Powered By Blogger

جمعرات, جون 23, 2022

پٹنہ ہائی کورٹ: تمام ججوں کے لیے خریدا جائے گاایپل آئی فون

پٹنہ ہائی کورٹ: تمام ججوں کے لیے خریدا جائے گاایپل آئی فون پٹنہ ہائی کورٹ نےتمام ججوں کوApple iPhone 13 Pro فراہم کرنے کے لیے سپلائرز یا مجاز ڈیلروں کو مدعو کرتے ہوئے ٹینڈر جاری کیا ہے۔ اس سلسلے میں پٹنہ ہائی کورٹ کے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی کے دفتر سے21 جون2022 کو ایک خط جاری کیا گیا۔

ٹینڈر کے مطابق، معروف فرم، مجاز ڈیلرز، سپلائرز اور سروس فراہم کرنے والے افسر خصوصی ڈیوٹی کے دفتر کے سامنے سیل بند لفافے میں کوٹیشن فائل کر سکتے ہیں۔

بولی دہندگان اپنا آدھار کارڈ، پین کارڈ، جی ایس ٹی نمبر، رجسٹرڈ موبائل نمبر اور دیگر ضروری دستاویزات بھی جمع کرا سکتے ہیں۔

پٹنہ ہائی کورٹ شرائط و ضوابط کے مطابق کسی بھی فراہم کنندہ کمپنی کو پیشگی ادائیگی نہیں کرے گی۔

عدالت صرف مناسب بینکنگ سسٹم موڈ کے ذریعے ادائیگی کرے گی۔

عدالت کسی بھی وقت بولی دہندگان کی درخواست کو مسترد کرنے کی حقدار ہوگی۔

فراہم کنندہ کمپنی کے منتخب ہونے کے بعد، اسے ججوں کی فراہمی کے لیے فون کے ساتھ تیار رہنا ہوگا۔

خیال رہے کہ ایکApple iPhone 13 Pro 256 GB فون کی قیمت 1.38 لاکھ روپے ہے۔

پٹنہ ہائی کورٹ میں چیف جسٹس سنجے کرول سمیت 31 جج ہیں۔

Huffazul Quran Gets Honor قرآن مجید حفظ کرنے والے طلبہ کو اعزاز سے نوازا گیا

Huffazul Quran Gets Honor قرآن مجید حفظ کرنے والے طلبہ کو اعزاز سے نوازا گیامدرسہ صدیقیہ تحفیظ القرآن میں ایک اعزازی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں حفاظ کرام کی گلپوشی کی گئی اور انھیں انعامات سے نوازا کیا گیا۔ اس موقع پر بچوں کے والدین، اساتذہ کرام اور علاقے کے لوگوں نے مسرت کا اظہار کیا۔ Huffazul Quran Gets Honor
اس خوشی کے موقع پر مدرسہ میں ایک اعزازی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں حفاظ کرام کی گلپوشی کی گئی اور انھیں انعامات سے نوازا کیا گیا۔ اس موقع پر بچوں کے والدین، اساتذہ کرام اور علاقے کے لوگوں نے مسرت کا اظہار کیا۔

قرآن مجید حفظ کرنے والے طلبہ کو اعزاز سے نوازا گیا
جن پانچ بچوں نے ایک ہی وقت میں صبح سے شام تک قرآن کو مکمل سنایا تھا ان کے قرآن کے حفظ کو سننے کے لیے کئی مفتیان کرام نے وقت دے کر ان کا قرآن کو سنا، یعنی مفتیان کرام ایک ایک دو دو گھنٹے پر بدلتے رہے مگر بچے قرآن کو تسلسل کے ساتھ سناتے رہے۔

تحفظ دین - وقت کی بڑی ضرورت___

تحفظ دین - وقت کی بڑی ضرورت___
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
ہندوستانی مسلمان تاریخ کے بد ترین دور سے گذر رہے ہیں، ان کی جان ومال ، عزت وآبرو پر حملے اس کثرت سے ہونے لگے ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی ملک ہے، جہاں سارے مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق دیے گیے تھے اور مختلف مذاہب وتہذیب کے لوگ جہاں شیر وشکر ہو کر رہتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد کے شریک اور ایک دوسرے کی خوشیوں سے خوش ہوا کرتے تھے، زمانہ بدلا، وہ لوگ چلے گیے ، جنہوں نے اس ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے ہر طرح کی قربانی دی تھی اور زندگی کا بڑا حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذار دیا تھا ، انہوں نے صرف ایک خواب دیکھا تھا کہ اس ملک میں ذات، برادری ، مذہب او رعلاقائیت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہوگی، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب میں ہر مکتب فکر اور مذاہب کے لیے آزادی ہوگی، یہ وہ ملک تھا جسے جنت نشان اور سارے جہاں سے اچھا کہا جاتا تھا۔ 
 زمانہ بدلا ، حالات نے کروٹ لی ، پارٹیوں کے نظریات تبدیل ہوئے او راقلیتوں پر مسائل ومصائب کے پہاڑ توڑے جانے لگے ، دھیرے دھیرے انہیں خصوصا مسلمانوں کو اس سطح پر لا کھڑا کیا گیا کہ وہ ہریجن اوردلتوں سے بھی نیچے چلے گیے، ہریجن اور دلتوں کو اوپر اٹھا نے کے لیے انہیں رزرویشن دیا گیا تھا ، مسلمان کو اس سے بھی محروم رکھا گیا ، تمام وہ برادریاں جو دوسرے مذاہب کی ہیں اور معاشی طور پرپس ماندہ ہیں، ان کو رزرویشن کا فائدہ ملا، لیکن وہی کام کرنے والا مسلمان اس سے محروم کر دیے گئے، صرف اس لیے کہ وہ محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھتے ہیں، اور اسلام میں برادری کا وہ تصور نہیں ہے جو دوسرے مذاہب میں پایا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے اس سطح تک پہونچ جانے کے بعد دستور میں دیے گیے حقوق سے انہیں محروم کرنے کی سازش رچی گئی ، مختلف بہانوں سے انہیں ملازمتوں سے دور رکھا گیا ، ان کی مسجدوں پر حملے کیے گئے ، بابری مسجد توڑ دی گئی،اور عدالت نے غیر مسلموں کے حوالہ اس کی زمین کر دیا،ائمہ ومؤذن کو شہید کیا گیا، ہجومی تشدد کے ذریعہ کبھی لو جہاد ، کبھی گئو کشی اور کبھی بغیر کسی سبب کے مسلمانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ دراز ہوا ، تعلیمی نظام کے بھگوا کرن کی تحریک چلائی گئی ، بعض ریاستوں میں یوگا اورسورج نمسکار کو اسکولوں میں لازم قرار دیا گیا ،اذان پر پابندی کی بات کی گئی اور مساجد سے مائک کے استعمال تک کے لیے پر میشن اور اجازت لینے کا حکم جاری کیا گیا، ہماری مذہبی شناخت چھین لینے کی مسلسل اور منظم کوشش اب بھی جاری ہے ، کبھی ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دیا جا رہا ہے ، کبھی نقاب اور حجاب پر سوالات اٹھائے جا رہے، طلاق کے نظام کو ختم کیا جا رہا ہے، ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جنہوں نے مذہب کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا ہے ، اس طرح اب مسلمانوں کو ان حالات کا سامنا ہے، جس میں ان کے دینی عقائد ونظریات پر ضرب لگائی جا رہی ہے او ریہ سب کچھ حکومت کی نگرانی اور سایے میں ہو رہا ہے،اس طرح دین اسلام کو دیش نکالا دینے کی تحریک زوروں پر چل رہی ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑدینا چاہیے ، ان کی جگہ قبرستان یا پاکستان ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلمان ہندوستان میں اکابر امت کے مشورہ سے ایسی جد وجہد اور تحریک کا آغاز کریں جس سے حکومتی سطح سے دین میں کی جانے والی مداخلت کا سد باب کیا جا سکے، اور بتایا جا ئے کہ مسلمان یہاں کی دوسری بڑی اکثریت ہے، اس لیے دستور میں اسے جو تحفظات دیے گیے ہیں ، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور اس کام کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
 یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دین بچانے کے لیے حکمرانوں کے فیصلے کی مخالفت کے ساتھ ، دین کو اپنی زندگی میں اتارنے کی بھی ضرورت ہے، دین بچانے اور اس کے تحفظ کے لیے پہلا کام خود کرنے کا ہے اور وہ ہے کہ ہم بد عملی اور بے عملی سے دور رہیں، اسلام نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، اسے بجالائیں، جن کا موں سے روکا ہے، اس سے رک جائیں ، ہرپل ہمیں اس کا خیال رہے کہ ہماری نگرانی ہو رہی ہے، اللہ دیکھ رہا ہے ، اور اگر ہم نے دین سے دوری اختیار کی تو اس کی سزا ہمیں ملے گی ،یہ احساس جس قدر غالب ہوگا، دین ہمارے کیرکٹر، کردار، اعمال وافعال میں محفوظ ہوجائے گا، جب ذاتی زندگی میں ہم شریعت پر عمل پیرا ہوں گے تو ہمیں نئی طاقت وتوانائی ملے گی اور دین میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف ہمارے جذبے اور حوصلے جواں ہوں گے اور بقول علامہ اقبال   ؎
جوانو! یہ صدائیں آ رہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چو رہو جائیں جو ہو عزم سفر پیدا

بدھ, جون 22, 2022

مہر ناز کی یوم پیدائش کی دوسری سالگرہ پر رشتہ داروں نے دعاؤں سے نوازا

مہر ناز کی یوم پیدائش کی دوسری سالگرہ پر رشتہ داروں نے دعاؤں سے نوازا 

(حاجی پور٢٢ جون ، نمائندہ ) موضع بھیرو پور کے مشہور و معروف سابق استاد جناب شہاب الرحمن صدیقی صاحب کی پوتی مہر ناز بنت نیر اعظم نے٢٣ جون ٢٠٢٢ء بروز جمعرات اپنی عمر کے دو سال مکمل کر لیے۔ محض دو سال کی عمر میں ماشاءاللہ اس معصوم سی بچی کو کئ مسنون دعائیں ، اردو اور انگریزی کے حروف تہجی کے علاوہ چند الفاظ بھی ذہن نشیں ہیں ۔ ماشاءاللہ مہر ناز بہت ہی زیادہ ذہین، اخلاق مند ، خوش مزاج اور چنچل ہے ۔ وہ اپنے گھر کے تمام افراد کی لاڈلی و چہیتی تو ہے ہی ساتھ ساتھ وہ اپنے خوش مزاجی اور چنچل پن کی وجہ کر تمام رشتہ داروں و پڑوسیوں کی بھی چہیتی ہے ۔ آج اس کی دوسری سالگرہ پر دادا دادی، نانا نانی ، والدین ، ابا اماں ، بابا ، تاۓ ابو ، ماموں ممانی، خالہ خالو ، بھائ بہن و تمام رشتہ داروں میں خوشی ہے اور تمام لوگوں نے اس کے بہتر صحت ، علم نافع ، دینداری اور بہتر مستقبل کی دعائیں دی ہیں ۔ شہاب الرحمن صدیقی نے قارئین سے بھی  اپنی پوتی کے روشن مستقبل کے لیے  دعا کی درخواست کی ہے ۔ یہ اطلاع مہر ناز کے بڑے ابو قمر اعظم صدیقی بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا نے دی ہے ۔

ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے پر حیدرآباد میں 15 لاکھ ووٹ خارج ہوسکتے ہیں

ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے پر حیدرآباد میں 15 لاکھ ووٹ خارج ہوسکتے ہیںفی الحال 2ووٹ رکھنے والے 5لاکھ رائے دہندوں کی نشاندہی۔ اخراج کا عمل شروع

حیدرآباد :22 جون (اردو دنیا نیوز۷۲ نیوز) سنٹرل الیکشن کمیشن نے ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے جس کے بعد ملک بھر میں ایک جامع ووٹر لسٹ مرتب کرنے کی مشق شروع کردی گئی ہے ۔ فہرست رائے دہندگان میں نئے ناموں کے اندراج کے علاوہ ایک سے زائد رہنے والے نام اور بوگس ناموں کے اخراج کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے ۔ اس سلسلہ میں جی ایچ ایم سی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر ووٹر لسٹ کو آدھار کارڈ سے جوڑا جاتا ہے تو شہر حیدرآباد میں تقریباً 15 لاکھ ووٹس فہرست رائے دہندگان سے خارج ہوسکتے ہیں ۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ گزشتہ سال 5 لاکھ رائے دہندوں کے ایک سے زائد نام فہرست رائے دہندگان میں شمار ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ ریاست کے مختلف اضلاع کے ساتھ ساتھ پڑوسی ریاست آندھراپردیش اور دیگر ریاستوں کے لاکھوں لوگ روزگار ، کاروبار ، تجارت اور دیگر اغراض کی وجہ سے شہر حیدرآباد پہنچتے ہیں ۔ اس طرح شہر میں مقیم افراد کے حیدرآباد کے علاوہ ان کے آبائی مقامات کی فہرست رائے دہندگان میں نام شامل ہیں اگر ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کیا جاتا ہے تو اس تناظر میں انہیں کسی ایک مقام سے ووٹ دینے کا حق حاصل ہوگا ۔ چیف سکریٹری سومیش کمار جب جی ایچ ایم سی کے کمشنر تھے انہوں نے تجربہ کے طور پر ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے جوڑنے کا کام کیا تھا ۔ تب 10 لاکھ ڈوپلیکٹ ووٹ ہونے کی نشاندہی ہوئی تھی اور بوگس ووٹوں کو فہرست رائے دہندگان سے خارج کرنے کے عمل کا آغاز بھی کیا گیا تھا ۔ تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے بڑے پیمانے کی مخالفت کرنے پر اس عمل کو روک دیا گیا تھا ۔ اب ملک بھر میں ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا عمل شروع ہورہا ہے ۔ اگر ریاست میں یہ عمل شروع ہوتا ہے تو حیدرآباد کی فہرست رائے دہندگان سے 15 لاکھ ووٹوں کا اخراج یقینی ہے ۔ رائے دہندوں کیلئے ان کے ووٹوں کو آدھار سے مربوط کرنا لازمی ہے ۔ اس کے لئے فارم 6B کی خانہ پوری کرتے ہوئے متعلقہ عہدیداروں کے پاس جمع کرانا ہوگا ۔ آدھار نہ رکھنے والے پاسپورٹ نمبر ، ڈرائیونگ لائیسنس نمبر یا پیان کارڈ نمبرات سے مربوط کریں ۔ ووٹر لسٹ میں نئے ناموں کا اندراج کرانے والوں کو آدھار کارڈ نمبر لازمی ہے ۔ وہ لوگ جو پہلے سے ووٹر لسٹ میں شامل ہیں انہیں اپنے آدھار نمبر سے مربوط کرانا ضروری ہے

مولانا مقصود عالم قاسمی ؒؒ___

مولانا مقصود عالم قاسمی ؒؒ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 پورے ایک سال بیت گیے، ۲؍ مئی ۲۰۲۱ء بروز اتوار مطابق ۱۹؍ رمضان ۱۴۴۲ھ شام کے ساڑھے پانچ بجے حاجی پور کے معروف عالم دین ، سماجی کاموں کی جان، نون گولہ مسجد کے امام مولانا مقصود عالم قاسمی نے اس دنیا کو الوداع کہا تھا، ظاہری سبب برین ہیمریج تھا، پٹنہ کے میداز ہوسپیٹل میں بھرتی کرایا گیا تھا، لیکن جاں بر نہیں ہو سکے، جنازہ کی نماز ۳؍ مئی بروز سوموار دن کے دو بجے ان کے بھتیجہ حافظ محمد ارشاد نے کربلا واقع جڑھوا، حاجی پور کے میدان میں پڑھائی اور کربلاہی کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، مولانا لا ولد تھے، پس ماندگان میں اہلیہ اور سات بھائیوں اور ان کی اولاد واحفاد کو چھوڑا۔
 مولانا مقصود عالم بن حاجی امام بخش انصاری (م ۲۰۱۶ئ) بن عبد الحکیم (م ۱۹۹۱ئ) کی ولادت ۸؍ اپریل ۱۹۶۳ء کو حاجی پور کے محلہ چھپی ٹولہ ، چوہٹہ نزد آر این کالج حاجی پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم ، فیض العلوم گول مری (ساکچی) جمشید پور میں حاصل کیا، ۱۹۸۰ء تک یہیں قیام پذیر رہے، ۱۹۸۱ء میں انہوں نے جامع العلوم مظفر پور میں داخلہ لیا، حفظ کی تکمیل کے بعد عربی کی ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی، ۱۹۸۸ء تک یہاں قیام رہا، پھر سال کے اخیر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیو بند تشریف لے گیے، اور ۱۹۹۳ء میں فراغت حاصل کی، تدریسی زندگی کا آغاز انہوں نے ۱۹۹۴ء میں حاجی پور واقع مدرسہ انجمن اسلامیہ فلاح المسلمین سے کیا، اور ۱۹۹۷ء تک اسے تعلیمی اور تعمیری اعتبار سے ترقی سے ہم کنار کرنے میں مصروف رہے، لیکن جلد ہی وہ حاجی پور کی سیاست کے شکار ہو گیے اور انہوں نے اس ادارہ سے قطع تعلق کر لیا، امامت کے فرائض نون گولہ مسجد میں ادا کرتے رہے اور تقریبا تیس سال بلکہ آخری دم تک پوری دل جمعی اور مستعدی کے ساتھ کیا، شہر کی سماجی ، تعلیمی اور مذہبی پروگراموں میں شرکت بھی کرتے اور خود بھی انعقاد کراتے، بعض موقعوں پر مجھے بھی یاد کرتے اور میری تقریر کرواتے۔ علاقہ کے مدارس خصوصا مدرسہ فردوس العلوم لعل گنج کے بڑے معاون تھے، حاجی پور میں انہوں نے اس کے معاونوں کا مضبوط حلقہ تیار کر دیا تھا، وہ متمول خاندان کے چشم وچراغ تھے، شہر میں ان کی کپڑے کی دوکان آج بھی مشہور ہے، بھائیوں میں اتحاد واتفاق مثالی تھا، اس لیے مشترکہ خاندان کے ساتھ ہی انہوں نے زندگی گذاردی، ان کے تعلقات سسرال اور نانی ہال دونوں جگہ مضبوط تھے، ان کی نانی ہال نون گولہ حاجی پور ہی میں تھی ، نانا کا نام محمد ہاشم تھا، سسرال شیتل پور سارن میں تھا، سسرکا نام محمد نظام (م ۲۰۱۸ئ) تھا، شادی ۱۹۸۸ء میں ہوئی تھی۔ 
ویشالی ضلع میں عازمین حج کا تربیتی پروگرام وہ بہت پابندی سے کرتے تھے، ان کی سہولتوں کا پورا خیال رکھتے، مضبوط ضیافت کرتے، ہم لوگ بھی مدعو ہوتے، تربیتی گفتگو کا موقع مجھے بھی دیتے اور سراہتے۔
واقعہ یہ ہے کہ ویشالی ضلع میں ہر سال عازمین کے لیے دو تربیتی کیمپ لگا کرتا تھا، ایک کا انتظام مولانا مقصود عالم مرحوم کیا کرتے تھے، یہ حاجی پور میں لگتا تھا، مولانا مقصود عالم حج ٹرینرکی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھایا کرتے تھے، دوسرا معیاری اور مثالی تربیتی کیمپ حاجی محمد اسماعیل اور برادران کے ذریعہ چھپرہ خرد ، سہان ویشالی میں منعقد ہوتا تھا، جس کے ٹرینر حاجی محمود عالم صاحب مصنف رہنمائے حج وزیارت ہوا کرتے تھے اور عازمین کو قیمتی تحائف دیا کرتے تھے، پھر کورونا آگیا تین سال حج کا سفر بند رہا، جن کے لیے تربیتی کیمپ لگاکرتا تھا اس کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی، اس بار اللہ اللہ کرکے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے، لیکن مولانا مقصود صاحب رہے ہی نہیں، اس لیے ان کی جانب سے لگایا جانے والا کیمپ بند ہو گیا، بعض وجوہات سے حاجی اسماعیل برادران کے ذریعہ لگایا جانے والا کیمپ بھی نہ لگ سکا ، ویشالی میں عازمین کی تربیت کے حوالہ سے سناٹا ہی پَسرا ہوا تھا، ایسے میں اللہ رب العزت نے مولانا نظر الہدیٰ قاسمی کو جو حج کمیٹی بہار کی جانب سے ٹرینر بھی ہیں، کھڑا کیا اور انہوں نے معہد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سرائے ویشالی میں ۶؍ جون ۲۰۲۲ء کو عازمین کے لیے تربیتی کیمپ کا انعقاد کیا ہے، اس طرح مولانا مقصود عالم مرحوم نے جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس کو تسلسل عطا کرنے کا کام مولانا محمد نظر الہدیٰ قاسمی کے ذریعہ کیا جا رہا ہے، اللہ کرے یہ سلسلہ جاری رہے۔
 اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو ۲۰۰۶ء اور ۲۰۱۲ء میں حج کی سعادت نصیب فرمائی، حج کی تربیت کے معاملہ میں بھی سیاست نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا ایک دوسرے صاحب کھڑے ہوگیے ،پہلے تو انہوں نے جڑھوا اقلیتی ہاسٹل میں اس کام کو شروع کر دیا، اس طرح مولانا کاپروگرام ہلکا پڑنے لگا، وجہ یہ ہوئی کہ وہ دوسرے صاحب ٹیکہ کا انتظام اپنے کیمپ میں کر دیتے تو عازمین ایک پینتھ دو کاج کے جذبہ سے وہاں شریک ہوجاتے، بعد میں وہ صاحب  سنگی مسجد حاجی پور میں پروگرام کرانے لگے، حاجی پور میں مساجد بہت ہیں اور امام بھی ہر مسجد میں مقرر ہیں، لیکن چند اماموں کو اللہ نے خصوصی مقبولیت دے رکھی ہے، اور وہ زمانہ دراز سے اس فرض منصبی کو ادا کر رہے ہیں، ان میں مولانا مقصود عالم صاحب مرحوم، مولانا محمد اظہار الحق قاسمی ، چوک مسجد حاجی پور، ان کے بھائی صوفی مختار الحق للہی پوکھرا مسجد حاجی پور، حافظ عبد الحق صاحب امام مسجد باغ ملی حاجی پورکے نام خاص طور سے لیے جا سکتے ہیں، بقیہ مساجد کے امام ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔اس لیے ان کا فیض دیر پا نہیں ہوتا۔
 مولانا واقعتا بافیض تھے، بدن بھاری اور چہرہ وجیہ تھا، دین کے سلسلہ میں حساس تھے، وہ مدرسہ اسلامیہ انوار العلوم پہاڑی چک دودھیلا میں صدر مدرس کے عہدے پر بھی فائز تھے۔ اس مدرسہ کے ذریعہ بھی انہوں نے علاقہ کی خدمت کی، مولانا کے اندر خاکساری تھی، تواضع اور انکساری تھی، لباس  وپوشاک سے بھی ان کی نفاست جھلکتی تھی، خوش خوراک بھی تھے، قلب کے مریض ہونے کے بعد خورد ونوش پر پابندیاں تھیں، اس کے باوجود جسم وجثہ کے طول وعرض پر بڑا فرق نہیں پڑا، اللہ نے اپنے پاس بلا لیا ، تو بظاہر ایک خلا پیدا ہو گیا ہے، اس خلا کو پر کرنے والی ذات اللہ کی ہے اور وہ ضرور اس کی تلافی کرے گا۔

یوپی کے مدارس میں منایا گیایوگا ، طلباء اور اساتذہ نے حصہ لیا

یوپی کے مدارس میں منایا گیایوگا ، طلباء اور اساتذہ نے حصہ لیالکھنو کے مدارس میں پڑھنے والے طلباءنے بھی یوگا کیا۔ عالمی یوم یوگا کے موقع پر مدرسہ کے طلبہ کو یوگا کرانے والے اساتذہ نے جوش و خروش سے حصہ لیا اور طلبہ کو یوگا کرنے کی ترغیب دی۔لکھنوکے دارالعلوم مدرسہ میں طلباءنے اجتماعی طور پر یوگا کیا۔ طلباءکو یوگا کے بارے میں بتایا گیا جو صحت کےلئے مفید ہے۔ یوگا کرنا اور کرانا دونوں کو زندگی بچانے والا بتاتے ہوئے استاد نے کہا کہ زندگی میں یوگا کو اپنانا ضروری ہے۔شہر کے دیگر مدارس میں بھی طلباءنے یوگا کیا۔ جسم کو تندرست رکھنا ضروری ہے۔ مدرسہ کے استاد فیضی نے کہا کہ ملک اور ریاست میں یوگا ڈے منانے کےلئے سبھی آگے آئے ہیں تو پیچھے کیسے رہیں۔ یوگا ڈے پر طلباءکے ساتھ انہوں نے بھی یوگا کیا۔انہوں نے کہا کہ لکھنو کے علاوہ ریاست کے دیگر اضلاع میں مدارس کے اساتذہ نے بھی اپنا فرض ادا کیا اور بین الاقوامی یوگا ڈے میں حصہ لیا۔ یوگا ڈے کے موقع پر طلبہ کو یوگا کی مشق کرانے کے بعد بعض مقامات پر مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...