Powered By Blogger

پیر, مئی 16, 2022

مسلمانوں کی تعلیمی صورت حالمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
=====================================
 مسلمانوں کی آبادی اور اقلیتی فرقوں کی تعلیمی حالات کی جو رپورٹ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے تناظر میں شائع کی گئی ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی اس ملک میں صرف تیرہ فیصد ہے، جن میں صرف 2.76فی صد گریجویٹ ہیں، تکنیکی اور غیر تکنیکی تعلیم میں ڈپلوما حاصل کرنے والے 0.44 بارہویں کلاس تک تعلیم پانے والے مسلمانوں کی تعداد 4.44فی صد، دسویں تک تعلیم حاصل کرنے والے6.33اور 16.8فی صد مسلمانوں نے صرف پرائمری کی تعلیم حاصل کی ہے، عورتوں میں خواندگی کاتناسب مجموعی گریجویٹ2.76فی صد میں 36.65ہے، تینتالیس فی صد مسلمانوں نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا ،یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں، اور ان کی صحت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، لیکن ہمارے پاس احوال کے جاننے کاکوئی اور ذریعہ نہیں ہے، اس لیے ان اعداد وشمار پرہی اعتماد کرنا پڑتا ہے، تھوڑے بہت کا فرق ہو تب بھی مسلمانوں کا تعلیمی گراف بہت اونچا نہیں جا سکتا ، کیوں کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے جوتعلیمی اعداد وشمار ہیں وہ بہت آگے ہیں،ہندوستان گیر سطح پر دیکھیں تو جین مذہب کے ماننے والے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، ان کی خواندگی کا تناسب 86فی صد اور غیر خواندہ13.75فی صد ہیں،ہندؤوں میں غیر خواندہ لوگوں کی تعداد 36.40سکھوں میں 32.49بودھوں میں 28.17عیسائیوں میں تقریبا25.66فی صد ہے،مجموعی طور پر پورے ملک کی خواندگی کا تناسب دیکھیں تو صرف 5.63فی صد لوگ ہی بی اے یا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، اعلیٰ تعلیم میں پورے ملک میں 61.6فی صد مرد اور 38.4فی صد خواتین ہیں۔ان اعداد وشمار میں آئندہ مردم شماری کی جو رپورٹ آئے گی اس میں بڑی تبدیلی کا امکان ہے، جب تک اگلی مردم شماری کا عمل مکمل نہیں ہوتا ۲۰۱۱ء کی رپورٹ ہی ہمارے لیے بحث وتحقیق اور تجزیہ کے لیے استعمال ہوتا رہے۔
 اس طرح غور کریں تو معلوم ہوگا کہ خواندگی کا تناسب پورے ملک میں کمزور ہے ، لیکن مسلمان سماجی اورمعاشی طور پرکمزور ہونے کے ساتھ ساتھ  سیاسی طورپربھی کمزور ہیں سترہ کڑوڑ کی مسلم آبادی میں پارلیامنٹ میں مسلم ممبروں کی تعداد کم از کم پچھہترہونی چاہیے تھی، جو نہیں ہے۔
اس وقت ہمارا موضوع مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال ہے ، یہ امت جو تعلیم کے نام پر برپاکی گئی ، جس کے لیے قرآن کریم کا پہلا جملہ ’’اقرائ‘‘  پڑھو نازل ہوا ،جس کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں اعلان کیاکہ وہ معلم بنا کر بھیجے گیے ہیں، جس کے لیے قرآن کریم نے اعلان کیاکہ ایمان اور علم ،رفع درجات کا سبب ہے ، جن کے یہاں طلب علم کو فرض قرار دیا گیا ، اتنی ترغیب کے با وجود مسلمان تعلیم میں کیوں پیچھے ہیں، عام رجحان یہ ہے کہ تعلیم مہنگی ہو گئی ہے ،اور مسلمانوں کے پاس اس مہنگی تعلیم کے حصول کے لیے وسائل کی کمی ہے ،معاشی پس ماندگی کیوجہ سے ہمارے بچے تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے ہیں اس لیے ڈراپ آؤٹ کا تناسب ان کے یہاں بہت ہے ، ان باتوں کی صداقت سے کلیۃً انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن اگر حوصلہ اور اولو العزمی کی نظر سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان حالات پر قابو پانا قطعا دشوار نہیں ہے، آج سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے ملنے والے اسکالر شپ اور قرض ہماری مالی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں ، اگر حوصلہ ہو اور پڑھنے کا پختہ ارادہ ہو تو راستے میں رکاوٹیں حائل نہیں ہوتیں، حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج تعلیم کے حصول میں رکاوٹ بے کسی اور بے بسی نہیں بلکہ ہماری بے حسی ہے جس کی وجہ سے ہمارے بچے تعلیم میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں، یہ بے حسی کبھی تو گارجین کی طرف سے ہوتی ہے اور کبھی لڑکوں کی طرف سے ، بعض لڑکے زیادہ خرچا لو ہوتے ہیں وہ اپنے گارجین کی مالی حیثیت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں  اورمختلف عنوانات سے ضروری اور غیر ضروری اخراجات کرکے گارجین کوپریشان کرتے ہیں،کھی بچوں کایہ رویہ بھی گارجین کو اس کی تعلیم بندکرنے پر آمادہ کر دیتا ہے، کبھی صورت حال اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہوتی ہے، ہمارے ایک ملنے والے کے پوتے نے ایک کوچنگ میں داخلہ کے لیے گارجین پر دباؤ ڈالا ، گارجین اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ پچپن ہزار روپے کوچنگ کی فیس ادا کر سکے، لڑکے نے خودکشی کی دھمکی دی ، ماں ،دادی سب نے اپنے زیور گروی رکھ کر اس کی پسند کے کوچنگ میں داخلہ دلوا دیا ، دور روز کے بعد لڑکے نے انکار کر دیا کہ ہم وہاں نہیں پڑھیں گے ، وجہ جو بھی رہی ہو لیکن صورت حال یہ بنی کہ اب ماں دادی کی خود کشی کی نوبت آگئی کیونکہ جو روپے کوچنگ میں جمع ہو گیے، وہ عام حالات میں تو واپس ملنے سے رہے، ایسے میں گارجین کے پاس چارہ کا ر ہی کیا رہ جاتا ہے، اس لیے اگر ہمیں تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے تناسب کو بڑھا نا ہے تو ضروری ہے کہ لڑکے اور گارجین میں خاص قسم کا تال میل ہو ، دونوں ایک دوسرے کی ضرورت اور مجبوری کو سمجھیں اور اس بے حسی کو دور کریں ،جو ہمارے سماج کا حصہ بن گیاہے ۔
اس سلسلہ میں بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی حد تک امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی امارت شرعیہ کے ذریعہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں، امارت شرعیہ کے ذریعہ قائم کردہ امارت پبلک اسکول اب برانڈیڈ نیم بن گیا ہے، اسی طرح ٹکنیکل انسٹی چیوٹ کے قیام کے ذریعہ پیشہ وارانہ تعلیم کو فروغ اور نو جوانوں کو معاش سے جوڑنے کی جد وجہد مثالی بھی ہے ، اور قابل تقلید بھی ۔ ضرورت پورے ہندوستان میں علم دوست حضرات کو آگے بڑھ کر تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی صلاحیت ، توانائی اور سرمایہ لگانے کی ہے ، ملک کے موجودہ حالات میں ہماری پوری توجہ تعلیم کی طرف ہونی چاہیے اور جس طرح ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی اور شاملی کے میدان میں شکست کے بعد ہمارے بڑوں نے اپنی ترجیحات بدل کر تعلیم کے فروغ میں لگ گیے تھے ، ویسے ہی اس وقت تعلیم کے فروغ کے لیے ترجیحی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

علی گڑھ : اجتماعی شادی اسکیم کی شادیوں کا رجسٹریشن رجسٹرار کے دفتر میں ہونا چاہیے : وزیر مملکت

علی گڑھ : اجتماعی شادی اسکیم کی شادیوں کا رجسٹریشن رجسٹرار کے دفتر میں ہونا چاہیے : وزیر مملکت

ابوشحمہ انصاری، علی گڑھ

ریاستی حکومت کے سماجی بہبود، درج فہرست ذاتوں اور عوامی بہبود کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) عاصم ارون نے کہا کہ یوگی حکومت زیرو ٹالرینس کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ہر افسر کو ایمانداری سے کام کرنا چاہیے۔ سرکاری اسکیموں کا فائدہ آخری فرد تک پہنچایا جائے۔ ٹیکنالوجی سے بھی بھرپور استفادہ کیا جائے۔ اجتماعی شادی اسکیم میں فراڈ کو روکنے کے لیے رجسٹرار آفس میں شادیوں کی رجسٹریشن کرائی جائے۔

وہ جمعہ کو یہاں آگرہ روڈ پر مکند پور میں واقع ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر IAS-PCS پری ایگزامینیشن ٹریننگ سنٹر میں علی گڑھ ڈویژن کے افسران کے ساتھ ایک جائزہ میٹنگ کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ اسکیموں کا فائدہ دینے کے لیے صرف اہل لوگوں کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔

پچھلی حکومتوں میں افسران نااہلوں کو چن کر ٹالتے رہے ہیں۔اب احتساب ہو گا۔ بہت سے اہل ابھی بھی بڑھاپے کی پنشن سے محروم ہیں۔اس اسکیم کا فائدہ بڑھاپے گھروں میں رہنے والے لوگوں کی اہلیت کی جانچ کرکے دیا جانا چاہئے۔ پوسٹ ڈسموٹر اسکالرشپ اسکیم میں بائیو میٹرکس کی بنیاد پر 75 فیصد حاضری والے طلبہ کے رجسٹریشن میں آنے والی خامیوں کو دور کیا جائے۔

اتوار, مئی 15, 2022

مولانا حسرت موہانی، ایک عہد ساز شخصیت (یومِ وفات پر خصوصی پیشکش)

مولانا حسرت موہانی، 
ایک عہد ساز شخصیت 
(یومِ وفات پر خصوصی پیشکش)
تحریر: خرّم ملک کیتھوی،
رابطہ: 930426009

مصنف، شاعر، صحافی، اسلامک اسکالر، سماجی خدمت گزار، 
اور ۱۹۲۱ میں آزادئ کامل (پرن سوراج) کی مانگ کرنے والے اور انقلاب زندہ باد کا نعرہ دینے والے آزادی کے سپاہی حسرت موہانی صاحب کی يوم وفات پر خراج عقیدت،

آپ کا پورا نام سید فضل الحسن حسرت موہانی مسعودی تھا،
آپ کی پیدائش ۱ جنوری ۱۸۷۵ کو برطانیہ کے زیر اقتدار ہندوستان کے اناؤ ضلع کے موہان گاؤں میں ہوئی تھی،

آپ کے والد کا نام سید اظہر حسین تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ ۱۹۰۳ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔ عربی کی تعلیم مولانا سید ظہور الاسلام فتحپوری سے اور فارسی کی تعلیم مولانا نیاز فتح پوری کے والد محمد امیر خان سے حاصل کی تھی ۔ حسرت سودیشی تحریک کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور انہوں نے آخری وقت تک کوئی ولایتی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ شروع ہی سے شاعری کا ذوق تھا۔ اپنا کلام تسنیم لکھنوی کو دکھانے لگے۔ ۱۹۰۳ءمیں علی گڑھ سے ایک رسالہ ”اردوئے معلی“ جاری کیا۔ اسی دوران شعرائے متقدمین کے دیوانوں کا انتخاب کرنا شروع کیا۔ سودیشی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے چنانچہ علامہ شبلی نے ایک مرتبہ کہا تھا۔”تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے پھر سیاست دان بنے اور اب بنئے ہو گئے ہو۔“ حسرت پہلے کانگرسی تھے۔ گورنمنٹ کانگریس کے خلا ف تھی۔ چنانچہ ۱۹۰۷میں ایک مضمون شائع کرنے پر جیل بھیج دیے گئے۔ ان کے بعد ۱۹۴۷ ءتک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران ان کی مالی حالت تباہ ہو گئی تھی۔ رسالہ بھی بند ہو چکا تھا۔ مگران تمام مصائب کو انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور مشق سخن کو بھی جاری رکھا۔ آپ کو ‘رئیس المتغزلین‘بھی کہا جاتا ہے- مولانا حسرت موہانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ حسرت موہانی نے ۱۳حج کیے ۔ پہلا حج ۱۹۳۳میں کیا اور آخری حج ۱۹۵۰میں ادا کیا ۔ ۱۹۳۸میں حج کے بعد ایران، عراق اور مصر بھی گئے، کہتے تھے ۔۔۔ 
(وکی پیڈیا سے ماخوذ)


جب ہمارے ملک ہندوستان پر انگریز سامراج کا تسلط تھا تو اس وقت ملک کی آزادی کی خاطر کئی الگ الگ نعروں کا ظہور ہو رہا تھا، اُسی کڑی میں ایک نعرہ جس نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا، وہ "انقلاب زنده باد" کا نعرہ بھی آپ نے ہی دیا تھا،
۱۹۲۱ میں احمد آباد کے کانگریس میٹنگ میں عظیم مجاہد آزادی شہید اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل کے ساتھ تھے،
 وہ ہندوستانی تاریخ میں پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے انگریزوں سے پوری آزادی (آزادئ کامل) کی مانگ کی تھی،
انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے بعد اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دی اور غزل
 (چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے)
 جسے غلام علی صاحب نے اپنی آواز دی تھی، آپ نے ہی لکھا ہے،
اگر ان کی شخصیت کی بات کی جائے  تو پاکستان کے کراچی میں حسرت موہانی میموریل سوسائٹی، حسرت موہانی میموریل لائبریری، ہال، ٹرسٹ کا قیام اُن کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے،
مولانا کے یوم وفات پر ہر سال یہ ٹرسٹ ان کی یاد میں پروگرام کرتا ہے ہے اسی طرح پاکستان کے کراچی شہر کے اورنگی ٹاؤن میں میں ان کے نام کی ایک کالونی اور روڈ بھی ہے،
 اسی طرح بھارت کے شہر کان پور میں مولانا حسرت موہانی ہاسپٹل، مولانا حسرت موہانی روڈ ہے، اسی طرح کانپور میں واقع بتھر⁦ میں حسرت موہانی گیلری ہے، کلکتہ کے مٹیابرج میں حسرت موہانی میموریل گرلز ہائر سیکنڈری اسکول ہے،

آپ ایک بہترین شاعر بھی تھے، اسی لیے آپ کو رئیس المتغزلین بھی کہا جاتا ہے،
جب ہم آپ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو پاتے ہیں کہ

آپ اردو غزل گوئی کی تاریخ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو شاعری کے ارتقاءمیں ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ان کے خیال اور انداز بیان دونوں میں شخصی اور روایتی عناصر کی آمیزش ہے۔ حسرت موہانی کو قدیم غزل گو اساتذہ سے بڑا ہی ذہنی و جذباتی لگائو تھا۔ اور یہ اسی لگائو کا نتیجہ تھا کہ کلاسیکل شاعروں کا انہوں نے بڑی دقت نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ اور اپنی طبیعت کے مطابق ان کے مخصوص رنگوں کی تقلید بھی کی۔ قدیم اساتذہ کے یہ مختلف رنگ حسرت کی شاعری میں منعکس دکھائی دیتے ہیں۔ اور خود حسرت کو اس تتبع کا اعتراف بھی ہے، 
آپ نے صرف ایک ہی صنف کی شاعری نہیں کی، 
بلکہ آپ نے الگ الگ موضوعات پر لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے، آپ نے عشقیہ شاعری کے ساتھ ساتھ سیاسی شاعری بھی خوب کی، چوں کہ آپ کا سیاست سے گہرا لگاؤ تھا اس لیے آپ نے اس میدان میں بھی اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ہیں، کچھ اشعار سے اسے سمجھا جا سکتا ہے،

کٹ گیا قید میں رمضاں بھی حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا

ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کہ ہم خدمتِ انگریز نہ کرتے

آپ نے کئی کتابیں تصنیف کیں ہیں،
آپ کی تحریر کردہ کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں،
۱ کلیات حسرت موہانی 
۲ شہر کلام غالب 
۳ نکاتِ سخن
۴ مشاہدات زندہ
انہوں نے اپنے کلام میں حب الوطنی اصلاح معاشرہ قومی ایکتا مذہبی اور سیاسی نظریات پر روشنی ڈالی ہے،
۲۰۱۴ میں ہندوستانی حکومت نے ان کے اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا،



حسرت موہانی نے ۷۲ سال کی عمر میں ۱۳ مئی ۱۹۵۱ء کو لکھنؤ میں وفات پائی،

آج مولانا حسرت موہانی کو گزرے ہوئے۷۲ سال ہو گئے، ان گزرے سالوں میں آپ کو جو عزت اور احترام ملنا چاہیے تھا شاید نہیں ملا، آپ دل سے کانگریسی تھے،  لیکِن۸۲ سال تک کانگریس نے اقتدار میں ہوتے ہوئے آپ کو کبھی وہ عزت نہیں دی جس کے وہ حقدار تھے،اگر اس تحریر کے بعد آپ کو وہ عزت اور احترام ملتا ہے تو اس تحریر کا حق ادا ہو جائے گا، 

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت میں.
 اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی.

حج کیمپ 2022 کی تیاریوںکا وزیرداخلہ محمود علی نے جائزہ لیا

حج کیمپ 2022 کی تیاریوںکا وزیرداخلہ محمود علی نے جائزہ لیازیر تعمیر کامپلکس کی عنقریب تکمیل، سیلر سے پانی کی نکاسی کی ہدایت، حج کمیٹی اور وقف بورڈ کے صدور نشین کے ساتھ معائنہ
حیدرآباد۔14۔ مئی (اردو دنیا نیوز۷۲) تلنگانہ حکومت حج کیمپ 2022 ء کے انعقاد کی تیاریاں شروع کرچکی ہیں اور حیدرآباد سے روانہ ہونے والے عازمین حج کیلئے بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ وزیر داخلہ محمد محمود علی نے آج حج ہاؤز کا دورہ کرتے ہوئے حج کیمپ کے انتظامات کا جائزہ لیا اور حج ہاؤز سے متصل کامپلکس کا معائنہ کرتے ہوئے تعمیری کاموں کے جلد آغاز کی ہدایت دی۔ صدرنشین تلنگانہ وقف بورڈ مسیح اللہ خاں اور صدرنشین تلنگانہ حج کمیٹی محمد سلیم کے علاوہ وقف بورڈ اور حج کمیٹی کے عہدیداروں کے ساتھ وزیر داخلہ جائزہ اجلاس منعقد کیا ۔ انہوں نے 17 جون سے عازمین حج کی روانگی کے پیش نظر حج ہاؤز میں کیمپ کے انعقاد اور عازمین حج کیلئے تربیتی کیمپ کے سلسلہ میں عہدیداروں سے معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کا امبارگیشن پوائنٹ ملک میں ہمیشہ نمبر ون ثابت ہوا ہے۔ تلنگانہ کے علاوہ آندھراپردیش ، کرناٹک اور مہاراشٹرا کے عازمین کی تلنگانہ حج کمیٹی کی جانب سے خدمت کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حج ہاؤز میں کیمپ کے انعقاد کی تیاریاں شروع کردی گئیں ہیں اور متصل زیر تعمیر کامپلکس کے استعمال کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ گزشتہ 8 برسوں سے زیر تعمیر کامپلکس کے عدم استعمال کے نتیجہ میں سیلر میں پانی جمع ہوچکا ہے جو عمارت کی بنیادوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پانی کی نکاسی کے سلسلہ میں فائر سرویس عہدیداروں کو ہدایت دی گئی اور ہفتہ کے دن سے پانی کی نکاسی کا کام شروع ہوجائے گا۔ انہوں نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے زونل کمشنر کو پانی کی نکاسی کے علاوہ زیر زمین لکیج کا پتہ چلانے کی ہدایت دی۔ عمارت کے قریب پارک سے گزرنے والا پانی عمارت کے سیلر میں جمع ہورہا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اندرون ایک ہفتہ عمارت کی تعمیر سے متعلق رپورٹ ہوجائے گی اور حج کیمپ کے بعد چیف منسٹر کے سی آر سے مشاورت کرتے ہوئے زیر تعمیر کامپلکس کے استعمال کا فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت زیر تعمیر کامپلکس میں اقلیتی بہبود کے دفاتر منتخب کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ وزیر داخلہ نے حج کمیٹی کے عہدیداروں کو مشورہ دیا کہ عازمین حج کے ساتھ آنے والے رشتہ داروں کو بھی سہولتیں فراہم کریں۔ وزیر داخلہ نے قضاۃ سیکشن کا دورہ کرتے ہوئے میاریج اور دیگر سرٹیفکٹس کی اجرائی کے نئے طریقہ کار کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے نئے طریقہ کار اور سرٹیفکٹس کی گھر پر ڈیلیوری کی ستائش کی۔ انہوں نے کہا کہ سرٹیفکٹس کی اجرائی میں کوئی تاخیر نہ ہو۔ اگزیکیٹیو آفیسر تلنگانہ حج کمیٹی بی شفیع اللہ نے عازمین حج کی روانگی کے پروگرام سے واقف کرایا۔ انہوں نے کہا کہ روانگی سے دو دن قبل حج کیمپ کا آغاز ہوگا۔ تلنگانہ کے علاوہ اس مرتبہ آندھراپردیش کے عازمین حیدرآباد سے روانہ ہوں گے۔ مرکزی حکومت نے عازمین حج کی روانگی کیلئے ملک بھر میں 10 امبارگیشن پوائنٹس کی نشاندہی کی ہے۔ صدرنشین حج کمیٹی محمد سلیم اور صدرنشین وقف بورڈ مسیح اللہ خاں نے دونوں اداروں میں بہتر تال میل کے ذریعہ انتظامات کی تکمیل کا تیقن دیا۔ر

ہفتہ, مئی 14, 2022

حج کیمپ 2022 کی تیاریوںکا وزیرداخلہ محمود علی نے جائزہ لیا

حج کیمپ 2022 کی تیاریوںکا وزیرداخلہ محمود علی نے جائزہ لیازیر تعمیر کامپلکس کی عنقریب تکمیل، سیلر سے پانی کی نکاسی کی ہدایت، حج کمیٹی اور وقف بورڈ کے صدور نشین کے ساتھ معائنہ
حیدرآباد۔14۔ مئی (اردو دنیا نیوز۷۲) تلنگانہ حکومت حج کیمپ 2022 ء کے انعقاد کی تیاریاں شروع کرچکی ہیں اور حیدرآباد سے روانہ ہونے والے عازمین حج کیلئے بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ وزیر داخلہ محمد محمود علی نے آج حج ہاؤز کا دورہ کرتے ہوئے حج کیمپ کے انتظامات کا جائزہ لیا اور حج ہاؤز سے متصل کامپلکس کا معائنہ کرتے ہوئے تعمیری کاموں کے جلد آغاز کی ہدایت دی۔ صدرنشین تلنگانہ وقف بورڈ مسیح اللہ خاں اور صدرنشین تلنگانہ حج کمیٹی محمد سلیم کے علاوہ وقف بورڈ اور حج کمیٹی کے عہدیداروں کے ساتھ وزیر داخلہ جائزہ اجلاس منعقد کیا ۔ انہوں نے 17 جون سے عازمین حج کی روانگی کے پیش نظر حج ہاؤز میں کیمپ کے انعقاد اور عازمین حج کیلئے تربیتی کیمپ کے سلسلہ میں عہدیداروں سے معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کا امبارگیشن پوائنٹ ملک میں ہمیشہ نمبر ون ثابت ہوا ہے۔ تلنگانہ کے علاوہ آندھراپردیش ، کرناٹک اور مہاراشٹرا کے عازمین کی تلنگانہ حج کمیٹی کی جانب سے خدمت کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حج ہاؤز میں کیمپ کے انعقاد کی تیاریاں شروع کردی گئیں ہیں اور متصل زیر تعمیر کامپلکس کے استعمال کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ گزشتہ 8 برسوں سے زیر تعمیر کامپلکس کے عدم استعمال کے نتیجہ میں سیلر میں پانی جمع ہوچکا ہے جو عمارت کی بنیادوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پانی کی نکاسی کے سلسلہ میں فائر سرویس عہدیداروں کو ہدایت دی گئی اور ہفتہ کے دن سے پانی کی نکاسی کا کام شروع ہوجائے گا۔ انہوں نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے زونل کمشنر کو پانی کی نکاسی کے علاوہ زیر زمین لکیج کا پتہ چلانے کی ہدایت دی۔ عمارت کے قریب پارک سے گزرنے والا پانی عمارت کے سیلر میں جمع ہورہا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اندرون ایک ہفتہ عمارت کی تعمیر سے متعلق رپورٹ ہوجائے گی اور حج کیمپ کے بعد چیف منسٹر کے سی آر سے مشاورت کرتے ہوئے زیر تعمیر کامپلکس کے استعمال کا فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت زیر تعمیر کامپلکس میں اقلیتی بہبود کے دفاتر منتخب کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ وزیر داخلہ نے حج کمیٹی کے عہدیداروں کو مشورہ دیا کہ عازمین حج کے ساتھ آنے والے رشتہ داروں کو بھی سہولتیں فراہم کریں۔ وزیر داخلہ نے قضاۃ سیکشن کا دورہ کرتے ہوئے میاریج اور دیگر سرٹیفکٹس کی اجرائی کے نئے طریقہ کار کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے نئے طریقہ کار اور سرٹیفکٹس کی گھر پر ڈیلیوری کی ستائش کی۔ انہوں نے کہا کہ سرٹیفکٹس کی اجرائی میں کوئی تاخیر نہ ہو۔ اگزیکیٹیو آفیسر تلنگانہ حج کمیٹی بی شفیع اللہ نے عازمین حج کی روانگی کے پروگرام سے واقف کرایا۔ انہوں نے کہا کہ روانگی سے دو دن قبل حج کیمپ کا آغاز ہوگا۔ تلنگانہ کے علاوہ اس مرتبہ آندھراپردیش کے عازمین حیدرآباد سے روانہ ہوں گے۔ مرکزی حکومت نے عازمین حج کی روانگی کیلئے ملک بھر میں 10 امبارگیشن پوائنٹس کی نشاندہی کی ہے۔ صدرنشین حج کمیٹی محمد سلیم اور صدرنشین وقف بورڈ مسیح اللہ خاں نے دونوں اداروں میں بہتر تال میل کے ذریعہ انتظامات کی تکمیل کا تیقن دیا۔ر

جمعرات, مئی 12, 2022

ریلوے نے ایک ہی جھٹکے میں 19 اعلی افسران کو برطرف کردیا

ریلوے نے ایک ہی جھٹکے میں 19 اعلی افسران کو برطرف کردیا

ریلوے کی وزارت نے بدھ کو ہندوستانی ریلوے کے 19 اعلیٰ افسران کوزبردستی خدمات سے آزاد کرکے گھر بھیج دیا۔ ذرائع کی اطلاع کے مطابق ان افسران میں سے 10 افسران جوائنٹ سکریٹری یا اس سے اوپر کے درجے کے ہیں ۔ اس سے قبل جولائی سے اب تک 75 افسران کو کارکردگی کی کمی اور بدعنوانی وغیرہ کی وجہ سے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ (وی آر ایس ) پر گھر بھیج دیا گیا ہے اور دو دیگر لائن میں ہیں۔ اس طرح کل 96 افسران کو ریلوے کی سروس سے زبردستی ہٹایا جا رہا ہے۔ وزارت ریلوے میں کی گئی اس کارروائی سے انتظامی گلیاروں میں ہلچل مچ گئی ہے۔

مرکزی حکومت کے کسی بھی محکمے میں اتنے بڑے پیمانے پر افسران کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کی گئی۔ اگست 2020 میں اپ ڈیٹ کیے گئے سینٹرل پرسنل رولز کے رول 56J کے تحت جبری وی آر ایس دے کر انہیں سروس سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اب تک جن افسران کو فارغ کیا گیا ہے ان میں ایک ریلوے کوچ فیکٹری کے جنرل منیجر اور دو سکریٹری یعنی ریلوے بورڈ کے ممبران شامل ہیں۔ آج گھر واپسی کرنے والے افسران میں جوائنٹ سکریٹری یا اس سے اوپر کی سطح کے دس سے زیادہ افسران ہیں۔ ان میں الیکٹریکل اور سگنلنگ کے لیے چار چار، میڈیکل اور سول کے لیے تین، اہلکاروں کے لیے دو، اسٹوریج، ٹریفک اور مکینیکل کے لیے ایک ایک افسر تعینات ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک 75 افسران گھر جا چکے ہیں جب کہ دو افسران کو جلد ہی ریٹائرمنٹ لیٹر ملنے والا ہے۔ یہ رجحان جولائی میں مسٹر اشونی وشنو کے ریلوے کے وزیر بننے سے شروع ہوا۔ اب تک نو افسران کو جولائی میں، چھ اگست میں، چار کو ستمبر میں، سات کو اکتوبر میں، سات کو نومبر میں، نو کو دسمبر میں، چھ کو جنوری میں، سات کو فروری میں، آٹھ کو مارچ میں، پانچ کو اپریل میں اور تین کو مئی میں وی آر ایس دیا گیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ ریلوے بورڈ کی تین رکنی کمیٹی نے محکمہ پرسنل کے مینول کے تحت تمام افسران کی کارکردگی کا جائزہ لیا ہے اور یہ لوگ کام کاج میں رکاوٹ بنتے پائے گئے ہیں۔ ان میں سے کئی کے خلاف بدعنوانی کی شکایات کی تحقیقات بھی کی گئی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس کارروائی کے ذریعے سرکاری ملازمین اور اہلکاروں کو پیغام دیا گیا ہے کہ انہیں اپنے کام میں مستعدی لا کر نتائج دینا ہوں گے۔

بدھ, مئی 11, 2022

اترپردیش کے بعد مقابلہ کرے گی تلنگانہ میں مجلس 15 نشستوں پر

اترپردیش کے بعد مقابلہ کرے گی تلنگانہ میں مجلس 15 نشستوں پرحیدرآباد کے جوبلی ہلز ، صنعت نگر ، مشیر آباد ، عنبر پیٹ کے علاوہ اضلاع پر بھی پارٹی کی نظر
حیدرآباد ۔ 11 ۔ مئی : ( اردو دنیا نیوز۷۲ ) : صدر مجلس و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد اسد الدین اویسی نے اترپردیش کے بعد تلنگانہ میں آئندہ اسمبلی انتخابات پر توجہ مرکوز کردی ہے ۔ تلنگانہ میں مجلس کے فی الحال 7 ارکان اسمبلی ہیں ۔ آئندہ انتخابات میں 15 تا 20 ایسے اسمبلی حلقہ جات جہاں مسلمانوں کی آبادی 20 تا 40 فیصد ہے امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارنے کی حکمت عملی تیار کررہے ہیں ۔ شہر کے اسمبلی حلقہ جات جوبلی ہلز ، صنعت نگر ، مشیر آباد ، عنبر پیٹ کے علاوہ راجندر نگر اور مہیشورم اسمبلی حلقہ جات پر مقابلہ کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ مجلس تلنگانہ کے ایسے اضلاع جہاں اسمبلی حلقہ جات پر مسلمانوں کا موقف فیصلہ کن ہے ان پر بھی مقابلہ کا منصوبہ تیار کرکے کام کررہی ہے ۔ ان میں قابل ذکر محبوب نگر ، نلگنڈہ ، کریم نگر ، ورنگل ، نظام آباد ، سنگاریڈی وغیرہ شامل ہیں ۔ مجلس پر اترپردیش کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوں میں تنظیمی طور پر طاقتور نہ ہونے کے باوجود مقابلہ کرکے بی جے پی کو فائدہ پہونچانے کے الزامات ہیں ۔ جس ریاست میں مجلس کا قیام عمل میں آیا ہے وہاں پرانے شہر تک محدود ہونے پر سیاسی جماعتوں کی تنقیدوں کا سامنا ہے ۔ ان الزامات اور تنقیدوں سے چھٹکارا حاصل کرنے مجلس تلنگانہ انتخابات میں 15 تا 20 حلقوں پر مقابلہ کی حکمت عملی تیار کررہی ہے ۔ مسلم غلبہ والے اسمبلی حلقوں پر مجلس دلت بی سی اور قبائلی طبقات کے ووٹوں پر نظر جمائے ہیں ۔ ان کے مسائل پر بھی آواز اُٹھانے کا پلان تیار کیا جارہا ہے ۔ تلنگانہ میں حکمران ٹی آر ایس سے مجلس کا سیاسی اتحاد نہیں ہے مگر دونوں جماعتوں میں مفاہمت ہے جس کا کھل کر دونوں ہی نے اعتراف کیا ہے ۔ مجلس کے فیصلے پر ٹی آر ایس کا ردعمل کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ ریاست کے سیاسی حلقوں میں یہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ مجلس کے عددی طاقت میں اضافہ ہوگا یا اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا اس پر بھی چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں ۔ ذرائع سے پتہ چلا کہ اسد الدین اویسی نے پارٹی قائدین کا اجلاس طلب کیا اور انہیں پارٹی روپ میاپ سے واقف کراتے ہوئے جن حلقوں میں مقابلہ کرنے کا جائزہ لیا جارہا ہے وہاں ووٹر لسٹ میں مسلمانوں کے ناموں کا اندراج کرانے کی پارٹی کیڈر کو ہدایت دی گئی اور یہاں پارٹی سرگرمیاں شروع کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ن

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...