Powered By Blogger

ہفتہ, جون 11, 2022

رانچی : Protest Against Nupur Sharma احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین میں میں جھڑپ ، ایک شخص ہلاک

رانچی : Protest Against Nupur Sharma احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین میں میں جھڑپ ، ایک شخص ہلاک

رانچی کی مرکزی سڑک پر جمعہ کی نماز کے بعد لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نوپور شرما کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ Protest Against Nupur Sharma

جھارکھنڈ: رانچی کی مرکزی سڑک پر نماز کے بعد لوگوں نے شدید احتجاج کیا۔ مظاہرین نوپور شرما کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں سیاہ پٹی اور مذہبی جھنڈا لیے ڈیلی مارکیٹ کے سامنے البرٹ ایکا چوک کی طرف احتجاج کیا۔ Protest Against Nupur Sharma

رانچی میں احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ، کرفیو نافذ

اس دوران ڈیلی مارکیٹ کے قریب پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ ہوئی، جس کے بعد مشتعل ہجوم نے پتھراؤ شروع کردیا۔ وہیں پولیس حالات کو قابو کرنے میں مصروف ہے۔ فی الحال سجاتا چوک اور اقرا مسجد کے قریب بیریکیڈنگ کی گئی ہے۔ ٹریفک کا رخ موڑ دیا گیا ہے۔ پورے علاقے میں بڑی تعداد میں آئی آر بی، جے اے پی اور ضلع پولیس کو تعینات کیا گیا ہے۔

احتجاج کے دوران جھڑپ کے بعد پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ اس فائرنگ میں ایک شخص کی موت ہوگئی ہے۔ وہیں ڈیلی مارکیٹ کے اسٹیشن انچارج اودھیش ٹھاکر کے سر میں چوٹ آئی ہے۔ ایس ایس پی رانچی سریندر کمار جھا کے سر پر بھی چوٹ آئی ہے۔ ساتھ ہی اس جھڑپ میں کئی پولیس اہلکار زخمی بتائے گئے، جنہیں ریمس RIMS میں داخل کرایا گیا۔

بہار کے پورنیہ میں سڑک حادثہ 9کی موت

بہار کے پورنیہ میں سڑک حادثہ 9کی موت

پٹنہ ، 11 جون (اردو دنیا نیوز۷۲)۔ بہار کے پورنیہ ضلع کے بائیسی سب ڈویزن کے انگڑھ او پی کے کنجیا پرائمری اسکول کے قریب جمعہ کی دیر رات ڈیڑھ بجے سڑک حادثے میں نو لوگوں کی موت ہوگئی ۔ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ تلک تقریب تارا باڑی سے واپس اپنے گاؤں کشن گنج کے نونیا لوٹ رہے تھے۔

راستے میں ان لوگوں کی اسکارپیو پانی سے بھرے گڑھے میں الٹ گئی۔ اس حادثے میں 8 افراد کی موقع پر ہی موت ہو گئی ۔ جبکہ ایک دیگر کا علاج کے دوران موت ہوگی ۔اسکارپیو میں کل 11 لوگ سوار تھے ۔ حادثے میں جان گنوانے والوں میں سبھی آپس میں رشتہ دار تھے۔

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات ___

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات ___
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 اردو دنیا نیوز۷۲
  ہمارے عہد میں حضرت مولانا مفتی ثمین اشرف قاسمی صاحب کا شمار’’ موفق من اللہ‘‘ لوگوں میں ہوتا ہے، ان کی صلاحیت وصالحیت، زہد وورع، تقریر وتحریر، خلوص وللہیت ، تقویٰ اور طہارت کی ایک دنیا قائل ہے، ان کی انہیں صلاحیتوں کی وجہ سے حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب ؒ حضرت مولانا قمر الزماں الٰہ آبادی اور حضرت مولانا پیر ذو الفقار احمد صاحب نقشبندی  مد فیوضہم سے انہیں خلافت حاصل ہے، میں نے مصلی الحتبور بردبئی میں ان کی تقریریں سنی ہیں اور بار ہا ان سے استفادہ کیا ہے، خرد نوازی کے طور پر انہوں نے اپنی بعض کتابوں پر تقریظ بھی لکھوائی ہے، محبت بانٹتے ہیں، محبت کرتے ہیں او رسراپا محبت ہیں، پہلی خلافت ان کو حکیم اختر صاحب سے ملی ہے اس لیے یہ رنگ ان پر غالب ہے ، لوگ ان کی طرف ان کی نرم دلی اور بے پناہ محبت کی وجہ سے کھینچے چلے آتے ہیں، میں نے ان کی محبت میں لوگوں کو گرفتار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ جو گرفتار ہو گیا پھر نکل نہیں پاتا ہے، انہوں نے مسجد غریر دبئی میں زمانہ تک درس حدیث بھی دینے کا کام کیا ہے۔
 ان کی کتابیں جو اہل علم کے نزدیک مقبول ومتعارف ہیں، ان میں دیدار الٰہی کا شوق، حق جل مجدہ کی باتیں (الاحادیث القدسیہ کی شرح) معارف قدسیہ، تجلیات قدسیہ، وصایا انبیاؤاولیائ، کیمیائے درویشاں، اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، علامات سعادت، عقیدہ ختم نبوت، لا حول ولا قوۃالا باللہ، احادیث عقیدہ ختم نبوت ، علامات قیامت، سچے اور جھوٹے نبی میں فرق، سچے اور جھوٹے مسیح میں فرق، امام مہدی احادیث کی روشنی میں ، ایصال ثواب کا مسنون طریقہ ، تلاوت کلام اللہ سے قبل استعاذہ کی حکمتیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
مفتی صاحب کی سلسلہ ٔ تحفظ ختم نبوت کی چھٹی کتاب ’’رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بر زخی حیات‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے، اس موضوع پر یہ کوئی پہلی کتاب نہیں ہے، ساٹھ سے زائد کتابیں اس موضوع پر عربی اور اردو میں مبطوعہ شکل میں موجود ہیں،جن میں ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب سابق ڈائرکٹر اسلامک اکیڈمی مانچیسٹر یوکے کی اردو تصنیف ’’مدارک الاذکیافی حیاۃ الانبیاء علیہم السلام‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے، سات سو برانوے (۷۹۲) صفحات پر مشتمل یہ کتاب اکابر علمائ، دیو بند کی ظر میں انتہائی معتبر ہے۔
 حضرت مفتی صاحب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بر زخی زندگی پر روشنی ڈالی ہے، مفتی صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں موضوع کے مالہ وما علیہ اور جزئیات پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بحث کی اس کتاب میں ضرورت نہیں تھی، لیکن غور کی نظر اس کے فوائد کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ بحث نہیں کی جاتی تو موضوع تشنہ رہ جاتا، مفتی صاحب نے اس موضوع پر کم وبیش دو سو اکہتر ذیلی عنوانات کے تحت روشنی ڈالی ہے، اور مدلل گفتگو سے موضوع کو ثابت کیا ہے، حالاں کہ بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم’’یہ ایک نازک اور مشکل موضوع ہے اور اس کی تشریح وتوضیح میں کسی قدر اہل سنت والجماعت کا اختلاف رہا ہے، متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن کے مطابق ’’آپ(مفتی صاحب ) نے اس اجماعی عقیدہ کو دلائل کے ساتھ بیان فرماکر اہل سنت والجماعت کے موقف کی ترجمانی فرمائی ہے‘‘۔
مفتی محمد عارف باللہ القاسمی نے لکھا ہے کہ ’’ انبیاء علہم السلام کی بر زخی حیات کے مسئلے کا حق ادا کیا گیا ہے اور دلائل وبراہین کی فراوانی کے ساتھ علمی نکتے اور سینہ بسینہ منتقل ہونے والے اسرار نے اس کتاب کی قدر وقیمت کو مزید بڑھا دیا ہے‘‘۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے اور نصوص میں اس کی نبیادیں موجود ہیں، کیوں کہ شہداء کو قران میں زندہ کہا گیا ہے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم ان کی زندگی کو نہیں سمجھ سکتے، ظاہر ہے انبیاء کرام کی برزخی حیات شہداء کی بہ نسبت اقوی واعلیٰ ہے، البتہ اس کو دنیاوی حالات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ نے فتاویٰ محمودیہ میں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’برزخ کے حالات کو مشاہدہ کے حالات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، قیاس الغائب علی الشاہد نا جائز ہے، کم از کم دو سو جگہ اس کو امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے۔(فتاویٰ محمودیہ ۳؍ ۹۷)
اس سلسلہ میں استدلال ان احادیث سے بھی کیاجاتا ہے، جس میں مذکورہے کہ زمین پر انبیاء کے اجسام کا کھا نا حرام قرار دیا گیا ہے اور یہ کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، اور وہ نماز پڑھتے ہیں۔ ان اﷲ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیائ- الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون۔ اس کے علاوہ انبیاء کی میراث تقسیم نہیں ہوتی، کیوںکہ ان کی بر زخی زندگی عام انسانوں سے الگ ہوتی ہے ، اس طرح ازواج مطہرات سے دوسرا کوئی نکاح نہیں کرسکتا، اگر عام انسانوں کی طرح ان کی برزخی زندگی ہوتی تو ترکہ بھی تقسیم ہوتا، اور ازواج مطہرات اگر نبی کے نکاح سے نکل گئی ہوتیں تو نکاح ثانی بھی جائز ہوتا، لیکن ان کو امہات المؤمنین کا درجہ دے کر نکاح ثانی کے لیے ہمیشہ ہمیش کے لیے حرام قرار دے دیا گیا، حضرت مولانا یوسف بنوری ؒ نے اسی بات کو اپنے خاص علمی انداز میں لکھا ہے:
’’عدم نکاح بالازواج المطہرات اور عدم توریث وغیرہ کی علت اصل حیات کو کیا جائے تو درست ہے بہر حال حکم شرعی کی کوئی علت ہی ہوتی ہے اور یہاں تو علت از قبیل العلل المعتبرہ کے ہوگی، نہ کہ علل مرسلہ کی قسم سے اور اس علت کی تنقیح، اصولی تنقیح، الفاظ اور تحقیق المناط سے زیادہ قطعی ہوگی۔ (تسکین الصدور ۲۵)
کتات کا آغاز تقاریظ سے ہوتا ہے، جو حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، مولانا الیاس گھمن ، مولانا مفتی احمد خان پوری، مفتی محمد عارف باللہ قاسمی کے قلم سے ہے، مقدمہ خود مؤلف نے لکھا ہے تفصیلی لکھا ہے اور موضوع کے مختلف گوشوں کی طرف راہنمائی کی ہے، دو سو بہتر صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادارۃ دعوۃ الحق مادھوپور، سلطان پور ڈاکخانہ ٹھاہر وایا رونی سید پور ضلع سیتامڑھی سے حاصل کی جا سکتی ہے، کتاب پر ہدیہ /قیمت درج نہیں ہے، اس لیے اگر اس نمبر پر 7999999869پر فون کر لیں تو مفت بھی حاصل ہو سکتی ہے، کتاب خوبصورت چھپی ہے، جلد خوبصورت اور کاغذ عمدہ ہے، جلی قلم ہونے کی وجہ سے کمزور بینائی والے بھی پڑھ سکتے ہیں، کتاب کی سیٹنگ کرنے والے نے فنی مہارت کا ثبوت نہیں دیا ورنہ اندر کے اوراق بھی خوبصورت دِکھتے، ہمارے دور میں جب مسلمات دین پر اعتراضات کیے جاتے ہیں اور نئی نسل اجماعی عقائد سے بھی انحراف کر رہی ہے اس کتاب کا ہر گھر میں رہنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

جامع مسجد کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی : پولیس

جامع مسجد کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی : پولیس

دہلی پولیس نے جمعہ کو کہا کہ جمعہ کی نماز کے فوراً بعد جامع مسجد کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

وسطی ضلع کی ڈپٹی کمشنر پولیس شویتا چوہان نے بتایا کہ جمعہ کی نماز کے فوراً بعد تقریباً 300 لوگ پلے کارڈز اٹھائے ہوئے جامع مسجد کے باہر جمع ہوئے اور نعرے بازی کرنے لگے۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر ہر جمعہ کو تقریباً 1500 لوگ نماز کے لیے جامع مسجد آتے ہیں۔ لیکن آج نماز کے فوراً بعد 300 کے قریب لوگ جامع مسجد کے باہر جمع ہوئے اور نعرے بازی کرنے لگے۔ الرٹ پولیس نے صورتحال پر قابو پانے اور گاڑیوں کی ہموار نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے انہیں فوری طور پر منتشر کردیا۔

ڈپٹی کمشنر آف پولیس نے کہا کہ مظاہرین میں سے کچھ کی شناخت کرلی گئی ہے اور دیگر کی جلد ہی شناخت کر لی جائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

مظاہرین نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے معطل ترجمان نوپور شرما اور نوین جندل کو مبینہ طور پر متنازعہ مذہبی تبصرے کرنے پر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔

پیغمبر اسلام ﷺ کا حضرت عائشہؓ سے نکاح مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

پیغمبر اسلام ﷺ کا حضرت عائشہؓ سے نکاح 

 مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
___________________________

نبی کی حیثیت عام انسانوں کی نہیں ہوتی، وہ خالق کائنات کا نمائندہ اور اس کی مرضیات کا ترجمان ہوتا ہے، اس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ اس کا رویہ، سفر وحضر، غرض کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک حرکت وعمل انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ ہوتا ہے، اس کے بولنے میں بھی انسانیت کے لئے سبق ہے اور اس کی خاموشی میں بھی، نبوت کا سلسلہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوگیا، آپ کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آسکتا ہے؛ اس لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سو دو سو اور ہزار دو ہزار سال کے لئے نہیں؛ بلکہ قیامت تک کے لئے نمونہ ہے، اور آپ کی سیرت وسنت کی اتباع میں آخرت کی بھی فلاح ہے اور دنیا کی بھی کامیابی ہے۔
زندگی کا ایک اہم شعبہ ازدواجی اور خاندانی زندگی ہے، جس سے ہر انسان گزرتا ہے، ہر شخص حاکم اور قاضی نہیں بنتا، ہر شخص تجارت اور کاروبار نہیں کرتا؛ لیکن تقریبا ہر شخص خاندان کا حصہ ہوتا ہے، شادی بیاہ کے مرحلہ سے گزرتا ہے اور اس کے ذریعہ ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے، خاندان کا حصہ مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ہوتی ہیں، اس کوقدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو عام لوگوں کے مقابل زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی، آپ نے مختلف قبائل میں نکاح کئے، جس سے اسلام کی اشاعت میں مدد ملی، خواتین نیز خاندانی زندگی سے متعلق احکام کی تفصیلات مہیا ہوئیں، آپ نے بحیثیت مجموعی جن خواتین سے نکاح کیا، ان کی تعداد گیارہ ہے، ان میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ سب کی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں، آپ نے پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا جو عمر میں آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں، اور ایک بیوہ خاتون تھیں، بچپن ۵۵؍ سال کی عمر ہونے تک آپ کے نکاح میں ایک ہی بیوی رہیں: حضرت خدیجہؓ اور ان کے بعد حضرت سودہؓ، زندگی کے آخری آٹھ سالوں میں بقیہ ازواج آپ کے نکاح میں آئیں۔
غرض کہ پہلا نکاح آپ نے پچیس سال کی عمر میں چالیس سال کی خاتون سے کیا ، دوسرے: ایک کے سو ا آپ کی تمام بیویاں بیوہ یا مطلقہ تھیں، تیسرے: جو انسانی زندگی میں اصل زمانۂ شباب ہوتا ہے، اس میں آپ نے ایک ہی بیوی پر اکتفا فرمایا اور عمر کے آخری مرحلہ میں متعدد نکاح کئے، اگر ان نکات کو ملحوظ رکھا جائے تو وہ بہت سے غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی، جو اعداء اسلام کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں،جن میں سے ایک حضرت عائشہؓ سے نکاح بھی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا رشتہ پہلے جبیر ابن مطعم کے لڑکے سے طئے ہو چکا تھا، یہ خاندان ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا، جبیر کی بیوی نے کہا کہ اگر ابو بکر کی لڑکی ہمارے گھر آگئی تو ہمارا گھر بھی بددین ہو جائے گا؛ اس لئے ہم کو یہ رشتہ منظور نہیں (مسند احمد: ۶؍۲۱۱) ؛ اس لئے یہ رشتہ ختم ہو گیا، پھر جب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا تو حضرت خولہؓ نے آپ سے حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ کا رشتہ پیش کیا، حضرت سودہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم عمر تھیں، آپ نے ان سے نکاح فرمایا اور بعض غیبی اشاروں کی بنا، پر حضرت عائشہؓ کے رشتہ کو بھی قبول فرمالیا، اور حضرت خولہؓ سے خواہش کی کہ وہ اس بات کو آگے بڑھائیں، حضرت خولہؓ نے حضرت ابو بکرؓ کے سامنے یہ بات رکھی، حضرت ابو بکر کو یوں تو یہ رشتہ دل وجان سے محبوب تھا؛ لیکن چوں کہ زمانہ جاہلیت میں منھ بولے بھائی کی بیٹی سے نکاح کو حرام سمجھا جاتا تھا؛ اس لئے اس پر تأمل ہوا، جب حضرت خولہؓ نے حضور سے یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا کہ ابو بکرؓ دینی بھائی ہیں نہ کہ سگے بھائی، اس لئے ان کی بچی سے میرا نکاح ہو سکتا ہے، تو پھر وہ کھٹک بھی دور ہوگئی، اس طرح حضرت عائشہؓ سے آپ کا نکاح ہوا، نکاح کے وقت راجح قول کے مطابق حضرت عائشہؓ کی عمر چھ سال تھی اور رخصتی کے وقت نو سال ، دوسرے قول کے مطابق نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر اٹھارہ سال تھی؛ لیکن نو سال والی روایت کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، اور اہل علم کے نزدیک یہی روایت زیادہ صحیح ہے۔
حضرت عائشہؓ سے نکاح کے کئی بڑئ فوائد حاصل ہوئے:
ایک تو جاہلیت کی یہ رسم ختم ہو گئی کہ منھ بولا بھائی سگے بھائی کی طرح ہے اور سگے بھائی کی بیٹی کی طرح اس کی بیٹی سے بھی نکاح کی ممانعت ہے، اگر آپ نے اپنے عمل کے ذریعہ اس جاہلانہ رسم کے خاتمہ کا اعلان نہ کیا ہوتا، اور صرف زبانی ہدایت پر اکتفا کیا ہوتا تو شاید بھائی اور بھتیجی کے مصنوعی رشتہ کا تصور آسانی سے ختم نہیں ہوتا، اور صدیوں سے آئے ہوئے اس رواج کی مخالفت لوگوں کو گوارا نہیں ہوتی؛ لیکن جب آپ نے خود منھ بولے بھائی کی صاحبزادی سے نکاح کر لیا تو ہمیشہ کے لئے یہ تصور ختم ہوگیا۔
دوسرے: اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو غیر معمولی ذکاوت وذہانت سے نوازا تھا، ۳۵۰؍صحابہ وتابعین نے ان سے حدیث حاصل کی اور ان سے جو حدیثیں منقول ہیں، ان کی تعداد ۲۲۱۰؍ ہے، (سیر اعلام النبلاء، ۲؍۱۳۹)سات صحابہ وہ ہیں، جن کو روایت حدیث میں مکثرین کہا جاتا ہے، یہ وہ صحابہ ہیں، جنھوں نے ایک ہزار سے زیادہ حدیثیں آپ سے نقل کی ہیں، ان میں جہاں چھ مردوں کے نام ہیں، وہیں ایک نام حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بھی ہے، فتاویٰ میں بھی حضرت عائشہؓ کا پایہ بہت بلند تھا اور ان کا شمار عہد صحابہ کے ان اصحاب فتویٰ میں ہوتاتھا، جنھوں نے کثرت سے فتاویٰ دئیے ہیں، ماضی قریب کے معروف عالم وفقیہ ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے حضرت عائشہؓ کے فتاویٰ کو ’’ موسوعہ فقہ عائشہ‘‘ کے نام سے جمع کیا ہے، جو ۷۶۷؍ صفحات پر مشتمل ہے، اس سے فقہ وفتاویٰ کے میدان میں ان کی خدمات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، عربی زبان میں ایک اصطلاح ’’استدراک‘‘ کی ہے، کسی شخص کی بات یا تصنیف میں کوئی غلطی یا غلط فہمی ہو گئی ہو تو اس کی اصلاح کو استدراک کہتے ہیں، حضرت عائشہؓ نے اکابر صحابہ پر استدراک کیا ہے، جس کو علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے ’’ عین الاصابۃ فی استدراک عائشۃ علی الصحابۃ‘‘ کے نام سے جمع کیا ہے، اور اہل علم کی رائے ہے کہ عموما ان استدراکات میں حضرت عائشہؓ کا نقطہ نظر زیادہ درست ہے، پھر یہ کہ حضرت عائشہؓ جیسی ذہین خاتون کے آپ کے نکاح میں ہونے کی وجہ سے خواتین اور خاندانی زندگی سے متعلق بہت سارے مسائل کا حل ان ہی کی روایات سے ہوا ہے؛ اس لئے امت کو آپ کے ذریعہ جو علمی اور فکری فائدہ پہنچا، وہ بظاہر کسی اور سے نہیں ہو سکتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۴۷؍ سال زندہ رہیں، اور ان کی ہدایت واصلاح اور تعلیم وتربیت کا چشمہ جاری رہا، کہا جاتا ہے کہ بیس سال میں ایک نسل بدل جاتی ہے، اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی دو نسلیں ان سے فیضیاب ہوئیں، یہ اسی لئے ممکن ہو سکا کہ وہ کم عمری میں آپ کے نکاح میں آگئی تھیں۔
اس سکے ساتھ ساتھ ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس نکاح کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب سے بڑے معاون ومددگار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خاندان کو عزت سے سرفراز فرمایا، چار رفقاء نے سب سے بڑھ کر آپ کی مدد کی، ان میں سے دو حضرت ابو بکر وحضرت عمرؓ کی صاحبزادیوں کو آپ نے اپنے نکاح میں لے کر عزت بخشی، اور دو رفقاء حضرت عثمانؓ وحضرت علیؓ کے نکاح میں اپنی صاحبزادیوں کو دے کر عزت افزائی کی، اور اس طرح آپ نے ان چاروں دوستوں کی قربانی کے مقابلہ دلداری فرمائی، آپ حضرت ابو بکر کو کتنی ہی نعمتیں دے دیتے؛ لیکن حضرت عائشہؓ سے نکاح کی وجہ سے اس خاندان کو جو عزت ملی، اور جو سعادت حاصل ہوئی، وہ کسی اور طرح نہیں ہو سکتی تھی؛ اس لئے نہ کبھی حضرت ابو بکر کو پچھتاوا ہوا کہ عمر کے کافی تفاوت کے ساتھ آپ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح کر دیا اور نہ خود حضرت عائشہؓ کو؛ بلکہ وہ اس نسبت کو اپنے لئے باعث عزت وافتخار سمجھتے تھے، اور جب ایک موقع پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ چوں کہ آپ کے ساتھ رہتے ہوئے بہت صبرو شکیب کی زندگی گزارنی پڑتی تھی، اس لئے ازواج مطہرات اگر چاہیں تو اپنے حقوق لے کر علیحدگی اختیار کر لیں تو سب سے پہلے حضرت عائشہؓ نے اس کو رد کر دیا، اور کہا کہ وہ ہر حال میں آپ کے ساتھ ہی رہیں گی، رشتہ نکاح کا تعلق اصل میں بیوی کے ساتھ ہوتا ہے، تو جب بیوی خود اس رشتہ کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتی ہو اور خوش دلی کے ساتھ باعث افتخار جانتے ہوئے اس پر راضی رہے تو کیسے کسی کو اس پر اعتراض کا حق ہو سکتا ہے؟
جہاں تک نکاح کے وقت کم سنی کی بات ہے تو اس کا تعلق اصل میں سماجی تعامل ورواج، موسمی حالات اور غذا سے ہے؛ اسی لئے مختلف علاقوں میں بلوغ کی عمریں الگ الگ ہوتی ہیں، عرب میں کم عمری میں لڑکیوں کے نکاح کا رواج تھا، عہد نبوت میں بھی اور آپ کے بعد بھی اس کی کئ مثالیں ملتی ہیں، جن میں دس سال سے کم عمر میں لڑکیوں کا نکاح کر دیا گیا، اور جلد ہی وہ ماں بھی بن گئیں، خود حضرت عائشہؓ کے نکاح میں حضرت خولہ ؓ نے رشتہ پیش کیا، اور حضرت ابو بکرؓ نے رضاعی بھائی ہونے کا بھی عذر کیا؛ لیکن عمر کے تفاوت پر کسی تامل کا اظہار نہیں کیا، پھر یہ کہ حجاز کا موسم گرم ہوتا ہے اور اس زمانے میں وہاں کی غذا کھجور اور اونٹنی کا دودھ ہوا کرتا تھا، جس میں بہت زیادہ غذائیت پائی جاتی تھی؛ اس لئے وہاں کے حالات کو ہندوستان پر قیاس نہیں کرنا چاہئے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دنیا کے دوسرے مذاہب میں بھی کم عمر لڑکیوں کی شادی کا رواج رہا ہے، مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کسی کی بیوی نہیں بنیں، اور معجزاتی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی؛ لیکن عیسائیوں کے بعض فرقوں کا خیال ہے کہ جوسف نامی شخص سے حضرت مریمؑ کا نکاح ہوا تھا، اس وقت جوسف کی عمر ۹۹؍ برس اور حضرت مریم کی بارہ برس تھی، ۱۹۸۳ء تک کیتھولک کینان نے اپنے پادریوں کو بارہ سال کی لڑکی سے شادی کرنے کی اجازت دے رکھی تھی، ۱۹۲۹ء سے پہلے برطانیہ میں چرچ آف انگلینڈ نے بھی بارہ سال کی لڑکی سے شادی کی اجازت دی تھی، امریکہ کے اسٹیٹ آف ڈیلویرا میں ۱۸۸۰ء تک لڑکی کی شادی کی کم سے کم عمر ۸؍ سال اور کیلی فورنیا میں ۱۰؍ سال مقرر تھی، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کافی کم رکھی گئی ہے، امریکہ کی ایک ریاست ’’ میسیچوسس‘‘ ہے، جہاں لڑکیوں کی شادی کی عمر ۱۲؍ سال مقرر ہے، اور ایک دوسری ریاست نیوہیمسفر‘‘ میں ۱۳؍ سال مقرر ہے۔
اگر ہندو مذہب کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں کم عمری کی شادی کی بہت حوصلہ افزائی کی گئی ہے، منوسمرتی میں ہے کہ لڑکی کے بالغ ہونے سے پہلے اس کی شادی کر دینی چاہئے، (گوتما: ۱۵۔۔۲۱) اور یہ کہ باپ کو چاہئے کہ اپنی لڑکی کی شادی اسی وقت کر دے جب وہ بے لباس گھوم رہی ہو؛ کیوں کہ اگر وہ بلوغت کے بعد بھی گھر میں رہے تو اس کا گناہ باپ کے سر ہوگا۔ (بہ حوالہ: many ix, 88,htpp:/www.payer.de.dharam shastra/dharmash083 htm)منوسمرتی میں میاں بیوی کی شادی کی عمر یوں مقرر کی گئی ہے: لڑکا ۳۰؍ سال اور لڑکی ۱۲؍ سال، یا لڑکا ۲۴؍سال اور لڑکی ۸؍ سال کی ۔
مہا بھارت میں شادی سے متعلق جو ہدایت دی گئی ہے، اس میں لڑکی کی عمر ۱۰؍ سال اور۷؍ سال ہے، جب کہ شلوکاس میں شادی کی کم از کم عمر ۴؍ سے ۶؍ سال اور زیادہ سے زیادہ ۸؍ سال مقرر ہے۔
آج کل برادران وطن رام جی کو سب سے آئیڈیل شخصیت مانتے ہیں تو رامائن سے پتہ چلتا ہے کہ رام اور سیتا کی شادی کے وقت سیتا کی عمر صرف چھ سال تھی (رامائن، ارینہ کانڈ، سرگ: ۴۷، اشلوک: ۱۱،۴،۱۰)
غرضیکہ کم عمری میں لڑکی کا نکاح اور بیوی وشوہر کے درمیان عمر کا فرق طرفین کی باہمی رضامندی ، معاشی رواج، موسم، صحت اور بلوغ سے متعلق ہے، مشرق ومغرب کے اکثر سماج میں کم عمر لڑکیوں کا نکاح ہوتا رہا ہے، مختلف مذہبی کتابوں میں نہ صرف اس کی اجازت دی گئی ہے؛ بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے، اور خاص کر ہندو سماج میں اس کا رواج زیادہ رہا ہے، اور مذہب کی مقدس شخصیتوں نے اس عمر میں نکاح کیا ہے۔

جمعہ, جون 10, 2022

رانچی میں جمہوری طریقہ پر اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے نوجوانوں پر پولیس کا گولیاں چلانا افسوس ناک : امارت شرعیہ

رانچی میں جمہوری طریقہ پر اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے نوجوانوں پر پولیس کا گولیاں چلانا افسوس ناک : امارت شرعیہ
امارت شرعیہ کا وفد زخمی بچوںسے ملاقات کے لیے انتظامیہ کے رابطہ میں،پر امن مظاہرہ جمہوری حق ہے ، مظاہرین پر گولیاں چلانے والوں پر کارروائی کا مطالبہ
 

 آج جمعہ کی نماز کے بعد جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں توہین رسالت کے مجرمین کے خلاف ا پنے دکھ اور تکلیف کا اظہار کرنے کے لیے جمہوری طریقہ پر جمع ہوئے نوجوانوں پر پولیس کا گولیاں چلانا افسوس ناک ہے۔امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے پولیس کی اس ظالمانہ کارروائی پراپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے آئین نے ہمیں جمہوری طریقہ پر اپنی ناراضگی کا اظہار اور احتجاج کرنے کا حق دیا ہے ۔رانچی میں نوجوانوں کی جماعت حکمراں جماعت بی جے پی کے ترجمانوں نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے ذریعہ  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز الفاظ کہے جانے کے خلاف پر امن اور جمہوری طریقہ پر اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے ۔ لیکن پولیس نے ان کے خلاف بے رحمانہ طریقہ اپنا یا اور گولیاں برسائیں جس کی بنا پر ایک لڑکا مدثر ولد محمد پرویز ساکن لیک روڈ رانچی شدید زخمی ہوا ہے اور رمس(RIMS) میں وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کے درمیان ہے ، اس کے علاوہ درجنوں بچے زخمی ہو کر اسپتال میں پڑے ہیں، کئی بچوں کو رمس لے جا یا گیا ہے اور بہت سے انجمن اسپتال میں ہیں۔

حضرت امیر شریعت نے کہا کہ اگر پولیس کو احتجاج ختم ہی کرانا تھا تو پولیس کے پاس احتجاج کو ختم کرنے کے لیے کئی طریقے ہیں ، ایسے موقعوں پر پولیس آنسو گیس، پانی کی بوچھاڑ یا ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا کرتی ہے۔ لیکن اس معاملہ میں پولیس نے لاٹھی چارج اور گولیاں برسانے سے ہی آغاز کیا جو کہ پولیس کے تعصب اور دوہرے رویہ کی واضح علامت ہے ۔

امارت شرعیہ حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس معاملہ کی غیر جانبدارانہ تحقیق ہو اور مظاہرین پر گولی چلانے والے پولیس والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔جو پولیس کی گولیوں سے زخمی ہوئے ہیں ان کا بہتر علاج و معالجہ سرکاری خرچ سے کرایا جائے اور معاوضہ بھی دیا جائے ۔

امارت شرعیہ  کا ایک وفد لگاتار ڈی ایم اور انتظامیہ کے دیگر ذمہ داران  سے بات کر رہا ہے تاکہ  زخمی بچوں سے ملا قات کی  جا سکے اور ان کا بہتر علاج و معالجہ کرایا جا سکے ۔ امارت شرعیہ کے ذمہ داران مسلسل حکومت کے عہدے داران سے رابطہ میں ہیں اور حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ حضرت امیر شریعت نے مسلمانوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اشتعال میں نہ آئیں اور جنازہ کے وقت کوئی پر تشدد طریقہ نہ اپنائیں، امن و امان قائم کرنے میں مدد کریں ۔ امارت شرعیہ کی جانب سے بھی زخمیوں کے علاج میں تعاون کیا جائے گا ۔

جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم " ایک جائزہ ✍️ قمر اعظم صدیقی ، بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا

" جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم " ایک جائزہ 
✍️ قمر اعظم صدیقی ،  بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا 9167679924

زیر مطالعہ کتاب" جہان ادب کے سیاح :  ڈاکٹر امام اعظم " کے مصنف کا نام پروفیسر ڈاکٹر خالد حسین خاں ہے ۔ آپ ادبی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہیں ۔  آپ میرٹھ کالج میرٹھ یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز تھے چند سال قبل آپ سبکدوش ہوئے ہیں ۔  آپ درجنوں معتبر اداروں کے سرپرست اور رکن رہ چکے ہیں حتیٰ کہ بہت سارے اداروں کے اب بھی  سرپرست ہیں ۔  آپ کے  امتیازات ، اعزازات ، انعامات ، کی فہرست بھی  طویل ہے ‌۔  آپ کی تصنیفات اور تالیفات کی تعداد بھی دو درجن کے قریب ہے ۔  آپ کی  لکھی  ہوئے بہت سارے  نوٹس مثلاً   " ارمغان  ادب " 
(اردو نثر کی تنقید  اور اردو شاعری کی تنقید ) ، "  خضر راہ " (  تنقید ،  تجزیہ اور تشریح ) ، "  تصویر درد " (تنقید ،  تجزیہ اور تشریح ) ،  " اقبال کی تین نظمیں "  تجزیاتی مطالعہ  اور اردو کے منتخب سوانح اور  خاکے میرٹھ یونیورسٹی کے بی اے اور ایم اے کے نصاب میں شامل رہ چکے ہیں ۔ آپ کے تین درجن ریڈیو ٹاک آل انڈیا ریڈیو و دیگر جگہوں سے نشر ہو چکے ہیں ۔ دو درجن کے قریب طلباء نے آپ کے زیر نگرانی اپنے ریسرچ کا کام مکمل کیا ہے ۔ 
دراصل یہ کتاب ڈاکٹر امام اعظم پر لکھی گئ کتاب یا امام اعظم صاحب کی لکھی ہوئی کتاب کے تجزیے کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے ۔ جس میں مصنف نے ڈاکٹر امام اعظم کی سیرت ، ذکر ، فکر ، فن اور کارناموں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی  ہے ۔
 اس کتاب کے مطالعہ کے بعد بخوبی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر خالد حسین خاں صاحب نے بہت ہی محبت ، عقیدت اور محنت کے ساتھ اس کتاب کو تیار کیا ہے ۔ مصنف کی ڈاکٹر امام اعظم صاحب سے کبھی رو برو ملاقات نہیں ہوئ ہے باوجود اسکے انہوں نے اپنی فراخ دلی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ڈاکٹر خالد صاحب امام اعظم صاحب کی علمی صلاحیت کے قدر داں ہیں ۔ 
" پیش گفتار "  میں مصنف نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے :  
" ڈاکٹر امام اعظم اردو کے پاسدار ،  ہندی کے تاجدار ،  انگریزی کے رازدار ، شعر و صحافت کے ذی وقار اور شخص  طرحدار  ہیں ۔  ان کی تحریروں میں ایہام نہیں وضاحت ہے ،  ابہام نہیں صباحت  ہے ، ان کی شاعری میں زندگی کی جستجو ہے ،  وہ زندگی جو ماضی ، حال ،  مستقبل تینوں سے عبارت ہے،  جس  میں ماضی کا طرب ،  حال کا کرب اور مستقبل کی بشارت تینوں کی عکاسی و نقاشی اپنی بہار دکھاتی ہے ۔ 
اس تحریر میں اردو کے موجودہ حالات اور مستقبل میں اردو کے نتائج کے تعلق سے مصنف کے درد کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : 
"  آج اردو دنیا میں انتشار ، افتراق اور  اشتہار کا ماحول ہے ‌۔  ہر شخص اپنی خودستائی ،  خود نمائی اور خود توصیفی نیز "  ہم چنیں دیگرے نیست "  کی ڈفلی بجا رہا ہے ۔ کسی کو یہ فکر نہیں کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی نیز اشاعت و ترسیل کی راہ میں حائل مشکلات و معاملات کو کیسے دور کیا جائے ،  کون سی ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جو اردو کی فلاح و بقا کے لیے مفید اور کار آمد ہو ۔ اس کے برخلاف اردو والوں کو فکر ہے تو صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کی 
" جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم" (صفحہ 7) 
" جہان ادب کے سیاہ : ڈاکٹر امام اعظم "کے عنوان سے اپنی تحریر میں ڈاکٹر خالد صاحب نے موجودہ و آنے والی نسلوں کے لیے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  : 
" وہ لوگ جو اردو سے انحراف کر رہے ہیں گویا وہ اپنے اسلاف و آباء کی تاریخ و تہذیب سے انحراف کر رہے ہیں، گرچہ اردو اسلامی زبان نہیں ہے تاہم ہندوستان میں اسلامی امور اور تہزیبی و ثقافتی مزہبی ، دینی و ادبی شعور پر ساری کتابیں اردو زبان میں ہی ہیں ۔ اس لیے ہمیں اپنی نسل نو کو اردو زبان سے آشنا رکھنا ہی ہوگا تاکہ ہماری اولادیں ہماری صحیح تاریخ، تہزیب ، ثقافت ، اور ادب سے واقف ہو سکیں اور سچائیوں کے چور اور زعفرانی سیاست کے تلخ امور انہیں گمراہ نہ کر سکیں ۔ (صفحہ 11)
" تمثیل نو " کے تعلق سے مصنف کے خیالات ملاحظہ فرمائیں : 
" تمثیل نو " کا اولین شمارہ مارچ 2001 میں مطلع ادب پر طلوع ہوا تھا اور تواتر کے ساتھ تقریباً 20برسوں سے شائع ہو رہا ہے ۔ تمثیل نو کے مختلف گوشے اس حقیقت کے غماز ہیں کہ اس کا دائرہ تنگ نہیں آفاقی  ہے اور اردو کے معمر و معتبر فعال و فہمیدہ تخلیق کاروں کے علاوہ نو وارد قلمکاروں کے لیے بھی ایک وسیع و عریض،  کھلا آسمان اور زمین ان کے ادبی چوکڑیوں کے لیے موجود ہے جس میں وہ نڈر ہو کر زرقندیں بھر سکتے ہیں ۔ (صفحہ 18)
امام اعظم کی دینداری ، خاکساری عاجزی اور اردو دوستی کے تعلق سے مصنف یوں رقم طراز ہیں : 
" ڈاکٹر امام اعظم باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ باعمل بھی ہیں ۔ صرف دین اسلام کے داعی نہیں دیندار مسلمان بھی ہیں ۔ اردو کے راہی نہیں پختہ حامی بھی ہیں ۔ وہ ایک ممتاز و متمول خاندان کے چشم وچراغ ہیں لیکن ان کو اپنے خاندان پر غرور  بالکل نہیں ہے ۔ ان کا مطمح نظر ابتداۓ عمر سے یہ رہا ہے کہ پڑھو اور بڑھو ۔ تمثیل نو میں ان کا یہی موقوف و منشا کار فرما ہے ۔ وقت کی پابندی پر وہ ہمیشہ گامزن رہتے ہیں ۔ (صفحہ 28)
"سہرے کی ادبی معنویت " کے تعلق سے ڈاکٹر خالد صاحب کے خیالات کو ملاحظہ فرمائیں : 
" ڈاکٹر امام اعظم میرے محب پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی روش و راہ پر گامزن نظر آتے ہیں جس کا واضح ثبوت ان کی مرتبہ کتاب بعنوان " سہرے کی  ادبی معنویت " سے ہویدا  ہے ۔  جس طرح کرسٹو فرکولمبس  نے امریکہ دریافت کر کے دنیا کو محو حیرت  کر دیا تھا اور تاریخ کائنات میں سدا کے لیے اپنا نام و کام ثبت کرا  دیا ۔ کچھ  اسی طرح ڈاکٹر امام اعظم نے بھی دنیاۓ شعر و ادب میں اکیلا انوکھا اور ان ہونا  کارنامہ سر کیا ہے۔  یعنی موصوف نے  صنف" سہرا " کے ذیل میں پہلی بار اس کی تاریخ ، تعریف تفسیر، توضیح اور تشریح کے باوصف اس میدان میں اولیت کا سہرا بھی اپنے سر باندھ لیا ہے ، ان کا یہ کام تاریخ سہرا میں یقیناً کارنامہ شمار ہوگا " 
(صفحہ 31)
" ڈاکٹر امام اعظم بحیثیت شاعر " کا تجزیہ کرتے ہوۓ مصنف لکھتے ہیں کہ : 
ڈاکٹر امام اعظم کی سیرت و کردار کی طہارت ، نفاست ، شرافت ، وراست اور صلاحیت کے سبب ان کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی شفافیت،  طہاریت ،صالحیت اور اخلاقیات کی غماز ہے ۔ موصوف اپنی نظم و نثر دونوں میں میزان عدل کا دامن کہیں نہیں چھوڑتے۔ (صفحہ57)
 موصوف اسی ضمن میں آگے لکھتے ہیں کہ : 
"  ڈاکٹر امام اعظم  کے شعری مجموعوں  ("قربتوں کی دھوپ" اور" نیلم کی آواز ") میں محبت کے گہر ، عقیدت کے ثمر ، عاشق کے شرر اور شاعری کے ہنر سبھی دیدنی و دادنی ہیں ۔ انہوں‌نے اپنے ذہن و  ذات کے دروازے بیرونی ہواؤں کے لئے ہمیشہ کھلے رکھے اور ان کا فراخ دلی سے استقبال کیا نیز ان کی تازگی و سادگی کو محسوس اور تسلیم بھی کیا ہے " (صفحہ 59)

چٹھی آئی ہے کا تجزیہ بھی مصنف نے بہت ہی عمدہ انداز میں کیا ہے ۔  مصنف کا یہ انداز بیاں مجھے بہت ہی پسند آیا کہ  وہ بہت ہی محبت و خلوص کے ساتھ لفظوں کا جادو چلاتے ہوئے تنقیدی باتوں کو بھی  محبت کے لڑیوں میں پیڑو دیتے ہیں۔ پہلے شاہد اقبال کے لیے چند تعریفی کلمات جو کہ مصنف نے "چٹھی آئ ہے " کہ  حوالے سے کی ہے ملاحظہ فرمائیں : 
 " شاہد اقبال کا اختصاص یہ بھی  ہے کہ انہوں نے اپنی ادبی سفر کی سیاحی  میں سند باد جہازی کی طرح ایسا تنقیدی ، تدوینی اور قدرے تحقیقی و تاریخی کام انجام دے ڈالا ہے جسے کرنے  میں دوسروں کو برسہا برس  لگ جاتے ہیں ۔ شاہد اقبال کا یہ  ترتیبی ،  تدوینی، مکتوباتی ادب میں "کارنامہ "  کہا جا سکتا ہے ۔ " ( صفحہ 65 )
اب مصنف کے تنقیدی پہلو کا جائزہ لیں جس میں انہوں نے خط کے حوالہ نمبر ( 5 )پانچ کا ذکر کیا ہے جو کہ (مکتوب گوپی چند نارنگ کے صفحہ 33 ) کا حوالہ ہے ۔ اور پھر اس کا تجزیہ کچھ اس انداز میں کیا ہے اقتباس ملاحضہ فرمائیں : 
" مزکورہ خط میں ( ایک اچھا اقدام ) محل نظر ہے کیونکہ " ایک "( واحد ) ہے اور " اقدام " (جمع ) یہاں یوں لکھا جاتا تو راقم کی نظر میں زیادہ مناسب و موزوں رہتا ۔ "ایک اچھا قدم اٹھایا ہے" 
یا جملہ اس طرح لکھا جاتا " ان پر مباحثہ قائم کر کے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے " ( صفحہ 76 )
اس کتاب کا سب سے آخری موضوع "  دربھنکہ کا ادبی منظر نامہ :  ڈاکٹر امام اعظم کی ادبی و صحافتی خدمات کے حوالے سے "  مصنف نے اپنے خیالات کو کچھ اس انداز میں ظاہر کیا ہے : 
" سرزمین  بہار کا نسبتاً چھوٹا ضلع دربھنکہ دیار  درخشاں ، مہر تاباں اور قابل بیاں شہر ہے ۔ اس شہر رنگ و نور میں سدا سے ہی دانشور، سخنور، ہنرور ، اور علماء ، فصحا  ، شرفاء اور  ادباء نے آنکھیں کھولیں اور حسب توفیق اس گلشن ادب کی سیرابی کی ہے ۔ جس طرح غالب کو غالب دوراں بنانے اور منوانے میں حالی اور عبدالرحمن بجنوری جیسے لائق و فائق شیدائی میسر آۓ نیز عبدالحلیم شرر کو مناظر عاشق ہرگانوی جیسا عاشق صادق اردو ملا جس نے شرر کے ادبی و شعری شراروں کو اپنے ریسرچ کے وسیلے سے شعلہ جوالہ بنا دیا اسی طرح ڈاکٹر امام اعظم کو سرور کریم جیسا دانش مند  ، ہوش مند اور درد مند کرم فرما محب ملا ۔   صفحہ (101)
مصنف آگے امام اعظم کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں ملاحظہ فرمائیں : 
" جس طرح سرزمین ہند نے دو عظیم المرتبت اکبر پیدا کیے ایک مغل شہنشاہ اکبر اعظم اور دوسرا اکبر الہ آبادی اسی مانند دربھنگہ نے  امام اعظم نامی و گرامی قلمکار و فنکار ، صحافی و مدیر  کو جنم دیا جو اکبر اعظم کی طرح مملکت اردو کا  امام اعظم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ " صفحہ (102)
اخیر میں صفحہ 104 سے 105 تک مصنف نے شناس نامہ لکھا ہے اس کے بعد صفحہ 106 سے 112 تک کوائف درج ہے ۔  یہ کتاب امام اعظم اور ادب کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ادب کی دنیا میں یہ کتاب قدر کی نگاہوں سے دیکھی جایے گی اور رسرچ اسکالر کے لیے کافی مفید ثابت ہوگی ۔ 112صفحات پر مشتمل یہ کتاب بہت ہی معیاری و دلکش ہے ۔ مصنف نے اپنی اس کتاب کا انتساب اپنے والدین کے نام کیا ہے ۔ اس کتاب کی قیمت 150روپیہ ہے جسے بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ، ناولٹی بکس دربھنگہ ، شمسی بک سینٹر سمستی پور ، اور عثمانیہ بک ڈپو کولکاتا سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ مزید معلومات کے لیے9358285859 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...