Powered By Blogger

پیر, اکتوبر 03, 2022

ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مدرسہ ضیاء العلوم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ

ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مدرسہ ضیاء العلوم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں خالد عبادی اور شمیم شعلہ کے اعزاز میں محفل مشاعرہ، 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
پٹنہ پھلواری شریف 2/اکتوبر 2022 ( پریس ریلیز) صوبہ بہار کی مشہور سرزمین۔۔ ۔۔  سے  تعلق رکھنے والے دو مشہور ومعروف شاعر خالد عبادی اور شمیم شعلہ کے اعزاز میں ناشاد اورنگ آبادی کے زیر صدارت خوبصورت محفل مشاعرہ کا انعقاد ہوا،
مشاعرے کا اہتمام  محمد ضیاء العظیم (ٹرسٹی  ضیائے حق فاؤنڈیشن ) اور ان کی ٹیم نے کیا، واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن ایک سماجی ،فلاحی اور ادبی تنظیم ہے جو دیگر ادبی خدمات میں سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے، معلوم ہو کہ مذکورہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شہر پٹنہ  کے قلب میں واقع مسلم اکثریتی علاقہ پھلواری شریف میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم کے نام سے بھی چل رہا ہے، جہاں  بچے بچیاں اپنی علمی پیاس زیر تعلیم ہیں ،
 پروگرام جو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا، پہلے حصہ کی نظامت مشہور ومعروف شاعر پروفیسر کامران غنی صبا اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نیتیشور کالج مظفر پور بہار نے کی، پروگرام کی شروعات قاری عبد الواجد استاد مدرسہ ہذا کی تلاوت قرآن سے ہوا، جب کہ دوسرے تیسرے حصے کی نظامت مشہور شاعر اور ناظم مشاعرہ شکیل شہسرامی نے کی ، اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کے برانچ اونر پٹنہ وٹرسٹی محمد ضیاء العظیم نے افتتاحی کلمات میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ضیائے حق فاؤنڈیشن کا مختصر تعارف پیش کیا، پھر دونوں  شاعروں کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے سند اور شال سے نوازا گیا،اس موقع پر پہلے سیکشن کے ناظم کامران غنی صبا نے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم شعراء وادباء کی خدمات کا کبھی بدلہ نہیں دے سکتے ہیں، یہ حوصلہ افزائی ان کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، ان کی حوصلہ افزائی اور ان کی خدمات کا اعتراف یہ در اصل ہماری حوصلہ افزائی ہے، ہم ان دونوں شاعروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، مشاعرے کا پہلا حصہ نعتیہ شاعری پر اور دوسرا حصّہ غزلیات پر مشتمل تھا ۔

شمیم شعلہ 
جلوے ایسے کہ کریں چاند ستارے سجدے، 
حسن ایسا کہ خدا ہو گیا شیدا دیکھو 

خالد عبادی 
اگر ہم سے راضی نہ ہوتے محمد، 
خدا بھی کبھی ہم سے راضی نہ ہوتا، 
شکیل سہسرامی 
یہ خلاصہ ہے ان کی عظمت کا، 
وہ ہے شہکار دست قدرت کا، 

ناشاد اورنگ آبادی 
در پہ ناشاد کو پھر بلا لیجیے 
نام لیتا ہے وہ صبح وشام آپ کا، 

محمد اسرار عالم بیضی 
وہ جس کی ذات ہے تفسیر آیت قرآنی، 
اسی مفسر حمد وثنا کی بات کرو 
شفیع بازیدپوری، 
وہی تو ہر طرح سے رب کے فہمیدہ پیمبر ہیں، 
بنایا رب نے ان کو حامل قرآن کیا کہنا 
ڈاکٹر محمد نصراللہ نستوی ، 
پڑھو مومنوں حضور پہ سلام ودرود 
محمد حبیب خدا پر درود 

کامران غنی صبا 
مرے غم گسارو، مرے چارہ سازو، مجھے لے چلو شہر طیبہ دکھادو، 
زمیں پر نہیں تو زیر زمیں ہو، مدینے میں میرا بھی اک گھر بنادو، 
شوق پورنوی 
بہت الزام لوگوں پر لگے ہیں لگتے رہتے ہیں، 
مگر ماں عائشہ پر تو طہارت ناز کرتی ہے، 
ڈاکٹر نصر عالم نصر، 
تمام عالم کو یہ خبر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے، 
تمام امت یہ کہ رہی ہے 
نبی ہمارا ہی معتبر ہے 
نذر فاطمی 
مرےدل میں جو محبت مرے سرکار کی ہے، 
یہ نوازش یہ عنایت، مرے سرکار کی ہے، 
محمد ضیاء العظیم 
میں نعت نبی گنگنانے لگا ہوں ،
میں سویا مقدر جگانے لگا ہوں، 

مشاعرہ میں شعراء کرام کے غزل سے چند اشعار 
  

نیاز نذر فاطمی 
سوچتے سوچتے نا اہلوں کے 
وقت ہاتھوں سے نکل جاتا ہے  
سلیم شوق پورنوی 
حسد کی آگ ہے ہر سو جلن زیادہ ہے 
اسی لئے تو یہاں پر گھٹن زیادہ ہے، 
ڈاکٹر نصر عالم نصر
اسے معلوم منزل بھی نہیں ہے 
مگر وہ سب سے آگے چل رہا ہے، 
کامران غنی صبا 
شاید اسے ہماری انا کا گماں نہ تھا، 
ہم تشنگی پٹک کر سمندر پہ آگئے، 
معین گریڈوی 
یہ کوتاہ دستی کہیں لے نہ ڈوبے 
کہ پہلے سا مومن کا تیور نہیں ہے، 
شفیع بازید پوری 
ہوا زنجیر جنوں کی چاہت میں ہر زخم نیا منظور مجھے، 
لیکن یہ احساس مجھے، طوفان بلا منظور کیا، 
ڈاکٹر محمد نصر اللہ نصر نستوی، 
محمد اسرار عالم بیضی، 
عرفان وآگہی کے انا کے خودی کے ہیں، 
آنسو جو چشم تر میں ہیں وہ بیخودی کے ہیں، 
چودھری سیف الدین سیف، 
اہل ایماں کی زبوں حالی کا چرچہ چھوڑ کر، 
سوچو کیسے جی سکو گے رب سے ناطے توڑ کر، 

محمد ضیاء العظیم 
دل کا ہے اعلان محبت 
ہے رب کا فرمان محبت، 

شمیم شعلہ 
کچھ انہیں اپنی زمیں کی بھی خبر ہے کہ نہیں، 
چاند تاروں پہ ہیں، جاکر ٹہلنے والے، 

خالد عبادی، 
اچھا ہوا کہ اس نے بھلے قتل کردیا، 
سب کی نگاہ خنجر مستور تک لگی، 
ناشاد اورنگ آبادی، 
آپ ناشاد پریشاں کیوں ہیں، 
یہ برے دن بھی گزر جائیں گے، 
شکیل سہسرامی 
لکھے ہوئے نصیب سے آگے نکل گئے، 
وہ اور تھے جو حرف مقدر بدل گئے، 

اس موقع پر پرویز عالم (علمی وادبی مجلس) نے بھی اپنے تاثرات ودعا سے نوازتے ہوئے تنظیم کے تمام اراکین کی حوصلہ افزائی کی، 

آخر میں ناظم مشاعرہ شکیل سہسرامی نے پروگرام کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوں، یہ تنظیم اپنے محاذ پر بھر پور کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے، آج مجھے یہاں بہت خوشی محسوس ہورہی، یہ محفل میری زندگی کے یادگار کا حسین لمحہ ہوگا، آپ سب کی اس بے لوث محبت کو میں تا عمر یاد رکھوں گا، ضیائے حق فاؤنڈیشن کے ٹرسٹی  محمد ضیاء العظیم نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کیا، پھر صدر محترم ناشاد اورنگ آبادی کی اجازت سے محفل کے اختتام کا اعلان ہوا،اس پروگرام میں مدرسہ ضیاء العلوم کے طلبہ سمیت پھلواری شریف کی معزز شخصیات شامل رہے ، 
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج (متھلا یونیورسٹی) ڈاکٹر صالحہ صدیقی، اور ڈاکٹر نصر عالم نصر کا نام مذکور ہے، جن کی محنت وکاوش کی وجہ سے یہ پروگرام پایہ تکمیل تک پہنچ سکا، 
جبکہ عمومی طور پر فاطمہ خان، زیب النساء، شمیمہ بانو، فقیھہ روشن، قاری ابوالحسن،قاری عبدالواجد، مفتی نورالعظیم، حافظ ثناء العظیم، عفان ضیاء، حسان عظیم کا نام مذکور ہے.

اتوار, اکتوبر 02, 2022

مسجد عمر فاروق رضی اللہ عنہ متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی نشست اختتام پذیر ۔

مسجد عمر فاروق رضی اللہ عنہ متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی نشست اختتام پذیر ۔
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مسجد عمر فاروق رضی اللہ عنہ متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم   کی  چوتھی نشست اختتام پذیر ۔
حضرت قاری محمد اقرار صاحب دامت برکاتہم استاذ دار العلوم دیوبند  کی تلاوت اور مداح خیر الانام حضرت مولانا  مفتی محمد ارشد بجنوری صاحب دامت برکاتہم متعلم شعبہ افتاء دار العلوم دیوبند کی نعت سے پروگرام کا آغاز ہوا،  مفتی محمد ذاکر شیخ الحدیث جامعہ عائشہ القدس جلال آباد نے نظامت کے فرائض انجام دیئے
مہمانِ خصوصی کے بیان سے پہلے حضرت مولانا ابنِ حسن صاحب دامت برکاتہم العالیہ اِمام و خطیب مسجد قاضیان جلال آباد و صدر جمعیت علماء جلال آباد نے " نشہ خوری کی تباہ کاریاں" اس عنوان پر پر جوش انداز میں جامع خطاب کیا۔
اِس نشست کے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا مصلح الدین  صاحب دامت برکاتہم العالیہ استادفقہ و ادب دار العلوم دیوبند   نے "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی " کے عنوان پر تفصیلی خطاب فرمایا ۔
حضرت والا نے اپنے خطاب کے میں فرمایا کہ ہمیں اپنے گھر کی عورتوں کی تعریف کرنا چاہیے اس لیے کہ تعریف کرنے سے محبت بڑھتی ہے اور گھر خوشیوں کا مسکن بن جاتا ہے  ۔
مہمانِ خصوصی کے بیان کے بعد حضرت قاری محمد اقرار صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے نعت خوانی کرکے مجلس کی رونق میں اضافہ کیا۔
آخر میں حضرت مولانا مصلح الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی مستجاب دعاء پر مجلس کا اختتام ہوا ۔۔۔

اعلان: آج بہ تاریخ 02 اکتوبر 2022بروز اتوار کی نشست کے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا مفتی عبد الرحمٰن صاحب نقشبندی صاحب دامت برکاتہم العالیہ استاد مدرسہ شاہی مرادآباد و خلیفہ حضرت پیر ذو الفقارصاحب نقشبندی صاحب دامت برکاتہم   "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور فتنہ ارتداد تاریخ کی روشنی میں" اس عنوان  پر روشنی ڈالیں گے۔  
ان شاءاللہ
اپیل: آپ سے شرکت کی پُر خلوص درخواست ہے

انس حسامی بجنوری
خادم مدرسہ اختر العلوم جلال آباد بجنور 

ہفتہ, اکتوبر 01, 2022

آزادی کے بعد : بہار کے اردو ادبی رسائل

آزادی کے بعد : بہار کے اردو ادبی رسائل 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبصر : فخرالدین عارفی 
محمد پور ، شاہ گنج ۔ پٹنہ 800006
 بہار کی  سرزمین علم و ادب اور شعر و سخن کی لیےء ہمیشہ زر خیز رہی ہے ۔ یہاں افکار کی کاشتکاری ہوتی ہے اور فلسفے کے پھول کھلتے رہے ہیں ۔ بہار کی راجدھانی پٹنہ (عظیم آباد ) کو ہم اگر اہل جنوں کا شہر کہیں تو شائد غلط نہ ہوگا ، جنوں کے بطن سے ہی خرد کا جنم ہوتا ہے ۔ عظیم آباد میں جب رات ہوتی ہے تو ادب کے جگنو اس کو منوّر کردیتے ہیں اور جب آسمان کا سورج غروب ہوجاتا ہے تو آدھی رات کو یہاں ادب کا سورج طلوع ہوتا ہے اور پھر شعور و احساس کا ایک کارواں آگے بڑھتا ہے ۔ اس کارواں میں ہر شخص کی حیثیت "میر کارواں " کی ہوتی ہے ۔ ہر ذرہ مثل آفتاب و ماہتاب ہوتا ہے ۔  گویا ایک کہکشاں ہوتی ہے جو ہمیں سمتوں کا پتہ دیتی ہے ، ہمارا سفر جاری رہتا ہے اور ہمارے قدم کبھی پا بہ زنجیر نہیں ہوتے ہیں ۔ 
عطا عابدی بنیادی اور فطری طور ایک شاعر ہیں ۔ وہ پندرہ کتابوں کے مصنف ہیں ، جن میں زیادہ تر کتابیں شعر و سخن سے تعلق رکھتی ہیں ، لیکن ان کی چند کتابیں ایسی بھی ہیں جن کا رشتہ تنقید و تحقیق سے جڑا ہوا اور وابستہ نظر آتا ہے ۔ ان کی ایسی ہی ایک کتاب "آزادی کے بعد بہار کے اردو ادبی رسائل " ہے ، جو "اردو ڈائریکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار " کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے ۔ کتاب کا موضوع بہت خشک اور دقّت  طلب ہے ۔ لیکن عطا عابدی نے اس مشکل کام کو آسان کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ آدمی اگر ٹھان لے تو پھر وہ سب کچھ کرسکتا ہے ۔ آزادی کے بعد بہار کے ادبی رسائل پر کام کرنا ، بہت مشکل کام تھا ، اس لیےء کہ آزادی کے بعد ریاست میں ان گنت رسائل مختلف شہروں سے نکلے اور بند ہوئے ، آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ سب کی ایک مکمل اور جامع فہرست بنانا اور ان رسائل کے حوالے سے مکمل معلومات فراہم کرانا کوئی آسان کام یقیناً نہیں تھا ، اس کام کو انجام دینے میں عطا عابدی صاحب کو کتنی محنت کرنی پڑی ہوگی یہ وہی جانتے ہوں گے ۔ 
اس وقت میرے پیش نظر ان کا یہ تحقیقی کارنامہ زیر مطالعہ ہے ۔ جو 320 صفحات پر محیط ہے اور اس میں 222 ایسے رسالوں کی مکمل فہرست اور ان رسائل کے سلسلے میں ضروری تفصیلات کو مصنف نے یکجا کیا ہے جن کا تعلق بہار سے ہے اور جن کی اشاعت آزادی کے بعد عمل میں آئ تھی ۔ کتاب میں مناظر عاشق ہرگانوی ، ڈاکٹر سیّد احمد قادری ، ڈاکٹر محسن رضا رضوی کے علاوہ خود کتاب کے مصنف عطا عابدی کی تحریریں شامل ہیں ، جن کے مطالعے سے ہمارا مکمل تعارف کتاب کے مواد سے ہوجاتا ہے اور کتاب کا مطالعہ کرنے کا جواز بھی یہ تحریریں ہمیں فراہم کردیتی ہیں ۔ اس کتاب کو ایجوکشنل پبلشنگ ہاوٴس نیء دہلی نے شائع کیا ہے ۔ کمپوزنگ اچھی ہے ، کاغذ بھی عمدہ استعمال کیا گیا ہے ۔ قیمت پانچ سو روپے ہے اور سال اشاعت 2022 ہے ۔ کتاب پٹنہ میں بک امپوریم ، سبزی باغ پٹنہ 800004 سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔

مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری نشست اختتام پذیر ۔

مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری نشست اختتام پذیر ۔
الحمدللہ،
 مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم   کی  تیسری نشست اختتام پذیر ۔
حضرت قاری محمد قاسم شاملی دامت برکاتہم استاذ دار العلوم جامعہ الفلاح نجیب  آباد کی تلاوت اور شاعر اسلام مداح خیر الانام حضرت مولانا محمد سعد صاحب سعد امروہوی دامت برکاتہم کی نعت سے پروگرام کا آغاز ہوا،  مفتی محمد ذاکر شیخ الحدیث جامعہ عائشہ القدس جلال آباد نے نظامت کے فرائض انجام دیئے

اِس نشست کے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا مفتی محمد رفاقت صاحب دامت برکاتہم العالیہ استادِ حدیث جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ  نے "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی " کے عنوان پر پُر مغز اور سبق آموز خطاب کیا ۔
حضرت والا نے اپنے خطاب کے میں فرمایا کہ ہمیں اپنے آقا کی سیرت کو پڑھنے سمجھنے اور اس سے سبق حاصل کرکے اس کو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
حضرت والا کی مستجاب دعاء پر مجلس کا اختتام ہوا ۔۔۔

اعلان: آج بہ تاریخ 01 اکتوبر 2022بروز سنیچر کی نشست کے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا مصلح الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ استاد فقہ و ادب دار العلوم دیوبند  "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی" پر روشنی ڈالیں گے۔  
ان شاءاللہ
اپیل: آپ سے شرکت کی پُر خلوص درخواست ہے

انس حسامی بجنوری
خادم مدرسہ اختر العلوم جلال آباد بجنور 

جمعہ, ستمبر 30, 2022

مشتاق دربھنگوی یادوں کے حوالے سےڈاکٹر عطا عابدی (پٹنہ)

مشتاق دربھنگوی یادوں کے حوالے سے
ڈاکٹر عطا عابدی (پٹنہ)
اردو دنیا نیوز٧٢
مشتاق دربھنگوی سے میری ملاقات محلہ املی گھاٹ (دربھنگہ) میں ہوئی تھی، جہاں میرا قیام ہوا کرتا تھا۔ یہ غالباً 1982-83 ءکی بات ہے۔ اُنہوں نے اپنے شعری مجموعہ ”غمِ جاناں“ سے نوازا۔ ’غمِ جاناں‘ کی شاعری غمِ جاناں سے عبارت تھی۔ اُس وقت اُن کی نوجوانی کا عالم تھا، میں خود بھی طفلِ مکتب تھا (آج بھی طفلِ مکتب ہی ہوں) اور یہ شاعری اچھی لگی تھی۔ مجموعہ کا سائز اور انداز ”حلقہ¿ فکر و فن“ کے گلدستہ ”وادی¿ نشاط“ جیسے تھے۔ اُس وقت وہ اپنی رومانی شاعری سے مطمئن نہیں تھے۔ اُن کے ذہن و دل میں فکر و فن کے کچھ الگ حوالے کسمساتے رہتے تھے۔ وہ اِس کسمساہٹ کو کوئی نام نہیں دیتے تھے لیکن اِس کیفیت کے سبب اچھے سے اچھا لکھنے کے عزم کا اظہار ضرور کرتے۔ اُن کی غزل کا مطلع دیکھیں:
کیا ضروری ہے کہ ہر بات پہ آنسو نکلے
جیسے ہر پھول سے ممکن نہیں خوشبو نکلے
اس ملاقات کے بعد ”حلقہ¿ فکر و فن“ کی نشستوں میں اُن سے ملاقاتیں رہیں۔ شعر و شاعری کا دور رہا اور اب اُن کی غزلوں میں غمِ جاناں سے زیادہ غمِ دوراں کی صورت نظر آتی ہے۔ اُسی دور کے آس پاس وہ کسی مقامی کالج میں انسٹرکٹر کے طور پر کام کرنے لگے تھے۔ برسوں اس ذمہ داری سے وابستہ رہنے کے بعد جب اقتصادی مسائل کے حل کی اُمید نہ رہی تو اُنہوں نے اپنی فکر و صلاحیت کے بموجب صحافت کو پناہ گاہ بنائی۔ صحافت کی راہوں میں قلمی و تکنیکی خدمات کے ساتھ ساتھ اُن کا ادبی مشغلہ جاری رہا۔ اس مشغلہ میں اُنہوں نے اپنے جنون کو شامل کرلیا اور پھر اردو ادب کی خدمت کا بالکل نیا اور منفرد طور اپنایا۔ متنوع عنوانات کے تحت کتابوں کی ترتیب و تہذیب کے سبب وہ دور دور تک اپنے نام اور کام کو منوانے میں کامیاب ہوئے۔ اس ضمن میں شمع فروزاں، سمندر کی لہریں، ہنسی کے پھول، پہیلیاں، اقوالِ زریں، میر بھی ہم بھی، لاالہ الاللہ، صل علیٰ محمد، اسوہ¿ رسول، جانِ غزل، عندلیبان طیبہ، غزالانِ حرم، لوریاں، گوش بر آواز اور اردو شاعری میں زمزم کتابیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
مشتاق دربھنگوی شاعری میں مشہور ترقی پسند شاعر و ادیب اویس احمد دوراں سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ اُن دنوں میں بھی دوراں صاحب سے شاعری پر اصلاح لیا کرتا تھا، لہٰذا ہم دونوں ایک دوسرے سے ذہنی لگاﺅ محسوس کرتے تھے۔ مشتاق دربھنگوی کئی ادبی انجمنوں سے وابستہ رہے۔ ان کے گاﺅں چندن پٹی کی ”ادبی مجلس“ ہو یا ”حلقہ¿ فکر و فن“ یا اور کوئی انجمن، وہ ہر جگہ اپنی شرکت سے اپنے ادبی ذوق و شوق کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔ کولکاتا جانے کے بعد اُن کے اشہبِ ذوق کو پَر لگ گئے اور نئی سمت و رفتار کے ساتھ قلمی سفر طے کرتے رہے اور ایک منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
”غمِ جاناں“ کے بعد مشتاق دربھنگوی کا شعری مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ یہ مختصر مجموعہ بھی اب نایاب ہے۔ یہ مجموعہ ہوتا تو معلوم ہوتا کہ اُن کی شاعری اس وقت کس فکر و انداز کی حامل تھی۔ اُن کی ابتدائی غزلیںجیسا کہ قبل ذکر آیا، رومانوی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی تھیں:
یاد ہے اب تک نظر کا زلف و رُخ سے کھیلنا
دل میں تازہ ہے بہارِ عشرتِ رفتہ ابھی
چھپا رکھا تھا رازِ عشق میں نے اپنے سینے میں
مگر ہو ہی گئی سب کو خبر آہستہ آہستہ
اُن کی دو چار غزلیں جو حال میں مختلف جگہوں پر نظر سے گزریں، وہ متذکرہ غزلوں کی فکر سے الگ ہیں۔ ان غزلوں میں عصری شعور کے جلوے ہیں، وقت کی آوازیں ہیں، حیات کے بصیرت افروز اشارے ہیں اور دعوتِ فکر دیتے ہوئے حقائق بھی۔ ان سب کے باوجود جمالیاتی افکار و اطوار کی ادائیں گُم نہیں ہوئی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اب ان اداﺅں میں زندگی کے سنجیدہ تیور بھی جگہ رکھتے ہیں۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
تشنگی میری بھلا کیسے بجھاتا دریا
سامنے تھا جو مرے پیاس کا مارا دریا
آپ نے خونیں مناظر کے سنے ہیں قصّے
میری آنکھوں نے تو دیکھا ہے لہو کا دریا
صحرا صحرا اُسے جب ڈھونڈ کے ہم ہار گئے
پھر اُسے ڈھونڈتے پھرتے رہے دریا دریا
یہ سچ ہے کہ ایک غزل سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ابتدائی غزلوں کے رنگ و آہنگ سے بعد کی غزلیں کس قدر واضح طور پر الگ ہےں، یہ آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ امید ہے، اطلاع کے بموجب مشتاق دربھنگوی کا شعری مجموعہ عنقریب منظر عام پر آئے گا اور اُنہیں منفرد شعری شناخت عطا کرے گا۔

جھارکھنڈ کے مولانا عطااللہ کا قتل، نعش جلادی گئی۔بجرنگ دل ملوث

جھارکھنڈ کے مولانا عطااللہ کا قتل، نعش جلادی گئی۔بجرنگ دل ملوث

اردو دنیا نیوز٧٢

نئی‌دہلی : مدھیہ پردیش کے شاہڈول ضلع میں 26 ستمبر کو جنگلاتی‌علاقہ سے مولانا عطاء اللہ قاسمی کی‌ نعش جھلسی ہوئی حالت میں دستیاب ہوئی۔ اس دوران جامعہ ٹائمز نے ٹویٹ کیا اور لکھا،جھارکھنڈ کے رہنے والے مولانا عطاء اللہ قاسمی کو بجرنگ دل کے کارکن نے جلا کر جنگل میں پھینک دیا۔عطاء اللہ قاسمی جھارکھنڈ کے پلامو ضلع کے رہنے والے تھے، قاسمی 21 ستمبر سے لاپتہ تھے اور انہیں آخری بار اپنے جاننے والے کی موٹرسائیکل پر شہڈول ضلع کے گاؤں پدمنیا کی طرف جاتے دیکھا گیا تھا۔ اگلے دن (22 ستمبر 2022) کو تھانہ گوہپارو میں عطاء اللہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی۔ 26 ستمبر 2022 کو شہڈول ضلع کے سنگھ پور تھانے کے تحت گائوں پدمنیا کے جنگل میں عطا اللہ خان کی آدھی جلی ہوئی لاش برآمد ہونے کے بعد پولیس نے اس معاملے میں شیوشنکر یادو نامی شخص کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس نے کہا کہ شیوشنکر یادو (28 سال) نے پوچھ گچھ کے دوران اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ مجرم نے بدلہ لینے کے لیے عطاء اللہ خان کو قتل کیا تھا۔ میڈیا رپورٹس میں مقتول پر الزام‌ لگاتے ہوئے ان کی کردار کشی کی جارہی ہے۔


مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کر کے پوچھا کہ کیا مودی حکومت اس گروپ پر پابندی لگائے گی؟


Will the Modi government Ban this Group ? https://t.co/fBpp1WAMpx


- Asaduddin Owaisi (@asadowaisi)

Will the Modi government Ban this Group ?

تکبر کی مذمت قرآن وحدیث میںشمشیر عالم مظاہری دربھنگویجامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہارتکبر کیا ہے

تکبر کی مذمت قرآن وحدیث میں
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
تکبر کیا ہے ؟
اردو دنیا نیوز٧٢
کسی دینی یا دنیاوی کمال میں اپنے کو دوسروں سے اس طرح بڑا سمجھنا کہ دوسروں کو حقیر سمجھے گویا تکبر کے دو جز ہیں :
(1) اپنے آپ کو بڑا سمجھنا (2)  دوسروں کو حقیر سمجھنا ۔ تکبر بہت ہی بری بیماری ہے قرآن و حدیث میں اس کی اتنی برائی آئی ہے کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں آج ہم سے اکثریت اس بیماری میں مبتلا ہے ۔
کائنات میں جو سب سے پہلا گناہ کیا گیا وہ تکبر اور حسد تھا ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے عبادہ بن ابی امیہ رحمۃ اللہ علیہ  سے ایک روایت بیان کی ہے کہ اس کائنات میں سب سے پہلا گناہ حسد تھا جو ابلیس نے آدم علیہ السلام پر کیا ،  اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ تکبر اور حسد کا مرض اچھے اچھے لوگوں کو لاحق ہو سکتا ہے اور انہیں ایمان تک سے محروم کرسکتا ہے شیطان بڑا عبادت گذار تھا حضرت یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ اور بڑے پاۓ کے عالم اور بزرگ تھے انہوں نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ ابلیس نے سات لاکھ سال اللہ تعالی کی عبادت کی تھی لیکن اس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور آدم علیہ السلام کے مقام اور مرتبہ کو دیکھ کر جل بھن گیا اس چیز نے اسے بارگاہ الہی میں مردود اور مغضوب بنا دیا ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
مفہوم  :۔   اور جب  ہم نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کے آگے سر بسجود ہو جاؤ وہ جھک گئے مگر ابلیس کی گردن نہیں جھکی اس نے نہ مانا اور گھمنڈ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ کافروں میں سے تھا  (سورۃ البقرہ)
اللہ تعالی اگرچہ عالم الغیب اور دلوں کے بھیدوں سے واقف ہیں اور ماضی حال استقبال سب ان کے لئے یکساں ہیں مگر اس نے امتحان و آزمائش کے لئے ابلیس (شیطان) سے یہ سوال کیا
 مفہوم :۔   کس بات نے تجھے جھکنے سے روکا جب کہ میں نے حکم دیا تھا ؟ 
ابلیس کا جواب :۔   اس بات نے کہ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے  ( سورۃ الأعراف)
شیطان کا مقصد یہ تھا کہ میں آدم سے افضل ہوں اس لیے کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور آگ  بلندی اور رفعت چاہتی ہے اور آدم مخلوق خاکی۔  بھلا خاک کو آگ سے کیا نسبت ،  اے خدا پھر تیرا یہ حکم کہ ناری خاکی کو سجدہ کرے  کیا انصاف پر مبنی ہے،  میں ہر حالت میں آدم سے بہتر ہوں لہذا وہ مجھے سجدہ کرے نہ کہ میں اس کے سامنے سربسجود ہوں مگر شیطان اپنے غرور و تکبر میں یہ بھی بھول گیا کہ جب تو اور آدم دونوں خدا کی مخلوق ہو تو مخلوق کی حقیقت خالق سے بہتر خود وہ مخلوق بھی نہیں جان سکتی وہ اپنی تمکنت اور گھمنڈ میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ مرتبہ کی بلندی و پستی اس مادہ کی بناء پر نہیں ہے جس سے کسی مخلوق کا خمیر تیار کیا گیا ہے بلکہ ان صفات پر ہے جو خالق کائنات نے اس کے اندر ودیعت کی ہیں ۔
تکبر عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات متکبر انسان اللہ تعالی کے مقابل میں بھی آجاتا ہے۔  فرعون،  قارون،  ہامان،  اور شداد جیسوں کو تکبر ہی نے اپنے خالق و مالک کے مقابلے میں لا کھڑا کیا تھا اور یہ ایسا خبیث اور دقیق مرض ہے کہ بسا اوقات انسان اس میں مبتلا ہوتا ہے لیکن اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ میں اس مرض میں مبتلا ہوں بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو خاکسار، عاجز، لاشئ، حقیر اور فقیر کہتے ہیں حالانکہ ان کے باطن میں تکبر کے جراثیم ہوتے ہیں ۔ 
قرآن و سنت میں متکبروں اور تکبر کی شدید مذمت کی گئی ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
مفہوم:۔   میں ان لوگوں کو اپنی آیات سے پھیر دوں گا جو زمین پر ناحق تکبر کرتے ہیں ( سورۃ الأعراف)
آج (قیامت کے دن) تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا اس وجہ سے کہ تم زمین پر ناحق تکبر کرتے تھے ( سورۃ الاحقاف)
بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ جہنم میں ذلت کے ساتھ داخل ہونگے (سورہ غافر)
کیا جہنم میں متکبرین کا ٹھکانہ نہیں ہے (سورۃ الزمر)
بیشک وہ ( اللہ تعالیٰ) تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا  ( سورۃ النحل)
اور لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا (اکڑ) کر نہ چل کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا (سورۂ لقمان)
تکبر کی مذمت احادیث میں ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ( یاد رکھو) ہر وہ شخص جو جھوٹی بات پر سخت جھگڑا کرے، مال جمع کرے، اور بخل کرے،  اور متکبر ہو (بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی ایک حدیث یوں بیان فرمائی ہے رسول ﷺ  نے فرمایا ہے جس شخص کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہوگا وہ ہمیشہ کے لئے  دوزخ میں داخل نہ ہو گا، اور جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جاۓ گا (مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تکبر کے بارے میں آپ ﷺ  کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ رسول ﷺ نے  فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے تکبر ( ذاتی بزرگی) میری چادر ہے اور عظمت ( صفاتی بزرگی) میرا تہبند ہے جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک کو مجھ سے چھینے (ذات اور صفات کے اعتبار سے تکبر کرے) اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا ( مسلم)
تکبر کرنے والے کو اللہ تبارک تعالیٰ نیچے گرا دیتا ہے پھر اس کا کوئی مقام نہیں ہوتا  دنیا کے لوگوں کی نگاہوں میں حقیر سے حقیر تر ہو جاتا ہے پھر اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی وہ اپنے آپ کو سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلاء ہو جاتا ہے ہر شخص اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے یہاں تک کہ تمام انسانوں کے سامنے اس کی حیثیت کتے اور خنزیر سے بھی بدتر ہوجاتی ہے (شعب الایمان للبیہقی)
حق تبارک و تعالیٰ ہم مردوں اور عورتوں کو تکبر سے بچائے اور تواضع نصیب فرمائے ۔ تکبر صرف شایانِ شان خدا ہے ہم مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کو تکبر سے کیا کام تکبر کرنا یہ حیوانوں کا شیوہ ہے عقلمند انسان کبھی تکبر نہیں کرتا کیونکہ اس کی نظر اپنی کمزوریوں پر رہتی ہے وہ اپنی حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرتا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...