Powered By Blogger

بدھ, مارچ 30, 2022

اردو صحافت: دو سو سال کا تاریخی سفر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اردو صحافت: دو سو سال کا تاریخی سفر 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
با خبر ہونا اور رہنا انسان کی ضرورت ہے ، اس سے انسان کے تجسس کی تسکین ہوتی ہے اور ملکی اور تنظیمی کاموں کی انجام دہی اور فیصلے لینے میں سہولت بھی ، قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام تک خبر پہونچا نے کے لیے ہُد ہُد کا ذکر ہے، بعد کے دور میں یہ کام کبوتر سے لیا جانے لگا ، مغل بادشاہوں نے اس کے لیے منزل اور چوکیاں بنائیں ؛تاکہ تیز رفتاری کے ساتھ خبروں کے ارسال اور ترسیل کا کام کیا جا سکے ، یہ کام زیادہ منظم انداز میں ہو اور عوام تک بھی احوال وکوائف پہونچیں اس کے لیے مختلف ملکوں میں اخبارات کا سلسلہ شروع ہوا اور ہر ملک نے اپنی زبان میں اس کو رائج کیا، ہندوستان میں مغلیہ دور میں فارسی کا چلن تھا اس لیے اخبارات فارسی میں جاری کیے گیے ، پھر دھیرے دھیرے اردو کا چلن ہوا، شاعری اردو میں ہونے لگی، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اردو زبان کو فروغ ملا ، اور یہ پلنے اور بڑھنے لگی، چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اخبارات بھی اردو میں نکالے جائیں، اس طرح اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما کے نام سے ۲۷؍ مارچ ۱۸۲۲ء کو نکلا، اور اب۲۷؍ مارچ ۲۰۲۲ء کو اردو صحافت نے دوسو  سال کا کامیاب تاریخی سفر مکمل کر لیا۔
 دوسو سال کی تاریخ کو مختصر مضمون میں سمیٹنا ایک دشوار تر عمل ہے ، خصوصا اس لیے کہ اردو صحافت ان دو سو سالوں میں تناور درخت ہی نہیں، شاخ در شاخ ہو گئی ہے ، اب صحافت صرف نامہ نگاری اور خبروں کی ترسیل ہی کا نام نہیں ہے ، اس میں مضامین ، تبصرے، تجزیے ، کالم نگاری سب کا دخول ہو گیا ہے، پھر موضوعاتی اعتبار سے بھی اس میں خاصہ تنوع پیدا ہو گیا ہے ، اب مذہبیات ، معاشیات ، فلمیات، کھیل کود وغیرہ کے لیے صفحات مختص ہیں، خواتین اور اطفال کے صفحات اس پر مستزاد، اسی طرح پہلے اخبارات روزنامے ہوا کرتے تھے، لیکن اب صحافت کے دائرے میں ہفتہ واری پرچے، ماہانہ ، سہ ماہی، شش ماہی رسائل ، جرنل اور خبر ناموں نے بھی اپنی جگہ بنا لیاہے، عوامی ذرائع ابلاغ کا عصری منظرنامہ بھی کافی بدل گیا ہے ، پہلے صرف پرنٹ میڈیا تھا پھر الکٹرونک میڈیا آیا اور اب سوشل میڈیا کی وسعت نے صحافت کو ایک نئے رنگ وآہنگ سے دو چار کر دیا ہے ، اب صحافت انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی ہو رہی ہے ، بڑی تعداد میں برقی اخبارات ورسائل آن لائن نکل رہے ہیں اور ان کے قاری کا حلقہ پرنٹ میڈیا سے کہیں زیادہ ہے ، بصیرت، ملت ٹائمس ،قندیل، علماء بہار، ارباب دانش وبینش ، امارت سوشل میڈیا ڈسک، اردو میڈیا فوم ، اردو دنیا، اس آر میڈیا، العزیز میڈیا گروپ وغیرہ کے قاری کا پرنٹ میڈیا سے کہیں زیادہ ہے، ان تمام قسم کے اخبارات ورسائل میں کسی حیثیت سے بھی جو جڑگیا ہے ، وہ صحافی کہلاتا ہے، المیہ یہ بھی ہے کہ اخبارات کے مالکان جن میں کئی دو چار سطر لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے، وہ بھی بڑے صحافی کہلاتے ہیں۔ ایڈیٹر مالکان ہوتے ہیں اور ان کی طرف سے دوسرے لوگ مضامین اداریے تبصرے لکھتے رہتے ہیں اور مالک مدیر کی حیثیت سے مشہور اور معروف ہوجاتا ہے ، میں اسے استحصال سمجھتا ہوں ان حضرات کا جو واقعتا صحافی ہیں، لیکن ایسا ہوتا ہے اور خوب ہوتا ہے ، اردو صحافت کے اس دو سو سال کے آخری پڑاؤ پر ہم لوگ جس دور میں جی رہے ہیں اردو صحافت یہاں تک پہونچ گئی ہے ، اس کے بعد اور کون کون مراحل آئیں گے ، اللہ جانے۔اس معاملہ میں روزنامہ ہمارا سماج کی تعریف کرنی ہوگی کہ جو اداریہ لکھتا ہے اس کا نام اس کالم میں باضابطہ درج ہوتا ہے۔
جہاں تک اخبارات کے مشمولات کا معاملہ ہے وہ ہر دور میں اپنی ضرورت کے اعتبار سے رہا ہے ، شاہی دور حکومت میں تونہیں؛ البتہ انگریزی عہد حکومت اور اس کے بعد بھی اردو اخبارات نظریاتی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم رہے ، ایک حصہ حکومت موافق رہا اور دوسرا حکومت مخالف ، آج بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں، البتہ پہلے جو رویہ اختیار کیا جاتا تھا اس میں کہیں نہ کہیں ضمیر کی آواز بھی شامل ہوتی تھی ، اب ایسا نہیں ہے ، اب حکومت کی موافقت میں ہرنا جائز کو جائز کہنے کا جو طریقہ رائج ہو گیا ہے اور جو گودی میڈیا کا طرۂ امتیاز ہے وہ ضمیر کی آواز پر نہیں حکمراں طبقے کی حصول رضا مندی اور قوت خرید پر موقوف ہے ، اب کم صحافی ہیں، جو حق کی بات کہتے ہیں او راعلان کرتے ہیں کہ ہم غیر جانب دار نہیں، حق کے طرف دار ہیں، جن لوگوں نے اس انداز کی صحافت کی ان میں اردو کے اولین شہید صحافی مولوی محمد باقر تھے، جن کے  ہفت روزہ دہلی اردو اخبار نے انگریزوں کی ناک میں دم کر دیا تھا، بعد کے دور میں مولانا ابو الکلام آزاد کے الہلال، مولانا محمد علی جوہر کے ہم درد،مولانا غلام رسول مہر اور عبد المجید سالک کے’’انقلاب‘‘ مولانا حسرت موہانی کے اردو معلیٰ او رمولانا ظفر علی خان کے زمیندار کا شمار ایسے ہی اخبارات میں ہوتا ہے، جس نے حق کی آواز بن کر عوامی بیداری کا کام کیا اور ملک کی آزادی کے لیے راستے ہموار کیے، مذہبی اور مشرقی اقدار کا صحافت میں ذکر ہو تو مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے صدق اور سچ کوکس طرح فراموش کیا جا سکتا ہے، مولانا عبد الماجد دریا آبادی صاحب طرز ادیب وصحافی تھے، وہ چھوٹے چھوٹے جملے میں پتے کی بات کہہ جاتے تھے، کبھی کبھی ان کے ایک جملہ کا تبصرہ دوسروں کے بڑے بڑے مقالوں پر بھاری پڑجاتا تھا، جب جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برات آئی تو انہوں نے مختصر ترین تبصرہ کیا اور لکھا کہ’’ ننگی اور گندی کتاب ہے‘‘، صحافت کی دنیا میں مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے طرز کو تو کوئی برت نہیں سکا ، لیکن مذہبی روایات اور سچی خبروں کی اشاعت کے اس سلسلہ کومولانا عثمان فارقلیط نے الجمعیۃ کے ذریعہ اور مولانا عثمان غنی نے پہلے ’’امارت‘‘ اور پھر’’ نقیب‘‘ کے ذریعہ تسلسل عطا کیا، مولانا عثمان غنی کے بے باک اداریوں نے انگریزوں کو اس قدر اپنی طرف متوجہ کیا کہ ’’امارت‘‘ سے ضمانت طلب کی گئی ، جرمانہ لگایا گیا ، مدیر کو قید کی سزا سنائی گئی اور ضمانت کی رقم ادا نہ ہونے کی وجہ سے ’’امارت‘‘ کو بند کر دینا پڑا، کم وبیش نوے سال سے جاری نقیب ترجمانِ امارت شرعیہ آج بھی اسی روش پر قائم ہے اور ان دنوں اس کے اداریے ملک کے اخبارات ورسائل میں نقل کیے جاتے ہیں اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ ہفت روزہ اخبار میں نئی دنیا دہلی بھی قارئین کو زمانۂ دراز تک اپنی گرفت میں رکھنے میں کامیاب رہا، اس کے جذباتی مضامین اور اداریے شاہد صدیقی کی ادارت میں انتہائی مقبول رہے، ’’عوام‘‘ نے بھی اس روش پر چلنا چاہا لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔
دو سو سالہ اس سفر کے آخری ستر سالوں کو دیکھیں تو جمیل مہدی کے عزائم ، پٹنہ سے نکلنے والے صدائے عام، سنگم، ساتھی، قومی تنظیم، پندار، فاروقی تنظیم وغیرہ نے قارئین کے بڑے حلقے کو اپنے فکر ونظر سے متاثر کیا، اردو صحافت کی بد نصیبی رہی کہ صدائے عام، ساتھی وغیرہ کو بند ہوجانا پڑا، سنگم نکل رہا ہے لیکن غلام سرور کا قلم موجود نہیں ہے ، غلام سرور صحافت کی دنیا کا شیر تھا، اور بجا طور پر انہیں شیر بہار کہا جاتا تھا، جو بقول کلیم عاجز عمر کی آخری منزل میں سیاست کے پنجرے میں قید ہو گیا تھا، بڑی زیادتی ہو گی اگر ہم یہاں پر راشٹر یہ سہارا کا ذکر نہ کریں ، جو عزیز برنی کی ادارت کے دور میں مسلمانوں کا انتہائی پسندیدہ اخبار تھا اور تاریخ کے حوالہ سے عزیز برنی کے مضامین ومقالات اور اداریے کو قارئین حق کی ترجمانی سمجھا کرتے تھے۔ 
اردو صحافت کی اصول سازی کی بات کریں تو اس میں’’ قومی آواز‘‘ کا کردار بڑا اہم رہا ہے ، اسی طرح اردو صحافت پر جو نشیب وفراز آئے اور اسے جو ارتقاء کے مراحل نصیب ہوئے، ان میں بھوپال، کشمیر، بنگلور، پٹنہ، لکھنؤ، کولکاتہ وغیرہ کے اخبارات ورسائل کی جد وجہد اور تعمیری انداز میں کام آگے بڑھانے کے ذوق وجذبہ کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے، اردو صحافت کو آگے بڑھانے میںجدید ٹکنالوجی کے استعمال اور اردو نیوز ایجنسیوں کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس طرح اردو صحافت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور خبروں کو مصدق بنانے کے لیے پروگرام کی تصویروں کے استعمال نے اردو اخبارات کو قارئین کی پسند بنایا، ان اخبارات نے اردو کی ترویج واشاعت اور اسے گھر گھر پہونچانے کی مثالی خدمات بھی انجام دی، اس طرح ہم اردو کو مقبول بنانے میں اردو اخبارات کے اس اہم کردار کو فراموش نہیں کر سکتے۔
 اخبارات سے آگے بڑھ کر تحقیقی ، مذہبی ، تعلیمی اور ادبی رسائل کا رخ کریں تو تہذیب الاخلاق علی گڈھ ، معارف اعظم گڈھ ، تحقیقات اسلامی علی گڈھ، مطالعات دہلی، بیسویں صدی ، ہدیٰ ،دربھنگہ ٹائمز، تمثیل نو ہما، پاکیزہ آنچل، شب خوں، تعمیر حیات اوربرہان دہلی کی اپنی اہمیت رہی ہے ، معارف آج بھی پرانی آب وتاب کے ساتھ نکل رہا ہے ، برہان کے مرحوم ہونے کا غم تو آج بھی ستا رہا ہے ، بیسویں صدی کا سالنامہ تو نکل جاتا ہے لیکن خوش تر گرامی کے دور کے ماہنامہ بیسویں صدی کو اب مرحوم سمجھنا چاہیے، رحمن نیر کے وقت تک اس میںزندگی کی کچھ رمق باقی تھی ، لیکن اب وہ بات کہاں، اردو میں اکلوتا فلمی رسالہ’’ شمع‘‘ بھی بجھ گیا ہے ایک زمانہ میں اس کے معمے بڑے مقبول تھے اور فلموں پر تبصرے پڑھنے تصویریں دیکھنے کے ساتھ معمے بھرنے کے لیے بھی لوگ اس کے خریداربنتے تھے، مذہبی رسائل میں عامر عثمانی کی زندگی تک ’’تجلی‘‘ بر صغیر ہندو پاک کا مقبول ترین رسالہ تھا اس کے اداریے، تجلی کی ڈاک ، کھرے کھوٹے اور ملا ابن العرب کا مزاحیہ کالم مسجد سے مئے خانے تک پڑھنے کے لیے لوگ بے تاب رہتے تھے، بعد میں ان کے داماد حسن صدیقی نے اسی انداز پر نکالنے کی کوشش کی لیکن چلا نہیں پا ئے او ررخ بدل کر’’ طلسماتی دنیا‘‘ نکالنے لگے، عامر عثمانی پوری زندگی جن اوہام ورسومات کے خلاف لکھتے رہے ان کے بعد ان کے وارثوں نے اپنی معاشی مضبوطی کے لیے انہیں خطوط پر کام شروع کردیا۔ 
 ان دنوں جو مذہبی رسائل نکل رہے ہیں ان میں رسالہ دار العلوم ، آئینہ دار العلوم، آئینہ مظاہر علوم، شارق، دین مبیں ،ارمغان، راہ اعتدال، کنزالایمان، اشرفیہ، مخدوم، الرسالہ وغیرہ مذہبی بیداری پیدا کرنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں،ان میں سے بیش تر مدارس اسلامیہ کے ترجمان ہیں اور متعلقہ اداروں کا رنگ وآہنگ ان پر غالب رہتا ہے، ان میں سے بعضے اپنے مسلک کی ترویج واشاعت کے لیے بھی اپنے رسائل کا استعمال کر تے ہیں۔
 واقعہ یہ ہے کہ اردو اخبارات قاری کے تقاضوں کی تکمیل اب بھی نہیں کر پا رہے ،وجہ وسائل کی کمی ہے، یہ کمی کبھی تو اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ اردو اخبار کے مالکان رقم ضرورت کے مطابق نکالنا نہیں چاہتے یا واقعتا چھوٹے اخبار ہونے کی وجہ سے وہ اخبارات کے لیے رقم فراہم نہیں کر پاتے، اردو اخبارات (کارپوریٹ گھرانے کے اخبارکو چھوڑ کر) مضامین، مقالات، مزاحیہ کالم اور تبصرہ وغیرہ لکھنے والوں پر ایک روپیہ بھی صرف نہیں کرتے، ان کے نزدیک اردو مضامین ومقالات کا اپنے اخبار میں چھاپ دینا ہی قلم کاروں پر احسان ہے، اس کی وجہ سے وہ لوگ جو قلم کی مزدوری کرتے ہیں اردو اخبارات کو معیاری ، تحقیقی مضامین دے نہیں پاتے، بلکہ کئی اردو کے ادیب جو ہندی انگریزی میں لکھنے پر قادر ہیں اردو اخبارات کے بجائے ہندی انگریزی میں لکھنا پسند کرتے ہیں ؛ کیوںکہ وہاں سے انہیں کچھ یافت ہوجاتی ہے، اس معاملہ میں ماہانہ رسائل جو سرکاری اکیڈمیوں کی طرف سے نکلا کرتے ہیں، متثنیٰ ہیں، لیکن ان کے یہاں بھی مضامین کے انتخاب کا جو معیار ہے اس میں بھی بہت ساری ترجیحات ہیں، مضمون نگار اگر ان ترجیحات پر پورا نہیں اتر تا تو وہاں بھی معاملہ خالی ہی خالی ہے ۔

منگل, مارچ 29, 2022

نفرت کی سودا گری مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نفرت کی سودا گری 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 فرقہ پرستوں نے ہندوستان میں نفرت کی ایک اور دوکان’’ دی کشمیر فائلز‘‘ کے نام سے کھول دی ہے ، یہ ایک فلم ہے جس کی کہانی ۱۹۹۰ء میں وادی کشمیر سے پنڈتوں کے نقل مکانی پر مبنی ہے، اس دور میں جگ موہن سنگھ بی جے پی کے گورنر اور مرکز میں وی پی سنگھ کی حکومت تھی جو بی جے پی کے خارجی تعاون سے چل رہی تھی، یعنی سارا کیا دھرا بی جے کا تھا، اس وقت تو کوئی واویلا نہیں مچا، لیکن اب ۲۰۲۴ء کا انتخاب قریب ہے ، اس لیے اس کو دکھا کر غیر مسلموں کا خون کھولا یا جا رہا ہے ، خبر تو یہ بھی ہے کہ سینیما گھروں میں مفت اسے دکھایا جا رہا ہے، اور سینیما گھر والوں کو یک مشت رقم فرقہ پرست تنظیمیں ادا کر رہی ہیں، یہ نفرت کی سوداگری ہے، ہونا تویہ چاہیے تھا کہ اس فلم کو باکس آفس پر دکھانے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی کیوں کہ یہ ملک میں نفرت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، لیکن بُرا ہو ملکی سیاست کا ، یہ اقتدار تک پہونچنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں، اگر اس قسم کی فلم دکھانی ضروری ہو تو گجرات، بھاگلپور، مظفر نگر، میرٹھ ، ملیانہ، مراد آباد، وغیرہ کے فسادات پر بھی فلم بنا کر لوگوں کو دکھانا چاہیے کہ ملک میں اقلیتوں پر کس قدر ظلم ڈھایا گیا ہے، اس معاملہ میں ہم کشمیری پنڈتوں کی داد دینی چاہیں گے جنہوں نے اس فلم کو جھوٹ کا پشتارہ قرار دیا ہے۔

حجاب معاملہ:آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی

حجاب معاملہ:آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے حجاب معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے 15 مارچ کے سنائے گئے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ واضح رہے کرناٹک ہائی کورٹ نے ریاستی اسکولوں میں لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔

مونسہ بشریٰ اور جلیسہ سلطانہ یاسین کی مشترکہ عرضی میں کہا گیا ہے کہ مذہب کے ماننے والے شخص کو "اپنے بالوں کو کپڑے کے ٹکڑے سے ڈھکنے کے لئے" ایڈجسٹ کیے بغیر لباس میں "یکسانیت" لانے پر بہت زیادہ زور دینا انصاف کا مذاق ہے۔

درخواست میں یہ بھی استدلال دیا گیا کہ جہاں تک قرآن پاک میں صحیفوں کی تشریح کا تعلق ہے اس پر تمام نظریات کے علمائے کرام جیسے کہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے درمیان اتفاق رائے ہے کہ حجاب کا رواج واجب (لازمی) ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ میں کئی اور عرضیاں دائر کی گئی تھیں۔ متعلقہ عرضی گزاروں نے اس معاملے کی فوری سماعت کی درخواست کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا

پردہ کیوں ضروری ہے؟ شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

پردہ کیوں ضروری ہے؟ 

 شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی 
مغربی تہذیب جو اخلاق ، شرافت اور حیا سے بالکل آزاد ہو چکی ہے ، وہ بجائے اپنی بے حیائی پر شرمسار ہونے کے مشرقی اور مذہبی اقدار و روایات کو ہی نشانہ بنا رہی ہے ، جیسے پاگل خانہ میں ایک صحت مند آدمی پہنچ جائے ، تو وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگے گا اور سارے پاگل سمجھیں گے کہ یہی شخص بیمار ہے ، اسی طرح بے حیائی کے غلبہ کی اس فضا میں جو لوگ شرم و حیا اور مذہبی اور اخلاقی قدروں کی بات کرتے ہیں وہ اجنبیِ شہر نظر آنے لگتے ہیں ؛ لیکن اس سے سچائی بدل نہیں سکتی ، حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے لیے پردہ فطرت کی آواز ہے ، یہ مہذب معاشرہ کی علامت ہے ، یہ مذاہب کی مشترکہ تعلیمات کا حصہ ہے اور خود ہندو روایات خواتین کے لیے پردہ کی قائل رہی ہیں ، یہ عورتوں کی تحقیر یا اُن کی اہانت نہیں ہے اور نہ یہ تعلیم و ترقی میں رکاوٹ ہے ۔

خدا کا نظام یہ ہے کہ جو چیز اہم بھی ہوتی ہے اور نازک بھی ، اسے حفاظتی حصار میں رکھا جاتا ہے ، انسان کے ہاتھ پاؤں پر کوئی حصار نہیں رکھا گیا ، لیکن دماغ کو سخت ہڈیوں والی کھوپڑی کے اندر رکھا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس کا تحفظ ہو سکے ، دل کی جگہ سینہ کی لچک دار ہڈیوں کے بیچ رکھی گئی ؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی حفاظت ہو سکے ، آنکھوں پر پلکوں کا پہرا بیٹھا یا گیا ، یہ ان اعضاء کی تحقیر ہے یا ان کی حفاظت ؛ بلکہ ان کا اعزاز ؟ —- نباتات ہی کو دیکھئے ، اگر آم پر دبیز چھلکوں کا لباس نہ ہوتا ، تو کیا مکھیوں اور بھڑوں سے بچ کر وہ انسانوں کے ہاتھ آسکتا ؟ اگر چاول اور گیہوں کے دانوں پر ان کی حفاظت کے لیے چھلکے نہ ہوتے ، تو انسان انہیں اپنی خوراک بنا بھی سکتا؟ خود انسانی معاشرہ میں دیکھئے ملک کا ایک عام شہری کھلے عام ہر جگہ آمد و رفت کرتا ہے ، نہ اس کے ساتھ سیکورٹی گارڈ ہے ، نہ اس کی رہائش گاہ پر پہرہ دار ہیں ۔

مردوں اور عورتوں میں عورتیں حفاظت کی زیادہ محتاج ہیں ، خدا نے ان کو مردوں کے لیے وجہ کشش بنایا ہے ، اسی لیے ان کی تراش و خراش میں حسن کاری اور لطافت کو قدم قدم پر ملحوظ رکھا گیا ہے ، اور لطافت ’’ نزاکت ‘‘ کو چاہتی ہیں ؛اسی لیے بھینس اور بیل تو لطافت سے خالی ہیں ، مگر خدا نے ہرن کو نازک اندام اور سبک خرام بنایا ہے ، عورتوں کے اس تخلیقی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے وہ حفاظت کی زیادہ محتاج ہوتی ہیں ، اگر کسی کا لڑکا شہر جائے ، اسے چار بجے شام کو آجانا چاہیے تھا ؛ لیکن وہ رات کے دس بجے لوٹے ، تو اس سے گھبراہٹ نہیں پیدا ہوتی ؛ لیکن اگر یہی واقعہ کسی لڑکی کے ساتھ پیش آئے ، تو دل کا قرار چھِن جاتا ہے ، اور ماں باپ کی کروٹیں بے سکون ہو جاتی ہیں ، اسی کو دیکھئے کہ پوری دنیا میں اور ہندوستان میں بھی مردوں اور عورتوں کے عددی تناسب میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے ، خدا نے ان دونوں صنفوں کو ایک توازن کے ساتھ پیدا فرمایا ہے ؛ تاکہ دونوں طبقات کی ضرورتیں پوری ہو سکیں اور پوری دنیا میں سو سال سے زیادہ عرصہ سے جمہوریت سکۂ رائج الوقت بنی ہوئی ہے ، جس کا ایک نعرہ عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینا بھی ہے ؛ لیکن اس کے باوجود آج بھی عورتیں حقوق مانگتی ہیں اور مرد انہیں حقوق و اختیارات دیتے ہیں ، یہ فرق کیوں ہے ؟ کیوں امریکہ و روس میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی اور یورپ میں مارگریٹ تھیچر کے علاوہ کوئی خاتون وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر نہیں پہنچ سکی ؟، یہ ظلم و حق تلفی کا معاملہ نہیں ہے ؛ بلکہ یہ قانونِ فطرت کا فیصلہ ہے ، قدرت نے خود دونوں کی صلاحیتوں میں فرق رکھا ہے اور صلاحیتوں کے لحاظ سے دائرۂ کار متعین کیا ہے ۔

پردہ بھی اسی فرق کا ایک حصہ ہے ، جانور بھی کھاتے پیتے ہیں ، اور شہوانی جذبات رکھتے ہیں ؛ لیکن ان کی فطرت لباس کے تصور سے عاری ہے ، انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عریانیت سے بچائے اور لباس زیب تن کرے ، وہی فطرت اس بات کا بھی مطالبہ کرتی ہے کہ مردوں کے مقابلہ عورتیں زیادہ ڈھکی چھپی ہوں ، فرض کیجئے دو لڑکیاں راستہ سے گذر رہی ہیں ، ایک لڑکی کا لباس چست اور شوخ ہو ، اس کا سر کھلا ہو ، اس کے بازو کھلے ہوں ، اس کا پیٹ نگاہِ ہوس کو دعوت نظارہ دیتا ہو اور اس کا کسا ہوا لباس جسم کے نشیب و فراز کو نمایاں کرتا ہو ، دوسری لڑکی سر تا پا نقاب میں ہو یا کم سے کم ڈھیلا ڈھالا لباس اور سر پر دو پٹہ ہو ، تو اوباش قسم کے لڑکے ان میں سے کس کو چھیڑنے کی کوشش کریں گے ، ہوس ناک نگاہوں کا تیرکس کی طرف متوجہ ہوگا ، برائی کے جذبات ان میں سے کس کے تیئں دلوں میں کروٹ لیں گے ؟ یقینا بے پردہ لڑکی اس کا نشانہ بنے گی ، کچھ سالوں پہلے جب دہلی میں لڑکیوں کو چھیڑنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کی کثرت ہوگئی تو پولیس کمشنر نے ہدایت جاری کی کہ لڑکیاں چست اور نیم عریاں لباس پہن کر بازاروں اورتعلیم گاہوں میں نہ جائیں ؛ کیوں کہ اس سے جرم کی تحریک پیدا ہوتی ہے ، مگر افسوس کہ حقوقِ نسواں کی تنظیموں نے اس معقول تجویز کے خلاف ایسا شور برپا کیا کہ تجویز واپس لینی پڑی ۔

پردہ کے بارے میں اسلامی تعلیمات تو نہایت واضح ہیں ہی ، قرآن مجید نے عورتوں کو پورے جسم کے علاوہ چہرہ پر بھی گھونگھٹ ڈالنے کا حکم دیا ہے ، ( الأحزاب : ۵۹) خواتین کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پیچھے کی صف رکھی اور یہ بھی فرمایا کہ ان کا مسجد میں نماز پڑھنے سے گھر میں نماز ادا کرنا بہتر ہے ، ( ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۵۷۰، ۶۷۸) ان سے بنیادی طور پر ایسی ذمہ داریاں متعلق کی گئیں جو اندرون خانہ کی ہیں ، اور انہیں شمعِ محفل بننے کے بجائے گھر کی ملکہ بنایا گیا ؛ لیکن اسلام کے علاوہ دوسرے مذہب میں بھی پردہ کا تصور رہا ہے ،بائبل میں کئی خواتین کا ذکر ملتا ہے جو کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھیں ؛ بلکہ بعض وہ ہیں جو پردے کی وجہ سے پہچانی نہیں گئیں ، آج بھی چرچوں میں حضرت مریم علیہا الصلاۃ و السلام کا جو فرضی مجسمہ بنایا جاتا ہے ، اس میں چہرے کے علاوہ پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے ، حالانکہ رومن تہذیب اور اس کے بعد یورپ میں عورتوں کے عریاں مجسمے بنانے اور جسم کے ایک ایک نشیب و فراز اور خط وخال کو نمایاں کرنے کا رواج عام ہے ،گویا جو لوگ عریانیت اور بے پردگی کے مبلّغ ہیں وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عورتوں کا تقدس باپردہ رہنے ہی میں ہے ۔

ہندو مذہب میں بھی قدیم عہد سے پردہ کی روایت رہی ہے ، سیتاجی کا مشہور واقعہ ہے کہ جب راون نے انہیں اغوا کیا ، تو شری رام جی کے چھوٹے بھائی لکشمن جی انہیں پہچان بھی نہیں سکے ، اور انہوں نے کہا کہ ایک ہی جگہ رہنے کے باوجود ہم نے کبھی اپنی بھاوج کی صورت نہیں دیکھی اورجب شری رام جی نے سیتا کے لیے ہار بھیجے ، تو سیتاجی مختلف عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں ؛ اس لیے لکشمن انہیں پہچاننے سے قاصر رہے ، یہ واقعات جن کا برادرانِ وطن کی کتابوں میں آج بھی ذکر موجود ہے ، واضح کرتے ہیں کہ ہندو مذہب میں عورتوں کی عفت و عصمت ، شرم و حیا اور پردہ و غیرہ کو کتنی اہمیت حاصل تھی ، یہی وجہ ہے کہ ہندو سماج میں اکثر اونچی ذات کی عورتیں پردہ کیا کرتی تھیں ، اب بھی مارواڑیوں ، کائستوں اور پرانی وضع کے حامل برہمن خاندانوں میں عورتوں کے باپردہ رہنے کا رواج ہے ، گو ان کے ہاں برقعہ کا استعمال نہیں ہوتا ؛ لیکن گھونگھٹ لٹکا کر رکھنے کا رواج پایا جاتا ہے ۔

انگریزوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت پیدا کرنے اوراس اختلاف سے فائدہ اٹھا کر اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ تاریخ میں غلط واقعات کو سمویا جائے اور ان کو ان دونوں قوموں کے درمیان فاصلہ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے ، انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’ خواتین کو مغل حملہ آوروں سے بچانے کے لیے پردہ کا رواج شروع ہوا ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے خاص کر عزت و آبرو کے معاملے میں زیادہ تر اخلاقی پہلو کو ملحوظ رکھا ہے ؛ کیوں کہ کسی بھی صورت میں غیر مسلم خواتین کی عزت و آبرو مسلمان کے لیے حلال نہیں ہو سکتی ، تقسیمِ ملک کے وقت مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کے اتنے واقعات پیش آئے کہ اگر آسمان خون کے آنسو بہاتا تب بھی بے جا نہ ہوتا ، مگر مسلم علاقوں میں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ شاذ و نادر ہی ایسے واقعات پیش آئے ؛ اس لیے یہ سراسر تہمت ،بہتان ، اپنی تاریخ سے ناآگہی اور دشمنوں کی گڑھی ہوئی کہانیوں پر یقین کرتا ہے ۔

پردہ نہ ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور نہ اس سے ترقی کے مواقع ختم ہوتے ہیں ،اسلامی تاریخ میں بہت سی باکمال خواتین پیدا ہوئی ہیں ، جن کے حالات پر کئی کئی جلدیں لکھی گئی ہیں ، اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی علم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے ، وہ معلم ہو سکتی ہیں ، وہ طبیب ہو سکتی ہیں ، وہ شرعی اصولوں کے مطابق تجارت کرسکتی ہیں ، وہ کارِ افتاء انجام دے سکتی ہیں ، وہ حدود و قصاص کے علاوہ دوسرے مقدمات میں جج بن سکتی ہیں ، اگر مردوں اور عورتوں کے لیے جداگانہ ضروریات کا نظم کیا جائے ، الگ الگ اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہوں ، الگ الگ ہاسپٹل ہوں ، عورتوں کے لیے مخصوص مارکیٹ ہوں ، و غیرہ ، تو خواتین کے لیے معاشی تگ و دو کے بھی اتنے مواقع پیدا ہو جائیں گے جو انہیں اِس وقت میسر نہیں ہیں اور وہ آزادانہ ماحول میں بہتر طور پر کام کرسکیں گی ، اگر ٹرین میں خواتین کے لیے مخصوص کوچ ہو سکتے ہیں ، بسوں میں ان کے لیے محفوظ سیٹیں ہو سکتی ہیں ، ہسپتالوں میں ان کے وارڈ الگ رکھے جاسکتے ہیں ، تو زندگی کے دوسرے شعبوں میں خواتین کے لیے علیحدہ اور مستقل انتظام ہو تو اس میں کیا دشواری یا برائی ہے ؟

پس ، پردہ خواتین کو مجرمانہ ذہن سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کا مقصد ان کی حفاظت ہے ، اگر معاشرہ میں پردہ کا رواج ہو جائے اور خواتین کے لیے ایسا نظم کیا جائے کہ وہ زندگی کے مختلف میدانوں میں مردوں سے الگ رہتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں ، تو یہ عورتوں کو بے پردہ کرنے ، مخلوط ماحول میں انہیں تناؤ کا شکار بنانے اور مردوں کی نگاہِ ہوس کو ٹھنڈی کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے سے کہیں بہتر ہوگا۔


پیر, مارچ 28, 2022

جب اسمبلی میں سی ایم یوگی اور اکھلیش یادو میں ہوا آمنا سامنا جانیں کیا ہوا

جب اسمبلی میں سی ایم یوگی اور اکھلیش یادو میں ہوا آمنا سامنا جانیں کیا ہوا

اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں منتخب ہونے والے نو منتخب ایم ایل ایز کی حلف برداری کا پروگرام جاری ہے۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ، نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک، ایس پی صدر اکھلیش یادو اور تمام سینئر ایم ایل اے کو پروٹیم اسپیکر رماپتی شاستری کی حلف دلائی جا رہی ہے۔

سب سے پہلے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ودھان سبھا میں قائد ایوان کے طور پر حلف لیا۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حلف برداری کے دوران ایوان جئے شری رام کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اراکین اسمبلی اور وزراء نے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کو مبارکباد دی۔

اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو نے بھی اسمبلی میں ایوان کے ایم ایل اے کے طور پر حلف لیا۔ اکھلیش یادو پارٹی اور اپوزیشن کے ایم ایل ایز کا استقبال کرتے ہوئے حلف لینے پہنچے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے نومنتخب ممبران اسمبلی کی حلف برداری کے دوران اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو سے گرمجوشی سے ملاقات کی۔ دراصل، اکھلیش یادو کو دیکھ کر سی ایم یوگی مسکرائے اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا۔ سی ایم یوگی نے بھی اکھلیش کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

کرہل سے ایم ایل اے اکھلیش یادو کے بعد نو منتخب ممبر اسمبلی برجیش پاٹھک نے بھی لیڈر آف ہاؤس کے طور پر حلف لیا۔ اس کے بعد سابق وزیر اور بی جے پی اسپیکر کے امیدوار ستیش مہانا نے ایم ایل اے کے طور پر حلف لیا۔ اس کے بعد ڈپٹی سی ایم برجیش پاٹھک، بے بی رانی موریہ، راج بالا سنگھ، منوہر لال کوری، اوماشنکر سنگھ اور وجے لکشمی گوتم، جیویر سنگھ، دھرم پال سنگھ، نند گوپال گپتا نندی، یوگیندر اپادھیائے، نتن اگروال، انیل راج بھر، راکے سمیت کئی ایم ایل اے۔ سچن نے عہدے کا حلف لیا۔

یوپی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے کہا کہ صرف بینچ بدلی ہے، میں اب اپوزیشن میں بیٹھوں گا۔ اپوزیشن حکومت کے احتساب کے لیے کام کرے گی اور اپوزیشن کا کردار مثبت ہوگا

سعودی عرب: اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز دھیمی رکھنے کی ہدایت

 

سعودی عرب: اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز دھیمی رکھنے کی ہدایت

ریاض : سعودی حکومت نے اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز دھیمی رکھنے کی ہدایات جاری کر دیں۔

عرب میڈیا کے مطابق رمضان المبارک کے حوالے سے سعودی وزارت امور نے مساجد کو ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مساجد میں آؤٹ ڈور لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صرف اذان دینے یا اقامت پڑھنے تک محدود کیا جائے۔

جاری ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر ایمپلیفائر کا والیوم ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ عرب میڈیا کے مطابق رمضان کے دوران تمام میڈیا کو مساجد سے لائیو ٹرانسمیشن پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ دوران نماز اماموں اور نمازیوں کی فلم بنانے کے لیے مساجد میں کیمروں کے استعمال پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

ہدایات میں افطار پارٹیوں کا انعقاد کرنے والے پرائیویٹ گروپس اور افراد کو کھانے کی تقسیم میں فضول خرچی اور اسراف سے گریز کرتے ہوئے توثیق شدہ ضوابط پر عمل پیرا ہونے کا کہا گیا ہے۔


انسانوں کی تقسیم___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

انسانوں کی تقسیم___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
    اللّٰہ رب العزت نے انسان کو قابل احترام واکرام بنایا ، اس کی شکل وصورت کو دوسری مخلوقات سے اتنا خوبصورت اور اتنا ممتاز کر دیا کہ جو دیکھے دیکھتا رہے ، کامنی کی مورت اور موہنی سی صورت ، یہ بھی بتایا کہ سارے انسان کا سلسلہ ایک آدم سے ملتا ہے، جو اس کائنات میں انسانوں کا باوا ہے اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے، ذات پات، اونچ نیچ، چھوٹ چھات کے لیے انسانی سماج میں گنجائش نہیں ہے ، اسلام کی یہ واضح تعلیمات اپنے کو بر تر سمجھنے اور دوسرے کو کم تر سمجھنے کی فطرت رکھنے والے بر ہمنوں کو پسند نہیں؛ کیوں کہ ان کے یہاں انسانوں کی درجہ بندی ہے، برہمن ، چھتری ، دیشن اور شودر، اس برہمنی تقسیم میں حکومت اور راج پاٹ کا سارا اختیار برہمن کو مل گیا اور سب سے کمزور پوری زندگی غلامی پر مامور شودر قرار پائے۔انہیں باور کرایا گیا کہ تمہاری پیدائش اسی لیے ہوئی ہے کہ تم ہماری غلامی کرو اور ہمارے گوموت کو صاف کرو، اس تقسیم کے نتیجے میں سماج کا یہ طبقہ جو پہلے شودر اور اب دلت اور ہریجن کہا جاتا ہے ، سماج سے کٹ کر رہ گیا اور وہ اچھوت قرار پایا ، وید اور پران کے اشلوک اس کے کان میں پڑ جانے پر شیشہ پگھلا کر ڈالا جاتا رہا ، اس کی ساری استعمال کی چیز ایسی نجس وناپاک قراردی گئیں جس کو بڑی ذات والے چھو بھی نہیں سکتے تھے، اس صورت حال نے ان کے اندر احساس کمتری پیدا کر دیا ، وہ دوسری ذات کے لوگوں کے سامنے گردن اٹھا کر چل نہیں سکتے تھے، جوتے پہن کر ان کے دروازوں سے گذر نہیں سکتے تھے، اچھی نوکریاں ان کے لیے دستیاب نہیں تھیں ،اس لیے معاشی طور پر بھی وہ مفلس وقلاش، دوسروں کے رحم وکرم پر اور دوسرے کے پھینکے ہوئے جوٹھے کھا کھا کر زندگی گذارتے رہے ، مسلمانوں میں اس فکر کے رواج پانے کی کوئی وجہ نہیں تھی ، لیکن ہم جس سماج میں رہتے ہیں، اس کے چاہے ان چاہے اثرات ہماری زندگی پر پڑتے ہیں ، اور ہم اس تہذیب وثقافت وکلچر کو اپنا لیتے ہیں ،مسلم سماج کے ساتھ بھی یہی ہوا ، اس نے ان چاہے ہندو سنسکرتی کو قبول کر لیا اور ان کے یہاں بھی اشراف وارذال کی تقسیم انسانوں کے درمیان ہو گئی ، کہیں زمین دار اور رعیت کی تقسیم ہوئی  ، کہیں ذات پات کی لعنت نے اپنے پاؤں جما لیے ، لسانی اور علاقائی عصبیت نے بھی بانٹنے کا کام کیا، اس طرح یہاں بھی چھوٹی ذات بڑی ذات کا غیر اسلامی تصور داخل ہو گیا ، آزادی کے بعد دستور میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے ہریجنوں اور دلتوں کے لیے رزرویشن پر زور دیا تا کہ وہ سماج کی میں اسٹریم مین شامل ہو جائیں؛ چونکہ ہمارے یہاں ذات پات کا تصور مذہبی طور پر نہیں تھا اس لیے مسلمانوں کو وہ سہولتیں ان دفعات کے تحت حاصل نہیں ہو سکیں، جو ہندوؤں کے یہاں اسی کام کے کرنے والے کو حاصل تھیں، سرکاری مفادات کے حصول کے لیے مسلمانوں نے بھی ذات پات کی بنیاد پر رزرویشن کا مطالبہ کیا ،جس میں کچھ کامیابی تو ملی؛ لیکن سماج میں اس بنیاد پر کھائی اور گہری ہو گئی ، لالو پرشاد یادو کے عہد حکومت میں اسے خوب ہوا دیا گیا اور ہر ذات کی الگ الگ ریلیوں کا انعقاد کیا گیا اس طرح ہر برادری کی تنظیم وجود میں آگئی ، مؤمن ، راعین ، حوارین ، کے نام پر تنظیمیں پہلے سے موجود تھیں؛ لیکن اب اس میں صدیقیین اور دوسری بڑی ذات سے متعلق لوگوں کی بھی تنظیم قائم ہو گئی ، اس صورت حال مسلمانوں کے درمیان آپسی رسہ کشی میں اضافہ ہوا اور ان خود ساختہ بنیادوں پر سیاسی سماجی اور معاشی مفاد کے حصول کی کوشش تیز تر ہو گئی ؛ حالانکہ اللّٰہ رب العزت نے قبائل اور خاندان کو صرف تعارف کا ذریعہ قرار دیا ہے ، اس بنیاد پر کوئی بھی شخص مکرم ومعظم نہیں ہو سکتا ، قابل احترام تو وہ ہے جو اللّٰہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے یعنی بڑائی کی بنیاد تقویٰ ہے، نہ کہ ذات پات ، اسلامی صاف وشفاف تعلیمات یہی ہے کہ انسان ایک نفس سے پیدا ہوا ہے؛ اس لیے مندرجہ بالا بنیادوں پر انسانوں کی تقسیم کو کسی بھی درجے میں شرعی نہیں کہا جا سکتا ۔
اسلام کے اس تصور مساوات اور برابری کو کچھ لوگ یہ کہہ کر کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ پھر شادی بیاہ میں کفو کی رعایت کا کیا مطلب ہے ، در اصل یہ اعتراض ایک غلط فہمی پر مبنی ہے کہ شریعت نے کفو میں رشتہ ضروری قرار دیا ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے، کفاء ت اور برابری دین میں ہو یہ شرعی مطالبہ ہے؛ اسی لیے دین میں اختلاف ہونے کی صورت میں رشتہ ہو ہی نہیں سکتا ، بقیہ اور چیزیں جو اس نام پر رائج ہیں، وہ وقتی مصلحت کی بنیاد پر اپنے اپنے طور پر لوگوںنے رائج کر لیا ہے ۔ اصل کفو کا ترجمہ Maichingہے، دین میں Maichingقرآن کریم کا مطالبہ ہے ، بقیہ لڑکی کو حق ہے کہ وہ اپنی زندگی گذارنے کے لیے جن چیزوں میں برابری ضروری سمجھتی ہے، اسے دیکھ لے، کیا آپ کو یہ غیر فطری لگتا ہے کہ جب عورتیں ساڑی کے ساتھ بلاؤز ، چوڑی چپل بلکہ چھوٹے بچوں کے کپڑوں میں بھی Maichingدیکھتی ہیں ، تو جس کے ساتھ پوری زندگی گذارنی ہے اور خوش گوار زندگی کامدار جس پر ہے اس کا حق اس سے چھین لیا جائے، در اصل یہ کفائت رشتے کو مستحکم اور پائیدار بنانے کے لئے ہے، ایسا ہو سکتا ہے کہ ذات برادری،معیار زندگی، خاندانی وقار دونوں خاندان کا برابر ہو ، لیکن لڑکا کچے چمڑے کا کام کرتا ہو اور لڑکی عطر والے کی بیٹی ہو تو سب کچھ برابر ہونے کے با وجود ایک دوسرے کا کفو انہیں نہیں قرار دیا جاسکتا ، کیونکہ چمڑے کی بو کے ساتھ عطر کی خوشبو کا جوڑ نہیں ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...