Powered By Blogger

بدھ, اپریل 20, 2022

مشرقی چمپارن میں آندھی پانی اور ژالہ باری سے کسانوں کا کافی نقصان

مشرقی چمپارن میں آندھی پانی اور ژالہ باری سے کسانوں کا کافی نقصانضلع میں منگل کی دیر رات اچانک موسم نے کروٹ لے لی، تیز گرج چمک کے ساتھ بارش اور ژالہ باری کی وجہ سے معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئی ، جس کی وجہ سے کسانوں کو بھاری نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ تیز آندھی ، بجلی کے کھمبوں پر درخت گرنے سے شہر سے گائوں تک بجلی غائب ، ایک طرح سے پورے ضلع میں اندھیرا چھا گیا ، کھڑی گیہوں کی فصل کے ساتھ ساتھ مکئی اور ہری سبزیاں بھی گر گئی جس سے کافی نقصان اٹھانا۔تقریباً ایک گھنٹہ تک آندھی پانی کی تباہ کاریوں سے مکمل عوامی زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئی۔ تیز آندھی کے باعث شہر کے ایئرپورٹ ،پٹرول پمپ کے قریب درخت گرنے سے ٹریفک متاثر ہوئی۔ منشی کالج کے کیمپس میں چاندماڑی فیڈر میں بجلی کی تار پر درخت گرنے سے بجلی ٹھپ ہو گئی۔ کم و بیش یہی صورت حال ضلع کے چھتونی ، جان پل اور لکھورا فیڈرز میں رہی۔ آندھی نے کئی جھونپڑی نماں مکان کے ساتھ ساتھ شادی کے پنڈال کو بھی نقصان پہنچایا

فطری تقاضے__ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

فطری تقاضے__
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
انسان فطری طور پر اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے، وسائل کی قلت اور زندگی گذارنے میں معیار کے مسئلے کے باوجود وہ چاہتا ہے کہ اس کی کئی اولاد ہو، تاکہ وہ بڑھاپے میں والدین کے لیے سہارے کا کام کر سکیں، چین نے اس فطری تقاضے سے بغاوت کر رکھی تھی، وہاں ایک بچہ کی ولادت کے بعد دوسرے بچے کو آنے سے قانونی طور پر روکاجا رہا تھا۔ ۷۰۰۲ء تک یہ قانون صرف ۶۳ فی صد آبادی پر ہی لاگو ہو سکا تھا،کیونکہ قانونی اعتبار سے ان لوگوں کو دوسرے بچے کی پیدا ئش کی اجازت دی گئی تھی، جن کی پہلی اولاد لڑکی ہو، لیکن اس قانون کی وجہ سے چین میں بوڑھوں کی تعداد بڑھ رہی تھی، ابھی چین میں اکیس کڑوڑ لوگ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے ہیں، معاشی تگ ودو کرنے والے افراد کی دن بدن کمی ہوتی جا رہی تھی، جبکہ کمیونسٹ نظریہ میں دولت کے حصول کے لیے افرادی قوت کی بڑی اہمیت ہے۔
اسلام نے اس غیر فطری مطالبہ کو ہمیشہ ناقابل عمل قرار دیا ہے، اس کی سوچ یہ ہے کہ کھاناکھلانا اور بچوں کی دوسری ضروریات پوری کرنا انسان کا کام نہیں، وہ اللہ کا کام ہے اور اللہ حسب ِضرورت ضروریات زندگی پوری کرتا ہے، اس کا اعلان ہے کہ کھلانے پلانے کے ڈر سے بچوں کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور اسے بھی کھلائیں گے، وسائل کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں، اس لئے معاشی تنگی کے ڈر سے آنے والے بچوں کو روکنا اور خاندانی منصوبہ بندی کرانا،اللہ پر ہمارے یقین و اعتماد میں کمی کامظہر ہے۔
دراصل یہ ساراقصورانسانی عقل کاہے،وہ اپنی محدوددنیاکے لیے محدودعقل سے سوچتاہے اوربیش تر ان خطروں کاادراک کرلیتاہے،جس کاوجودموہوم ہوتاہے، مالتھس کی تھیوری اگرصحیح ہوتی توآج دنیامیں رہنے کی جگہ نہیں ہوتی۔لیکن اسلام کے اصول وضوابط انسانی عقل کی پیداوارنہیں ہیں،اس لیے اسلام نے بچوں کی آمدپرروک نہیں لگائی اوریہ تصوردیاکہ ہرآنے والابچہ اپنے ساتھ ایک سوچنے والادماغ اورکام کرنے والے دوہاتھ لے کراس دنیامیں آتاہے،یہ قدرت کاعطیہ ہے،یہ انسانی چمن کے پھول ہیں،انہیں بھی دنیا دیکھنے دیجئے۔اسلام اس بات کوپسندکرتاہے کہ بچے آتے رہیں،ہرآنے والابچہ اس بات کااعلان ہوتاہے کہ قدرت ابھی اس کائنات سے مایوس نہیں ہے،وہ اس بات کی ترغیب دیتاہے کہ نکاح کے لیے ایسے خاندان کی لڑکیوں کاانتخاب کیاجائے جس میں زیادہ بچوں کی پیدائش کی روایت رہی ہو،اس صورت حال کے مطالعہ کاایک دوسرارخ یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت کاجونظام ہے،وہ بڑھتی آبادی کے اعتبارسے معاشی وسائل پیداکرنے کاہے،آپ ہرروزمشاہدہ کرتے ہیں کہ جہاں آبادی نہیں ہوتی وہاں کی زمینیں بنجرہوتی ہیں،ریگستان،ریت اورببول کے پیڑہی اس کامقدرہوتے ہیں،لیکن جہاں کوئی بستی آبادہوئی،وہی جگہ جہاں دھول اڑرہی تھی،لوگ جاتے ہوئے ڈرتے تھے، جو جگہ صحرااوربیابان تھی،وہاں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اورزمین کی قوت نمومیں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتاہے، اس کاجائزہ وسیع پیمانے پرلیں تومعلوم ہوگاکہ جب آبادی کم تھی توانسان غذائی اجناس کی پیداوارکے وہ طریقے نہیں جانتاتھا،جوآج اس کے علم ویقین کاحصہ ہیں،وہ پھوس کے مکان میں رہتاتھا،اس زمانہ میں کثیرمنزلہ عمارتوں کاکوئی تصورنہیں تھا،کل کارخانے اورمعدنیات کے وہ ذخائرجوزمین نے اپناسینہ چیرکرانسانوں کی معاش کے لیے فراہم کئے ہیں،اس کی طرف دھیان بھی نہیں جاتاتھا،لیکن آبادیاں بڑھیں تومعاشی وسائل بھی بڑھے،جس کھیت سے دہقان کوروٹی میسرنہیں ہوتی تھی اورساہوکاروں کے یہاں کسان بیگاری کرتے کرتے مرجاتاتھا،کھیتیاں مانسون کی رہین منت ہوتی تھیں،آب پاشی کی سہولت نہیں ہونے سے کسان سال سال بھرفاقہ کشی کی دہلیزپرپڑارہتاتھا،آج یہ سب خواب معلوم ہورہاہے،اب فصلیں سال میں کئی کئی باراگائی جارہی ہیں،اورزمین کی قوت نموکواللہ نے اس قدربڑھادیاہے کہ ہماری سرکاریں اعلان کرتی رہتی ہیں کہ غذاکی کمی سے کسی کومرنے نہیں دیاجائے گا،یہ فکری بصیرت کامعاملہ نہیں،کھلی آنکھوں کے مشاہدہ سے اس کاتعلق ہے۔

منگل, اپریل 19, 2022

*روزہ کے خلوص پر حملہ

*روزہ کے خلوص پر حملہ*

آج روزہ کی فضلیت واہمیت پر خوب سے خوب گفتگو ہوتی ہے، تحریر وتقریر کے ذریعہ یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ روزہ ایک ایسی عبادت کا نام ہے جس پر بے پناہ اجر وثواب لکھا جاتا ہے، یہ عبادت کا دروازہ ہے،روزہ دار کے منھ کی بوخدا کو مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے، شیطانی حملہ سے حفاظت کا یہ ذریعہ ہے،اس سے پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے، اسمیں کوئی شک نہیں ہے، یہ قرآن وحدیث کی باتیں ہیں مگر موجودہ وقت میں ضرورت اس بات کی شدید ہے کہ روزہ کی حفاظت پر گفتگو کی جائے اور تحریر وتقریر کا اسے عنوان بنایا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ داروں کی ایک قسم یہ بھی بتلائی کے جن کے روزے کی کوئی حیثیت اور اہمیت اللہ کے نزدیک نہیں ہے، 
روزہ کی حالت میں جب بندہ غلط بات اپنے منھ سےنکالتا ہے اوراپنے جسم سے غلط کام انجام دیتا ہے تو ایسے روزہ کے بارے میں حدیث میں لکھا ہوا ہے، ؛جو شخص غلط، جھوٹ اور گناہ کی بات اور غلط اور گناہ کا کام نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے، (حدیث )
غلط بات میں جھوٹ ،غیبت،چغلی، گالی، فحش گوئی اور زبان کی تمام بے اعتدالیاں شامل ہیں، 
حدیث میں جھوٹ بولنے والے کے بارے میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کے منھ سے ایسی خراب بو نکلتی ہے جس سے فرشتے بھی بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، اور غیبت کرنے والے کے متعلق تو قران کریم میں صاف لکھا ہوا ہے کہ مردے بھائی کے گوشت کھانے سے بدتر ہے، ایسے روزہ دار کی بو خدا کو مشک سے زیادہ کیسے پسند ہوسکتی ہےجو مردہ کھارہا یے اور منھ میں خطرناک بدبو لئے ہوئے ہے؟
آج یہی ہورہا ہے کہ آدمی کا روزہ بھی ہورہا ہے اور روزہ کے خلوص پرجھوٹ اور غیبت کا حملہ بھی ہورہا ہے۔
یہ بات آج بتانے کی ہے کہ روزہ پر اجر وثواب درحقیقت اس عبادت کےخلوص کی وجہ سے ہے، روزہ صرف اللہ کی رضا کے لئے رکھا جاتا ہے، اس میں ریاکاری اور دکھاوا نہیں ہوتا ہے، اس لئے اسے حدیث میں عبادت کا دروازہ کہا گیا ہے، بندگی کا مقصد اس سے حاصل ہوتا ہے۔
روزہ جیسی عبادت میں بھی خلوص نہ رہے تو یہ اجر سے خالی ہوجاتا ہے، 
آج روزہ دار ٹائم پاس کے نام پر موبائل پر ننگی تصاویر اور فحش ویڈیوز دیکھ رہا ہے، کچھ ایسے مسائل بھی پوچھے جارہے ہیں کہ مولوی صاحب!
میں موبائل پر ویڈیوز دیکھ رہا تھا کہ، غسل کی ضرورت پڑگئی، اب میرے روزے کا کیا ہوگا؟
مسئلہ کی رو سے تو روزہ ہوجائے گامگر ننگی تصاویر اور فحش ویڈیوز دیکھنا جو سخت گناہ کا کام ہے،اس کے مرتکب ہونے کی وجہ کر اس شخص کا روزہ اجر وثواب سے خالی ہوگا، حدیث شریف میں جسکی جانب نشاندہی کردی گئی ہے کہ غلط کام کا ارتکاب روزہ کی حالت میں ہےتو وہ ثواب سے خالی ہوجاتاہے۔
بالخصوص ہمارے نوجوان بھائیوں سے اس تعلق سے زیادہ بے اعتدالی دیکھنے میں آتی ہے، 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ایک صاحب نے روزہ کی حالت میں اپنی اہلیہ سے بغلگیر ہونے کے بارے میں اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے اجازت دے دی، دوسرے صاحب آئے انہوں نے بھی یہی مسئلہ معلوم کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہیں دی، جن صاحب کو آپ نے اجازت مرحمت فرمائی وہ سن رسیدہ تھے،اور جن کو منع فرمایا تھا وہ جوان تھے، یہ ابوداؤد شریف کی حدیث ہے۔
اس حدیث سے یہ بات ہمیں سمجھ میں آتی ہے کہ نوجوانوں کو بالخصوص زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے، آج مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ نئی عمر کے لڑکے جو روزہ بھی رکھتے ہیں اور ساتھ ہی موبائل سے چمٹے رہتے ہیں، روزہ کی حالت میں نماز کا خیال ہے اور نہ دوسرے کسی کام کا، بسا اوقات وہ خطرہ اور اندیشہ جسکی بنیاد پر اللہ کے رسول نے ایک جوان کو اپنی بیوی سے بھی روزہ کی حالت میں منع فرمادیا تھا وہ رونما ہوجاتا ہے، الامان والحفیظ، 
روزہ خالص عبادت ہے اس کے خلوص کی حفاظت اس وقت سب سے اہم کام اور عنوان ہے،اس موضوع پر ہمیں متحد ہونے کی شدید ضرورت ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۶/رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ

اردو اکادمی دہلی کے سالانہ ایوارڈس کا اعلان

اردو اکادمی دہلی کے سالانہ ایوارڈس کا اعلان


دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ و دہلی اردو اکادمی کے چیئرمین منیش سسودیا نے گورننگ کونسل کے ممبران اور مختلف اردو اداروں کی آراء کی روشنی میں اکادمی کے سالانہ ایوارڈس کا اعلان کر دیا ہے۔ ان ایوارڈس کی اطلاع اردو اکادمی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد اور سیکریٹری محمد احسن عابد کے ذریعے جاری کی گئی۔

سال 2019 - 20 کے لئے کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ممتاز ناول نگار جیلانی بانو کو دیا گیا ہے۔ جبکہ سال 2021-21کے لئے یہی کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ماہر لسانیات پروفیسر عبد الستار دلوی کو دیا گیا ہے۔ اردو اکادمی دہلی کے ذریعے دیا جانے والا دوسرا سب سے بڑا ایوارڈ پنڈت دتا تریا کیفی ایوارڈ سال 2019 - 20کے لئے فارسی زبان و ادب کے ممتاز اسکالر پروفیسر شریف الحسن قاسمی کو جبکہ سال 2021- 22 کے لئے دتا تریہ کیفی ایوارڈ ممتاز نقاد، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر شمس الحق عثمانی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بہادر شاہ ظفر ایوارڈ اور برج نرائن دتا تریہ کیفی ایوارڈ دو لاکھ اکیاون ہزار روپے نقد، شال، سند اور میمنٹو پر مشتمل ہے۔

سال 2019 - 20 کے لئے باقی ایوارڈس کی تفصیلات یوں ہیں۔

۱۔ ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید : ممتاز ادیب، نقاد، شاعر و ڈراما نگار پروفیسر صادق

۲۔ ایوارڈ برائے تخلیقی نثر : ممتاز افسانہ نگار محترمہ بلقیس ظفیر الحسن

۳۔ ایوارڈ برائے شاعری: ممتاز شاعر و ناظم مشاعرہ شکیل جمالی

۴۔ ایوارڈ برائے اردو صحافت : ممتاز صحافی جناب وسیم الحق

۵۔ ایوارڈ برائے بچوں کا ادب: ڈاکٹر عادل حیات

۶۔ ایوارڈ برئے فنون لطیفہ: مشہور قوال غلام صابر غلام وارث

۷۔ کل ہند ایوارڈ برائے فروغ اردو: معروف فلم کار و نغمہ نگار گلزار

یہ ایوارڈز ایک لاکھ ایک ہزار روپے نقد، شال، سند اور میمنٹو پر مشتمل ہیں۔

سال 2021 - 22کے لئے باقی ایوارڈس کی تفصیلات مندر جہ ذیل ہیں۔

۱۔ ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید: ممتاز نقاد پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

۲۔ ایوارڈ برائے تخلیقی نثر: محترمہ نعیمہ جعفری پاشا

۳۔ ایوارڈ برائے شاعری: اقبال اشہر

۴۔ ایوارڈ برائے اردو صحافت: اسد رضا

۵۔ ایوارڈ برائے اردو ڈراما: پروفیسر محمد کاظم

۶۔ ایوارڈ برائے ترجمہ: پروفیسر اسد الدین

۷۔ کل ہند ایوارڈ برائے فروغ اردو:ممتاز شاعر پروفیسر وسیم بریلوی

واضح رہے کہ کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ اردو اکادمی دہلی کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے جو قومی سطح پر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فروغ اردو کا ایوارڈ بھی قومی سطح پر دیا جاتا ہے۔ باقی ایوارڈز دہلی میں مقیم شاعر و ادیبوں کے لئے مختص ہے۔ اس سال بہادر شاہ ظفر ایوارڈ کے لئے محترمہ جیلانی بانو کے نام کا اعلان ہوا ہے جو حیدر آباد میں مقیم ہیں جبکہ پروفیسر عبد الستار دلوی کا تعلق ممبئی سے ہے۔اسی طرح فروغ اردو کا ایوارڈ گلزار و وسیم بریلوی کو دینے کا اعلان ہوا ہے۔ گلزار صاحب فلم کار ہیں اور ممبئی میں سکونت پذیر ہیں۔ جبکہ مشاعروں کے مقبول ترین شاعر پروفیسر وسیم بریلوی کا تعلق اتر پردیش کے شہر بریلی سے ہے۔ وہ بریلی کالج میں اردو کے استاد تھے۔ رٹائرمنٹ کے بعد زیادہ تر لکھنؤ میں رہتے ہیں۔ لیکن ان دو ایوارڈس کے علاوہ باقی ایوارڈس کے لئے انھی شخصیات کے ناموں پر غور کیا جاتا ہے جو کم سے کم گزشتہ بیس برسوں سے دہلی میں مقیم ہوں۔

۵۔ ایوارڈ برائے بچوں کا ادب: ڈاکٹر عادل حیات

۲۔ ایوارڈ برائے تخلیقی نثر: محترمہ نعیمہ جعفری پاشا

۳۔ ایوارڈ برائے شاعری: اقبال اشہر

۴۔ ایوارڈ برائے اردو صحافت: اسد رضا

۵۔ ایوارڈ برائے اردو ڈراما: پروفیسر محمد کاظم

۶۔ ایوارڈ برائے ترجمہ: پروفیسر اسد الدین

پیر, اپریل 18, 2022

مہاراشٹر میں لاؤڈ اسپیکرزکےلۓ نئ ہدایات جاری کی جائیں گی دلیپ ولسے پاٹل

مہاراشٹر میں لاؤڈ اسپیکرزکےلۓ نئ ہدایات جاری کی جائیں گی دلیپ ولسے پاٹل

مسجد سے 100 میٹر کے دائرے میں اور اذان سے 15 منٹ پہلے اور بعد میں ہنومان چالیسہ پڑھنے پر پابندی

ممبئی، 18 اپریل (ہ س)۔

ریاستی وزیر داخلہ دلیپ و لسے پاٹل نے کہا کہ مہاراشٹر میں لاو¿ڈ سپیکر کے استعمال کے لیے اگلے دو دنوں میں ایک نئی گائیڈ لائن جاری کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے اس گائیڈ لائن کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کے ڈی جی پی کو مذہبی منافرت پھیلانے والوں سے سختی سے نمٹنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

وزیر داخلہ پاٹل نے پیر کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ مہاراشٹر کے مالوانی، مانکھرد، گوریگاو¿ں اور امراوتی اضلاع میں مذہبی منافرت کی وجہ سے چار مقامات پر کشیدگی پھیل گئی تھی لیکن پولیس نے انہیں فوری طور پر قابو میں کر لیا۔ اسی لیے آج انہوں نے سینئر پولیس افسران کے ساتھ میٹنگ کی اور وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے بھی اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا۔ جس کے بعد محکمہ داخلہ نے لاو¿ڈ اسپیکر کے استعمال کے لیے نئی گائیڈ لائن جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے تحت ریاست کے تمام مذہبی مقامات کے لیے لاو¿ڈ اسپیکر کی اجازت لینا لازمی ہوگا۔ اس کے علاوہ 4 مئی سے اگر کوئی مسجد کے سامنے ہنومان چالیسہ پڑھنا چاہتا ہے تو اسے پولیس کی اجازت سے 100 میٹر کے فاصلے پر ہنومان چالیسہ پڑھنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہنومان چالیسہ کی اذان سے 15 منٹ پہلے سے لے کر اذان ختم ہونے کے بعد 15 منٹ تک پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانے عائد کیے جائیں گے۔ایک ماہ سے ایک سال تک قید یا چھ ماہ تک قید کی سزا کا انتظام ہے۔ پاٹل نے کہا کہ پولیس کو ہر وقت چوکس رہنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

عظمت والا مہینہ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عظمت والا مہینہ ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
سال مہینوں میں، مہینے ہفتوں میں، ہفتے دنوں میں گذر گئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے رمضان کا مبارک مہینہ پھر ایک بار اپنی رحمتوں، برکتوں اور تجلیات ربانی کے ساتھ سایہ فگن ہوگیا، اس ماہ کے ابتداسے ہی روحانیت ونورانیت کی بارش ہونے لگتی ہے، پھر دلوں پر سکینت طاری ہو جاتی ہے، ایمان میں تازگی و شگفتگی اور نیکی کے کاموں میں نشاط کی لہر دوڑ جاتی ہے، مسجدیں ذکر و تسبیح اور نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، ادھر اللہ کی طرف سے جنت کے دروازے کھول دئے جا تے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جا تے ہیں، اور سر کش شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جا تا ہے، پھر بندہ ان اعمال خیر اور روزہ کی برکت سے اللہ سے اتنا قرب حاصل کر لیتا  ہے کہ اللہ جل شانہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، اور اپنی خاص رحمت نازل فرماتے ہیں، خطاؤں کو معاف کرتے ہیں، دعاؤں کو قبول کرتے ہیں اور رحمت و مغفرت کے مژدہ کے ساتھ آگ سے نجات کا فیصلہ فرما دیتے ہیں۔ حدیث  پاک میں فرمایا گیا کہ جس نے ایمان کے ساتھ  اللہ سے اجر و ثواب کی امید پر ماہ رمضان کے روزے رکھے اس کے گذشتہ تما م گناہ بخش دیے گئے۔”من صام رمضان ایماناً و احتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔“ نبوت کی دور رس  نگاہ نے روزہ کے لیے دو شرطیں بیان کی ہیں، پہلی شرط یہ ہے کہ روزہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے رکھا جا ئے، دوسری شرط یہ ہے کہ روزہ دار روزہ کی حالت میں قدم قدم پر اپنا محاسبہ کرتا رہے۔کہ کہیں اس سے شریعت کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی ہے، اس لیے کہ اللہ کے نزدیک صرف وہ روزہ مقبول ہے، جو ایمان و احتساب کے جذبے کے ساتھ رکھا جائے۔ علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ روزہ بندے اور پروردگار کے درمیان ایک راز ہے، جسے صرف وہی جانتا ہے کہ بندے نے جذبات کے تلاطم سے اپنے کو بچایا، دل وزبان کو محفوظ رکھا، بھوک کے مارے جان پر بن رہی ہے، لذیذ کھانا حاضر ہے، چاہے تو کھا سکتا ہے، مگر نہیں کھاتا، ٹھنڈے میٹھے مشروب موجود ہیں، مگر اس کی طرف ہاتھ تک نہیں بڑھاتا، کیوں کہ بندے نے اپنے مالک سے خاموش عہد و پیمان کیا ہے کہ ہم تیری رضا و خوشنودی کی خاطر حلال وپاک غذائیں بھی تیری اجازت اورحکم کے بغیر نہیں کھا سکتے، تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ تیرے حرام کیے ہوئے  کاموں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں، جب بندہ تقویٰ کے اس معیار پر پہونچ جا تا ہے تو قرآن اس کو متقی و پرہیزگار کہتا ہے، اور اللہ کی طرف سے منادی اعلان کرتا ہے کہ جاؤ ہم نے تمہاری خطاؤں اور لغزشوں کو معاف کر دیا، بیہقی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے آداب کی رعایت کی اور جن چیزوں سے بچنا چاہئے ان سے بچتا رہا تو یہ روزے گذشتہ زندگی کا کفارہ ہو جائیں گے۔ گویا یہ مقدس مہینہ خالق کائنات کی طرف سے اس کے بندوں کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے، پس خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس با برکت مہینہ اور موسم بہار کی قدر کی، اپنی زندگی کی قیمت سمجھی اور اس مہینہ کو ذکر و تلاوت، عبادت و ریاضت، صبر واستقامت اور زہد وطاعت میں گذارا، اور بد نصیب ہیں وہ لوگ، جنہوں نے اس ماہ مبارک کو فضول گوئی، بد کلامی اور لغویات میں گنوا دیا، حدیث میں فرمایا گیا: ”من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃٌفی ان یدع طعامہ و شرابہ۔“ جو شخص روزہ رکھ کر بیہودہ باتیں اور لغو حرکتیں نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ روزہ داروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو بات بات پر غصہ آتا ہے، مزاج میں چڑ چڑے پن کی کیفیت پید اہو جاتی ہے،  یہ بات اچھی نہیں، روزہ بندگی، شکستگی اور درماندگی کی چیز ہے، اس میں تواضع پیدا ہونی چاہئے، یہ روزہ کے منافی عمل ہے، اور یہ نہ دیکھئے کہ گناہ کتنا چھوٹا ہے، بلکہ یہ غور کرنے کا خوگر بنائیے کہ جس کی نا فرمانی کی جا رہی ہے، وہ کتنا بڑا ہے، لہٰذا وہ روزہ جو تقویٰ کی روح سے خالی ہو، اللہ کو ناراض کرنے کا باعث ہو تا ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے، جس میں ایک محدود وقت تک کھانے پینے اور خواہشات نفس سے پرہیز کیا جا تا ہے، لہٰذا ضروری ہوا کہ جہاں سے اس کی ابتداء ہو وہاں بھی کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا عمل پایا جائے تا کہ کھانے کے بعد سے روزہ شروع ہواور دوسرے کھانے پر ختم ہو جائے۔ جس کھانے سے روزہ کی ابتدا ہوتی ہے، اس کو سحری کھتے ہیں، اس کے ذریعہ انسان کو روزہ رکھنے میں طاقت ملتی ہے اور حدیث میں اس کھانے کو برکت کا کھانا کہا گیا ہے۔ جب شام کے وقت روزہ مکمل ہو جائے تو افطار کے ذریعہ روزہ کھولا جائے، مگر وہ وقت دعاؤں کی قبولیت کا ہو تا ہے، جب کوئی بندہ احساس ندامت کے ساتھ اللہ کے سامنے دست دراز ہو تا ہے تو اللہ اس کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ افطار کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزادی عطا ہو تی ہے۔ اس ماہ مبارک میں دعاؤں کا خاص اہتمام کرنا چاہئے، دعاء ماثورہ، کلمہئ توحید کا کثرت سے ورد کرنا چاہئے۔اس مبارک ماہ کو قرآن سے خاص  نسبت ہے، اسی ماہ میں قرآن اتارا گیا، اس لیے قرآن کی تلاوت کا بھی خصوصی  طور پر اہتمام کرنا چاہئے، اور اس مہینہ کی برکتوں کو پوری طرح وصول کرنا چاہئے۔اس کے ایک لمحہ کی قدر کیجئے اور اللہ سے معافی کے طلب گار بنے رہئے اللہ ہم سب کو اس ماہ مبارک کی قدرکی توفیق بخشے۔

آندھرا مسجد کے سامنے اونچی آواز میں موسیقی بجانے پردو فرقوں میں تصادم ۱۵زخمی ۲۰گذفتار

آندھرا مسجد کے سامنے اونچی آواز میں موسیقی بجانے پردو فرقوں میں تصادم ۱۵زخمی ۲۰گذفتار

امراوتی: قومی راجدھانی دہلی کے بعد آندھرا پردیش کے کرنول سے بھی فرقہ وارانہ تشدد کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ شب ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے جلوس کے دوران دو گروپوں کے درمیان پتھراؤ ہوا۔ اس واقعہ میں کم از کم 15 افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس نے 20 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ صورت حال مکمل طور پر پرامن ہے۔ قصبے کے ہولاگنڈہ علاقے میں اس وقت جھڑپیں شروع ہوئیں جب دو گروپوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔ حالات کشیدہ اس وقت ہوئے جب شام کو ایک مسجد کے سامنے سے جلوس نکل رہا تھا۔ چونکہ مسجد میں 'افطار' اور 'نماز' کا وقت تھا، لہذا نمازیوں نے جلوس کے دوران اونچی آواز میں موسیقی بجانے پر اعتراض کیا۔

اس کے بعد دونوں طرف تو تو میں میں شروع ہو گئی۔ دونوں دھڑوں نے نعرے بازی شروع کر دی جس سے صورتحال کشیدہ ہو گئی۔ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق کرنول کے ایس پی سدھیر ریڈی نے کہا "وی ایچ پی نے ہولاگنڈہ میں ہنومان جینتی کی تقریبات کا اہتمام کیا تھا۔ پولیس کے منع کرنے کے باوجود جلوس کے دوران ڈی جے کا استعمال کیا گیا۔ جلوس جب مسجد کے قریب پہنچا تو پولیس نے ڈی جے کی آواز کم کرنے کو کہا لیکن وہ مسجد کے سامنے رک گئے اور 'جے شری رام' کے نعرے لگانے لگے۔ اس پر پر مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے 'اللہ ہو اکبر' کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔''

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے صورتحال کو قابو میں کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ جلوس مسجد سے آگے بڑھے۔ تاہم کچھ دور چلنے کے بعد جلوس کے منتظمین نے ڈی جے کی آواز کو تیز کر دیا، جس پر مسلمانوں نے اعتراض ظاہر کیا۔ اس کے کچھ دیر بعد دونوں جانب سے پتھراؤ ہونے لگا۔

پولیس نے واقعے کی ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر 20 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ایس پی نے کہا کہ انہوں نے احتیاط کے طور پر علاقے میں اضافی فورس تعینات کر دی ہے۔ اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے آندھرا پردیش کی بی جے پی یونٹ کے صدر سومویر راجو نے جلوس پر مبینہ حملہ کرنے والوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثنا، واقعہ کے پیش نظر ہولاگنڈہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...