Powered By Blogger

جمعرات, جولائی 07, 2022

ایک عورت کے نکاح کی خوبصورت کہانی

ایک عورت کے نکاح کی خوبصورت کہانی 
(اردو دنیا نیوز۷۲)
جب میرے بابا امّی کی شادی ہوئی تو بابا نے حق مہر کے طور پر امّی کے لیے سورۃ آلِ عمران حفظ کی اور جب میری شادی ہو رہی تھی تو بابا نے میرے شوہر کو بھی یہی کہا کہ وہ میرے حق مہر میں قرآن کی کوئی سورۃ حفظ کرے، اس کے بعد شادی کرنے کا کہا گیا۔

مجھے اپنے حق مہر کے لیے قرآن کی کوئی سورۃ کا انتخاب کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے سورۃ النّور کا انتخاب کیا۔ مجھے لگ رہا تھا یہ سورۃ حفظ کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک طرف شادی کی تیاریاں ہو رہی تھی تو دوسری طرف میرے شوہر سورۃ حفظ کر رہے تھے ہر وقت ان کے ہاتھ میں قرآن ہوتا اور وہ سورۃ یاد کر رہے ہوتے۔

شادی سے کچھ دن پہلے میرے شوہر بابا کے پاس آئے سورۃ سنانے جو اُنہوں نے پوری حفظ کرلی تھی۔ بابا بار بار غلطی نکالتے اور شروع سے شروع کرنے کا بولتے۔ میرے شوہر نے آہستہ آواز میں تلاوت شروع کی، اتنا خوبصورت منظر میں کبھی نہیں بھول سکتی، میں اور میری امّی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور میرے شوہر کی اگلی غلطی کے انتظار میں مُسکرانے لگی جس کے بعد انہیں پھر سے شروع کرنا پڑتا، پر میرے شوہر نے ایک بار میں پوری سورۃ سُنا دی، ایک لفظ بھی نہیں بھولے۔ سورۃ سُننے کے بعد میرے بابا نے انہیں گلے سے لگا لیا اور کہا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کروں گا۔ تم نے اس کا حق مہر ادا کردیا ہے۔

انہوں نے مجھے کوئی مالی حق مہر نہیں دیا نہ ہی ہم نے کوئی قیمتی زیور خریدے۔ انہوں نے مجھے کہا ہم دونوں کے درمیان حلف و معاہدے کے طور پر اللہ کے الفاظ کافی ہیں۔ اب میں سوچتی ہوں مستقبل میں میری بیٹی اپنے حق مہر کے لیے کونسی سورۃ کا انتخاب کرے گی؟

🌷 اگر ایسا حق مہر اور جہیز شادیوں پہ دیا جانے لگے تو ہر غریب کی بیٹی کی شادی آسانی سے ہو اور شادیاں کامیاب بھی ہوں کبھی کوئی گھر نہ اجڑے نہ ہی بہوئیں جہیز کے طعنوں سے تنگ آ کر خود کُشی کرے۔
#منقول

بقرعید سے پہلے حضرت مولانا کلیم صدیقی ، حافظ ادریس قریشی و ان کے رفقا سے ملاقات جیل میں کی داستان - ایڈوکیٹ اسامہ ندوی

بقرعید سے پہلے حضرت مولانا کلیم صدیقی ، حافظ ادریس قریشی و ان کے رفقا سے ملاقات جیل میں کی داستان - ایڈوکیٹ اسامہ ندوی
(اردو دنیا نیوز۷۲)
مسلمانان ہند بقر عید کی تیاریوں میں لگے ہیں اور چند روز کے بعد خوشیوں میں مشغول ہو جائیں گے،آج لکھنؤ جیل جانا ہوا ، حضرت مولانا کلیم صدیقی مدظلہ، حافظ ادریس قریشی صاحب مدظلہ، حاجی سلیم ڈرائیور ،ڈاکٹر عاطف بھائی سرفراز جعفری صاحبان سے ملاقات ہوئی ، ملاقات کے وقت حضرت مولانا نے باہر کے تمام احباب کی خیر و عافیت لی ،کچھ لوگوں کو نام لے لیکر معلوم کیا ۔ وطن عزیز پھلت کے بارے میں گاؤں والوں کے بارے میں معلوم کیا، حج بیت اللہ پر کون کون گیا ہے ؟جانے والوں سے دعاؤں کی درخواست کرنے کو کہا،باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھنے لگے: گھر کب جاؤگے ؟ اس پر میں نے آہستہ سے کہہ دیا: حضرت ان شاء اللہ آپ کو لے کر جائیں گے،حضرت والا کی آنکھیں نم ہونے کو تھیں کہ میں نے ان سے نظریں چرا لیں ، حضرت والا نے کہا : جاؤ بیٹا بقرعید پر گھر جاؤ، وہاں کے حال احوال لو، گھر کی ضروریات دیکھو،ان شاء اللہ جلدی ہی باہر آئیں گے۔ پچھلے دس مہینوں میں عید الفطر کے بعد آج کی ملاقات پر جو کیفیت دیکھنے کو ملی، اس کو دیکھ کر میرے حواس قابو میں نہیں ہیں، لکھنؤ کی جھلسا دینے والی گرمی میں جیل کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں ،جیل کی سخت گرمی میں اگر حلق خشک ہوکر سوکھ جائے تو شربت تو دور کی بات ہے، فوری طور پر اپنی پیاس بجھانے اور حلق بھگونے کے لئے ٹھنڈا پانی بھی میسر نہیں ہے ،ملاقات کے وقت سر پر ٹوپی کو پانی میں بھگو کراور رومال کو گیلا کرکے اوڑھ کر آتے ہیں ، بظاہر تو چہرے پر خوشی ہوتی ہے لیکن ہمارا جو برا حال سلاخوں سے باہر رہتا ہے (کئی بار گرمی سے چکر آچُکے ہیں)دھوپ کی گرمی سے جیل کی پتھریلی اینٹیں پک جاتی ہیں،صحرائی زمین کے فرش کے بارے میں تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ لکھنؤ میں جون جولائی کی ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے، جیل میں موسم گرماکی حرارت،دیوار اور فرش کی تپش ،سلاخوں کی حِدّت وتمازت ان بزرگوں کے حوصلوں کو کمزور نہیں کر رہی ہیں ،کیوں کہ یہ لوگ اپنے لئے فکر مند نہیں یہ باہر کے لوگوں کے لئے بے چین ہیں، جیل کی گرمی سے یہ مضطرب نہیں ہیں،اپنے رب کے فیصلے کو خوشی خوشی قبول کر رہے ہیں ،بھلے ہی جیل میں تکلیف اٹھا رہے ہوں لیکن کبھی زبان پر کوئی شکایت نہیں سننے کو ملتی ہے۔ جبکہ ہم عید کی خوشیاں منانے میں مصروف ہیں،یہ لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہماری شناخت اور پہچان کے لئے ہیں، اسلام کے تحفظ اور دین کی بقا کے لئے ہیں، گھر کے چھوٹے چھوٹے بچے،بھائی بہن،بیوی ان کی راہ تکتے ہوئے خوشی بھرا تہوار اُن کے بغیر نہ چاہتے ہوئے گزاریں گے، لہذا راہ دعوت وعزیمت میں سنت یوسفی ادا کرنے والوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بے گناہ مسلمان سلاخوں کے پیچھے بند ہیں اُن کی تو غیب سے مدد فرما اور اُنہیں با عزت بری کر دے۔ آمین يا رب العالمین

بدھ, جولائی 06, 2022

ذی الحجہ کے دس دن اوران کے اعمال

ذی الحجہ کے دس دن اوران کے اعمال
(اردو دنیا نیوز۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
ذی الحجہ کا مہینہ ہجری سال کا آخری مہینہ ہے ، اس مہینہ کے ابتدائی دس دنوں کے فضائل احادیث میں مذکور ہیں اور قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے سورۃ الفجر میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے ، بیش تر مفسرین کی رائے یہی ہے کہ یہ ذی الحجہ کے شروع کے دس دن ہیں، ان میں خصوصیت سے نیک اعمال کی ترغیب دی گئی ہے ، یہ اعمال ذکر واذکار ، قیام اللیل اور روزوں کی صورت میں بھی ہو سکتے ہیں، ترمذی شریف کی ایک روایت میں جن کے راوی حضرت ابن عباس ؓ ہیں، منقول ہے کہ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیے گیے اعمال اللہ رب العزت کے نزدیک تمام ایام کی عبادت کے مقابل زیادہ محبوب ہیں، حضرت ابو قتادہ سے مرفوعا مروی ہے کہ ان ایام میں ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور ایک رات کا قیام شب قدر کے قیام کی طرح ہے ۔(ترمذی وابن ماجہ)
 ذی الحجہ کے ان دس روز وشب میں مسلمانوں کو خصوصیت سے ذکر اللہ کا اہتمام کرنا چاہے، سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مقررہ دنوں کے اندر اللہ کے نام کا ذکر کرتے رہو، محدثین ، مفسرین اور خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک یہ مقررہ دن ذی الحجہ ہی کے دس ایام ہیں، امام احمدبن حنبلؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان دس دنوں میں کثرت سے لا الٰہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہا کرو، امام بخاری ؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کا یہ عمل بھی نقل کیا ہے کہ وہ تکبیر کہتے ہوئے بازار نکل جاتے اور دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے ۔
 دوسرا عمل جس کا حدیث میں ذکر ہے وہ یہ کہ جب ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے تو جس کی جانب سے قربانی ہونی ہے افضل ہے کہ وہ اپنے بال اور ناخن نہ تراشے، عام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ نویں ذی الحجہ آئے تو اس دن نفلی روزہ رکھیں، حدیث میں ہے کہ نویں ذی الحجہ کے روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، نویںذی الحجہ سے ہی فجر کی نماز کے بعد سے ہر نماز کے بعد تکبیر تشریق اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ ،و اللہ اکبراللہ اکبر وللہ الحمد کا ورد شروع ہوجاتا ہے، عیدگاہ جانے میں بھی تکبیر کہی جاتی ہے، نماز کے بعد خطبہ میں بھی اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے ۔ 
ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے ، اس دن مسلمان دوگانہ ادا کرتے ہیں اور نماز کے بعد جانور کی قربانی کرتے ہیں، حدیث میں آتا ہے کہ قربانی کے تین ایام یعنی دس تا بارہ ذی الحجہ کو قربانی سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی عمل زیادہ محبوب نہیں ہے ، تکبیر تشریق کا اہتمام تیرہ کی عصر تک کی جاتی ہے ، تاکہ ہر طرح کی بڑائی بشمول قیمتی جانوروں کی قربانی سے پیدا شدہ کبر ونخوت سے دل ودماغ پاک ہوجائیں۔
 قربانی کن جانوروں کی، کی جائے گی اس سے لوگ واقف ہیں،ا لبتہ جانوروں کے انتخاب میں مقامی حالات اور ملکی احوال کو سامنے رکھنا چاہیے، قربانی کی باقیات کو ادھر اُدھر پھینکنے سے تعفن اور بد بو پیدا ہوتی ہے جو آپ کے رہائشی علاقہ کی فضا کو آلودہ کرتا ہے اور راستوں سے گذرنے والے کو اس سے تکلیف پہونچتی ہے ، اسلام میں صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹا نا بھی صدقہ ہے، اس لیے اپنی آبادی میں اس کا خیال ضرور رکھنا چاہیے، ممکن ہوتو گاؤں والوں کی میٹنگ کرکے صفائی کے اہتمام کا ماحول بنانا چاہیے۔
 آپ کی قربانی کے گوشت میں آپ کے اعز واقربا، فقراء ومساکین کا بھی حصہ ہے ، کوشش کیجئے کہ شریعت کے مقررہ اصول کے حساب سے غربا تک قربانی کے گوشت کے تین حصوں میں سے ایک حصہ ضرور پہونچ چائے، تاکہ وہ بھی اللہ کی میزبانی کا لطف اٹھا سکیں، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ بڑے کا گوشت تو کسی حد تک غرباء کو مل جاتا ہے، لیکن چھوٹے جانور کا بڑا حصہ ہماری فِرج کی زینت بن جاتا ہے اورہم مہینوںتک اس کا استعمال کرتے ہیں، اپنے حصہ کو محفوظ کر لیجئے، بُرا نہیں، لیکن اس کو محفوظ کرنے کے چکر میں غربا کا حصہ ہضم کرجانا شریعت کی نظر میں نا پسندیدہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے قربانی کے گوشت کو بھی دوسروں پر قربان نہیں کرنا چاہتے ، پھر کس طرح قربانی کا مزاج بنے گا۔
 یہی حال قربانی کے کھالوں کا ہے ، یقینا آپ اسے اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں، لیکن اگر اس کو فروخت کردیا تو پھر اس کی قیمت کا استعمال آپ کے لیے جائز نہیں ہے، آپ اس سے نہ تو مسجد ومدرسہ کی عمارت کھڑی کر سکتے ہیں اور نہ ہی امام ومؤذن کی تنخواہ پر اسے صرف کر سکتے ہیں، اسے مستحقین زکوٰۃ تک پہونچانا لازم اور ضروری ہے ۔
 بہت سارے دانشور یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ جانور ذبح کرنے کے بجائے اس رقم سے غرباء ومساکین کی مدد؛ بلکہ بعض لوگ ’’امپاور منٹ‘‘ کے لیے اس کے استعمال کی وکالت کرتے ہیں، یہ شریعت کے اسرار ورموز سے نا واقفیت کی دلیل ہے، ہر عمل کے اثرات الگ الگ ہوتے ہیں جس کو ہم لوگ سماج میں کھلی آنکھوں دیکھتے ہیں، مقویات کے استعمال سے بدن قوی ہوتاہے اور نشہ کا استعمال جسم کو کھوکھلا اور بہت سارے امراض میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے، اسی طرح نماز کی پابندی سے تکبر ختم ہوتا ہے، روزہ حرص ولالچ کو بیلنس کرتا ہے ، زکوٰۃ کی ادائیگی سے بخالت کی بیماری دور ہوتی ہے، اور حج سے امتیاز کی بیماری کا خاتمہ ہوتا ہے اسی طرح قربانی سے انسان کے اندر قربانی کا مزاج بنتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ ہمارا اپنا کچھ نہیں ہے ، میری نمازیں، میری قربانیاں؛ بلکہ میری زندگی اور موت سب اس کا ئنات کے رب اللہ رب العزت کے لیے ہے ، اس لیے اسلام جب اور جس قسم کی قربانی کا طالب ہوگا، ہم اس کو دینے سے گریز نہیں کریں گے، اس موقع سے ہمیں حضرت ابراہیم نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربانی کو بھی یاد رکھنا چاہیے، جب انہوں نے اپنے لڑکے کی قربانی دینے کا عزم بالجزم اللہ کی رضا کے لیے کر لیا تھا، صبر کے پیکر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ذبح ہونا قبول کر لیا تھا؛ بلکہ ذبح کے طریقے بھی بتائے تھے کہ مجھے پیشانی کے بل لٹا ئیے تاکہ چہرے پر نظر پڑنے سے آپ کی شفقت پدری اس قربانی کی راہ میں حائل نہ ہو، چاقو حلقوم پر رکھدی گئی، لیکن اللہ صرف اپنے خلیل کی فدائیگی دیکھنا چاہتے تھے، یہ پورا ہو گیا تو ایک دوسرے جانور کی قربانی ہوئی حضرت اسماعیل بچ گیے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ امتحان میں کامیاب ہو گیے، کیسا عجب ہوگا یہ منظر اور عرش پر کیسا تہلکہ فرشتوں کے درمیان ہوا ہوگا، سوچ کر عقل کام نہیں کرتی، اس طرح قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اس ابراہیم ؑکی جس پر ہم ہر نماز میں درود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جس طرح برکت کی دعا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کرتے ہیں، حضرت ابراہیم نبینا علیہ السلام کے لیے بھی کرتے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہی اسلام کے ماننے والوں کے لیے مسلمان نام رکھا ہے ۔
قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے ، بھلا کوئی جانور کے بال گن سکتا ہے جس طرح جانور کے بالوں کی گنتی اللہ ہی جانتا ہے، اسی طرح قربانی پر اجر وثواب بھی اسی حساب سے اللہ رب العزت دیتے ہیں، قربانی کے یہ جانور پل صراط میں ہمارے لیے سواری کے کام آئیں گے اس لیے حکم دیا گیا کہ موٹے جانور کی قربانی کی جائے جس میں کوئی جسمانی عیب نہ ہو، یہاں پر یہ بات ذہن میں نہیں لائی جائے کہ چھوٹے جانور کس طرح انسان کا بوجھ بر داشت کریں گے اور بڑے جانور پر پل صراط پار کرنے کے لیے سات آدمی کس طرح لد جائیں گے ۔ جو اللہ معدوم چیزوں کو وجود بخش دیتا ہے اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ ان جانوروں کو ضرورت کے مطابق توانا بنا دے اور ہم تیزی کے ساتھ پل صراط پار کر جائیں۔
لیکن اس کا سارا مدار دل کی کیفیات پر ہے ، قربانی اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے، اور اگر دکھاوے، نمود ونمائش اور ریا کاری کے لیے کیا ہے تو وہ صرف گوشت کھانے کے ہی کام کا ہے، پل صراط پر ایسی قربانی کے کام آنے کا خیال چھوڑ دینا چاہیے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے صاف صاف ارشاد فرما دیا ہے کہ اللہ کے نزدیک قربانی کے جانور کا گوشت اور خون نہیں پہونچتا، اس کے نزدیک صرف تقویٰ کی قدر ہے او رتقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس میں اللہ کا خوف ، اللہ کی خشیت اور ڈر شامل ہو۔
 اس لیے قربانی کرنے کے بعد اپنے دل کو بھی ٹٹولنا چاہیے کہ کہیں وہ تقویٰ سے خالی تو نہیں ہے، یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ قربانی کرنے سے دین وشریعت پر اپنے مزاج کے تقاضوں کو قربان کرنے کا مزاج بنا، یا نہیں، قربانی کے جانور کی آنکھیں کھلی رہ کر آپ سے یہی دریافت کرتی ہیں کہ ہم نے تو اپنی جان قربان کر دی، لیکن کیا اس قربانی کا اثرتمہارے نفس امارہ پر بھی پڑا یا نہیں، اگر تمہارا نفس امارہ رضائے الٰہی کے لیے قربان ہو گیا تو ہماری جان کا جانا کار آمد ہو گیا۔
 قربانی اللہ کے لیے کی جاتی ہے ، اللہ کے نام سے کی جاتی ہے ، ہمارے یہاں یہ غلط اصطلاح رائج ہو گئی ہے کہ کس کے نام سے قربانی ہوگی، قربانی سب اللہ ہی کے نام سے ہوگی، ہر جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہا جائے گا، اس سلسلے میں صحیح تعبیر یہ ہے کہ کس کی طرف سے قربانی ہوگی، یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ایسے مسلمان کی طرف سے قربانی ہوگی جو دسویں ذی الحجہ کی صبح کو چھ سو بارہ(۶۱۲) گرام تین سو ساٹھ (۳۶۰)ملی گرام یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا ستاسی(۸۷) گرام چار سو اسی (۴۸۰)ملی گرام یعنی ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہو۔
 اس اعتبار سے ایک خاندان میں جتنے لوگ اتنی مالیت کے مالک ہوں گے ، سب کی طرف سے الگ الگ قربانی دینی ہوگی، صرف گھر کے گارجین کی طرف سے قربانی کافی نہیں ہوگی، گھر میں اگر بیوی ، بہو وغیرہ کے پاس اس قدر زیور یا بینک بیلنس ہے ، لڑکوں کے پاس حوائج اصلیہ کے علاوہ ا تنی قیمت کی کوئی چیز ہے تو اس کی طرف سے بھی قربانی واجب ہے، جس پر قربانی واجب ہے اسے اپنی طرف سے قربانی کرنی چاہیے ۔ قربانی کے بجائے اپنا عقیقہ کرنا یا مُردوں کے ایصال ثواب کے لیے قربانی کرنا ضروری نہیں ہے، عقیقہ ساتویںدن مشروع ہے، اس لیے یہ سوچ کر کہ دادا کا عقیقہ نہیں ہوا تھا، پہلے عقیقہ کریں ،پھر ان کی طرف سے قربانی ہو پائے گی، شرعی طور پر غلط ہے۔ قربانی کے ایام میں قربانی ہی کرنی چاہیے، استطاعت ہو تو اپنی طرف سے قربانی کے بعد مُردوں کی طرف سے بھی قربانی کریں تو حرج نہیں ہے، قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ لیا جا سکتا ہے، لیکن واجب قربانی کی ادائیگی کا پہلے خیال رکھنا ضروری ہے ۔

الحمدللہ آج بتاریخ/ ۶/جولائی بروز بدھ بوقت /۱۰ بجکر ۳۰ دن زوم ایپ پر تحفظ شریعتِ کے ممبران کے درمیان دوسری بارایک مٹینگ رکھی گئی

الحمدللہ آج بتاریخ/ ۶/جولائی بروز بدھ بوقت /۱۰ بجکر ۳۰ دن زوم ایپ پر تحفظ شریعتِ کے ممبران کے درمیان دوسری بارایک اہم مٹینگ رکھی گئی جوبیحدکارگرثابت ہوئی
(اردو دنیا نیوز۷۲)
تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار
جس کی زیرِ سرپرستی حضرت مولانا عبداللہ سالم قمرقاسمی چترویدی صاحب فرماۓ
زیر صدارت حضرت تحفظ کے کارگرسکریٹری جناب مولاناعبدالوارث صاحب مظاہری
زیر نظامت حضرت مولانافیاض احمدراھی صاحب نے کی
 جس میں مہمان خصوصی کے طورپر حضرت مولانا حافظ وقاری شہزاد صاحب اشاعتی قرآن مجید کی تلاوت فرمائی
شاعر اسلام حضرت مولانا شمس الزماں صاحب کشن گنجوی
خطیب العصر حضرت مولانامجاہدالاسلام مجیبی القاسمی صاحب 
مقرر ذیشان حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسّلام صاحب جوکی ہاٹ ارریہ
   اور قاری محبوب رحمانی صاحب وقاری عظمت اللہ صاحب منصوری وقاری توصیف صاحب وقاری شاداب صاحب دہلوی وشاعراسلام قاری ابراردانش صاحب  کی بھی شرکت مستقل رہی اللہ آنے والے تیسری مٹینگ کوکامیاب کرےآمین یارب العالمین.

منگل, جولائی 05, 2022

اکھلیش نے شروع کی پارٹی کی رکنیت سازی مہم

اکھلیش نے شروع کی پارٹی کی رکنیت سازی مہم
(اردو دنیا نیوز۷۲ لکھنؤ)

سماج وادی پارٹی کے صدراکھلیش یادو نے آج اپنی پارٹی کی رکنیت مہم کا آغاز کیا۔ اس موقع پرایس پی صدر نے کہا کہ پارٹی کارکنان دیہی علاقوں میں پہنچ کر ممبران کی نامزدگی کریں گے اور پارٹی کی پالیسیوں اور پروگراموں سے عوام کو آگاہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی کی رکنیت سازی مہم دوسری ریاستوں میں چلائی جائے گی جہاں پارٹی کی اکائی ہے۔

خیال کیا جارہا ہے کہ رکنیت سازی مہم دراصل 2024 کے لوک سبھا انتخابات کی تیاری کی ہی کڑی ہے۔ سماج وادی پارٹی حال ہی میں دو لوک سبھا سیٹوں، رام پور اور اعظم گڑھ سے الیکشن ہار گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی کے رہنما اور مدمقابل رکنیت سازی مہم کی قیادت کریں گے۔ میں دیہاتوں میں بھی جاؤں گا۔ اپنی بنیاد کو بڑھانے اور جمہوریت کو بچانے کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اکھلیش یادو نے کہا کہ انہوں نے ضمنی انتخابات میں مہم نہیں چلائی کیونکہ انہیں ان کی پارٹی کے لیڈروں نے یقین دلایا تھا کہ وہ آسانی سے سیٹیں جیت لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ انتظامیہ اتنا بڑا کردارادا کرے گی اورلوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکے گی۔

انہوں نےکہا کہ رکنیت سازی مہم ختم ہونے کے بعد پارٹی یونٹس کی تنظیم نو کی جائے گی۔

ایس پی صدر نے حال ہی میں پارٹی کی تمام اکائیوں بشمول ایگزیکٹو باڈیز، ونگ اور فرنٹل آرگنائزیشنز کو تحلیل کر دیا تھا۔

ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے اکھلیش نے کہا کہ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو100 دنوں میں اپنی کامیابیوں کے بارے میں بات کرنے کے بجائے پچھلے پانچ سال اور100دنوں میں اپنے کام کی بات کرنی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اس حکومت میں ڈپٹی چیف منسٹر ڈاکٹروں کے تبادلے پر سوال اٹھا رہے ہیں حالانکہ وہ اسپتالوں میں چھاپے مار رہے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ اس حکومت میں پچھلی سیٹ پر ڈرائیونگ کون کر رہا ہے؟

قربانی سے پریشانی کیوں

قربانی سے پریشانی کیوں؟
(اردو دنیا نیوز۷۲)
 پچھلے سال ایک وطنی بھائی نے عیدالاضحٰی کے موقع پرمسلمانوں کوجانورکی جگہ ساگ سبزی کی قربانی کامشورہ دیاتھا اور امسال ایک دینی بھائی نےپوری فیملی کی طرف سے ایک ہی قربانی سے کام چلانے کی بات کہی ہے،اور اس بات کی دہائی بھی دی ہے کہ یہ مسلمان قرض لےلیں گے مگر قربانی ترک نہیں کریں گے۔
 ایک صاحب نےعجیب وغریب منطق پیش کی ہے اور قربانی کے جانور کے بدلے پیسے کا صدقہ کرنے کا حیلہ بھی بتلایا ہے، وہ اس طرح کے قربانی کے ایام کو گزرجانے دیجئیے،پھر قربانی کے بدلے غریبوں کو وہ رقم صدقہ کردیجئے، اس طرح سے شرعی گنجائش بھی نکل جائے گی اور کام بھی بن جائے گا۔
 اپنے دینی بھائیوں کی طرف سےبھی ان مشوروں اور حیلوں کو پڑھ سنکر ایسامحسوس ہورہا ہے کہ قربانی سے غیروں کےساتھ اپنوں کو بھی پریشانی ہے۔
سال بھر میں قربانی کےلیے تین دن مخصوص ہیں اور یہ ذی الحج کی دسویں،گیارہویں اور بارہویں تاریخ سلسلہ وار ہے،  دسویں ذی الحج کوحدیث شریف میں بطورخاص"یوم النحر"یعنی قربانی کاخاص دن کہاگیاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:کہ آج کے دن سب سے زیادہ ثواب کا کام خون بہانا ہے،(ترمذی شریف )
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وجہ جاننے کی کوشش کی کہ آخرجانور کے خون بہانے میں رکھا کیا ہے؟
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ؛قربانی کے جانور کے ایک ایک بال پر ایک نیکی رکھی گئی ہے،( احمد،ترمذی، وابن ماجہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل بھی مداومت کے ساتھ قربانی کرنے کا ہے،ترمذی شریف کی حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ ہجرت کے بعد دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں رہے ہیں اور ہرسال قربانی بھی کرتے رہے ہیں،
اسی لیے ہربالغ صاحب نصاب مسلمان پر قربانی واجب ہے،بچہ اگر بہت مالدار ہے، پھر بھی اس پر قربانی ضروری نہیں ہے، اس کی وجہ سب کو معلوم ہے کہ شریعت اسلامیہ میں عبادات کا مکلف بالغ شخص ہے بچہ اور نابالغ نہیں ہے۔شریعت نے اسی لیے قربانی کا مطالبہ بچوں سے نہیں کیا ہے۔
قربانی ایک مالی عبادت ہے، مالی عبادتوں میں اتنی گنجائش ضرورملتی ہےکہ دوسرے شخص کی طرف سے ادا کی جاسکتی ہے یعنی بیوی کی طرف سے اگر شوہر قربانی کردے توادا سمجھی جائے گی اور وہ اس سے بری الذمہ ہوجا ئے گی،
بغیر ادا کیے یہ مالی عبادت ذمہ سے ساقط ہونے والی نہیں ہے، فیملی کے ہر فرد کو اپنے اپنے حصہ کی عبادت کرنی ہوگی تبھی اس سے وہ سبکدوش ہوسکیں گے ،یا اس کی طرف سے کوئی دوسرا بھی کردےتو یہ عبادت ادا سمجھی جائے گی ورنہ ترگ واجب کا گنہ گارہوگا،اوروہ اس سے نکل نہیں پائے گا،
جو صاحب غفلت کی وجہ کر قربانی کے ایام میں قربانی نہیں کرپائے ہوں،اور قربانی کے تینوں ایام گزرگئے ہوں توشریعت اسلامیہ میں اس شخص کے لیے مسئلہ قضا کرنے کا ہے،جس طرح نماز وقت پر پڑھی جاتی ہے تو ادا کہلاتی ہے، اور وقت نکل جانے پر قضا کرنی پڑتی ہے،اسمیں بھی اس شخص کو نماز پڑھنی پڑتی ہے، اسی طرح قربانی جب نہ کرسکے تو بطور قضا قربانی کے جانور کا صدقہ کرنا پہلے نمبر پر ہے،چونکہ اس کی حیثیت مالی عبادت کی ہے لہٰذا بندہ کو اختیار ہے کہ وہ جانور کی قیمت کو بھی صدقہ کرسکتا ہے ،فتح القدیر (۴۳۶/۸)
سوچنےوالی بات یہ ہے کہ جانور کی قربانی سے بھاگنے والوں کے لیے قربانی کے ایام گزرجانے کے بعد بھی خیر نہیں ہے،کسی نہ کسی شکل میں قربانی کا جانور اس کا پیچھااب بھی کررہا ہے، اس سے راہ مفر نہیں ہے، یہ ایک ضروری عمل ہے، مذکورہ مسئلہ میں غفلت کی بات لکھی ہوئی ہے اور اگر کوئی دانستہ اس سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے اور عبادات میں حیلے اپناتا ہے، ایسا شخص سنت وشریعت کا تمسخر کرتا ہے، اور اپنی تخلیقی مقصد سےسرموانحراف کرکے خدا سےجنگ مول لے رہا ہے، "اعاذنا اللہ من ذلك"
آج ہمیں قربانی کے مزید دودنوں کی حکمت سے بھی آگاہ ہونے کی ضرورت ہے کہ آخر عید قرباں تو دسویں ذی الحج کا نام ہے، مزید دودن کا کیا کام ہے؟
یہ ہر صاحب ایمان کو جاننا چاہیے کہ قربانی کے مزید دودن اسی لیے دیے گئے ہیں کہ جو صاحب نصاب ایمان والا بندہ پہلے دن اپنی قربانی کسی وجہ سے نہ کرسکا تو دوسرے دن کرلے،اگر دوسرے دن بھی کوئی عذر پیش آگیا تو تیسرے دن اس بڑی ذمہ داری کو ادا کرے، اور قربانی کے عمل کے ذریعہ ایک ایک بال پر اجر کا حقدار بن جائے،افسوس کہ کم علمی کی بناپر ہم نےآج ان دنوں کو باری میں بدل دیا ہے،عیدگاہ میں ہی یہ پلاننگ کی جاتی ہے کہ آج آپ اپناوالاجانور قربان  کردیجئے، سب مل بانٹ کرتازہ گوشت کھالیں گے، آئندہ کل میری باری ہے،بقول شاعر 
                    آج وہ کل ہماری باری ہے 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے اس مبارک عمل کا بے پناہ اجر تھا،اور خالص مقصد اجر وثواب اور رضائے الہی تھا،اور آج ہمارے سامنے گوشت ہی گوشت ہے،اسی لیے یہ چوک ہم سے ہورہی ہے کہ ایک فیملی کے لیے تو ایک ہی جانور کافی ہے، یہ انفرادی قربانی کیا ضروری ہے؟اسقدر گوشت پوری فیملی کے لیے کافی وشافی ہے،گویا جس طرح فیملی پلاننگ کی تحریک اس وقت زوروں پر ہے اسی سے ملتی جلتی یہ قربانی پلاننگ کی شروعات کردی گئی ہے، ان دونوں ہی کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے، یہ سوچ سنت وشریعت سے ہٹی ہوئی ہے اور اسلام سے مسلمانوں کوبےگانہ کرنے والی ہے،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے اجرکی خاطر اور رضائے الہی کوحاصل کرنے کے لیے قربانیاں کی ہے، ایک  غریب جس پر قربانی واجب نہیں ہے، وہ اس اجر سے محروم ہوتا ہے، آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر جانور غریبوں کے نام پر بھی قربان کیا ہے۔دراصل اس کےاجر وثواب کو غریبوں کے نام کیاہے۔
آج ہمیں قربانی کرتے وقت مقروض ہونے کا خیال آرہا ہے،اور یہ طنز بھی کیا جاتا ہے کہ مسلمان قرض لیکر قربانی کرتا ہے، استاد گرامی قدر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی نے کتاب الفتاوی میں مسئلہ تحریر فرمایا ہے کہ "بنیادی ضروری اشیاء، رہائشی مکان،استعمالی سواری اور استعمالی کپڑوں کے علاوہ جو کچھ اس کی املاک ہوں وہ اتنی ہوں کہ اگر بیچ دی جائیں تو قرض ادا کرنے کے بعد ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر اس کے پاس بچ رہے ہوں تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے، جیسے دوسرے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرض لینا درست ہے ایسے ہی اس مقصد کے لیے قرض لینا درست ہے۔
موجودہ وقت جو ہم سے بے شمار قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے، ایسے وقت میں اس واجب قربانی کے ساتھ نفلی قربانی کا بھی اہتمام ضروری ہے، 
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ کی طرف سے بھی قربانی کیا کروں تو ایک قربانی آپ کی طرف سے کرتا ہوں،یہ ابوداؤد شریف کی حدیث ہے،آج حضرت علی کی اس سنت کو بھی زندہ کرنے کا موقع ہے،آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر،اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا وجملہ امہات المومنین کی طرف سے،اپنے مرحومین کےنام پر قربانی دیکر بے پناہ اجر اور قربانی کے مزاج کو زندہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
ابھی چند سالوں سے جب سے شوشل میڈیا کا شباب آگیا ہے اور ملک میں ایک خاص فکر کی حامل حکومت وجود میں آئی ہے،تسلسل کے ساتھ اس بات کی کوشش ہورہی ہے کہ مسلمانوں کو قربانی سے دور کردیاجائے، افسوس کی بات تو یہ ہےکہ اس صف میں ہمارے دینی بھائی بھی آگئے ہیں،اس چال کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۴/ذی الحج ۱۴۴۳ھ

مسلمان عیدقرباں پر ممنوعہ جانور کی قربانی سے گریز کریں


مسلمان عیدقرباں پر ممنوعہ جانور کی قربانی سے گریز کریں
(نئی دہلی اردو دنیا نیوز۷۲)
نئی دہلی: آسام کی سرکردہ آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کے سربراہ اور ایم پی مولانا بدرالدین اجمل نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بقرعید پر گائے اوردیگر ممنوعہ جانور کی قربانی سے گریز کریں۔بقرعید 10 جولائی کو منائی جائے گی۔نیز جمعیۃ علماء آسام نے بھی مسلمانوں سے عید الاضحی پر گائے کی قربانی نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوو?ں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے۔تنظیم کی ریاستی یونٹ کے سربراہ بدرالدین اجمل نے کہا کہ چونکہ قربانی بقرعید کے تہوار کا ایک اہم حصہ ہے، اس لیے گائے کے علاوہ دیگر جانوروں کی بھی قربانی دی جا سکتی ہے۔آسام کی سیاسی جماعت آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر مولانا بدرالدین اجمل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہندو گائے کو'ماں' مانتے ہیں اور گائے کی پوجا کرتے ہیں، اس لئے ہمیں اِن ہندوو?ں کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہیے۔خیال رہے کہ معروف دینی ادارہ دارالعلوم دیوبند نے 2008 میں عوامی اپیل کی تھی کہ بقرعید پر گائے کی قربانی نہ کی جائے۔ آسام کے دھوبری سے رکن پارلیمان اجمل نے کہا کہ وہ اس اپیل کو دہراتے ہیں کہ بقرعید پر گائے کے بجائے کسی دوسرے جانور کی قربانی دیں، تاکہ ملک کی اکثریتی آبادی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ عید الاضحی کے موقع پر دیگر جانوروں جیسے اونٹ، بکری، بھینس اور بھیڑ کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ اس لیے میری مسلمانوں سے گزارش ہے کہ گائے کی قربانی سے گریز کرتے ہوئے دیگر مجاز جانور کی قربانی کریں

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...