Powered By Blogger

ہفتہ, مئی 28, 2022

*اک یادگار تقریب*مدھوبنی : ضلع کے بینی پٹی بلاک کے تحت گنگولی پنچایت کے گنگولی گاؤں میں گزشتہ دنوں 26 مءی2022 بروز جمعرات صبح 9 بجے باشندگان گنگولی نے اپنی نءی عیدگاہ(2015 میں عبدالمجید اور اکرام الحق صاحبان نے ملکر ساڑھے تین کٹھہ زمین بنام عیدگاہ وقف کیا,اسکے بعد سے عیدین کی نماز ادا کی جارہی ہے,) میں اک تقریبی پروگرام رکھا گیا-

*اک یادگار تقریب*
مدھوبنی : ضلع کے بینی پٹی بلاک کے تحت گنگولی پنچایت کے گنگولی گاؤں میں گزشتہ دنوں 26 مءی2022 بروز جمعرات صبح 9 بجے باشندگان گنگولی نے اپنی نءی عیدگاہ(2015 میں عبدالمجید اور اکرام الحق صاحبان نے ملکر ساڑھے تین کٹھہ زمین بنام عیدگاہ وقف کیا,اسکے بعد سے عیدین کی نماز ادا کی جارہی ہے,) میں اک تقریبی پروگرام رکھا گیا-
باشندگاہ گنگولی کے نوجوان ,بوڑھے بچے سبھی لوگوں کی ایک دلی خواہش تھی کہ عیدگاہ کی گھیرابندی (چہاردیواری) کردی جاءے,جو الحمدللہ آج (26/5/022 جمعرات کو )اس کاافتتاح پورے گاؤں والوں کی موجودگی میں ہوا,بستی والوں کی دلچسپی,ولولہ اور لگن قابل دید تھی,
پروگرام کی نظامت و تلاوت مولانا احمدعلی قاسمی صاحب گنگولوی (امام و خطیب جامع مسجد گنگولی) سےآغاز ہوا,نعتیہ کلام ماسٹر محمد مصطفی صاحب (معاون مدرس: مدرسہ اصلاح المسلمین جانی پور) پڑھا,جبکہ مشتاق احمد قاسمی گنگولوی(سابق امام عیدین گنگولی/ مدرس مدرسہ مصباح العلوم جعفرپور سیتامڑھی) نے پرمغز گفتگو کیاکہ یہ لمحہ پھر زندگی میں نہیں آءے گا ,یہاں جولوگ شریک ہیں انکے لیےیادگار دن بن گیا اور جو شریک نہیں انکے لیےاس طرح یادگار کہ فلاں تاریخ ,ماہ اور دن کو اس کی بنیاد پڑی تھی اور عیدگاہ کمیٹی بنانے کا مشورہ دیا,تاکہ ہرکام مشورہ سے انجام دیا جاءے,اخیر میں الحاج ماسٹر جمیل اختر صاحب (ریٹاءرہیڈمولوی مدرسہ اصلاح المسلمین جانی پور ) گنگولی نے ناصحانہ گفتگو کی اور انہی کے رقت آمیز دعاکے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا,
بعدہ چہاردیواری کی بنیاد سبھی عمر کے لوگوں نے رکھا,پروگرام میں موجود ماسٹر محمد ہارون /محمد شفیق/منیف/ظہیر /کبیر/الیاس/مجیم اور دیگر پوری بستی کے مرد و زن شریک رہے ,

بچوں کی کتابیں تعارف وتذکرہمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بچوں کی کتابیں تعارف وتذکرہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ڈاکٹر محمد عطا حسین انصاری (ولادت یکم نومبر ۱۹۶۲ئ) بن عابد حسین انصاری بن منیر کا قلمی نام عطا عابدی ہے ، خاصے پڑھے لکھے ہیں، یعنی ایم اے اردو پی ایچ ڈی ہیں، ان کی شناخت اہل علم میں اچھے شاعر، بہترین نثر نگارعمدہ صحافی اور قابل قدر منتظم کی ہے، وہ ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۶ء تک ماہنامہ افکار ملی کے سب ایڈیٹر رہے اور اب بھی درجن بھر رسائل سے ان کی صحافتی وابستگی بر قرارہے، ایک درجن ایوارڈ اپنے نام کر چکے ہیں، آئینہ ٔ عقیدت ، عکس عقیدت ، بیاض، مطالعہ سے آگے، افکار عقیدت ، نوشت نوا، زندگی، زندگی اور زندگی، مناظر مذکر ومؤنث کے ، خوشبو خوشبو نظمیں اپنی، شعر اساس تنقید ، دریچے سے ، سقوط ماسکو اور ترقی پسند ادب چھپ کر مقبول ہو چکی ہیں، تین کتابیں خودان پر لکھی جاچکی ہیں، غیر مطبوعہ اور زیر ترتیب کتابوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے، ’’بچوں کی کتابیں- تعارف وتذکرہ‘‘ بہار کے حوالہ سے ان کی تازہ ترین تصنیف ہے ، جو ادب اطفال سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بڑے کام کی چیز ہے، کتاب کا انتساب بڑا پیارا ہے، ’’ہمارے آپ کے بچپن کے نام ، ہمارے آپ کے بچوں کے نام‘‘، کتاب کے آغاز میں پانچ مضامین ادب اطفال کے حوالے سے شامل ہیں، یہ کتاب ؛دو لفظ، ادب اطفال؛ ایک تاثر، بچوں کی تربیت میں ادب کا وسیلہ ، انسانی اقدار اور نصابی ادب اطفال ، بچوں کی کتابیں: چند اور باتیں، معلوماتی، تحقیقی اور چشم کشا ہیں، اس کے بعد چھیانوے(۹۶) ایسے مصنف ، مؤلف اور مرتب کا تذکرہ کیا گیا ہے، جنہوں نے اطفال کے لیے کچھ بھی لکھا ہو، یہ مضامین مواد کی دستیابی کے اعتبار سے مفصل اور مجمل ہیں، ان میں بہت سارے غیر معروف ہیں اور بچوں کے لیے لکھی جانے والی ان کی کتابوں سے ہم پہلی بار متعارف ہوئے ہیں، در اصل متعارف، غیر متعارف ، معروف اور غیر معروف کا تعلق بڑی حد تک مطالعہ کرنے والے کی ذات سے ہوتا ہے ، وہ جن کو پہلے سے جانتا ہے اسے متعارف اور معروف سمجھتا ہے اور جن سے واقفیت پہلے سے نہیں تھی ، ان کو غیر معروف کی فہرست میں ڈال دیتا ہے، عطا عابدی صاحب نے کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا ہے اور ایک جامع کتاب تصنیف کر ڈالی ہے ، اور اس کا مقصد ان کی اپنی تحریر میں یہ ہے کہ 
’’ ان مضامین اور بچوں کی کتابوں کے تذکرے کے پس پردہ بچوں کے لیے لکھنے والوں اور تعلیمی تربیتی منصوبہ بنانے والوں کے سامنے صالح افکار واقدار کی بنیاد پر بچوںکے نشو ونما کے لیے ایک سمت ورفتار کی نشاندہی مقصود ہے ، کتابیں اپنے آپ میں اہم نہیں ہوتیں، کتابوں کو اہم بناتی ہیں وہ اہم باتیں جو ان کا حصہ ہوتی ہے‘‘(صفحہ ۱۱)
 بچے خاندان کے پھول ہوتے ہیں، ان کا چُلبلا پن گھروں میں زندگی کی رمق دوڑاتا ہے، لیکن بچوں کی حرکات وسکنات کو بچپن پر محمول کرکے جس طرح چھوڑ دیا جاتا ہے، اسی طرح بچوں پر لکھی گئی کتابیں نظر انداز ہوتی رہی ہیں، حالاں کہ ادب اطفال کے ذریعہ بچوں کی اخلاقی تربیت کی جا سکتی ہے، اور اس کے ذریعہ بچوں کی ذہنی اٹھان اور دماغی تشکیل میں بڑی مدد مل سکتی ہے ، بلکہ ملتی رہی ہے، ایک زمانہ میں غنچہ، شگوفہ، نور وغیرہ بچوں کی توجہ کا مرکز رہا کیے ہیں، لیکن موبائل اور جدید دور میں ان رسائل سے بچوں کی دلچسپی کم ہو گئی ہے ، اب انہیں موبائل پر گیم کھیلنے سے فرصت نہیں ہوتی او رکومکس پڑھنے سے تھوڑی دلچسپی رہ گئی ہے، جن کی کہانیاں عموماً انگریزی سے مستعار ہوتی ہیں اور مغرب کی بہت ساری خامیاںبچوں کے دل ودماغ میںبھر کر مشرقی اطوار واقدار سے اسے دو رکرتی ہیں، اس لیے ادب اطفال میں ایسی چیزوں کو پیش کرنا چاہیے، جو بچوں کی دلچسپی کے ساتھ اس کی ذہنی تربیت کا فریضہ بھی انجام دے سکیں، ایسا اسی وقت ممکن ہے جب باتیں بچوں کی سطح پر جا کر کہی جائیں،  ہمارے بڑے لکھنے والوں کے یہاں یہ ایک دشوار گذار عمل ہے، اس لیے ان دنوں بچوں کے لیے اچھا ادب کم ہی تخلیق ہو رہا ہے ۔
عطا عابدی صاحب نے اس کتاب کے شروع میں ہی ہماری توجہ بہت ساری باتوں کی طرف مبذول کرائی ہے، جن کو ملحوظ رکھنا ادب اطفال میں ضروری ہے اور جن لوگوں نے ملحوظ نہیں رکھا، اس کے مضر اثرات کا ذکر بھی انہوں نے برملا کیا ہے، عطا عابدی سنجیدہ قلم کار ہیں، اس لیے ان کے یہاں جار حانہ تنقید کے عناصر کم پائے جاتے ہیں، لیکن اس کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ وہ ادب میں مداہنت کو جائز سمجھتے ہیں، وہ باتیں ساری اپنی کہہ جاتے ہیں ، لیکن اسلوب اور لب ولہجہ میں ایسی پاکیزگی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ’’گالیاں سن کر بھی بے مزہ نہ ہوا‘‘ پورے طور پر صادق آتا ہے ، یہ محاورہ کے طور پر استعمال ہو گیا ہے ورنہ صحیح یہ ہے کہ ادب میں کیا، حقیقی زندگی میں بھی کسی کو گالی دینا ان کے بس میں نہیں ہے، یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی کتاب پر بعض مصلحتوں سے کچھ لکھنے سے وہ انکار کر دیں ، لیکن لکھیں گے تو پاکیزہ لکھیں گے ، اچھا لکھیں گے۔
 اس کتاب میں عطا عابدی نے وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ کے ذریعہ مفتی رشید احمد قاسمی کی مطبوعہ کتاب رحمانی قاعدہ کا بھی ذکر کیاہے اور پیش لفظ کا حوالہ دے کر میری عزت افزائی کی ہے ۔
 عطا عابدی کی یہ کتاب ۲۰۲۲ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے چھی ہے، کمپوزنگ پٹنہ کے شفا کمپوزنگ کی ہے ، ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ڈھائی سو رکھی گئی ہے ، جو اردو کے قاری کے لیے زیادہ محسوس ہوتی ہے، یہ کتاب بک امپوریم اردو بازار، سبزی باغ پٹنہ، ناولٹی بکس، قلعہ گھاٹ دربھنگہ اور بیت العطا محلہ فقیر ا خان (اردو بازار) دربھنگہ سے مل سکتی ہے۔ عطا عابدی کی سخاوت سے بعید نہیںکہ آپ فون کریں اور شوق ظاہر کریں تو مفت ہی ہاتھ آجائے، کتاب قیمتاً ملے یا مفت، پڑھنے کی عادت ڈالیے ، اس لیے کہ یہی مصنف کی خدمت کا بہترین اعتراف ہے، اور اسی طرح ہم اردو کے قارئین کی تعداد کو بڑھا سکتے ہیں۔

اب ملک کی 100 سال سے پرانی تمام اہم مسجدوں کا سروے کرانے کا مطالبہ ! سپریم کورٹ میں عرضی داخل

اب ملک کی 100 سال سے پرانی تمام اہم مسجدوں کا سروے کرانے کا مطالبہ ! سپریم کورٹ میں عرضی داخل

نئی دہلی: ملک بھر میں چل رہے مندر-مسجد تنازعہ کے درمیان سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ عرضی داخل کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک کی 100 سال سے پرانی تمام اہم مسجدوں کا سروے کرایا جائے۔ اس حوالہ سے ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ یا کسی دوسرے ادارے کو حکم جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں 100 سال سے زیادہ پرانی تمام قدیمی مسجدوں، جہاں وضو کے لئے کوؤں، تالابوں یا دوسرے مذہب کی عبادت گاہوں کے ساتھ چھپے ہوئے راستے ہوں، ان کا سروے کرایا جائے۔ سروے کو خفیہ رکھنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے، تاکہ اگر کوئی باقیات برآمد ہوتی ہوں تو مذہبی نفرت پھیلنے اور جذبات کو بھڑکنے سے روکا جا سکے۔

عرضی میں مزید دعویٰ گیا ہے کہ قرون وسطیٰ میں مسلم حملہ آوروں نے بہت سے ہندو، جین، سکھ اور بدھ مندروں کی بے حرمتی کی اور ان کو توڑ کر مساجدیں بھی بنائی گئیں۔ لہذا ان قدیمی عبادت گاہوں سے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب سے وابستہ متعدد دیوی دیوتاؤں کی باقیات برآمد ہوں گی۔ باہمی تعاون اور ہم آہنگی کے لیے ان مساجد میں موجود آثار کا احترام کیا جائے اور ان کی دیکھ بھال اور واپسی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔خیال رہے کہ دہلی-این سی آر کے ایڈوکیٹ شوبھم اوستھی اور سپترشی مشرا نے ایڈوکیٹ وویک نارائن شرما کے توسط سے یہ مفاد عامہ عرضی دائر کی ہے۔ اس میں دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا ہے ''وارانسی کے گیان واپی احاطہ میں جس تالاب/کنویں پر مسلمان وضو کرتے ہیں، وہاں سے ایک شیولنگ برآمد ہوا ہے۔ وضو کرنے کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور یہ عمل مقدس شیو لنگ کے تئیں حقارت اور ہندو دیوتاؤں کے تئیں انتقام کو ظاہر کرتا ہے، تاکہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جا سکے۔''

جامعہ عثمانیہ میں ہی اردو کلاسیس کیلئے جگہ نہیں !

جامعہ عثمانیہ میں ہی اردو کلاسیس کیلئے جگہ نہیں !

چراغ تلے اندھیرا......

محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔27 مئی۔اردو ذریعہ تعلیم کے ساتھ شروع کی گئی جامعہ عثمانیہ میں اردو طلبہ کے کلاسس کے انعقاد کیلئے جگہ نہیں ہے۔تلنگانہ میں محکمہ جاتی اساس پر اردو زبان سے تعصب کی کئی مثالیں اب تک سامنے آچکی ہیں لیکن حکومت کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں اردو زبان سے تعصب کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو اردو زبان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اگر حکومت کو ہے بھی تو عہدیداروں یا اداروں کے ذمہ داروں کی نظر میں اردو مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی زبان بن چکی ہے ۔ جامعہ عثمانیہ کے فاصلاتی مرکز برائے تعلیم جو کہ پروفیسر جی رام ریڈی کے نام سے موسوم ہیں اس مرکز میں ایم اے اردو آرٹس کی کلاسس کیلئے جگہ کی تنگی کے سبب ایم اے اردو آرٹس کی کلاسس کا شیڈول جاری نہیں کیا گیا لیکن امتحانات کا شیڈول جاری کردیا گیا ۔ حکومت کی نگرانی میں برسرکار اس باوقار جامعہ جس کی کسی زمانہ میں طرز تعلیم اردو ہوا کرتا تھا میں اب اردو کلاسس کے کیلئے جگہ نہیں ہے۔ پروفیسر جی رام ریڈی مرکز برائے فاصلاتی تعلیم میں ایم اے اردو میں داخلہ لینے والے طلبہ کیلئے اب تک ایک کلاس منعقد نہیں کی گئی جبکہ ایم اے سائیکالوجی ' ایم اے سوشیالوجی' ایم اے تلگو کے علاوہ دیگر جماعتو ںکیلئے کلاسس کا شیڈول جاری کردیا گیا اور ان کی زائد از 10 کلاسس ہوچکی ہیں۔ تعلیمی ادارۂ جات میں اردو طلبہ کی قلت کا بہانہ بنا کر کورسس کو ختم کرنے کی سازش کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جب جامعہ عثمانیہ جیسی دانشگاہ میں ایم اے اردو کے کلاسس کیلئے کمروں کی عدم موجودگی کا بہانہ کرکے کلاسس کا انعقاد نہ کیا جائے تو ریاست کی دیگر جامعات اور تعلیمی ادارہ ٔ جات کی صورتحال کیا ہوگی اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر جی بی ریڈی ڈائرکٹر پروفیسر جی رام ریڈی مرکز برائے فاصلاتی تعلیم سے ربط پیدا کرنے پر انہوں نے بتایا کہ تمام مضامین کے طلبہ کیلئے شیڈول تیار کیا جاچکا ہے لیکن جب تحقیق کی گئی تو انکشاف ہوا کہ مرکز میں موجود 18 کمروں کو مختلف مضامین کیلئے مختص کردیا گیا ہے اسی لئے ایم اے اردو کے طلبہ کی کلاسس کیلئے کمروں کی تخصیص عمل میں نہیں لائی گئی جس کی وجہ سے ایم اے اردو کا شیڈول جاری نہیں کیاگیا۔ فاصلاتی تعلیم پانے والے طلبہ کیلئے اگر ہفتہ میں ایک یا دو بار کلاسس کیلئے جگہ اور عملہ دستیاب نہیں ہے تو یونیورسٹی انتظامیہ سے ریگولر اردو طلبہ کیلئے کیا توقع کی جاسکتی ہے!

جامعہ عثمانیہ کے مرکز برائے فاصلاتی تعلیم کے اردو کورسس میں داخلہ کے حصول کے ذریعہ اردو زبان میں جاری کورسس کو نصاب میں برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والوں کو اب مایوسی ہونے لگی کہ داخلہ لینے کے باوجود تعلیم کا نظام نہ ہونے کے سبب اگر طلبہ ناکام ہوتے ہیں تو ان کے ناکامی کے فیصد کو بنیاد بناکر کورسس کو ختم کیا جائے گا۔ سابق میں کسی کورس میں طلبہ کی تعداد کم ہوتی تو ان کورسس میں طلبہ کی عدم دلچسپی کی بنیاد پر کورس کو ختم کیا جاتا تھا لیکن اب طلبہ کی ناکامی کی بنیاد پر کورس کے خاتمہ کے اندیشے ظاہر کئے جا نے لگے ہیں ۔ کہا جارہا ہے کہ ایم اے اردو کلاسس کے عدم انعقاد کی بنیادی وجہ اردو زبان کو ختم کرنے کی سازش ہے۔

جمعہ, مئی 27, 2022

بیگم مسجدکی سیڑھیوں کے نیچے مورتیاں دفن، کورٹ میں دعویٰ

بیگم مسجدکی سیڑھیوں کے نیچے مورتیاں دفن، کورٹ میں دعویٰ

متھرا: متھرا میں متنازعہ شری کرشنا جنم بھومی اور شاہی عیدگاہ مسجد کے اراضی تنازع کو لے کر عدالت میں سماعت جاری ہے، وہیں دوسری طرف ایک اور عرضی دائر کی گئی ہے۔

اس نئی درخواست میں متھرا کی سول جج کورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1670 میں اورنگزیب جس نے متھرا میں شری کرشن کے مندر کو تباہ کیا تھا، اس کے بعد وہ مورتیوں اور قیمتی سامان کو لے کر آگرہ کے لال قلعہ گیا تھا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ وہاں بیگم صاحبہ کی مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے دفن ہیں۔

تاکہ اس پر سے لوگ گزر کر جائیں۔

اس نئی درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسجد کی سیڑھیوں سے قیمتی مورتیوں اور اشیاء کو واپس لایا جائے کیونکہ یہ ہندو عقیدت مندوں کے عقیدے کی توہین ہے۔ متھرا کے سول جج کی عدالت میں کچھ دیر بعد سماعت ہو سکتی ہے۔

قبل ازیں، اتر پردیش میں متھرا کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج نے جمعرات کو ٹرائل کورٹ کو شاہی عیدگاہ مسجد کا سروے کرنے اور اس میں مندر کی علامتوں کے دعوؤں کی تصدیق کے لیے کورٹ کمشنر کی تقرری کی درخواست کو تیزی سے نمٹانے کی ہدایت دی۔

سول کورٹ (سینئر ڈویژن) کی ٹرائل کورٹ نے 23 مئی کو شاہی عیدگاہ مسجد کی انتظامی کمیٹی اور دیگر کو اس درخواست پر اعتراض داخل کرنے کے لیے کہا تھا جس میں مسجد کا سروے کیا گیا تھا،اس کے بعد درخواست گزاروں نے نظرثانی کی درخواست کے ساتھ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج سے رجوع کیا تھا۔

درخواست کی گئی تھی.

اس کے ساتھ ہی جج نے مذکورہ درخواست پر سماعت کے لیے یکم جولائی کی تاریخ مقرر کی تھی، جب عدالتیں گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد دوبارہ کھلیں گی۔


ضلعی حکومت کے وکیل سنجے گوڑ نے کہا، "نظرثانی کی درخواست کو ٹرائل کورٹ کو ہدایت دینے کے ساتھ نمٹا دیا گیا کہ وہ درخواست کو نمٹا دے جس میں عدالت کمشنر کو اگلی سماعت سے روزانہ کی بنیاد پر مسجد بھیجنے کی درخواست کی گئی ہے۔"


ایڈوکیٹ راجندر مہیشوری نے کہا، ''ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج سنجے چودھری (اپیل اور نظرثانی کے انچارج ڈسٹرکٹ جج) کی طرف سے ایڈوکیٹ کمشنر (مسجد میں) کو سول جج (سینئر ڈویژن) کی ٹرائل کورٹ میں بھیجنے سے متعلق درخواست کی سماعت میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ہے۔ یہ درخواست دہلی کے جئے بھگوان گوئل اور چار دیگر افراد نے داخل کی ہے۔


مہیشوری نے کہا کہ عرضی گزاروں نے 23 مئی کو سول جج (سینئر ڈویژن) جیوتی سنگھ کی عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس میں ایک ایڈوکیٹ کمشنر کو شاہی عیدگاہ مسجد کے احاطے کا سروے کرنے کے لیے بھیجنے کی درخواست کی گئی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مسجد میں مندر کی نشانیاں ہیں۔


درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ عجلت کے ساتھ دائر درخواست کو نمٹانے کے بجائے عدالت نے سماعت کی اگلی تاریخ یکم جولائی مقرر کی۔


مہیشوری نے کہا کہ فیصلے سے ناراض درخواست گزاروں نے سول جج (سینئر ڈویژن) کے حکم کے خلاف ڈسٹرکٹ جج متھرا کی عدالت میں نظرثانی کی درخواست دائر کی، جس نے جمعرات کو درخواست کو اے ڈی جے کی عدالت میں منتقل کر دیا۔


وکیل نے موقف اختیار کیا کہ نظرثانی کی درخواست میں ٹرائل کورٹ کے حکم کو غلط قرار دیا گیا کیونکہ درخواست میں دی گئی فوری شق پر غور نہیں کیا گیا۔


ٹرائل کورٹ کٹرا کیشو دیو مندر کمپلیکس میں واقع کرشنا جنم بھومی مندر کے قریب سے شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے اور مسجد کے سروے کے لیے کورٹ کمشنر کی تقرری کے لیے عبوری درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔

جمعرات, مئی 26, 2022

اب منگلور میں تنازعہ ، مسجد کے نیچے مندر کی علامات ملنے کا دعوی ، ہندو تنظیموں نے مسجد کے باہر پوجا کرکے ماحول میں زہر گھولنے کی کوشش

اب منگلور میں تنازعہ ، مسجد کے نیچے مندر کی علامات ملنے کا دعوی ، ہندو تنظیموں نے مسجد کے باہر پوجا کرکے ماحول میں زہر گھولنے کی کوششاتر پردیش کے گیان واپی سے شروع ہوا مندر مسجد تنازعہ اب کرناٹک تک پہنچ گیا ہے۔ کرناٹک کے منگلور میں ملالی جامع مسجد کے نیچے مبینہ طورپر مندر جیسی شکل ملنے کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد نے مسجد کے باہر پوجا کرکے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی۔ مقامی انتظامیہ نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے یہاں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔یہ منگلور کے مضافات میں واقع گروپرا تعلقہ کی ایک پرانی مسجد ہے۔ یہاں ملالی مارکیٹ میں مسجد کے احاطے میں مرمت کا کام چل رہا تھا۔ مسجد کا ایک حصہ پہلے ہی منہدم ہو چکا تھا۔ 21 مئی کو کام کے دوران جب مسجد کا ملبہ ہٹایا جا رہا تھا تو مبینہ طورپر یہاں مندر جیسا ڈھانچہ نظر آیا۔ ہندو تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ انہیں ان کا مندر کا حصہ واپس کیا جائے، انتظامیہ نے مسجد کی اراضی سے متعلق دستاویزات جمع کروائی ہیں تاکہ علاقے میں کشیدگی نہ بڑھے۔ فی الحال یہ معاملہ مقامی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ جب تک یہ واضح نہیں ہوتا ہے کہ زمین پر مسجد تھی یا یہاں مندر تھا، عدالت نے مسجد کی مرمت پر روک لگا دی ہے۔منگلور میں مبینہ طور پر مسجد کے نیچے ہندو مندر کا ڈیزائن ملنے کے بعد بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد نے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) سے سروے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سروے میں آئینے کی طرح صاف ہو جائے گا کہ وہاں مندر تھا یا نہیں۔

تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے تحریک چلائے گا ایوان سرسید

تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے تحریک چلائے گا ایوان سرسید

ایم مشرا/ لکھنؤ

اتر پردیش میں اقلیتی تعلیمی نظام کے حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جو خیالات ظاہر کیے جا رہے ہیں، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اگر مسلم معاشرہ مستقبل میں بہتر تعلیمی ادارے قائم نہیں کرتا ہے تو اس سے مسائل مزید گہرے ہوں گے۔ اس سے ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے لیے ذاتی شناخت کی حفاظت خطرے میں پڑ جائے گی۔

نئے مدارس کو گرانٹ نہ دینے کے اتر پردیش حکومت کے حالیہ فیصلے سے لوگ پریشان ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن (امیبا) نے لکھنؤ میں مختلف وجوہات کی وجہ سے تعطل کا شکار تعلیمی اور سماجی تحریکوں کو بحال کرنے کے لیے ایوانِ سر سید کے قیام کا اعلان کیا ہے۔

اس مسئلہ پر یہاں مسلم دانشوروں کا اجلاس منعقد ہوا۔ امیبا کے صدر، معروف معالج اور سماجی کارکن پروفیسر شکیل قدوی کے ساتھ ساتھ کئی ذمہ داران نے کہا کہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے جس جوش و جذبے کی ضرورت ہے،اس سے کام نہیں لیا گیا۔

درگاہ شاہ مینا کے معروف سماجی کارکنوں راشد مینائی اور سید بلال نورانی نے کہا کہ ایوانِ سرسید کسی لالچ یا بھیک کے لیے نہیں بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں وہی مشن اور تحریک اپنانے کی ضرورت ہے جسے سرسید نے اپنایا تھا۔ خرچ بھی کریں گے اور عوام سے عطیات بھی لیں گے اور ساتھ ہی حکومتی سطح پر مراعات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن کسی نہ کسی طرح یہ مشن پورا ہو جائے گا۔

اس حوالے سے مشہور سماجی کارکن اور کئی مدارس کی منتظم طاہرہ رضوی کہتی ہیں کہ سرسید کے نقش قدم پر چلنا آسان نہیں ہے لیکن موجودہ دور میں تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے ایوان سرسید کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت ہے۔

ممتاز سماجی کارکن ڈاکٹر سلمان خالد کا کہنا ہے کہ لوگوں کے حوصلے ابھی ٹھنڈے نہیں ہوئے اور محدود وسائل کے باوجود تمام مذاہب کے پسماندہ، استحصال زدہ اور غریب لوگوں کی مدد کے لیے بہت کام کیا جائے گا۔

عوام کو زندگی کی بنیادی اور ضروری سہولتیں فراہم کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دینی مدارس سے وابستہ لوگوں کی مایوسی اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ مالی مشکلات کو دور کرنے کے لیے بھی خصوصی تحریک چلائی جائے۔ ان مدارس کے لیے بھی ایک منظم حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...