Powered By Blogger

بدھ, جولائی 20, 2022

مدارس کے طلباء چائلڈ ویلفیئر سینٹر سے رہا :

مدارس کے طلباء چائلڈ ویلفیئر سینٹر سے رہا : 


(اردو دنیانیوز۷۲)

پورنیہ کے دس طلبا ایک استاد کے ساتھ بھوپال کے مدرسہ میں داخلہ کے لیے آرہے تھے، تبھی بچوں سمیت استاد کو پولیس نے گرفتار کرکے سی ڈبلیو سی (چائلڈ ویلفیئر سینٹر) کے حوالے کردیا تھا۔ Madrasa students returned home from CWC

بھوپال: بہار کے پورنیہ کے دس طلباء مدرسہ کے استاد محبوب عالم کے ہمراہ سات جون کو بہار کے پورنیہ سے بھوپال کے مدرسے میں داخلہ کے سلسلے میں آ رہے تھے تبھی بیرا گڑھ ریلوے پولیس نے انہیں گرفتار کر کے سی ڈبلیو سی (چائلڈ ویلفیئر سینٹر)کے حوالے کردیا تھا- مدرسہ کے استاد پر بچوں کو اغوا کرنے کا الزام لگایا گیا تھا لیکن جب بچوں کے والدین بہار کے پورنیہ سے بھوپال سی ڈبلیو سی میں حاضر ہوئے تو ان کے دستاویزات کی جانچ کی گئی، لیکن والدین کی بچوں سے ملاقات کرانے سے انکار کردیا گیا- انہیں بہار سی ڈبلیو سی کے حوالے کردیا گیا۔ اور اب بہار سی ڈبلیو سی تمام دستاویزات کی جانچ کرنے کے بعد بچوں کو ان کے والدین کے ہمراہ گھر کے لیے روانہ کردیا ہے۔

بہار پورنیہ کے سماجی کارکن ڈاکٹر امتیاز احمد کہتے ہیں کہ کہ پورنیہ بہار سے 10 بچے بھوپال اس لیے ان کے والدین نے بھیجے تھے تاکہ وہ وہاں پر مدرسے میں رہ کر تعلیم حاصل کر سکیں- مگر یہ بچے بھوپال میں تعصب کا شکار ہوئے اور ایک لمبی قانونی لڑائی اور جدوجہد کے بعد سبھی بچوں کو سی ڈبلیو سی نے والدین کے حوالے کیے انہوں نے کہا ہم اس کام میں جن لوگوں نے بھی تعاؤن کیا ہیں- ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں- خصوصی طور پر مدھیہ پردیش جمیعت علماء کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے بھوپال سے بہار تک قانونی لڑائی میں ہماری ہر قدم مدد کی-

مدارس کے طلباء چائلڈ ویلفیئر سینٹر سے رہا

وہیں مدھیہ پردیش جمیت علماء کے صدر حاجی محمد ہارون نے کہا کہ بہار کے بچے جو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھوپال آئے تھے انہیں متعصبا رویہ کے سبب مشکلات کا سامنا کرنا پڑا- سی ڈبلیو سی اور بیرا گڑھ ریلوے پولیس کے منفی رویے کے سب بچوں کو ایک لمبے وقت تک والدین سے دور چائلڈ لائن میں رہنا پڑا میں رہنا پڑا-

جمعیت علماء اس معاملے کو لے کر قانونی لڑائی لڑے گی- ساتھ ہی ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ افسران جنہوں نے بہار کے بچوں کو ان کی تعلیمی حق سے محروم کیا ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کسی بچے کو اس کے تعلیمی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکے- اسی کے ساتھ ہم مذہب پر دیش حکومت سے یہ بھی مطالبہ کریں گے کی وہ بہار پورنیہ میں ایک وفد کو بھیجے تاکہ وہاں کے لوگ مدھیہ پردیش میں تعلیم کے لیے اپنے بچوں کو بھیجنے کے لیے پھر سے ذہن بنا سکیں- سی ڈبلیو سی کا منفی رویہ بہت خوبصورت تھا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے-

آئینہ روح____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

آئینہ روح____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
ماسٹر محمد سعید نقشبندی دامت برکاتہم صادق پور اسراہا دربھنگہ کا شمار شمالی بہار کے بزرگوں میں ہوتا ہے، انہوں نے اپنے وقت کے کئی پیروں اور مرشدوں سے کسب فیض کیا ہے ، وہ اثبات ونفی اور جذب وکیف کے مراحل سے گذرے ، ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ میں ہوئی اس لیے اردو فارسی زبانوں میںان کو خاصہ درک ہے، حالاں کہ وہ اصلا انگریزی زبان وادب کے آدمی ہیں، اور زندگی کے بیش تر حصوں میں ان کی معاش کا مدار انگریزی ٹیوشن پر رہاہے ، انہوں نے انگریزی زبان وادب کے ٹیوٹر کی حیثیت سے اپنی ایک شناخت بنائی۔
ماسٹر محمد سعید صاحب نے تزکیہ نفس اور معرفت رب کے لیے اپنے کو اہل اللہ کے حوالہ کر دیا، اور نقشبندیہ سلسلہ کے بزرگوں سے عقیدت ومحبت کے طفیل پہلے وہ حاجی منظور احمد مصرولیا ضلع مظفر پور کی بار گاہ میں پہونچے، ۱۹۸۶ء میں حضرت کے وصال کے بعد مخدوم محترم حضرت مولاناحافظ محمد شمس الہدیٰ راجوی دامت برکاتہم کے با فیض دامن سے وابستہ ہوئے او ربقدر ظرف وپیمانہ سلوک کے مراحل طے کیے، اور ان سے خلافت پائی ،حضرت مولانا شمس الہدیٰ صاحب دامت برکاتہم کا فیض شمالی بہار میں جاری ہے اور علماء ، مفتیان کرام اور اہل اللہ کی بڑی تعداد ان کے دامن سے وابستہ ہیں، وہ پیرہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہیں، شعر وادب کا بڑا سُتھراذوق رکھتے ہیں، ان کی نگرانی میں ماسٹر محمد سعید نقشبندی نے ادب وشاعری کے کا کل وگیسو سنوارنے کا کام کیا، ان کا پہلا مجموعۂ کلام آئینہ دل ہے اور دوسرا مجموعہ آئینہ روح کے نام سے منظر عام پر آیا ہے، ان دونوں مجموعوں میں بڑا باریک ربط وتعلق ہے، دل وہ چیز ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اذا صلحت صلح الجسد کلہ ، جب وہ درست رہتا ہے تو سارے اعضاء وجوارح درست کام کرتے ہیں، اور اگر وہ بگاڑ کا شکار ہو گیا تو سارے اعضا فساد وبگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں، ماسٹر محمد سعید صاحب کے مجلیٰ مصفیٰ آئینہ دل سے جو کلام وارد ہوئے وہ انسانون کے قلب ونگاہ کو صاف کرنے والے ہیں اور دل ودماغ کی اصلاح کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتے ہیں۔
آئینہ روح  کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ روح تو امر ربی ہے اور امر ربی خصوصی طور سے جب صوفیاء کے کالبد خاکی میں ہو تو وہ میلا اور گدلا نہیں ہو سکتا، چنانچہ ماسٹر محمد سعید نقشبندی نے روح کا آئینہ دکھا کر عوام سے اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ کر در پردہ اصلاح کا پیغام دیا ہے۔ 
ماسٹر محمد سعید صاحب کے دو سو اٹھاسی صفحات(۲۸۸) کے اس مجموعہ آئینہ دل میں ایک حمد، دو نعت اور ایک سو چون غزلیں ہیں،ہر غزل میں نو اشعار بلکہ بعضوں میں اس سے زائد بھی ہیں، ابتدا میں تین نثری تحریروں کو جگہ دی گئی ہے ایک خود ماسٹر صاحب کی اپنی تحریر ’’کچھ اپنے بارے میں‘‘ کے عنوان سے ہے، ’’سعید صاحب کی شاعری‘‘ کے عنوان سے ان کے پیر ومرشد حضرت حافظ مولانا الحاج شمس الہدیٰ صاحب دامت برکاتہم کی ایک وقیع تحریر شامل کتاب ہے، جس سے ماسٹر محمد سعید صاحب کی شاعری کے در وبست اور ابعاد کا پتہ چلتا ہے۔تیسرا مضمون محمد شاہد عالم کا ہے، جن کے بارے میں نہ مجھے واقفیت ہے اور نہ ہی کتاب سے ان کا کچھ اتہ پتہ معلوم ہوتا ہے، البتہ تحریر اچھی ہے اور مختصر ہے۔
 ماسٹر محمد سعید صاحب کی شاعری کے تخیلات دل کی دنیا سے وابستہ ہیں، حمد ونعت میں ادھر اُدھر بھٹکنے کا عموما کوئی موقع نہیں ہوتا، گو نعت کو مناجات بنانے کی روایت قدیم ہے اور حمد ونعت کے فرق کو کم شعراء ہیں جو ملحوظ رکھتے ہیں، ماسٹر محمد سعید صاحب کی نعت میں یہ پورے طور پر ملحوظ ہے جو بڑی اچھی بات ہے، البتہ غزلوں میں ہمارے شعراء نے ہجر ووصال ، زلف ورخسار اور ترقی پسندوں کے دور میں کاروبار حیات ، جدید یوں کی علامتی شاعری اور ما بعد جدیدیت میں زندگی کے مسائل کا ذکر شعراء کو مختلف وادیوں میں بھٹکاتے رتے ہیں، ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کا فارمولہ تو عام ہے ، لیکن ماسٹر محمد سعید صاحب کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ ادب برائے بندگی پر زور دیتے ہیں، ان کے یہاں عشق مجازی کا گذر نہیں ہے، انہیں الفاظ سے جن سے دوسرے عشق مجازی کا دربار سجاتے ہیں، ماسٹرمحمد سعید صاحب عشق حقیقی کی جلوہ سامانیاں دکھاتے ہیں، غالب کے یہاں مسائل تصوف کا بیان بھی بادہ وساغر کہے بغیربات نہیں بنتی تھی، ماسٹر محمد سعید صاحب بادہ وساغر سے دامن کشاں کشاں عشق حقیقی کی سیر کر ا دیتے ہیں؛ البتہ تصوف ایک راز حیات ہے، عدم ووجود، کن فیکون اور لا مکاں کار مز ہے، اس لیے اگر قاری اس کو بغیر تدبر کے پڑھے گا تو اس کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا؛ کیوں کہ مغز تو خول اور چھلکوں کے اندر ہوتا ہے، الفاظ مسائل تصوف کے بیان میں خول اور چھلکوں کی طرح ہیں، آپ ان کے سہارے حقیقت تک پہونچنے کی کو شش کریں گے تو روح کے رموز ونکات نیز عدم وجود کی کارستانیاں آپ پر روز روشن کی طرح عیاں ہو پائیں گی ، کتاب خوبصورت اور دیدہ زیب ہے،بائنڈنگ اور سرورق میں بھی کشش ہے، دو سو پچاس روپے دے کر بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ،ناولٹی بک ڈپو دربھنگہ، اور خود شاعر کے پتہ صادق پور، اسراہا دربھنگہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ حالت میں کرنے کے کام

موجودہ حالت میں کرنے کے کام 
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
 یہ سوال آج کے تناظر میں بہت اہم ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمان کیا کریں؟ ہمارے خیال میں مسلمانوں کو دو محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے ، ایک محاذ داخلی ہے اور وہی ہماری قوت وطاقت کاسرچشمہ ہے، داخلی طور پر ہمیں دو کام کرنے چاہیے، ایک تو اپنا رشتہ اللہ سے مضبوط کرنا چاہیے، یہ رشتہ ہمارا کمزور ہو گیا ہے، اس لیے اللہ کی نصرت نہیں آ رہی ہے ، مسلمان مختلف قسم کی پریشانیاں ، مصائب اور آلام میں گھر گیا ہے ، رجوع الی اللہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا،ہمیں یاد رکھناچاہیے کہ احوال اعمال کے بدلنے سے بدلتے ہیں، عمال(حکمرانوں) کے بدلنے سے نہیں بدلتے جس کی وجہ سے اعمالکم، عمالکم، کہا گیا ہے ۔
 دوسری چیز ہمارا اتحاد ہے ، مسلمان کو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ کی بنیاد پر ایک امت ایک جماعت بنایا تھا، ہم نے بہت سارے ناموں پر اپنے کو تقسیم کر لیا ہے ، جس سے ہماری قوت منتشر ہو گئی ہے، ہمیں فروعی مسائل سے اوپر اٹھ کر ملی کاموں میں متحدہ جد وجہد کرنی ہوگی، تبھی ہم موجودہ حالات میں پریشانیوں سے نکل پائیں گے ۔
دوسرا محال خارجی ہے اس محاذپر ہمیں منصوبہ بند طریقے پر کام کرناچاہیے، یہ منصوبہ بندی اتنی مضبوط اور مستحکم ہو کہ فرقہ پرست طاقتیں اس میں گھس پیٹھ کرکے تشدد نہ بھڑ کا سکیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ احتجاج ، مظاہرے فوری طور پر شروع نہ کردیے جائیں بلکہ بڑوں کے مشورے سے کام کیا جائے، احتجاج کے لیے قانونی طور پر اجازت لینا ضروری ہو تو وہ بھی کیا جائے، جس مسئلے پراحتجاج کرنا ہو، اس کے لیے میمورنڈم وغیرہ تیار کیا جائے اور متعلقہ افسران تک اسے پہنچایا جائے، جو مجرم ہے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کیا جائے، اور آخری حد تک قانون کے دائرے میں رہ کر کام کیا جائے اور قانون اپنے ہاتھ لینے سے ہر ممکن گریز کریں۔

ساون کا پہلا پیر

ساون کا پہلا پیر
(اردو دنیا نیوز ۷۲)

سوموار کے دن کو برادران وطن کے نزدیک بڑی اہمیت حاصل ہے،خاص پوجا ارچنا کا یہ دن ہوا کرتا ہے،شیوا کو خوش کرنے کے لئے اس دن برت رکھا جاتا ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے بدحالی دور ہوتی ہے، زندگی میں خوشیاں آتی ہیں ،خوشحالی ودولت مندی کا دور شروع ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے ایک دوسرے کو اس کی مبارکبادی بھی دیتے ہیں، شوشل میڈیا پر ایسا کہتے ہوئے میں نےسنا ہے اور آپ بھی سنتے ہی رہتے ہیں، گزشتہ سوموار کے دن کو یادگار بنانے کی کوشش کی گئی ہے،روزنامہ اردو اخبار انقلاب میں بھی محکمہ موسمیات کی طرف سے پیش گوئی کی گئی کہ ساون کے پہلے پیر سے جھماجھم بارش ہونے جارہی ہے، ۱۵/اضلاع میں الرٹ کیا گیا ہے، شمالی بہار کے دواضلاع ارریہ اور کشن گنج میں موسلادھار بارش ہونےکی خبردی گئی،ساون کا پہلا پیر آکر چلا گیا ہے، آج منگل کا دن بھی گزر گیا ہے، تاہنوز کوئی بارش نہیں ہوئی ہے،فضا کچھ ابر آلود رہی مگر ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے بارش اٹک گئی ہے اور برسنے کا نام نہیں لے رہی ہے، کہیں ضرورت سے زیادہ اس پیش گوئی پر یقین کو لیکر خدا ناراض تو نہیں ہوگیا ہے، 
موبائل پر تکیہ کرنے والے بھی عاجز آگئے ہیں، بارش کے تعلق سے موبائل ایپ پر روزانہ بارش ہورہی ہے، اس کی مقدار بھی بتلائی جارہی ہے مگر سرزمین پر کچھ بھی نہیں ہے،دھان کی کاشت کو لیکر یہ علاقہ مشہور رہا ہے، آج یہاں خشک سالی ہے،کھیتاں دھوپ میں جل رہی ہیں اور انمیں دراڑیں پڑ رہی ہیں، کسان پریشان حال ہیں ،سیمانچل کایہ نشیبی علاقہ جو سیلاب زدہ کہلاتا ہے آج خشک سالی کا شکارہوگیا ہے،قدرت نےمحکمہ موسمیات کا دعوی بھی خارج کردیاہے اور موبائل ایپ بھی فیل ہوگیا ہے،
اس تعلق ساری پیش گوئیاں بیکار گئی ہیں اور قرآن وحدیث کی بات ہی ہرزمانے میں صادق وغالب آئی ہے، بارش جب آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے تو پیش گوئی کردی جاتی ہے، ان مشینوں سے اس وقت بھی یہی ہورہا ہے، مگر کہاں بارش ہونی ہے،کتنی مقدار میں ہونی ہے اور کب ہونی ہے اس کا صحیح علم خدا ہی کو ہے۔
بخاری شریف کی حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ بارش کب ہوگی اس کی صحیح خبر اللہ رب العزت ہی جانتا ہے، اللہ کے سواکوئی اس کا حتمی علم نہیں رکھتا ہے،سیٹلائٹ بھی زبان حال سے یہی اعلان کررہا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ یہ پانچ چیزیں غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں رکھتا ہے، ماں کے حمل میں کیا ہے؟آئندہ کل کیا واقع ہونے جارہا ہے، بارش کب ہونے جارہی ہے، زمین کے کس خطہ میں کس کی موت واقع ہونے والی ہےاور قیامت کب قائم ہونے جارہی ہے، (بخاری )
غیب کی صرف یہی پانچ باتیں نہیں ہیں بلکہ غیب  کا سارا علم یہ خدا کے لئے خاص ہے،اہل مکہ کاہنوں کے ذریعہ ان باتوں کو بالخصوص معلوم کیا کرتے اور اس راستے سے خود گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا کرتے تھے،اس لئے بطور خاص اس کا ذکر قرآن وحدیث میں کیا گیا ہے، 
آج ان کاہنوں کی جگہ مشینوں نے لے رکھی ہے، ہم اس کو آخری تحقیق اور آخری بات سمجھنے لگے ہیں اور اس کے ذریعہ گمراہی کے دہانےپر پہونچ رہے ہیں،سب سے سنگین مسئلہ شوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعہ ان امور میں بھی بڑی جرات وجسارت دیکھنے میں آرہی ہے، ساتھ خاص فکر کی اشاعت وترویج بھی کی جارہی ہے اس کا خیال ہمارے ذہن ودماغ نہیں آرہا ہے۔
مسلم شریف کی حدیث میں اس تعلق سے بڑی سخت بات کہی گئی ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ فلاں نچھتر کی وجہ سے بارش ہوئی ہے، ایسا شخص اسی پر ایمان رکھنے والا ہے، اللہ ہماری اور ہماری ایمان کی حفاظت فرمائے، آمین 
آج جب مخلوق پریشان ہےاور علاقہ خشک سالی کا شکار ہے،یہ موقع قرآن وحدیث کے علم کو عام کرنے کا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ رہی ہے کہ پریشانی اور مصیبت کی گھڑی  نماز ودعا کے ذریعہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدائی مددکےطلب گاراورحق دار ہوئے ہیں، خشک سالی میں آپ نے پانی کے لئے دعائیں بھی کی ہےاور نماز بھی پڑھی ہے، اسی لئے بارش کےلئے پڑھی جانے والی نماز کو نماز استسقاء اور اس کے لئے کی جانے والی دعا کو بھی استسقاء کہتے ہیں، آج نہ ہماری زندگی میں یہ نماز استسقاء ہے اور نہ ہی اس کے خاص دعا کا اھتمام ہے، بخاری شریف کی حدیث میں جمعہ کےدن خطبہ میں بارش کی دعا کی تعلیم کی گئی ہے،اس جانب ہمارے ائمہ کرام کو متوجہ کرنے کی بھی ضرورت ہے، اپنے گناہوں سے ہم توبہ کریں، صدقہ کا خاص اھتمام کریں،اور اس دعا کو پڑھتے رہیں، اللهم اسقنا غيثا مغيثا، مريءا مريعا،نافعاغيرضار،عاجلاغيراجل (ابوداؤد )
ترجمہ:ہمیں بھرپور،خوشگوار، شادابی لانے والی،نفع بخش غیر نقصان دہ، جلدی نہ کہ تاخیر والی بارش عطا فرما،( آمین )

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۹/جولائی ۲۰۲۲ء

ہفتہ, جولائی 09, 2022

تعصب - مہلک نفسیاتی بیماری __

تعصب - مہلک نفسیاتی بیماری __
(اردو دنیا نیوز۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
اللہ رب العزت نے انسان کو ایک مرد وعورت سے پیدا کیا اور تعارف کے لیے خاندان اور قبائل بنائے، لیکن برتری اورعظمت کا معیار تقویٰ کو قرار دیا، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر ، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ، سوائے تقویٰ کے ، یعنی تقویٰ معیار فضیلت ہے، دوسری کوئی چیز قابل اعتنا نہیں ہے ،  اللہ رب العزت نے اکرام بنی آدم کا اعلان کیا  اور انسانوں کی تخلیق کو’’ احسن تقویم‘‘ یعنی تمام مخلوقات میں سب سے اچھی شکل وصورت والا،سے تعبیر کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے، یعنی انسانی معاملات میں کسی اور بنیاد پر تفریق کی گنجائش نہیں ہے، مساوات کی اسی بنیاد پر حضرت بلال حبشی ؒ مؤذن رسول بن گیے، اور فاطمہ بنت قیس سے چوری کا عمل سر زد ہوا تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر فاطمہ بنت محمد ؐ  بھی ہوتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جاتا، بعض موقعوں پر جب اپنے اپنے قبیلے کو لوگ آواز دینے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاہلی پُکار قرار دیا اور اس پر نکیر فرمائی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں مذکور ہے، جس میں انہوں نے اسے شیطان کے عمل سے تعبیر کیا ہے ۔ اللہ رب العزت نے اس قسم کے تعصب پر قابو رکھنے کے لیے اعلان کر دیا کہ تمام ایمان والے بھائی بھائی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد جو مواخاۃ کو رواج دیا اور مہاجر وانصار کے درمیان مثالی اخوت قائم فرمائی، وہ انہیں احکام کا عملی مظہر تھا۔تمام قسم کی عصبیت کو ختم کرنے کے لیے ہی اسلام نے یہ واضح کیا کہ اس کائنات کا رب، رب العالمین اور الٰہ العٰلمین ہے، اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو رحمۃ للعالمین ہیں اور اللہ رب العزت کی آخری کتاب قرآن کریم ہے جو ھُدی للعٰلمین ہے، یعنی ذات، برادری، علاقائیت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں جو کچھ ہے سارے جہاں کے لیے ہے، اور سب کے لیے ہے۔
تعصب  ایک نفسیاتی بیماری ہے، جس کی وجہ سے انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے، اور وہ اپنے خول سے باہر نہیں نکل پاتا ہے۔اس کے باوجود مسلم سماج میں تعصب نے اس قدر جگہ بنالی ہے کہ ہم اس سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہوتے، اپنے خاندان، اپنے علاقے، اپنی برادری، اپنی زبان ، اپنی مادر علمی وغیرہ سے محبت فطری ہے اور یہ محبت مذموم بھی نہیں ہے، مکہ اور کعبۃ اللہ سے جو محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھی ، اسی وجہ سے تو تحویل قبلہ کے لیے بار بار آسمان کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھا کرتے تھے، معلوم ہوا کہ اس طرح کی فطری بنیاد کو ختم نہیں کیا جا سکتا،اسی لیے اپنے قوم کو عزیز رکھنے کوعصبیت نہیں قرار دیا گیا، عصبیت اپنے قوم کی بے جا طرفداری اور بے جا حمایت کا نام ہے۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی اپنے قوم وجماعت کی ظلم وزیادتی کے معاملہ میں مدد کرے، صرف اپنے خاندان ، قبیلے ، ذات برادری ، علاقے کو فیصلے کی بنیاد بنانا، اپنے لوگ ظالم پر ہوں اس کے باوجود ان کا تعاون کرنا،بے جا رعایت ، طرفداری، بے جا حمایت، حقیقت ظاہر ہوجانے کے بعد بھی حق بات سے انکار اور صرف اس بنیاد پر عہدے تفویض کرنا ، ترقی دینا یہ تعصب ہے اور شریعت کی نظر میں مذموم اور نا پسندیدہ عمل ہے اور اس قدر نا پسندیدہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو تعصب پر مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا،اور وہ ہم میں سے نہیں ہے ، ارشاد فرمایا ؛ وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے، وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر جنگ کرے اور نہ وہ ہم میں سے ہے جو عصبیت پر مرے، اس وعید کا تقاضہ ہے کہ ہم لازما ان بنیادوں پر کوئی فیصلے نہ لیں، بلکہ انصاف کریں، خواہ وہ اپنی ذات، اپنے والدین ، اپنے عزیز واقرباء کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی قوم کی دشمنی تم کو نا انصافی پر نہ ابھارے، انصاف کیا کرو، کیوں کہ یہ تقویٰ سے قریب ہے۔
 ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے دوسرے احکام شرعیہ کی طرح اس حکم کو بھی فراموش کر دیا، اب ہمارے تعلق اور فیصلہ کی بنیاد میرا بھائی، میرا خاندان ، میرا ضلع، میرے لوگ ، میرا علاقہ، میرے معتقدین ، میرے فدائین ہیں، صلاحیتوں کا اعتبار نہیں، تعلقات کا اعتبار ہے، جس کی وجہ سے ملکی سیاست سے لے کر ادارے، تنظیموں، جماعتوں اور جمیعتوں تک میں بہت سارے فیصلے تعصب کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، وہ لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں، جنہوں نے ملک وملت کے لیے کچھ نہیں کیا ہوتا ہے، بس ان کی صلاحیت یہ ہوتی ہے کہ وہ متعلقہ ذمہ دار کے علاقے کے ہیں، یا ان کے بھائی اور رشتہ دار ہیں، اس کے نتیجہ میں ہوتا یہ ہے کہ اسپ تازی تو پالان سے مجروح ہوجاتا ہے اور طوق زریں گدھوں کے گلے کی زینت بن جاتا ہے۔بے ساختہ یہاں پر حافظ شیرازی یاد آگیے۔
ابلہاں را ہمہ شربت زگلاب وقنداست
قوت ِدانا ہمہ از خون جگر می بینم
اسپ تازی شدہ مجروح بہ زیر پالان
طوق ’’زریں‘‘ ہمہ بر گردن ’’خر‘‘ می بینم
خاندانی اور علاقائی تعصب کے علاوہ لسانی تعصب نے بھی ہمارے درمیان جگہ بنالیا ہے، اس حوالہ سے بھی مختلف علاقوںمیں جنگ وجدل کا بازار گرم رہا ہے،مادر علمی کے حوالہ سے بھی تعصب بڑھتا جارہا ہے، مختلف اداروں کے فارغین نے الگ الگ تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں، ان میں بھی دوسرے اداروں پر طنز وتعریض کا بازار گرم ہوتا ہے اور ایک دوسرے پر اپنی اہمیت اور بر تری ثابت کرنے کے لیے وہ سب کر گذراجاتا ہے، جس سے اسلام نے منع کیا ہے ، یہی حال برادرانہ تعصب کا ہے، چھوٹی ذات، بڑی ذات کے جھگڑے عام ہیں، حالاں کہ اسلام نے جو مساوات کا سبق ہمیں پڑھایا ہے اس کی روشنی میں نہ کوئی طبقہ اشراف سے ہے اور نہ کوئی طبقہ ارذال ۔ یہ انتہائی بیہودہ تقسیم ہے جو اسلام کے لیے کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے، یہاں پر کچھ لوگوں کا ذہن شادی بیاہ میں کفائت کی طرف منتقل ہوتا ہے، شریعت دین داری میں کفائت کا مطالبہ کرتی ہے، بقیہ شادی کرنے والی لڑکی اورعورت کو اختیار دیتی ہے کہ وہ زندگی صحیح ڈھنگ سے گذارنے کے لیے میچنگ دیکھ لیں تاکہ زن وشو کے درمیان محبت والفت کا تعلق بر قرار رہے، کفائت کی بنیاد اشراف وارذال نہیں ہے، اور یہ کسی طرح بھی شریعت کی منشا ئِ مساوات کے خلاف نہیں ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تو مسجدوں کے نام بھی ذات برادری کے نام پر رکھے جانے لگے اور بعض علاقوں میں خود میرا مشاہدہ ہے کہ قبرستان تک میں تعصب برتا جاتا ہے، اور بڑی ذات کے لوگوں کے قبرستان الگ اورجنہیں چھوٹی ذات کہا جاتا ہے اس کے قبرستان الگ ہیں، ایک شہر میں دیکھا کہ جو مقامی آبادی ہے اس کا قبرستان الگ ہے اور جو لوگ اس شہر میں باہر سے آکر بسے، ان کا قبرستان الگ ہے، یہ باہر کے لوگ مقامی آبادی والے قبرستان میں دفن نہیں ہو سکتے۔
 عصبیت چاہے جس قسم کی بھی ہو اس کے بڑے مضر اثرات سامنے آتے ہیں، بندوں کے جو حقوق ہیں اس کی ادائیگی میں قصدا کوتاہی ہونے لگتی ہے، ظلم کا دروازہ کھلتا ہے اور نا انصافی عام ہوجاتی ہے، بڑوں کو چھوٹا اور اپنے کو حقدار ثابت کرنے کے لئے دوسرے سے حسد، بغض، ایک دوسرے کی ٹوہ اور غیبت کی ایسی گرم بازاری ہوتی ہے کہ الامان والحفیظ ، غیبت کی اس مجلس میں دوسرے پر الزام تراشی، بہتان وغیرہ لگا کر اپنے کو برتر اور دوسرے کو ارذل، ناکارہ اور نکما ثابت کرنے پر توانائی لگائی جاتی ہے؛ کیوں کہ اس کے بغیر وہ اپنے کو مطلوبہ عہدہ کا حق دار ثابت نہیں کر سکتا، تعصب کے شکار ایسے شخص کو اگر کسی کے لاشے سے گذر کر اپنی برتری ثابت کرنی ہو تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کرتا، غیبت تو خود ہی اپنے مرے ہوئے بھائی کے گوشت کھانے کی طرح ہے، مرے ہوئے بھائی کا مطلب تو لاشہ ہی ہوتا ہے، اوچھی اور گھنونی حرکت کے نتیجے میں بڑے چھوٹے کی تفریق ختم ہوجاتی ہے، اور ظاہر ہے یہ فتنہ وفساد کے نئے دروازے کھولتا ہے۔
تعصب کی جو قسمیں ہمارے یہاں رائج ہیں ان میں ایک مسلکی تعصب ہے، فروعی مسائل میں جزوی اختلافات کو بنیاد بنا کر جو تعصب پیدا کیا گیا ہے اس نے ہمارے کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کو سخت نقصان پہونچا یا ہے مسلمان فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ گیے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو ایک امت بنایا تھا، لیکن ہم تقسیم ہوتے چلے گیے، ملکی اور سماجی منظر نامہ میں سیاسی تعصب نے بھی انسانوں کو بانٹنے کا کام کیا ہے اور اب جب کہ سیاست میں کرسی کی اہمیت زیادہ ہو گئی اور نظریات پس پشت چلے گیے ہیںتو ہندو توا کے تعصب نے رواج پا لیا او رآج جو پورے ہندوستان میں نفرت کی کاشت ہو رہی ہے وہ اسی تعصب کا نتیجہ ہے۔ علاقائی تعصب بھی ، عصبیت کی بد ترین قسم ہے، کون کس علاقہ کا ہے اس بنیاد پر بھی فیصلے ہمارے یہاں عام ہیں، علاقائی تعصب کا دائرہ ریاست سے شروع  ہو کر ، ضلع، بلاک ، گاؤں اور خاندان تک پہونچ جاتا ہے، اب تو اس تعصب کا دائرہ دریا کے اُس پار، اِس پار تک پھیل گیا ہے ۔ عصبیت جس قسم کی بھی ہو، نسلی ہو یا لسانی، طبقاتی ہو یا مذہبی ، علاقائی ہو یا جماعتی مہلک نفسیاتی بیماری ہے جس شخص میں ایسا تعصب پیدا ہوجاتا ہے اس کی جسمانی موت چاہے نہ ہو، لیکن روحانی ، ایمانی اور اخلاقی موت ہوجاتی ہے، وہ اس زمین پر چلتا پھر تا ہنستا ، بولتا ہے، لیکن حقیقتا وہ ایک لاش ہوتا ہے، جس سے عصبیت کی بدبو آتی رہتی ہے۔اسی لیے میں نے اسے مہلک نفسیاتی بیماری کہاہے ۔

جمعہ, جولائی 08, 2022

قربانی اور ہماری سماجی ذمہ داری

قربانی اور ہماری سماجی ذمہ داری
(اردو دنیا نیوز۷۲)
  علاقہ کی مشہور و معروف تنظیم "تنظیم تحفظ شریعت  ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ" کے زیراہتمام  میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں قربانی اور اس کے متعلقات کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں۔
  تنظیم کے ترجمان جناب عبدالسلام عادل ندوی نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے بلایا گیا ہے کہ لوگ قربانی کے ایام میں صفائی پر خصوصی توجہ دیں اور اپنے ہم وطن بھائیوں کا خیال رکھیں کہ وہ کوئی نہیں ہے. چوٹ مت   تنظیم کے سکریٹری مولانا عبدالوارث نے کہا کہ زمانہ قدیم سے تمام مذاہب کے ماننے والوں پر قربانی فرض ہے، ایسا نہیں ہے کہ قربانی کا رواج صرف اسلام میں ہے۔  قربانی کے شواہد تمام مذاہب میں پائے جاتے ہیں، آج بھی لوگ خدا کے نام پر قربانیاں پیش کرتے ہیں، اگرچہ مختلف انداز کے ساتھ۔
  معروف مذہبی اسکالر جناب عبداللہ سلیم چترویدی نے کہا کہ قربانی کا ذکر تمام مذہبی کتابوں میں موجود ہے۔  حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء اور اوتار اس زمین پر پیدا ہوئے ان کے پیروکاروں کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔  انہوں نے مسلم کمیٹی کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ان جانوروں کی قربانی نہ کریں جن سے ہمارے بھائیوں کا ایمان وابستہ ہے۔
  اجلاس میں علاقہ کی سرکردہ شخصیات مفتی سلیمان نوا ننکر، قاری امتیاز صاحب، قاری منظور صاحب، مولانا طلحہ، عبدالقدوس راہی، ماسٹر خالد صبا، ماسٹر شمشاد صاحب وغیرہ نے شرکت کی

कुर्बानी और हमारी सामाजिक दायित्व

कुर्बानी और हमारी सामाजिक दायित्व
क्षेत्र की प्रसिद्ध एवं लोकप्रिय संगठन "तंजीम तहफफुजे शरीअत व वेल्फेयर सोसाइटी जोकीहाट" के बैनर तले एक महत्वपूर्ण बैठक नववा नंकार में बुलाई गई जिसमें कुर्बानी और उसके संबंध में जानकारियां दी गई। 
संगठन के प्रवक्ता श्री अब्दुस सलाम आदिल नदवी ने संवाददाताओं से बात करते हुए कहा कि यह बैठक लोगों में जागरूकता लाने के लिए बुलाई गई है कि लोग कुर्बानी के दिनों में विशेष तौर पर सफाई का ध्यान दें और अपने हमवतन भाइयों का खयाल रखें कि उनको कोई तकलीफ ना पहुंचे। संगठन के सचिव मौलाना अब्दुल वारिस ने कहा कि प्राचीन काल से ही सभी धर्म के मानने वालों पर बलिदान अनिवार्य रहा है, ऐसा नहीं है कि केवल इस्लाम धर्म में ही कुर्बानी की प्रथा प्रचलित है। बलिदान के प्रमाण सभी धर्मों में मिलते हैं।आज भी लोग भगवान के नाम पर बलिदान चढ़ाते हैं, भले ही उनकी शैली अलग हो।
प्रसिद्ध धार्मिक विद्वान श्री अब्दुल्ला सालिम चतुर्वेदी ने कहा कि तमाम धार्मिक ग्रंथों में बलिदान का उल्लेख है। आदम अलैहिससलाम से लेकर हजरत मोहम्मद तक जितने नबी और अवतार ने इस धरती पर जन्म लिया सब के समर्थकों को बलिदान करने का आदेश दिया गया था। उन्होंने मुस्लिम समुदाय के लोगों से अपील की के कहा वह उन जानवरों की कुर्बानी ना दें जिन से हमारे भाइयों का आस्था जुड़ी हुई है। 
बैठक में  क्षेत्र की प्रसिद्ध शख्सियतें मुफ्ती सुलेमान नंववा नंकार, कारी इम्तियाज साहेब, कारी मंजूर साहेब, मौलाना तलहा, अब्दुल कुददूस राही, मास्टर खालिद सबा, मास्टर शमशाद साहब, इत्यादि ने मौजूद थे।

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...