Powered By Blogger

بدھ, مئی 25, 2022

*مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب کابہار ریاستی حج کمیٹی کی رکنیت سے استعفی افسوس ناک*

*مفتی محمد  ثناء الہدی قاسمی صاحب  کابہار ریاستی حج کمیٹی کی رکنیت سے استعفی افسوس ناک* 
_______مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی

پٹنہ 25میی (پریس ریلیز)
یہ بات گردش میں ہے کہ  مفتی  محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب  نےبہار ریاستی حج کمیٹی کی رکنیت قبول کرنے سے امیر شریعت کے حکم کی وجہ سے  انکار کر دیا ہے ، یہ انتہائی افسوسناک عمل ہے۔
بعض حضرات ان کے اس انکار کو بہت سراہ رہے ہیں ، 
 ایک صاحب نے مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کے اس انکار کو عظیم ایثار اور فراست و ذہانت سے تعبیر کیا ہے اور اس پر دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد بھی دیا ہے ، اور انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حضرت امیر شریعت سابع رح ( حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب رح) کو وزیر اعلی کے عہدے کی بھی پیش کش ہوئی تھی ، 
  یہ اندھ بھگت ہی یقین کریں گے کہ امیر سابع رح  کو وزیر اعلی کے عہدے کی پیش کش ہوئی ہو ، 
دو ہزار بیس کے اسمبلی  انتخابات میں جنتادل یونائیٹڈ  کے گیارہ مسلم امیدواروں میں سے کوئی کامیاب نہیں ہوا تب اگر نتیش چاہتے تو اپنی پارٹی کے کوٹے سے اپنی پارٹی کے پانچ چھ مسلم ممبران لیجیسلیٹیو کونسل ( ایم ایل سی)  میں سے کسی ایک یا دو کو وزیر بناسکتے تھے ، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ، انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کیا ، بہوجن سماج پارٹی کے اکلوتے ممبر زمان خان کو وزارت کا لالچ دے کر اپنی پارٹی میں شامل کرلیا ، اپنے اس عمل سے انہوں نے اپنی پارٹی کو تھوڑا مضبوط بھی کیا ، اور برائے نام ہی سہی مسلم نمائندگی کا دکھاوا بھی کردیا ،
ایسے لوگ امیر شریعت سابع کو وزیر اعلی کا عہدہ کیسے دے سکتے ہیں ، 
لالو پرشاد سے بھی یہ امید نہیں ہے کہ وہ امیر سابع کو وزارت علیا کا آفر کریں گے ، 
لالو پرساد کی خوبی صرف اتنی ہے کہ وہ نڈر اور بے باک ہیں ، اور ہندوستان کے  مشہور ہندو لیڈران میں   آر ایس ایس کے سب سے بڑے دشمن ، 
انہوں نے بھی  اپنی پندرہ سالہ  حکومت میں کبھی بھی  مسلمانوں کو مکمل نمائندگی نہیں دی ، 

 *بعض حالات میں بعض عہدوں کو قبول کرنا فرض اور واجب ہوجاتا ہے ،* 
 *اور نہ قبول کرنا حرام اور مکروہ تحریمی ،* 
ہمیں نہیں معلوم کہ مفتی ثناء الہدی صاحب نے کن حالات میں بہار ریاستی حج کمیٹی کی رکنیت قبول کرنے سے انکار کیا ہے ، 
 *میرا خیال یہ ہے کہ مفتی ثناء الہدی قاسمی  صاحب کو یہ عہدہ قبول کرلینا چاہیے* ، بلکہ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ اگر مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی جگہ کسی کم اہل یا نا اہل کو یہ رکنیت دی گئی اور اس نے کوئی غلط فیصلہ لیا تو اس کا وبال بھی مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب پر ہوگا ،
 
میرا خیال یہ ہے کہ اگر ان کے اس طرح کے اہم اداروں کی رکنیت قبول کرنے سے امیر شریعت بہار و اڑیسہ و جھارکھنڈ  ناراض ہوتے ہیں ، اور سمع و طاعت کا کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کو چاہیے کہ وہ امارت شرعیہ سے الگ ہو جائیں اور آزاد ہوکر امت کی خدمت کریں ، یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ، 
جس ایثار و قربانی سے امت میں گمراہی پھیلنے کا اندیشہ ہو وہ ایثار و قربانی ممدوح نہیں ہے ، جو حضرات مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کے حج کمیٹی کی رکنیت قبول  نہ کرنے پر مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی تعریف کر رہے ہیں وہ بڑے خود غرض ، تنگ دل ، اور کم نگاہ معلوم ہوتے ہیں ، ان کے اندر اوسط درجے کی بھی دور بینی اور دور اندیشی نہیں ہے ، 
مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کو چاہیے کہ وہ مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی صاحب کے مضمون " سرکار کے ذریعہ قائم کردہ کمیٹیوں میں شمولیت اور اس کے حدود '' کا مطالعہ فرمائیں اور جبال علم و تقوی امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحب رح اور مولانا نور اللہ رحمانی صاحب رح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حج کمیٹی کی رکنیت ضرور قبول کرلیں ، اور جہاں جہاں بھی رکنیت ملے اسے قبول کرتے چلے جائیں ، علم و  اخلاص اور فہم  و تقوی ان کا شعار ہے ،اور امید ہے بلکہ یقین ہے کہ وہ جہاں بھی رہیں گے اس سے امت کو بہت فائدہ ہوگا ، 
سنت یوسفی یہ بھی ہے کہ انسانیت کے فائدے اور تبلیغ دین کے مقصد سے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونے کی کوشش کی جائے ،
مجھے بہار میں مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب سے زیادہ عالم و فاضل کوئی نظر نہیں آتا ہے ، 
ہوسکتا ہے کچھ لوگ تقوی میں ان سے زیادہ ہوں ، یا علم میں زیادہ ہوں مگر قیادت و سیادت کے لیے جتنے علم و فہم اور دور اندیشی کی ضرورت ہوتی ہے ، اس پر  مفتی ثناء الہدی صاحب سو فیصد پورے اترتے ہیں ، وہ ادیب بھی ہیں اور عالم بھی ، مفتی بھی ہیں اور منتظم بھی ، 

حج کمیٹی کی رکنیت تو بہت چھوٹی چیز ہے ،  انہیں تو حج کمیٹی کا چیر مین مقرر کرنا چاہیے تھا تاکہ وہ  حج کمیٹی کو  امت کے لیے  اور زیادہ مفید بناسکیں ،

نتیش کمار صاحب اپنی خود غرضی اور حب جاہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ضرور ہیں ، مگر ان کی سترہ سالہ حکومت کے تجربے سے یہ بات بھی واضح ہے کہ وہ کسی نہ کسی حد تک مسلمانوں کا بھلا سو چتے رہتے ہیں ، اور حق دار تک حق پہونچانے کی کوشش کرتے ہیں ، 
اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایثار و قربانی کا راستہ اب ترک کریں ، اور جہاں بھی جس چھوٹے یا بڑے عہدے پر فائز ہونے کا موقع ملے اس پر فائز ہو جائیں اور خلوص و ایمانداری سے اس عہدے پر کام کریں

مولانا رحمت اللہ فاروقی ؒؒ_______مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا رحمت اللہ فاروقی  ؒؒ_______
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
قومی آواز کے سابق سب ایڈیٹر مولانا رحمت اللہ فاروقی نے ۱۳؍ مئی ۲۰۲۲ء مطابق ۱۲؍ شوال ۱۴۴۳ھ شب جمعہ ۲؍ بجے اس دنیا کو الوداع کہا، نماز جنازہ اسی دن بعد نماز جمعہ فضل الٰہی مسجد منڈولی جوشی کالونی مشرقی دہلی میں ، ان کے بڑے داماد مولانا گوہر امام قاسمی امام شاہی سنگی مسجد پھلواری شریف پٹنہ نے پڑھائی، دو ماہ قبل اہلیہ نے آخرت کا سفر اختیار کرلیا تھا، اس لیے اب پس ماندگان میں تین لڑکیاں او ردو لڑکے عظمت اللہ تابش اور حشمت اللہ ہیں، بڑی لڑکی رافعہ صالحاتی امارت شرعیہ کے قاضی نور الحسن میموریل اسکول میں لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر بحیثیت معلمہ مامور ہیں، اور اچھی خدمت کر رہی ہیں، ایک لڑکی غیر شادی شدہ ہے، جب کہ عظمت اللہ تابش اردو صحافت اور حشمت اللہ تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اس میدان میں مطالعہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
 مولانا رحمت اللہ فاروقی بن محمد سعید بن شیخ سعود (م ۲۰۰۱ئ) بن شیخ نصرت  ولادت ۲۳؍ اپریل ۱۹۵۳ء کو موجودہ ضلع سمستی پور کے گاؤں رحیم پور ٹولہ چاند چورمیں ہوئی، ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے اتر پردیش کی مختلف تعلیم گاہوں کا رخ کیاحفظ قرآن کان پور کے کسی مدرسہ سے کیا، پھر جامعہ فاروقیہ صبر حد جون پور تشریف لے گیے، ثانویہ تک کی تعلیم یہاں پائی، ۱۹۶۸ء میں مدرسہ عالیہ فتح پوری میں داخل ہوئے، نصاب کی تکمیل مدرسہ امینیہ دہلی سے کرنے کے بعد سند فراغ حاصل کیا۔
۱۹۷۰ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسیٹی کے ذریعہ ادیب عالم اور ادیب فاضل، اور منشی فاضل بھی کیا، ۱۹۷۸ء میں وہ روزنامہ الجمعیۃ کے ادارتی عملہ سے منسلک ہو گئے، اس زمانہ میں ناز انصاری اس کے ایڈیٹر تھے، الجمعیۃ میں رہ کر انہوں نے ناز انصاری سے صحافت کے رموز سیکھے، ناز انصاری کہا کرتے تھے کہ مولانا فاروقی جیسا شریف النفس اور باریک بیں انسان میری نظر سے دوسرا نہیں گذرا۔
 مولانا پانچ بھائیوں میں محمد عطاء اللہ مرحوم ، محمد ثناء اللہ ، محمد ضیاء اللہ اور حافظ محمد نصر اللہ سے چھوٹے تھے، آپ کی نانی ہال محمد پور کواری، تاج پور موجودہ ضلع سمستی پور تھی، نانا شیخ محمد نسیم صاحب تھے، شادی عبد الودودصاحب (م ۲۰۰۰) بن محمد اسحاق مرحوم ساکن ببھنگواں نزد کَبی بنگھرا سمستی پور کی دختر نیک اختر سے ہوئی تھی ۔ 
مولانا مرحوم کو صلاحیتوں اور اسناد کے بڑھانے کا بہت شوق تھا، چنانچہ انہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسیٹی سے انگریزی لے کر گریجویشن اور۱۹۸۷ء میں دہلی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا، انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے کی صلاحیت ان کی مضبوط تھی، فارسی میں بعض علمی کاموں میں وہ قاضی سجاد حسین صاحب کے مساعد رہے، ۱۹۸۷ء میں قومی آواز سے منسلک ہوے، اور جب تک قومی آواز نکلتا رہا وہ پوری امانت داری کے ساتھ اس کی خدمت کرتے رہے ، ۲۰۱۰ء میں انہوں نے معصوم مراد آبادی کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ ’’ جدید خبر‘‘ کو اپنی خدمت پیش کی اور نیوز ایڈیٹر کے طور پر برسوں کام کرتے رہے،وہ اپنی صحافتی صلاحیت اور خدمات سے اخبار کے عملہ اور مالکان کے محبوب نظر تھے، انہوں نے کئی لوگوں کی صحافتی تربیت بھی کی ، جو بعد میں نامور صحافی ہو گیے۔
 صحافت کے علاوہ ان کی دلچسپی کا دوسر ابڑا میدان اردو کا فروغ تھا، اس کے لیے وہ خود بھی طلبہ کو اردو پڑھاتے ، اپنی جیب خاص سے کتابیں خرید کر دیتے ، اردو کے حوالہ سے ان کی خدمات کا دائرہ جُھگی جھونپڑی سے لے کر اعلیٰ افسران تک پھیلا ہوا تھا ، انہوں نے بہت سارے غیر مسلموں کو بھی اردو سے روشناش کرایا اور ان میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت پیدا کی، ان کو اس کام کی وجہ سے سچا مجاہد اردو کہا جا سکتا ہے۔ان کو کام سے دلچسپی تھی، باتیں بنانا ، دوسروں کے گِلے شکوے کرنا انہیں نہیں آتا تھا، ان کی ذات میں بظاہر کوئی کشش نہیں تھی، مولویانہ وضع قطع کے ساتھ پہلی ملاقات میں وہ کسی کو متاثر نہیں کرتے تھے، اصل میں شخصیتیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جوپہلی ملاقات میں ہی سامنے والے کے قلب وجگر پر چھا جاتی ہیں، ایسے لوگوں کو انگریزی میں ڈائنا مک پرسن کہتے ہیں، دوسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے، جن کی شخصیت کا جادو پہلی ملاقات میں اثر انداز نہیں ہوتا، لیکن کچھ دن ساتھ رہنے پر ایسا اثر انداز ہوتا ہے، جس کو سر چڑھ کر بولنا کہتے ہیں، مولانا فاروقی کی شخصیت کا تعلق دوسری قبیل سے تھا ، جب کوئی ان کے ساتھ دو چار روز رہ لیتا تو ان کے اخلاق واقدار اور شفقت ومحبت کا ایسا اسیر ہوتا کہ اس سے نکلنا مشکل ہوجاتا ۔
 وہ خود شعر نہیں کہتے تھے، لیکن تُک بندی اور پیروڈی کرنا خوب جانتے تھے، ہزاروں اشعار ان کی حافظہ کی گرفت میں تھے اوروہ جب چاہتے اپنی تحریر اور گفتگو میں ان کا بر محل اور بر جستہ استعمال کرتے، اس طرح ہندی اور انگریزی الفاظ کے متبادل  کی طرف بھی ان کا ذہن فورا منتقل ہوتا، ان کی اس صلاحیت سے ان کے رفقاء خوب فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔
 مولانا کے مزاج میں قناعت پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ لوگوں کی مالی مدد بھی خوب کیا کرتے، کبھی کسی قرض دار سے واپسی کا تقاضہ کرتے اور وہ اپنا دکھڑا لے کر بیٹھ جاتا تو اسے مزید قرض دے دیتے۔
 مولانا رحمت اللہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے، انسانی اور مؤمنانہ صفات ان کی زندگی کا لازمہ تھا، موت تو وقت پر ہی آتی ہے اور عمر طبعی بھی ہو چکی تھی، لیکن بچھڑے نے پرجدائی کا غم توہوتاہی ہے بلکہ کسی کسی کی جدائی تو سوہان روح بن جاتی ہے، مولانا مرحوم سے جو لوگ قریب تھے ان کے لیے یہ غم سوہان روح ہے ۔ اللہ سب کو صبر دے اورمرحوم کی مغفرت فرمائے آمین ۔

وسیم رضوی عرف تیاگی اب لیں گے سنیاس گے

وسیم رضوی عرف تیاگی اب لیں گے سنیاس گے

سوامی آنند سوروپ کا کہنا ہے کہ وسیم رضوی عرف جتیندر نارائن سنگھ تیاگی نے ان کے سامنے سنیاس لینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ وسیم رضوی کی جانب سے سنیاس کی خواہش ظاہر کرنے کے بعد سوامی آنند سوارپ نے ان کی خواہش پوری کرنے کے لیےتیاریاں شروع کر دی ہیں۔

شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی عرف جتیندر نارائن سنگھ تیاگی جو پریس کلب میں اپنی متنازع کتاب کی ریلیز اور دھرمن نگری کے شمالی ہریدوار میں منعقدہ تین روزہ پارلیمنٹ آف ریلیجنز میں غیر مہذب تقاریر کے بعد تنازع کا شکار ہو گیے تھے۔ ہندو مذہب اختیار کرنے کے بعد سنیاس کے معاملے میں، شمبھوی پیتھادھیشور سوامی آنند سوروپ اکھاڑہ پریشد اور اکھل بھارتیہ ودیا پریشد کے عہدیداروں سے بات کریں گے۔

منگل, مئی 24, 2022

قطب مینار میں کسی کو بھی عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی : آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا عدالت کو جواب

قطب مینار میں کسی کو بھی عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی : آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا عدالت کو جواب

نئی دہلی _ 24 مئی ( اردودنیا نیوز ۷۲) آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا ( اے ایس آئی) نے قطب مینار میں ہندووں کو عبادت کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اور واضح کیا کہ قطب مینار عبادت کی جگہ نہیں ہے اور موجودہ ڈھانچے میں ردوبدل کی اجازت نہیں ہے اور یہاں کسی کو بھی عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اے ایس آئی نے منگل کو دہلی کی ساکت عدالت میں ایک درخواست کی سماعت کے دوران بتایا کہ اس یادگار میں دیوتاؤں کی تصویریں ہیں جس کی بنیاد پر درخواست گزار نے دیوتاؤں کی پوجا کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی لیکن اے ایس آئی کے قوانین کے مطابق اس میں عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اے ایس آئی نے کہا کہ عبادت کے احیاء کی اجازت نہیں ہے۔ اس نے مزید کہا کہ قطب مینار یا اس کے کسی حصے میں کسی کمیونٹی نے عبادت نہیں کی ہے جب سے یہ ایک محفوظ یادگار رہا ہے کمپلیکس کے اندر متعدد ڈھانچے موجود ہیں۔

اے ایس آئی نے عدالت کو بتایا کہ قطب مینار کا تحفظ کیا گیا ہے حفظ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی یادگار کے طور پر اعلان شدہ اور مطلع شدہ یادگار میں کوئی نیا عمل شروع کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔

یہ درخواست جین دیوتا تیرتھنکر رشبھ دیو اور ہندو دیوتا وشنو کے بھکت ہری شنکر جین اور رنجنا اگنی ہوتری نے دائر کی تھی۔ درخواست میں اے ایس آئی کی جانب سے مبینہ طور پر دکھائی جانے والی ایک مختصر تاریخ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کس طرح محمد غوری کی فوج کے ایک جنرل، قطب الدین ایبک نے 27 مندروں کو مسمار کیا تھا، اور اس کے ملبے کو دوبارہ استعمال کرکے قوۃ الاسلام مسجد کی تعمیر کی گئی تھی

شیریں ابو عاقلہ کا قتل ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

شیریں ابو عاقلہ کا قتل ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
الجزیرہ نشریاتی ادارہ کے عربی زبان کے چینل کے لیے کام کرنے والی شیریں ابو عاقلہ ہمارے درمیان نہیں رہیں، اسرائیلی فوج نے فلسطین پر ہو رہے ظلم وتشدد کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ۱۱؍ مئی ۲۰۲۲ء کو مقبوضہ مغربی کنارے پر اسے گولی مار دی ، یہ گولی ان کے سر میں لگی او ر وہ وہیں پر جاں بحق ہو گئیں،رملہ کے کنسلٹنٹ ہسپتال میں پوسٹ مارٹم اور تجہیز وتکفین کے بعد فلسطینی پرچم میں لپیٹ کر انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، اور پھر ان کا جسد خالی سرکردہ شخصیات کے قافلہ کے ساتھ بیت المقدس منتقل کیا گیا، جہاں فلسطینی ہلال احمر کے ذمہ داروں نے اسے وصول کیا، ان کی تدفین باب الخلیل کے رومن کیتھولک چرچ کے صہیونی قبرستان میں عمل میں آئی، اس واقعہ میںیروشلم میں مقیم القدس اخبار کے لیے کام کرنے والے ایک صحافی کے زخمی ہونے کی بھی خبر ہے ۔
 اسرائیل کے اس حرکت کی عالمی پیمانے پر مذمت ہو رہی ہے ، جنگی قانون میں جن چند طبقات پرحملہ نہ کرنے کا ذکر ہے ان میں ایک صحافی بھی ہیں، شیریں ابو عاقلہ کا شمار جرأت مند صحافیوں میں ہوتا تھا، انہوں نے حقائق سامنے لانے کے لیے کبھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کی ، وہ مسلسل فلسطینیوں پر مظالم کے خلا ف آواز اٹھاتی رہی تھیں ، اس آواز کو خاموش کرنے کے لیے اسرائیلی افواج نے یہ مذموم حرکت کی، جس وقت ان کو گولی ماری گئی اس وقت انہوں نے پریس کا بیچ لگا رکھا تھا، اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلیوں نے اسے جان بوجھ کر گولی ماری، اس حادثہ کے بعد پہلے تو اسرائیلی یہ کہتے رہے کہ اسے فلسطینیوں نے ہی گولی ماری، پھر جب حقائق سامنے آنے لگے تو اسرائیلی حکومت نے اس واقعہ کی مشترکہ جانچ کا حکم دے دیا ہے، جس میں فلسطین اور اسرائیل کے نمائندے شریک ہوں، لیکن فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس تجویز کو رد کر دیا ہے اور کہا کہ یہ ایک سنگین نوعیت کا جرم ہے، ہم اس معاملہ کو عالمی فوجداری عدالت میں لے جائیں گے تاکہ اس واقعہ سے مجرموں کو سزا دلائی جا سکے،مشترکہ جانچ ہو یا عالمی فوجداری عدالت میں مقدمہ یہ لوگوں کی آوازکو خاموش کرنے کا ایک طریقہ ہے، ورنہ سبھی جانتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات میں جانچ کے ذریعہ مجرمین کو کلین چٹ دینا یا پھر لیپا پوتی کرکے بات کو ختم کرنا ہوتا ہے، اس لیے اسرائیل کے ذریعہ اس جانچ کے بعد بھی شیریں ابو عاقلہ کو انصاف ملتا نظر نہیں آتا کم از کم اتنا ہی ہوجائے کہ آئندہ صحافیوں پر حملے نہ ہوں تو بھی ہم کہہ سکیں گے کہ شیریں ابو عاقلہ کی موت نے دوسروں کو تحفظ فراہم کرنے کا کام کیا ہے۔
 اسرائیلیوں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ ایک شیریں ابو عاقلہ کے قتل سے وہ حق کی آواز کو دبا نہیں سکتے، جس کا تجربہ وہ برسوں سے کرتے آ رہے ہیں، یہ قوم ابھی بانجھ نہیں ہوئی ہے، ایک مرتا ہے تو دوسرے کئی اس کی جگہ لے لیتے ہیں، شیریں ابو عاقلہ کے معاملہ میں بھی ایسا ہی ہوگا، شیریں کے کاز کے لیے بہت سے صحافی کھڑے ہوں گے اور اسرائیلی بربریت کی تصویر پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو کر عالمی برادری کے سامنے آئے گی۔

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گاکامران غنی صبا

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
کامران غنی صبا
............. 
مایوسی اور ناامیدی قوتِ فکر و عمل کو ختم کر دیتی ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کی ناکامیوں اور محرومیوں کی وجہ مایوسی اور ناامیدی ہے۔ ہم جب کوئی کام اندیشوں کے سائے میں شروع کرتے ہیں تو ہمارا جذبۂ عمل کمزور پڑنے لگتا ہے۔ نتیجہ، کامیابی ہم سے دور چلی جاتی ہے۔ مایوس اور ناامید افراد کے درمیان رہنے والے لوگ بھی کبھی پر اعتماد اور کامیاب زندگی نہیں گزار پاتے۔ مایوس اور ناامید افراد کی زبان پر گلے اور شکوے ہوتے ہیں، رنجشیں ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس پرامید افراد کی زبان پر شکر ہوتا ہے، محسنین کی تعریف ہوتی ہے۔ چیلنجز سے مقابلہ کرنے کا عزم ہوتا ہے۔
آج ہم میں سے بیشتر لوگ مایوس ہیں۔ مایوسی اور ناامیدی کی نوعیتیں مختلف ہیں۔ والدین بچوں سے مایوس اور ناامید ہیں۔ بچے مایوس ہیں کہ والدین ان کی خواہشات اور مطالبات کا تعاقب نہیں کرتے ہیں۔قوم قیادت سے مایوس ہے اور قیادت قوم سے۔ اساتذہ طلبہ سے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں اور طلبہ اساتذہ کا گلہ کرتے ہیں۔ایک گھر کے افراد ایک دوسرے سے مطمئن نہیں ہیں ۔جس رشتے میں جنم جنم ساتھ رہنے کی قسم کھائی جاتی ہے، وہ رشتہ بھی مایوسی اور ناامیدی کی ڈور سے بندھا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ نہ جانے کب ٹوٹ جائے۔زیادہ تر زوجین ایک دوسرے سے مطمئن نہیں ہیں۔
  عدم اطمینان کی وجہ مایوسی اور ناامیدی ہی ہے۔ یعنی ہم افراد سے، حالات سےبلکہ اپنے آپ سے مایوس اور ناامیدہوتے جا رہے ہیں۔مایوسی اور ناامیدی یہی ہے کہ مسائل کے سامنے شکست تسلیم کر لی جائے۔ یہ مان لیا جائے کہ آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا نہیں ہوگا یا آپ جیسا نتیجہ چاہتے تھے ویسا نتیجہ نظر آتا ہوا محسوس نہیں ہو رہا ہے، لہٰذا کوشش ترک کر دینی چاہیے۔یہی احساس شکست، شکستِ ذات اور شکستِ کائنات کا سبب بنتا ہے۔
بندئہ مومن اگر حالات سے مایوس نہ ہو تو اسے سربلندی کی بشارت سنائی گئی ہے۔ یہ بشارت بادشاہ کون و مکاں کی ہے، جس کے غلط ہونے کا تصور بھی کفر ہے۔ یعنی ایسا ہو کر رہے گا کہ ہم امید اور یقین کے ساتھ کوئی کام کریں تو ہمیں کامیابی ملنی ہی ہے۔ پھر وہ بادشاہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہم بندے کے گمان کے مطابق ہوتے ہیں، یعنی غلام جیسا گمان رکھے گا، بادشاہ اس کے لیے ویسا ہی ہو جائے گا۔ یعنی مسئلہ ہمارے گمان کا ہے۔ ہم نے پہلے سے فیصلہ کر رکھا ہے کہ بچے باغی ہو رہے ہیں، قوم مردہ ہو چکی ہے، قیادت مفلوج ہو چکی ہے، طلبہ کے اندر جذبۂ علم ختم ہو چکا ہے، اساتذہ اپنا فرض منصبی بھول چکے ہیں، رشتے اور ناطے صرف کہنے کے لیے رہ گئے ہیں۔ نتیجہ یہی ہے کہ ہمیں ہمارے گمان کے مطابق باغی اولادیں عطا کی جا رہی ہیں، مفلوج قیادت دی جا رہی ہے۔ اساتذہ کو اچھے طلبہ نہیں ملتے ہیں اور طلبہ گزرے ہوئے اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے نوحہ کناں ہیں کہ "اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر"۔ ہم رشتہ داروں کا گلہ کرتے رہتے ہیں اور رشتہ دار ہمارا۔ یہ سلسلہ ایک دوسرے سے اتنا مربوط ہے کہ ہماری زیادہ تر گفتگو کا مرکز و محورگلہ اور شکوہ ہوتا ہے، مایوسی اور ناامیدی ہوتی ہے۔حالات کا نوحہ ہوتا ہے۔
مایوسی اور ناامیدی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم دنیا میں جنت جیسا نظام چاہتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ سب کچھ ہماری خواہشات کے مطابق ہو۔ والدین چاہتے ہیں کہ بچے فرماں بردار ہوں، اولاد چاہتی ہے کہ والدین ان کی ہر خواہش پوری کریں۔ اسی طرح سب کو سب سے توقعات ہیں اور جب توقعات ٹوٹتی ہیں تو انسان مایوس ہونے لگتا ہے۔ اگر توقعات اور خواہشات فرد سے ہے تو انسان فرد سے مایوس ہوتا ہے، جماعت سے ہے تو جماعت سے اس کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ بڑا صبر آزما مرحلہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خواہشات پر اختیار کل صرف ذاتِ واحد کوحاصل ہے۔ وہ مالکِ کُن ہے۔ جو چاہے ، جب چاہے کرے۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ نتیجے کے مالک ہم نہیں ہیں۔ کوشش کے نتیجے میں کامیابی ملتی ہے یا ناکامی۔ کوئی تیسری صورت نہیں ہے۔ کامیابی ملنے کی صورت میں بندہ شکر ادا کرتا ہے۔ شکر ادا کرنے والوں کے لیے وعدہ ہے کہ بادشاہِ کون و مکاں شکر کرنے والوں کو مزید دیتا ہے۔ ناکامی ملنے کی صورت میں بندہ صبر کرتا ہے۔ صبر والوں کے لیے بھی وعدہ ہے کہ بادشاہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔ اب جسے بادشاہ کا ساتھ مل جائے اسے اور کون سی نعمت چاہیے۔ یعنی مومن بندے کے لیے ہر حال میں خوش خبری ہے۔ کامیابی میں بھی اسی کا فائدہ ہے اور بظاہر ناکام ہو کر بھی وہی سرخرو ہے۔ کربلا میں امام عالی مقامؑ کی بظاہر شکست ہو گئی لیکن صبر کے نتیجے میں تاقیامت سرخروئی ان کے حصے میں آئی۔ فاتح مردود اور ذلیل ہوا۔ مفتوح کے لیے تاقیامت شاہ است اور بادشاہ است کے نعرے گونجتے رہیں گے. 
کیا اتنی واضح مثالیں آپ کے سامنے ہوں، پھر بھی آپ مایوس ہوں گے؟ حالات خواہ جیسے بھی ہوں آپ اپنے حصہ کی شمع تو اٹھائیں اس میں روشنی دینے کی ذمہ داری جس نے لے رکھی ہے وہ آ پ کو مایوس کبھی نہیں کرے گا   ؎
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
(امیر قزلباش)

پیر, مئی 23, 2022

حسرت جہاں کو انٹر نیشنل عربی خطاطی میں ملا نمایاں مقامچھپرا، بہار، 23 مئی،

حسرت جہاں کو انٹر نیشنل عربی خطاطی میں ملا نمایاں مقام
چھپرا، بہار، 23 مئی،
 
تیزی سے ابھرتی ہوئیں ہندوستان کے صوبہ بہار کے ضلع چھپرا کی رہنے والی کیلیگرافر اور آرٹسٹ محترمہ حسرت جہاں صاحبہ نے انٹرنیشنل عربی خطاطی کی نمائش میں ممتاز مقام حاصل کرکے بہار اور انڈیا کا نام روشن کیا۔
مراکش میں قائم کردہ کردستان کیلیگرافرز فاؤنڈیشن، انڈین کلچرل سینٹر، مصری جمعہ گیلری فاؤنڈیشن اور یونیسکو اٹلس کلب کی جانب سے اس نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا اور اس میں سینکڑوں خطاطوں نے اپنا کام پیش کیا تھا۔ حسرت جہاں صاحبہ کو ان کے کام کی وجہ سے ممتاز ہونے کی اور عربی خطاطی کے فروغ میں کردار ادا کرنے سند تفویض کی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی عالمی نمائش میں حسرت جہاں صاحبہ اپنا کام پیش کرکے سند قبولیت حاصل کر چکی ہیں
 آرٹسٹ حسرت جہاں نے نہ صرف کیلیگرافی بلکہ آرٹ ورک سے بھی کام لیا ہے، اور کیلیگرافی کے ساتھ ساتھ پینٹنگ کا بھی جلوہ برقرار رکھا ہے۔ پینٹنگ کے استعمال سے خطاطی کے حسن میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔
 انڈیا میں  عربی کیلیگرافی کرنے والے لوگ بہت کم  رہ گئے ہیں اور حسرت جہاں ان میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ وہ اس کام کو فروغ دینے کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...