Powered By Blogger

جمعرات, اپریل 21, 2022

۲۳/اپریل عالمی یوم کتاب:ایک ایسی لڑکی کی کہانی جس نے ایک سال میں بچوں کے لئے ۲۵لائبریاں قائم کیں

۲۳/اپریل عالمی یوم کتاب:ایک ایسی لڑکی کی کہانی جس نے ایک سال میں بچوں کے لئے ۲۵لائبریاں قائم کیںاورنگ آباد(پریس ریلیز)
23/ اپریل یونیسکو کی جانب سے مشہور مصنف ولیم سیکسپیئر کی یاد میں عالمی یومِ کتاب کے طور پر منایا جاتاہے۔جس کا مقصدعالمی سطح پر عوام میں کتابوں کے تئیں بیدار ی ودلچشپی پیدا کرنا،کتابوں کی اشاعت اور اس کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہوتا ہے۔ 1995؁ٓ؁ء یہ دن ہر سال دنیابھر میں منایاجاتاہے۔
اس مناسبت سے مہاراشٹر کے مشہور تاریخی شہر اورنگ آباد کی ساتویں جماعت کی طالبہ مریم مرزا نے اپنی سہلیوں اور گلی کے بچوں کے لیے اپنی نجی تین سو کتابوں سے شہر کی پہلی محلہ بچوں کی لائبریری شروع کی تھی،مریم مرزا کی اس کوشش کو اتنا سہرایا گیا کہ ہر محلہ سے فرائش آنے لگی کہ ہمارے یہاں لائبریری شروع کیجے،ہم اپنا کمرہ دیتے ہیں، مسجدوالوں نے کہاکہ ہم جگہ دیتے ہیں۔پہلی لائبریری کا ابتداء 8/جنوری 2021؁ء کو ہوئی تھی۔21/ فروری کوعالمی یومِ مادری زبان کے موقع پر شہر کی گیارہویں مسجدمیں مریم مرز ا کی تحریک محلہ محلہ لائبریری کی سلور جبلی منائی گئی۔اس کے بعد مزید تین محلوں میں بچوں کی لائبریریاں شروع کی گئی ہیں۔ اس طرح اورنگ آباد کے مختلف محلوں میں پندرہ مہینے کے مختصر عرصہ میں 28لائبریریاں قائم ہوچکی ہیں۔
مریم مرزا کی یہ تحریک ریڈاینڈ لیڈ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چلائی جارہی ہے۔فاؤنڈیشن کے صدر مرزا عبدالقیوم ندوی کاکہنا ہے کہ اگر ہمیں ملک کی بڑی بڑی لائبریریوں کو بچانا ہے،ان میں رکھیں کروڑوں کتابوں کو قاری مہیا کرنا ہو تو ہمیں چھوٹی چھوٹی لائبرریاں قائم کرنی ہوں گی،اس کے لیے پرائمری وہائی اسکول کے بچوں کو رستہ کتابوں سے جوڑنا ہوگا، ان میں کتابوں کے تئیں بیداری اور شوق پیدا کرنا ہوگا، کل یہی بچے جب کالج و یونیورسٹیوں میں جائیں گے تو وہاں کی بڑی بڑی لائبریوں میں بھی جائیں گے اور وہاں سالہاسال سے رکھیں کتابوں سے دھول صاف کریں گے کتابیں بھی پڑھیں گے۔مریم مرزا کی تحریک کا سب سے بڑا فائدہ ہوا کہ اردو ودیگر علاقائی زبانوں کو قاری مل رہا ہے۔زبانوں کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ہزاروں کی تعدادمیں بچوں ان لائبریوں سے کتابیں اپنے گھروں میں لے جارہے ہیں، گھروں میں چھوٹے بڑے بھائی بہن،والدین اور بڑے بزرگ بھی بچوں کو یا تو پڑھ کر سنا رہے ہیں یا سن رہے ہیں۔
تو چلیے آج ہم آپ کو مہاراشٹر کے مشہور شہر اورنگ آباد کی ایک ایسی لڑکی کا تعارف کراتے ہیں جس نے اپنے ایک انوکھے اور مثالی کارنامے کے سبب ان سارے الزامات کو جو بچو ں پر لگائے جاتے ہیں غلط ثابت کردیا ہے۔ اس نے ایک تحریک شروع کی ہے گلی محلوں کے بچوں کے لیے 'محلہ محلہ لائبریری'
مرزا مریم جمیلہ مہا راشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں رہنے والی کم عمر لڑکی ہے اقراء پرائمری اسکول جماعت ہشتم کی طالبہ ہے۔ مریم جمیلہ،ادب اطفال کی شروع سے قاری رہی ہیں۔ ان کے والدنے جو کتابوں کا کاروبار کرتے ہیں 'بچوں کی دنیا' کی نکاسی میں عالمی ریکارڈقائم کیا ہے۔ ساٹھ دن میں تین شماروں کی ایک لاکھ پانچ سو کاپیاں فروخت کر چکے ہیں۔ 6سال میں پانچ لاکھ چھپن ہزار آٹھ سو کاپیاں فروخت ہوئی ہیں۔ مرزا مریم بھی 'بچوں کی دنیا' کی خریدار ہیں۔ ان کے پاس پوری فائل محفوظ ہے۔ اب جو انہوں نے لائبریوں کے قیام کا بیڑا اٹھایا ہے تو نہ صرف ادب اطلفال کی کتابیں اور بچوں کی دنیا بلکہ دیگر بچوں کے پرچے جیسے امنگ، گل بوٹے، اچھا ساتھی، جنت کے پھول، گلشن اطفال،پھول،روشن ستارے بھی بچوں کو پڑھنے ملیں گے۔ بچوں کے ا ن رسالوں کے توسط سے بچے قلمی دوستی سے واقف ہوں گے،رسائل سے متعارف ہوں گے اور زبان کی ترویج و اشاعت کے نئے افق روشن ہوں گے۔
لاک ڈاؤن جیسے سنگین حالات میں اپنے اطراف کے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنا منشا ء طے کرتی ہیکہ اپنے محلّے کے بچوں کیلئے وہ ایک لا ئبریری قائم کرے گی تا کہ بچے اپنے وقت کا صحیح استعمال کرسکے۔ بے کار کاموں میں خو د کو ملوث نہ کریں۔ ساتھ ہی وہ مستقبل کے قاری بنیں کیونکہ یہی بچے آنے والے مستقبل کے معما ر ہوں گے۔ مرزا مریم جمیلہ کے ذہن میں یہ تصور یہ جذبہ کہا ں سے آیا ہوگا؟یہ سوال سب کے ذہنوں میں انتشار پیدا کررہا ہوگا۔در اصل یہ مثبت تخلیقی صلاحیتوں اور،قوم و ملت کے فوائد کے تما م تر جذبات مریم نے مطالعہ سے حاصل کئے ہیں۔ اُسے کتب بینی کا بے حد شوق ہے۔
مریم جب بھی والد کی دکان پر جاتی ہیں تو ضرو ر ایک کتا ب اپنے ساتھ لے آتی ہیں۔ اس طرح مریم کے پاس ۰۵۱کتا بیں اب تک جمع ہوچکی تھیں۔مریم کے شوق کو دیکھتے ہوئے اس کے والد نے ۰۵۱ / کتابیں اپنی دختر کو14/ نومبر کو یو م اطفال کے موقع پر تحفے میں دیں۔مریم نے ان۰۰۳ کتابوں پر اپنی لائبریری کا آغاز ۸/جنوری ۱۲۰۲؁ء کو کیا۔جس کی افتتاحی تقریب کے لئے ڈاکٹر فو زیہ خان ]رکن راجیہ سبھا[کو مدعو کیا گیا تھا۔ بچوں کے چہیتے سابق صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر اے۔ پی۔ جے عبدالکلام کے نام سے موسوم لائبریری کا افتتاح بد ست ڈاکٹر فوزیہ خان کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔
مرزا مریم نے اپنا یہ مشن صر ف اپنے محلے کی لائبریری تک محدو د نہیں رکھا بلکہ وہ اپنے شہرمیں ۰۵لائبریریاں قائم کرنے کا عز م کرچکی ہے۔ مریم کے والد مرزا عبد القیوم ندوی Read & Lead Foundatio کے صدر ہیں۔ وہ اپنی شہزادی کی طرح ہمدرد دل رکھتے ہیں۔ محلے کے بچے غلط روش اور بُرائی کی طر ف مائل نہ ہوں بلکہ اُن کے اخلاق و عادتیں بھی اچھی ہوں اس کی خاطر اپنی بیٹی کے مقاصد کی تکمیل کیلئے Fameاور Read & Lead Foundation نے اس تقریب کو منظم طریقے سے انجام دیا۔ مریم کانعرہ ہے کہ'تم مجھے 10000/- روپئے دو،میں تمہیں ایک لائبریری دوں گی۔' مریم کے اس جذبے نے پو رے محلے میں ایک امنگ پید اکی۔ کم وبیش 87 بچوں نے لا ئبریری سے کتابیں لی تھیں جسکی تعداد 167تک پہنچ گئی۔ اب تک جائزے سے یہ معلوم ہو ا کہ ا ن بچوں نے دس دفعہ کتابیں تبدیل کیں اور کتابوں کو گھر لے جاکراُن کا مطالعہ کیا۔ بچوں سے بات کرنے پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ اُن کی والدہ، دادی اور دادا وغیرہ بھی اُنھیں کہانیاں پڑھ کر سُناتے ہیں۔ ساتھ ہی مریم نے جو عزم کیا تھا کہ اُسے 50 لائبریریاں قائم کرنا ہے۔ وہ بھی یکے بعد دیگر قائم ہوتی جارہی ہیں۔یہ تمام لائبریاں قومی شخصیات،سیاسی رہنماؤں اور ادبی خدمات انجام دینے والی قد آورشخصیتوں،عظیم شعراء حضرا ت کے ناموں سے موسوم کی جائیں گی،جن کے کارناموں سے بچے واقف ہوسکیں گے اور ان کے تئیں ادب کا یہ خراچ عقیدت بھی ہوگا۔ اس میں صرف اردو ہی کی معروف شخصیات نہیں بلکہ دیگر زبانوں کے دانشور بھی شامل ہیں۔ مریم کا یہ اقدام کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔
مریم نے ان محلہ لائبریوں کے قیام میں یہ مقصد بھی پیش نظر رکھا ہے کہ بچوں میں اوائل عمر ہی میں مطالعہ کا ذوق پروان چڑھے۔موبائل پر گیمس اور دیگر تفریحی aapsمیں عمر عزیز کے گھنٹوں ضائع کرنے کی بجائے بچوں کو اگر مطالعے کی صحیح سمت مل جائے تو بڑی حد تک یہ ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگی۔ یہ بات طے ہے کہ مطالعہ کی عادت ذہن کے دریجوں کو کھولنے میں اہم کرداراداکرتی۔اگربچپن ہی میں بچوں کو یہ عادت ہوجائے تو بلاشبہ مستقبل میں بھی وہ کتابیں خرید کر پڑھتے رہیں گے۔زندگی کتاب سے جڑی رہے گی۔اور جن کی زندگی کتاب سے جڑی ہوتی ہے۔ ان کی سو چ،ان کی گفتگواور زندگی کے تعلق سے ان کے رویوں کانکھارہی کچھ اور ہوتاہے،یہ اس لیے بھی ضر وری ہے کہ یہی بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ تحریک مریم مرزا کے تحت شہرکی گیار ہ مسجدوں میں بچوں کی محلہ لائبریاں چل رہی ہیں اوراب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ مسجدوں کو اسٹیڈی سینٹر بنایاجائیں جہاں طلباء اپنی نصابی کتابیں لے کرآئیں اور یہاں پڑھیں گے۔ ان لائبریوں میں امسال یہ بھی کوشش کی جائے گی کہ طلباء کی نصابی کتابیں جو وہ پڑھ چکے ہیں انہیں جمع کیاجائے گا اور دوسرے غریب ضرورت مند بچوں کو وہ کتابیں دی جائیں گی۔مریم مرزا کی محلہ لائبریوں سے پانچ ہزار سے زائد بچے وابستہ ہیں۔

بدھ, اپریل 20, 2022

خواتین قرآن سے اپنے رشتے کو مضبوط کریں: مفتی ثناء الہدی قاسمی

خواتین قرآن سے اپنے رشتے کو مضبوط کریں: مفتی ثناء الہدی قاسمی

مظفرپور: 20 اپریل (پریس ریلیز) 
قرآن کریم کو اسی طرح پڑھنا چاہیے جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے. خواتین کے ساتھ چونکہ گھریلو ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں اس لیے بہت کم خواتین قرآن کو درست مخارج کے ساتھ پڑھنا سیکھ پاتی ہیں. ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ کے نائب ناظم اور معروف عالم دین مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے دعائیہ محفل سے خطاب کرتے ہوئے کیا. وہ عبدالرزاق کالونی،مٹھن پورہ مظفرپور میں حافظہ صالحہ فردوس اہلیہ کامران غنی صبا (نتیشور کالج مظفرپور) کی امامت میں ہونے والی خواتین کی تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر دعائیہ محفل سے خطاب فرما رہے تھے. انہوں نے مختلف مثالوں کے ذریعہ بتایا کہ قرآن پاک پڑھتے ہوئے اگر حروف کی ادائگی کا خیال نہ رکھا جائے تو بسا اوقات معنی کی ایسی غلطیاں ہونے کا امکان ہوتا ہے کہ انسان دانستہ اگر یہ غلطیاں کر بیٹھے تو یقینی طور پر گنہگار ہو جائے گا. مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے کہا کہ یہ قرآن کا ہی وصف ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے اگر آپ اللہ کے سرکش اور باغی بندوں مثلاً فرعون اور نمرود کا نام بھی پڑھتی ہیں تو ہر ہر حرف کے بدلے ایک نیکیاں ملتی ہیں. انہوں نے کہا کہ قرآن پاک سے ہمارا رشتہ بہت ہی مضبوط ہونا چاہیے. انہوں نے کہا کہ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی گھریلو مصروفیات سے کچھ وقت فارغ کریں اور ان اوقات میں قرآن کو صحیح طریقے سے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں. مفتی ثناء الہدی قاسمی نے تراویح میں قرآن پاک مکمل ہونے پر حافظہ صالحہ فردوس اور تراویح میں شامل تمام خواتین کو مبارکباد پیش کی.
واضح رہے کہ عبدالرزاق کالونی، مٹھن پورہ میں ہی رمضان بعد حافظہ صالحہ فردوس کی نگرانی میں ہفتہ وار قرآن کلاس کا آغاز ہوگا. جس میں تجوید قرآن سکھائی جائے گی. علاقہ کی خواتین اس ہفتہ وار کورس میں شریک ہو سکتی ہیں

جہانگیر پوری: بلڈوزر سے مسجد کا دروازہ توڑا گیا،قریب میں موجود مندر محفوظ

جہانگیر پوری: بلڈوزر سے مسجد کا دروازہ توڑا گیا،قریب میں موجود مندر محفوظ

دہلی کے جہانگیر پوری میں ایم سی ڈی کے ذریعہ سپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ بلڈوزر کی کارروائی پر روک لگانے کا حکم دیئے جانے کے تقریباً دو گھنٹے بعد تک انہدامی کارروائی چلتی رہی اور اس دوران اس مسجد کا دروازہ بھی توڑ دیا گیا جہاں پر گزشتہ دنوں تشدد کا واقعہ پیش آیا تھا۔ ایم سی ڈی کی اس کارروائی کے دوران جانبداری کا مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملا کیونکہ مسجد کا دروازہ تو توڑ دیا گیا، لیکن پاس میں ہی موجود مندر پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ مندر کے سامنے بلڈوزر جیسے ہی پہنچا، وہاں بھیڑ جمع ہو گئی جس کے بعد بلڈوزر کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے کئی لوگ کارپوریشن پر جانبداری کا الزام عائد کر رہے ہیں۔الزام ہے کہ مسجد کا گیٹ بے دردی کے ساتھ توڑ دیا گیا اور اس سے ملحق دیواریں بھی توڑ دی گئیں۔ ساتھ ہی وہاں موجود ایک موبائل کی دکان پر بھی بلڈوزر چلایا گیا۔ مسجد کے قریب میں ہی مندر بھی تھا جہاں غیر قانونی تعمیرات دکھائی دے رہی تھیں، لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے ذریعہ جاری کی گئی ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح مسجد کے آس پاس کا حصہ ایم سی ڈی افسران کی موجودگی میں توڑ دیا گیا۔

جب باری وہاں پر موجود مندر کے غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کی آئی تو ایم سی ڈی جھجکتی ہوئی دکھائی دی۔ ایم سی ڈی کی تجاوزات مخالف کارروائی کے دوران علاقے کے مندر کے آس پاس بنی دکانوں کو چھوا تک نہیں گیا، جب کہ اس سے پہلے مسجد کے نزدیک بنی دکانوں کو بھی توڑ دیا گیا۔

ناراض لوگوں نے جہانگیر پوری میں ایم سی ڈی کی بلڈوزر چلانے کی کارروائی کے دوران جب جانبدارانہ رویہ کا ایشو اٹھایا اور سوال کیا کہ جب مسجد کے پاس والی دکانوں کو توڑ دیا گیا تو مندر کے پاس بنی دکانوں کو کیوں چھوڑا جا رہا ہے۔ اس پر پولیس نے اعتراض کرنے والے لوگوں کو کھدیڑ دیا۔

مشرقی چمپارن میں آندھی پانی اور ژالہ باری سے کسانوں کا کافی نقصان

مشرقی چمپارن میں آندھی پانی اور ژالہ باری سے کسانوں کا کافی نقصانضلع میں منگل کی دیر رات اچانک موسم نے کروٹ لے لی، تیز گرج چمک کے ساتھ بارش اور ژالہ باری کی وجہ سے معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئی ، جس کی وجہ سے کسانوں کو بھاری نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ تیز آندھی ، بجلی کے کھمبوں پر درخت گرنے سے شہر سے گائوں تک بجلی غائب ، ایک طرح سے پورے ضلع میں اندھیرا چھا گیا ، کھڑی گیہوں کی فصل کے ساتھ ساتھ مکئی اور ہری سبزیاں بھی گر گئی جس سے کافی نقصان اٹھانا۔تقریباً ایک گھنٹہ تک آندھی پانی کی تباہ کاریوں سے مکمل عوامی زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئی۔ تیز آندھی کے باعث شہر کے ایئرپورٹ ،پٹرول پمپ کے قریب درخت گرنے سے ٹریفک متاثر ہوئی۔ منشی کالج کے کیمپس میں چاندماڑی فیڈر میں بجلی کی تار پر درخت گرنے سے بجلی ٹھپ ہو گئی۔ کم و بیش یہی صورت حال ضلع کے چھتونی ، جان پل اور لکھورا فیڈرز میں رہی۔ آندھی نے کئی جھونپڑی نماں مکان کے ساتھ ساتھ شادی کے پنڈال کو بھی نقصان پہنچایا

فطری تقاضے__ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

فطری تقاضے__
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
انسان فطری طور پر اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے، وسائل کی قلت اور زندگی گذارنے میں معیار کے مسئلے کے باوجود وہ چاہتا ہے کہ اس کی کئی اولاد ہو، تاکہ وہ بڑھاپے میں والدین کے لیے سہارے کا کام کر سکیں، چین نے اس فطری تقاضے سے بغاوت کر رکھی تھی، وہاں ایک بچہ کی ولادت کے بعد دوسرے بچے کو آنے سے قانونی طور پر روکاجا رہا تھا۔ ۷۰۰۲ء تک یہ قانون صرف ۶۳ فی صد آبادی پر ہی لاگو ہو سکا تھا،کیونکہ قانونی اعتبار سے ان لوگوں کو دوسرے بچے کی پیدا ئش کی اجازت دی گئی تھی، جن کی پہلی اولاد لڑکی ہو، لیکن اس قانون کی وجہ سے چین میں بوڑھوں کی تعداد بڑھ رہی تھی، ابھی چین میں اکیس کڑوڑ لوگ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے ہیں، معاشی تگ ودو کرنے والے افراد کی دن بدن کمی ہوتی جا رہی تھی، جبکہ کمیونسٹ نظریہ میں دولت کے حصول کے لیے افرادی قوت کی بڑی اہمیت ہے۔
اسلام نے اس غیر فطری مطالبہ کو ہمیشہ ناقابل عمل قرار دیا ہے، اس کی سوچ یہ ہے کہ کھاناکھلانا اور بچوں کی دوسری ضروریات پوری کرنا انسان کا کام نہیں، وہ اللہ کا کام ہے اور اللہ حسب ِضرورت ضروریات زندگی پوری کرتا ہے، اس کا اعلان ہے کہ کھلانے پلانے کے ڈر سے بچوں کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور اسے بھی کھلائیں گے، وسائل کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں، اس لئے معاشی تنگی کے ڈر سے آنے والے بچوں کو روکنا اور خاندانی منصوبہ بندی کرانا،اللہ پر ہمارے یقین و اعتماد میں کمی کامظہر ہے۔
دراصل یہ ساراقصورانسانی عقل کاہے،وہ اپنی محدوددنیاکے لیے محدودعقل سے سوچتاہے اوربیش تر ان خطروں کاادراک کرلیتاہے،جس کاوجودموہوم ہوتاہے، مالتھس کی تھیوری اگرصحیح ہوتی توآج دنیامیں رہنے کی جگہ نہیں ہوتی۔لیکن اسلام کے اصول وضوابط انسانی عقل کی پیداوارنہیں ہیں،اس لیے اسلام نے بچوں کی آمدپرروک نہیں لگائی اوریہ تصوردیاکہ ہرآنے والابچہ اپنے ساتھ ایک سوچنے والادماغ اورکام کرنے والے دوہاتھ لے کراس دنیامیں آتاہے،یہ قدرت کاعطیہ ہے،یہ انسانی چمن کے پھول ہیں،انہیں بھی دنیا دیکھنے دیجئے۔اسلام اس بات کوپسندکرتاہے کہ بچے آتے رہیں،ہرآنے والابچہ اس بات کااعلان ہوتاہے کہ قدرت ابھی اس کائنات سے مایوس نہیں ہے،وہ اس بات کی ترغیب دیتاہے کہ نکاح کے لیے ایسے خاندان کی لڑکیوں کاانتخاب کیاجائے جس میں زیادہ بچوں کی پیدائش کی روایت رہی ہو،اس صورت حال کے مطالعہ کاایک دوسرارخ یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت کاجونظام ہے،وہ بڑھتی آبادی کے اعتبارسے معاشی وسائل پیداکرنے کاہے،آپ ہرروزمشاہدہ کرتے ہیں کہ جہاں آبادی نہیں ہوتی وہاں کی زمینیں بنجرہوتی ہیں،ریگستان،ریت اورببول کے پیڑہی اس کامقدرہوتے ہیں،لیکن جہاں کوئی بستی آبادہوئی،وہی جگہ جہاں دھول اڑرہی تھی،لوگ جاتے ہوئے ڈرتے تھے، جو جگہ صحرااوربیابان تھی،وہاں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اورزمین کی قوت نمومیں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتاہے، اس کاجائزہ وسیع پیمانے پرلیں تومعلوم ہوگاکہ جب آبادی کم تھی توانسان غذائی اجناس کی پیداوارکے وہ طریقے نہیں جانتاتھا،جوآج اس کے علم ویقین کاحصہ ہیں،وہ پھوس کے مکان میں رہتاتھا،اس زمانہ میں کثیرمنزلہ عمارتوں کاکوئی تصورنہیں تھا،کل کارخانے اورمعدنیات کے وہ ذخائرجوزمین نے اپناسینہ چیرکرانسانوں کی معاش کے لیے فراہم کئے ہیں،اس کی طرف دھیان بھی نہیں جاتاتھا،لیکن آبادیاں بڑھیں تومعاشی وسائل بھی بڑھے،جس کھیت سے دہقان کوروٹی میسرنہیں ہوتی تھی اورساہوکاروں کے یہاں کسان بیگاری کرتے کرتے مرجاتاتھا،کھیتیاں مانسون کی رہین منت ہوتی تھیں،آب پاشی کی سہولت نہیں ہونے سے کسان سال سال بھرفاقہ کشی کی دہلیزپرپڑارہتاتھا،آج یہ سب خواب معلوم ہورہاہے،اب فصلیں سال میں کئی کئی باراگائی جارہی ہیں،اورزمین کی قوت نموکواللہ نے اس قدربڑھادیاہے کہ ہماری سرکاریں اعلان کرتی رہتی ہیں کہ غذاکی کمی سے کسی کومرنے نہیں دیاجائے گا،یہ فکری بصیرت کامعاملہ نہیں،کھلی آنکھوں کے مشاہدہ سے اس کاتعلق ہے۔

منگل, اپریل 19, 2022

*روزہ کے خلوص پر حملہ

*روزہ کے خلوص پر حملہ*

آج روزہ کی فضلیت واہمیت پر خوب سے خوب گفتگو ہوتی ہے، تحریر وتقریر کے ذریعہ یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ روزہ ایک ایسی عبادت کا نام ہے جس پر بے پناہ اجر وثواب لکھا جاتا ہے، یہ عبادت کا دروازہ ہے،روزہ دار کے منھ کی بوخدا کو مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے، شیطانی حملہ سے حفاظت کا یہ ذریعہ ہے،اس سے پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے، اسمیں کوئی شک نہیں ہے، یہ قرآن وحدیث کی باتیں ہیں مگر موجودہ وقت میں ضرورت اس بات کی شدید ہے کہ روزہ کی حفاظت پر گفتگو کی جائے اور تحریر وتقریر کا اسے عنوان بنایا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ داروں کی ایک قسم یہ بھی بتلائی کے جن کے روزے کی کوئی حیثیت اور اہمیت اللہ کے نزدیک نہیں ہے، 
روزہ کی حالت میں جب بندہ غلط بات اپنے منھ سےنکالتا ہے اوراپنے جسم سے غلط کام انجام دیتا ہے تو ایسے روزہ کے بارے میں حدیث میں لکھا ہوا ہے، ؛جو شخص غلط، جھوٹ اور گناہ کی بات اور غلط اور گناہ کا کام نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے، (حدیث )
غلط بات میں جھوٹ ،غیبت،چغلی، گالی، فحش گوئی اور زبان کی تمام بے اعتدالیاں شامل ہیں، 
حدیث میں جھوٹ بولنے والے کے بارے میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کے منھ سے ایسی خراب بو نکلتی ہے جس سے فرشتے بھی بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، اور غیبت کرنے والے کے متعلق تو قران کریم میں صاف لکھا ہوا ہے کہ مردے بھائی کے گوشت کھانے سے بدتر ہے، ایسے روزہ دار کی بو خدا کو مشک سے زیادہ کیسے پسند ہوسکتی ہےجو مردہ کھارہا یے اور منھ میں خطرناک بدبو لئے ہوئے ہے؟
آج یہی ہورہا ہے کہ آدمی کا روزہ بھی ہورہا ہے اور روزہ کے خلوص پرجھوٹ اور غیبت کا حملہ بھی ہورہا ہے۔
یہ بات آج بتانے کی ہے کہ روزہ پر اجر وثواب درحقیقت اس عبادت کےخلوص کی وجہ سے ہے، روزہ صرف اللہ کی رضا کے لئے رکھا جاتا ہے، اس میں ریاکاری اور دکھاوا نہیں ہوتا ہے، اس لئے اسے حدیث میں عبادت کا دروازہ کہا گیا ہے، بندگی کا مقصد اس سے حاصل ہوتا ہے۔
روزہ جیسی عبادت میں بھی خلوص نہ رہے تو یہ اجر سے خالی ہوجاتا ہے، 
آج روزہ دار ٹائم پاس کے نام پر موبائل پر ننگی تصاویر اور فحش ویڈیوز دیکھ رہا ہے، کچھ ایسے مسائل بھی پوچھے جارہے ہیں کہ مولوی صاحب!
میں موبائل پر ویڈیوز دیکھ رہا تھا کہ، غسل کی ضرورت پڑگئی، اب میرے روزے کا کیا ہوگا؟
مسئلہ کی رو سے تو روزہ ہوجائے گامگر ننگی تصاویر اور فحش ویڈیوز دیکھنا جو سخت گناہ کا کام ہے،اس کے مرتکب ہونے کی وجہ کر اس شخص کا روزہ اجر وثواب سے خالی ہوگا، حدیث شریف میں جسکی جانب نشاندہی کردی گئی ہے کہ غلط کام کا ارتکاب روزہ کی حالت میں ہےتو وہ ثواب سے خالی ہوجاتاہے۔
بالخصوص ہمارے نوجوان بھائیوں سے اس تعلق سے زیادہ بے اعتدالی دیکھنے میں آتی ہے، 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ایک صاحب نے روزہ کی حالت میں اپنی اہلیہ سے بغلگیر ہونے کے بارے میں اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے اجازت دے دی، دوسرے صاحب آئے انہوں نے بھی یہی مسئلہ معلوم کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہیں دی، جن صاحب کو آپ نے اجازت مرحمت فرمائی وہ سن رسیدہ تھے،اور جن کو منع فرمایا تھا وہ جوان تھے، یہ ابوداؤد شریف کی حدیث ہے۔
اس حدیث سے یہ بات ہمیں سمجھ میں آتی ہے کہ نوجوانوں کو بالخصوص زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے، آج مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ نئی عمر کے لڑکے جو روزہ بھی رکھتے ہیں اور ساتھ ہی موبائل سے چمٹے رہتے ہیں، روزہ کی حالت میں نماز کا خیال ہے اور نہ دوسرے کسی کام کا، بسا اوقات وہ خطرہ اور اندیشہ جسکی بنیاد پر اللہ کے رسول نے ایک جوان کو اپنی بیوی سے بھی روزہ کی حالت میں منع فرمادیا تھا وہ رونما ہوجاتا ہے، الامان والحفیظ، 
روزہ خالص عبادت ہے اس کے خلوص کی حفاظت اس وقت سب سے اہم کام اور عنوان ہے،اس موضوع پر ہمیں متحد ہونے کی شدید ضرورت ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۶/رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ

اردو اکادمی دہلی کے سالانہ ایوارڈس کا اعلان

اردو اکادمی دہلی کے سالانہ ایوارڈس کا اعلان


دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ و دہلی اردو اکادمی کے چیئرمین منیش سسودیا نے گورننگ کونسل کے ممبران اور مختلف اردو اداروں کی آراء کی روشنی میں اکادمی کے سالانہ ایوارڈس کا اعلان کر دیا ہے۔ ان ایوارڈس کی اطلاع اردو اکادمی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد اور سیکریٹری محمد احسن عابد کے ذریعے جاری کی گئی۔

سال 2019 - 20 کے لئے کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ممتاز ناول نگار جیلانی بانو کو دیا گیا ہے۔ جبکہ سال 2021-21کے لئے یہی کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ماہر لسانیات پروفیسر عبد الستار دلوی کو دیا گیا ہے۔ اردو اکادمی دہلی کے ذریعے دیا جانے والا دوسرا سب سے بڑا ایوارڈ پنڈت دتا تریا کیفی ایوارڈ سال 2019 - 20کے لئے فارسی زبان و ادب کے ممتاز اسکالر پروفیسر شریف الحسن قاسمی کو جبکہ سال 2021- 22 کے لئے دتا تریہ کیفی ایوارڈ ممتاز نقاد، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر شمس الحق عثمانی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بہادر شاہ ظفر ایوارڈ اور برج نرائن دتا تریہ کیفی ایوارڈ دو لاکھ اکیاون ہزار روپے نقد، شال، سند اور میمنٹو پر مشتمل ہے۔

سال 2019 - 20 کے لئے باقی ایوارڈس کی تفصیلات یوں ہیں۔

۱۔ ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید : ممتاز ادیب، نقاد، شاعر و ڈراما نگار پروفیسر صادق

۲۔ ایوارڈ برائے تخلیقی نثر : ممتاز افسانہ نگار محترمہ بلقیس ظفیر الحسن

۳۔ ایوارڈ برائے شاعری: ممتاز شاعر و ناظم مشاعرہ شکیل جمالی

۴۔ ایوارڈ برائے اردو صحافت : ممتاز صحافی جناب وسیم الحق

۵۔ ایوارڈ برائے بچوں کا ادب: ڈاکٹر عادل حیات

۶۔ ایوارڈ برئے فنون لطیفہ: مشہور قوال غلام صابر غلام وارث

۷۔ کل ہند ایوارڈ برائے فروغ اردو: معروف فلم کار و نغمہ نگار گلزار

یہ ایوارڈز ایک لاکھ ایک ہزار روپے نقد، شال، سند اور میمنٹو پر مشتمل ہیں۔

سال 2021 - 22کے لئے باقی ایوارڈس کی تفصیلات مندر جہ ذیل ہیں۔

۱۔ ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید: ممتاز نقاد پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

۲۔ ایوارڈ برائے تخلیقی نثر: محترمہ نعیمہ جعفری پاشا

۳۔ ایوارڈ برائے شاعری: اقبال اشہر

۴۔ ایوارڈ برائے اردو صحافت: اسد رضا

۵۔ ایوارڈ برائے اردو ڈراما: پروفیسر محمد کاظم

۶۔ ایوارڈ برائے ترجمہ: پروفیسر اسد الدین

۷۔ کل ہند ایوارڈ برائے فروغ اردو:ممتاز شاعر پروفیسر وسیم بریلوی

واضح رہے کہ کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ اردو اکادمی دہلی کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے جو قومی سطح پر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فروغ اردو کا ایوارڈ بھی قومی سطح پر دیا جاتا ہے۔ باقی ایوارڈز دہلی میں مقیم شاعر و ادیبوں کے لئے مختص ہے۔ اس سال بہادر شاہ ظفر ایوارڈ کے لئے محترمہ جیلانی بانو کے نام کا اعلان ہوا ہے جو حیدر آباد میں مقیم ہیں جبکہ پروفیسر عبد الستار دلوی کا تعلق ممبئی سے ہے۔اسی طرح فروغ اردو کا ایوارڈ گلزار و وسیم بریلوی کو دینے کا اعلان ہوا ہے۔ گلزار صاحب فلم کار ہیں اور ممبئی میں سکونت پذیر ہیں۔ جبکہ مشاعروں کے مقبول ترین شاعر پروفیسر وسیم بریلوی کا تعلق اتر پردیش کے شہر بریلی سے ہے۔ وہ بریلی کالج میں اردو کے استاد تھے۔ رٹائرمنٹ کے بعد زیادہ تر لکھنؤ میں رہتے ہیں۔ لیکن ان دو ایوارڈس کے علاوہ باقی ایوارڈس کے لئے انھی شخصیات کے ناموں پر غور کیا جاتا ہے جو کم سے کم گزشتہ بیس برسوں سے دہلی میں مقیم ہوں۔

۵۔ ایوارڈ برائے بچوں کا ادب: ڈاکٹر عادل حیات

۲۔ ایوارڈ برائے تخلیقی نثر: محترمہ نعیمہ جعفری پاشا

۳۔ ایوارڈ برائے شاعری: اقبال اشہر

۴۔ ایوارڈ برائے اردو صحافت: اسد رضا

۵۔ ایوارڈ برائے اردو ڈراما: پروفیسر محمد کاظم

۶۔ ایوارڈ برائے ترجمہ: پروفیسر اسد الدین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...