Powered By Blogger

پیر, جون 27, 2022

ناخن پالش اور لپ اسٹک لگانا کفار کی تقلید ہےشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

ناخن پالش اور لپ اسٹک لگانا کفار کی تقلید ہے
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
(اردو دنیا نیوز۷۲)
جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 
انگریزوں کی ایک سو سالہ  غلامی کی وجہ سے ہم شدید قسم کے احساسِ کمتری کا شکار ہو چکے ہیں اس لئے ہمارے لوگوں میں مغربی فیشن اپنانے کا بہت زیادہ رجحان پایا جاتا ہے خواہ وہ فیشن ہمارے حالات، ہماری تہذیب و ثقافت، اور ہمارے یہاں کے موسم کے مدوجزر سے میل کھاتا ہو یا نہ کھاتا ہو، اس میں ہمارے لئے جسمانی راحت ہو یا نہ ہو ہمارے مالی وسائل ہمیں اس کی اجازت دیں یا نہ دیں لیکن ہمارے اندر چھپا ہوا غلام ہمیں اپنے سابق آقاؤں کی شکل و صورت بنانے اور لباس میں ان جیسی تراش خراش اپنانے پر مجبور کردیتا ہے اور اہل مغرب کا حال یہ ہے کہ وہ کسی ایک فیشن پر زیادہ ٹکتے ہی نہیں چنانچہ بعض اوقات عجیب مضحکہ خیز صورت سامنے آتی ہے ہمارا ماڈرن طبقہ بڑے ذوق شوق سے ایک فیشن کو اپناتا ہے تو خبر آتی ہے کہ یہ فیشن تو اب مغرب میں متروک ہو چکا ہے اور یورپ میں جس قسم کے فیشن اپنائے جارہے ہیں ان کا اندازہ اس خبر سے بخوبی ہوسکتا ہے 
 انیس سو ترانوے ء  (1993) میں فیشن کی ایک ماڈل مس ہیلن نے چوبیس انڈوں کا ہیٹ پہنا اور دوسری ماڈل مس چیری نے فرائی پین سر پر فٹ کر لیا تمام دنیا کے رسائل اور اخبارات نے ان کی تصاویر چھاپ کر ہیٹ زدہ خواتین کو ترغیب دی کہ وہ بھی سروں پر انڈے آملیٹ بنانے کا فرائی پین باندھیں بہت خوبصورت لگیں گی۔  اور اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اہل مغرب کو کوئی نیا فیشن سوجھ نہیں رہا اس لیے آج کل ان میں جانوروں جیسی شکلیں بنانے اور حیوانوں کی طرح ننگا رہنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور ایسی سوسائٹیاں وجود میں آ چکی ہیں جہاں ستر اور پردہ پوشی کا تصور بھی محال ہے۔  اگر آپ فیشن پرستی کی بیماری کا غور سے جائزہ لیں تو آپ کو اس میں اسراف بھی ملے گا اور عیش پسندی بھی ملے گی اس کے علاوہ اس میں احساسِ کمتری غیروں کی نقالی اپنی ثقافت سے وحشت بلکہ نفرت اور اپنے آپ کو نمایاں اور انوکھے انداز میں پیش کرنے کے جذبات کارفرما دکھائی دیں گے ہمارے یہاں فیشن پرستی کی جو وبا پھیلی ہے وہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے شکل و صورت سے لباس تک زبان سے کھانے پینے کے طور طریقوں تک اور شادی بیاہ سے زندگی کے عام معاملات تک ہر چیز کو اپنے حلقۂ اثر میں لے لیا ہے ۔کس کس فیشن کا رونا رویا جائے ہم تو سر سے پاؤں تک فیشن میں غرق ہوتے جا رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کلچر ہماری ثقافت ہماری اسلامی روایات شرعی فرائض و واجبات اور پیاری پیاری سنتیں فیشن کے سیلاب میں بہہ جائیں گے ۔
عورتوں کو مہندی لگانے کا حکم
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ نے حضور صلی اللہ وسلم سے عرض کیاکہ مجھے بیعت کر لیجئے آپ نے فرمایا کہ میں تم کو اس وقت تک بیعت نہیں کروں گا جب تک کہ تم مہندی لگا کر اپنے ہاتھوں کی صورت نہ بدلو گی تمہارے ہاتھ اس وقت کسی درندے کے سے ہاتھ معلوم ہوتے ہیں (سنن ابی داؤد)
یہ ہند بنت عتبہ ابو سفیان کی بیوی تھیں فتح مکہ کے دن اسلام لائیں اور اسی دن قریش کی دوسری بہت سی عورتوں کے ساتھ پہلی بیعت کی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس حدیث میں ہندہ کی طرف سے جس بیعت کی درخواست کا ذکر ہے بظاہر یہ انہوں نے بعد میں کسی وقت کی ہے اور اسی موقع پر حضور نے ان کو ہاتھوں میں مہندی لگانے کی یہ ہدایت فرمائی ۔ دوسری بعض روایات میں اور بھی بعض عورتوں کا ذکر ہے جن کو آپ نے مہدی استعمال کرنے کی اسی طرح تاکید فرمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت و تعلیم سے اسلامی شریعت کا یہ نقطۂ نظر معلوم ہوگیا کہ عورتوں کو جائز حد تک زینت اور سنگھار کے اسباب استعمال کرنے چاہئیں 
ناخن پالش کی بلا
ناخنوں سے متعلق دو بیماریاں عورتوں میں خصوصاً نوجوان لڑکیوں میں بہت ہی عام ہوتی جارہی ہیں ایک ناخن بڑھانے کا مرض کا دوسرا ناخن پالش کا۔  ناخن بڑھانے سے آدمی کے ہاتھ بالکل درندوں جیسے ہوتے ہیں اور پھر ان میں گندگی بھی رہ سکتی ہے جس میں جراثیم پیدا ہوتے ہیں اور مختلف النوع بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس چیزوں کو ( فطرت) میں شمار کیا ہے ان میں ایک ناخن تراشنا بھی ہے پس ناخن بڑھانے کا فیشن انسانی فطرت کے خلاف ہے جس کو مسلم خواتین کافروں کی تقلید میں اپنا رہی ہیں مسلم خواتین کو اس خلافِ فطرت تقلید سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
دوسرا مرض ناخن پالش کا ہے ۔
حق تعالیٰ شانہٗ نے عورت کے اعضاء میں فطری حسن رکھا ہے ناخن پالش کا مصنوعی لبادہ محض غیر فطری چیز ہے، پھر اس میں ناپاک چیزوں کی آمیزش بھی ہوتی ہے وہی ناپاک ہاتھ کھانے وغیرہ میں استعمال کرنا طبعی کراہت کی چیز ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ناخن پالش کی تہہ جم جاتی ہے اور جب تک اس کو صاف نہ کر دیا جائے پانی نیچے نہیں پہنچ سکتا اس صورت میں نہ وضو ہوتا ہے نہ غسل آدمی نا پاک کا ناپاک رہتا ہے جو تعلیم یافتہ لڑکیاں اور معزز نمازی عورتیں کہتی ہیں کہ ناخن پالش کو صاف کئے بغیر وضو ہو جاتا ہے وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں اس کو صاف کئے بغیر آدمی پاک نہیں ہوتا نہ نماز  ہو گی نہ تلاوت جائز ہوگی 
ناخن پالش اور جدید سائنس ۔
ناخن بھی جسم انسانی کی طرح زندہ ہیں انہیں بھی آکسیجن اور ہوا کی ضرورت ہوتی ہے یہ پانی کے طلب گار ہوتے ہیں اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچے تو تمام جسم ان سے متاثر ہوتا ہے۔  ایک خاتون کو ہاتھوں پر دانے خارش اور پیپ دار پھنسیاں تھیں بہت علاج کرائے لیکن افاقہ نہ ہوا ایک ماہر امراض جلد کے پاس گئیں موصوف عمر رسیدہ اور بہت ماہر مانے جاتے تھے ڈاکٹر صاحب مریضہ کا معائنہ کر کے فرمانے لگے آپ ناخن پالش کتنے عرصے سے استعمال کر رہی ہیں مریضہ کہنے لگی گزشتہ ساڑھے پانچ سالوں سے اور مرض کو کتنا عرصہ ہوا ہے مریضہ نے جواب دیا پانچ سال سے مسلسل مرض موجود ہے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا آپ  ناخن پالش لگانا چھوڑ کر پھر مناسب مختصر علاج کریں مریضہ کا کہنا ہے کہ صرف تیسرے ہفتے میں مکمل صحت یاب ہوگئی ۔
کرومو پیتھی کا اصول ۔
 کرومو پیتھی کے ماہرین کے مطابق رنگ انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انسان جس رنگ کو بار بار دیکھتا ہے اس کا اثر اس کی زندگی پر غالب ہوتا ہے چونکہ اکثر ناخن پالش سرخ رنگ کی ہوتی ہے اور یہ رنگ اشتعال، غصہ، اور بلڈ پریشر ہائی کرتا ہے اس لئے وہ لوگ جو پہلے سے اس مرض میں مبتلا ہوں ان کے امراض میں فوری اضافہ ہوجاتا ہے اور صحت مند آدمی بھی آہستہ آہستہ ان امراض کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ انسانی صحت اور تندرستی کے لئے ہر رنگ کا ایک منفرد مزاج ہوتا ہے۔ موجودہ فیشن نے مختلف ناخن پالش کے استعمال کی ترغیب دی ہے ان مختلف رنگوں کی الرجی عام آدمی کے لئے بھی ناقابل برداشت ہے تو کیا ایک مریض برداشت کر سکے گا؟  ناخن پالش مسامات کو بند کر دیتی ہے مزید چونکہ ناخن پالش میں رنگ دار کیمیکل ہوتے ہیں اس لئے یہ کیمیکل بے شمار امراض کا باعث بنتے ہیں خاص طور پر اس کا اثر جسم کے ہارمونری سسٹم پر بہت برا پڑتا ہے جس سے خطرناک زنانہ امراض پیدا ہوتے ہیں
الغرض ناخن پالش اور لپ اسٹک مسلم خواتین کے لئے استعمال کرنا نہ شرعاً جائز ہے اور نہ ہی سائینسی اعتبار سے درست ہے اسلام نے خواتین کے لئے گھر میں آرائش حسن ( صرف اپنے خاوند کے لئے) سے منع نہیں فرمایا لیکن اس کے لئے مصنوعی اور زہریلی ادویات میک اپ کی شکل میں ہمیشہ نقصان دہ ہیں اور اب تو جدید اور پڑھا لکھا طبقہ میک اپ سے دلبرداشتہ ہو کر پھر سے سادگی کی طرف لوٹ رہا ہے ۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ۔

نوپور شرما ممبئی پولیس کے سامنے پیش نہیں ہوئیں پولیس کی جانب سے آگے کی کاروائی پر آج فیصلہ

نوپور شرما ممبئی پولیس کے سامنے پیش نہیں ہوئیں پولیس کی جانب سے آگے کی کاروائی پر آج فیصلہ
ممبئی۔ بی جے پی کی معطل شدہ لیڈر نوپور شرما پیغمبر اسلام ؐ کے خلاف مبینہ طور پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے کو لے کر اپنے خلاف درج مقدمے کے سلسلے میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے ہفتہ کوممبئی پولیس کے سامنے پیش نہیں ہوئیں۔ایک اہلکار نے بتایا کہ نوپور شرما کے خلاف پیدھونی پولیس اسٹیشن میں 28 مئی کو ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور پولیس نے نوپور کو ای میل کے ذریعے سمن بھیجے تھے۔ اس کے علاوہ ایک ٹیم نوپور کو اس کی کاپی دینے دہلی بھی گئی تھی۔ اہلکار نے کہا، 'چونکہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کرانے نہیں آئی، اس لیے ہم پیر کو آگے کی کارروائی کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔'رضا اکیڈمی کی شکایت پر پایدھونی پولیس نے نوپور شرما کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ بی جے پی کی سابق لیڈر نوپور شرما کو 25 جون کو پائدھونی پولیس اسٹیشن آنے کو کہا گیا تاکہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کرائیں۔ نوپور شرما کے متنازعہ بیان کے بعد ملک کے کئی شہروں میں تشدد پھوٹ پڑا تھا۔حال ہی میں ممبئی پولیس کے ایک اہلکار نے دہلی پولیس پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ دارالحکومت کی پولیس نے نوپور شرما کو تلاش کرنے میں ہماری امید کے مطابق مدد نہیں کی۔ اس کی وجہ سے ممبئی پولیس کو نوپور شرما کو ای میل کے ذریعے سمن بھیجنا پڑا۔
ایسی خاتون کو محض اس لیے نشانہ بنانا کہ اس کی سرگرمیوں سے سیاست اور حکومت کے چند لوگوں کو کچھ پریشانیاں ہو سکتی ہیں، اس سے نہ صرف ملک کے جمہوری نظام کو خطرہ لاحق ہوگا بلکہ اس سے انسانی حقوق کی تنظیموں اور افرادی قوت بھی کمزور ہوگی۔ غیر سرکاری تنظیم یا کارکنان حکومت اور انتظامیہ کے مخالف یا دشمن نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کا کام لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں حکومت کی مدد کرنا ہے۔

سرکاری ملازمین کے لئے خوشخبری،بڑھ سکتی ہے تنخواہ

سرکاری ملازمین کے لئے خوشخبری،بڑھ سکتی ہے تنخواہ

نئی دہلی: جولائی کے مہینے میں حکومت مرکزی ملازمین کو بڑا تحفہ دے سکتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سرکاری ملازمین کے ڈی اے میں اضافہ تقریباً طے ہے اور حکومت اگلے ماہ اس کا اعلان کر سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی خبر ہے کہ حکومت جلد ہی مرکزی ملازمین کے ہاؤس رینٹ الاؤنس میں بھی اضافہ کر سکتی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر حکومت اپنے ملازمین کو تنخواہوں میں اضافہ کرکے بڑا ریلیف دے سکتی ہے۔

تاہم حکومت کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ لیکن یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ حکومت مرکزی ملازمین کو ریلیف دینے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔

ہاؤس رینٹ الاؤنس فی الحال شہر کے زمرے کے مطابق 27 فیصد، 18 فیصد اور 9 فیصد کی شرح سے دیا جا رہا ہے۔ حکومت نے اس سال مہنگائی الاؤنس میں اضافہ کیا تھا لیکن ہاؤس رینٹ الاؤنس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

ایسے میں کہا جا رہا ہے کہ جلد ہی ملازمین کے ہاؤس رینٹ الاؤنس میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مرکزی ملازمین کا مکان کرایہ الاؤنس اگلے سال یعنی 2023 تک بڑھ سکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے نوٹیفکیشن پہلے ہی جاری کر دیا گیا ہے۔

ڈی اے 34 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہونے کی صورت میں ملازمین کے ہاؤس رینٹ الاؤنس میں تین فیصد اضافہ ہوگا۔ جولائی میں ملازمین کے ڈی اے میں 4 سے 5 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

ایسی صورتحال میں ڈی اے 38 سے 39 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ اس اضافے کے بعد بھی 2022 میں ملازمین کے ڈی اے میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقین ہے کہ ڈی اے کے اعداد و شمار 50 فیصد تک پہنچ جائیں گے۔ ایسے میں ملازمین کا ہاؤس رینٹ الاؤنس 30 فیصد تک بڑھ جائے گا۔

اتوار, جون 26, 2022

انقلاب ضرور آۓ گا

انقلاب ضرور آۓ گا (اردو دنیا نیوز۷۲)
ہندوستان میں حالیہ کچھ سالوں میں اچانک شروع ہوئی مذہبی و طبقاتی منافرت نے اب تک نہ جانے کتنے گھروں کو اُجاڑ دیا ہے اور نہ جانے کتنے معصوموں کو یتیم کر دیا ہے باوجود اس کے خود کو 'دیش بھکت' کہنے والا اکثریتی طبقہ اپنے ذہن اور دلوں پر قفل جڑ کر انسانیت کو زندہ دفن کرنے پرآمادہ رہا، یہاں تک کہ جب بی جے پی زیر حکمرانی ریاستوں میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلایا جا رہا تھا اس وقت تو اور بھی زیادہ چٹخارے لے کر 'بابا' کا گُن گان کرتے ہوئے ہندوستانیوں کو پاکستان بھیجنے کا نعرہ لگا کر اپنی منافرت کا اظہار کرتا رہا، مسجد-مندر کے نام پر مسلمانوں کو خوب ستایا گیا لیکن اب جب ان کے شخصی مفادات پر آنچ آئی ہے تب ان کے مردہ ضمیر نے انگڑائیاں لی ہیں۔

محمد اسرائیل مکیا ضلع مدھوبنی کی تصویر ہے

محمد اسرائیل مکیا ضلع مدھوبنی کی تصویر ہے - آ ج تقریباً تین بجے مصر اولیاء ،اورائی مظفرپور اپنے ایک رشتہ دار کے گھر سے لوٹتے ہوئے دھرم پور  کے نزدیک تین بدمعاشوں نے بائیک چھیننے کی کوشش کی ، نہ دینے پر گولی مارکر زخمی کردیا - فی الحال مظفر پور میڈیکل اسپتال میں زیر علاج ہے-
دعاء ہیکہ اللہ تعالیٰ خیر کا معاملہ فرمائے اور شفاء کلی عطاء فرمائے ( آمین )
 واضح رہے کہ گزشتہ تین سالوں سے مدرسہ احمدیہ کریمیہ مصراولیا اورائی مظفرپور میں زیر تعلیم تھا، امسال مدرسہ نہیں آ یا تھا، گھر ہی پرتھا، اس کے والد اس دنیاء میں نہیں ہے -
یہ بچہ عظیم مجاہد آزادی حضرت مولانا عبد الرزاق مکیاوی کا پرپوتاہے
حضرت مولانا عبد الرزاق مکیاوی حضرت شیخ الہند کے شاگرد اور حضرت شیخ منظور احمد نقشبندی مصراولیاوی کے خسر تھے-

ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرےکامران غنی صبا

ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
کامران غنی صبا
........... 
حسن امام قاسمی کا مجموعہ کلام’جنوں آشنا‘ میرے سامنے ہے۔ حسن امام قاسمی صاحب سے میرے مراسم بہت پرانے نہیں ہیں لیکن مختصر سی مدت میں ہی انہوں نے اپنی شخصیت کا جو نقش میرے دل پر قائم کیا ہے ، وہ اب تازندگی مٹ نہیں سکتا ہے(ان شاء اللہ)۔ آج کے عہد میں ایسے مخلص، پرعزم، قوم و ملت کا درد رکھنے والے اور سب سے بڑھ کر نام و نمود اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز لوگ کہاں ملتے ہیں؟ حسن امام قاسمی کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ آپ ’مدرسہ بیک گرائونڈ‘ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مجھے یہ کہنے دیجیے کہ حسن امام صاحب میں ’مدرسہ والوں‘ کی عمومی خصوصیات کا ایک معمولی سا عکس بھی نظر نہیں آتا۔ میں یہاں موضوع سے ہٹ کر دوسری بحث چھیڑنا نہیں چاہتا لیکن حسن امام قاسمی صاحب کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو شروع ہوئی ہے تو میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ مدارس اسلامیہ میں آج بھی حسن امام قاسمی جیسے نوجوان موجود ہیں جن کے یہاں زیورِ علم کے ساتھ ساتھ ’حُسنِ عمل‘ بھی نظرآتا ہے۔ قصور ہماری نظروں کا ہے جو ایسے لعل و گہر کو ڈھونڈ نہیں پاتیں اور مدارس اسلامیہ بدنام ہوتے ہیں کہ یہاں نہ زندگی ہے، نہ معرفت اور نہ نگاہ    ؎
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
(اقبال)
میں خود کو خوش قسمت محسوس کرتا ہوں کہ میرے حلقۂ احباب میں حسن امام قاسمی جیسے مخلص اور بے ریا دوست موجود ہیں۔ حسن امام قاسمی سے میری قربت ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ ایک شرمیلے، کم سخن لیکن پر عزم انسان ہیں۔ ان کی طبیعت میں سوز ہے، عشق ہے۔ وہی عشق جو بندے کو بندگانِ خدا سے بے نیاز کرتا ہے۔ وہی عشق جو بندے کو خدا سے ہم کلام کرتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ حسن امام قاسمی میں دنیاداری برائے نام بھی نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہو اکہ وہ شاعری بھی کرتے ہیں لیکن کس کے لیے کرتے ہیں انہیں خود بھی نہیں معلوم۔میرے اندر بہت حد تک دنیاداری بھی ہے اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں نام و نمود کی تمنا سے بالکل بے نیاز ہوں لیکن اس طرح کے لوگوں سے ملنا، ان سے دوستی کرنا، ان کی خوبیوں کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھنا مجھے پسند ہے۔ حسن امام قاسمی صوبۂ بہار کے مشہور ادارہ جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا میں ایک عرصے تک استادرہے، گزشتہ سال ان کا تقرر چمپارن کے ہی ایک سرکاری مدرسہ میں ہو گیا ہے ۔ جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا، حفظ قرآن کی تعلیم کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ میری ایک عرصے سے خواہش تھی کہ اس ادارے کو قریب سے دیکھوں۔ حسن امام بھائی سے قربت ہوئی تو اس ادارے کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی بہانے حسن امام قاسمی کو اور بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے دل میں ان کی عقیدت گھر کر گئی۔ میں نے سمرا میں ہی پہلی بار ان کی شاعری بغور سنی۔ سمرا سے واپس ہونے لگا تو حسن امام بھائی مسکراکر اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ وہ منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا۔یا خدا! آج بھی ایسی محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں؟واپسی میں بس میں بیٹھے بیٹھے کبھی میں حسن امام بھائی کی باوضو آنکھوں میں اور کبھی ان کے اس شعر میں کھو جا رہا تھا   ؎
گدائے عشق ہوں کیا اس کے ماسوا دوں گا
وفورِ شوق سے دیکھوں گا مسکرا دوں گا
میری وابستگی مختلف اخبارات و رسائل سے ہے۔ اس حوالے سے اکثر احباب اپنے مضامین اور تخلیقات بغرض اشاعت ارسال کرتے رہتے ہیں۔ کچھ تو بے تکلفی کی ساری حدیں پار کر جاتے ہیںاور اشاعت تک پیچھا ہی نہیں چھوڑتے۔ کچھ دوست ایسے بھی ہیں جو خود سے کبھی نہیں بھیجتے، ان سے مانگنا پڑتا ہے۔ ایسے دوستوں کو میں ذہن میں رکھتا ہوں اور جب زیادہ عرصہ گزر جاتا ہے تو ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کسی کی نیت پر شک کرنا اچھی بات نہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ کچھ لوگ تو صرف اس وجہ سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں کہ چھپنے چھپانے میں آسانی ہو۔ حسن امام بھائی کو اس معاملہ میں بھی میں نے بہت مختلف پایا۔ اول تو از خود وہ اپنی کوئی چیز اشاعت کے لیے بھیجتے نہیں۔ میں ان سے زبردستی مانگتا ہوں توبس حقِ دوستی ادا کرنے کے لیے یا میری خواہش کے احترام میں وہ کچھ بھیج دیتے ہیں۔ ان کی اسی ادا نے مجھے ان کا گرویدہ بنایا ہوا ہے۔
کچھ ماہ قبل میں نے حسن امام بھائی سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کا شعری مجموعہ منظر عام پر آجانا چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ تیارتو ہو گئے لیکن بار بار یہ بھی کہتے رہے کہ طبیعت پوری طرح آمادہ نہیں ہو پارہی ہے۔ میں ان کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوں۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اگر ان کا مجموعہ کلام منظر عام پر آ جائے گا تو ان کی شاعری کا ایک کھلا ہوا روپ ناقدین فن کے سامنے ہوگا۔ ان کی شاعری پر کھل کر گفتگو کی جا سکے گی۔’’جنوں آشنا‘ کی صورت میں حسن امام قاسمی صاحب کی شعری کائنات آپ کے سامنے ہے۔ اگر آپ اسے ان کی ابتدائی کاوش کے طور پر دیکھیں گے تو آپ کو ان کے یہاں امکانات کی ایک وسیع دنیا نظر آئے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ حسن امام بھائی نے اپنے اولین شعری مجموعہ کا نام ’’جنوں آشنا‘‘ کیوں رکھا ہے لیکن ان کے مزاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے روش صدیقی کا یہ شعر ضرور یاد آرہا ہے :
جو راہ اہلِ خرد کے لیے ہے لا محدود
جنونِ عشق میں وہ چند گام ہوتی ہے
منزلِ عشق کا راہی راہ کی صعوبتوں سے کبھی گھبراتا نہیں بلکہ مصائب و آلام اس کے عزم و حوصلے کو نئی امنگ عطا کرتے ہیں   ؎
ان آبلوں سے پائوں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر
(غالبؔ)
حسن امام قاسمی صاحب کی شاعری میں یہی جنون ہمیں مختلف کیفیتوں میں نظرآتا ہے۔ یہ ’جنونِ عشق‘ نہیں تو اور کیا ہے کہ اپنی انا کو ٹھوکر مار کر شاعر دشمن کی آواز پر صرف انسانیت کے ناطے دوڑا چلا جا رہا ہے   ؎
تقاضا تھا یہی انسانیت کا ایسی ساعت میں
جو دشمن بھی ہمیں آواز دیتا دوڑ کر جاتے
یہی جنونِ عشق جب اہلِ دل کی محفلوں میں داخل ہوتا ہے تو رموز کائنات منکشف ہوتے ہیں۔ جو معرفت بے شمار کتابوں کے مطالعہ سے حاصل نہ ہو وہ اہلِ دل یعنی اہلِ جنوں کی صعوبتوں سے حاصل ہو جاتی ہے   ؎
منکشف ہوں گے کبھی تم پر بھی رمزِ کائنات
اہلِ دل کی محفلوں میں دو گھڑی بیٹھا کرو
یہی ’جنوں‘ لہجے کو شائستگی عطا کرتاہے۔جنوں یعنی خدا تک رسائی کا جنوں۔ اس جنوں کے نتیجے میں نفس کشی، عفو درگز، ذاتی مفادات سے بے نیازی، جھوٹی انا سے گریز، بند گان خدا کی دلآزاری سے گریز جیسی صفتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ان صفات سے متصف شخص اشاروں کی زبان سے بھی کسی کے دل کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتا۔ اس شعر کے بین السطور تک پہنچ کر شاعر کے لطیف حس کی داد دیجیے   ؎
پسِ الفاظ جو بغض و عداوت سے مزین ہو
ہماری بزم میں وہ گفتگو کب معتبر ہوگی
یہی ’جنوں‘ کبھی آئینہ بن کر حقیقت کو تصویر بنا کر پیش کرتا ہے اور شاعر اپنے گرد وپیش کے سچ کو اپنے حوالے سے پیش کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پس الفاظ بغض و عداوت اس کی سرشت میں داخل نہیں۔ اس لیے متکلم بن کر وہ سچائی کا برملا اظہار کرنے سے بھی نہیں چوکتا   ؎
ہے ایک زہر یہ پندارِ پارسائی بھی
اسے میں اپنی شرائین سے بہا دوں گا
یہی ’جنوں‘ شاعر کے اعتماد کو کمزور ہونے سے بچاتا ہے۔ وہ نامساعد حالات سے گھبراتا نہیں۔ کشتی شکستہ حال سہی، اسے دریا پار کرنے کی ضد ہے  ؎
مری پتوار ٹوٹی ہے، شکستہ حال کشتی بھی
حسن پھر بھی مجھے ضد ہے کہ دریا پار کرنا ہے
ذاتِ باری پر کامل ایمان شاعر کے ’جنون‘ کو مستحکم کرتا ہے۔ وقت کی تیرگی اس کے اٹھے ہوئے قدم کو روک نہیں سکتی۔ کیوں کہ نورِ خدا اس کا پیشوا ہے۔ یہی نورِ خدا اس کے جنوں کی پیشوائی کرتا ہے  ؎
کیا تیرگی ڈرائے گی مجھ کو حسن امام
رکھوں اگر جو پیشوا نورِ خدا کو میں
’جنوں آشنا‘ کی صورت میں حسن امام قاسمی کا’جنوں‘ آپ کے سامنے ہے۔ میں زیادہ مثالیں پیش کر کے اپنے مضمون کو بوجھل کرنا نہیں چاہتا۔ دعا ہے کہ حسن امام قاسمی صاحب کی ’جنوں آشنائی‘ کا سلسلہ دراز رہے۔ مجموعہ کی اشاعت پر صمیم قلب سے انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
.............

بُلڈوزر کلچر -آمریت کی بد ترین شکل ___

بُلڈوزر کلچر -آمریت کی بد ترین شکل ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
ہندوستان میں عدلیہ کا مضبوط نظام ضلعی سطح سے اوپر تک قائم ہے ، ملزموں کے داروگیر اور مجرموں کو سزا دینے دلانے کا  طریقہ کار دستور میں مذکور ہے، جب تک اس کی پاسداری کی گئی ، لوگوں کو انصاف ملتا رہا اور بہت سارے موقوں ںسے عدلیہ کے فیصلے پر تنقید کے باوجود آج بھی اس پر عام لوگوں کا اعتبار واعتماد قائم ہے ، عدالت ظلم کو دور کرنے اور مظلوم کو انصاف دینے کا مضبوط ذیعہ ہے ، دستور میں اسے یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ اگر ظلم ہواور عوام کے دستوری حقوق پامال کیے جا رہے ہوں تو وہ اس کی ان دیکھی نہیں کر سکتی ، وہ بغیر کسی مدعی کے اپنی طور پر بھی مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے متعلقہ شخص اور حکومت کو عدالت میں طلب کر سکتی ہے ، اور اس کی وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو دستور کے مطابق سزا بھی دے سکتی ہے ۔
 ہندوستان ایک لمبی مدت تک برطانیہ کی نوآبادی رہا ہے، انگریزوں کے ذریعہ جو ظلم ڈھائے گئے ، اس کی صداقت سے انکار نہیں کیاجا سکتا ، لیکن ان کے یہاں بھی عدالتوں میں پیشی ہوتی تھی، گواہی اور بیانات گذرتے تھے، پھر فیصلہ ہوتا تھا کہ اس کو کا لا پانی بھیج دیا جائے، پھانسی دیدی جائے یا محصور کر دیا جائے، ہندوستان کی آزادی کی پوری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے ، پھر جن کو وہ سزا دیتے تھے ان کے گھر اور املاک کو تباہ کرنے کا عام رجحان نہیں تھا، اگر ایسا ہوتا تو گاندھی نہرو، بھگت سنگھ وغیرہ کے مکانوں کو منہدم کر دیا جاتا، حالاں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔
 لیکن آزاد ہندوستان میں وہ ہو رہا ہے، جو انگریزوں نے بھی نہیں کیا، اب ہندوستان میں بلڈوزر کلچر نے رواج پا لیا ہے ، نہ مقدمہ نہ سماعت، نہ گواہیاں اور نہ ہی بیانات، جس کے گھر پر پایا بلڈوزر دوڑا دیا ، جمعہ کو نوٹس دیا اور سنیچر کو گھر منہدم ، کوئی سنوائی کا موقع نہیں، اس لیے کہ سنیچر اتوار کو عدالت بند رہتی ہے ، اس کلچر کو رواج اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی نے دیا، دھیرے دھیرے یہ پورے ہندوستان میں پھیلتا جا رہا ہے ، جو آدمی حکومت کے خلاف ہے اس کا مکان تجاوزات کے دائرہ میں آجاتا ہے، اور اس کا ہی نہیں اس کی بیوی کا مکان بھی توڑ دیا جاتا ہے ، الٰہ آباد میں جاوید پمپ کے جس مکان کو زمین بوس کیا گیا ، وہ جا وید کا نہیں، جاوید کی بیوی کا تھا، اس کا پانی اور بجلی بل بھی اس کے نام تھا، پھر بھی اس کو توڑ دیا گیا، کیا جواز تھا اس کا؟ اب اس کی بیوی اور بیٹی سب گھر کی چھت سے محروم ہو گیے ، سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ، سماعت کے لیے قبول بھی ہو گئی ، لیکن انہدام کے بعد عدالت کیا کر سکتی ہے ، بہت کرے گی تو کہے گی کہ یہ غیر قانونی عمل تھا اور سرکار معاوضہ ادا کرے، معاوضہ کا تخمینہ بھی حقیقی نہیں ہوتا، اور پھر پورا معاوضہ مل بھی جائے تو مکان بنانا کوئی آسان کام ہے، ایک تعمیری منصوبہ کو زمین پر اتارنے میں برسوں لگ جاتے ہیں، ذہنی کوفت اور پریشانی الگ ۔ 
 اس سے بھی بڑا لمیہ یہ ہے کہ جو اصل مجرم ہے اس کو گرفت میں نہیں لایا جا رہا ، گرفتار وہ ہو رہا ہے جس نے نو پور شرما اور جندال کے خلاف آواز اٹھائی، پولیس کی گولی کا شکار وہ ہو رہے ہیں، جو اپنے دستوری حق کا استعمال احتجاج اور مظاہرے کی شکل میں کر رہے ہیں، یہ حق کی آواز دبانے کی مذموم کوشش ہے ، ایسا جمہوریت میں نہیں آمریت میں ہوتا ہے کہ حاکم کے زبان سے نکلنے والے الفاظ ہی قانون ہوا کرتے ہیں، ہندوستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے ، یہ آمریت کی بد ترین شکل ہے، اور دنیا منتخب حکومت کے ذریعہ سارے قاعدے قانون بالا ئے طاق رکھ کر آمریت کے وہ نمونے دیکھ رہی ہے جو ہٹلر اور مسولینی کے دور میں دیکھنے کو ملتے تھے۔
 ہندوستان کو آمریت کے اس نئے حملے سے نکالنے کے لیے تمام محبان وطن کو سامنے آنا ہوگا، یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے ، اقتدار میں وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کی ساری تہذیبی ، ثقافتی اور تاریخی روایتوں کو کچلنے کے درپے ہیں، ان کے پشت پر آر ایس ایس کی طاقت ہے، اور وہ اس طاقت کے بل پر جو من میں آئے کر گذرنے کو تیار ہیں، ہمارے وزیر اعظم نے اس سارے واقعات وحادثات پر ’’چُب مائی کا روزہ‘‘ رکھ رکھا ہے، ان کی زبان ان مسائل ومعاملات پر نہیں کھلتی اور ان کی خاموشی سے سب کو لگتا ہے کہ ان کی مرضی بھی ان امور میں شامل ہے، آمریت پسند لوگ ان کی منشا سمجھ کر اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور سیکولر طبقہ کواس صورت حال سے سخت مایوسی کا سامنا ہے، جب کہ اس ملک کو ایک اور آزادی کی ضرورت ہے اور وہ ہے نفرت بھرے ماحول سے ، آمرانہ کردار سے ، بد عنوانی اور ظلم سے، اس کے بغیر یہ ملک ماضی کی روایت کو باقی نہیں رکھ سکتا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...