Powered By Blogger

منگل, ستمبر 27, 2022

صفدر امام قادری: آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

صفدر امام قادری: آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
✒️قاسم خورشید
اردو دنیا نیوز٧٢

نیک صالح خوب سیرت تازہ دم ذہین ذی شعور صفدر امام قادری سے میری ملاقات آل انڈیا ریڈیو پٹنہ میں اس وقت ہوئی تھی جب طالب علمی کے زمانے میں عارضی اناؤنسر کے طور پر میں آکاش وانی پٹنہ کے اُردو پروگرام سے وابستہ تھا اس وقت صفدر اپنے والد اشرف قادری  صاحب کے  ساتھ ریڈیو اسٹیشن آئے تھے تب بیتیا سے ٹاکر کے طور پر اُن کے والد مدعو کیے جاتے تھے صفدر ایک صالح بیٹے کی طرح اُن کے ساتھ ہوا کرتے تھے ریکارڈنگ کے بعد اکثر چائے کے دوران گفتگو میں ہم کچھ کچھ کھلتے تھے حالانکہ صفدر بنیادی طور پر کم گو ہی تھے مگر صلاحیتیں اپنی خوشبو لے کر آیا کرتی ہیں میں نے یہ ضرور محسوس کیا کہ رواداری کے ساتھ علمی طور پر بھی شروع سے صفدر کا اختصاص رہا اور یہ بڑی وجہ تھی کہ جلد ہی اپنی ایک شناخت قائم ہو گئی وہ خود ریڈیو میں بحیثیت مقالہ نگار آنے لگے اردو کے معیاری رسائل اور اخبارات میں روشن ہوئے اور بڑی خوبی یہ تھی کہ تحقیق سے جنون کی حد تک رشتہ استوار ہوا جس کی جھلک اُن کے مضامین میں دیکھی جانے لگی
بیتیا  کو میں نے صفدر کے حوالے سے جانا میں اپنے ڈرامے مضامین کہانیاں اور شاعری کے ساتھ بےحد فعال تھا بہار اور بیرون بہار کے سفر پر بھی اکثر ہوا کرتا کئی بار بیتیا کا سفر بھی رہا صفدر سے فطری نزدیکیاں بڑھیں پٹنہ میں جہاں کہیں میں ہوتا صفدر پٹنہ آتے تو میرے ساتھ ہی رہتے ہم اپنی استطاعت بھر نشست بھی کرتے اور خوشی تب زیادہ ہوتی کہ بڑی معتبر یت کے ساتھ رپورٹ شائع ہوتی اور مرکزیت کی وجہ سے سیریس حلقہ ہم سے قریب تر ہوتا گیا صفدر  کے علمی و ادبی سفر میں تجسّس اور جنون کا شائبہ بدرجئہ اتم موجود تھا میری سمجھ سے قاضی عبدالودود کے بعد بہار کے پاس کوئی ایسا محقق نہیں تھا جس کی معتبر یت تحقیق کے لیے سند یافتہ ہو شروع سفر میں صفدر کو دیکھ کر یہ اُمید ضرور اُبھری تھی مگر صفدر کے سامنے زندگی کو اپنے طور پر جینے اور پھر جدوجہد کے لامتناہی سلسلے سے سینہ سپر ہونے کا معاملہ بھی درپیش تھا مرکزیت بےاماں ہو رہی تھی مگر بنیادی وصف زندہ و تابندہ تھا
پٹنہ کے درگاہ روڈ میں میرے اموں نے طالب علمی اور جدوجہد کے زمانے میں ایک چھوٹا سا کمرہ دے رکھا تھا جس میں سنگل بیڈ کی ایک چوکی اور پرانے طرز کا مختصر سا فرنیچربھی تھا دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کمرے میں کوئی دروازہ نہیں تھا صفدر بھی طالب علمی کے دور میں تھے پٹنہ قیام کے دوران ہم دونوں آرام سے چت ہوکر اسی چوکی پر دیر رات تک گفتگو کرتے رہتے کب نیند آجاتی پتہ نہیں چلتا اس دوران میں نے محسوس کیا کہ صفدر کے اندر ایک  سنجیدہ تخلیق کار بھی چھپا ہے مجھے کئی نظمیں اور غزلیں سننے کا موقع ملا صفدر کی شاعری میں جدید عہد کی تصویر کشی کا اپنا الگ رنگ تھا رسائل اور نشستوں میں صفدر کے رنگ کو خوب خوب پسند کیا جانے لگا مگر  ترجیحات میں تحقیق و تنقید کو  ہی آگے رکھا  صفدر کی قربت بےحد تقویت پہچانے لگی اور ہم ایک فیملی ہو گئے اب ہماری گفتگو میں سازینہ بھی اپنی نظموں کے ساتھ صفدر کی زبان سے ادا ہونے لگی اس کی کئی نظمیں صفدر نے سنائیں مزے کی بات یہ تھی کہ صفدر میں ایک خوبصورت تبدیلی آنے لگی تھی اور بلا شبہ یہ شدّت تعمیری اور تخلیقی سطح پر صفدر کو مضبوط کر رہی تھی    مہذب اور خوش رنگ طور نے اسے اور متحرک کر دیا اب سنجیدہ محفلوں رسائل اور کتابوں میں شمولیت ناگزیر ہو گئی اُردو کے ساتھ ہندی میں بھی عمدہ معیار و اقدار کا تعین ہونے لگا ہندی حلقے میں صفدر کی پذیرائی کا یہ عالم تھا کہ اُس عہد میں ہندی کی سبھی معتبر شخصیتیں طرفدار ہوگئیں کئی پروجیکٹ کئے اور تاریخ رقم کر ڈالی  
سلسلہ وقت کے ساتھ طویل ہوتا گیا تجربے مشاہدے صلاحیتوں کے قالب میں ڈھلتے رہے صفدر نے تعلیم مکمل کی اور میری کاوش نے مجھے سرکاری عہدے پر فائز کر دیا امی کے ساتھ میں اپنے سرکاری کوارٹر میں رہنے لگا ذمےداری بہت بڑھ گئی دن رات کام اور وہ بھی بہار کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لیے ایک دم نیا یعنی  ٹیلی ویژن  کے لیے ایجوکیشنل پروگرام بنانا بہرکیف میں نے یہ کام کامیابی سے شروع کیا بہار بھر میں شوٹنگ کرتا رہتا صفدر کی سفارش پر بیتیا سے بھی ٹیلنٹ کا انتخاب کرتا رہا صفدر اب پٹنہ قیام کے دوران میرے کوارٹر میں ٹھہرتے اور یہاں ہندی اردو دوستوں کی محفلین سجتیں صفدر نے اپنی عرق ریزی اور ریاضت سے ہندوستان بھر میں  شناخت قائم کر لی تھی پڑھا لکھا طبقہ انکی صلاحیتوں کا معتقد ہو چکا تھا ہم بھی صفدر کے علمی اعتقادات سے استفادہ کرتے ہوئے بےحد مسرور رہتے اسی دور میں یہاں کئی بڑے مشاعرے ہوئے جس میں ملک کی عظیم شخصیتیں شامل ہوا کرتیں مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں فلم اُمراؤ جان کا بہت کریز تھا خصوصی طور پر شہر یار کی ایک جھلک کے لیے لوگوں میں عجب جنون دیکھا گیا شہر یار مجھے اور صفدر کو لگاتار رسائل میں شائع ہونے کی وجہ سے جانتے تھے جب مشاعرے میں پٹنہ آئے تو شمیم فاروقی نے انکی ذمّے داری مجھے دی تب صفدر بھی پٹنہ میں موجود تھے شہر یار سے ہماری تفصیلی ملاقات ہوئی اور یہ سلسلہ تا دم حیات رہا صفدر امام قادری نے شہر یار کے حوالے سے کئی خوبصورت کام کیے جو شہر یار کو سمجھنے کے لیے بےحد ضروری ہے اسی طرح جب ندا فاضلی اور افتخار امام صدیقی پٹنہ تشریف لاتے تو میرے غریب خانے پر ہی ٹھہرتے ہم صفدر کو ضرور تلاش کر لیتے ندا فا ضلی اور افتخار صدیقی سے ہم نے صفدر کی صلاحیتوں اور خوبیوں کا حوالہ دے کر باضابطہ طور پر ملوایا دونوں اس قدر متاثر ہوئے کہ کبھی ایسا نہ ہوا کہ ندا صاحبِ یا افتخار صدیقی کا فون میرے پاس آیا ہو اور انہوں نے صفدر کی خیریت نہ دیافت کی ہو یہ تھی کم عمری میں علم کی خوشبو جس کا  اُردو کا لیجنڈ گروپ بھی قائل  ہو چکا تھا
ایک روز میں سلطان گنج قیام گاہ سے دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک  صفدر امام قادری کچھ پریشانی کے عالم میں سازینہ راحت کے ساتھ آگئے سازینہ سے بہ نفسِ نفیس میں پہلی بار ملا تھا ڈرائنگ روم میں اُنہیں بٹھایا اندرون خانہ کو خبر دی کچھ دیر میں ہی شاہدہ آکر ملیں اور سازینہ کو زنان خانے میں لے گئیں بعد میں ہم سب نے مل کر ناشتہ کیا اور انہیں آرام کرنے کا مشورہ دیکر دفتر چلا گیا  دونوں کئی دنوں تک ہمارے ساتھ رہے پھر اپنے مشترکہ دوست اور ہمنوا گیان دیو تریپا ٹھی سمیر کے مشورے پر دونوں کے نکاح کا عمل شروع کیا پندرہ بیس دنوں کی تیاریوں کے بعد راجگیر خانقاہ میں اُن کا باضابطہ عقد ہوا اور اس کے بعد دونوں کے گھر والوں کی وقتیہ ناراضگی بھی ختم ہوئی اور ہمیں دعاؤں کے فیض سے نوازا گیا اب اخلاقی ذمےداری کی وجہ سے باضابطہ صفدر کے لئے ایک نوکری کا انتظام کرنا تھا ہم نے کوشش شروع کی اور ایک دن شاعر اثر فریدی اور میں نے قومی تنظیم کے ایڈیٹر جناب اشرف فرید سے صفدر کی صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فی الحال نوکری کی درخواست کی اشرف صاحب معترف ہوئے اور صفدر باضابطہ طور پر قومی تنظیم سے جُڑ گئے صلاحیت ایسی تھی کہ اپنی پہچان ازخود بن گئی اور یہاں سے سماجی سروکار اور بڑھنے لگا پھر دونوں ایک کمرہ لے کر الگ رہنے لگے مجھے بھی پٹنہ میں ایک طاقت کا احساس ہوا صفدر نے اپنی تحریروں اور کاوشوں سے جلد ایک الگ سماج بنا لیا پھر وہ باضابطہ لیکچرر ہوئے مگر پٹنہ سے باہر پوسٹنگ کی وجہ سے ہم سب کچھ دنوں پریشان بھی رہے مگر جلد ہی کالج آف کامرس میں پوسٹنگ ہو گئی اور صفدر کی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں آئیں دو بچے ہوئے اُن کی بہترین پرورش کی بچی کی شادی بھی بہت ہی شاندار ڈھنگ سے کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ تیز تر ہوتا گیا دوسری طرف میں بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ہندوستان گیر سطح پر ایڈورٹائز کلاس 1 آفیسر کے واحد پوسٹ پر منتخب کر لیا گیا اور پھر بعد میں بہار کابینہ کے فیصلے کے بعد مجھے ایس سی ای آر ٹی بہار کا ہیڈ لینگویجز بنایا گیا اس دوران ہم نے سبھی نو زبانوں کے لیے نصابی کتابیں تیار کروائیں اُردو گروپ سے صفدر7 وابستہ رہے اور ایک بار پھر اسی کیمپس میں صفدر سے ملاقات کی کڑیاں پھر سے جڑیں صفدر نے اپنے کالج میں کئی بڑے پروگرام کیے جس میں میری شمولیت رہی ارتضیٰ کریم جب دلّی یونیورسٹی کے ہیڈ ہوئے تو بڑے پروگرام کا انعقاد کیا جس میں دنیا بھر میں دلّی یونیورسٹی سے وابستہ افراد کے ساتھ اس فنکشن میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا صفدر بھی مہمان کے طور پر شامل ہوئے یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں جگجیت سنگھ کو روبرو سننے کا موقع ملا تھا اس پروگرام میں ندا فا ضلی صاحب سے ملاقات ہوئی اور ہم نے بہت سی یادیں تازہ کیں 
صفدر امام قادری سے اب عموماً بڑی کانفرنسوں میں ہی ملاقات ہوا کرتی تھی چاہے وہ این سی پی یو ایل کی ورلڈ کانفرنس ہو آل انڈیا مشاعرہ ہو یا کوئی نیشنل سی می نار۔
صفدر نے ادب میں ہمیشہ ایک الگ معیار کے ساتھ اپنی7 موجودگی کا احساس دلوایا ہے کچھ ادارے سرکاری یا غیر سرکاری اخراجات پر عموماً رسمی طور پر ورک شاپ کروا تے ہیں ریکارڈ کے لیے بھلے یہ کام ہو جاتا ہے مگر متعلق اداروں کو ٹھگنے والے زیادہ پیش پیشِ رہتے ہیں اسی لیے بہت کاوشوں کے بعد بھی ایسے مافیاؤں کی وجہ سے سب سے زیادہ ایجوکیشن کی حالت ہی خراب ہے کوشش کے باوجود ان سے ہمارا نظام مکت نہیں ہو سکتا مگر جنہیں جنون ہے وہ اُن کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذاتی خدمات سے طوفان میں بھی چراغ روشن رکھتے ہیں ایسے خدمت گزاروں میں بلا شبہ صفدر امام قادری کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جس نے مشن بناکر تعلیم کے فروغ کی کوشش کی ہے
صفدر کی کاوشوں کا سلسلہ بہتی ہوئی لہروں جیسا ہے جو کناروں کو چھو کر لوٹ جاتی ہیں یہاں منزل تحریک سے تعبیر ہے ٹھہراؤ سے نہیں۔
جس دن سے چلا ہوں مِری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

🟣🟣🟣
سابق ہیڈ لینگویجز ایس سی ای آر ٹی بہار
9334079876

پیر, ستمبر 26, 2022

بہار کے 27 اضلاع میں گرج چمک کے ساتھ ہوگی بارش: محکمہ موسمیات نے جاری کیا یلو الرٹ

بہار کے 27 اضلاع میں گرج چمک کے ساتھ ہوگی بارش: محکمہ موسمیات نے جاری کیا یلو الرٹ

اردو دنیا نیوز٧٢

مانسون ستمبر کے مہینے میں بہار پر مہربان ہے۔ ریاست میں گزشتہ کئی دنوں سے اچھی بارش ہو رہی ہے۔ جس سے لوگوں کو گرمی سے بھی راحت ملی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق یہ سلسلہ ابھی جاری رہنے کی توقع ہے۔ ساتھ ہی کچھ اضلاع میں بارش بھی لوگوں کے لیے تباہی بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ موسمیات نے بہار کے 27 اضلاع میں بارش اور گرج چمک کا الرٹ جاری کیا ہے۔

ان اضلاع میں اچھی بارش کا امکان ہے۔ دیگر اضلاع میں بھی موسم خوشگوار رہنے کی توقع ہے جس سے کاشتکاروں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس دوران زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 30 سے 31 ڈگری سیلسیس اور کم سے کم درجہ حرارت 25 سے 26 ڈگری سیلسیس رہنے کی توقع ہے۔ 

محکمہ موسمیات کی جانب سے بہار کے 27 اضلاع کے لیے یلو الرٹ جاری کیا گیا تھا، جن میں پٹنہ، سوپول، ارریہ، مدھے پورہ، کشن گنج، سہرسہ، پورنیہ، کٹیہار، کھگڑیا، بھاگلپور، مونگیر،بانکا، جموئی، شیخ پورہ، لکھی سرائے، بیگوسرائے، نوادہ نالندہ، جہان آباد، گیا، ارول، بھوجپور، روہتاس، کیمور اور بکسر شامل ہیں۔ ان علاقوں میں لوگوں کو محفوظ مقام پر رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ 


واضح ہوکہ بہار میں ستمبر کے مہینے میں مسلسل بارش کی وجہ سے شہروں کا درجہ حرارت بہت زیادہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ اتوار کے روز دارالحکومت پٹنہ میں 32.1 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ گیا میں 32 ڈگری سیلسیس، مظفر پور میں 30.6 ڈگری سیلسیس، بھاگلپور میں 34.3 اور پورنیہ میں 34 ڈگری سیلسیس رہے گا۔ موسم میں نمی کا تناسب 84 فیصد رہے گا۔ 

اکتوبر کے مہینے میں بینک 21 دن بند رہیں گے

اکتوبر کے مہینے میں بینک 21 دن بند رہیں گے
اردو دنیا نیوز٧٢
ڈیجیٹل بینکنگ کے دور میں، اگر آپ کو بینک سے متعلق کام کے لیے بینک جانا پڑتا ہے، تو یہ آپ کے کام کی خبر ہے۔ اکتوبر کے تہوار کے مہینے میں تعطیل کی وجہ سے بینک 21 دن بند رہیں گے۔

ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے اکتوبر میں بینک تعطیلات سے متعلق فہرست جاری کی ہے۔ آر بی آئی کے مطابق اکتوبر میں ملک کی مختلف ریاستوں میں کل 21 دن کی چھٹیاں ہوں گی۔گائیڈ لائنز کے مطابق بینکوں کی کل 21 چھٹیوں میں ہفتہ کے دوسرے اور چوتھے ہفتہ اور اتوار کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد پر اپنے بینک سے متعلق کام طے کریں، تاکہ کوئی پریشانی نہ ہو اور آپ کے کام میں خلل نہ پڑے۔

اکتوبر 2022 میں بینک تعطیلات کی فہرست:-

یکم اکتوبر: بینکوں کے کھاتوں کی ششماہی بندش کی وجہ سے بینک بندرہیں گے۔
2 اکتوبر: گاندھی جینتی اور مہینے کا پہلا اتوار ہونے کی وجہ سے چھٹی ہوگی۔

3 اکتوبر: سکم، تریپورہ، مغربی بنگال، بہار، جھارکھنڈ، کیرالہ، بہار اور منی پور میں درگا پوجا (مہا اشٹمی) کے موقع پر بینک بند رہیں گے۔

4 اکتوبر:- کرناٹک، اوڈیشہ ، سکم، کیرالہ، بنگال، اتر پردیش، مہاراشٹر، بہار، جھارکھنڈ، آسام اور میگھالیہ میں درگا پوجا (مہا نوامی)، آیودھا پوجا اور شریمتا سنکردیو جنم اتسو کے موقع پر بینک تعطیل ہوگی۔ 

5 اکتوبر:- دسہرہ (وجے دشمی) اور شریمنت سنکر دیو کے یوم پیدائش کے موقع پر منی پور کو چھوڑ کر ملک بھر کے بینک بند رہیں گے۔

6 اکتوبر: گنگٹوک میں درگا پوجا (دسین) کی وجہ سے بینک بند رہیں گے۔
7 اکتوبر: گنگٹوک میں درگا پوجا (دسویں) کی وجہ سے بینک بند رہیں گے۔

8 اکتوبر:- میلاد شریف، عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن اور ہفتے کے دوسرے ہفتہ کو چھٹی ہوگی۔

9 اکتوبر:- مہینے کا دوسرا اتوار ہونے کی وجہ سے ہفتہ وار چھٹی ہوگی۔

13 اکتوبر:- کروا چوتھ کی وجہ سے بینک بند رہیں گے۔

14 اکتوبر: عید میلادالنبی کے بعد جمعہ کے موقع پر جموں اور سری نگر میں بینک بند رہیں گے۔

16 اکتوبر:- مہینے کا تیسرا اتوار ہونے کی وجہ سے ہفتہ وار چھٹی ہوگی۔

18 اکتوبر: گوہاٹی میں کاتی بہو کی وجہ سے بینک بند رہیں گے۔
22 اکتوبر:- مہینے کے چوتھے ہفتہ کی وجہ سے بینک بند رہیں گے۔

23 اکتوبر:- مہینے کا چوتھا اتوار ہونے کی وجہ سے ہفتہ وار چھٹی۔

24 اکتوبر: کالی پوجا، د یوالی ، دیوالی (لکشمی پوجا) اور نارک چتردشی کی وجہ سے حیدرآباد، امپھال اور گنگٹوک کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بینک بند رہیں گے۔

25 اکتوبر: گنگٹوک، حیدرآباد، امپھال اور جے پور میں لکشمی پوجا، دیوالی اور گووردھن پوجا کی وجہ سے بینک بند رہیں گے۔

26 اکتوبر:- گووردھن پوجا/وکرم سموت نئے سال کے دن/بھائی بیج/بھائی دوج/دیوالی (بالی پرتیپدا)/لکشمی پوجا/یوم الحاق (جموں و کشمیر) کے موقع پر احمد آباد، بنگلور، بیلا پور، دہرادون، گنگٹوک، جموں، کانپور، لکھنو¿، ممبئی، ناگپور، شیلانگ اور شملہ میں بینک بند رہیں گے
27 اکتوبر: لکھنو¿، کانپور، امپھال اور گنگٹوک میں بھائی دوج/ چترگپتا جینتی/ لکشمی پوجا/ دیپاولی/ ننگول جیسے تہواروں کی وجہ سے بینک بند رہیں گے۔

30 اکتوبر:- مہینے کا پانچواں اتوار ہونے کی وجہ سے ہفتہ وار چھٹی۔

31 اکتوبر:- سردار ولبھ بھائی پٹیل کی تاریخ پیدائش/ سوریہ پرشتی دلا چھٹھ (صبح ارگھیہ)/چھٹھ پوجا کی وجہ سے احمد آباد، پٹنہ اور رانچی میں بینک بند رہیں گے۔

اسلامی کلینڈر

اسلامی کلینڈر

اتوار, ستمبر 25, 2022

ہندوستان کی اقتصادی ترقیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ہندوستان کی اقتصادی ترقی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
بے روزگاری، بڑھتی ہوئی مہنگائی، فی کس آمدنی کے گرتے معیار کے باوجود ہندوستان کی اقتصادی ترقی کے بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں اور اسے بھاجپا حکومت کی بڑی کامیابی قرار دی جارہی ہے، کہاتویہ بھی جا رہا ہے کہ اقتصادیات میں ہندوستان نے برطانیہ سے اوپر اپنا مقام بنالیاہے اور اب وہ پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے اور برطانیہ کا چھٹا نمبر ہے، ہندوستان سے اوپر علی الترتیب امریکہ، چین، جاپان اور جرمنی ہیں۔
اقتصادی ترقی اور زوال پذیری میں عالمی حالات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، لڑائی روس اور یوکرین کے درمیان ہے؛لیکن اس کے اثرات ہندوستان پر بھی پڑرہے ہیں، چین کے ذریعہ تائیوان پر قبضہ کی مہم بھی عالمی اقتصادیات کے لیے خطرہ ہے، ہندوستان تو پڑوسی ملک ہے اگر یہ جنگ چھڑتی ہے یاروس و یوکرین کی جنگ نیا رخ اختیار کرتا ہے تو ہندوستان کی شرح نمو میں کمی آئے گی اور یہ پھر سے نیچے جاسکتا ہے۔
ہندوستان کے پاس زرمبادلہ کے لیے غیر ملکی کرنسیاں کم ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت امپورٹ یعنی درآمد سے زیادہ برآمد پر توجہ دے، اکسپورٹ کے کام کو آگے بڑھائے تبھی زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا،بینک آف انڈیا کی مانیں تو ماہ اگست کی 26 تاریخ تک ہندوستان کے زرمبادلہ میں تین ارب ڈالر کی کمی آئی ہے، اور اب بھارت کے پاس صرف 561.046 ارب ڈالر کا زرمبادلہ موجود ہے،مطلب یہ ہے کہ اپریل سے اگست کے درمیان ہمارا پنتالیس(45) ارب زرمبادلہ کم ہوچکا ہے، وجہ صاف ہے ہم نے مالی سال 2021-2022 میں سامان کی درآمد یعنی امپورٹ زیادہ کیا اور اکسپورٹ کم کرسکے، اعداد و شمار کی مانیں تو گذشتہ مالی سال میں ہمارا اکسپورٹ 421.894 اور امپورٹ612.608 کا تھا، ظاہر ہے اس کا واضح اثر ہمارے زرمبادلہ کے ذخیرہ پر پڑا ہے۔
بھارت اقتصادی ترقی کے جس اونچے مقام کا دعویدار ہے، اس پر ماہرین اقتصادیات سوالات بھی اٹھارہے ہیں وہ اس اعلان کو نئے زوایے سے دیکھتے ہیں، ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ فی کس آمدنی میں کمی اور گھریلو پیداوار کی گرتی مقدار کے باوجود بھارت اقتصادی طور پر کیسے آگے بڑھ گیا،جو لوگ اس ترقی کو واقعی جانتے ہیں ان کی نظر میں یہ ترقی اقتصادی میدان میں بھارت کے آگے بڑھنے کی وجہ سے نہیں، برطانیہ کے اقتصادی انحطاط کی مرہون منت ہے،برطانیہ کی معیشت کا گراف جس طرح لاک ڈاؤن میں گرا ہے، اس کی وجہ سے بھارت پانچویں مقام پر آگیا، وجہ چاہے جو بھی ہو ہم پانچویں مقام پر ہیں، البتہ بھارت کے لیے اپنی شرح نمو کو اور جس منزل تک وہ پہونچ چکا ہے، اسے باقی رکھنا ایک چیلنج ہے۔ دیکھئے سرکار اس چیلنج میں کس طرح پورا اترتی ہے؟

ہفتہ, ستمبر 24, 2022

جمعیت علماء جلال آباد ضلع بجنور کے زیرِ اہتمام مسجد عمر فاروق ؓ متصل شیخ الاسلام منزل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی ﷺ،

جمعیت علماء جلال آباد ضلع بجنور کے زیرِ اہتمام مسجد عمر فاروق ؓ متصل شیخ الاسلام منزل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی ﷺ،
اردو دنیا نیوز٧٢ 
جمعیت علماء جلال آباد ضلع بجنور کے زیرِ اہتمام مسجد عمر فاروق ؓ  متصل شیخ الاسلام منزل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی ﷺ،  حضرت قاری الطاف حسین صاحب دامت برکاتہم العالیہ مہتمم مدرسہ اختر العلوم جلال آباد کی صدارت اور حضرت قاضی عفان الحق صاحب قاضی شہر نجیب آباد و جلال آباد کی زیرِ سرپرستی اور حضرت مولانا شاہنواز صاحب مد ظلہ ناظم تعلیمات مدرسہ اختر العلوم جلال آباد کی زیرِ نگرانی منعقد  ہو رہا ہے جبکہ نظامت کے فرائض حضرت مولانا ابنِ حسن صاحب دامت برکاتہم العالیہ امام و خطیب مسجد قاضیان جلال آباد و حضرت مفتی احمد شجاع صاحب دامت برکاتہم العالیہ مشترکہ طور انجام دیں گے 
پروگرام 28ستمبر بروز بدھ سے شروع ہوکر 02اکتوبر بروز اتوار تک چلے گا 
نوٹ عشاء کی نماز 8بجے ادا کی جائے گی

 خطاب 28ستمبر بروز بدھ:حضرت مولانا آصف محمود صاحب خطیب اِن شاء اللہ مسجد چوہان بانگر دہلی
 خطاب 29ستمبر بروز جمعرات:حضرت مولانا مفتی محمد عفان صاحب منصورپوری اُستاد حدیث جامع مسجد امروہہ 
 خطاب 30ستمبر بروز جمعہ: حضرت مولانا مفتی رفاقت صاحب ابو امامہ استادِ حدیث جامع مسجد امروہہ
   خطاب یکم اکتوبر بروز ہفتہ: حضرت مولانا مصلح الدین صاحب اُستاد حدیث و فقہ دار العلوم دیوبند
    خطاب 02اکتوبر بروز اتوار: حضرت مولانا مفتی عبد الرحمٰن صاحب نقشبندی مدظلہ العالیٰ استادِ حدیث مدرسہ شاہی مرادآباد 

آپ حضرات سے شرکت کی پر زور اپیل کی جاتی ہے

آہ! مسجد کاایک سچا خادم چلاگیا

آہ! مسجد کاایک سچا خادم چلاگیا
اردو دنیا نیوز٧٢
ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمی
امام وخطیب جامع مسجد دریاپور،سبزی باغ، پٹنہ
Mob : 9534286657
اس دنیائے فانی میں کسی کوثبات وقرار نہیں ، ہرچیز کوفنا ہونا ہے۔جو بھی آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے۔ اورکب جانا ہے یہ کوئی نہیں جانتا ۔شعر:
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود کچھ لوگ ایسے رخصت ہوتے ہیں کہ ان کی جدائی سے غم نہیں بلکہ غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے، وقت بڑے سے بڑے زخم کومندمل کردیتا ہے۔ مگر کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں کہ اس کے مند مل ہونے کے لئے ایک مدت درکارہوتی ہے۔ موت ایسی حقیقت کہ اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔شعر:
موت سے بھلا کس کو رستگاری ہے
آج ان کی کل ہماری باری ہے
آج تک کوئی ایسی تحقیق نہیں ہوئی جس سے انسان کی عمر کا اندازہ کیا جاسکے کہ یہ کتنے دن اس دنیا میں رہے گا، آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ بچے، بوڑے، جوان ہر عمر کے لوگ جارہے ہیں۔ موت کا کوئی علاج نہیں ، جب ، جس وقت ، جہاں اورجس بہانے موت آنی ہے اسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔ شعر:
کہانی ہے تو اتنی ہے خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہو اور آدمی افسانہ بن جائے
ایسی ہی ایک موت جامع مسجد دریاپور سبزی باغ پٹنہ کے مؤذن ابوفتح مرحوم کی ہوئی جو چند منٹوں میں اس دنیا سے دوسری دنیا میں چلے گئے، لوگ دم بخود رہ گئے نہ کچھ بول سکے نہ سوچ سکے کہ پل بھر میں کیا سے کیاہوگیا۔ شعر:
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
۲۱؍ستمبر ۲۰۲۲ ء کو فجر کی نماز کے بعد کے تمام معمولات پورا کرکے سبزی باغ چوراہے سے گھوم کر بارہ بجے دن میں مسجد آکر صفائی ستھرائی کرکے مسجد کو نمازیوں کے لئے آراستہ کردیا، اورخود غسل مکمل کرکے صاف کپڑا زیب تن کیا اوراچانک بے چینی محسوس کی اس وقت چارنمازی مسجد میں موجود تھے وہ دوڑکر گئے پانی پلایا ایک گھونٹ پیا اورآنکھیں موند لیںبظاہر صرف شوگر کامرض تھااورحرکت قلب بند ہوگیا۔لوگ گھبرا ئے کچھ بولنے کی ہمت نہیں کی اٹھاکر پی ایم سی ایچ کے ایمرجنسی وارڈ لے جایاگیا اورڈاکٹر نے تصدیق کیاکہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ سنتے ہی پورے محلہ میں کہرام مچ گیا، جن کی آنکھیں کبھی نم نہیں ہوئی تھیں وہ نوجوان اوربوڑھے بھی بلک بلک کررونے لگے، غیر مسلم مرد عورتیں بھی آکر افسوس ظاہر کرنے لگے، پورے محلہ کے ہرگھر میں سناٹا چھاگیا اورآن واحد میں ایک اژدہا م جمع ہوگیا۔ لہٰذا بعد نماز مغرب نماز جنازہ میں اتنی بڑی تعداد جمع ہوگئی کہ تل رکھنے کی جگہ نہیں رہی، مسجد سے چند قدم لنگرٹولی چوراہے تک جنازہ پہنچنے میں آدھ گھنٹہ لگ گیا پھر ایک بڑے قافلہ کے طورپر نصف درجن گاڑیوں کے ہمراہ انہیں ان کے آبائی گاؤں لیجاکر ۱۱؍ بجے شب میں اس علاقوں کے ہجوم کی موجودگی میں گاؤں کی مسجد کے داخلی دروازے سے متصل عام قبرستان میں سپردخاک کر دیاگیا۔ ایک مؤذن کے لئے لوگوں کے دلوں میں ایسی محبت وابستگی اورآنکھو ں میں نمی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے یہ بلاشبہ اللہ کے یہاں مقبولیت کی علامت ہے۔
واضح ہوکہ جناب ابوفتح مؤذن مرحوم کی ولادت ۳۰؍مئی ۱۹۶۰ء کو موضع جاناتھانہ استھانواں ضلع نالندہ میں ہوئی۔ ان کے والد کانام عبدالکلیم اوروالدہ کانام رسول باندی ہے، نانیہال بھی گاؤںمیں تھی، اکلوتے تھے کوئی بھائی نہیں تھا صرف دوبہنیں ہیں۔ ان کی شادی اسی علاقہ کے قمص پور ضلع نالندہ میں جناب بدرالدین کی صاحبزادی سے ہوئی۔ جن سے تین صاحبزادے حافظ مولانا معظم ثاقب قاسمی جو فاضل دیوبند اورامارت شرعیہ سے افتا وقضا کیے ہیں دوسرے حافظ مولانا محمد طاہر یہ ہتھوڑہ باندہ یوپی سے فارغ التحصیل ہیں اورتیسرے حافظ محمد طیب ہیں، جبکہ دوصاحبزادی میں بڑی رقیہ کی شادی ہوچکی ہے چھوٹی طیبہ غیرشادی شدہ ہے۔ اورایک لڑکے کی بھی شادی ہوچکی ہے ۔
کوئی سند یافتہ نہیں تھے، مگر علماء کی صحبت سے بہت کچھ جانتے تھے، اہل علم کی بڑی قدر کرتے ملاقات پرفوراً عطر پیش کرتے، ضیافت کرتے اورخندہ پیشانی سے ملتے، اسی قدردانی کے باعث ان کے تینوں لڑکے حاظ قرآن اورعالم دین ہوئے اوراوردوبھانجہ کوبھی حافظ قرآن بنایا۔ شریعت کے پابند تھے نیک اورپرہیز گار تھے،مسجد سے والہانہ لگاؤ تھا، اس لئے اپنی خدمت کامیدان مسجد ہی کوچنا پہلے پٹنہ سیٹی کی ایک مسجد میں تین سال خدمت کی، پھر مکھنیا کنواں پٹنہ میں آٹھ سال رہے اور1996 ء سے جامع مسجد دریاپور سبزی باغ میں مؤذن کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے۔ اس سے تین سال قبل 1993 ء میں یہاں میں بحیثیت امام بحال ہوچکاتھا۔اس وقت مسجد کے سکریٹری جناب احمدقاسم تھے جوجناب حماد قاسم کے والد گرامی تھے ۔2001 میں ان کا انتقال ہوا، ان کے بعد 2018 تک جناب حماد قاسم سکریٹری رہے۔ پھر موجودہ سکریٹری جناب محمد ارشد عالم یہ سب لوگ ان کا بہت خیال رکھتے اورجو مشورہ دیتے اس کے مطابق عمل کرتے مسجد کی فکر ہمہ وقت رہتی اورہمیشہ مسجد کے مفاد میں سوچتے ، مسجد کے ایک ایک چیز کی حفاظت اورنگرانی ہروقت کرتے وہ مسجد کی خدمت ملازمت کے طورپر نہیں بلکہ عبادت اورنیکی سمجھ کرکرتے، وہ مسجد کے ہمہ وقتی محافظ اورنگراں تھے۔ مسجد چھوڑکر کہیں نہیں جاتے مسجد کے اردگرد ہروقت رہتے اورکوئی چیز خراب ہوتی یاضرورت ہوتی تو فوراً اپنا روپیہ لگاکر درست کراتے اورحساب کمیٹی کودیتے۔ ان کی امانت داری پرانتظامیہ کمیٹی کو اتنا اعتماد تھاکہ جوکہہ دیتے کبھی اس کی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
مسجد سے لگاؤ کا یہ عالم تھاکہ گھر نہیں جاتے کمیٹی کے لوگ کہتے کہ جائیے اورایک ہفتہ رہنا ہے اوردوتین بعدواپس آجاتے یہ بات مشہور ہوگئی کہ ان کو گھر دل ہی نہیں لگتا ہے۔
جو کام کرتے بڑئے خلوص سے کرتے ریا کاری سے سخت نفرت تھی۔ ان کے خلوص کایہ عالم تھاکہ خود تھوڑا تھوڑا جمع کرکے حج کا انتظام کیا پٹنہ کے کسی کو رنمبر کے ساتھ شامل نہیں ہوئے اورتنہاچھٹی لیکر گھرگئے اوروہاں سے گیا جاکر حج بیت اللہ کیلئے 2012 ء میں روانہ ہوگئے۔ واپسی میں گیا سے گھر چلے گئے اورکسی کو نہیں بتایا۔ اگرچاہتے تو اس کی مارکٹنگ کرکے بہت سا تعاون حاصل کرلیتے مگران کا کہنا تھاکہ میں صرف اللہ کے لئے حج کرنا چاہتاہوں۔
ان کے دل میں کبھی کوئی لالچ نہیں تھی بہت بڑا محلہ تھا اوربڑے قدرداں تھے مگراپنی ضرورت کیلئے کبھی دست سوال نہیں کیا، مزاج میں بہت وسعت تھی کسی سے کوئی امید نہیں لگاتے بلکہ ان کے احباب کی ایک ٹیم تھی جو عام لوگ تھے ان کے علاوہ چھوٹے بچوں اورغرباء سے خاص محبت تھی ۔ چائے کے شوقین تھے پیتے بھی اورپلاتے بھی اوربڑی عمدہ بناتے بھی تھے۔ اس کے علاوہ اورکوئی عادت نہیں تھی۔
عام طورسے جب باہر سے لوگ مسجد آتے توان سے پوچھتے کہ مؤذن صاحب آپ کو یہاں کتنی تنخواہ ملتی ہے توان کا جواب ہوتا کہ میں کسی مخلوق کے یہاں نہیں بلکہ اس خالق کے گھر میں رہتا ہوں جو سب کو پالتا ہے ہم اس مالک کی نوازش کوکیسے بتائیں کہ اس کی کیاکیا مہربانیاں ہیں۔ اسی مہربانی کا یہ ثمرہ ہے کہ مسجد انتظامیہ کمیٹی نے ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزدے کو ان کی جگہ بحال کردیا ہے یہ بالواسطہ اولاد صالح کے ذریعہ ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے ، اس پر انتظامیہ کمیٹی کافیصلہ بھی قابل تحسین ہے۔وہ بڑے قناعت پسند تھے۔اوراکثر یہ کہتے کہ جوسوال کرتا ہے اس کے مال میں بے برکتی ہوجاتی ہے اس لئے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگتے اورکبھی انہیں کسی چیز کی کمی بھی نہیں ہوتی، کئی ہوٹل مالکان ان کے لئے فری کیے تھے کہ جوکھالیں مگرکبھی اس کا غلط استعمال نہیں کیا بہت محتاط بقدرضرورت ہی قبول کرتے۔
امام مؤذن کی رقابت عام بات ہے مگر میرے ساتھ معاملہ بالکل جداگانہ تھا، ایک مؤذن نہیںبلکہ دوست اوربھائی کی طرح اس طرح نبھایاکہ لوگ دوردور تک ہم لوگوں کی مثال دیتے۔ میرے منشی بھی تھے،خزانچی بھی تھے اورپرائیویٹ سکریٹری بھی، میری بھلائی کی فکر کرتے ، میری خوشی سے خوش ہوتے، میرے کاموں کو سراہتے ، حوصلہ بڑھاتے، صحیح مشورہ دیتے اورمیرے غائبانہ میں میری ترجمانی کرتے ان کے تعاون سے ہی دیگر عوامی محرکات میں شامل رہا اورکبھی پریشان ہونے نہیں دیا، کہیں جانا ہوتا توکہتے کہ اطمینان سے جائیں ہم سب دیکھ لیں گے۔ اس دیکھ لینے میں مسجد کی ذمہ داری کے ساتھ میرے گھر کے افراد کی بھی جوضرورت ہوتی اس کے لئے بھی حاضررہتے۔
ان کو لوگوں کی پرکھ بھی بہت تھی، ایک نظر میں بتاتے کہ یہ دیندار لگتے ہیں، کسی کوکہتے کہ چالاک معلوم ہوتے ہیں، کسی کو کہتے کہ یہ حریص لگتے ہیں کسی کو کہتے کہ یہ درباری معلوم ہوتے ہیں، کسی کوکہتے کہ یہ باصلاحیت لگتے ہیں، کسی کوکہتے یہ مسخرہ لگتے ہیں۔کسی کوکہتے کہ یہ شریف لگتے ہیں ۔ پھر کسی کو میرا پتہ بتاتے، کسی کونمبر دیتے ، کسی سے بات کراتے اورکسی کو خوش اسلوبی سے ٹال دیتے۔ پھر اس کی خبردیتے، اس طرح کس کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے اس کو بھی خوب جانتے تھے۔
ان کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی تھی کہ شکوے شکایت سے دور رہتے، عام طورسے دیکھا جاتا ہے کہ مؤذن کاسب ذمہ داروں کے پاس مختلف ضروریات کے تحت جانا ہوتا ہے اس لئے ایک دوسرے کی بات مرچ مسالہ لگاکر بیان کرکے خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگریہ جہاں سنتے وہی ختم کردیتے اگر کسی نے پوچھا توکہتے کہ آپ خود کیوں نہیں پوچھ لیتے میرا یہ کام نہیں ہے۔بلکہ جہاں دیکھاکہ دو آدمی بات کررہے ہیں تو فوراً وہاں سے ہٹ جاتے، اگرکسی نے غیبت کیا تو فوراً ٹوک دیتے کہ یہ سب ہمیں نہ سنائیے ہرآدمی کواپنا خیال رکھناچاہئے۔دوسروں کو چھوڑیں۔ عمل کی اپنی خوشبو ہوتی ہے ، کردار سے لوگ جانے جاتے ہیں ، مؤذن موصوف بھی اپنی کارکردگی کے باعث لوگوں میں مقبول تھے عام طور سے لوگ مؤذن کو کمتر سمجھتے ہیں مگران کو مؤذن ہونے کی حیثیت سے خوب عزت ملی ہر شخص ان کاخیال رکھتا، ۲۷؍ سال اس مسجد میں لگاتار رہے اورمسجد کی خدمت کرتے ہوئے اس دنیا کو خیرآباد کہا۔مسجد میں آخری سانس لی یہ ان کے لئے سعادت مندی اورعنداللہ مقبول ہونے کی علامت ہے اس بناپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ شہنشاہ دوعالم ﷺ نے حدیث پاک میں جو مؤذن کی فضیلت بیان فرمائی ہے انشاء اللہ اس کے مستحق ہوںگے، حدیث پاک میں جوفضیلتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
٭ حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرم ؐ سے ارشاد فرمایاکہ مؤذن کی آواز جہاں تک جاتی ہے وہاں تک کی ہرچیز جن وانس کل قیامت کے دن اس کے ایمان کی گواہی دیں گے(بخاری)
٭ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایاکہ ’’ من اذن محتسباً سبع سنین کتب لہ براۃ من النار، یعنی جوشخص ثواب کی امید سے سات سال اذان دی تو اس کے لئے جہنم سے نجات لکھ دی جاتی ہے (ترمذی)
٭ عن ابن عمرؓ :ثلاثۃ علی کتبان المسک یوم القیامۃ عبد ادی حق اللہ وحق موالیہ ورجل ام قوماوھم بہ راضون ورجل ینادی بالصلوٰۃ الخمس فی کل یوم ولیلۃ (ترمذی)
ترجمہ: قیامت کے دن تین شخص مشک کے ٹیلوں پرآرام سے ہوں گے، ایک وہ غلام جو اللہ اورآقا دونوں کاحق اداکرے،دوسرے وہ امام جس سے قوم راضی ہو تیسرے وہ مؤذن جوپانچوں وقت کی اذان دے۔
٭ حدیث پاک میں ارشاد ہے: من اذن ثنتی عشرۃ سنۃ وجبت لہ الجنۃ وکتب لہ بتاذینہ فی کل یوم ستون حسنۃ ولکل اقامۃ ثلاثون حسنۃ( ابن ماجہ)
ترجمہ: جس نے بارہ سال اذان دی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اوراس کے لئے ہرروز کی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں اورہراقامات پہ تیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔
اسی لئے حدیث پاک میں کہاگیاہے کہ اگرلوگوں کوپہلی صف کی نماز اوراذان کی فضیلت معلوم ہوجائے توقرعہ اندازی کرنی پڑے گی۔ بہرحاہل، بارہ سال اذان دینے پرجنت کی بشارت دی گئی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ۲۷؍ سال اذان دینے کی توفیق دی اوریہ شرف بخشا جو ان کے لئے بڑی فضیلت کی چیز ہے اگرکوئی کمی رہی تو اسے اللہ تعالیٰ معاف فرمائے اورمذکورہ بشارتوں سے نواز دے یہی دعا ہے۔
ع :   خدابخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔

٭٭٭

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...