Powered By Blogger

ہفتہ, جون 04, 2022

کانپور تشدد : مسلمانوں کا بازار بند کا اعلان ، ' کلیدی ملزم ' ظفر ہاشمی گرفتار

کانپور تشدد : مسلمانوں کا بازار بند کا اعلان ، ' کلیدی ملزم ' ظفر ہاشمی گرفتار

کانپور: صنعتی شہر کانپور میں جمعہ، 3 مئی کو ہونے والے تشدد کے بعد حالات کشیدہ ہیں اور یہاں کے بیکن گنج علاقے میں بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ صدر رام ناتھ کووند بھی آج شہر میں موجود ہیں، لہذا سیکورٹی ایجنسیاں پوری طرح سے مستعد ہیں۔ پولیس نے تین ایف آئی آر درج کرتے ہوئے 40 افراد کو نامزد کیا ہے، جبکہ 350 سے زیادہ نامعلوم افراد کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے، پہلے یہ تعداد ایک ہزار بتائی جا رہی تھی۔پولیس کا کہنا ہے کہ حیات ظفر ہاشمی تشدد کے معاملہ میں کلیدی ملزم ہیں اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ظفر ہاشمی مولانا محمد جوہر علی فینز ایسوسی ایشن سے وابستہ ہیں اور وہ سی اے اے، این آر سی کے خلاف کئے گئے احتجاج میں سرگرم رہے تھے۔ ظفر ہاشمی سے وابستہ مولانا محمد جوہر علی فینز ایسوسی ایشن سے ہفتہ کے روز کانپور میں بازار بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

تشدد کے واقعہ پر ہندو اور مسلم فریقوں کے متضاد بیان سامنے آ رہے ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے بعد نمازِ جمعہ توہینِ رسالت کے خلاف پرامن احجاج کیا جا رہا تھا، جبکہ ہندو فریق کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی دکانوں کو جبراً بند کرانے کی کوشش کی گئی تھی۔

نیوز پورٹل 'آج تک' پر شائع تفصیلی رپورٹ کے مطابق ہنگامہ آرائی کی شروعات یتیم خانہ کے علاقے کی اہم سڑک اور بازار سے ہوئی، جس کے بعد ہندو اور مسلمان آمنے سامنے آ گئے اور بحث ہونے لگی۔ اس کے بعد آپسی تصادم کے ساتھ پتھراؤ شروع ہو گیا۔ رپورٹ کے مطابق جب پولیس موقع پر پہنچی تو سڑک پر پتھر بکھرے پڑے تھے، بازار بند ہو چکے تھے اور کئی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی جا چکی تھی۔

رپورٹ کے مطابق پولیس نے جب فسادیوں کو منتشر کرنا شروع کیا تو یہ لوگ اندرونی بستی اور تنگ گلیوں میں داخل ہو گئے اور وہاں سے ہی پولیس کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، جس میں کئی پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ پتھراؤ کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ قریبی تھانوں سے بھی پولیس کو طلب کرنا پڑا۔ اس دوران پولیس نے فسادیوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا۔ پولیس نے رات دیر گئے حالات پر قابو پا لیا۔ اس کے بعد ضلع مجسٹریٹ اور پولس کمشنر نے پوری فورس، پی اے سی اور آر اے ایف کے ساتھ تشدد سے متاثرہ علاقوں میں فلیگ مارچ کیا۔

آج تک نے تشدد کے سلسلہ میں مسلم فریق کا بیان شائع کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کا کہنا ہے ''ہم پرامن طریقے سے جلوس نکال رہے تھے۔ اس میں بچے بھی شامل تھے۔ اچانک پتھراؤ شروع ہو گیا۔ چھوٹے چھوٹے بچے تھے جن پر پتھراؤ شروع کیا گیا تھا۔ ہم نے ہر کسی سے دکان بند کرنے کو نہیں کہا تھا۔ جس کی مرضی وہ بند کرے یا نا کرے۔ اس کے باوجود لوگوں نے جلوس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ ان بچوں کا کیا قصور تھا جو جلوس نکال رہے تھے؟''

دوسری جانب ہندو فریق کے لوگوں کا الزام ہے ''جلوس نکال رہے لوگوں نے ہماری دکانیں جبراً بند کرانے کی کوشش کی تھی۔ ہم نے کہا کہ ہماری دکانیں بند نہیں ہوں گی تو وہ اینٹ اور پتھر برسانے لگے۔ پولیس بروقت نہ آتی تو یہ پورا علاقہ ان کے قبضے میں ہوتا۔''اے ڈی جی یوپی پرشانت کمار کا کہنا ہے ''تاحال 35 فسادی پکڑے جا چکے ہیں اور ملزمان پر گینگسٹر ایکٹ عائد کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ملزمان کے گھروں پر بلڈوزر بھی چلے گا۔'' اس کیس میں مولانا محمد جوہر علی فینز ایسوسی ایشن کے حیات ظفر ہاشمی سمیت احتشام کباڑی، ذیشان، عاقب، نظام، عزیز، عامر جاوید اور عمران کالے سمیت 40 افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔

کرناٹک :ہندو تنظیموں نے کیا مسجد میں پوجا کا اعلان،دفعہ 144 نافذ

کرناٹک :ہندو تنظیموں نے کیا مسجد میں پوجا کا اعلان،دفعہ 144 نافذ

بنگلورو:کرناٹک کے منڈیا شہر کے سری رنگا پٹنا ضلع میں ہفتہ کی صبح 6 بجے سے شام 6 بجے تک دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ ایسا وی ایچ پی کے سری رنگا پٹنا چلو کے مطالبے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ موقع پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔

کرناٹک کے منڈیا ضلع کے سری رنگا پٹنا قصبے میں سی آر پی سی کی دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ اس کا اطلاق ہفتہ کی صبح 6 بجے سے شام 6 بجے تک ہوگا۔ یہ قدم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی جانب سے 'سری رنگا پٹنا چلو' کی آج کی کال کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔

وی ایچ پی کی کال کے پیش نظر500 سے زیادہ پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ چار چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔ ایس پی این یتیش کی موجودگی میں روٹ مارچ بھی نکالا گیا۔ وہیں اس سب کے باوجود ہندو تنظیموں کے ارکان منڈیا ضلع کے سری رنگا پٹنا قصبے کے کرنگور جنکشن پر جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ انہوں نے آج یہاں جامع مسجد تک مارچ کی کال دی تھی، یہ کہتے ہوئے کہ وہ مسجد میں داخل ہوں گے اور وہاں پوجا کریں گے۔

ڈپٹی کمشنر اشواتھی ایس نے کہا کہ ہفتہ وار بازار جو عام طور پر ہر ہفتہ کو لگتا ہے آج نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج سری رنگا پٹنا کے 5 کلومیٹر کے دائرے میں شراب کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

ڈپٹی کمشنر نے کہا، 'آج مسجد روڈ بند کر دی گئی ہے۔ لوگوں کو مسجد میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔

منڈیا کے ایس پی نے کہا کہ سری رنگا پٹنا نگر پنچایت حدود میں تالق انتظامیہ کی طرف سےممنوعہ احکامات کی وجہ سےریلیوں/جلوسوں/احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔ اس حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے شہر اور اس کے اطراف میں مناسب انتظامات کو یقینی بنایا ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔

انہوں نے کہا کہ شہراب مکمل طور پر پرسکون ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی ایسا ہی رہے گا۔ ہم نے ضروری انتظامات کر لیے ہیں۔ ہم نے اپنے جوانوں کو تعینات کیا ہے، لیڈروں سے بات کی ہے اور انہیں دفعہ 144کے نفاذ سے آگاہ کیا ہے۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

درحقیقت وارانسی کی گیان واپی مسجد کی طرح منڈیا ضلع کے سری رنگا پٹنہ کی جامع مسجد کو لے کر بھی تنازع شروع ہو گیا ہے۔ ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ مسجد ہنومان مندر کے کھنڈرات پر بنائی گئی ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں عدالت سے رجوع کرنے کی بات بھی کی۔ اس سلسلے میں ہندو تنظیموں نے منڈیا کے ڈپٹی کمشنر اشواتھی ایس کو ایک میمورنڈم بھی پیش کیا اور مسجد کے سروے کا مطالبہ کیا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ جامع مسجد میسورکے سابق حکمران ٹیپو سلطان نے بنوائی تھی۔ یہ مسجد اس وقت روشنی میں آئی جب ہندو تنظیموں نے 16 اپریل2022 کو ہنومان جینتی کے موقع پر چھ لاکھ مالا پوش عقیدت مندوں کی سری رنگا پٹنا آمد کا اعلان کیا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے انتظامیہ سے اجازت بھی مانگی تھی۔ جس کی وجہ سے وہاں امن و امان کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ مسجد کمیٹی نے انتظامیہ سے سیکورٹی فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

جامع مسجد کو مسجد الاعلی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سری رنگا پٹنا قلعہ کے اندر واقع ہے۔ 1786-87 میں تعمیر کی گئی اس مسجد میں دو مینار ہیں، جو ایک اونچے چبوترے پر بنائے گئے ہیں۔ یہ مسجد دو منزلہ ہے۔ اس کا کوئی گنبد نہیں ہے۔ یہ مسجد آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے بنگلور سرکل کے زیر انتظام ہے۔

کانپور تشدد : امن و امان کے بغیر یوپی میں سرمایہ کاری کس طرح ممکن ہے ؟ مایاوتی کا سوال

کانپور تشدد : امن و امان کے بغیر یوپی میں سرمایہ کاری کس طرح ممکن ہے ؟ مایاوتی کا سوال

کانپور: یوپی کے صنعتی شہر کانپور میں جمعہ کے روز ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ اور بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی نے کہا ہے کہ اگر ریاست میں امن و امان ہی نہیں ہوگا تو یہاں سرمایہ کاری کس طرح ممکن ہے۔ انہوں نے تشدد کے واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرا کر قصورواروں پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

خیال رہے کہ کانپور میں گزشتہ روز تشدد اس وقت بھڑکا جب بی جے پی کی ایک ترجمان کے قابل اعتراض بیان کے خلاف مسلمانوں نے بعد نماز جمعہ احتجاج و بند کا اہتمام کیا۔ اس دوران دو فرقوں میں پتھربازی شروع ہو گئی اور حالات بے قانون ہوتے دیکھ پولیس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق واقعہ میں کم از کم 13 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

مایاوتی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈ پر لکھا، ''صدر اور وزیر اعظم کے دورے کے دوران ہی کانپور میں فساد اور تشدد بھڑکنا انتہائی تکلیف دہ، افسوسناک، تشویش ناک ہے اور پولیس کے خفیہ نظام کی ناکامی کا عکاس ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ امن و امان کی غیر موجودگی میں ریاست میں سرمایہ کاری اور یہاں کی ترقی کس طرح ممکن ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ''حکومت اس واقعہ کی مذہب، ذات اور پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر آزادانہ اور غیرجانبدارانہ اعلیٰ سطحی انکوائری کراکر قصورواروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائے تاکہ ایسے واقعہ آگے نہ ہوں۔ ساتھ ہی، لوگوں سے بھی اپیل ہے کہ امن اور نظم و نسق برقرار رکھیں اور مشتعل بیانات وغیر سے اجتناب کریں۔''

کانپور کے تشدد پر پولیس کمشنر وجے سنگھ مینا نے کہا، ''حالات اب معمول پر ہیں اور ہر جگہ سیکورٹی فورسز تعینات ہیں۔ 3 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، 36 افراد کی شناخت کر لی گئی ہے۔ تصاویر کی مدد سے دیگر افراد کی شناخت کی جا رہی ہے اور ان کی گرفتاری کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ جلد ہی تمام سازش کرنے والوں اور موقع پر موجود افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ان کے خلاف گینگسٹر ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی اور ان کی املاک بھی ضبط کی جائے گی۔ قومی سلامتی قانون بھی عائد کیا جائے گا، تاکہ ماحول خراب کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکے

جمعہ, جون 03, 2022

پٹرول پمپ ملازمین کسٹمر کے ساتھ کر رہے ہیں دھوکہ دہی ، جانئے کس طرح جھونک رہے آنکھوں میں دھول

پٹرول پمپ ملازمین کسٹمر کے ساتھ کر رہے ہیں دھوکہ دہی ، جانئے کس طرح جھونک رہے آنکھوں میں دھولعام لوگ پہلے ہی پٹرول کی قیمتوں سے پریشان ہیں۔ پٹرول پمپوں پر اس کے ساتھ ہونے والا فراڈ ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ کچھ پٹرول پمپ ملازمین مختلف طریقوں سے صارفین کو بے وقوف بنا کر اپنی جیبیں گرم کر رہے ہیں۔ اگر ہم کرناٹک کی راجدھانی بنگلورو کی بات کریں تو یہاں کے پٹرول پمپ ملازمین نے دھوکہ دہی کا ایک الگ طریقہ نکالا ہے۔ صارفین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ ملازمین بڑی آسانی سے انہیں لوٹ رہے ہیں۔ دھاندلی والے میٹر (Rigged Meters) ایک ایسا ہی طریقہ ہے جس کی مدد سے پٹرول پمپ کے ملازمین لوگوں کو دھوکہ دینے کا کام کر رہے ہیں۔ دکن ہیرالڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق جب کوئی کسٹمر اپنی گاڑی میں پٹرول بھروانے آتا ہے تو پمپ کا ملازم ایندھن بھرنے کے دوران پیٹرول کا بہاؤ روک دیتا ہے۔ آپ اسے اس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی کسٹمر 1000 روپے کا پٹرول مانگتا ہے تو پمپ کا ملازم پہلے 400 روپے کا پیٹرول ڈالتا ہے۔ پھر اس دوران وہ گاہک کو بتاتا ہے کہ بجلی چلی گئی ہے یا کوئی اور مسئلہ آ گیا ہے۔ اس لیے پٹرول گاڑی کی ٹنکی میں نہیں جا رہا ہے۔ پھر کچھ دیر بعد وہ وہاں سے دوبارہ پٹرول ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور 600 روپے پر رک جاتا ہے، جب کہ اسے زیرو سے شروع کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بدلے وہ کسٹمر سے 1000 روپے لیتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ صرف 600 روپے کا پٹرول ڈالتا ہے۔ باقی 400 روپے پیٹرول پمپ کا ملازم اپنی جیب میں رکھتا ہے۔ خام تیل 10ڈالر سستا، کیا Petrol۔Diesel کی قیمتیں بھی ہوئیں کم، جانئے آج کے نئے دام

چانچ ہوئی تیز
ایک حکام کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں ریاست میں پٹرول پمپس پر دھوکہ دہی کے معاملات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ افسر کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران پیٹرول پمپ کے معائنہ کے کام میں کمی آئی تھی جس کا فائدہ پمپ کے ملازمین نے اٹھایا تاہم اب دوبارہ تحقیقات تیز کردی گئی ہیں۔



پمپ آپریٹر نے کیا کہا؟
وہیں پیٹرول پمپ آپریٹرز petrol pump operators کا کہنا ہے کہ ملازمین کی دھوکہ دہی کی وجہ سے ان پر اکثر جرمانے لگائے گئے ہیں۔ آل کرناٹک فیڈریشن آف پٹرولیم ٹریڈرس کے صدر کے ایم۔ بسوے گوڑا کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک میٹر کی وجہ سے دھوکہ دہی کا امکان بہت کم ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پیرول پمپ چلانے والوں نے 25 ملی لیٹر پلس یا مائنس کا غلط استعمال کیا ہے تو اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن حکام صرف 10 ملی لیٹر کی کمی پر ہی مقدمہ درج کرلیتے ہیں۔ پٹرول پمپ آپریٹرز نے گزشتہ سال بھی اس کی مخالفت کی تھی۔

یوپی کے یوگی___ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

یوپی کے یوگی___
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
یوپی کی یوگی حکومت مرکزکی مودی حکومت سے مسلم مخالف فیصلے لینے اور کرنے میں آگے بڑھنا چاہتی ہے، تاکہ وہ فرقہ پرست تنظیموں اور آر ایس ایس کی منظور نظر بن جائے، اور ریاست سے مرکز تک پہونچنے کا خواب حقیقت کا روپ دھارن کر سکے، اس کے لیے پہلا فرمان اپنے پہلے دور حکومت میں مدارس اسلامیہ کے لیے یوگی جی نے جاری کیا کہ مدارس والے اپنی معلومات ویب پورٹل پر اپ لوڈ کریں، مدارس کے ذمہ داران بھی اپنے طرز پر جینے کے عادی ہیں، اس لیے اپ لوڈ کرنے کی تاریخ میں توسیع کے با وجود اس کام کو کرکے نہیں دیا ۔
اتر پردیش میں حکومت سے منظور شدہ مدارس کی تعداد ۱۹۱۴۳ہے، حکومت سے امداد صرف پانچ سو ساٹھ مدارس کو ملتی ہے، ڈاٹا اپ لوڈ کرنے کا حکم منظور شدہ سبھی مدارس کے لیے تھا ، ۱۶۴۶۱ مدارس نے ہی اس حکم کو تسلیم کیا ، ۲۶۸۲ مدارس کی تفصیلات اپ لوڈ نہیں ہوئیں، جن میں عالیہ سطح کے ۸۳۶ غیر امدادیافتہ مدارس بھی شامل ہیں، جب کہ عالیہ سطح کے منظور شدہ مدارس کی تعداد وہاں ۴۵۳۶ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ۳۷۰۰ نے ہی ان میں سے ڈاٹا آن لائن اپ لوڈ کیا ہے۔ خبر ہے کہ وزیر تعلیم نے ایک بار پھر ڈاٹا فراہم کرنے کی تاریخ میں توسیع کر دی ہے اور کہا ہے کہ مدارس کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت کے پاس تفصیلات کا ہونا ضروری ہے ، اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت صاف ہے ، اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ہمیں تو کچھ دال میں کالا ہی نظر آتا ہے ، اور اس کو تقویت اس فرمان سے ملتی ہے جس میں مدارس کو حب الوطنی کے ثبوت کے طور پر ۲۶؍ جنوری اور ۱۵؍ اگست کے پروگرام کی دیڈیو گرافی کرکے بھیجنے کو کہا گیا تھا۔اپنی نئی پاری میں یوگی جی نے نئے مدارس کو منظور ی دینے سے صاف انکار کر دیا ہے، اب کسی نئے مدرسہ کا الحاق نہیں ہوگا، اور نہ تنخواہ دی جائے گی۔
 مدارس والوں کو پریشان کرنے کے لیے یوگی حکومت نے ایک دوسرا فرمان یہ جاری کیا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں بھی دوسرے مذاہب کے تہواروں کے موقع سے چھٹی دی جائے گی، اس کے لیے مدارس کی معمولات والی تعطیلات میں کٹوتی کرکے نئے سال کے لیے فرصت کی فہرست سازی کی گئی ہے،  اور ۹۲ سے گھٹا کر ۸۶ کر دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے رمضان ، عید، بقرعید کی چھٹیاں کم ہو گئی ہیں اور درگا پوجا، دیوالی، ہولی پر مدارس بند رکھنے کا فرمان جاری کیا گیا ہے، ایسا کسی دوسری ریاست میں نہیں ہے، یوگی حکومت کی مسلم مخالفت کا یہی حال رہا تو ممکن ہے آسام کی طرح جمعہ کی چھٹی منسوخ کرکے اتوار کو تعطیل کا دن نہ قرار دے دیا جائے، حالاں کہ اتوار بھی ہندو تو کے لیے کوئی ’’شبھ‘‘ دن تو ہے نہیں، اس فرمان پر مدارس والوں نے احتجاج درج کرایا تو اعلان آیا ہے کہ چھٹیاں کم نہیں کی گئی ہیں، بڑھا دی گئی ہیں، لیکن اس بڑھانے کے نتیجے میں تعلیم وتدریس کے ایام مزید کم ہوجائیں گے ، اور طلبہ کا سخت تعلیمی نقصان ہوگا، جو پہلے ہی اساتذہ کے غیر تدریسی کاموں میں مشغول ہو نے کی وجہ سے نصابی تعلیم کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب رہا ہے۔ 
تیسرا فرمان عدالت کے حکم کی روشنی میں مذہبی مقامات پر لاؤڈ اسپیکرسے متعلق آیا ہزاروں مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ آواز کی ترسیل کے چونگے اتار لیے گیے ہے اس فرمان کا اثر دوسرے مذاہب پر تو ہونے سے رہا ، وہ مثل مشہور ہے کہ ’’سیاں بھئے کوتوال اب ڈرکاہے کا‘‘ ان کے لیے تو یہی معاملہ ہوگا، رہ گیے مسلمان تو اس حکم کا اطلاق اس سختی سے مسلمانوں پر ہوگا، کہ مسجد کے منارے مائیک سے خالی ہو جائیں گے اورمحلہ کے لوگ اذان کی آواز سننے کے لیے ترس جائیں گے، دوسری اقلیتوں کو بھی فوری طور پر اس کام کے لیے تگ ودو شروع کرنی چاہیے، تاکہ بعد میں ان کے لیے مسائل نہ کھڑے ہوں، یہ توقع کرنا کہ یوگی جی کا یہ فرمان آخری ہے، بیوقوفوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہوگا،کیوں کہ خود ان کی اپنی ذہنیت فرقہ واریت کے جراثیم سے تیار ہوئی ہے، دوسرے وہ اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے کوئی بھی حکم دے سکتے ہیں اور چوں کہ وہ بھاری اکثریت سے یوپی کی گدی پر براجمان ہوئے ہیں، اس لیے ان کا فرمان نافذ العمل بھی ہوگا۔اب اتر پردیش کی صور ت حال یہ ہے کہ سڑکوں پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں پر بھی پابندی لگی ہوتی ہے ۔
ضرورت مسلمانوں کو تحمل برداشت کے ساتھ حالات سے مقابلہ کرنے کی ہے، وہاں کے علماء اور تنظیم کے ذمہ داروں کو بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے، تاکہ مسلمانوں میں جو مایوسی پائی جا رہی ہے اس کو دور کیا جا سکے، اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ مسلمانوں کے لیے وہاں عرصۂ حیات تنگ نہ ہو، مسلمانوں نے انتخاب کے موقع سے منصوبہ بندی نہیں کی، اس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں، کم از کم جینے اور زندگی گزارنے کی منصوبہ بندی تو ایسی کرلیں کہ نئی نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہو سکے، اور وہ پورے مذہبی اقدار کے ساتھ زندگی گذارنے کے لائق رہ سکیں۔

جمعرات, جون 02, 2022

ہندوستانی فوٹو گرافر کے کیمرے سے 115 سال قبل حج کے مناظر

ہندوستانی فوٹو گرافر کے کیمرے سے 115 سال قبل حج کے مناظر

ریاض : شاہ عبدالعزیز پبلک لائبریری نے نئی کتاب شائع کی ہے جس میں 115 سال قبل حرمین شریفین کے حالات اور ماحول کو تصاویر کی شکل میں اجاگر کیا گیا ہے۔ العربیہ کے مطابق انڈین فوٹو گرافر احمد مرزا نے سوا صدی پیشتر حج کے موقعے پر حرمین شریفین کی تصاویر لیں جنہیں اب ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔

کتاب کو 'مناظر حرمین شریفین اور حج کے مظاہر الحاج احمد مرزا کے کیمرے کی آنکھ سے' کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ کتاب عالم دین ڈاکٹر اعظمی ندوی نے ترتیب دی اور اس کا پہلا ایڈیشن شائع کیا گیا ہے۔ کتاب 240 صفحات پر مشتمل ہے جس میں حرمین شریفین کے نقشوں، خاکوں اور قدیم ڈرائنگ سے آغاز کیا گیا ہے۔

کتاب میں انڈین فوٹو گرافر کی حرمین شریفین اور مشاعر مقدسہ کی بنائی گئی تصاویر شامل ہیں۔ سوا صدی قبل حرمین شریفین کی یادگاروں پر مشتمل اس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کتاب کا پہلا باب 'جدید ہندی طباعتی ثقافت میں حرمین شریفین' کےعنوان سے ترتیب دیا گیا ہے جس میں فوٹو گرافر احمد مرزا کی تیار کردہ تصاویر شامل ہیں۔

کتاب کا ایک حصہ الحاج احمد مرزا کی تصاویر کے مجموعے کے سائنسی بنیاد پر مطالعے، تجزیے اور علمی نگرانی سے بھی متعلق ہے جنہیں 1907ء میں حج پر آنے والا پہلا پیشہ ور ہندوستانی فوٹو گرافر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے مکہ معظمہ میں اپنے قیام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حرم مکی شریف کی تصاویر حاصل کیں۔

الحاج احمد مرزا کو 1907ء میں حج پر آنے والا پہلا پیشہ ور ہندوستانی فوٹو گرافر سمجھا جاتا ہے


ہندوستان واپسی کے بعد انہوں نے ان تصاویر کو (دہلی میں) اپنی فوٹوگرافی لیب میں پرنٹ کیا۔ انہوں نے وہ تصاویر اور کارڈ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں آنے والے حجاج کو فروخت کئے۔ محقق اعظمی ندوی ہندوستان میں مغلوں پراپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے آغاز سے ہی مرزا کے تصویری مجموعے سے کیا۔

تلاش کے دوران انہیں تصاویر اور کارڈز اور البم ملے جو حاجی احمد مرزا کے سٹوڈیو سے چھاپے اور شائع کئے گئے تھے۔ احمد مرزا کی لی گئی تصاویر میں حرم مکی شریف کے اندر موجود حجاج کرام کو دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مسجد نبوی، مسجد حرام، جبل عرفات، باب العنبریہ، مسجد الخیف، منیٰ، المعلاۃ اور جنۃ البقیع قبرستان، مسجد قبا اور حجاج کی زیارت کے دیگر مقامات کوکیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا گیا۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ علماء دیوبند عظیم کارنامہ " پانی والی مسجد مسجد کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ ۔۔۔۔ ضلع شکار پور کی تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں امروٹ شریف سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مسجد قائم ہے

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ علماء دیوبند عظیم کارنامہ " پانی والی مسجد مسجد کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ ۔۔۔۔ ضلع شکار پور کی تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں امروٹ شریف سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مسجد قائم ہے جسے پانی والی مسجد کہا جاتا ہے ۔ گاه یہ مسجد کھیر تھر کینال کے بیچ میں ہے اور یہ صرف ایک عبادت نہیں بلکہ ایک طرح سے تحریک آزادئ ہند کی اہم یادگار ہے اور ایک موقع پر اسی مسجد نے دین اسلام پر مر مٹنے والوں کا جذبہ اور اللہ کے راستے میں جان بان کرنے کی سچی آرزو بھی دیکھی ہے ۔>> اس مسجد کو شمالی سندھ میں انگریزوں کے خلاف ایک سیاسی قوت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا 1932 میں برطانوی راج میں جب سکھر بیراج اور کینال پراجیکٹ کا کام شروع کیا گیا تو بلوچستان تک نہری پانی پہنچانے کے لیے کھیر تھر کینال کی کھدائی کی جانے لگی ۔ اس وقت یہ چھوٹی سی مسجد کھیر تھر کینال کے منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھی گئی اور انگریز سرکار نے منہدم کرنے اور کینال پراجیکٹ کو اسی جگہ سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ، مگر حضرت مولانا تاج محمود امروٹی نے جو ایک عالم اور نہایت دین دار شخص مانے جاتے تھے ، انھوں نے کینال کا رخ تبدیل کرنے مشورہ دیتے ہوئے مسجد کو شہید نہ کرنے کا کہا ۔ انگریز انتظامیہ نے ان کا مشورہ مسترد کر دیا تو مولانا امروٹی نےمتعلقہ امور کے ماہرین اور افسران کو تحریری طور پر اس مسئلے آگاہ کیا اور اپنا مشورہ ان سے کے سامنے رکھا ، لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا ۔ تب مولانا امروٹی نے انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے کا اعلان کردیا ۔ ان کی آواز پر ہزاروں لوگ جمع ہو گئے اور ایک ایسی دینی اور سیاسی تحریک شروع ہوئی کہ برطانوی سرکار مشکل میں پڑ گئی ۔ مولانا صاحب کے حکم پر مسجد کی حفاظت کے لیے سیکڑوں لوگ گھروسے نکل آئے ۔ نوجوانوں نے مختلف اوقات میں مسجد پہرہ دینے کی ذمہ داری اٹھا لی ۔ مسلمانوں کو یوں اکٹھا ہوکر مسجد کی حفاظت کرتا دیکھ کر انگریز انتظامیہ نے فیصلہ ترک کر کا دیا ۔ ماہرین سے مشاورت اور منصوبے کے انجینئر کی ہدایت پر کھیر تھر کینال کو مسجد کے دونوں اطراف گزارا گیا اور یوں مسجد پانی آگئی ۔ سے کے بیچ میں ں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پانی والی مسجد بھی کہا جاتا ہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...