Powered By Blogger

جمعہ, اگست 05, 2022

ڈاکٹرمولانا محمدعالم قاسمی کی کتاب ’’نقوش تابند‘‘— ایک مطالعہڈاکٹر نورالسلام ندوی

ڈاکٹرمولانا محمدعالم قاسمی کی کتاب ’’نقوش تابند‘‘— ایک مطالعہ
ڈاکٹر نورالسلام ندوی
(اردودنیانیوز٧٢)
ڈاکٹرمولانامحمدعالم قاسمی علمی،ادبی،مذہبی اورسماجی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں،ان کانام جاناپہچانااورمشہورومعروف ہے، یوں تو مولاناایک مستندعالم دین اورباوزن امام وخطیب کی حیثیت سے خاصے مشہورہیں،لیکن قلمی اورتحریری دنیامیں بھی کم مشہورنہیں ہیں۔ تقریباًایک درجن کتابیں ان کے گہربارقلم سے نکل کراوراشاعت پذیرہوکرمقبول ہوچکی ہیں۔ان کی تازہ تصنیف ’’نقوش تابندہ ‘‘ منتخب مضامین ومقالات اورتبصرے کامجموعہ ہے۔248صفحے پرمشتمل یہ کتاب بنیادی طورپردوحصوں میں منقسم ہے۔پہلے حصہ میں اٹھارہ مضامین ہیں،ان میں پانچ متفرق مضامین ہیں،اور بقیہ شخصیات پرہیں۔پہلے مضمون کاعنوان ہے ’’قرآن کریم اوراس کے اردو تراجم‘‘اس مضمون میں قرآن کریم کے اردو تراجم کے آغازوارتقاء کااختصارسے جائزہ لیاگیاہے اوراہم تراجم اوراس کی خصوصیات پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرامضمون بھی اسی سے ملتاجلتاہے۔ اس مضمون میں علماء دیوبندکے قرآن کریم کے مشہور اردو تراجم کے حوالے سے گفتگوکی گئی ہے۔مضمون کی قرأت سے اس بات کااندازہ ہوتاہے کہ قرآن پاک کے اردوتراجم کے بارے میں علماء دیوبندکے کیاکارنامے ہیں اس مضمون میں مولانامحترم نے بہارسے تعلق رکھنے والے دوفاضل دیوبندکے ترجمے کابطورخاص ذکرکیاہے۔ ایک مولاناخالد سیف اللہ رحمانی اوردوسرے مولاناڈاکٹرابوالکلام قاسمی شمسی ،مصنف مولاناقاسمی  کے ترجمہ قرآن تسہیل القرآن کے بارے میں تحریرکرتے ہیں:
’’اردوزبان میں ترجمہ کی کثرت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک تغیرپذیرزبان ہے اورہرنصف صدی میں اس کاایک نیاقالب تیارہوتاہے۔ پھرایک ہی موضوع پرکئی اہل علم قلم اٹھاتے ہیں توسب کی تحریروں میں الگ الگ خوبیاں محسوس ہوتی ہیں کہ صاحب تحریر کاذوق ،ان کا مطالعہ اور ان کی فکریں ان میں جھلکتی ہیں۔اس اعتبار سے یہ ترجمہ صرف شرف سعادت کے لیے نہیں بلکہ ایک ضرورت کی تکمیل ہے۔جس میں لسانی ارتقا کا لحاظ رکھتے ہوئے نئی تعبیرات کے ساتھ تفہیم و ترجمانی کی گئی ہے۔‘‘
ایک اہم مضمون ’’بہار میں اردو صحافت‘‘کے عنوان سے ہے۔یہ مضمون بہت جامع اور عمدہ ہے ۔اس میں صحافت کی اہمیت و افادیت اور ملک و معاشرہ پر اس کے اثر ونفوذپر روشنی ڈالتے ہوئے صحافت کی تعریف اوربہارمیں اردوصحافت کے آغازوارتقاء کاجائزہ پیش کیاگیاہے۔بہارکی اردوصحافت پرتقسیم ہند کے کیااثرات مرتب ہوئے؟اورآزادی کے بعداردوصحافت کاکیارخ رہا؟اورآج کس مقام میں ہے! ان تمام باتوں کوتحریرمیں لاگئی ہیں۔جس سے یہ اندازہ لگانامشکل نہیں کہ مولاناکی نظراردوصحافت پربھی گہری ہے۔ حالانکہ بہت سے اخبارات ورسائل کاذکراس مضمون میں آنے سے رہ گیاہے۔مضمون میں ادبی صحافت پربھی گفتگوکی گئی ہے بلکہ ادبی صحافت کاحصہ قدرطویل ہے۔ انہوں نے آزادی کے بعدجاری ہونے والے ادبی رسائل میں ندیم ،سہیل،معیاراورمعاصرکا ذکرکیاہے۔ جبکہ یہ وہ رسائل ہیں جوآزادی سے قبل جاری ہوئے۔ندیم کی اشاعت گیاسے جون1931میں ہوئی اس کے ایڈیٹرمشہورطنزومزاح نگارانجم مان پوری تھے۔ اس کے معاون مدیرعبدالقدوس ہاشمی تھے۔دسمبر1948میں یہ رسالہ بندہوگیا۔معیار1936میں جاری ہوا۔ اس کے ایڈیٹرقاضی عبدالودودتھے، اس کے صرف چھ شمارے ہی شائع ہوئے اور رسالہ بندہوگیا۔ سہیل1939میں گیاسے منصہ شہود پرآیا، اسے حافظ مولوی عبدالرحمن بسمل نے جاری کیاتھا۔ معاصر1940میں منظرعام پرآیااس کے ایڈیٹرعظیم الدین تھے۔ 1983تک یہ رسالہ جاری رہا۔ پروفیسرکلیم الدین احمداورقاضی عبدالودودبھی اس رسالہ سے وابستہ تھے۔
اس حصہ کے دیگرمضامین میں مناظراحسن گیلانی اوران کے تصنیفی کارنامے،مولانامنت اللہ رحمانی کی دینی خدمات ،کلیم عاجزکی شاعری کامتنوع پہلو، ظہیرصدیقی ایک روشن ضمیرشاعر ،صف اول کا نقاد کلیم الدین احمد اپنی تلاش ہیں،قومی یکجہتی کے علمبردار مولانا ابو الکلام آزاد، امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی ایک عبقری شخصیت وغیرہ بے حد اہم اور قابل مطالعہ ہیں ۔ان مضامین و مقالات کے مطالعہ سے نمائندہ علمی شخصیات ، ان کے احوال و آثار اور نقو ش حیات سے واقفیت ہوتا ہے۔
دوسرے حصے میں 19تبصرے ہیں جو مختلف کتابوں پر تحریر کئے گئے ہیں۔ان تبصروں کے پڑھنے سے بہت سی کتابوں اور اس کے مصنفین سے آشنا ئی ہوتی ہے۔یہ تبصرے مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی کی تنقیدی و تجزیاتی شعور کے آئینہ دار ہیں۔ان میں مولانا کے تنقیدی جو ہر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ تبصروں میں خوبیوں اورخامیوں دونوں پر نظر رکھی گئی ہے۔ گوکہ خامیوں پر نظر کم ہی گئی ہے۔آج کل عموماًتبصرے میں تعارف اور تعریف کاپہلونمایاں ہوتاہے، انہوں نے اپنے تبصرے میں اعتدال وتوازن کوراہ دی ہے، مولاناکے تبصرے میں ایسے اشارے اورجملے ملتے ہیں جن سے ان کی تنقیدی خوبی کاپتہ چلتاہے۔ اس سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ مولاناکوتنقیدوتبصرہ سے خاصالگاوہے اورتبصرے وتجزیئے کااچھاذہن انہوں نے پایاہے، زبان وبیان پربھی اچھی پکڑہے، البتہ ان کامزاج کریدکرکسی کی خامی اورعیب تلاش کرنانہیں ہے، دوران مطالعہ جوخوبی نظرآئی اس کااعتراف دل کھول کرکیاہے اوراگرکچھ خامی دکھائی دی ہے تواسے بھی خوبصورتی کے ساتھ بیان کردیاہے کہ کہیں ٹھیس نہ لگ جائے ان آبگینوں کو،اس لئے خامیوں پرنظرڈالتے ہوئے ایسااندازاسلوب اختیارکئے ہیں جودل کوگھائل نہ کرے۔
مصنف نے بارہ صفحات پرمشتمل ’’عرض مصنف‘‘ کے عنوان سے تحریرکیاہے۔اس میں انہوں نے اردوادب کی تاریخ پرروشنی ڈالی ہے۔ خاص طورپراردوادب کی تاریخ رقم کرنے میں علماء کرام کے کردارکوواضح کیاہے، کتاب کایہ حصہ بھی اہم اورمعلوماتی ہے۔ کتاب کے شمولات اورمضامین متنوع ہیں، یہ اس بات کاواضح اشارہ ہے کہ ان کے مطالعہ کاکینوس کافی وسیع ہے،اورمصنف کومتنوع موضوعات پرلکھنے کی قدرت حاصل ہے۔صفحہ نمبر223اور224پرایک ایک غزل شامل ہے اس سے پہلی مرتبہ ادبی حلقے کومولاناڈاکٹرمحمدعالم قاسمی کی شعری صلاحیت کاعلم ہوا۔غزل کامطالعہ اس بات کاغمازہے کہ مولانا اپنے اندرکافی عرصہ سے شعری جوہرچھپائے ہوئے تھے جوبالآخرباہرنکل آیاہے۔ہمیں امیدہے کہ آئندہ مولانااس فن میں بھی اپنی جولانی طبع کاخوب خوب مظاہرہ کریں گے اورشعری سرمایہ میںاپنی تخلیقات کے ذریعہ اضافہ کریں گے۔
من حیث المجموع یہ کتاب عمدہ اورقابل مطالعہ ہے۔ زبان وبیان شگفتہ ،رواں اورسلیس ہے ،البتہ جگہ جگہ کمپوزنگ کی غلطیاںراہ پاگئی ہیں۔ خاص طورپرمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی تحریر’’حرف چند‘‘میں بے شمارغلطیاں ہیں۔کتاب کے آغاز میں حضرت مولانامحمدمفتی ثناء الہدیٰ قاسمی،حضرت مولاناانیس الرحمن قاسمی،حضرت مولاناسیدشاہ تقی الدین احمدفردوسی ندوی،مولاناابونصرفاروق صارم عظیم آبادی، پروفیسر محمد عابدحسین،مولانامفتی محمدنافع عارفی قاسمی نے اپنے تاثرات میں مولاناڈاکٹرمحمدعالم قاسمی اورکتاب کے بارے میں جن خیالات اور تاثرات کااظہارکیا ہے۔اس سے کتاب کی اہمیت اورصاحب کتاب کے علم وفضل اورمقام ومرتبہ کااندازہ لگانامشکل نہیں۔دینی اور عصری علوم کے امتزاج نے مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی کے قلم و تحریر میں عصری شگفتگی اور تازگی پیدا کر دیا ہے۔میں اس کتا ب کی اشاعت پر ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کر تا ہوں کہ مولانا کا قلم آئندہ بھی اسی طرح تعب و تھکن سے نا آشنا رواں دواں رہے گا۔

Dr. Noorus Salam Nadvi
Vill+Post Jamalpur
District Darbhanga
Bihar, 847203
E-mail : nsnadvi@gmail.com

حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب مدظلہ کا جیل سے اپنے بیٹے کے نام خط !

حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب مدظلہ کا جیل سے اپنے بیٹے کے نام خط(()
(اردودنیانیوز٧٢)
(جو ہر پڑھنے والے کے لئے بہت مفید اور نصیحت و عبرت کا خزانہ ہے
 ضرور پڑھا جائے اور شکر میں ڈوب کر کچھ کر گزرنے کے عزائم کئے جائیں) 

پیارے بیٹے! 
السلامُ علیکم و رحمۃ الله وبرکاتہ
محبت نامہ جس کے لفظ لفظ سے بے لوث محبت ، خلوص اور والہانہ تعلق جھلک رہا تھا ملا، پڑھ کر اپنے رب کے شکر کی توفیق ہوئی اور اندر سے فخر بھی کہ آپ جیسے دوست میرے رب نے عطاء فرمائے، مگر ساتھ میں آپ کے اضطراب سے حیرت بھی ہوئی! 
میرے پیارے، 
کافی زمانہ پہلے کہیں پڑھا تھا کہ ایک چڑیا نے دوسری چڑیا سے سوال کیا نہ جانے کیوں یہ انسان پریشان رہتے ہیں،؟ 
دوسری چڑیا نے معصومیت سے جواب دیا کہ شاید ان کے، الله، نہیں ہوتے ہوں گے،

میرے پیارے آپ پریشان کیوں ہیں، الحمدللہ، الحمدللہ ،ہمارے تو الله ہیں، اور وہ الله جو ساری ماؤں کو مامتا دینے والے، رحمن ورحیم ہیں اور جنکی شان یہ ہے کہ، ( *ورحمتی وسعت کل شئ* ) کریم رحیم رب کے اور اس ذات عالی کے قربان جائیں کہ ساری حرام کاریوں اور حرام خور یوں کے باوجود عفو میں چھپا کر ہمیشہ ستاری فرماکر ہمیشہ ہمیشہ، پیدا ہونے سے لیکر آج تک ہر لمحہ شکر کی زندگی عطاء فرمائی ، اور صبر کا موقع ہی نہیں عطاء فرمایا بلکہ بلا استحقاق اور بلا طلب ہمیں انسان یعنی اشرف المخلوقات بناکر پیدا فرمایا اور پہلے نمبر پر رکھا اس کے بعد نہ صرف اسلام و ایمان جیسی نعمت عظمیٰ بھی بلا استحقاق وبلا طلب عطاء فرمائی، بلکہ امت محمدیہ کا فرد بناکر بلا اہلیت ایک نمبر پر رکھا، سارے نبیوں کے سردار اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم، کو ہمارا مقتدا نبی بناکر اول نمبر پر عطا فرمایا، ساری آسمانی کتابوں میں قرآن مجید جیسی اول نمبر کی کتاب کا حامل بناکر اول نمبر کی نعمت عظمیٰ بھی ہماری طلب اور اہلیت کے بغیر عطاء فرمائی،
 پوری دنیا کے ملکوں میں آب وہوا اور جغرافیہ کے علاوہ قرآن وسنت سے والہانہ تعلق رکھنے کے لحاظ سے بھی ایسے پیارے ملک میں پیدا فرمایا اور ہندوستان کے بھی دینی اور دنیاوی سب سے زرخیز علاقے، دو آبہ میں پیدا فرمایا، چاروں ائمہ میں سب سے معتدل اور آسان مسلک حنفی سے وابستہ فرمایا ساتھ میں، (تمسک بالکتاب والسنہ) مسلک کا فکر اور علم وعمل میں کمال اعتدال پر فائز، علم دین میں گیرائی اور وسعت کا تقویٰ، زہد، خودداری، استغنا ، اور تعلق مع الله، میں بہت ذمہ داری کے ساتھ ساری دنیا کے علماء سے ملاقات اور انکے حالات کے مطالعہ کی روشنی میں عرض کر رہا ہوں، پوری دنیا کے علماء میں امتیازی شان رکھنے والے حقیقی وارث انبیاء، علماء دیوبند، فکر ولی اللہی رکھنے والے مشاہیر سے وابستہ کیا، اسکے علاوہ پورے عالم کے سب سے شفیق اور پورے عالم کے مشائخ اور اکابر علماء کے سرخیل،  مرشد حضرت مولانا سید ابو الحسن علی، نوراللہ مرقدہ، کے قدموں سے نسبت عطاء فرمائی، اسی پر بس نہیں، ایسے گنوار اور نااہل گھس کھدوں کو جنکو گھانس کھودنے کی تمییز نہیں محض اپنے فضل سے، پورے عالم کے ماحول کے خلاف پورے دین کے سب سے محترم اور میرے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی *سنت مقصودہ،دعوت*  کے لئے منتخب کیا،
 دل پر ہاتھ رکھ کر سوچو کیا ان سب انعامات میں ہماری کسی کی طلب واستحقاق تو دور کی بات ہے، خواب وخیال کو بھی کوئی دخل نہیں، اسکے علاوہ اگر اللہ تعالیٰ ہوش وحواس دیں تو ساری زندگی بس خصوصی انعامات کو شمار کرنے میں لگ جائیگی، شکر تو کیا کر پائینگے، وہ جو اس قدر کرم فرمائی کرنے والے ہیں اور اس قدر انعامات کے لحاظ سےvvvip
مقام پر رکھا۔ 
الله ہمارے پالنے والے، ساری غلطیوں پر ہمیشہ ستاری کا معاملہ فرمانے والے ہیں اور وہ *فعال لمایرید، علی کلی شئ قدیر* بھی ہیں اور اس دنیا میں کوئی پتہ میرے اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا اور ان کی شان، *اذا ارادا شیئا ان یقول لہ کن فیکون* ہو پھر چند روز دعوت جیسی سارے انبیاء اور مدینہ والے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی سنت مقصودہ کیلئے چند روز کیلئے اپنے خاص الخاص کرم اور اپنی نعمتوں کے دوسرے رنگ دکھانے کیلئے اگر یہاں بھیج دیا ہے تو پھر شکر کے بجائے اضطراب کے کیا معنی؟ اس لئے میرے پیارے پریشان مت ہوں، اللہ کی رحمت پر بھروسہ وشکر کیجئے وقت گزرجائے گا تو پتہ لگے گا کہ یہ ایام، اتنے انعام اور رحمت کے ہیں، ابھی شاید آپ کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو انشاءاللہ آجائے گا، اگر سمجھ میں نہ آئے تو زندگی بھر کی بلا طلب اور بلا استحقاق نعمتوں کا خیال کرئیے جو ہمیشہ،vvvip
بناکر کریم رب نے عطاء فرمائی، ایمان بالغیب کے طور پر دل کی گہرائیوں سے کمال تشکر کے جزبہ کے ساتھ، *الحمدللہ، حمدا کثیرا کثیرا* ،کا ورد کیجئے نعرے لگائیے، اور مست رہئیے، مستی کیجیئے، یہ خط میرے گھر والوں کو یا کسی خاص رفیق کو بھی پڑھا سکتے ہیں،

اچھا آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے ہم جیسے ظاہر باطن کے گندوں اور بے حس سے، جنکو *دعوت* کی الف با، بھی کبھی نہیں آتی تھی میرے کریم رب نے بغیر کسی طلب واستحقاق بلا اہلیت اور کوشش، وسائل اور افراد کی کمی کے باوجود *دعوت* جو کار نبوت اور پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم، کی سنت مقصودہ اور جسکا نام بھی امت کیلئے اجنبی ہوگیا تھا، اس دعوت کی آواز کو ہم گندوں کی پہچان بناکر پورے عالم کے کونے کونے تک پہونچا کر ایک انقلاب برپا کروانا میرے رب کاایک نمبر کا vvvip کرم ہے کہ نہیں، جب ایسی عنایات ہیں تو اضطراب بے معنی،
پیارے بیٹے، میرے رب کا کرم ہے کہ اللہ نے ہر طرح کی ایک نمبر کی، vvvip نعمتوں سے ہمیں آپ کو نوازا ہے، اس میں ایمان بھی ہے اور اسلام بھی ہے، اور مسلمان ہونا تو اپنی چاہت سے دستبردار ہونے کا نام ہے اور *مسلمان ہونے کا مزہ اپنی چاہت کو اپنے پیارے رب کی چاہت میں فنا کردینے میں ہے*
 کسی نے بہلول دانا رحمۃ الله علیہ، سے سوال کیا کہ کیا حال ہے، انہوں نے جواب دیا اس شخص کا کیا حال پوچھتے ہو، زمین وآسمان کا نظام جسکی مرضی سے چلتا ہو، سوال کرنے والا بہت شرمندہ ہوا، اس نے اپنے منھ پر ہاتھ رکھا، بہلول، توبہ کرو خدائی کا دعویٰ کررہے ہو، بہلول دانا، نے جواب دیا کہ خدائی کا دعویٰ نہیں، بندگی کا اقرار کر رہا ہوں، میں نے اپنی مرضی کو اپنے رب کی مرضی میں فنا کردیا ہے، تو اب کائنات میں کچھ ہورہا ہے میری مرضی سے ہورہا ہے، وہ الله جو ساری کائنات پر رحیم وکریم ہے، اور ہمارے ساتھ اسکا بے نہایت اخص الخواص کرم ہے اس پیارے رب کی طرف سے جو بھی فیصلہ ہمارے لئے ہے وہ سراسر کرم ہے پھر اضطراب اور بے چینی کیسی؟
 کیس اور پیروی- اسکا رخ بھی میرے رب کی مرضی سے چل رہا ہے، اس لئیے خوش اور مست رہیئے، بس مزہ لیجیئے تفویض کا
 کیا ہم اشرف المخلوقات ہوکر اس معصوم چڑیا سے بھی گئے گزرے ہوگئے ہیں، بس نعرہ لگائیے

راضی ہوں میں اسی میں جس میں ہوں آپ راضی
میری خوشی وہی ہے جو آپ کی خوشی ہے

*والسلام...............آپ کا محمد کلیم*

جمعرات, اگست 04, 2022

یوم آزادی تقریبات: دہشت گردانہ خطرے سے آئی بی نے کیا الرٹ

یوم آزادی تقریبات: دہشت گردانہ خطرے سے آئی بی نے کیا الرٹ


(اردودنیانیوز٧٢)

نئی دہلی: ملک اس سال آزادی کی 75 ویں سالگرہ منانے جا رہا ہے۔ اس کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ مرکزی حکومت نے آزادی کے امرت مہوتسو کے نام سے 15 روزہ پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت ہر گھر میں ترنگا سمیت دیگر پروگرام تجویز کیے گئے ہیں۔

تاہم، دہشت گرد تنظیمیں حالات بگاڑنے کے درپے ہیں، جس کے بارے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دہلی پولیس کو الرٹ کر دیا ہے اور سخت چوکسی رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ 15 اگست کو آئی بی نے دہلی پولیس کو الرٹ رہنے کی ہدایت دی ہے۔ انٹیلی جنس بیورو نے اپنی 10 صفحات کی رپورٹ میں دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ، جیش کے بارے میں معلومات دی جو دہشت گردانہ سازش کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی انہیں لاجسٹک مدد دے کر دھماکے کرنا چاہتی ہے۔ کئی سیاستدانوں، بڑے اداروں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ آئی بی کے اس الرٹ میں جولائی کے مہینے میں سابق جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے پر حملے کا بھی ذکر ہے۔

دہلی پولیس سے کہا گیا ہے کہ وہ 15 اگست کی تقریبات کے مقام پر داخلے کے سخت قوانین نافذ کرے۔ ادے پور اور امراوتی کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کہا کہ بنیاد پرست گروپوں اور بھیڑ والی جگہوں پر ان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جانی چاہئے۔

ایجنسی نے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں لشکر طیبہ اور جیش محمد بھی یو اے وی اور پیرا گلائیڈرز کا استعمال کر سکتی ہیں۔ اس لیے بی ایس ایف کو سرحد پر چوکس رہنے کو کہا گیا ہے۔ آئی بی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان علاقوں پر نظر رکھی جائے جہاں روہنگیا اور افغان لوگ رہ رہے ہیں۔

دِل کی حفاظت___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

دِل کی حفاظت___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
=========================
(اردودنیانیوز٧٢)
دو حرف کا ایک چھوٹا سا لفظ ’’دل‘‘، انسان کی ساری تگ ودو کا مرکز اور اعمال کا سر چشمہ ہے، یہ صالح رہتا ہے تو جسم سے اچھے اعمال کا صدور ہوتا ہے اور یہ بگڑگیا تو اعمال فساد وبگاڑ کے شکار ہو جاتے ہیں، گوشت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے پر خیر وشر کا مدار ہے اور صوفیاء کے یہاں اصل زندگی دل کی زندگی ہے اور زندگی عبارت اسی کے جینے سے ہے، اسی لیے شاعر نے کہا ہے کہ’’ زندگی زندہ دلی کا نام ہے، مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’دل زندہ تو نہ مر جائے کہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے سے‘‘۔
 حدیث میں آتا ہے کہ بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے، پھر اگر اس نے توبہ کے پانی سے اسے دھو دیا تو قلب صاف ہوجاتا ہے اور اس میں نیکیوں کی فصل لگنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، لیکن اگر تو بہ کی توفیق نہیں ہوئی تو گناہ کرتے کرتے دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے، اس مرحلہ میں جانے کے بعد نیکیوں کی توفیق نہیں ہوتی اور اسکے دل، کان اور آنکھ پر مہر لگ جاتی ہے۔ اب اس کے پاس دل تو ہے؛ لیکن وہ سمجھتا نہیں؛ اس کے پاس آنکھ ہے؛ لیکن دیکھتا نہیں ، اور اس کے پاس کان ہے، لیکن سنتانہیں، اس کی اس حالت کی وجہ سے اس کا دل پتھر کی طرح سخت ہو جاتا ہے ؛بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ، کیوں کہ  پتھروں سے تو بسا اوقات چشمے پھوٹتے ہیں، اورنہریں جاری ہوتی ہیں، پانی نکل آتا ہے اور کبھی کبھی وہ خشیت الٰہی سے گر بھی پڑتے ہیں، لیکن یہ گوشت پوست کا انسان اس سے بھی گیا گزرا ہوجاتا ہے اور اس کے دل اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ، اس کی آنکھیں آنسو نہیں بہاتیں اور اس کے کان اچھی باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور بالآخر وہ اپنی زندگی کے دن مکمل کرکے قبر میںجاسوتا ہے اور آخرت میںا س کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔
دل کو جن چیزوں سے سخت نقصان پہونچتا ہے ، ان میں عناد ، کبر ، حسد ،بغض ،نفاق، کینہ بدگمانی چغل خوری ، جھوٹ اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دینا ہے، جس دل میں نفرت کی آگ جل رہی ہو ، اس میں محبت کے پودے نہیں لگاتا کرتے،  یہی حال کبر کا ہے ، کبر کے ساتھ اللہ کی عظمت جمع نہیں ہو تی ، ہر حال میں اللہ کی بڑائی کا اقرار ہی دل کی دنیا بدل سکتی ہے، اسی لیے اللہ کے رسول صلی ا للہ علیہ وسلم نے تواضع اور انکساری کی ہدایت کی ، تواضع دل کا ہی عمل ہے، یہ عمل جتنا مکمل ہوگا اللہ ورسول کے احکام وہدایت پر عمل کرنے کے لیے دل اسی قدر آمادہ وتیار ہوگا۔دل کو صالح رخ دینے میں عفو ودر گذر ، تحمل وبرداشت اور حسد وکینہ سے پاک ہونے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، ان اوصاف کے بغیر دل اس مقام ومرتبہ تک نہیں پہونچ سکتا ، جس کی امید ایک مؤمن سے کی جاتی ہے۔ 
 اس لیے دل کو دل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے یہ آسانی سے نہیں بنتا ، لاکھ رگڑیں کھا کر دل ، دل بنتا ہے، بے راہ ری کے اس دور میں دل کی حفاظت بڑا کام ہے اور اس بڑے کام کے لیے سخت ریاضت اور’’ در د دل‘‘ کی ضرورت ہے ، بقول بہادر شاہ ظفر: درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو، جہاں تک طاعت وبندگی کا سوال ہے وہ تو اللہ کی ہر مخلوق کر رہی ہے اور انسان سے زیادہ پابندی سے کر رہی ہے۔
 دل کو درست کرنے کے لئے اہل دل کی صحبت ومعیت ضروری ہے ، اللہ رب العزت نے ایمان والوں کو تقویٰ اور صدیقین کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، دل میں محبت الٰہی اور خشیت خدا وندی پیدا کرنے کے لیے کسی ایسے کی صحبت میں رہنا چاہیے جو یہ آگ دل کی دنیا میں لگا سکے ، در اصل یہ آگ لگتی نہیں ، لگائی جاتی ہے، اور یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کے دل میں یہ دولت وافرمقدار میں موجود ہو اوراسے اپنے ساتھ رہنے والے پراس دولت کے خرچ کا سلیقہ بھی آتا ہو ، بزرگوں کی خانقاہیں اور اہل اللہ کی گلیاں تجربہ سے ا س کام کے لیے ا نتہائی مفید ثابت ہوئی ہیں ، یہی وہ جگہ ہے جہاں سے وافر مقدار میں ’’دوائے دل‘‘ ملتی ہے، ضرورت تلاش کی ہے، جستجوکی ہے، صحیح اور فکر مند اہل اللہ کے دروازے پر پڑ ے رہنے کی ہے، میرے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے کہ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ، وہ دوکان اپنی بڑھا گئے۔ تلاشیے ، شاید آپ کے قریب ہی کوئی دل کو صیقل کرنے والا موجود ہو۔

الحمدللہ تحفظ شریعت کی طرف مسلسل ماہ محرامحرام ۱۴۴۴ھ پروگرام سلسہ وار ابھی تک چل رہا ہے شاہی جامع مسجد پتھراباڑی کا پروگرام کامیاب رہا

الحمدللہ تحفظ شریعت کی طرف سے مسلسل ماہ محرامحرام ۱۴۴۴ھ پروگرام سلسہ وار ابھی تک چل رہا ہے 
شاہی جامع مسجد پتھراباڑی کا پروگرام کامیاب رہا
(اردودنیانیوز٧٢)
زیرصدارت حضرت مولانا محمد نظام الدین صاحب مہتمم مدرسہ مفتاح العلوم ہرواچوک نے فرمائی تلاوت قاری مظفر صباء انجم نے کی نعت پاک شاعر اسلام مولانا فیاض راہی ڈاریکٹر اقرأ اکیڈمی سونا پور نے پیش کیا مقرر خصوصی حضرت مولانا و مفتی محمد ارشد صاحب مظاہری استاذ حدیث دارلعلوم شیخ زکریا دیوبند ، مفتی محمد سعود صاحب قاسمی دلمال پور ، مولانا عبدالسلام عادل ندوی ڈاریکٹر سر سید ایکڈمی جوکی ہاٹ ، مولانا و ماسٹر محمد نظام الدین صاحب پتھراباڑی، مولانا محمد نوشاد صاحب مظاہری مہتمم مدرسہ تبلیغ الاسلام بارااستمبرار ، مفتی محمد اطہر حسین قاسمی صاحب مہتمم مدرسہ یتیم خانہ انوار العلوم کاشی باڑی ، ماسٹر ابوالبشر صاحب ڈہٹی پلاسی ، قاری محمد الیاس صاحب مہتمم جامعہ محمدیہ ہاٹگاوں مولانا محمد توحید صاحب مظاہری مہتمم جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات بارااستمبرار ، مولانا محمد مشتاق صاحب چترویدی ، اس کے علاوہ قاری محمد زبیر صاحب بارااستمبرار ، قاری عبدالقدوس صاحب بھیبھرا، قاری محمد منظور صاحب بوریا، قاری محمد ابوذر غفاری صاحب مہتمم مدرسہ امداد العلوم عیدگاہ ہردار بھیلا گنج ،حافظ محمد امیر الدین رانی ،قاری عبدالکریم مہتمم مدرسہ تجوید القرآن کرہوبنا ، قاری عبدالحلیم صاحب درشنا ، مفتی محمد مجیب الرحمٰن صاحب ، مولانا شاہ جمال صاحب ، عبدالقدوس صاحب راہی آفسیٹ بھیبھرا چوک ، قاری محمد امتیاز صاحب ڈاریکٹر امام الہند بھیبھرا چوک ، مولانا تاج الدین صاحب ، حافظ محمد رفیق صاحب ،حافظ عبدالسلام صاحب ، اس کے علاوہ تحفظ شریعت اکثر ممبران اور گاؤں کے اکثر لوگ موجود رہے عبدالوارث مظاہری سکریٹری تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ
9686759181

بدھ, اگست 03, 2022

امارت شرعیہ سے ماہانہ وظیفہ پانے والے قدیم محتاجان و بیوگان20 محرم 1444 ہجری تک تجدید کے لیے درخواست جمع کریں:محمد شبلی القاسمی

امارت شرعیہ سے ماہانہ وظیفہ پانے والے قدیم محتاجان و بیوگان20 محرم 1444 ہجری تک تجدید کے لیے درخواست جمع کریں:محمد شبلی القاسمی

 (اردودنیانیوز٧٢)

(پریس ریلیز03 اگست 2022) امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم جناب مولانامحمد شبلی القاسمی صاحب نے اپنے ایک  پریس بیان میں کہا ہے کہ امارت شرعیہ ایک عظیم ملی وفلاحی ادارہ ہے،یہاں سے دیگر اہم کاموں کی طرح محتاجگان کی وقتی امداد کے ساتھ حضرت امیر شریعت کی منظوری سے باضابطہ ماہانہ وظیفہ بذریعہ بینک دیا جاتا ہے،اس سلسلہ میںامیر شریعت بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم کی ہدایت کے مطابق نئے سال 1444 ہجری کیلئے وظائف کی درخواستیں وصول کرنے کی کارروائی شروع کی جارہی ہے،اس لئے امارت شرعیہ سے جن بیواؤں اور محتاجوں کو ماہانہ وظیفہ ملتا آرہا ہے ؛اگر ان کی ضرورت واقعی باقی ہے، وہ مدد کے محتاج ہیں  اور آئندہ اپناوظیفہ جاری رکھوانا چاہتے ہیں تو تجدیدکا فارم بھر کر اپنے آدھار کارڈ اور بینک پاس بک کی کاپی کے ساتھ20 محرم الحرام1444 تک  امارت شرعیہ بھیج دیں ۔ وظیفہ فارم میں موجودسبھی خانوںکو صاف صاف بھریں ،اگر خود سے نہ بھر سکیں تو کسی جانکار سے بھر والیں، خاص طور سے اکاؤنٹ کی تفصیلات(اکاؤنٹ میں موجودنام، اکاؤنٹ نمبر، بینک کا نام ، بینک کاپتہ،آئی ایف سی کوڈ) صاف صاف بھریں، وظیفہ کا فارم امارت شرعیہ کے مرکزی دفتر سے یا اپنے ضلع کے دار القضائ سے حاصل کر لیں اور علاقہ کے قاضی، ارکان شوریٰ، گاؤں کے نقیب ،بلاک یا ضلع کمیٹی کے صدر ،سکریٹری یا معزز شخصیات سے تصدیق بھی کرا لیں اور بذریعہ پوسٹ یادستی ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف،پٹنہ۔801505 کے پتے پر بھیجیں ۔ یاد رکھیں جن کی تجدید کی درخواست موصول نہیں ہو گی ان کا وظیفہ آئندہ سال1444  ہجری کے لیے جاری نہیں ہوگا۔مزید معلومات کے لیے 0612-2555668,  اور 8298969227، 7903621729پر رابطہ کریں۔ یہ اطلاع دفتر نظامت سے مولانا محمد ارشد رحمانی آفس سکریٹری امارت شرعیہ نے دی ہے۔

پرتاپ گڑھ: محرم کے عارضی گیٹ پر تنازعہ، رکن اسمبلی راجا بھیا کے والد کا دھرنا، علاقہ میں کشیدگی

پرتاپ گڑھ: محرم کے عارضی گیٹ پر تنازعہ، رکن اسمبلی راجا بھیا کے والد کا دھرنا، علاقہ میں
 کشیدگی
(اردودنیانیوز٧٢)
پرتاپ گڑھ: اتر پردیش میں پرتاپ گڑھ ضلع کی تحصیل کنڈہ کے احاطہ میں شہ زور ایم ایل اے راجا بھیا کے والد کنور ادے پرتاپ سنگھ شیخ پور عاشق میں یکم محرم پر تعمیر گیٹ کو ہٹانے کے مطالبہ کو لے کر دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ جہاں ایس ڈی ایم کنڈہ وغیرہ انتظامیہ موجود ہے اور درمیان کا راستہ نکالنے کے لئے کوشاں ہے۔ وہیں ادے پرتاپ سنگھ گیٹ ہٹانے سے قبل دھرنا ختم نہیں کرنے پر بضد ہیں۔محرم کے عارضی گیٹ کے خلاف دھرنا دیتے راجا بھیا کے والد ادے پرتاپ سنگھ / ٹوئٹر

ٹحصیل کنڈہ کے سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ستیش ترپاٹھی نے بتایا کہ خصوصی طبقے کے لوگ یکم محرم سے دس محرم تک مجالس اور جلوس کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس ضمن میں شیخ پور عاشق گاؤں میں مسجد کے نزدیک ایک عارضی گیٹ بنایا گیا ہے، جو دسویں محرم کے بعد ہٹا دیا جاتا ہے۔ گیٹ پر کنور ادے پرتاپ سنگھ کو اعتراض ہے۔ گیٹ کو ہٹانے کو لے کر وہ دھرنے پر بیٹھے ہیں، بات چیت کی جا رہی ہے، کوشش ہے کہ کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں۔

ادھر، دھرنے پر بیٹھے کنور ادے پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ گیٹ کے نیچے سے ہندووں کے گزرنے سے ان کے جذبات مجروح ہوں گے، اس لئے ان کا مطالبہ ہے کہ گیٹ کو ہٹایا جائے۔ جب تک گیٹ ہٹایا نہیں جاتا ،وہ دھرنے سے نہیں اٹھیں گے۔

انہوں نے انتظامیہ پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کے مطالبات پر کوئی سماعت نہیں کی جا رہی ہے۔ وزیر اعلی کو دو روز قبل ٹوئٹ کر گیٹ ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، اس لئے وہ دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ہر سال محرم کے موقع پر ادے پرتاپ سنگھ ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لئے رخنہ پیدا کرتے ہیں۔ گیٹ مسجد کے نزدیک بنایا گیا ہے، جو دسویں تاریخ کے بعد ہٹا دیا جائے گا۔ گیٹ کو ہٹانے کے مطالبہ پر علاقے میں کشیدگی ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...