Powered By Blogger

بدھ, نومبر 23, 2022

ہر سطح پر تعلیم وتربیت کی ضرورتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ہر سطح پر تعلیم وتربیت کی ضرورت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
تعلیم کے حوالے سے انسان کی ضرورتیں دو قسم کی ہیں، ایک تو مذہبی ضرورت ہے، جس کا ایک سرااس دنیا سے اور دوسرا آخرت سے جڑا ہوا ہے، یہ تعلیم دنیوی سعادت اور اخروی نجات کے لیے ضروری ہے، اسی لیے اس تعلیم کو فرض قرار دیا گیا ، جسے اصطلاح میں بنیادی دینی تعلیم کہتے ہیں، یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سر کار کے رائٹ ٹو ایجوکیشن (تعلیم کے حق) سے الگ ایک چیز ہے، جب ہم حق کی بات کرتے ہیں تو اس سے لزوم کا پتہ نہیں چلتا ، کیونکہ اپنے حق سے دست برداری کو سماج میں بُرا نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ اگر اس کا تعلق مالی حقوق سے ہو اور کوئی اس سے دست بردار ہوجائے تو اسے ایثار قرار دیا جاتا ہے، یہی حال ان تمام حقوق کا ہے جس کے نتیجے میں آدمی اپنا فائدہ چھوڑ کر دوسرے کو مستفیض ہونے کا موقع عنایت کرتا ہے، لیکن فرض وہ چیز ہے جس کی ادائیگی ہر حال میں لازم ہے، اور اگر کوئی فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو وہ باز پرس، دار وگیر اور سزا کا مستحق ہوتا ہے، اس لیے تعلیم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض قرار دیا ، یعنی اس میں کوتاہی پر سزا بھی دی جا سکتی ہے، جبکہ حقوق کے حصول میں کوتاہی سزا کا موجب نہیں ہوا کرتا ۔یہ الگ بات ہے کہ بچے کے بجائے تنبیہ اور داروگیر گارجین کی ، کی جائیگی،کیونکہ بچوں کی طرف احکام متوجہ نہیں ہوتے۔تعلیم کے اس مرحلے کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے ہر طبقہ کے بچہ کو کم عمری میں ہی تعلیمی اداروں سے جوڑ دیا جائے، انہیں زری کے کارخانوں اور ہوٹلوں سے اٹھاکر مکتب ، مدرسہ اور اسکول کی میز وچٹائی پر بیٹھا لا جائے تا کہ ان کی بنیادی دینی تعلیم سلیقے سے ہوسکے اور ان کا بچپنہ ضائع ہونے سے بچ جائے۔ پورے ہندوستان میں پھیلے مکاتب ومدارس الحمد للہ اس کام کو بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں اور عمدگی اور خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں، لیکن خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہنی چاہیے۔
دوسرے علوم وہ ہیں جن کی ضرورت ہمیں اپنی زندگی بسر کرنے میں پڑتی ہے، اور چونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اس لیے ان علوم کو اس درجہ میں تو نہیں رکھا جا سکتا کہ سب کے اوپر اس کا حصول فرض قرار دیا جائے ، لیکن سماجی اور تمدنی ضرورت کے اعتبار سے مہذب سماج کی تشکیل ، عمرانی ضروریات اور زندگی برتنے کے فن کی واقفیت کے لئے الگ الگ علوم وفنون میں مہارت بھی ضروری ہے ، ہمیں رہنے کے لیے گھر چاہیے؛ اس گھر کا نقشہ بنانے کے لئے اچھے انجینئر کی ضرورت ہے ، بغیر انجینئرنگ میں مہارت کے ہم اس کام کو سلیقے سے نہیں کرسکتے، یہ سلیقگی مکتبی تعلیم سے اوپر اٹھ کر جدید عصری اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ ہی ممکن ہے ، اس کے لیے مسلمانوں کو انجینئرنگ کالج کھولنے بھی چاہیے اور اپنے بچوں کو اس شعبے میں تیار بھی کرنا چاہیے ، کیونکہ آج یہ معاشی استحکام کا بڑا ذریعہ ہے اور پوری دنیا میں سول اور میکینکل انجینئرنگ کی مانگ بہت زیادہ ہے، اس میدان میں آگے بڑھنے کا سیدھا مطلب اعلیٰ تعلیم میں مہارت کے ساتھ مسلمانوں کے افلاس اور پس ماندگی کو دور کرنا ہے۔
اسی طرح ہماری صحت کا مسئلہ ہے ، یہ ایک جسمانی ضرورت ہے ، اس کے لئے ہمارے پاس اچھے ڈاکٹر ہونے چاہیے ، جو ہماری بیماریوں کا علاج کر سکیں، میڈیکل کی تعلیم کے لیے ہمارے پاس میڈیکل کالج بھی ہونے چاہیے اور اچھے اسپتال بھی ، دو چار مسلمانوں کے میڈیکل کالج اور دس بیس اسپتال، آبادی کی ضرورت کو پوری نہیں کر پاتے ، یقینا اسپتال کا کام انسانی بنیادوں پر ہوتا ہے اور مریض اور اسپتال کے منتظمین کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کون کس علاقے اورکس مذہب کا ہے، لیکن اسپتال بڑی تعداد میں ہوں گے تو مریضوں کو سہولت ہوگی اور کم خرچ میں علاج کے حصول کے لیے بھی سوچنا ممکن ہوگا ، یہی حال دیگر سائنسی علوم میں مہارت کا ہے، ہمارے بچے ابتدائی تعلیم سے ثانوی تک جاتے جاتے گھر بیٹھنے اور معاشی وسائل کے حصول کے لیے فکر مند ہوجاتے ہیں، اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ کم ہے، اس لیے ہماری حصہ داری اوپر میں کم ہوتی جا رہی ہے، آئی، اس ، آئی پی اس، میں نمائندگی گھٹتی جا رہی ہے، سیاسی گلیاروں اور حکومت کے ایوانوں میں بھی آزادی کے بعد ہم مسلسل کم ہو رہے ہیں، ہمارے یہاں لیاقتوں کی کمی نہیں ہے ، کمی فکر مندی ، منصوبہ بندی اور اس حوصلے کی ہے جو انسان کو آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کیا کرتا ہے، یہ مہمیز کرنے والی قوت الگ ہونی چاہیے ، اس کے لیے ادارے، تنظیمیں ، جماعتیں، جمیعتیں اور سماج کے مختلف طبقات کو آگے آنے کی ضرورت ہے، آج سوشل سائٹس پر ملی قائدین کے خلاف سب وستم ، گالی گلوج اور بُرا بھلا کہنے کی مہم زوروں پر ہے ، اس بُرا بھلا کہنے والوں سے پوچھیے کہ تم کیا کر رہے ہو ؟ تو جواب ہو گا صرف تنقید، جو لوگ دوسروں کو بُرا بھلا کہنے میں اپنی توانا ئی صرف کر رہے ہیں، اگر وہ اپنی انرجی اور توانائی ملی مسائل کے حل، تعلیمی بیداری اور معاشی اعتبار سے مسلمانوں کو اٹھانے پر صرف کریں تو اس سے ملت کو بے پناہ فائدہ پہونچے گا ، کام آگے بڑھے گا ، اس کے بر عکس ملی قائدین کو بُرا بھلا کہنے سے رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو تا ہے، اور جو صاحب تنقید کی بساط بچھائے ہوتے ہیں ان کے اندر خود کچھ کرنے کی صلاحیت ہوتی نہیں اس لیے ایک خلا سا محسوس ہونے لگتا ہے، ہمیں اپنی صلاحیتوں کو جدید اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیدا کرنے ، یونیورسٹی، کالج، انٹر کالج اور عصری علوم کے اداروں کے کھولنے میں لگانی چاہیے ، شرعی حدود وقیود کے ساتھ لڑکیوں کے لیے بھی تعلیمی ادارے کھولنے چاہیے اور ان کو آگے بڑھا نا چاہیے اس لیے کہ ایک مرد پڑھتا ہے تو فرد پڑھتا ہے ، لیکن ایک لڑکی پڑھتی ہے تو گھر پڑھتا ہے، خاندان کی تعلیم کی بنیاد پڑتی ہے، اور آنے والی نسل کے تعلیم یافتہ ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، ہمیں ذریعہ تعلیم کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے ، انگلش میں بچے کی مہارت اور چیز ہے اور ذریعہ تعلیم اسے بنانا بالکل دوسری چیز ، ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان ابتدائی تعلیم کے حصول میں زیادہ معاون اور مؤثر ہے لیکن ہمارا رجحان انگلش میڈیم اسکولوں اور کنونٹوں کی طرف بڑھا ہوا ہے ، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے بچے بھی اردو زبان سے نا بلد ہیں اور اردو کا بڑا سرمایہ ان کی پہونچ سے باہر ہے، ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اردو صرف ایک زبان نہیں ہے، یہ ایک تہذیب ہے، یہ ایک ثقافت اور کلچر ہے، اردو زبان سے نابلد رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک تہذیب اور ثقافت وکلچر سے نا بلد ہوتے جا رہے ہیں، ضرورت ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ہم اپنی مادری زبان کو فراموش نہ کریں، تاکہ ہماری تہذیب ، مذہب اور ثقافت سے ہمارا رشتہ منقطع نہ ہو ، ان تمام باتوں کے ساتھ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ محض تعلیم کا حاصل کرلینا کافی نہیں ہے، بلکہ ہمیں ہر سطح پراعلیٰ اخلاقی اقدار بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس کے بغیر انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور بھلائی کا تصور نا پید ہوتا ہے، یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا ہوں گے تو ڈاکٹر مریض کو آپریشن ٹیبل پر لے جانے کے بعد دوسرے مرض کے انکشاف پر فیس بڑھانے کی بات نہیں کرے گا ، انجینئر نقشہ بناتے وقت پڑوسی کے گھر کی ہوا، روشنی وغیرہ کے لیے فکر مند ہو کر نقشہ بنائے گا ، سائنس داں مہلک ہتھیاروں کو بناتے وقت اس سے بچاؤ کی تدبیروں پر بھی ریسرچ کرے گا ، سیاست داں، ابن الوقتی ، خود غرضی ، مفاد پرستی سے اونچا اٹھکر بد عنوانی سے پاک سماج بنانے اور لوگوں کے فائدے کے لیے کام کریں گے، غرض تعلیم کے ساتھ تربیت بھی اتنہائی ضروری ہے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی فراہمی کے لیے ہمیں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے اداروں کے قیام پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے معیاری طلبہ یہیں سے فراہم ہو سکتے ہیں، اور مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی کے بعد ملک وملت کے لیے کار آمد ہو سکتے ہیں، ان اداروں میں تربیتی نظام کو اعلیٰ پیمانے پر رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان اداروں سے فاغ ہونے والے صرف ڈاکٹر انجیئر سیاست داں، دانشور نہ ہوں؛ بلکہ وہ اپنی خدمات کے ذریعہ فرد سے لے کر سماج کے مختلف طبقات کو فائدہ پہونچا سکے۔
ایک بڑا مسئلہ حصول تعلیم میں گراں قدر اخراجات کا ہے، مسلمانوں کی معاشی حالت عمومی طور پر ایسی نہیں ہے کہ وہ تعلیم کی انڈسٹری سے مطلوبہ علوم حاصل کر سکیں، اس کے لیے ان تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکیموں سے ہمیں طلبہ کو واقف کرانا چاہیے، جس سے فائدہ اٹھا کر ہمارے بچے تعلیم کو جاری رکھ سکیں، اور تعلیم چھوڑنے کے تناسب میں کمی آسکے، میرا خیال ہے کہ تھوڑی سی چوکسی اور مختلف تنظیموں کی طر ف سے تھوڑی معلومات کی فراہمی سے ہم اس پریشانی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں، ضرورت ہے عزم وارادہ کی، عزم کمزور ہو اور ارادہ متزلزل تو مالی
 مشکلات  راستے میں حائل ہوجائیں گی اور ان کو عبور کرنا آسان نہیں ہو گا، اس لیے ہمیں اپنے جوانوں میں، طالب علموں میں اعتماد پیدا کرنا چاہیے کہ تم ساری رکاوٹوں دشواریوں اور مشکلات کے باوجود بہت کچھ کر سکتے ہو بقول شاعر 
ع۔ چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم سفر پیدا
 ایک بڑا کام یہ بھی کرنے کا ہے کہ جو طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کے لیے معیاری تعلیم کا نظم کیا جائے، ادارہ جس سطح کا ہو اور جس طرح کا بھی ، وہاں سے ہمارے فارغین اپنی اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مکمل ہوں، ہم جانتے ہیں کہ یہ دور مقابلوں کا  ہے، معیار کا ہے، کوالیٹی نہیں رہے گی تو ہم کمیپٹیشن کے اس دور میں بچھڑتے چلے جائیں گے ، ہم جس معیار کی بات کرتے ہیں، وہ ہمارے مقابل سے کئی گنا آگے ہو، اس لیے کہ بحالی والا قلم جن کے ہاتھ میں ہے، وہ عام حالات میں ہم تک پہونچتے پہونچتے شل ہو جاتا ہے اور ہمارے طلبہ کو مختلف قسم کے تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہمیں ہیوی اکسٹرا صلاحیت کے ساتھ میدان میں اتر نا ہوگا، میں بات صلاحیت کی کر رہا ہوں، صرف نمبرات کی نہیں ، نمبرات کے باوجود کاغذات کے اس ٹکڑے کے پیچھے علمی صلاحیت کا فقدان ہو توہمیں کوئی آگے نہیں بڑھا سکتا، ہمیں آگے بڑھنا ہے، علم کے میدان میں ، تحقیق کے میدان میں، تجربات کے میدان میں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک وملت کا مفید حصہ بننا ہے، یہ ایک تحریک ہے، یہ مہم ہے اس تحریک اور مہم کو کامیاب کرنے کے لئے سب کو آگے آنا چاہیے۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

منگل, نومبر 22, 2022

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

پیر, نومبر 21, 2022

بتاریخ ۲۱ربیع الثانی ۱۴۴۴ہجری بہ مطابق ۱۷ نومبر ۲۰۲۲عیسوی بروز جمعرات بعد نمازِ ظہر ایک پروگرام بعنوان اصلاح معاشرہ برائے مستورات مدرسہ تجوید القرآن جگت چند پور عرف چلکیا پوسٹ بڑھا پور نگینہ ضلع بجنور میں منعقد ہوا* ۔

بتاریخ ۲۱ربیع الثانی ۱۴۴۴ہجری بہ مطابق ۱۷ نومبر ۲۰۲۲عیسوی بروز جمعرات بعد نمازِ ظہر ایک پروگرام بعنوان اصلاح معاشرہ برائے مستورات مدرسہ تجوید القرآن جگت چند پور عرف چلکیا پوسٹ بڑھا پور نگینہ ضلع بجنور میں منعقد ہوا* ۔

اردو دنیا نیوز ٧٢

پروگرام کی صدارت *حضرت مولانا فخر الدین صاحب* دامت برکاتہم العالیہ اُستاد شعبہ عربی مدرسہ فخر العلوم گانوڑی نے سر انجام دی۔

جبکہ نظامت کے فرائض راقم الحروف کے سپرد کیے گئے

پروگرام کا آغاز بابرکت کتاب" قرآن کریم" کی آیتوں سے ہوا جن کو پڑھنے کی سعادت *حضرت قاری محمد تصور صاحب مظفرنگری* ناظم مدرسہ تجوید القرآن چلکیا نے حاصل کی

ہم سب کے آقا و مولا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گلہائے عقیدت و محبت پیش کرنے کی سعادت *حضرت قاری انتخاب عالم چلکياوی* استاذ مدرسہ تعلیم الاسلام فیضِ مکرم جمالپور بانگر نگینہ بجنور کے حصہ میں آئی۔

مہمانِ خصوصی کے خصوصی خطاب سے قبل گاؤں کے ہونہار اور فکر مند فرزند *حضرت مولانا محمد سرور صاحب* دامت برکاتہم العالیہ چلكیاوی کا زوردار خطاب ہوا جس میں انہوں نے پردے کی اہمیت و افادیت پر تفصیلی خطاب کیا،

حضرت مولانا محمد سرور صاحب کے بیان کے بعد *مہمانِ خصوصی عالی قدر حضرت مولانا فخر الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ اُستاد شعبہ عربی مدرسہ فخر العلوم گانوڑی* نے اپنی قیمتی نصیحتوں سے نوازا ، مولانا نے بڑی بےباکی کے ساتھ نہایت جامع بیان کیا،

اپنے بیان میں حضرت والا نے تین باتوں کی طرف زور دیا

*(۱)آپس میں ایک دوسرے کا مذاق بنانے سے بچیں ۔*

*(۲) ایک دوسرے پر عیب لگانے سے بچیں۔*

*(۳)ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکاریں۔*


اللہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


پروگرام میں ایک کثیر تعداد میں ہماری مستورات نے شرکت کی ،


ہم تمام حضرات کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں اللہ جزائے خیر عطا فرمائے آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے آمین۔


پروگرام میں حضرت مولانا محمد ناصر صاحب امام مسجد عرفات چلکيا ،حضرت قاری عبد الحفیظ صاحب چلکیا ،حضرت قاری تصور حسین صاحب اُستاد مدرسہ فخر العلوم گانوڑی حضرت قاری محمد دانش صاحب مظفر نگر ، حضرت قاری حبیب صاحب چلكیا ، وغیرہ رونقِ اسٹیج رہے

*دعاء کریں کہ اللہ اس پروگرام کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے*

راقم الحروف

انس حسامی قاسمی چیلکیاوی

۲۱نومبر ۲۰۲۲ 

اتوار, نومبر 20, 2022

میں ہونے والے الیکشن کے مدنظر ہند ونیپال رابطہ کمیٹی کی نشست، نیپال بارڈر 72 گھنٹے کے لئے سیل

نیپال میں ہونے والے الیکشن کے مدنظر ہند ونیپال رابطہ کمیٹی کی نشست، نیپال بارڈر 72 گھنٹے کے لئے سیل
اردو دنیا نیوز ٧٢

ارریہ :- :نیپال میں آج  20 نومبر کو ہونے والے انتخابات سمیت دیگر اہم امور پر گزشتہ روز جوگبنی آئی سی پی میں ہند-نیپال رابطہ کمیٹی کی میٹنگ طلب کی گئی۔  ضلع مجسٹریٹ ارریہ، مسز عنایت خان، مورنگ نیپال کے سی ڈی او مسٹر کاشیراج دہل، سنسری کے سی ڈی او مسٹر اندردیو یادو، ایڈیشنل کلکٹر ارریہ مسٹر راج موہن جھا، ایس ایس بی کمانڈنٹ بتھناہا، سب ڈویژنل آفیسر ارریہ اور فاربس گنج، سب ڈویژنل پولیس افسر۔ ارریہ اور فاربس گنج، کسٹم آفیسر اسسٹنٹ سی ڈی او مورنگ، اسسٹنٹ سی ڈی او سنسری، مورنگ ایس پی سنسری ایس پی سمیت نیپال اور ارریہ ضلع کے متعلقہ افسران اور پولیس افسران نے شرکت کی۔  اجلاس میں نیپال میں 20 نومبر کو ہونے والے  انتخابات میں سرحدوں کو 72 گھنٹے کے لئے سیل کرنے، سیکیورٹی کے سخت انتظامات کو یقینی بنانے، معلومات کے بروقت تبادلے، سماج دشمن عناصر پر کڑی نظر رکھنے، نیپال کی سرحد سے ملحقہ مشترکہ گشت پر غور کیا گیا۔ ہندوستانی سرحد تک۔علاقے میں شراب کی دکانوں کو روکنے اور اسمگلنگ پر پابندی کا باہمی معاہدہ ہوا۔  ملاقات میں آج ہونے والے انتخابات کے حوالے سے دونوں ممالک کی سرحدوں پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات پر خصوصی زور دیا گیا۔  اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ دونوں اطراف کے اعلیٰ افسران انتخابات تک سکیورٹی کے معاملات اور مشترکہ فیصلوں کی نگرانی کریں گے۔  دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے مجرموں کی فہرست اور ان سے متعلق معلومات شیئر کرنے پر اتفاق کیا

ہفتہ, نومبر 19, 2022

ممتاز عالم دین مفتی رفیع عثمانی 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے

ممتاز عالم دین مفتی رفیع عثمانی 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے
اردودنیانیوز٦٢
Mufti Rafi Usmani Passes Away: 
مفتی محمد
 رفیع عثمانی و فاق المدارس العربیہ پاکستان کے نائب صدر ، کراچی یونیورسٹی اور ڈاؤ یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ رکن، اسالمی نظریاتی کونسل، رویت ہالل کمیٹی اور زکٰوۃ و عشر کمیٹی سندھ کے رکن اور سپریم کورٹ ٓاف پاکستان اپیلٹ بینچ کے مشیر بھی رہے۔ مفتی رفیع عثمانی 21 جوالئی 1936 کو متحدہ ہندوستان کے عالقے دیوبند میں پیدا ہوئے اور 1986 میں دارالعلوم کراچی کے صدر بنے۔ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے مفتی محمد رفیع عثمانی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسالم کے لیے عظیم نقصان ہے۔ دینی تعلیمات کے فروغ کے لیے مفتی صاحب کی خدمات بے مثال ہیں۔ گورنر سندھ نے کہا کہ ان کے انتقال سے پیدا ہونے واال خال ایک عرصے تک پر نہیں ہوسکے گا۔ مفتی اعظم پاکستان اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے صدر مفتی محمد رفیع عثمانی 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ مفتی رفیع عثمانی، معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے۔ مرحوم، مفتی تقی عثمانی کے بڑے بھائی، جامعہ دارالعلوم کراچی کے صدر اور دارالمدارس العربیہ کے سرپرست اعلیٰ بھی تھے۔ وہ تقسیم ہند سے قبل ہندوستان کے صوبے دیوبند میں اکیس جولائی انیس سو چھتیس کو پیدا ہوئے۔ تحریک پاکستان کے رہنما اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے بڑے صاحب زادے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مفتی اعظم دیوبند محمد شفیع دیوبندی سے پائی۔ ان کا شمار پاکستان کے سرکردہ علما میں ہوتا تھا، انہوں نے درجن بھر کتابیں لکھیں جن میں درس مسلم، دو قومی 
نظریہ، اور نوادر الفقہ قابل ذکر ہیں۔
صدر مملکت نے مفتی رفیع عثمانی کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مفتی رفیع عثمانی نے فقہ، حدیث اور تفسیر کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں، مرحوم کی دینی اور علمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

جمعرات, نومبر 17, 2022

عیادت میں آداب کا خیال کیجیے ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ۱۷/نومبر ۲۰۲۲ء بروز جمعرات

عیادت میں آداب کا خیال کیجیے 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
میرے استادنے ایک موقع پر یہ نصیحت کی تھی کہ خود کو بیمار مت سمجھو باوجودیہ کہ تم بیمار ہو، ایسا سمجھنے اور محسوس کرنے سے بیماری ٹھیک نہیں ہوسکتی ہے، ایک بیمار انسان کی سب سے بڑی بیماری یہی ہے کہ وہ خود کو بیمار سمجھتا ہے، یہ احساس دراصل ایک لاعلاج مرض کا نام ہے،تجربہ بھی یہی کہتا ہے کہ اچھا خاصا تندرست اور صحت مند آدمی کی طبیعت ذرا سی مضمحل ہوئی،اپنے مرض کا خیال دل ودماغ میں جاگزیں کرلیا تو وہ بستر علالت کو پکڑ لیتا ہے، اسمیں غلطی صرف مریض کی نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے محرک خیریت پوچھنے والے بھی ہیں جو آداب مزاج پرسی سے بیگانہ ہوتے ہیں،ایسی باتیں کہتے ہیں جن سے حوصلہ پست ہوجاتا ہے،اور بیمار کا خیال یقین میں بدل جاتا ہے کہ واقعی وہ بہت بیمار ہے،جوں ہی ملاقات ہوئی یہ کہنے لگتے ہیں کہ؛بھائی آپ کی حالت تو بہت خراب ہوگئی ہے، چہرہ اتر گیا ہے، بالکل کمزور ہوگئے ہیں، ارے جسم پر گوشت کہاں ہے؟صرف ہڈی اور چمڑی رہ گئی ہے،یہ آپ کا شوگر تو لاعلاج ہے وغیرہ۰۰۰۰۰ 
         افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
         لوگوں نے پوچھ پوچھ کر بیمار کردیا 
کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کا خیال نہیں کیا جائے تو واقعی وہ بیمار کی بیماری میں اضافہ کا سامان بن جاتی ہیں، آج ان کا خیال  بالکل بھی نہیں کیا جاتا ہےکہ یہ وقت بیمار سے ملنے کاہے یا نہیں ہے ؟ آدھی رات کو پہونچ جاتے ہیں اور زور زور سے دروازہ پیٹ رہے ہیں،اندر آگئے تو دیر تک بیٹھے ہیں، بیمار کی خیریت معلوم کرنے تشریف لائے تھے ،آکر اپنی پوتھی کھول دیے ہیں، یہ باتیں  آداب عیادت کے خلاف اور غیر شرعی ہیں۔
          دیکھنے آئے تھے وہ اپنی محبت کا اثر
          کہنے کو یہ ہےکہ آئے ہیں عیادت کرنے

ایک بیمار کی عیادت اسلام میں بڑی چیز ہے، مسلمان کا مسلمان پر یہ واجبی حق ہےکہ،جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کا مسلمان بھائی اس کی عیادت کو جائے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی تاکید فرمائی یے، مگر ساتھ ہی عیادت کے آداب بھی بتلائے ہیں، دعائیں بھی دینے کی تعلیم فرمائی ہیں،ان باتوں کو خیال ضروری ہے۔
حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سلیقہ بتایا ہے کہ جب عیادت کے لیےکوئی جائے تو پہلے اس کے ہاتھ اور پیشانی پر ہاتھ رکھے،اس کو تسلی اور دلاسا دے،شفاکےلیے خدا سے دعا کرے، (ابوداؤد )
اطباء حضرات مریض سے پہلی ملاقات میں یہی کرتے ہیں جو حدیث شریف میں تعلیم دی گئی ہے،ایک بیمار کی بیماری آدھی ختم ہوجاتی ہے جب محبت اور شفقت کے لہجہ لیے ہوئے ڈاکٹر اس عمل کو انجام دیتا ہے، یہ عیادت کا شرعی طریقہ ہے جسے ڈاکٹروں نے برائے علاج اپنالیا  ہے،ہم غور نہیں کرتے ہیں،گفتگو میں بیماری خواہ کتنی مہلک کیوں نہ ہو ڈاکٹر مریض کو اطمینان ہی دلاتا ہے اور کوئی ایسا جملہ اس کے سامنے ادا نہیں کرتا ہے جو اس کی بے اطمینانی کا سامان بن جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہے، حدیث میں جو کلمہ بیمار سے کہنے کا ہے اسمیں سراسر دلاسا اور تسلی کےہی الفاظ ہیں،"لاباس طهور إن شاءالله "کوئی حرج نہیں اگر اللہ نے چاہا یہ بیماری( گناہوں سے)پاک کرنے والی ہے،(بخاری )
ان الفاظ میں گویا ایک طرح کا جادو ہے اور یہ تسلی ہی نہیں بلکہ مریض کے لیے شفاء کا پیام بھی ہے،
          حال بیمار کا پوچھو تو شفا ملتی ہے 
         یعنی ایک کلمہ پرسش بھی دوا ہوتا ہے 
ایک حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ جب کوئی صبح کو کسی بیمار کی عیادت کرتا ہے تو فرشتے شام تک اس کی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں، اور جب شام کو کرتا ہے تو صبح تک فرشتے اس کی مغفرت کے لیے بارگاہ الہی میں دعا مانگتے ہیں ،(ابوداؤد )
مذکورہ بالا حدیث میں عیادت کے وقت کی تعیین تو نہیں کی گئی ہے اور نہ محدثین نے اس طرح کی کوئی بات کہی ہے، مگر عیادت کے لیے مناسب وقت کا خیال یہ آداب عیادت میں ضرور داخل ہے،
اور صبح وشام کا ذکرخاص طور پر حدیث شریف میں کیا گیا ہے، اس سے روشنی ضرور ملتی ہے کہ یہ دونوں وقت عیادت کے لیے بہت ہی مناسب اور موزوں ہیں، انمیں بیمار کا بھی شریعت نے خیال کیا ہے اور تیماردارکے لیے بھی بڑی سہولت ہے،آسانی سے ان دووقتوں کو بیمار کی عیادت کے لیے فارغ کیا جاسکتا ہے تو وہیں مریض کے لیے بھی ان وقتوں میں بڑی راحت کی بات ہے۔
کچھ چیزوں کا خیال عیادت کرنے والوں کے لیے ضروری ہےتو وہیں کچھ باتیں بیمار سے بھی کہی گئی ہیں کہ وہ بیماری پر صبر کا دامن تھام رکھے، کوئی شکایت اور ناشکری کا حرف اپنی زبان سے ادا نہ کرے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک اعرابی مدینہ میں آکر بیمار پڑ گیا، آپ اس کی عیادت کو تشریف لے گئے اور کلمات تسکین ادا فرمائے،اس نے کہا؛آپ نے خیریت فرمائی ہے مجھے تو شدید تپ ہےجو قبر میں لاکر چھوڑے گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ہاں اب یہی ہو،(بخاری )
آخری بات یہ کہ آج مزاج پرسی کی جاتی ہے تیمارداری نہیں، بلکہ تیمارداری کا مزاج ہی ختم ہوتا جارہا ہے، عیادت کے اصل معنی تیمارداری یعنی مریض کی مکمل دیکھ ریکھ ہے،مزاج پرسی نہیں ہے،حدیث شریف میں مزاج  پرسی پر جب اس قدر اجر ہے تو بیمار کی مکمل دیکھ بھال اور خدمت پر کس قدر اجر مل سکتا ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۱۷/نومبر ۲۰۲۲ء بروز جمعرات

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...