Powered By Blogger

جمعہ, جون 10, 2022

مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنیؒ____ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنیؒ____
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مفسرقرآن جامعہ دار السلام عمرآباد تامل ناڈو کے ناظم اعلیٰ، استاذ الاساتذہ، نامور عالم دین، اچھے شاعر، بہترین نثرنگار، کئی کتابوں کے مصنف ومولف مولانا حفیظ الرحمن عمری مدنی کا ۲۴؍مئی ۲۰۲۲ئ؁ مطابق۲۲؍شوال ۱۴۴۳ھ؁ بروزمنگل دوپہر انتقال ہوگیا اور اسی دن بعد نماز عشاء دس بجے شب جنازہ کی نماز ادا کی گئی اور عمرآباد میں ہی تدفین عمل میں آئی، اہلیہ کا انتقال برسوں پہلے ہوچکا تھا، پس ماندگان میں تین بیٹیاں ہیں، مولانا حفیظ الرحمن اعظمی بن مولانا محمد نعمان اعظمی (م۲۸؍ دسمبر ۱۹۵۱ئ) بن عبد الرحمن شہید کی پیدائش ۳؍اپریل ۱۹۴۱ئ؁ تامل ناڈو کے شہر عمرآباد میں ہوئی، دس سال کی عمر میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، تربیت کی ذمہ داری والدہ نے سنبھالی اور تنگ دستی کے باوجود اپنے بچوں کو عالم بنایا، مولانا کے والد جامعہ دار السلام عمرآباد میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے اور ان کا شمار میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ کے نامور شاگردوں میں ہوتا تھا، مولانا کی ابتدائی تعلیم ناظرہ قرآن تک کی گھر پر ہوئی، حفظ قرآن کے لئے مولانا قاری عبد اللہ عمری کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کی ، پھر جلد ہی دار العلوم پرنامیٹ منتقل ہوگئے اور حفظ قرآن کی تکمیل مولانا محمود الحسن سے ہوئی، ۱۹۵۳ئ؁ میں جامعہ دارالسلام عمرآباد میں عربی کے ابتدائی درجہ میں داخل ہوئے، ۲۹؍جنوری۱۹۶۱ئ؁ کومروجہ ومتداولہ نصاب کی تکمیل کرکے سندفراغ حاصل کیا یہاں کی سند مولوی فاضل کے نام سے متعارف ہے، یہاں مولانا نے علامہ شاکر اعظمی، مولانا عبد الواحد عمری رحمانی، مولانا عبد السبحان، مولانا سید امین عمری اور مولانا ابو البیان حماد عمری سے کسب فیض کیا، مدراس یونیورسیٹی سے افضل العلماء کی سند بھی حاصل کی، نومبر ۱۹۶۱ئ؁ میں کلیۃ الشریعۃ جامعہ اسلامیہ مدینۃ المنورہ میں داخلہ لیا اور یہاں سے بی اے کے مساوی سند ملی، یہاں کے اساتذہ میں شیخ بن باز، شیخ ناصر الدین البانی، شیخ محمد امین شفقیطی، شیخ عبد الحسن بن عباد، حافظ محمد گوندلوی، شیخ عبد الغفار رحمہم اللہ کے اسماء گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔۱۹۶۵ئ؁ میں مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد سہ روزہ مدینہ بجنور میں کچھ دن اور روزنامہ دعوت دہلی میں چند ماہ نائب مدیر کی حیثیت سے کام کیا، پھر مادر علی جامعہ دارالسلام عمرآباد تشریف لے آئے اور ۱۱؍فروری ۱۹۶۶ئ؁ سے جامعہ دارالسلام عمرا ٓباد سے منسلک ہوگئے اور تادم  واپسیں اس ادارہ کی خدمت کرتے رہے، وہ جامعہ کے ترجمان ’’راہ اعتدال‘‘ کے مدیر اعزازی بھی تھے، جامعہ دا رالسلام عمر آباد سے متعلق رہنے کے درمیان آپ نے نائجریا اور ملیشیا کا بھی سفر کیا اور کم وبیش آٹھ سال ۱۹۷۶ سے ۱۹۷۸ء تک نائیجیریا اور ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۶ء تک ملیشیا میں قیام پذیر رہے، اور وہاں درس وتدیس وعظ وتذکیر کے فرائض انجام دیے۔
 مولانا کو اللہ تعالیٰ نے تصنیف وتالیف کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا، آپ کی تصنیفات میں متاع قرآن ، فکری یلغار، میری زندگی کا حاصل، اسلام میں اختلاف کے آداب، ارض حرم میں پہلا قدم (سفر نامہ حج وعمرہ) اور خطبات کا مجموعہ صدائے دل مشہور ومعروف ہیں۔
 میری ان سے برسوں پہلے اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار منعقدہ جامعہ دار السلام عمر آباد میں ملاقات ہوئی تھی ، وہ انتہائی چاق وچوبند اور مثالی قسم کے انسان تھے، ظاہری شکل وصورت او روضع وقطع متاثر کن نہیں تھی، لیکن جب زبان کھولتے اورقلم چلتا تو علم کا سمندر ابلتا، وہ اپنے مسلک پر عامل ہوتے بھی دوسرے مسالک کی قدر کرتے اور ان کے واجبی اکرام واحترام میں کمی نہیں آنے دیتے، ان کی فکر انتہائی معتدل تھی اس اعتدال کی ترویج واشاعت کو انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا، شاید اسی لیے جامعہ کے ترجمان کا نام ’’راہ اعتدال‘‘ رکھا گیا تھا، اس سفر میں میری ملاقات مولانا ابو البیان حماد ساحب سے بھی ہوئی تھی ، انہوں نے راہ اعتدال کے کئی شمارے میرے حوالہ کیا تھا ، میں ا ن دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں تھا،جو انی کا جوش تھا اس لیے فکر میں اعتدال کی کمی تھی ، جن فرقوں کو صراط مستقیم سے ہٹاپاتا تو اس کے خلاف بولتا اور لکھتا بھی، بلکہ ایک انجمن تھی جس میں ویشالی ضلع کے بڑے علماء فرقۂ ضالہ منحرفہ پر اپنی تحقیقات پیش کرتے، کئی مقالے جن کو میں نے امارت شرعیہ آنے کے بعد اپنی فہرست سے نکال دیا ہے،اسی زمانہ میں لکھے گیے، ایسے میں راہ اعتدال کے شماروں سے فکر کو معتدل کرنے اور جارحانہ لب ولہجہ کے بجائے سنجیدہ اسلوب اختیار کرنے میں بڑی مدد ملی، پھر جب امارت شرعیہ آگیا تو یہاں اس کا کوئی موقع ہی نہیں تھا، یہاں کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کی دعوت دی جاتی ہے اس لیے مسلک اور فرقوں پر گفتگو کا سلسلہ ہی بند ہو گیا، لیکن فکری اعتدال پیدا کرنے میں راہ اعتدال نے اپنا کردار ادا کیا، مولانا حفیظ الرحمن صاحب جیسا کہ پہلے مذکور ہوا، اس رسالہ کے مدیر اعزازی تھے۔
 مولانا کی ذات میں تواضع وانکساری بدرجہ اتم تھی، جامعہ میں بڑے عہدے پر فائز تھے، علم پختہ تھا، جس میں گہرائی بھی تھی اور گیرائی بھی ، نظامت سے وابستہ تھے، اس لیے مختلف مزاج کارکنوں سے ہر روز واسطہ پڑتا تھا، جنہیں برتنا اور ڈیل کرنا آسان کام نہیں ہوتا ، لیکن مولانا کا مزاج ایسا تھا کہ سب کو برت لیتے اور ان کی ضروریات کی تکمیل کرتے ، ضرورت پڑنے پر داروگیر اور تنبیہ سے بھی بازنہیں آتے، لیکن اندازہر حال میں مشفقانہ ہی رہتا، اس لیے لوگ ان کی قدر کرتے تھے، او راعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ان سے بات کرتے اوراپنی بات رکھتے ججھک نہیں محسوس کرتے تھے۔
 مولانا ہمارے درمیان نہیں رہے ، ان کے ہزاروں شاگرد اور ان کی تصنیف کردہ کتابیں ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، عالم برزخ میں انہیں ان کی نیکیوں کا صلہ مل رہا ہوگا اور اللہ رب العزت نے ان کے سیات سے در گذر کرکے فرشتوں کے ذریعہ ’’نم کنومۃ العروس‘‘کا مزدہ سنا دیا ہوگا اور وادخلی جنتی سن کر زندگی بھر کی تکان دور ہو گئی ہوگی۔

یوپی میں نماز جمعہ کے پیش نظر سخت حفاظتی انتظامات ، کانپور اور لکھنؤ میں دفعہ 144 نافذ

یوپی میں نماز جمعہ کے پیش نظر سخت حفاظتی انتظامات ، کانپور اور لکھنؤ میں دفعہ 144 نافذ

اترپردیش کے ضلع کانپور میں گزشتہ 3 جون کو دو گروپوں کے درمیان ہوئی پرتشدد جھڑپوں کے بعد پولیس نے سیکورٹی کے پیش نظر جمعرات کی دیر شام کو شہر میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت حکم امتناعی نافذ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ راجدھانی لکھنؤ میں بھی حکم امتناعی نافذ کیا گیا ہے اور ریاست بھر میں چوکسی برتی جائے گی۔

کانپور کے جوائنٹ پولیس کمشنر آنند پرکاش تیواری نے یہ جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ شہر میں حکم امتنازعی نافذ کئے جانے کے بعد پولیس کی ٹیمیں ہائی الرٹ پر رہیں گی۔ تیواری نے بتایا کہ آئندہ جمعہ اور امتحانات کو دیکھتے ہوئے شہر میں دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کے لیڈروں کے متنازع بیان کے مسئلے پر گزشتہ ہفتے بیکن گنج علاقے میں جمعہ کی نماز کے بعد دو گروپوں کے درمیان تشدد پھوٹ پڑا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کرنے کے بعد نظم و نسق بنائے رکھنے کے لئے اس دفعہ کی سبھی شرطوں کو سختی سے نافذ کیا جائے گا۔ کانپور میں پی اے سی کی 12 کمپنیوں، تین اضافی آئی پی ایس افسران اور ریپڈ ایکشن فورس کی دو کمپنیوں کی تعیناتی کے ساتھ سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔

یو پی کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (اے ڈی جی ) لا اینڈ آرڈر پرشانت کمار نے کہا کہ حساس علاقوں اور عبادت گاہوں میں پولیس کو حکمت عملی کے ساتھ تعینات کیا گیا ہے۔ پرشانت کمار نے کہا کہ پولیس افسران امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے علما اور گروپ کے دیگر رہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔

اے ڈی جی نے کہا کہ فیروز آباد، شاملی، سہارنپور، مراد آباد، آگرہ، ایودھیا، وارانسی، گورکھپور، کانپور اور لکھنؤ سمیت حساس اضلاع میں خصوصی تعیناتی کی گئی ہے۔ اے ڈی جی نے کہا کہ پراونشل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کی 12 کمپنیاں پہلے ہی کانپور میں کیمپ کر رہی ہیں، جب کہ کچھ کمپنیوں کو حساس اضلاع میں بھیجا گیا ہے۔

ادھر، کانپور تشددمعاملے میں متعدد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق گرفتار حیات کے خلاف درج پرانے کچھ مقدمامت کے چارج شیٹ سے اس کا نام ہٹائے جانے کے معاملے کی جانچ کرنے اور متعلقہ پولیس افسران کے خلاف محکمہ جاتی کاروائی کا حکم دیا گیا ہے۔

مانا جاتا ہے کہ حیات ظفر کے خلاف کئی سال پہلے سے چل رہے مجرمانہ معاملوں میں جانچ افسران نے لیپا پوتی کر اس کا نا چارج شیٹ سے ہٹا دیا تھا۔ اس درمیان کانپور تشدد کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ ڈالنے والے ایک شخص کو پولیس نے جمعرات کو گرفتار کیا ہے۔

پولیس نے ویب میڈیا سے وابستہ ایک شخص کو سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ کانپور مغربی علاقے کے پولیس کمشنر بی بی جی ٹی ایس مورتی نے بتایا کہ شہری کے شاستری نگری علاقہ باشندہ گورو راجپوت کو گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ کانپور اسٹارٹ ٹائم نام سے ایک ویب پورٹل چلاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گورو نے اپنی فیس بک پوسٹ پر ایک مخصوص مذہب کے سلسلے میں قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔ اس کی جانکاری ملتے ہی پولیس نے اس کے خلا ف مذہبی جذبات مبینہ بھڑکانے کا مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کرلیا۔ پولیس نے قابل اعتراض پوسٹ بھی ڈلیٹ کرا دی ہے۔

مورتی نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ شہر میں قیام امن و امان میں اپنا تعاون پیش کریں۔ انٹر نیٹ میڈیا پر کسی بھی قسم کا قابل اعتراض ویڈیو یا پوسٹ نہ ڈالیں جس سے شہر کا ماحول خراب ہو۔

یوپی کے گاؤں میں مسلم فقیروں سے مار پیٹ سادھو کے کپڑے پہنتے ہیں لیکن اس پیسے سے بریانی کھائیں گے '

یوپی کے گاؤں میں مسلم فقیروں سے مار پیٹ سادھو کے کپڑے پہنتے ہیں لیکن اس پیسے سے بریانی کھائیں گے 'گونڈا: اتر پردیش کے گونڈا ضلع کے ایک گاؤں کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، جس میں کچھ مقامی لوگ بھیک مانگنے والے تین مسلم فقیروں کو گالیاں دیتے اور پریشان کرتے نظر آ رہے ہیں۔ آئی اے این ایس کی خبر کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔گونڈا علاقہ کے گاؤں دیگور میں موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکے بھیک مانگنے والے تین افراد کا تعاقب کر رہے ہیں، انہیں مذہبی شناخت کی گالیاں دے رہے ہیں اور نازیبا تبصرے کر رہے ہیں۔ویڈیو میں ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے ''وہ سادھوؤں کے کپڑے پہنتے ہیں لیکن اس پیسے سے بریانی کھائیں گے۔''دریں اثنا، ایک لاٹھی سے لیس نوجوان نے ان لوگوں کو گھیر لیا اور ان سے شناختی کارڈ کا مطالبہ کرنے لگا۔ یہ سن کر کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے، وہ انہیں جہادی اور دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ ایک شخص مداخلت کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے یہ شرپسند دھکا دے دیتے ہیں۔پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس عہدیداروں کو معاملہ سے آگاہ کرا دیا گیا ہے اور ویڈیو میں نظر آ رہے ملزمین کی شناخت کرنے کے لئے کارروائی کی جا رہی ہے۔بعد میں پولیس نے اس معاملہ میں ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملہ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے اور ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

جمعرات, جون 09, 2022

ممتا بنرجی نوپور کے بیان سے برہم ، کہا ۔ فوری گرفتار کریں

ممتا بنرجی نوپور کے بیان سے برہم ، کہا ۔ فوری گرفتار کریں

بھارتیہ جنتا پارٹی کی معطل رہنما نوپور شرما کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خلاف کیے گئے ریمارکس کے معاملے پر اب سیاست تیز ہو گئی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ٹویٹ کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی پر حملہ کیا ہے۔ ممتا نے ترتیب وار تین ٹویٹس کیں۔ پہلے ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ میں بی جے پی کے کچھ تباہ کن لیڈروں کی طرف سے کئے گئے تضحیک آمیز ریمارکس کی مذمت کرتی ہوں، جس کے نتیجے میں نہ صرف تشدد پھیلا بلکہ ملک کے تانے بانے کی تقسیم کا باعث بنی، جس نے امن اور ہم آہنگی کو بگاڑ دیا۔

ایک اور ٹویٹ میں ممتا نے لکھا کہ میں مطالبہ کرتی ہوں کہ بی جے پی کے ملزم لیڈروں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے تاکہ ملک کا اتحاد درہم برہم نہ ہو اور لوگوں کو ذہنی اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے ساتھ ہی، میں تمام ذاتوں، عقیدوں، مذاہب اور برادریوں کے اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں سے عام لوگوں کے وسیع تر مفاد میں امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔ ہم اس اشتعال انگیزی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

وہیں شیوسینا لیڈر سنجے راوت نے بھی اس معاملے پر بیان دے کر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، لیکن بی جے پی کے ترجمان دو مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان لڑائی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ملک میں کچھ ہوتا ہے تو بی جے پی ذمہ دار ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم اپنا کام جاری رکھیں گے.

بھوجپور میں شادی میں فائرنگ ، رقاصہ کو لگی گولی

بھوجپور میں شادی میں فائرنگ ، رقاصہ کو لگی گولیبھوجپور، 9 جون۔ بھوجپور میں بارات میں رقص کررہی رقاصہ کو گولی لگ گئی۔ گولی اس کے داہنے جانگھ کی ہڈی توڑتے ہوئے پھنس گئی۔ اسے علاج کے لیے نجی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ معاملہ ضلع کے کوئلوار تھانہ علاقے کے باغ منجھووا گاو?ں کا ہے۔ جہاں بارات میں رقص کے دوران فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ کے دوران اسٹیج پر بیٹھی ایک رقاصہ کو گولی لگ گئی۔ اس واقعے میں وہ شدید طور سے زخمی ہو گئی۔وہیں لوگوں کے درمیان افرا تفری مچ گئی۔ رقاصہ نے کہا۔ شادی میں کئی راو?نڈ فائرنگ زخمی رقاصہ ہریانہ کے انکھیر تھانہ علاقے کے فرید ا?باد سیکٹر 21 سی رہائشی راجو سین کی 23 سالہ بیٹی سونم سین ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے رقاصہ ہے اور شادی اور دیگر پارٹیوں میں پرفارم کرتی ہے۔ ادھر رقاصہ سونم سین نے بتایا کہ باغ کوئلوار تھانہ علاقہ کے منجھوا گاو?ں میں واقع بارات میں اسٹیج شو کرنے گئی تھی۔ جب وہ اسٹیج پر بیٹھی تھی اور اس کے دوسرے ساتھی اسٹیج پر رقص کر رہی تھیں۔ پھر اچانک ایک نوجوان نے فائرنگ کر دی۔ جس میں اسے گولی لگ گئی۔ حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ گولی کس نے چلائی۔ دوسری جانب زخمی رقاصہ سونم سین نے بھی بارات میں رقص کے دوران کچھ نوجوانوں کی جانب سے کئی راو?نڈ فائر کرنے کی بات کی ہے۔ وہیں واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مقامی تھانے کی پولیس نے موقع پر پہنچ کر معاملے کی جانچ شروع کردی۔ جانگھ میں لگی ہے گولی : ڈاکٹر وہیں سرجن ڈاکٹر وکاس سنگھ نے بتایا کہ گولی لگنے کے بعد ایک رقاصہ کو داخل کرایا گیا ہے۔ اسے دائیں پیر میں جانگھ پر گولی لگی ہے۔ گولی لگنے کی وجہ سیاس کے جانگھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور خون بھی کافی بہہ گیا ہے۔ ابھی اس کے جانگھ پر سلیب لگا دیا گیا ہیاور خون کو بند کر دیاگیا ہے۔ جب اس کا بی پی اورپلس دووں نارمل ہوجائے گا تب اس کا ا?پریشن کیا جائے گا اور گولی کو نکالا جائے گا۔

پانی ایک بڑی نعمت تحریر: مشتاق احمد قاسمی گنگولوی

پانی ایک بڑی نعمت 
تحریر: مشتاق احمد قاسمی گنگولوی
9709987826/7352124522
پانی اللہ کی بہت بڑی نعمتوں میں سے ایک  نعمت ہے,پانی کی قدر و قیمت کا اندازہ اسے ہوتاہے جہاں اس کی قلت ہے اور اس کے حصول کے لیےدقت و پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے, دانا کھاءے بنا انسان چند دن برداشت کرلے گا مگر پانی (پیاس) کے بغیر آدمی کی جان چلی جاتی ہے / چلی جاءے گی, پانی کی ضرورت ہمیں موقع بموقع پڑتا ہے ,کھیتی باڑی کی سینچائ کے لیے پانی ہی کی ضرورت ہے-
کھانا بنانے,اور سبزیو دیگر کھانے کی چیزوں میں پانی کی ضرورت ہے,انسان جب عبادت کی تیاری کرتاہے تو اسے پاک و صفائ کے ساتھ حکم ہے کہ بارگاہ ایزدی میں حاضر ہو,ہاں شرعی مجبوری میں پانی نہ استعمال کرنے کی اجازت ہے,یعنی تیمم کرلے (تیمم کے مساءل الگ ہے جو بضرورت علماء کرام سے معلوم کریں )-رسول علیہ السلام نے فرمایا : سب سے بہترین صدقہ پانی (پلانا) ہے-(مسند ابی یعلی). آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جامع بات میں وسیع تر مفہوم پنہاں ہے یہی میری تحریر کاسبب بھی بنا کہ اس پر اپنے قلم کو جنبش دوں- صدقۂ جاریہ کی ایک اہم طریقہ کنواں کھودوانا ( پانی کا انتظام کرنا جسے ہر جاندار فاءدہ حاصل کرسکے) بھی شامل ہے,روایت میں آتاہے کہ" ایک آدمی نے رسول اللہ صلعم سے پوچھا ,اے اللہ کے رسول ص " ہم سمندری سفر کعتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا بہت پانی لے کر جاتے ہیں اب اگر ہم اس سے وضو کریں تو ہم پیاسے رہیں گے تو کیا ہم سمندری پانی سے وضو کرلیا کریں ؟ رسول اللہ صلعم نے فرمایا" سمندر کا پانی پاک اور پاک کرنے والا ہوتا ہے اور اس کا مرنے والا جانور حلال" (سنن نسائ: 333)-#
شریعت نے وضو اور غسل کے لیے کوئ خاص مقدار نہیں فرمائ بلکہ شرعی حدود میں رہتے ہوءے وضو اور غسل میں کے لیے جس قدر بھی پانی کافی ہوجاءے اس کا استعمال کافی ہے- رسول اللہ ص وضو کے لیے عموما ایک مد(796.067 گرام) اور غسل کے لیے ایک صاع (3.184272 کلوگرام) پانی استعمال کرتے تھے,اس مقدار سے متعلق دقہاءے امت فرماتے ہیں کہ یہ کوئ ایسی مقدار مقرر نہیں کہ صرف اسی پر عمل لازم ہو--پانی جہاں فاءدہ مند ہے وہیں اس کے نقصانات سے بھی انکار نہیں کرسکتے,جیسے زیادہ بارش کی صورت میں ہر سال پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں دیکھنے / سننے کو ملتا ہے کہ بارش اور سیلاب نے اتنی تباہی مچادی اور لاکھوں کروڑوں کا نقصان ہوا,حکومت اور فلاحی تنظیمیں اس نقصان کی تلافی کے لیے کوششیں کرتی ہیں- 
بارش نہ ہونے کی صورت میں مخلوق خدا پریشان ,اہل ایمان باران رحمت کے لیے دوگانہ نماز ادا کے اپنے رب سے گناہوں کی معافی اور فریاد کرتا ہے کہ اللہ بارش برساءے,
روءے زمین پر بہتری پانی آب زمزم ہے ( آب زمزم' کے ظہور کی ایک تاریخ ہے ,یعنی اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں کے ذریعہ معجزہ کا ظاہر ہونا اور ماں ہاجرہ کی تڑپ و محبت 'کہ بیٹے اسماعیل کی پیاس کیسے بجھے ؟؟)یہ کھانے والے کے لیے کھانا اور بیمار کے لیے شفاء ہے-(پانچ منٹ کامدرسہ ص 624/ معجم الاوسط للطبرانی)---
اللہ پانی کے قدر کرنے کی ہم سب کوتوفیق بخشے آمین

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی میری نظر میںمحمدامام الدین ندوی مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی میری نظر میں

محمدامام الدین ندوی 
مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی 
9801805853

: مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی حفظہ اللہ حلقۂ اہل علم ودانش میں محتاج تعارف نہیں۔آپ کا شمار قدآور علماء میں ہوتا ہے۔بہار کے مرکزی ادارہ امارت شرعیہ کے آپ نائب ناظم اور وفاق المدارس کے ناظم ہیں۔مختلف دینی و ملی تنظیم کے روح رواں،اور مختلف مدارس کےسرپرست ہیں۔ہفتہ روزہ امارت شرعیہ کا ترجمان "نقیب" کے مدیر (ایڈیٹر) ہیں۔ 
       مفتی صاحب مدظلہ العالی   صلاحیت وصالحیت کے جامع ہیں۔اللہ تعالٰی نے زبان وبیان پر قدرت دی ہے۔قلم کی دنیاں میں بھی آپ کا قد بڑا ہے۔انداز تحریر شگفتہ پھول کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے۔تحریر میں جاذبیت اور شہد سی مٹھاس ٹپکتی نظر آتی ہے۔جس عنوان پر آپ کا قلم اٹھتا ہے بلا افراط وتفریط جامۂ جامعیت میں ملبوس نظر آتاہے۔وفیات پر قلم چلتا ہے تو شخص مذکورکےمراتب کا بھرپور خیال ہوتا ہے۔اس شخص کی پوری تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔مفتی صاحب مدظلہ العالی کی تحریر میں گرانی نہیں ہوتی ہے ۔حشووزائد سے پاک چند جملوں میں پوری بات کہ دی جاتی ہے۔آپ قلم کے اچھے شہشوار ہیں۔
        آپ اچھے ادیب بھی ہیں۔سوانح نگار بھی ہیں۔انشاء پرداز بھی ہیں۔یہ الگ بات  ہے کہ کوئی ادیب" مولوی" کو ادیب ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہےجبکہ ایک مولوی باادب "ادیب ہوتاہے۔آپ نے تھوڑی بہت شاعری بھی کی ہے۔جب سے"ہفتہ روزہ نقیب" کے اداریہ کی ذمہ داری آپ  کے دوش ناتواں پر ڈالی گئی ہے "نقیب"میں نئی روح،اور جامعیت پیدا ہوگئی ہے۔
       مفتی صاحب مدظلہ العالی درجنوں کتاب کے مصنف،مؤلف ومترجم ہیں۔آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ اسی سیاحت وصحرہ نوردی میں گذر رہی ہے۔
     مفتی صاحب کی زندگی جہد مسلسل،یقیں محکم،عمل پیہم،سے عبارت ہے۔ دل دردمند کےحامل ہیں۔دور اندیش اور نبض شناش ہیں۔حالات کو بھانپتے کا ملکہ اللہ نے عطا کیاہے۔نرمی آپ کی خمیر میں ہے۔خندہ جبیں آپ کا امتیازی شان ہے۔آپ کی نگاہ میں ہر چھوٹوں کے لئے شفقت پدری،اور ہر بڑوں کے لئےتکریم ہے۔  
            مفتی صاحب اپنے آپ میں ایک انجمن ہیں۔آپ بافیض مدرس بھی رہ چکے ہیں۔آپ کا طریقۂ تدریس انوکھا اور نرالا رہا ہے۔آپ کے درجۂ حفظ کے بعض شاگردوں نے کہا کہ مفتی صاحب سے جتنا حفظ کیا وہ پختہ ہے۔اور وجہ بتائی کہ مفتی صاحب سبق کے ساتھ ہی سبقا پارہ سنتے تھے۔یہ طریقہ ان دنوں عموما مفقود ہے۔مفتی صاحب مشفق استاد بھی رہے اس کا تذکرہ مولانا اظہار الحق قاسمی رحمۃ اللہ علیہ حسن پور وسطی مہوا ویشالی بارہا اپنی مجلس میں کیا کرتے تھے۔ مدرسہ اسلامیہ دارالعلوم بربٹہ سمستی پورمیں بھی آپ نے تدریسی خدمات انجام دی۔وہاں  کے بعض شاگردوں کا بھی بیان ہے کہ مفتی صاحب نے جو پڑھایا آج بھی یاد ہے۔
    مفتی صاحب اصول پسند ہیں۔آپ کی زندگی روزنامچے کے تحت گزرتی ہے۔ہر کام کے لئے وقت متعین ہے۔اتنی مشغول،اور بھاگ دوڑ کی زندگی میں بھی پڑھنے لکھنے کے معمول میں فرق نہیں پڑتاہے۔یہ غیرمعمولی بات ہے۔
    مفتی صاحب جہاں بھی گئے تواپنےلئے اس شعبے کو چنا جسے لوگ جلدی لینا پسند نہیں کرتے ہیں یا قہراوجبرا لیتے ہیں۔اس ذمے داری کو سنبھالنے کے بعد اسے نبھانے اور اس پر کھڑا اترنے کی آپ پوری کوشش کرتےہیں۔ اور اسے بام عروج عطا کرتےہیں۔مفتی صاحب عزم میں پختہ ہیں۔آپ نےجس کام میں ہاتھ ڈالا اسے  پوری لگن، دلچسپی،اورخوش اسلوبی سے پایۂ تکمیل کو پہوچایا۔
احساس ذمہ داری مفتی صاحب کے اندر بہ درجہ اتم موجود ہے۔یہی احساس انسان کو بڑابناتاہے۔ارو ارتقائی منزلیں عطا کرتا ہے۔یہی انسانوں کو معتمد بناتاہے۔
       مفتی صاحب سادگی پسند ہیں۔سادہ زندگی گزارتے ہیں۔آمدورفت میں جو سواری میسر ہوئی استعمال کرلیا۔دیگر علماء کی طرح نزاکت پسند نہیں ہیں۔صبروشکر کا جذبہ رکھتے ہیں۔اس لئے جو ملا کھا لیا اور پہن لیا۔
      مفتی صاحب نہ تو احساس کمتری کے شکار رہے اور نہ ہی احساس برتری،کے۔بلکہ میانہ روی آپ کا شیوہ رہا ہے۔ دین کی تبلیغ،امت کی فکر،آپ کا نصب العین ہے۔پچھلے چند ماہ بیمار رہے۔تیمار داروں کا تانتا لگارہا۔اس میں بھی ملک وملت کی فکر ان کی بیماری پر غالب نظر آئی۔امت کے درد کے آگے اپنا درد بھول گئے اور بلا مبالغہ تقریبا ڈیڑھ گھنٹے اسی پر گفتگو کی۔کرونا کی وجہ سےطلبہ کی تعلیم پر جو برے اثرات مرتب ہوئے اس پر بھی تشویش ظاہر کی۔ اس مہاماری میں بہت سے طلبہ نے تعلیمی سفر موقوف کردیا اور کام کاج میں لگ گئے اس پر اپنےگہرے رنج وافسوس کا اظہار کیا۔عجب بات یہ لگی کہ اس حالت میں بھی ان کے معمول میں فرق نہیں آیا۔
         آپ نے مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں  بھی خدمت کی۔اور مدرسہ کو ہر طرح سے عروج بخشا۔
     اخلاص آپ کا زیور ہے۔وفا آپ کا شیوہ ہے۔دوسروں کی تکلیف سے پریشان ہونا آپ کی فطرت ہے۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ان شاءاللہ کبھی اس پر گفتگو ہوگی۔
      مفتی صاحب نے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ و امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت پائی۔دونوں بزرگوں سےکسب فیض کیا۔دونوں بزرگوں کادست شفقت آپ کر سرپےرہا۔نیزدونوں بزرگوں کو آپ پر اعتماد تھا۔امارت شرعیہ میں آپ کا بڑامقام ہے۔
       مفتی صاحب نے افکار امارت،ونظریات اکابر امارت(اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھردے)کو ملک و بیرون ملک میں پیش کیاہے۔۔ادارہ چھوٹا ہویا بڑااس کو چلانے کے لئے" مالیات" ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔اس کا صحیح اندازہ اسے ہےجو کسی ادارہ سے منسلک ہیں۔آپ  امارت شرعیہ کی مالی استحکام کے لئے بیرون ملک کابھی دورہ کرتے ہیں۔اس سے امارت کو غیر معمولی فائدہ ہوتا ہے۔
    اعلی ظرفی اورخودداری میں  بھی آپ ید طولی رکھتے۔
      مفتی صاحب کی شخصیت سازی میں جہاں اساتذہ کرام کی توجہ کار فرما رہی وہیں ان کی ذاتی لگن ومحنت،غیرمعمولی جدوجہد،اور سعادت مندی،والدین اور بڑے بھائی کی دعائیں،اہلیہ کی غیرمعمولی قربانی شامل ہے۔
      آپ کے اندر وسعت بھی ہے، گہرائی بھی ہے،اور خاموش مزاجی بھی ہے۔شاید "کیف" نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا
"کیف پیدا کر سمندر کی طرح
وسعتیں،گہرائیاں،خاموشیاں"
      مفتی صاحب ایک سایہ دار وپھل دار درخت ہیں۔جو،جب،جیسے
چاہے اس سایہ دار وپھل دار درخت سے مستفید ہوسکتا ہے۔اللہ تعالٰی  اس درخت کو بارآور اورسرسبزوشاداب بنائے۔آمین
(نوٹ۔ یہ میرے  ذاتی تآثرات ہیں۔)
 ۲/ذی قعدہ ۱۴۴۳ھ 
۳/مئ ۲۰۲۲ء

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...