Powered By Blogger

بدھ, جولائی 27, 2022

بہار کے دو اضلاع کے سرکاری اسکولوں میں جمعہ کے روز چھٹی پر حکومت حرکت میں، جانچ کا حکم

بہار کے دو اضلاع کے سرکاری اسکولوں میں جمعہ کے روز چھٹی پر حکومت حرکت میں، جانچ کا حکم


پٹنہ، 27 جولائی (اردو دنیا نیوز ۷۲)۔ بہار کے مسلم اکثریتی اضلاع کشن گنج اور کٹیہار کے کچھ سرکاری اسکولوں میں اتوارکے بجائے جمعہ کے روزہفتہ وار تعطیل ہونے کا انکشاف ہونے کے بعد ریاستی حکومت حرکت میں آگئی ہے۔ وزیر تعلیم وجے کمار چودھری نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ کشن گنج میں 37 اور کٹیہار ضلع کے 21 سرکاری اسکول اتوار کے بجائے جمعہ کو بند رہتے ہیں۔

حکومت نے بغیر کسی سرکاری اجازت کے ایسا کرنے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ کشن گنج-کٹیہار کے ضلع ایجوکیشن افسر (ڈی ای او) سے رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ وزیر تعلیم چو دھری کا کہنا ہے کہ رپورٹ آنے کے بعد مناسب کارروائی کی جائے گی۔ اسکول حکومت کے قوانین پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

دل ودماغ کوترو تازہ رکھنے کا ہنر__

دل ودماغ کوترو تازہ رکھنے کا ہنر__
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف 
 (9431003131) 
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
 بڑھتی عمر کے سائے انسانی جسم اور دل ودماغ پر پڑتے ہیں تو دل ، دماغ، جسم سب کمزور ہوجاتا ہے ، اکبر الٰہ آبادی کے لفظوں میں ’’بچوں سے کیا بدترپیری نے جو اں ہو کر‘‘ کا منظر سامنے ہوتا ہے ، اعضاء رئیسہ کے کمزور ہونے سے چلنے پھرنے کی صلاحیت بھی کمزور پڑ جاتی ہے، یاد داشت ساتھ چھوڑ نے لگتے ہیں اور حافظہ کمزور ہوجاتا ہے ، جیسے جیسے آدمی ’’ارذلِ عمر‘‘ کو پہونچتا ہے وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان ہوجاتا ہے ۔ قرآن کریم میں اسے لکیلا یعلم بعدعلم شیئا سے تعبیر کیاگیا ہے ، بڑھتی عمر کے اثرات کو روک پانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے ، لیکن ہم بڑھا پے میں بھی فکر کو تر وتازہ اور مثبت رکھ کر دماغ سے دیر تک کام لے سکتے ہیں، صحت عامہ کے اصولوں کا خیال رکھ کر جسم کوتیزی سے کمزور ہونے سے بچا سکتے ہیں۔دراصل قدرت نے ہمارے دماغ میں یاد داشت کے محفوظ رکھنے کا بڑا خانہ بنایا ہے؛ جس کی وجہ سے ہمارا ماضی اور اچھے دن کی یاد ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے، یہ یادیں ہمیں زیادہ پریشان کر تی ہیں، اسی لیے ایک شاعر نے کہا تھا کہ یاد ماضی عذاب ہے یا رب/چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
 ماضی سے ہم اپنا رشتہ توڑ نہیں سکتے، لیکن ہم حال میں جینے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا سکتے ہیں، حال میں جینے سے آپ کے کام کرنے کی صلاحیت باقی رہتی ہے، اور ماضی کی یادوں کے سہارے آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہتے، جب آپ ماضی میں جیتے ہیں تو اچھے دنوں کی یاد آپ کو پریشان کرتی ہے، آپ سوچتے رہتے ہیں کہ آخر وہ دن کیسے ہَوا ہوگیے جب پسینہ گلاب تھا، یہ سوچ دکھ درد میں اضافہ کا سبب ہوا کرتی ہے، اس لیے ماضی کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن اس کو سوچ سوچ کر ہلکان ہونا کسی بھی درجہ میں عقل مندی نہیں ہے، جب ہم ماضی میں خود کو قید کر لیتے ہیں تو ہمارے آگے بڑھنے کے راستے خود ہی مسدود اور بند ہوجاتے ہیں۔
 اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم وجان اور دل ودماغ کے رشتے کو اس قدر کنفیڈنشل، خفیہ رکھا ہے کہ کوئی دوسرا ہمارے اندر جھانک کر ہمارے ماضی کا پتہ نہیں چلا سکتا تا آں کہ ہم خود ہی کسی کو راز دارنہ بنالیں، ہمارے تعلقات خاندان، سماج کے ساتھ الگ الگ ہوتے ہیں اور تعلقات کی نوعیت کے اعتبار سے ہمارا کرداربھی الگ الگ ہوتا ہے ، ہم بعض لوگوں کی جھوٹی تعریف کرکے اسے خوش کرتے ہیں، بعض سے ہمارا ذہنی اختلاف ہوتا ہے اور ہم اس کے در پہ آزار ہوتے ہیں،ہم سماج کو جیسا دکھتے ہیں ویسا ہوتے نہیں اور جیسا ہوتے ہیں ویسا دِکھتے نہیں، ہر آدمی وقت اورحالات کے اعتبار سے کچھوا کی طرح خول میں بند ہوتا ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اس خول سے باہر آکر لوگوں کو بتائے کہ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اگر ہم اصلی صورت میں لوگوں کے سامنے آجائیں اور اللہ ہمارے گناہوں پر پردہ نہ ڈالے اور اپنی صفت ستاریت کے صدقے ہماری بے راہ رویوں کومعاف نہ کرے تو واقعہ یہ ہے کہ بیش تر لوگ سماج کو منہہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں، یقینا سماج کے سامنے اپنی مثالی تصویر بنائے رکھنا بُری بات نہیں ہے، لیکن ہمیں خود کو پہچاننا چاہیے کہ ہماری اصل کیا ہے ؟ ہمارے اندرکس قدر خوبیاں اور خامیاں ہیں؟ ہمارے قول وعمل میں کتنا تضاد ہے؟ہمیں ان سے واقف ہونا چاہیے، اپنا محاسبہ کرنا چاہیے ہمارے کردار سے دوسروں کو دھوکہ ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں خود کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے اور خود فریبی سے بچنا چاہیے، اس سے آپ کے کام کرنے کی صلاحیت بڑھے گی ، دماغ تر وتازہ رہے گا اور زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی آئے گی ، اور آپ کو اطمینان بھی ہوگا کہ ہم اپنے کو پہچان رہے ہیں، اور جو خود کو پہچان گیا وہ رب کو بھی پہچان لیتا ہے، من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کا یہی مطلب ہے، یعنی معرفت نفس آدمی کو معرفت رب تک پہونچا دیتا ہے۔
خود کو پہچاننے کا یہ عمل آپ کو ذہنی تناؤ سے بھی بچا ئے گا، اس سے آپ کی سوچ میں تبدیلی آئے گی اور آپ صحیح فیصلے پر قادر ہو سکیں گے ، تناؤ اور ذہنی الجھن کی کثرت سے آدمی کے فیصلے کرنے کی قوت گھٹتی ہے ، آپ کے اندر حالات سے مقابلے اورمدافعت کی قوت کمزورہوجاتی ہے، اور آپ حالات کا سامنا کرنے کے بجائے اس سے راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں، کچھ دن اگر آپ اسی حالت میں رہ گیے تو زندگی بے رس اور بے کیف ہوجاتی ہے اورآپ اس سے لطف اندوز نہیں ہو پاتے ہیں۔
 اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مثبت سوچ کے ساتھ زندگی گذاریں ، کیوں کہ جب ہم کسی کے خلاف منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں اور کسی کی دشمنی ہمارے دل ودماغ پر حاوی ہو جاتی ہے تو ہم پُرسکون نہیں رہ پاتے ، ہم جب پر سکون ہوتے ہیں تو فکر میں ہمارے تروتازگی ہوتی ہے اور ہم اپنے نظریات اور فکر کو نئی سمت سے آشنا کر سکتے ہیں، لیکن ہم ہر بار اپنی پرانی عادت اور کام کے پرانے طریقے کو ہی دہراتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیںکہ یہ ہمارے تجربات کا نچوڑ ہے، لیکن اگر ہم کچھ نیا سوچ سکیں ، نئے طریقے کو سامنے لا سکیں تو ہمارے لیے ہو سکتا ہے کہ یہ ایک خوش گوار لمحہ ہو اور اس نئے طریقے کی سو چ ہمارے اندر نئی توانائی اور شادابی بھردے۔ در اصل عادتیں اور تجربات بہت طاقت ور ہوتے ہیں، اس لیے انسان آسانی سے اس سے پیچھا چھڑا نہیں پاتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پرانے تجربات اور عادتوں کو بار بار دہراتے رہنے سے آپ نئی راہوں پر چلنے کا حوصلہ نہیں جُٹاپاتے اور مواقع کھو دیتے ہیں، جس سے آپ کی ذہنی تروتازدگی میں فرق پڑتا ہے۔ آپ جب حال میں جینا سیکھ جاتے ہیں تو بہت ساری ذہنی پریشانیوں سے بچ جاتے ہیں اور آپ کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ بوڑھاپے میں خوشگوار زندگی جیتے رہیں او ر اپنی سوچ اورفکر کو بوڑھاہونے سے بچالیں۔ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انسانی زندگی پر خود کی سوچ اور فکر کا بڑا اثر ہوتا ہے، آپ دن بھر جو کچھ سوچتے ہیں، اسی سے آپ کی شخصیت کی تعمیر وتشکیل ہوتی ہے، نفسیات کے ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ جو کچھ سوچتے ہیں، وہی مختلف اشکال، صورت اور واقعات کی شکل میں خواب میں آتے ہیں، امریکہ کے ایک دانشور کا کہنا ہے کہ آدمی کی سوچ اور فکر ہی اس کی شخصیت کو تیار کرتے ہیں، اس کو آپ ایک مثال سے اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ آپ ظاہری رکھ رکھاؤ کے لیے اچھے کپڑے پہنے ہیں، بال داڑھی بنواتے ہیں، ورزش کرتے ہیںتاکہ آپ اچھے دکھیں، اسی طرح ذہن وفکر پر بھی محنت کی ضرورت ہوتی ہے، آپ اگر مذہبی اقدار پر یقین رکھتے ہیں، آپ کا قلب ایمان کی دولت سے مالا مال اور آپ کا عمل اسلامی تعلیمات کا مظہر ہے تو آپ کی فکر پر اس کا اثر پڑتا ہے اور اگر آپ نے دل ودماغ میں ملحدانہ افکار اور خدا بیزار عادت کو اپنا رکھا ہے تو آپ کی سوچ لا مذہبیت والی ہوجائے گی، اور آپ کی شخصیت پر اس کے واضح اثرات پڑیں گے، پھر قلب کی بے اطمینانی ، دل کی بے چینی اور دماغ کا جنون بڑھتا جائے گا، آپ اگر ہر وقت نا کامی کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کو ناکام ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا، کیوں کہ آپ کے دماغ میں ناکامی رچ بس گئی ہے، اور جو چیز دماغ میں رچ بس جاتی ہے اعمال کا صدور اسی حوالہ سے ہوا کرتا ہے، اس کے برعکس اگر آپ کے ذہن میں بیٹھا ہوا ہے کہ ہم یہ کر سکتے ہیں تو آپ کی محنت کا رخ بالکل الگ ہوگا، وہ جو نیپولین بونا پاٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ آیا،اس نے دیکھا اور فتح کر لیا، وہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے، وہ کہا کرتا تھا کہ ناکامی کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے، اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ کامیابی کے سلسلے میں انتہائی پر امید رہا کرتا تھا، سڑک کنارے ایک بورڈ پر لکھا ہوا میں نے دیکھا کہ ناکامی کا مطلب ہے کہ کامیابی کے لیے صحیح ڈھنگ سے کوشش نہیں کی گئی، ایک مفکر کاقول ہے کہ کوئی بھی مسئلہ بڑا نہیں ہماری سوچ اسے بڑا بنا دیتی ہے، بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ بدل نہیں سکتے تو بھی ہلکان مت ہوئیے، کوئی ایسی بات سوچیے کہ اس کی اچھی توجیہہ ہوجائے، ایک شاعر انتہائی کالا کلوٹا تھا، لوگ اس کی تصویر لینے لگے تواس نے کہا کہ میری تصویر تو ڈجیٹل کیمرے سے بھی ڈارک ہی آتی ہے، پھر اس نے کہا کہ میرے اس رنگ کی خصوصیت ہے کہ یہ سارے رنگوں پر حاوی ہوجاتا ہے، نظر بد سے بچنے کے لیے مائیں میرے ہی رنگ کا بچوں کو ٹیکہ لگاتی ہیں، ظاہر ہے آپ اپنے چہرے کا رنگ بدل نہیں سکتے، لیکن خود پر ہنس کر اس کی اچھی توجیہ کرکے آپ مایوسی سے پیچھا ضرور چھڑا سکتے ہیں، یہ کام کیجئے دیکھئے بوڑھاپے میں بھی کس قدر زندگی نشاط آمیز ہوتی ہے۔
 خوشگوار زندگی گذارنے کے لیے تحمل اور برداشت بنیادی چیز ہے، کاموں کے وقت پر نمٹانے کا ایک نظام الاوقات بنائیں، ہدف مقرر کریں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ مقرر ہ وقت پر آپ ہدف تک پہونچ کر ہی دم لیں گے ، اس کے لیے کام میں انہماک اور ’’من‘‘ کی توانائی اور’’ تن‘‘ کی مستعدی ضروری ہے۔امید کا دامن تھامے رکھیں اور قناعت کے ساتھ زندگی گذاریں، اس سے آپ کا جسم بھی ٹھیک رہے گا اور دماغ بھی قابو میں رہے گا، زندگی میں آرائشی سامانوں کی کثرت سے خوشیاں نہیں ملتیں، خوشیاں ’’من‘‘ کے مطمئن ہونے سے ملا کرتی ہیں، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ کام کے بوجھ کے ساتھ آپ اپنے بیوی بچوں کے لیے بھی تھوڑا وقت نکالیں، اس لیے کہ آپ پر آپ کا بھی حق ہے۔ترمذی شریف کی ایک روایت میں حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابو داؤد کا واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؓ نے ان سے کہا کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے رب کا بھی حق ہے، سب کے حقوق ادا کیا کرو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ذکر آیا تو آپ نے حضرت سلمان کی تائید کی ، امام ترمذی نے اس روایت کو ’’حسن ‘‘کہا ہے۔

سونیا گاندھی آج پھر ای ڈی دفتر میں درج کرائیں گی بیان ، عوامی مسائل پر کانگریس کا ستیہ گرہ جاری

سونیا گاندھی آج پھر ای ڈی دفتر میں درج کرائیں گی بیان ، عوامی مسائل پر کانگریس کا ستیہ گرہ جاری
(اُردو دنیانیوز۷۲)
نئی دہلی: کانگریس صدر سونیا گاندھی آج لگاتار دوسری مرتبہ ای ڈی کے دفتر میں پہنچ کر اپنا بیان درج کرائیں گی۔ نیشنل ہیرالڈ معاملہ میں سونیا گاندھی آج تیسری مرتبہ ای ڈی دفتر میں پیش ہونے جا رہی ہیں۔ ادھر، عوام کو درپیش مختلف مسائل کو لے کر کانگریس پارٹی کا ملک گیر ستیہ گرہ جاری رہے گا۔کانگریس لیڈر اجے ماکن نے کہا ''ہم ملک بھر میں اپنا ستیہ گرہ جاری رکھیں گے اور لوگوں کے مسائل کو اٹھائیں گے۔ دہلی میں ہم اپنے مرکزی دفتر میں احتجاج کریں گے۔'' کانگریس پارٹی کی جانب سے گزشتہ روز بھی احتجاج کیا گیا تھا۔ دہلی میں کانگریس لیڈر راہل گاندھی سمیت متعدد پارٹی لیڈران کو اس وقت حراست میں لے لیا گیا تھا جب وہ راجیو چوک پر دھرنا دے رہے تھے۔

کانگریس پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ راجیو چوک سے صدارتی محل تک مارچ نکالنے جا رہے تھے، جسے دہلی پولیس نے ناکام بنا دیا۔ دہلی پولیس نے احتجاج و مظاہرہ کرنے کی پاداش میں راہل گاندھی سمیت کانگریس کے 50 ارکان پارلیمنٹ کو حراست میں لیا تھا۔ تقریباً 7 گھنٹے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔

ادھر، کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے منگل کی شب مودی حکومت پر حملہ بولتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ کو 7 گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد شام 6.45 پر اس خبر کے ساتھ رہا کیا گیا کہ سونیا گاندھی سے کل تیسرے دن بھی ای ڈی پوچھ گچھ کرے گی۔ یہ 'وش گرو' کا سیاسی انتقام ہے۔ اس صورت حال کو بیان کرنے کے لئے 'گھناؤنا' بھی ہلکا لفظ ہے۔

منگل, جولائی 26, 2022

حمل کے نہ ٹہرنے کی وجوہات اور ان کا علاج

مچھرگانواں جوگاپٹی یونانی دوا خانہ
*موبائل نمبر8298377755
*🧕حمل کے نہ ٹہرنے کی وجوہات اور ان کا *
(اردو دنیا نیوز۷۲)
*عورتوں کے اندر حمل نہ ٹہرنے کے اسباب*

*یاد رکھیں*

عام طور سے شادی کے فورا بعد سے تمام عزیزو اقارب کو اس بات کا انتظار شروع ہو جاتا ہے کہ کب کوئی خوشخبری سننے کو ملے گی اور ان کے بار بار کے تقاضے نۓ شادی شدہ جوڑے کو ایک ذہنی دباؤ کا شکار کر دیتے ہیں ۔ مگر یاد رکھیں کہ شادی کے ایک سال تک اگر آپ امید سے نہیں ہوتے تو یہ کسی بھی قسم کی پریشانی کی بات نہیں ہے کیوں کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے حمل کے ٹہرنے میں بھی وقت لگ سکتا ہے تاہم ایک سال کے بعد اگر حمل نہ ٹہرے تو اس حوالے سے ڈاکٹر سے معائنہ کروانا ایک ضروری امر ہے
*حکیم خوش محمد رابطہ کریں
* 8298377755*

اگر آپ کی شادی کوایک سال ہو گیا ہے اور حمل نہیں ٹہر رہا تو اس صورت میں میاں بیوی دونوں کو اپنا معائنہ لازمی طور پر کروانا ضروری ہے صرف عورت کا معائنہ کروانا اس مسلے کا حل نہیں ہو سکتا ہے

*مردوں کا ٹیسٹ*

حمل نہ ٹہرنے کی صورت میں مردوں کا ایک ٹیسٹ کروایا جاتا ہے جس کو سیمنز اینا لائسس semen analysisکہتے ہیں اس ٹیسٹ کے ذریعے مردوں کے اسپرم کی کاونٹ اور ان کی کوالٹی پتہ چلتی ہے اگر مرد کا یہ ٹیسٹ نارمل ہو تو اس کا مطلب ہے کہ حمل کے نہ ٹہرنے کا ذمہ دار مرد نہیں ہے


*ایسی بہت سی بہن بیٹیاں جو اولاد جیسی نعمت کو ترس رہی تھی اور بے اولادی کی وجہ سےساس نند اور  نہ جانے کس کس کے طعنے سن سن کر پریشان ہو گئی تھی لیکن آج وہ الحمدللہ الیاسی دواخانہ کے تیار کردہ بانجھپن کورس  کو استعمال کرکے صاحب اولاد ہیں اور اپنی زندگی میں خوش ہیں  اللہ کا شکر کے ساتھ ساتھ خوش محمد بھی شکر گزار ہیں کہ انکی یہ محنت رنگ لائی اور انکو خوشی میسر ہوئی*


اگر آپ کے علاقے میں بھی کوئی بہن بیٹی ایسی ہے تو ضرور رابطہ کریں
*8298377755*


*زنانہ بانجھپن کورس*


*رپورٹ کو دیکھ کر  100% گارنٹی سے علاج*

*جو بھی بے اولاد ہیں  کافی علاج کرایا چکے ہیں پیسہ لگا کر تھک چکے ہیں  ایک بار خدمت کا موقع ضرور دیں انشاءاللہ* 

*کافی لوگوں کا علاج کیا ہے شاندار رزیلٹ ہیں اللہ کے فضل سے*
 
*بانجھ پن کے بارے میں اور اسکا علاج کیا ہے* 


*شادی کے بعد ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکو  اولاد ہو  شادی کے بعد انسان چاہتا ہے کہ باپ کا درجہ مل جائے اولاد اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے جب کسی کے اولاد نہیں ہوتی تو وہ کتنا پریشان ہوتا ہے* 


*ڈاکٹروں اور حکیموں کے چکر لگاتے تھک جاتے ہیں پیسہ خوب لگاتے ہیں پھر بھی اولاد نہیں ہوتی    تو پھر مایوسی ہو کر بیٹھ جاتے ہیں*۔۔۔


 *آج ہم اسکا علاج بتاتے ہیں  اور اولاد نہ ہونے کے وجوہات بھی بتاتے ہیں*


*🧕عورتوں کے اندر حمل نہ ٹہرنے کے اسباب🧕*
*عورتوں کے اندر حمل نہ ٹہرنے کے اسباب*

*خواتین کے اندر حمل نہ ٹہرنے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں جن مین سے کچھ یہ ہیں*

 *عورت کی  ماہواری بالکل  نہ آ نا* 


*عورت کو سفید پانی کی شکایت کا ہونا*
 
*عورت کی ماہواری کے وقت پیٹ میں درد ہونا*

*ٹیوب کا بند ہونا*

*بچے دانی میں خون یا پانی کی رسولی کا ہونا*

 *بچے دانی میں سوجن کا ہونا* 

*بچے دانی کا چھوٹا ہونا* 

*بچے دانی کا کمزور ہونا*  

*بچے میں انفیکشن ہونا* 

*بچے دانی میں نکس ہونا*  

*انڈ ے کا نہ بن پانا*

*انڈے دانی میں خون کی کمی ہونا* 

*ان سب وجوہات کی بنا پر اولاد نہیں ہو پاتی ہے لیکن اس کا صحیح وقت پر صحیح علاج ہوجائے تو   ان سب بیماری سے  نجات مل سکتی ہے اور    100%   اولاد ہوسکتی ہے*


*ان سب کا علاج  ہے لیکن کچھ مہینے لگاتار دوا لینا ہوگی   پرہیز کے ساتھ مکمل کورس مکمل علاج کرائیں* 


*آپ جہاں بھی علاج کراتیں  کہیں نہ کہیں ہم پرہیز نہیں کرتے یا پھر پورا کورس نہیں کرتے  یا پھر صحیح ڈاکٹر یا حکیم نہیں  منتخب کرتے ہیں اور پیسے برباد کرتے ہیں* ۔۔

*یا ہم پرہیز نہیں کرتے ہیں اور*
 *غلطی ڈاکٹر یا حکیم کی بتاتے ہیں* ۔۔۔۔

*ہمارے پاس چار ماہ کا مکمل علاج ہے ان سب بیماری کا جو اوپر بیان کی گئی ہے*  


*واٹسپ پر اپنی رپورٹ بیجھے رپورٹ کو دیکھ کر ہی علاج کیا جائےگا  بغیر رپورٹ کے علاج ممکن ہے لیکن تھوڑا مشکل ہے*

*جانکاری کے لئے رابطہ کریں*

*حکیم خوش محمد صاحب مچھڑگانواں مغربی چمپارن*
*8298377755

خواب میں عذاب قبر دیکھتی تھی۔ ثنا خان

خواب میں عذاب قبر دیکھتی تھی۔ ثنا خان


(اردو دنیا نیوز ۷و)

بالی وڈ انڈسٹری کو خیرباد کہنے والی سابق اداکارہ ثنا خان کا کہنا ہے کہ ٹی وی اور فلموں میں کامیابی کے بعد بھی وہ ذہنی دباؤ کا شکار رہیں، جس کے بعد انہوں نے حجاب پہننے کا ارادہ کیا۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں ثنا خان کی اس ویڈیو کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے مذہب کی طرف آنے پر بات کی ہے۔ ثنا خان کئی فلموں میں کام کر چکی ہیں جن میں سلمان خان کی 'جے ہو' بھی شامل ہے جبکہ وہ بگ باس سکس کا حصہ بھی رہیں۔

2020 میں سابق اداکارہ نے مفتی سید انس سے شادی کی جس کے بعد انہوں نے حجاب پہننا شروع کر دیا تھا۔ ویڈیو میں پہلی بار انہوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ ویڈیو میں وہ کالا برقع پہنے ہوئے بات کر رہی ہیں اور ان کے ہاتھوں پر مہندی کا رنگ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں 'ماضی میں میرے پاس سب کچھ تھا، پیسہ، نام، شہرت، اور میں اپنی مرضی کے مطابق سب کچھ کر سکتی تھی، مگر ایک چیز کی کمی تھی۔' ان کے مطابق 'میرے دل کو سکون نہیں مل رہا تھا، میرا حال یہ تھا، میں خوش نہیں تھی، مجھے سخت ذہنی دباؤ سے گزرنا پڑا۔' ثنا خان کا کہنا تھا 'یہ وہی دن تھے جب میں نے اللہ کے پیغام کو اس کی علامات میں دیکھنا شروع کیا۔' انہوں نے 2019 کو وہ سال قرار دیا جس میں ان کی زندگی یکسر بدل گئی۔ 'مجھے ابھی تک یاد ہے، رمضان کے مہینے میں مجھے خواب میں قبر دکھائی دیتی رہی، جس میں آگ ہوتی اور میں خود کو اس قبر میں پاتی۔'

ثنا خان کا کہنا تھا 'میں نے محسوس کیا کہ اللہ مجھے دکھا رہا ہے کہ اگر میں نے اپنی زندگی کو تبدیل نہیں کیا تو میرا یہی انجام ہو گا۔ اس کے بعد میں بے قرار رہنے لگی۔' انہوں نے اپنی زندگی میں آنے والی پہلی تبدیلی کے بارے میں بتایا کہ 'میں نے اسلامی سکالرز کو سننا شروع کیا اور ایک رات میں نے ایک متاثرکن چیز پڑھی۔ پیغام میں کہا گیا تھا کہ 'آپ نہیں چاہتیں کہ آپ کا آخری دن، حجاب پہننے کا پہلا دن ہو۔' ویڈیو میں وہ کہتی ہیں کہ 'اس بات نے میرے دل کو چھو لیا۔' اس کے ساتھ ہی وہ رونا شروع کر دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں 'اس کے بعد میں نے پوری زندگی حجاب پہننے کا ارادہ کیا۔' ثنا خان کے بقول 'اگلی صبح میری سالگرہ تھی، میں نے سکارف خریدا اور اوڑھ کر خود سے کہا، اب اس کو کبھی نہیں اتاروں گی۔' ثنا خان حال ہی میں اپنے شوہر مفتی انس سید کے ہمراہ حج کر کے لوٹی ہیں۔

مولانا خورشید عالم ؒ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

مولانا خورشید عالم ؒ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
مولانا خورشید عالم بن حافظ عبد السبحان (م۱۹۸۵) بن محمد اسحاق بن شجاعت علی ساکن بوکھرا ضلع سیتامڑھی نے یکم شعبان ۱۴۴۳ھ مطابق ۴؍ مارچ ۲۰۲۲ء منگل دن گذار کر پونے نو بجے شب میں اس دنیا کو الوداع کہا، وہ مختلف امراض کے شکار تھے، طبیعت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا تھا، طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو انہیں پرساد ہوسپیٹل مظفر پور لایا گیا، لیکن وقت موعود آگیاتھا، اس لیے جاں برنہ ہو سکے، جنازہ آبائی گاؤں بوکھرا لے جایا گیا، جہاں ۵؍ مارچ کو بعد نماز عصر جنازہ کی نماز ان کے چھوٹے صاحب زادہ مولانا محمد انوار عالم فیاضی ندوی نے پڑھائی، کم وبیش چھ سو سوگواروں اور متعلقین کی موجودگی میں مولانا کا آخری سفر مقامی قبرستان تک ہوا، اور وہیں سپرد خاک کیے گیے، پس ماندگان میں تین لڑکی ،دو لڑکے ناتی، نتنی اور پوتے پوتیوں سے بھرا پُرا خاندان کو چھوڑا، ایک لڑکی میرے چھوٹے بھائی ماسٹر محمد فداء الہدیٰ کے نکاح میں ہے، اہلیہ پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں، ان کی جدائی کے صدمہ نے ان کے جسم کے دفاعی نظام کو نقصان پہونچا یا تھا، یہ حادثہ ان کے لیے سوہان روح تھا، جس کی وجہ سے بھی وہ کمزور ہوتے چلے گیے تھے۔
 مولانا کی پیدائش ان کے آبائی گاؤں بوکھرا موجودہ ضلع سیتامڑھی میں اسناد کے مطابق یکم فروری ۱۹۴۵ء کو ہوئی، مولانا کی نانی ہال چکنا ٹولہ پنڈول ضلع سیتامڑھی تھی، نانا کا نام محمد دانیال تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد ان کا داخلہ مدرسہ نور الہدیٰ پوکھریرا موجودہ ضلع سیتامڑھی میں کرایا گیا، یہاں کے استاذ مولانا مطیع الرحمن صاحب کی سر پرستی میں انہوں نے تعلیم حاصل کرنی شروع کی، مولانا موصوف آپ کے استاذ بھی تھے اور اتالیق بھی، بعد میں سسرالی رشتہ دار بھی ہو گیے کیوں کہ وہ مولانا کی اہلیہ کے پھوپھا تھے، مدرسہ نو رالہدیٰ کے بعد تعلیمی سفر کا ایک پڑاؤ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ ہوا اور اگلا پڑاؤ مدرسہ عالیہ کولکاتہ ، کولکاتہ جانے کے قبل ہی مولانا کی شادی پوکھریرا ہی میں حافظ حمید الرحمن کی دختر نیک اختر سے ہو گئی، حافظ حمید الرحمن کولکاتہ کیلا بگان کی ایک مسجد میں امام تھے، ان کے ساتھ مولانا بھی کیلا بگان کی ایک دوسری مسجد میں امامت سے لگ گیے اور چند سال یہاں امامت کرتے رہے، علم کی تشنگی باقی تھی ، اس لیے مولانا نے اس وقت کے مدرسہ عالیہ میں (جو اب عالیہ یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے) داخلہ لے لیا اور وہیں سے ممتاز المحدثین کی سند حاصل کی، کولکاتہ سے وہ گھر آئے تو پھر واپس نہیں گیے، موضع شاہ میاں رہوا، وایا بھگوان پور ضلع ویشالی میں امامت اور مکتب میں معلم کی جگہ خالی تھی، ۱۹۶۵ء میںیہاں امامت اور مکتب میں خدمت انجام دینے لگے، قسمت نے یاوری کی، قریب کی بستی سرسارام راج میں سری مہاراج سنگھ کے نام سے ایک ہائی اسکول کا قیام عمل میں آیا وہاں اردو پڑھانے کے لیے ایک استاذ کی ضرورت تھی، آپ نے عرضی گذاری اور آپ کی بحالی ۱۹۶۴ء کو ایک سو پندرہ روپے ماہانہ پرعمل میں آگئی، ملازمت ہائی اسکول میں ہونے کے باوجود ان کا قیام شاہ میاں رہوا میں ہی رہا، مختلف اوقات میں حاجی نیاز احمد، ذکی حسن مرحوم اور جناب محمد اصغر صاحب کے یہاں ان کا قیام رہا، ملازمت کے بیشتر روز شب یہیں گذرے ، پھر جب سرکار نے تبادلہ کی پالیسی بنائی تو آپ کا تبادلہ۱۰؍ جنوری ۱۹۹۶ء کو مظفر پور کے نواح میں واقع نیشنل ہائی اسکول کھرونا میں ہو گیا، اور یہیں سے ۳۱؍ جنوری۲۰۰۵ء میں مدت ملازمت پوری کرکے سبکدوش ہو ئے، سبکدوشی کے بعد اپنے گاؤں بوکھرا لوٹ گیے اور وہاں کی ملی سر گرمیوں اور گھریلو ضروریات پر اوقات صرف کرتے رہے ۔
 مولانا بڑے سنجیدہ، بردبار ، مخلص ، خوش اخلاق اور صائب الرائے انسان تھے، میری نانی ہال بھی شاہ میاں رہوا ہے، اس لیے والد صاحب ماسٹر محمد نور الہدیٰ (م ۲۰۱۷) سے ان کی بہت بنتی تھی، والد صاحب جب رہوا رہنے لگے تو ان کی محفلیں خوب جمتی تھیں، میرے والد صاحب کم گو تھے، بولتے کم، سنتے زیادہ تھے، لیکن جب میرے ماما محمد عمر آزاد (م ۱۹۸۳) اور مولانا خورشید صاحب کے ساتھ بیٹھتے تو گفتگو میں رات کا بیش تر حصہ گذر جاتا اورکھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا، اس سے ان دونوں کی ذہنی ہم آہنگی کا پتہ چلتا ہے، اسی ذہنی ہم آہنگی اور قربت کی وجہ سے میرے ایک بھائی کا رشتہ بھی ان کی صاحب زادی سے ہوا اور ہم لوگ رشتہ کی ڈور میں بندھ گیے۔
 مولانا ہم لوگوں پر انتہائی شفیق تھے، خرد نوازی کا کا مزاج تھا، اس لیے ہم لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی سراہتے اور حوصلہ افزائی کرتے،مولانا کے ایک بھائی مولانا خلیق الزماں صاحب دا رالعلوم دیو بند میں ہمارے ہم عصروں میں تھے، اب بھی بقید حیات ہیں، لیکن بیمار چل رہے ہیں، اللہ انہیں لمبی عمر دے، وہ قاضی بہیرہ جالے کے مدرسہ میں صدر مدرس ہیں اور ان کی تعلیمی خدمت کا دائرہ بھی وسیع ہے۔
 مولانا خورشید عالم صاحب مرحوم جہاں بھی رہے اپنے اخلاق اور کردار سے لوگوں میں محبوب رہے، انہوں نے اردو کی ترویج واشاعت کے لیے بھی کام کیا، اپنے پیچھے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد چھوڑی، ایک دو سرا وصف ان کا یہ تھا کہ وہ اپنی شرطوں پر جیتے تھے، قیام کسی کے یہاں رہے وہ جی حضوری کے عادی نہیں تھے،صاف بولتے تھے اور کھری کھری سناتے تھے، حاضر جواب تھے اس لیے دوسروں کو لاجواب کرنے کا فن انہیں خوب آتا تھا، وہ اپنے مخالفین سے نمٹنا بھی جانتے تھے اور ان کو چاروں شانے چت کردیا کرتے تھے، اس کے لیے انہوں نے کبھی لاٹھی ڈنڈا نہیں اٹھایا ، حکمت عملی اور تدبیر ان کے کامیاب ہتھیار تھے اور وہ ان سے کام لینا خوب جانتے تھے، جب تک ان کی چلتی رہی اپنے عزیز واقرباء پر دادودہش کا سلسلہ جاری رکھا، اہلیہ کے انتقال سے ذہنی طور پر اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کا خیال ہی جاتا رہا، لیکن ان کی محبوبیت ومقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
اب مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں وہ اس مالک کے پاس چلے گیے جو ارحم الراحمین ہے، غفار الذنوب اور ستار العیوب ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کے اعمال صالحہ کو قبول فرمائے، سیئات سے در گذر کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

آدھار کارڈ کو ووٹر کارڈ سے جوڑنے کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی پر سماعت سے سپریم کورٹ کا انکار

آدھار کارڈ کو ووٹر کارڈ سے جوڑنے کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی پر سماعت سے سپریم کورٹ کا انکار
(اردو دنیا نیوز۷۲)
نئی دہلی _ 26 جولائی ( اردولیکس ) سپریم کورٹ نے پیر کو کانگریس کے جنرل سکریٹری اور ترجمان رندیپ سنگھسرجے والا کی طرف سے شہریوں کے آدھار نمبر کے ساتھ ووٹر شناختی کارڈ کو جوڑنے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔
جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس اے ایس بوپنا کی بینچ نے کہا کہ ہائی کورٹ میں اس عرضی پر سماعت کا ایک مؤثر متبادل ہے اس کے باوجو د سپریم کورٹ میں عرضی داخل ہونے کی وجہ سے اس کی ساعت کرنے سے انکار کر دیا۔بنچ نے درخواست گزار کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...