Powered By Blogger

بدھ, جون 15, 2022

تعارف و تبصرہ"خالقِ کائنات قرآن کی روشنی میں": _______مؤلفِ کتاب: قاری غلام ربانی قاسمیتبصرہ نگار: مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری (ابو یحییٰ ازہری)

تعارف و تبصرہ

"خالقِ کائنات قرآن کی روشنی میں": _______
مؤلفِ کتاب: قاری غلام ربانی قاسمی
تبصرہ نگار: مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری (ابو یحییٰ ازہری)
************* __________ 
*************
قرآن فہمی ایک عظیم نعمت ہے، اس کا صحیح استعمال اللہ تعالیٰ پر یقین، ایمان میں پختگی، دین پر استقامت، آخرت کا خوف اور موت کا استحضار پیدا کرتا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کو جاننا اور سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ ایسا آدمی عموماً خود بھی نیک ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی نیک بننے کی تلقین کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنی موضوعات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لکھا جارہا ہے اور لکھا جاتا رہےگا؛ کیوں کہ یہ کتاب قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے "کتابِ ہدایت" ہے، اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب ہے، جس نے اپنے سے پہلے نازل شدہ تمام کتابوں کو منسوخ کردیا ہے؛ لہذا تعصب کی ہر عینک اتار کر، اخلاص کے ساتھ اسے پڑھا جائے، سمجھا جائے، عمل کیا جائے اور عام کرنے کی کوشش کی جائے۔
زیرِ نظر کتاب "خالقِ کائنات__قرآن کی روشنی میں" کا تعلق بھی قرآنی افادات سے ہے، جس میں قرآنی آیات کی روشنی میں خالقِ کائنات کا جامع انداز میں تعارف پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کائنات کی بعض دیگر مخلوقات اور ان کی کیفیات مثلاً: عرشِ الٰہی، فرشتے، شیاطین و جنات، تخلیق آدم و حوا، ہابیل قابیل، بئر زم زم وغیرہ کی بھی وضاحت کی گئی ہے، اسی کے ساتھ ساتھ بعض اسلامی شعائر کا بھی ان کے تعارف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جیسے: کعبہ مکرمہ، صفا و مروہ اور حدودِ حرم وغیرہ۔ کتاب کے آخری صفحہ سے پہلے پانچ صفحات میں "اسلام کا مختصر تعارف" بھی پیش کیا گیا ہے، جن میں ایمان، اطاعت اور عبادت کی وضاحت کرنے کے ساتھ توحید، رسالت، قیامت، دوزخ اور جنت کو آسان انداز میں سمجھایا گیا ہے۔ کتاب کا تقریباً ایک ثلث (تہائی)  حصہ سوال و جواب کی شکل میں ہے، مجموعی اعتبار سے اندازِ بیان سادہ اور عام فہم ہے، کم پڑھا لکھا آدمی بھی بہ آسانی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر مزید دو تین باتوں کا خیال رکھ لیا جاتا تو کتاب کے حُسن میں اضافہ ہوجاتا، پہلی بات: کتاب کا آغاز سوال و جواب کے انداز میں ہے، مکمل کتاب اسی انداز پر ہوتی، تو ایک نہج ہوجاتا، دوسری بات: مکمل کتاب کو چند مرکزی عناوین کے تحت بھی تقسیم کردیا جاتا، تیسری بات: قرآنی آیات کے حوالہ جات کے علاوہ بھی تشریحات میں حوالہ جات ہوتے تو اچھا ہوتا۔ یہ میری ایک رائے ہے، میں سمجھتا ہوں کہ قرآنی آیات کے علاوہ حوالہ جات ذکر نہ کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہوگی کہ کتاب کا نام ہی "... قرآن کی روشنی میں" ہے؛ لہذا جو باتیں ہوں گی، وہ قرآن  اور تفسیر قرآن ہی سے ماخوذ ہوں گی۔ کتاب کا ہندی و انگریزی میں بھی ترجمہ کرایا جائے، تو افادیت میں اضافہ ہوگا۔ 

کتاب میں کل 120 صفحات ہیں، اصل کتاب ص: 22 سے شروع ہے، اس سے پہلے فہرستِ مضامین، راقمِ سطور کا مختصر سا پیشِ لفظ اور پھر "حرفِ آغاز" کے نام سے مؤلفِ کتاب کا ایک تفصیلی مقدمہ ہے، جو 14صفحات پر مشتمل ہے، جس میں قرآن مجید کی حقانیت اور اس کی تعلیمات پر اعتراض کرنے والوں کو ٹھوس انداز میں دلائل کے ساتھ جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے، کتاب کے آخری صفحہ: 120 پر، "مؤلف کی دیگر کتابیں" کے عنوان سے چار کتابوں کا چند سطری تعارف پیش کیا گیا ہے، جن میں تین (آئینۂ دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد، آسان فارسی قواعد، قرآن کا پیغام تمام انسانوں کے نام) مطبوعہ ہیں، اور ایک (ربّانی قاعدہ) جلد ہی طبع ہونے والی ہے۔

مؤلفِ کتاب قاری غلام ربانی قاسمی دامت برکاتہم دار العلوم دیوبند کے قدیم فضلاء میں ہیں اور دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد کے قدیم ترین استاذ ہیں؛ بلکہ شروع ہی سے اس ادارہ سے وابستہ ہیں، شہر کی مشہور و معروف مسجد "مسجد عامرہ، عابڈس" میں تقریباً تین دہائیوں تک امام بھی رہ چکے ہیں، جہاں قرآن و حدیث کے دروس کا سلسلہ جاری تھا، قاری صاحب کو فارسی میں دست رس ہے اور ایک کامیاب مدرس کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ 

کتاب کا رسمِ اجرا بھی بہت اہتمام کے ساتھ عمل میں‌ آیا، جس میں علمائے کرام اور طلبۂ عزیز کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، مؤلف کتاب کے ایک شاگرد مفتی نعمت اللہ سبیلی سلّمہ اور ان کے برادر عزیز حافظ سمیع اللہ سلّمہ نے انتظام و انصرام میں پوری دلچسپی لی، اور دونوں بھائیوں نے کتاب کے نام کی مناسبت سے اپنے نوخیز تعلیمی و تربیتی ادارہ "معھد القرآن" میں اس تقریب کا انعقاد کیا۔ یہ کتاب حیدرآباد کے مشہور و معروف مکتبات؛ ہندوستان پیپر ایمپوریم، یاسین‌ بکڈپو، سنابل بکڈپو، دکن ٹریڈرس، ھدیٰ بک ڈسٹری بیوٹر اور مکتبہ کلیمیہ سے خریدی جاسکتی ہے، مؤلف کتاب سے بھی اس نمبر پر [7416212816] ربط کیا جاسکتا ہے، کاغذ عمدہ ہے، ٹائیٹل پیج بھی ٹھیک ہے، اصل قیمت =/130 روپے ہے، رعایت بھی ضرور کی جائے گی، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مفید بنائے اور مؤلف کی کاوشوں کو قبول فرماکر ان کے حسنات میں شامل فرمالے، آمین یا رب العالمین۔
____________________________
____________________________
کتاب کا نام: خالقِ کائنات قرآن کی روشنی میں
مؤلفِ کتاب: قاری غلام ربانی قاسمی (استاذ دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد، انڈیا)
رابطہ نمبر: 7416212816
ناشر: مکتبہ دار الکتب، مشرقی ایرہ کنٹہ، حیدرآباد
*************** ----------------- ***************

ناموس رسالت__ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

ناموس رسالت__
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی تمام نبیوں کے سردار اور رسولوں میں سب سے افضل ہیں، قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، ہم نے رسولوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ، چنانچہ آپ کی حیثیت انبیاء ورسل کے سلسلۃ الذہب میں سید الانبیاء والمرسلین ، خاتم النبین ، محبوب رب العالمین کی ہے، یہ مقام ومرتبہ کسی اور کو حاصل نہیں، ہمارے لیے سارے انبیاء ورسل قابل اکرام واحترام اور ان پر اتنا یقین رکھنا ضروری ہے کہ وہ سب اللہ کے رسول ہیں، ایمان مفصل میں ہمیں یہی سکھایا گیا ہے، اس اعتبار سے سب کے ناموس کی حفاظت ایمانی واسلامی تقاضہ ہے، ہمیں تو یہ بھی سکھایا گیا کہ جو لوگ اللہ کے علاوہ کی پوجا کرتے ہیں ان کو بھی بُرا بھلا نہ کہو، کیوں کہ تمہارے بُرا بھلا کہنے کی وجہ سے دشمنی اور جہالت میں وہ لوگ اللہ کو بُرا بھلا کہنے لگیں گے ۔
 چوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وعظمت، محبت وعقیدت اور ان پر جان نچھاور کرنے کا جذبہ ہماری ایمانی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے، اس لیے مسلمان آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے سامنے بچھ جاتے ہیں اور آپ کے در پر درود وسلام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، بلکہ مدینہ جا کر وہیں مرجانے کی تمنا کرتے ہیں، یہ جذبہ قابل قدر ہے؛لیکن ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اگر کوئی سر پھر اناموس رسالت پر حملہ کرے تو ہم اس کے اس حرکت قبیحہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اوربتادیں کہ ہمارے لیے یہ نا قابل برداشت ہے، ایسے لوگوں پر دنیا وآخرت میں لعنت کے ساتھ دردناک عذاب ہے، اللہ رب العزت نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ ورسول کو تکلیف پہونچاتے ہیں، دنیا وآخرت میں ان پر لعنت اور درد ناک عذاب ہے،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان والوں کا جو رشتہ ہے اس کا ذکر سورہ احزاب میں اللہ رب العزت نے کیا ہے ، فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) مؤمنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواج مطہرات ان کی مائیں ہیں، ایک دوسری آیت میں آپ کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا گیاکہ ہم نے تمہیں شاہد اور خوشی اور ڈرسے آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا گیا،تاکہ تم لوگ اللہ رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم وتوقیر کرو، قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے لکھا ہے کہ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہا درجہ کی تعظیم وتوقیر کا حکم دیا گیا ہے۔
 ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ تعظیم وتوقیر کا یہ حکم صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی حیات تک محدود نہیں ہے، بلکہ مفسرین نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ وصال کے بعد بھی آپ کی تعظیم وتوقیر مسلمانوں پر واجب ہے، اور جو لوگ بے ادبی اور گستاخی کے مرتکب ہوں گے ان کے اعمال صالحہ بے خبری میں برباد ہو جائیں گے، اور جن لوگوں نے آداب کو ملحوظ رکھا، ان کے لیے بخشش اور بڑے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔
 علامہ ابن کثیر ؒنے سورۃ حجرات کی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؒ نے دو آدمیوں کو مسجد نبوی میں بلند آواز سے بات کرتے ہوئے پایا تو فرمایا کہ تم کہاں ہو، کچھ معلوم ہے، دریافت کیا: کہاں سے آئے؟ بتایا کہ طائف سے، فرمایا :اگر تم مدینہ کے ہوتے تو بلند آواز سے مسجد نبوی میں بات کرنے پر تمہیں سخت سزا دیتا۔ ابن کثیرؒ نے یہ بھی لکھا ہے کہ قبر اطہر کے پاس آواز بلند کرنا ویسے ہی آج بھی ممنوع ہے، جیسا ظاہری حیات نبوی میں تھا، اللہ کو تو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ اس کے محبوب کی شان میں ذو معنی الفاظ استعمال کیے جائیں، ایک معنی اچھا ہو اور دوسرا کم تر اور حقیر ثابت کرتا ہو، تو اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال کرنا ممنوع ہے، اسی لیے اللہ رب العزت نے فرمایا : ایمان والو ’’راعنا ‘‘ مت کہا کرو ’’انظرنا‘‘ کہا کرو، اس لیے کہ راعنا اگر تھوڑا دبا کر کہا جائے تو وہ ’’راعینا‘‘ ہوجاتا ہے ، ہمارے چرواہے کے معنی میں ، فقہاء نے لکھا ہے کہ ناموس رسالت پر حرف زنی کرنے والوں کی سزا اسلامی حکومت میں قتل ہے، خود فتح مکہ کے موقع سے عام معافی کے باوجود جن چار لوگوں کو قتل کیا گیا وہ سب کے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے تھے۔

باحجاب آفرین فاطمہ اترپردیش کے ضلع پریاگ راج میں 10 جون بروز جمعہ کو نماز کے بعد کچھ لوگوں نے بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے خلاف مظاہرہ کیا.

باحجاب آفرین فاطمہ اترپردیش کے ضلع پریاگ راج میں 10 جون بروز جمعہ کو نماز کے بعد کچھ لوگوں نے بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے خلاف مظاہرہ کیا.

یہ احتجاج آہستہ آہستہ تشدد کی شکل اختیار کرگیا۔ تشدد کو روکنے کے لئے پولیس کی ٹیم موقع پر پہنچ گئی۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ ہوگئی جس میں دونوں اطراف سے کئی افراد زخمی ہوگئے۔ اس سلسلے میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 92 لوگوں کو گرفتار کرلیا ہے، اور 70 نامزد اور پانچ ہزار نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ پولیس ٹیم نے تشدد کے الزام میں پریاگ راج کے مشہور سماجی کارکن جاوید محمد عرف جاوید پمپ کو گرفتار کرلیا ۔ حکام نے جاوید کی گرفتاری کے بعد انکے رہائشی مکان کو بلڈوزر چلاکر زمین بوس کردیا۔ Who is afreen fatima

پریاگ راج کے ایس ایس پی اجے کمار نے دعویٰ کیا کہ شہر میں ہوئے تشدد معاملہ میں جاوید احمد کی بیٹی آفرین فاطمہ بھی سازشی ہیں اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ یہ پہلی بار نہیں جب آفرین فاطمہ سرخیوں میں آئی ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ متعدد ایشوز کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کی وجہ سے سرخیوں میں رہی ہیں۔ آفرین پہلی بار اس وقت سرخیوں میں آئی تھیں جب انہوں نے جے این یو کے گمشدہ طالب علم نجیب کے لئے آواز بلند کی تھی۔

آفرین فاطمہ کا تعلق ریاست اترپردیش کے ضلع الہ آباد یا پریاگ راج سے ہے۔ ان کے والد جاوید احمد سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بزنس میں بھی ہیں۔ ان کے خاندان میں والدین کے علاوہ دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ انہوں نے اپنی تعلیم کا آغاز پریاگ راج کے سینٹ میریج کانونٹ اسکول سے کیا۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا جہاں سے انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ انہوں نے اے ایم یو سے شعبہ لسانیات یا لنگوسٹکس سے بی اے آنرس کیا۔ اس دوران انہوں اے ایم یو کی سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا اور ایک کامیاب اسٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں، انہوں نے اے ایم یو کے ویمنس کالج میں صدارتی امیدوار کے طور پر حصہ لیا جس میں انہیں نمایاں کامیابی ملی اور وہ ویمنس کالج کی صدر منتخب ہوگئی۔

صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے طالبات کے حقوق کے لئے آواز بلند کی، اے ایم یو میں لڑکیوں کو ہاسٹل سے باہر نکلنے کا وقت لڑکوں کے مقابلے میں بہت کم تھا، جس کے خلاف انہوں نے آواز بلند کی اور یونیورسٹی انتظامیہ کو اس بات پر راضی کرلیا کہ لڑکیوں کو ہاسٹل سے نکلنے کے اوقات میں توسیع کی جائے۔

سال 2019 میں ملک کی مشہور مصنفہ اروندھتی رائے اور صحافی عارفہ خانم شیروانی کو اے ایم یو میں منعقد ایک پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا لیکن اس وقت عارفہ خانم کے ایک ٹویٹ کو لیکر طلبہ میں کافی ناراضگی تھی، طلبہ نے عارفہ خانم کی مخالفت کرتے ہوئے اسٹیج کا شامیانہ پھاڑنا شروع کردیا۔ اس دوران آفرین فاطمہ موقع پر پہنچ گئیں اور مشتعل طلبہ کی جانب اپنا دوپٹہ بڑھاتے ہوئے کہا، 'اگر تم میری عزت سے کھیلنا چاہتے ہو تو میرا دوپٹہ پھاڑ دو، شامیانہ نہیں'۔ جس کے بعد طلبہ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔

اے ایم یو سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انہوں نے جے این یو کا رخ کیا، جہاں سے انہوں نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ایم اے کرنے کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ لیکر ابھی ریسرچ کر رہی ہیں۔ انہوں نے ستمبر 2019 میں جے این یو کے انتخاب میں حصہ لیا۔ اس دوران جے این یو کے دیگر اسکولوں میں بھی انتخابات ہوئے۔ آفرین نے اسکول آف لینگویج اینڈ کلچرل اسٹڈیز سے کونسلر کے عہدے کے لئے منتخب ہوئیں اور ابھی بھی وہ طلبہ یونین کی کاونسلر ہیں۔

اُسی سال دسمبر میں بی جے پی حکومت نے شہریت ترمیم قانون کو منظور کردیا، جس کے خلاف ملک بھر میں مسلمانوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا۔ ملک کی قومی دارالحکومت دہلی کے شاہین باغ میں مسلم خواتین نے دھرنا دے دیا۔ شاہین باغ کی خواتین کا احتجاج دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے کئی حصوں میں پھیل گیا اور ملک میں کئی شاہین باغ بن گئے۔ اس دوران ملک کے الگ الگ گوشوں میں تشدد بھی ہوئے۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی جس کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔

سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرے میں آفرین فاطمہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور حکومت سے سخت سوالات کئے۔ انہوں نے سی اے اے کے خلاف دہلی سے لیکر پریاگ راج تک اپنی آواز بلند کی۔ اس مظاہرے میں وہ مسلم خواتین کے شانہ بہ شانہ کھڑی رہیں۔ اس دوران انہیں حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ مہینوں میں ریاست کرناٹک میں حجاب پر عائد کی گئی، باحجاب آفرین فاطمہ پابندی کے خلاف بھی کافی متحرک رہیں ۔ اس وقت وہ فرٹرنیٹی مومنٹ کے ساتھیوں کے ساتھ مظاہرہ کر رہی باحجاب طالبات سے بات کرنے کے لئے کرناٹک کے اڈوپی اور مینگلورو گئیں اور انہوں نے وہاں طلبا سے بات چیت کی۔

آفرین اور انکے اہل خانہ کہتے ہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے محض انہیں خاموش کرنے اور بدلے کی پالیسی کے تحت انکا مکان منہدم کردیا۔ انکے مطابق وہ گزشتہ دو دہائیوں سے پراپرٹی ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں اور اگر واقعی جاوید احمد مظاہرین کو اکسانے کیلئے ذمہ دار ہیں، تو انکی اہلیہ کا مکان کس قانون کے تحت منہدم کیا جاسکتا ہے؟ اسمبلی انتخابات میں بلڈوزر کا خوف دلاکر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے جو خاکہ کھینچا تھا، آفرین فاطمہ کا مکان مسمار کرکے اس خاکے میں رنگ بھرنے کی مہم شروع کی گئی ہے، یہ سوال اتر پردیش کی خوفزدہ اقلیت کے ذہنوں میں کلبلانے لگا ہے۔

منگل, جون 14, 2022

*مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے نئے نوٹیفکیشن سمیت دیگر اہم مسائل پر وزیر اعلی بہار اور امیر شریعت کی ملاقات*

*مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے نئے نوٹیفکیشن سمیت دیگر اہم مسائل پر وزیر اعلی بہار اور امیر شریعت کی ملاقات*  
آج مورخہ 14جون 2022 روز منگل کو امیرشریعت بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کے ساتھ امارت شرعیہ کے ایک موقر وفد نے وزیر اعلی بہار جناب نتیش کمار صاحب سے ان کی رہائش گاہ ایک انے مارگ پٹنہ پر شام ساڑھے چار بجے ملاقات کی۔وفد میں *نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی, قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی* اور مولانا محمد فاروق رحمانی شریک تھے ۔
 حضرت امیر شریعت نے وزیر اعلی کے سامنے تفصیل کے ساتھ *مسلمانوں کے مسائل بالخصوص بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے تعلق سے حکومت کے* *حالیہ تینوں نوٹیفکیشن395 ,396 اور 397 کے سلسلہ میں اہم نکات کو رکھا، آپ نے ترتیب وار تمام قابل اعتراض شقوں کو* *تحریری طور پر وزیر اعلی کو پیش کیا اور ان کے بارے میں گفتگوکی اور اسکے نقصانات سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے نظر ثانی کا مطالبہ کیا* ، محترم وزیر اعلی نے غور سے ان سبھی باتوں کو سنا اور اس کے حل کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے اسی وقت اپنے پرسنل سکریٹری کو بلا کر ہدایت دی کہ وہ پیش کیے گئے میمورنڈم کاجائزہ لے کر متعلقہ شعبہ کے عہدے داران اور افسران سے ان کی فوری میٹنگ طے کریں۔ انہوں نے حضرت امیر شریعت سے وعدہ کیا کہ وہ ان سبھی امور پر متعلقہ شعبہ کے ذمہ داروں سے بات کریں گے اور ان نوٹیفکیشنز کا دوبارہ جائزہ لے کر قابل اعتراض امور کو ہٹانے کے سلسلہ میں ضروری اقدامات کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مدارس کا معیار بلند ہو اور ان میں بہتر سے بہتر تعلیم ہو۔
حضرت امیر شریعت نے وزیر اعلی بہار سے اقلیتوں سے متعلق دیگر اہم معاملات پر بھی بات کی آپ نے کہا کہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ, بہار اردو اکیڈمی, مائنورٹی کمیشن جیسے  اہم اقلیتی اداروں میں چیئرمین کی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی اہم عہدے خالی پڑے ہیں ,جس کی وجہ سے یہ ادارے تعطل کا شکار ہیں۔ ان اداروں کی خالی جگہوں پر جلد تقرری کر کے ان کو دوبارہ فعال بنایا جائے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کی نظر ان سب مسائل پر ہے اور وہ جلد ہی اس پر مناسب اقدام کریں گے ۔
امارت شرعیہ کے وفد کی وزیر اعلی بہار سے یہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی اور اقلیتوں سے متعلق بہت سے ضروری اور اہم مسائل پر گفتگو ہوئی۔ امید ہے کہ یہ ملاقات نتیجہ خیز اور امید افزائ ثابت ہو گی۔
واضح رہے کہ اس اہم ملاقات میں وزیر اعلی کے ہمراہ جدیو کے سینئر لیڈر اور جدیو پارلیمانی بورڈ کے صدر جناب *اپیندر کشواہا صاحب* بھی موجود تھے۔

مشہور بزرگ مولانا قاری ایوب قاسمی کا انتقال

مشہور بزرگ مولانا قاری ایوب قاسمی کا انتقال


(رضوان سلمانی)
علاقہ کی ممتاز دینی درسگاہ مدرسہ فیض ہدیت رحیمی رائے پور کے صدر المدرسین اور علاقہ کے مشہور بزرگ و صوفیٔ وقت مولانا قاری محمد ایوب کا طویل علالت کے باعث انتقال ہوگیاہے،ان کے انتقال کی خبر سے علمی حلقوں کی فضاء مغموم ہوگئی اور کثیر تعداد میں علماء اور علاقہ کی سرکرہ شخصیات نے ان کی رہائش گاہ عماد پور پہنچ کر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے انتقال کو عظیم علمی خسارہ قرا ردیا اور پسماندگان سے اظہار تعزیت کیا۔

مرحوم گزشتہ کافی دنوں سے علیل تھے اور سہارنپور و ہریانہ میں ان کا علاج چل رہاتھا لیکن قابل ذکر افاقہ نہیں ہوا اور آج صبح تقریباً 82؍ سال کی عمر میں انہوں نے آخری سانس لیں۔ مرحوم نہایت نیک طبیعت،سادہ مزاج،ملنسار ،خوش گفتار اور خوش اخلاق شخصیت کے مالک کے تھے، جن کی پوری دنیا میں درس قرآن اور درس حدیث میں گزری ہے،مرحوم نصف صدی سے زائد عرصہ سے درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے۔

مرحوم کا علاقہ میں علمی، اصلاحی اور تربیتی فیض عام تھا اور وہ علمائ، طلبہ اور عوام میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے۔نماز جنازہ بعد نماز عصر آبائی موضع عمادپور میں مدرسہ فیضان رحیمی مرزاپورپول کے مہتمم مولانا عبدالرشید نے ادا کرائی ،بعد ازیں ہزاروں سوگواروں کے درمیان تدفین عمل میں آئی ۔

نماز جنازہ میں جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے امین عام مولانا شاہدالحسنی ، ضلع صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ظہور احمدقاسمی، صوفی معین الدین نلہیڑہ، شیخ الحدیث مولانا طاہر قاسمی ،خانقاہ رائے پور کے متولی شاہ عتیق اور جامعہ رحمت گھگرولی کے مہتمم مولانا عبدالمالک مغیثی سمیت کثیر تعداد میں علماء اور علاقہ کے سرکردہ افراد و عوام نے شرکت کی ۔

پسماندگان میں بیوہ کے علاہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔مولانا ایوب کے انتقال پر عاشق ملت مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی قومی صدر آل انڈیا ملی کونسل نے انتہائی افسوس کا اظہار کیا اور اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مولانا کی وفات ملت کا عظیم خسارہ ہے۔ مرحوم نے ہمیشہ سادہ زندگی گزاری ،وہ ایک کامیاب استاذ تھے،اپنی شرافت نفس اور نرم گفتاری کی وجہ سے طلباء کے درمیان محبوب و مقبول تھے، آپ جیسے ذی علم اور درویش صفت استاذ کا سایہ امت سے اٹھ جانا بڑی محرومی ہے با ری تعالی انکو جنت الفردوس کے اعلی درجے میں جگہ عطا فرمائے ۔

مولاناایوب کی وفات پر جامعہ رحمت گھگھرولی میں ایک تعزیتی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں انکے لیے ایصال ثواب اور مغفرت کی دعا کی گئی۔ اسی اثنا مولانا ڈاکٹر عبدالمالک مغیثی جامعہ رحمت گھگھرولی و ضلع صدر ملی کونسل سہارنپور نے کہاکہ مولانا کی وفات سے مجھے ذاتی صدمہ پہنچا ہے،مدرسہ فیض ہدایت کیلئے بھی یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ، مرحوم بے شمارخوبیوں کے مالک تھے ،وہ اپنی سادگی اور ایماندارانہ صفا ت اور خلوص و للہیت مقبول تھے۔

اس دوران ملی کونسل اور ادارہ جامعہ رحمت گھگھرولی کے ذمہ داران پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے دعاء ایصال ثواب کیا۔ادھر جامعہ دعوۃ الحق معینیہ چررہو کے ناظم اعلیٰ مولانا شمشیر قاسمی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہاکہ معروف علمی وروحانی شخصیت مولانا قاری محمد ایوب قاسمی کا انتقال ملت کے لیے ماضی قریب کے حادثات میں سے ایک بڑا حادثہ ہے عہد حاضر میں ان کا شمار علماء کرام کے اس طبقے سے ہوتا تھا جو صرف قرآن وسنت کی روشنائی سے زمانے کو ہی منور نہیں کررہے تھے بلکہ اپنی زندگی کا ایک ایک پل قرآن وسنت کے اتباع میں گزار کر عملی نمونہ پیش کرتے رہے تھے ،مرحوماخلاص و للہیت کے عظیم جوہر تھے۔دریں اثناء جامعہ دعوت الحق معینیہ چررہو رامپور منیہاران میں قرآن خوانی کرکے ایصال ثواب اور حضرت کے رفع درجات کے لئے دعا کی گئی

16 جون کو بند ہو جائے گی ' گوگل ٹاک ' سروس ، پھر آپ کیا کریں گے ؟

16 جون کو بند ہو جائے گی ' گوگل ٹاک ' سروس ، پھر آپ کیا کریں گے ؟

گوگل نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمعرات یعنی 16 جون کو اپنی سروس 'گوگل ٹاک' بند کر رہا ہے، گوگل ٹاک نے ٹیکسٹ اور وائس دونوں طرح کا مواصلاتی نظام پیش کیا تھا۔ کمپنی نے ایک بلاگ پوسٹ میں لکھا ہے کہ ''ہم گوگل ٹاک کو بند کر رہے ہیں۔ 16 جون 2022 کو ہم پجن اور گاجم سمیت تھرڈ پارٹی کے ایپس کے لیے اپنی حمایت ختم کر دیں گے، جیسا کہ ہم نے 2017 میں اعلان کیا تھا۔''بلاگ پوسٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ''اپنے رابطوں کے ساتھ چیٹ جاری رکھنے کے لیے ہم گوگل چیٹ کا استعمال کرنے کی صلاح دیتے ہیں۔ آپ دوسروں کے ساتھ زیادہ آسانی سے منصوبہ بنا سکتے ہیں، فائلس کو شیئر اور کولیبوریٹ کر سکتے ہیں اور چیٹ کی بہترین اسپیس فیچر کے ساتھ کام اسائن کر سکتے ہیں۔ آپ کے پاس بھی وہی مضبوط فشنگ سیکورٹی ہے جو ہم جی میل میں بناتے ہیں۔''ینڈرائیڈ پولیس کے مطابق گوگل ٹاک کمپنی کی بنیادی انسٹینٹ میسجنگ سروس تھی جسے شروع میں جی میل رابطوں کے درمیان فوری بات چیت کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ لیکن نئی گوگل خدمات کے ذریعہ بدلے جانے سے پہلے یہ جلد ہی بڑھ گئی۔ گوگل ٹاک اینڈرائیڈ ڈیوائسز کے ساتھ ساتھ بلیک بیری پر بھی ایک ایپلی کیشن بن گیا۔ 2013 میں کمپنی نے سروس کو ختم کرنا شروع کر دیا اور لوگوں کو اپنے دیگر میسجنگ ایپ پر سوئچ کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت گوگل ہینگ آؤٹس تبدیل شدہ میسجنگ ایپ تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ سروس اب بھی بند ہو گئی ہے، گوگل چیٹ آپ کو گوگل اکاؤنٹس کے ذریعہ سے فوری پیغام بھیجنے کے لیے اہم متبادل کی شکل میں ہے۔

بغیرشادی پیدا ہونے والا بچہ جائیداد کا حقدار : سپریم کورٹ

بغیرشادی پیدا ہونے والا بچہ جائیداد کا حقدار : سپریم کورٹ

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے اہم فیصلہ سناتے ہوئے بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کو بھی باپ کی جائیداد میں حقدار قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر کوئی عورت اور مرد طویل عرصے تک ساتھ رہتے ہیں تو اسے شادی سمجھا جائے گا اور اس رشتے سے پیدا ہونے والے بچوں کو بھی باپ کی جائیداد میں حق ملے گا۔

سپریم کورٹ نے کیرالہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا جس میں عدالت نے ایک نوجوان کو اس کے والد کی جائیداد میں حصہ دار نہیں سمجھا کیونکہ اس کے والدین کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ دونوں نے شادی نہیں کی ہو گی لیکن دونوں ایک طویل عرصے سے میاں بیوی کی طرح ساتھ رہے ہیں۔ ایسے میں اگر ڈی این اے ٹیسٹ میں یہ ثابت ہو جائے کہ بچہ ان دونوں کا ہے تو بچے کا باپ کی جائیداد پر پورا حق ہے۔

کیرالہ ہائی کورٹ کا فیصلہ پلٹ گیا۔

کیرالہ کے ایک شخص نے اپنے والد کی جائیداد کی تقسیم میں حصہ نہ ملنے پر ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اسے ناجائز بیٹا کہہ کر حصہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ جس شخص سے وہ جائیداد کا دعویٰ کر رہا ہے، اس کی ماں نے اس سے شادی نہیں کی، ایسی صورت میں اسے خاندانی جائیداد کا حقدار نہیں سمجھا جا سکتا۔

لائیو ان ریلیشن کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟

2010 میں سپریم کورٹ نے لیو ان ریلیشن شپ کو تسلیم کیا۔ اس کے ساتھ گھریلو تشدد ایکٹ 2005 کے سیکشن 2 (ایف) میں بھی لیو ان ریلیشن کا اضافہ کیا گیا۔ یعنی لیو ان میں رہنے والا جوڑا گھریلو تشدد کی رپورٹ بھی درج کرا سکتا ہے۔ لیو ان ریلیشن کے لیے جوڑے کو میاں بیوی کی طرح ایک ساتھ رہنا پڑتا ہے لیکن اس کے لیے کوئی وقت کی حد نہیں ہے۔

روہت شیکھر نے نارائن دت تیواری کے ساتھ اپنے تعلقات کو ثابت کیا۔

ایسا ہی معاملہ کانگریس کے رہنما نارائن دت تیواری کے ساتھ بھی ہوا، جو اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تھے۔ کانگریس لیڈر اجولا شرما نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا اور نارائن دت تیواری کا رشتہ تھا جس سے ایک بیٹا روہت شیکھر پیدا ہوا تھا۔ اس نے تیواری کی جائیداد میں روہت کا حق مانگا تھا۔ نارائن دت تیواری نے عدالت میں رشتہ سے انکار کیا تھا۔

طویل مقدمے کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دیا۔ اس ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ روہت شیکھر نارائن دت تیواری کا بیٹا ہے۔ عدالت کے حکم کے بعد روہت اور اجولا کو نارائن دت تیواری نے گود لیا تھا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...