اور شہوانی جذبات رکھتے ہیں ؛ لیکن ان کی فطرت لباس کے تصور سے عاری ہے ، انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عریانیت سے بچائے اور لباس زیب تن کرے ، وہی فطرت اس بات کا بھی مطالبہ کرتی ہے کہ مردوں کے مقابلہ عورتیں زیادہ ڈھکی چھپی ہوں ، فرض کیجئے دو لڑکیاں راستہ سے گذر رہی ہیں ، ایک لڑکی کا لباس چست اور شوخ ہو ، اس کا سر کھلا ہو ، اس کے بازو کھلے ہوں ، اس کا پیٹ نگاہِ ہوس کو دعوت نظارہ دیتا ہو اور اس کا کسا ہوا لباس جسم کے نشیب و فراز کو نمایاں کرتا ہو ، دوسری لڑکی سر تا پا نقاب میں ہو یا کم سے کم ڈھیلا ڈھالا لباس اور سر پر دو پٹہ ہو ، تو اوباش قسم کے لڑکے ان میں سے کس کو چھیڑنے کی کوشش کریں گے ، ہوس ناک نگاہوں کا تیرکس کی طرف متوجہ ہوگا ، برائی کے جذبات ان میں سے کس کے تیئں دلوں میں کروٹ لیں گے ؟ یقینا بے پردہ لڑکی اس کا نشانہ بنے گی ، کچھ سالوں پہلے جب دہلی میں لڑکیوں کو چھیڑنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کی کثرت ہوگئی تو پولیس کمشنر نے ہدایت جاری کی کہ لڑکیاں چست اور نیم عریاں لباس پہن کر بازاروں اورتعلیم گاہوں میں نہ جائیں ؛ کیوں کہ اس سے جرم کی تحریک پیدا ہوتی ہے ، مگر افسوس کہ حقوقِ نسواں کی تنظیموں نے اس معقول تجویز کے خلاف ایسا شور برپا کیا کہ تجویز واپس لینی پڑی ۔

پردہ کے بارے میں اسلامی تعلیمات تو نہایت واضح ہیں ہی ، قرآن مجید نے عورتوں کو پورے جسم کے علاوہ چہرہ پر بھی گھونگھٹ ڈالنے کا حکم دیا ہے ، ( الأحزاب : ۵۹) خواتین کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پیچھے کی صف رکھی اور یہ بھی فرمایا کہ ان کا مسجد میں نماز پڑھنے سے گھر میں نماز ادا کرنا بہتر ہے ، ( ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۵۷۰، ۶۷۸) ان سے بنیادی طور پر ایسی ذمہ داریاں متعلق کی گئیں جو اندرون خانہ کی ہیں ، اور انہیں شمعِ محفل بننے کے بجائے گھر کی ملکہ بنایا گیا ؛ لیکن اسلام کے علاوہ دوسرے مذہب میں بھی پردہ کا تصور رہا ہے ،بائبل میں کئی خواتین کا ذکر ملتا ہے جو کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھیں ؛ بلکہ بعض وہ ہیں جو پردے کی وجہ سے پہچانی نہیں گئیں ، آج بھی چرچوں میں حضرت مریم علیہا الصلاۃ و السلام کا جو فرضی مجسمہ بنایا جاتا ہے ، اس میں چہرے کے علاوہ پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے ، حالانکہ رومن تہذیب اور اس کے بعد یورپ میں عورتوں کے عریاں مجسمے بنانے اور جسم کے ایک ایک نشیب و فراز اور خط وخال کو نمایاں کرنے کا رواج عام ہے ،گویا جو لوگ عریانیت اور بے پردگی کے مبلّغ ہیں وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عورتوں کا تقدس باپردہ رہنے ہی میں ہے ۔

ہندو مذہب میں بھی قدیم عہد سے پردہ کی روایت رہی ہے ، سیتاجی کا مشہور واقعہ ہے کہ جب راون نے انہیں اغوا کیا ، تو شری رام جی کے چھوٹے بھائی لکشمن جی انہیں پہچان بھی نہیں سکے ، اور انہوں نے کہا کہ ایک ہی جگہ رہنے کے باوجود ہم نے کبھی اپنی بھاوج کی صورت نہیں دیکھی اورجب شری رام جی نے سیتا کے لیے ہار بھیجے ، تو سیتاجی مختلف عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں ؛ اس لیے لکشمن انہیں پہچاننے سے قاصر رہے ، یہ واقعات جن کا برادرانِ وطن کی کتابوں میں آج بھی ذکر موجود ہے ، واضح کرتے ہیں کہ ہندو مذہب میں عورتوں کی عفت و عصمت ، شرم و حیا اور پردہ و غیرہ کو کتنی اہمیت حاصل تھی ، یہی وجہ ہے کہ ہندو سماج میں اکثر اونچی ذات کی عورتیں پردہ کیا کرتی تھیں ، اب بھی مارواڑیوں ، کائستوں اور پرانی وضع کے حامل برہمن خاندانوں میں عورتوں کے باپردہ رہنے کا رواج ہے ، گو ان کے ہاں برقعہ کا استعمال نہیں ہوتا ؛ لیکن گھونگھٹ لٹکا کر رکھنے کا رواج پایا جاتا ہے ۔

انگریزوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت پیدا کرنے اوراس اختلاف سے فائدہ اٹھا کر اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ تاریخ میں غلط واقعات کو سمویا جائے اور ان کو ان دونوں قوموں کے درمیان فاصلہ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے ، انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’ خواتین کو مغل حملہ آوروں سے بچانے کے لیے پردہ کا رواج شروع ہوا ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے خاص کر عزت و آبرو کے معاملے میں زیادہ تر اخلاقی پہلو کو ملحوظ رکھا ہے ؛ کیوں کہ کسی بھی صورت میں غیر مسلم خواتین کی عزت و آبرو مسلمان کے لیے حلال نہیں ہو سکتی ، تقسیمِ ملک کے وقت مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کے اتنے واقعات پیش آئے کہ اگر آسمان خون کے آنسو بہاتا تب بھی بے جا نہ ہوتا ، مگر مسلم علاقوں میں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ شاذ و نادر ہی ایسے واقعات پیش آئے ؛ اس لیے یہ سراسر تہمت ،بہتان ، اپنی تاریخ سے ناآگہی اور دشمنوں کی گڑھی ہوئی کہانیوں پر یقین کرتا ہے ۔

پردہ نہ ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور نہ اس سے ترقی کے مواقع ختم ہوتے ہیں ،اسلامی تاریخ میں بہت سی باکمال خواتین پیدا ہوئی ہیں ، جن کے حالات پر کئی کئی جلدیں لکھی گئی ہیں ، اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی علم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے ، وہ معلم ہو سکتی ہیں ، وہ طبیب ہو سکتی ہیں ، وہ شرعی اصولوں کے مطابق تجارت کرسکتی ہیں ، وہ کارِ افتاء انجام دے سکتی ہیں ، وہ حدود و قصاص کے علاوہ دوسرے مقدمات میں جج بن سکتی ہیں ، اگر مردوں اور عورتوں کے لیے جداگانہ ضروریات کا نظم کیا جائے ، الگ الگ اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہوں ، الگ الگ ہاسپٹل ہوں ، عورتوں کے لیے مخصوص مارکیٹ ہوں ، و غیرہ ، تو خواتین کے لیے معاشی تگ و دو کے بھی اتنے مواقع پیدا ہو جائیں گے جو انہیں اِس وقت میسر نہیں ہیں اور وہ آزادانہ ماحول میں بہتر طور پر کام کرسکیں گی ، اگر ٹرین میں خواتین کے لیے مخصوص کوچ ہو سکتے ہیں ، بسوں میں ان کے لیے محفوظ سیٹیں ہو سکتی ہیں ، ہسپتالوں میں ان کے وارڈ الگ رکھے جاسکتے ہیں ، تو زندگی کے دوسرے شعبوں میں خواتین کے لیے علیحدہ اور مستقل انتظام ہو تو اس میں کیا دشواری یا برائی ہے ؟

پس ، پردہ خواتین کو مجرمانہ ذہن سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کا مقصد ان کی حفاظت ہے ، اگر معاشرہ میں پردہ کا رواج ہو جائے اور خواتین کے لیے ایسا نظم کیا جائے کہ وہ زندگی کے مختلف میدانوں میں مردوں سے الگ رہتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں ، تو یہ عورتوں کو بے پردہ کرنے ، مخلوط ماحول میں انہیں تناؤ کا شکار بنانے اور مردوں کی نگاہِ ہوس کو ٹھنڈی کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے سے کہیں بہتر ہوگا۔


پیر, مارچ 28, 2022

جب اسمبلی میں سی ایم یوگی اور اکھلیش یادو میں ہوا آمنا سامنا جانیں کیا ہوا

جب اسمبلی میں سی ایم یوگی اور اکھلیش یادو میں ہوا آمنا سامنا جانیں کیا ہوا

اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں منتخب ہونے والے نو منتخب ایم ایل ایز کی حلف برداری کا پروگرام جاری ہے۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ، نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک، ایس پی صدر اکھلیش یادو اور تمام سینئر ایم ایل اے کو پروٹیم اسپیکر رماپتی شاستری کی حلف دلائی جا رہی ہے۔

سب سے پہلے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ودھان سبھا میں قائد ایوان کے طور پر حلف لیا۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حلف برداری کے دوران ایوان جئے شری رام کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اراکین اسمبلی اور وزراء نے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کو مبارکباد دی۔

اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو نے بھی اسمبلی میں ایوان کے ایم ایل اے کے طور پر حلف لیا۔ اکھلیش یادو پارٹی اور اپوزیشن کے ایم ایل ایز کا استقبال کرتے ہوئے حلف لینے پہنچے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے نومنتخب ممبران اسمبلی کی حلف برداری کے دوران اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو سے گرمجوشی سے ملاقات کی۔ دراصل، اکھلیش یادو کو دیکھ کر سی ایم یوگی مسکرائے اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا۔ سی ایم یوگی نے بھی اکھلیش کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

کرہل سے ایم ایل اے اکھلیش یادو کے بعد نو منتخب ممبر اسمبلی برجیش پاٹھک نے بھی لیڈر آف ہاؤس کے طور پر حلف لیا۔ اس کے بعد سابق وزیر اور بی جے پی اسپیکر کے امیدوار ستیش مہانا نے ایم ایل اے کے طور پر حلف لیا۔ اس کے بعد ڈپٹی سی ایم برجیش پاٹھک، بے بی رانی موریہ، راج بالا سنگھ، منوہر لال کوری، اوماشنکر سنگھ اور وجے لکشمی گوتم، جیویر سنگھ، دھرم پال سنگھ، نند گوپال گپتا نندی، یوگیندر اپادھیائے، نتن اگروال، انیل راج بھر، راکے سمیت کئی ایم ایل اے۔ سچن نے عہدے کا حلف لیا۔

یوپی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے کہا کہ صرف بینچ بدلی ہے، میں اب اپوزیشن میں بیٹھوں گا۔ اپوزیشن حکومت کے احتساب کے لیے کام کرے گی اور اپوزیشن کا کردار مثبت ہوگا

سعودی عرب: اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز دھیمی رکھنے کی ہدایت

 

سعودی عرب: اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز دھیمی رکھنے کی ہدایت

ریاض : سعودی حکومت نے اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز دھیمی رکھنے کی ہدایات جاری کر دیں۔

عرب میڈیا کے مطابق رمضان المبارک کے حوالے سے سعودی وزارت امور نے مساجد کو ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مساجد میں آؤٹ ڈور لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صرف اذان دینے یا اقامت پڑھنے تک محدود کیا جائے۔

جاری ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر ایمپلیفائر کا والیوم ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ عرب میڈیا کے مطابق رمضان کے دوران تمام میڈیا کو مساجد سے لائیو ٹرانسمیشن پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ دوران نماز اماموں اور نمازیوں کی فلم بنانے کے لیے مساجد میں کیمروں کے استعمال پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

ہدایات میں افطار پارٹیوں کا انعقاد کرنے والے پرائیویٹ گروپس اور افراد کو کھانے کی تقسیم میں فضول خرچی اور اسراف سے گریز کرتے ہوئے توثیق شدہ ضوابط پر عمل پیرا ہونے کا کہا گیا ہے۔


انسانوں کی تقسیم___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

انسانوں کی تقسیم___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
    اللّٰہ رب العزت نے انسان کو قابل احترام واکرام بنایا ، اس کی شکل وصورت کو دوسری مخلوقات سے اتنا خوبصورت اور اتنا ممتاز کر دیا کہ جو دیکھے دیکھتا رہے ، کامنی کی مورت اور موہنی سی صورت ، یہ بھی بتایا کہ سارے انسان کا سلسلہ ایک آدم سے ملتا ہے، جو اس کائنات میں انسانوں کا باوا ہے اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے، ذات پات، اونچ نیچ، چھوٹ چھات کے لیے انسانی سماج میں گنجائش نہیں ہے ، اسلام کی یہ واضح تعلیمات اپنے کو بر تر سمجھنے اور دوسرے کو کم تر سمجھنے کی فطرت رکھنے والے بر ہمنوں کو پسند نہیں؛ کیوں کہ ان کے یہاں انسانوں کی درجہ بندی ہے، برہمن ، چھتری ، دیشن اور شودر، اس برہمنی تقسیم میں حکومت اور راج پاٹ کا سارا اختیار برہمن کو مل گیا اور سب سے کمزور پوری زندگی غلامی پر مامور شودر قرار پائے۔انہیں باور کرایا گیا کہ تمہاری پیدائش اسی لیے ہوئی ہے کہ تم ہماری غلامی کرو اور ہمارے گوموت کو صاف کرو، اس تقسیم کے نتیجے میں سماج کا یہ طبقہ جو پہلے شودر اور اب دلت اور ہریجن کہا جاتا ہے ، سماج سے کٹ کر رہ گیا اور وہ اچھوت قرار پایا ، وید اور پران کے اشلوک اس کے کان میں پڑ جانے پر شیشہ پگھلا کر ڈالا جاتا رہا ، اس کی ساری استعمال کی چیز ایسی نجس وناپاک قراردی گئیں جس کو بڑی ذات والے چھو بھی نہیں سکتے تھے، اس صورت حال نے ان کے اندر احساس کمتری پیدا کر دیا ، وہ دوسری ذات کے لوگوں کے سامنے گردن اٹھا کر چل نہیں سکتے تھے، جوتے پہن کر ان کے دروازوں سے گذر نہیں سکتے تھے، اچھی نوکریاں ان کے لیے دستیاب نہیں تھیں ،اس لیے معاشی طور پر بھی وہ مفلس وقلاش، دوسروں کے رحم وکرم پر اور دوسرے کے پھینکے ہوئے جوٹھے کھا کھا کر زندگی گذارتے رہے ، مسلمانوں میں اس فکر کے رواج پانے کی کوئی وجہ نہیں تھی ، لیکن ہم جس سماج میں رہتے ہیں، اس کے چاہے ان چاہے اثرات ہماری زندگی پر پڑتے ہیں ، اور ہم اس تہذیب وثقافت وکلچر کو اپنا لیتے ہیں ،مسلم سماج کے ساتھ بھی یہی ہوا ، اس نے ان چاہے ہندو سنسکرتی کو قبول کر لیا اور ان کے یہاں بھی اشراف وارذال کی تقسیم انسانوں کے درمیان ہو گئی ، کہیں زمین دار اور رعیت کی تقسیم ہوئی  ، کہیں ذات پات کی لعنت نے اپنے پاؤں جما لیے ، لسانی اور علاقائی عصبیت نے بھی بانٹنے کا کام کیا، اس طرح یہاں بھی چھوٹی ذات بڑی ذات کا غیر اسلامی تصور داخل ہو گیا ، آزادی کے بعد دستور میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے ہریجنوں اور دلتوں کے لیے رزرویشن پر زور دیا تا کہ وہ سماج کی میں اسٹریم مین شامل ہو جائیں؛ چونکہ ہمارے یہاں ذات پات کا تصور مذہبی طور پر نہیں تھا اس لیے مسلمانوں کو وہ سہولتیں ان دفعات کے تحت حاصل نہیں ہو سکیں، جو ہندوؤں کے یہاں اسی کام کے کرنے والے کو حاصل تھیں، سرکاری مفادات کے حصول کے لیے مسلمانوں نے بھی ذات پات کی بنیاد پر رزرویشن کا مطالبہ کیا ،جس میں کچھ کامیابی تو ملی؛ لیکن سماج میں اس بنیاد پر کھائی اور گہری ہو گئی ، لالو پرشاد یادو کے عہد حکومت میں اسے خوب ہوا دیا گیا اور ہر ذات کی الگ الگ ریلیوں کا انعقاد کیا گیا اس طرح ہر برادری کی تنظیم وجود میں آگئی ، مؤمن ، راعین ، حوارین ، کے نام پر تنظیمیں پہلے سے موجود تھیں؛ لیکن اب اس میں صدیقیین اور دوسری بڑی ذات سے متعلق لوگوں کی بھی تنظیم قائم ہو گئی ، اس صورت حال مسلمانوں کے درمیان آپسی رسہ کشی میں اضافہ ہوا اور ان خود ساختہ بنیادوں پر سیاسی سماجی اور معاشی مفاد کے حصول کی کوشش تیز تر ہو گئی ؛ حالانکہ اللّٰہ رب العزت نے قبائل اور خاندان کو صرف تعارف کا ذریعہ قرار دیا ہے ، اس بنیاد پر کوئی بھی شخص مکرم ومعظم نہیں ہو سکتا ، قابل احترام تو وہ ہے جو اللّٰہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے یعنی بڑائی کی بنیاد تقویٰ ہے، نہ کہ ذات پات ، اسلامی صاف وشفاف تعلیمات یہی ہے کہ انسان ایک نفس سے پیدا ہوا ہے؛ اس لیے مندرجہ بالا بنیادوں پر انسانوں کی تقسیم کو کسی بھی درجے میں شرعی نہیں کہا جا سکتا ۔
اسلام کے اس تصور مساوات اور برابری کو کچھ لوگ یہ کہہ کر کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ پھر شادی بیاہ میں کفو کی رعایت کا کیا مطلب ہے ، در اصل یہ اعتراض ایک غلط فہمی پر مبنی ہے کہ شریعت نے کفو میں رشتہ ضروری قرار دیا ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے، کفاء ت اور برابری دین میں ہو یہ شرعی مطالبہ ہے؛ اسی لیے دین میں اختلاف ہونے کی صورت میں رشتہ ہو ہی نہیں سکتا ، بقیہ اور چیزیں جو اس نام پر رائج ہیں، وہ وقتی مصلحت کی بنیاد پر اپنے اپنے طور پر لوگوںنے رائج کر لیا ہے ۔ اصل کفو کا ترجمہ Maichingہے، دین میں Maichingقرآن کریم کا مطالبہ ہے ، بقیہ لڑکی کو حق ہے کہ وہ اپنی زندگی گذارنے کے لیے جن چیزوں میں برابری ضروری سمجھتی ہے، اسے دیکھ لے، کیا آپ کو یہ غیر فطری لگتا ہے کہ جب عورتیں ساڑی کے ساتھ بلاؤز ، چوڑی چپل بلکہ چھوٹے بچوں کے کپڑوں میں بھی Maichingدیکھتی ہیں ، تو جس کے ساتھ پوری زندگی گذارنی ہے اور خوش گوار زندگی کامدار جس پر ہے اس کا حق اس سے چھین لیا جائے، در اصل یہ کفائت رشتے کو مستحکم اور پائیدار بنانے کے لئے ہے، ایسا ہو سکتا ہے کہ ذات برادری،معیار زندگی، خاندانی وقار دونوں خاندان کا برابر ہو ، لیکن لڑکا کچے چمڑے کا کام کرتا ہو اور لڑکی عطر والے کی بیٹی ہو تو سب کچھ برابر ہونے کے با وجود ایک دوسرے کا کفو انہیں نہیں قرار دیا جاسکتا ، کیونکہ چمڑے کی بو کے ساتھ عطر کی خوشبو کا جوڑ نہیں ۔

اتوار, مارچ 27, 2022

صحافت ایک مشن ہے، اس کا سیدھا رشتہ سماج سے: وجے کمار چودھری

صحافت ایک مشن ہے، اس کا سیدھا رشتہ سماج سے: وجے کمار چودھری
بھارت کے تعمیر نو میں اردو اخبارات کا اہم رول : شرون کمار
 اردو پر ہی نہیں بلکہ سبھی زبانوں کے اخبارات کو بحران کا سامنا:شیوانند تیواری
اردو صحافت کے دوسو سال مکمل ہونے پر اردومیڈیافورم بہار کے زیراہتمام سیمینار، گفتگوو مشاعرہ کا انعقاد
پٹنہ،صحافت ایک مشن ہے یہ منافع خوری کی چیز نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سیدھے سماج سے ہوتا ہے۔ عام لوگوں کا بھلا جس میں ہو، سماج کے مسئلہ کو حکومت کی دہلیز تک پہنچانے اور حکومت کی پالیسیوں کو عوام تک پہنچانے کا نام صحافت ہے۔ مذکورہ باتیں وزیرتعلیم جناب وجے کمار چودھری نے اردو صحافت کے دو سوسال مکمل ہونے کے موقع پر آج اردو میڈیا فورم کے زیراہتمام بہار اردو اکادمی میں منعقد عظیم الشان تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیرموصوف نے کہا کہ صحافت میں غلط چیزوں کی مذمت ہونی چاہئے اور صحیح چیزوں کی ستائش ہونی چاہئے۔ اس سے سماج میں تبدیلی آتی ہے۔ آج سوشل میڈیا کے آجانے سے بڑا چیلنج پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ صحافت صرف حقیقت بیان کرتا ہے اور وہ عوام کو ڈائرکشن بھی دیتا ہے کہ اب کیا ہونا چاہئے۔ جبکہ سوشل میڈیا بغیر تحقیق کے صرف انفارمیشن دینے کا کام کرتا ہے۔ جس سے کبھی کبھی حالات بگڑ جاتے ہیں۔ باتیں بگڑتی تب ہیں جب میڈیا اہل کار خبریں پہنچانا چھوڑ خبریں فروخت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اور جب آپ کا نشانہ فروخت کرنا ہوجائے تو وہ سیدھے منافع سے جڑ جاتا ہے جس سے خبریں پراگندہ ہوتی ہیں اور آج کل تو الیکٹرانک میڈیا پر باضابطہ دانشور حضرات اسپانسرڈ بحث کرتے ہیں۔ جس سے روشن خیال لوگوں کا نقصان ہوتا ہے انہوںنے کہا کہ آج جب اردو میڈیا فورم دوسوسالہ جشن اردو صحافت منارہی ہے تو میں یہ عرض کروں کہ آج سے دو سو سال قبل کلکتہ سے اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما نکلا تھا جس کے مدیر اور مالک ہریہردت اور سدا سکھ دونوں ہندوتھے۔ 
انہوں نے کہا کہ اخبار صرف اخبارنہیں ہوتابلکہ صحافت ادب کی بنیاد ہوتی ہے جو ادب تہذیب سے جڑ جائے وہ سماج کو روشنی دکھانے کا کام کرتی ہے۔ سماج جب بے سمت ہوجاتا ہے تو ادب اس کو راستہ دکھاتی ہے اور ادب کی بنیاد صحافت ہے۔ انہوںنے خورشید اکبر کے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ یہ افواہ غلط ہے کہ ہائی اسکولوں سے اردو کی لازمیت ختم ہوگئی ہے اس لئے اردو کی لازمیت کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جس اسکول میں بھی اردو کے طلباءہوں گے وہاں اردو ٹیچر کو مامور کرنے کا کام کیا جائے گا۔ وزیرموصوف نے کہا کہ نتیش کمار حکومت اس ریاست کے عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے مسلسل کام کررہی ہے۔ اور ایمانداری سے کام کررہی ہے۔ خصوصا اقلیتی طبقہ کے مسائل کو حل کرنے کا بھی کام ہورہا ہے۔ باوجود اس کے اگر آپ لوگوںکو کسی بھی محکمہ سے شکایت ہے تو مجھ سے براہ راست مل کر مسائل رکھیں ۔ اس کا حل کیا جائے گا۔ 
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیہی ترقیات کے وزیرجناب شرون کمار نے کہا کہ بھارت کے تعمیر نو میں اردو اخبارات کا اہم رول رہا ہے۔ مولانا محمدعلی، جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، سر سیداحمد خان وغیرہ نے اپنے اخبارات کے ذریعہ آزادی کی جنگ لڑی اور عوام کو بیدار کیا۔ جس سے بھارت کو آزادی ملنے میں مدد ملی۔ انہوںنے کہا کہ جس طرح ہماری حکومت نے دیگر شعبوں میں کام کیا اسی طرح ہم لوگ اردو کی فلاح و بہبود کے لئے بھی کام کررہے ہیں۔ کیونکہ اردو بہت میٹھی اور شیریں زبان ہے۔ یہ ہندوستان کی زبان ہے بہار کے لوگ اپنی زبان سے بہت محبت کرتے ہیں۔بہار کی مٹی میں اتنی تاثیر ہے اگر بہار کے لوگوں کا امتحان آسمان پر بھی ہوجائے تو کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوںنے کہا کہ وزیراعلی نتیش کمار صرف ووٹ کی سیاست نہیں کرتے وہ سب کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ اردو صحافت کے لئے جو لوگ بھی آگے چل رہے ہیں ان کے مسائل کو حل کیا جائے گا۔ 
راشٹریہ جنتا دل کے نائب صدر جناب شیوانند تیواری نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج صرف اردو پر ہی نہیں بلکہ سبھی زبانوں کے اخبارات کو بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بد قسمتی سے اردو اور ہندی کا بٹوارہ ہوگیا ۔ اردو کو جب سے مسلمانوں کی زبان سمجھا جانے لگا۔ اسی وقت سے اردو صحافت بحران کا شکار ہوگئی۔ آج کل تو بہت سہولیات ہیں۔ لیکن ایک زمانہ تھا جب گاندھی جی چمپارن آئے تھے تو اس وقت خبروں کی ترسیل میں کافی دشواریاں تھیں۔ پھر بھی گاندھی کو گاندھی بنانے کا کام اردو صحافت نے کیا تھا۔ 
صدارتی خطبہ میں مفتی ثناءالہدی قاسمی نے کہا کہ اردومیڈیا فورم کی جانب سے دو سو سالہ جشن میں جو آوازیں اٹھی ہیں اسے حل کیا جائے گا۔ ہمیں خوشی ہے کہ فورم کی جانب سے جو آواز اٹھی ہے اس کو قبول کیا گیا۔ انہوںنے فورم کے تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا کہ کورونا اور نامساعد حالات کے باوجود پروگرام کو منعقد کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 
اردو میڈیافورم کے سرپرست اشرف فرید نے اردو صحافت کا منظرنامہ پیش کیا اور کہا کہ آج اردو اخبار نکالنا بہت ہی مشکل کام ہے ۔ اقتصادی پریشانیوں کی وجہ سے کئی اخبارات بند ہوگئے ہیں۔ لہذا انہوںنے اس جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ 
جلسہ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور کنہہ مشق شاعر ناشاد اورنگ آبادی نے مہمانوں کے لئے استقبالیہ نظم پڑھی۔ نظامت کے فرائض اردو میڈیا فورم کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ریحان غنی بحسن خوبی انجام دیتے ہوئے کہا کہ اگر اردو اخبارات میں بھی سلیقے سے رپورٹنگ کی جائے اور ایمانداری سے چیزیں رکھی جائیں تو حکومت کی توجہ مبذول ہوسکتی ہے۔ لہذا حکومت پر الزام لگانے کے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ انہوںنے اردو ، عربی ، فارسی کے پروفیسروں کی بحالی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اردو اخبار کی جو رپورٹنگ کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اس موقع پر صحافت پر ڈاکٹر ذاکر حسین کی ایک ضخیم کتاب کا اجراءکیا گیا۔
اس موقع پر شاعری اور اردو صحافت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پٹنہ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کہا کہ شاعری اور صحافت میں بے حد گہرا رشتہ ہے۔ اگر یہ دونوں جڑواں بہنیں نہیں ہیں تو سہیلی ضرور ہیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کی معاون ہیں۔ اگر شاعر اپنی مقبولیت کے لئے اخبار کا سہارالیتا ہے تو وہ عوامی بن جاتا ہے اور اخبارات بھی شہرت کا سبب بنتے ہیں۔ 
تقریب سے خطاب کرنے والوں میں مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلرپروفیسر توقیر عالم، معمر صحافی محمد مظاہرالدین ایڈوکیٹ کے نام قابل ذکر ہیں۔ 
شکریہ کی تجویز اردومیڈیا فورم کے سکریٹری ڈاکٹرانوارالہدی نے پیش کی۔ اس موقع پر اردو میڈیا فورم کے نائب صدر ڈاکٹر اظہاراحمد، ڈاکٹر سیدشہبازعالم،سکریٹری اسحاق اثر،کنوینر رابطہ کمیٹی نواب عتیق الزماں، ضیاءالحسن،میڈیا کمیٹی کے کنوینر ساجد پرویز، انواراللہ، مبین الہدی، جاوید احمدنے پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
 پروگرام میں شرکت کرنے والی اہم شخصیتوں میں انوارالحسن وسطوی، کلیم اشرف، شہنواز عطا، آفتاب احمد، راجیش کمار، محمد حسنین، محمد نعمت اللہ، اشرف استھانوی، سید مسعودالرحمان، ڈاکٹر اسلم جاوداں، ڈاکٹر عبدالواحد انصار، ڈاکٹر مکرم حسین ندوی، ڈاکٹر اشرف النبی قیصر، شاہ فیض الرحمان، کاشف رضا، کاشف احمد، نوشاداحمد، وغیر ہ کے نام قابل ذکرہیں۔
دوسرے اجلاس میں مشاعرہ کا انعقادکیا گیا جس میںپروفیسر اعجاز علی ارشد، اثرفریدی، افتخار عاکف، ناشاد اورنگ آبادی، معصومہ خاتون، نکہت آرا ، معین گریڈیہوی، بے نام گیلانی ندیم جعفری، ڈاکٹر شمع یاسمین نازاں، ڈاکٹر نسیم فرحانہ نے اپنی شاعری پیش کی۔

وقار کی حفاظت ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

وقار کی حفاظت ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اپنی سنجیدگی ، تحمل ، برداشت اور بُرد باری کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے مختلف ذہنیت کے لوگوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی او راسے کامیابی کے ساتھ عرصہ سے چلا رہے ہیں، انہوں نے انتہائی جونیرتیجسوی یادو کو نائب وزیر اعلیٰ بنا کر بھی کام نکالا اور اب بھاجپا کے ساتھ مل کر بہار کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ اقتدار کی خواہش ہے یا بہار کی ضرورت ۔
 ان خصوصیات کے با وجود 14مارچ 2022کو وزیر اعلیٰ نے اپنا آپا کھو دیا اور اس بار وہ اسپیکر سے اسمبلی میں بھڑ گئے   ایک سوال کے جواب میں متعلقہ وزیر نے جو کچھ کہا اس سے اسپیکر مطمئن نہیں ہوئے ، معاملہ انہیں کے اسمبلی حلقہ کا تھا، انہوں نے جواب کے لیے اگلی تاریخ مقرر کر دی ، وزیر اعلیٰ اس وقت اسمبلی میں نہیں تھے، لیکن وہ کاروائی دیکھ رہے تھے ، انہوں نے اس کا نوٹس لیا اور انتہائی جذباتی ہو کر  اسمبلی حاضر ہوئے اور صدر نشیں (اسپیکر) پر برس پڑے، انہوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’سدن اس طرح نہیں چلے گا‘‘ انہوں نے اپنا وہ جملہ بھی دہرا یا کہ ہم کسی کو پھنساتے نہیں اور کسی کو بچاتے نہیں، یہ جن کا کام ہے وہ کر رہے ہیں، اسپیکر نے بار بار اپنی بات کہنی چاہی اور کہتے رہے کہ ’’آسن‘‘ کی بھی سنیے، لیکن وہ مسلسل بولے جاتے رہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسمبلی میں صدر نشیں کی اس قدر بے عزتی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ، اس بات کا احساس وزیر اعلیٰ کو بھی ہوا اور صدر نشیں کو بھی ، وزیر اعلیٰ اس واقعہ کے بعد گورنر سے ملے او صدر نشیں اسمبلی کی کارروائی چلانے کے لیے اگلے دن حاضر نہیں ہوئے، یہ ان کی خفگی کا اظہار تھا، دوسرے دن بھی ہنگامہ کی وجہ سے کاروائی ملتوی کرنی پڑی۔
 اس سے قبل ایک بار اور وزیر اعلیٰ بے قابو ہو گیے تھے، موقع تیجسوی یادوکی تقریر پر اظہار خیال کا تھا، اس موقع سے پہلی بار اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کو آپا کھوتے دیکھا تھا اور اسمبلی کے ارکان ہی نہیں ، میڈیا کے لوگ بھی انگشت بدنداں تھے کہ تیجسوی تو کل کا بچہ ہے ، آخر وزیر اعلیٰ کو کیا ہو گیا ہے ؟
 اسمبلی میں جو کچھ ہوا، بُرا ہوا، مسئلہ شخصی نہیں  ہے، شخصیتیں آتی جا تی رہتی ہیں ، مسئلہ عہدوں کے وقار کا ہے ، دائرے اور حدود کا ہے ، یہ دائرے ٹوٹ گیے او روقار کا لحاظ نہیں کیا گیا تو اسمبلی میں ارکان ہاتھا پائی او رکرسی میز الٹتے رہتے تھے ، اب صدر نشیں (اسپیکر) کی بھی کوئی نہیں سنے گا ، ایسے میں اسمبلی میں کارروائی چلانا مزید دشوار تر ہوجائے گا جو پہلے بھی کبھی آسان نہیں تھا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...