Powered By Blogger

جمعرات, جنوری 19, 2023

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اردو دنیا نیوز ٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے دل ودماغ میں رچی بسی ہوئی ہے، یہ ہمارے دین وایمان کا حصہ ہے، اس کے بغیر ایمان کا تصور نہیں کیا جا سکتا ، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مال ودولت ، گھر بار، باپ ماں اور بیوی بچوں کی بہ نسبت ایمان والوں کو اللہ ورسول سے زیادہ محبت نہ ہو تو سزا کے منتظر رہنے کو کہا ہے،ارشاد باری ہے: آپ کہہ دیجئے: اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دیں اور اللہ تعالیٰ بے حکمی کرنے والوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہونچاتا۔ (سورہ توبہ : آیت ۴۲ رکوع ۳)
یہ آیت ہجرت کے پس منظر میں ہے، لیکن یہ حکم اسی کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ہر دور کے لیے ہے،اس آیت میں اللہ اور رسول کی محبت کو تمام چیزوں کی محبت سے بر تر وبالا رکھنے کی بات کہی گئی ہے اور ایسا نہ کرنے پرسزا کا اعلان بھی کیا گیا ہے، اس لیے ایمانی واسلامی زندگی بغیراللہ رسول کی محبت کے ممکن ہی نہیں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی اسوقت تک مو من کامل نہیں ہو سکتا ، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاوں، ایک موقع سے حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! سب کی محبت مغلوب ہو چکی ہے ، صرف اپنی ذات سے تعلق زیادہ معلوم ہوتا ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابھی نہیں عمر ، تھوڑی دیر بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اب اپنی ذات سے بھی زیادہ آپ سے محبت معلوم ہوتی ہے، ارشاد ہوا، ہاں اب ، یعنی اب ایمان مکمل ہو گیا ، اسی محبت کا تقاضہ تھا کہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ میں پھانسی کے پھندے سے اتار دیا جاؤں اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے مبارک میں کانٹے چُبھیں ۔
اس قدر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیوں کرنی چاہیے ؟ اس لیے کرنی چاہیے کہ محبت کے تمام اسباب جمال، کمال، احسان اور قرب وہ سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں مکمل طور پر پائے جاتے ہیں، جمال ایسا کہ آپ سے زیادہ خوبصورت انسان پر سورج طلوع نہیں ہوا، کمال ایسا کہ32 سال کی مختصر مدت میں کایا پلٹ کر دی، ایک خدائے واحد کی پرستش کا غلغلہ بند ہوا ، جہالت دور ہوئی، علم کی روشنی پھیلی، ظلم وستم کا خاتمہ ہوا، کراہتی ہوئی انسانیت نے سکون وآرام پایا، انصاف کی حکمرانی قائم ہوئی، احسان ایسا کہ انسان تو کیا چرند وپرند بھی آپ کی رحمت سے بہرہ ور ہوئے، دشمنوں کی جان بخشی کی گئی، اور دوستوں پر شفقت ومحبت کی ایسی بارش ہوئی کہ سب گرویدہ ہو گئے اور قرب ایسی کہ قربت خداوندی کا حصول آپ کے قرب کے بغیرممکن نہیں ، اس لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے محبت فطری ہے، اور اس کے لیے کسی دلیل اور حجت کی ضرورت نہیں ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے
حسن یوسف ، دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں جس شخص میں ہوں اس نے ایمان کی حلاوت پالی، ایک وہ شخص جس کو اللہ کے رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرے وہ شخص جو محبت صرف اللہ کے لیے کرے اور تیسرا وہ جسے اللہ نے کفر سے بچالیا اور وہ کفر کی طرف لوٹنے سے اس قدر نفرت کرے جیسی آگ سے کرتا ہو۔
ایک دوسری آیت میں اللہ سے محبت کا تقاضہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو قرار دیا گیا ، اور اطاعت رسول پر مغفرت خدا وندی کا مزدہ سنایا گیا ، گویا اللہ کی خوشنودی کا حصول اتباع رسول کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپ کی مرضیات پر چلتے اور آپ کے چشم وابرو کے اشارے پر قربان ہونے کو تیار رہتے تھے، ایک بار حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد کے دروازے تک پہونچے تھے کہ آپ کے اعلان کی آواز کانوں میں پڑی کہ بیٹھ جا وہیں بیٹھ گیے او رکہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بعد اس کی گنجائش ہی کہاں تھی کہ ایک قدم آگے بڑھایا جائے، ایک صحابی نے اپنا قُبّہ صرف اس بات پر توڑ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرما یا تھا کہ یہ کس کا قبہ ہے، صحابی نے محسوس کیا کہ آپ نے اس کو پسند نہیں کیا، تبھی تو آپ نے فرمایا کہ اس طرح کا مال اس کے مالک کے لئے قیامت میں وبال جان ہوگا، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار کسم سے رنگا ہوا گلابی گیروا رنگ کا کپڑا پہنے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ لیا ، یہ کیا ہے؟ یہ سن کر اس کپڑے کو چولھے میں ڈال کر جلا ڈالا ، دوسرے دن آنے پر دریافت کیا کہ اس کپڑے کو کیا کیا ، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جلا ڈالا ، ارشاد ہواکسی عورت کو کیوں نہیں دے دیا ، ان کے لئے اس طرح کا لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے،اتنا ہی نہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جاں نثاری کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے مقابل اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے تھے؛بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے والے تیر وتفنگ کا رخ بھی اپنی طرف کر لیتے تھے تاکہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا بال بھی بیکا نہ ہو، غزوۂ اُحد کے موقع سے حضرت ابو طلحہؓ آپ کی طرف آنے والے ستر سے زائد تیروں کو اپنے ہاتھ اور سینے پر روکا ، جس کے سبب ان کا ہاتھ ہمیشہ کے لیے شل ہو کر رہ گیا تھا، اسی موقع سے حضرت ابو طلحہؓ کا یہ قول بھی کتب احادیث میں مذکور ہے کہ میرا سینہ آپ کے لیے موجود ہے، اسی غزوۂ حضرت ابودجانہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، وہ ڈھال بن گیے اور تیر ان کی پیٹھ میں پیوست ہوتے رہے، وہ حرکت بھی نہیں کرتے تھے کہ کہیں میری حرکت کی وجہ سے کوئی تیر آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر تک پہونچ نہ جائے، جب دشمنوں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پھیلائی تو ایک صحابیہ بے اختیار مدینہ سے چل کر اُحد پہونچیں راستہ میں انہیں بتایا گیا کہ تمہارا باپ شہید ہو گیا، وہ آگے بڑھتی جاتی تھیں اور کہتی جاتی تھیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں، پھر بتایا گیا کہ بھائی، بیٹا اور شوہر بھی اس لڑائی میں کام آگیے؛ لیکن ہر بار وہ یہی پوچھتی تھیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ آپ خیریت سے ہیں، کہتی ہیں مجھے ان کی زیارت کراؤ اور جب رخ انور کی زیارت ہو گئی توکہنے لگی میرا سب کچھ آپ پر قربان، باپ، بھائی، بیٹا ،شوہر سبھی قربان؛ آپ سلامت ہیں تو ساری مصیبتیں قابل برداشت ہیں۔
یہ اور اس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہ کرام کے نزدیک محبت رسول کا مطلب اللہ کے رسول کی مرضیات پر چلنا تھا،اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کی ایک ایک ادا کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے اور ہمارے ہر کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور ان کی ہدایات کے مطابق ہوں ، مجازی محبت میں بھی آدمی محبوب کی ایک ایک ادا پر مر مٹتا ہے، یہ تو حقیقی محبت کا معاملہ ہے، اس میں کمی ، کوتاہی کسی صورت گوارہ نہیں، مسلمانوں کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مثالی ہے اور ہم سب اس کے لیے مر مٹنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، ناموس رسالت پر کسی قسم کا حملہ اور کسی قسم کی توہین ہمیں بر داشت نہیں، جان ، مال ، آل واولاد، باپ ماں، سب آپ پر قربان ، اتنی محبت ہونے کے با وجود ہم اپنا رنگ ڈھنگ سنت کے مطابق نہیں بنا پا رہے ہیں، زندگی سنت کے مطابق نہیں گذر رہی ہے، سماجی ، معاشی ، معاشرتی زندگی میں عموما سنتوں کا چلن نہیں ہے، ان تمام معاملات میں ہم من مانی کر رہے ہیں، اور بھول جاتے ہیںکہ ہمارے اعمال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو با خبر کرایا جاتا ہے، محبت رسول کے دعویٰ کے با وجود سنت رسول سے اس قدر دوری قابل غور ہے اور اس صورت حال میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
عملی زندگی میں سنت سے دوری کی کسر ہم اظہار محبت کے نت نئے طریقے ایجاد کرکے پورے کر رہے ہیں، حالاں کہ اظہار محبت کا بھی وہی طریقہ معتبر ہے، جو محبوب کو پسند ہو ، محبوب جلسہ ، جلوس ، مظاہرے کو پسند نہ کرتا ہو اور ہم ا ن چیزوں کے ذریعہ محبت کا اظہار کریں، تو محبوب کی خوش نودی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ بلکہ جو طریقے انہیں پسند نہیں، اس کو اپنا کرہم کچھ ان کے عتاب کے ہی شکار ہوں گے، رضا کے نہیں، اس حقیقت کو ہم سب کو جان اور سمجھ لینا چاہیے۔واقعہ یہ ہے کہ ہمیں جشنِ آمدِ نبی تو یاد رہ گیا ہے، مِشن آمدِ نبی سے ہم سب غافل ہیں۔

بند فائلیں ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بند فائلیں ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی
نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
سرکاری دفاتر میں عموماً اور دوسری جگہوں پر خصوصا کچھ فائلیں ہوتی ہیں، جن کا تعلق افراد کی کار کردگی اور اس کے ذریعہ اٹھائے گیے ان اقدام سے ہوتا ہے، جن پر سوالیہ نشان کھڑے کیے جاسکتے ہیں، یہ فائلیں عام حالتوں میں سرد بستوں میں بند رہتی ہیں، بہت خاص لوگوں کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرد بستہ جب گرم بستے میں بدلے گا تو ملکی حکومت پر، حزب مخالف پر یا کسی فرد پر اس کے کیا اثرات ہوں گے ، پارٹیوں کے ذمہ دار ، حکومت کے سر براہان اور کچھ خاص لوگ وقت کا انتظار کر تے رہتے ہیں کہ اس بستے میں پڑے جِن کو کب باہر نکالا جائے کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے اور اپنے مخالفین کو زک پہونچائی جا سکے، جن لوگوں کی نظر سیاست پر ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ بر سر اقتدار لوگوں نے کس طرح اس کا استعمال کیا ہے او راپنے حریفوں کو چِت کرنے کے لئے کیسے کیسے ہتھ کنڈے اپنائے ہیں، ایسا ہندوستان ہی نہیں عالمی پیمانے پر ہوتا آرہا ہے اور ملکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ سرد بستے سے نکلنے والایہ جن کئی کو پھانسی کے پھندے ، حبس دوام ، عمر قید تک پہونچا چکا ہے، یہ ایک خطرناک کھیل ہوتا ہے جو مخالفین کو موافق بنانے ، ان کے منہ کو بند کرنے ، عوامی سطح پر ساکھ کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیاجاتا رہا ہے، یہ سو یا ہوا جن کتنی مدت سو یا رہے گا، کہا نہیں جا سکتا، اس کو جگانے کے لیے مناسب وقت آنے میں بر سہا برس لگ سکتے ہیں یہ کبھی بعد از مرگ بھی جاگتا ہے ، جب بھی جگایا جاتا ہے، ایک بھونچال آتا ہے، زلزلہ پیدا ہوتا ہے، اتھل پتھل مچتی ہے اور بہت کچھ بدلتا ہے یا بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
 بات در اصل کہنے کی یہ ہے کہ جس طرح سرکاری فائلیں بستے میں بند ہو کر سوئی رہتی ہیں اور لوگ اس سے غافل رہتے ہیں اور گمان بھی نہیں ہوتا کہ ان فائلوں کے کھلنے پر کن حالات سے سابقہ پڑے گا ویسے ہی انسانوں کے اعمال کی فائل کراماً کاتبین کے ذریعہ قلم بند ہو کر نامہ اعمال میں بند ہوتی رہتی ہے، دنیاوی فائلوں کے سامنے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے ، لیکن اللہ رب العزت نے نامہ اعمال کے اچھے یا برے ہونے کے اعتبار سے داہنے یا بائیں ہاتھ میں دینے کا اعلان کر رکھا ہے ، پھر ان اعمال کے تولنے کے لیے میزان قائم ہوگا اور اعمال تو لے جائیں گے، اس دن ہمارے بھلے برے اعمال کی وجہ سے جزا وسزا کا فیصلہ ہو گا، اس دن ہماری زبان بند ہوگی اور ہمارے ہاتھ پاؤں وغیرہ خود ہمارے خلاف گواہی دیں گے، اور جن کے اعمال اچھے ہوں گے وہ خوش، خوش جنت میں جائیں گے اور جن کے اعمال برے ہوں گے وہ اوندھے منہہ جہنم میں ڈال دیے جائیں گے؛ کیوں کہ وہ آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ہمارے کرتوت یوں ہی ختم ہو جائیں گے ، عقل مندوں کے لیے اس میں بڑی نصیحت ہے۔

بدھ, جنوری 18, 2023

سائبر حملے ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

سائبر حملے ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف  
انٹرنیٹ کی سہولت ، ڈیجیٹل انڈیا بنانے کی مہم، کیش لیس کا روبار، مختلف ایپ کے ذریعہ رقم کی لین، دین، رقم منتقل کرنے کی آن لائن سہولتوں نے جرائم کی دنیا میں ایک اور جرم کا اضافہ کر دیا ہے، یہ جرم ہے سائبرحملہ ، اعداد وشمار کی چوری، بینکوں سے اے ٹی ایم کے ذریعہ لوٹ، فون، موبائل، وغیرہ کا ہیک کر لینا ، شاخ در شاخ سائبر حملے کی ہی مختلف قسمیں ہیں، ان حملہ آوروں او رہیکر کا اپنی مہم میں کامیاب ہوتے رہنا بتاتا ہے کہ سائبر تحفظ کے معاملہ میں ہم کافی پیچھے ہیں اور ہمارے نجی راز کی پرائیویسی معرض خطر میں ہے، سوشل سائٹس سے متعلق ایجنسیاں ، کمپنیاں اور ایپس چاہے ہمارے راز کی حفاظت کی جس قدر یقین دہانی کرائیں ،سچائی یہی ہے کہ ہم محفوظ نہیں ہیں۔
جن شعبوں پر سائبرحملہ آوروں کی سب سے زیادہ نظر ہے، ان میں بینکنگ، مالیاتی نظام اور بیمہ(BFSI)سر فہرست ہیں، سرکار نے پارلیامنٹ میں اس حوالہ سے جو تفصیل بیان کی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہیں، ان تفصیلات سے سائبر حملوں کے رفتار پکڑنے کی تصدیق ہوتی ہے، اطلاع کے مطابق جون 2018ءسے مارچ 2022ءتک ہندوستانی بینکوں پر مجرمین کے ذریعہ دو سو اڑتالیس (248)سائبر حملے ہوئے، اعداد وشمار کی چوری کے یہ واقعات اکتالیس (41)عوامی دوسو پانچ(205) نجی اور دو(2) واقعات غیر ملکی بینکوں کے ذریعہ درج کرائے گیے، چند ماہ قبل اتر پردیش سائبر پولیس نے لکھنؤ کے عوامی کوپریٹو بینک کے کھاتے سے ایک سو پینتالیس(145)کروڑ رقومات کی غیر قانونی طور پر نکالے جانے کا پردہ فاش کیا تھا، اس معاملہ میں کئی تکنیکی ماہرین اور سابق بینک کارکن کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی، ڈرینک کے نام سے اینڈ رائیڈ میل ویر نے تو حد کر دی کہ محکمہ ٹیکس کا نام لے لے کر اس نے اٹھارہ بینکوں کو نشانہ بنایا۔ اسی طرح ڈارک ویب پر بی ڈین کیش کے نام سے غیر قانونی ویب سائٹ کا پتہ اس وقت چلا جب ہیکرس نے نوے لاکھ سے زائد افراد کے کریڈٹ کارڈ کی تقسیم، مفت میں اپ لوڈ کر دیا تھا، سنگا پور کی سائبر تحفظ فورم جو کلاوڈسیک کے نام سے کام کرتی ہے، اس نے گذشتہ سال جاری قرطاس ابیض (حقائق پر مبنی رپورٹ) میں کہا ہے کہ امسال جتنے سائبر حملے پوری دنیا پر ہوئے ان میں 7.4فی صد ہندوستان پر کیے گیے، قومی بینکوں، کرپٹو اکسچینج ، والٹس ، این بی ایف سی (NBFC) کی معلومات کا افشا، کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ غیر قانونی طور پر رقوم کی نکاسی سب ہندوستان میں سائبر جرائم ہی کا حصہ ہیں۔
 سائبر مجرمین کے لیے آسان نشانہ درمیانی اور نچلے درجے کے کاروباری ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے یہاں سائبر حملوں سے تحفظ کا اچھا انتظام نہیں ہوتا، با خبر ذرائع کے مطابق تینتالیس(43) فی صد سائبر حملے 2022ءمیں چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں پر کیے گیے، اپریل سے ستمبر 2022ءکے نصف تک 2.7لاکھ سائبر کرائم مختلف شعبہ حیات سے متعلق محکموں میں ہوئے، ان میں پٹرولیم بھی شامل ہے، یہ اطلاع 2022ءمیں سائبر ایپس کے ذریعہ شائع ایک رپورٹ میں دی گئی ہے، مجموعی طور پر گذشتہ سال ایک کروڑ اسی لاکھ (اٹھارہ ملین) سائبر حملے اور دو لاکھ سائبر سیکوریٹی تھریٹ کے واقعات ہندوستان میں ہوئے۔
 ہندوستان میں سائبر حملوں سے محکمہ صحت بھی محفوظ نہیں رہ سکا، اس پر گذشتہ سال انیس لاکھ سائبر حملے ہوئے ۔ 23 نومبر 2022ءکو حملہ آوروں نے ملک کے مشہور اسپتال ایمس دہلی پر حملہ کر دیا اور اس کے سارے ڈیٹا کو ہیک کر لیا جس کے نتیجہ میں اسپتال کے سارے سرور نے کام کرنا بند کر دیا، مریضوں کی پریشانی دور کرنے کے لیے کئی روز تک کمپیوٹر کے بجائے سارے کام ہاتھ سے کرنے پڑے، اس کے با وجود جو اعداد وشمار اور ڈیٹا چوری ہوگیے، اس کی تلافی مشکل قرار پائی، یہ اسپتال ڈیجیٹل کام کرتے ہیں، حملہ آوروں نے اس کی اس صلاحیت پر ہی حملہ بول دیا۔
 آئندہ اس قسم کے حملے کثرت سے ہوں گے۔ 5Gکے استعمال سے ان واقعات میں اور اضافہ ہوگا، ایک اندازہ کے مطابق 2025ءتک ہندوستان میں اٹھاسی ملین لوگ 5Gاستعمال کر رہے ہوں گے۔ لیکن صرف پندرہ ، سولہ فی صد ہی ایسے ادارے ہوں گے جو ان کو محفوظ رکھنے کی تکنیک سے واقف ہوں گے، ایسے میں سائبر کے تحفظ کے لیے مناسب اقدام کے ساتھ سائبر جرام کرنے والوں کے لیے مضبوط قانون سازی کی بھی ضرورت ہے، حکومت ہندکو ان حملوں سے بچنے کی ضرورت واہمیت پرکے مدنظر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

منگل, جنوری 17, 2023

سیاسی ”یاترائیں“ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سیاسی ”یاترائیں“
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی  
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 راہل گاندھی کی ”بھارت جوڑو یاترا“ کا دوسرا دور شروع ہو گیا ہے، نفرت کے بازار میں ”محبت کی دوکان سجانے“ کے نام پر نکلی اس ”یاترا“ کا چرچا پرنٹ میڈیا ، الکٹرونک میڈیا پر خوب ہوتا رہا ہے، ملک میں اس کی وجہ سے کانگریس کی مقبولیت اور راہل گاندھی کی محبوبیت میں اضافہ ہوا ہے، راہل گاندھی نے اپنی اور اپنی پارٹی کی سیاسی بقا کے لیے اس ”یاترا“ کی شروعات کی تھی ، شاہزادہ کا ہزاروں میل پیدل چلنا آسان کام نہیں تھا، اور اس پر سخت ٹھنڈ میں صرف ایک شرٹ پہن کر ، زندگی کو خطرات بھی بہت تھے، کیوں کہ ان کا سفر نفرت کے بازار ہو کر ہوتا رہا ہے، ان کے تحفظ پر سوالات بھی اٹھتے رہے ہیں، کانگریس ان کے حفاظتی حصار میں چوک کا چرچا کرتی رہی ہے، جب کہ پولیس والوں کو ان کے ذریعہ حفاظتی حصار خود توڑنے کا شکوہ ہے، وزارت داخلہ کو محکمہ پولیس کے ذریعہ یہی رپورٹ سونپی گئی ہے۔
 راہل گاندھی کی یہ ”یاترا“ گذشتہ سال 7 ستمبر 2022ءکو کنیا کماری سے شروع ہوئی تھی، اب تک وہ نو ریاست کے چھیالیس (46)اضلاع کی ”پد یاترا“ کر چکے ہیں،مختلف ریاستوں سے گذر کر ایک سو پچاس دن میں یہ ”یاترا“ کشمیر پہونچے گی، اور تقریبا تین ہزار پانچ سو ستر(3570) کلو میٹر کا سفر پیدل طے کرے گی۔
 راہل گاندھی کی یہ سیاسی یاتر اپہلی یاترا نہیں ہے، اس سے قبل بھارت کے سابق وزیر اعظم سماجوادی قائد چندر شیکھر نے 6 جنوری سے 25جون 1983تک کنیا کماری سے راج گھاٹ نئی دہلی تک کا پیدل سفر کیا اور 4200کلو میٹر کی دوری پیدل طے کی تھی، یہ سفر کنیا کماری سے اس دن شروع ہوا، جس دن ان کی جنتا پارٹی نے کرناٹک میں شاندار جیت درج کی تھی، اس سفر کا اختتام ایمرجنسی کی آٹھویں سالگرہ پر کیا گیا ، اسی دن بھارت نے پہلی بار کرکٹ کا ورلڈ کپ بھی جیتا تھا۔
اس سفر نے چندر شیکھر کو سیاست میں نیا مقام دیا، پہلے وہ ایک جوان لیڈر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، جن کی ہندوستانی سیاست میں کوئی پکڑ نہیں تھی، اس سفرکے بعد سیاست میں ان کی اہمیت محسوس کی جانے لگی، راجیو گاندھی کی حکومت کے اختتام کے بعد 1989ءمیں وہ وزیر اعظم کے دعویدار بنے اور بالآخر وی پی سنگھ کی حکومت کے بعد وہ وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گیے، ایک ایسے وزیر اعظم جو اس سے قبل کبھی کسی حکومت میں وزیر بھی نہیں رہ چکے تھے۔
سیاسی یاتراوں میں لال کرشن اڈوانی کی ”رام رتھ یاترا“ بھی تھی، یہ یاترا پیدل نہیں ایک بس کے ذریعہ 25 ستمبر سے 23 اکتوبر 1990ءتک چلی، مذہبی رنگ کی یہ یاترا منڈل کمیشن کی رپورٹ کے لاگو ہونے سے بھاجپا کو ہونے والے نقصان کی تلافی اور رام مندرتحریک تک کو تیزتر کے لیے سومناتھ مندر سے شروع ہوئی تھی، اسے اجودھیا پہونچنا تھا، لیکن اس وقت کے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی ہدایت پر بہار کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادو نے اڈوانی کو سمستی پور میں گرفتار کر کے تاریخ رقم کر دی ، اس سفر کا فائدہ بھاجپا اور اڈوانی دونوں کو پہونچا، بھاجپا پہلی بار قومی پارٹی بننے کی پوزیشن میں آئی، پارلیامنٹ میں اس کی سیٹیں بڑھیں، وہ سیدھے ایک سو بیس(120)سے ایک سو پچپن(155)پر پہونچ گئی، اور اڈوانی اس سفر سے ملک گیر لیڈر بن گیے، وہ اٹل بہاری باجپائی سے آگے تو نہیں بڑھ سکے، لیکن نائب وزیر اعظم کے عہدے تک پہونچنے میں کامیاب ہو گیے، اس درمیان آر ایس ایس نے گجرات فساد کے بعد نریندر مودی کو وزیر اعظم کی حیثیت سے پیش کیا، وزیر اعظم کی کرسی تک پہونچنے کی لالچ نے اڈوانی کو ان کی مخالفت پر آمادہ کیا، یوں بھی نریندر مودی اڈوانی کی رتھ یاترا میں تقریر کرتے وقت ان کا مائیک پکڑے ہوتے تھے، مودی نے اس مخالفت کے نتیجے میں ان کو ”مارگ درشک منڈل“ میں داخل کر کے سیاسی طور پر الگ تھلگ کر دیا، ان کوانتخاب میں ٹکٹ بھی نہیں دیا، اڈوانی صدر جمہوریہ بننے کے خواہش مند تھے، وہ آرزو بھی ان کی پوری نہیں ہوئی، لالو پرساد یادو نے اپنی ایک تقریر میں اڈوانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے بابری مسجد توڑوائی ہے آپ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے، لالو پر ساد کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی، آج اڈوانی زندہ تو ہیں،لیکن ہندوستانی سیاست میں ان کا وجود اور عدم برابر ہے۔
 ”سیاسی یاترائیں“ صوبائی بھی ہوتی رہی ہیں، صوبائی ”یاتراوں“ میں راجستھان میں وسندھرا راجے کی ”پربو رتن یاترا“ غیر منقسم آندھرا پردیش میں راج شیکھر ریڈی کی ”پرجا پرستھانم یاترا“ اور چندر ا بابو نائیڈو کی ”واستو نامی کی ہیم پدیاترا“ (میں آپ کے لیے آ رہا ہوں) کو خاص اہمیت حاصل ہے، ان یاتراوں کے ذریعہ ان لیڈروں کاوزیر اعلی کی کرسی تک پہونچنا آسان ہو گیا۔
 راجستھان میں وسندھرا راج نے اس وقت کے بھاجپا کے جنرل سکریٹری پرمود مہاجن کی ہدایت اور تحریک پر 2003میں گاڑی کے ذریعہ ”پریورتن یاترا“ کے نام سے تقریبا تیرہ ہزار (1300)کلو میٹر کا سفر کیا، اس سفر سے وسندھرا کی ریاست میں سیاسی لیڈر کے طور پر شناخت بنی ، اس سفر کے ذریعہ وسندھرا عوام کے قریب ہوئیں اور راجستھان کی دوسو اسمبلی سیٹوں میں سے ایک سوبیس (120)سیٹیں لے کر ریاست کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنیں۔
 غیر منقسم آندھرا پردیش میں سیاسی طور پر کانگریس کا زوال ہوا، اور تیلگو دیشم پارٹی حکومت پر دس سال تک قابض رہی ، ایسے میں کانگریس کے لیڈر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے 2003ءمیں ”پر جا پرستھانم یاترا“ شروع کی، دو ماہ تک سخت گرمی کے موسم میں انہوں نے پندرہ سو کلو میٹر سے زیادہ کا سفر کیا، عوام سے جُڑے ، عوام کی محبت انہیں ملی اور 2004ءاور 2009ءکے اسمبلی انتخاب میں انہوں نے تیلگو دیشم پارٹی پر بڑی فتح حاصل کی اور دوبارہ آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہونچے، حالاں کہ جلدمیں ہی وہ ایک حادثہ میں آنجہانی ہو گیے تھے۔
 راج شیکھر ریڈی کی پدیاترا نے کانگریس کو اقتدار تک پہونچا دیا تھا، اور چندر ا بابو نائیڈو اقتدار سے بے دخل ہو گیے تھے، اس لیے نائیڈو نے راج شیکھر ریڈی والا نسخہ اقتدار میں پہونچنے کے لیے استعمال کیا اور 2013ءمیں ”واستو نامی کوسم“ کے نام سے ”پد یاترا “ شروع کی، دو سو آٹھ (208)دنوں میں انہوں نے دو ہزار آٹھ سو (2800)کلو میٹر کا پیدل سفر کیا، نو سال تک اقتدار سے باہر رہنے کے بعد اس ”پدیاترا“ کی برکت سے 2014ءکے اسمبلی انتخاب میں ایک دو سو (102)سیٹیں حاصل کرکے ان کی پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور چندرا بابو نائیڈو وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہونچ گیے۔
ہمارے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی ”سیاسی یاترا“ کرنے میں ماہر ہیں، وہ اب تک بہت ساری ”یاترائیں“ کر چکے ہیں، ان میں ادھیکار یاترا، سیوا یاترا، نیائے یاترا، پرواس یاترا، دھنواد یاترا، وشواش یاترا، سماج سدھار یاترا اور سمادھان یاترا خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان یاتراوں سے ان کی پارٹی کو مضبوطی ملی، حکومت کو استحکام عطا ہوا، ترقیاتی کاموں کا زمینی جائزہ ممکن ہوا، اور کام میں کوتاہی برتنے والے کی تادیبی کارروائی کی گئی، پدیاتراووں کا ذکر مکمل نہیں ہوگا اگر 2 اکتوبر 2022ءسے جاری پرشانت کشور کی سوراج پدیاترا کا ذکر نہ کیا جائے، جو تمام سیاسی پارٹیوں کے خلاف ہو رہی ہے۔
 راہل گاندھی ان سیاسی یاتراوں کو تسلسل عطا کر رہے ہیں، ان کے ذہن میں ہے کہ یہ نسخہ ہندوستانی سیاست میں کم از کم پارٹی کو اقتدار تک پہونچانے میں کبھی فیل نہیں ہوا، ہے، اس لیے ”پد یاترا“ میں راہل گاندھی سخت اصول وضابطہ ہونے کے باوجود بڑی بھیڑ جمع کر پا رہے ہیں، جس سے کانگریس پارٹی کو اچھی توقعات ہیں، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بھیڑ جمع کرنا بڑی بات ہے،لیکن اس بھیڑ کو ووٹ میں تبدیل کرالینا بالکل دوسری بات۔

پیر, جنوری 16, 2023

کربِ آگہی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کربِ آگہی __
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی  
 نائب  ناظم  امارت  شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 حال ہی میں سابق وزیرمشہور سیاسی قائد جناب عبد الباری صدیقی کے ایک بیان کی وجہ سے سیاسی گلیاروں میں بھونچال آگیا، انہوں نے ایک کانفرنس میں کہہ دیا تھا کہ ”ہندوستان اب رہنے کے لائق نہیں رہا، فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرناک وخوفناک ماحول تیزی سے پھیل رہا ہے ، اب یہاں امن پسند لوگوں کے لیے جینا محال ہو گیا ہے ، اس لیے میں نے اپنے بچوں سے( بیٹا جو امریکہ میں رہتا ہے اور بیٹی جو لندن میں رہتی ہے) کہا ہے کہ وہیں رہیں اور وہاں کی شہریت مل جائے تو وہاں کی شہریت بھی لے لیں۔“
 اس بیان پر جو تبصرے آئے اس میں غیروں نے دل کی بھڑاس نکالی اور انہیں پاکستان چلے جانے تک کا مشورہ دے دیا ، عظیم اتحاد کے بعض رہنماؤں نے اسے بز دلی سے تعبیر کیا اور انہیں اس ملک میں ان کی ذاتی حصولیابیاں گنائیں، یعنی انہیں اس ملک نے ایم ایل اے بنایا، وزیر بنایا وغیرہ وغیرہ، سب نے ان کے بیان کے ”اب“ کو نظر انداز کر دیا ، عبد الباری صدیقی کی قدر ومنزلت اور عہدے مناصب انہیں یہیں ملے، یہ ٹھیک ہے،لیکن وہ اس نفرت بھرے ماحول اور فرقہ واریت کی بات کر رہے ہیں، جو ”اب“ پیدا ہو گیا ہے، او ریہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جسے انہوں نے پہلی بار کہا ہے، اس ملک کے فلم ادا کار ، دانشور اور سیاست داں پہلے بھی اس بات کو با ربار کہہ چکے ہیں، ہر بار اس ملک میں ایسے بیان پر طوفان کھڑا ہوا ہے، راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا کے درمیان جب بار بار یہ کہتے ہیں کہ ”میں نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کھولنے نکلا ہوں“ تو وہ عبد الباری صدیقی کے فکر وخیال کی تائید ہی تو کر رہے ہیں، عبد الباری صدیقی محسوس کرتے ہیں کہ نفرت کی سودا گری اس ملک میں بڑھتی جا رہی ہے اور شاید ملک پر انی روش پر لوٹ نہیں پائے گا، اس لیے اپنے بچوں کو محفوظ مستقبل کے لیے ایک مشورہ دے ڈالتے ہیں جس کا انہیں پورا حق ہے، یہ صحیح بھی ہے کہ ایسا مشورہ انہیں نہیں دینا چاہیے تھا اور دیا تھا تو بر ملا اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا، یقینا انہوں نے حق بات کہی، جیسا محسوس کیا ؛لیکن ساری حق بات کہہ دی جائے اس کا مکلف کوئی نہیں ہے، یقینا جب بولیں، حق بولیں، لیکن سارے حقائق بیان کر دینے کے ہم پابند نہیں ہیں، شاید اسی وجہ سے ہر بڑے عہدے میں رازداری کا حلف دلایا جاتا ہے اور چھوٹے دفاتر میں کارندوں سے راز مخفی رکھنے کی توقع کی جاتی ہے ۔
جناب عبد الباری صدیقی نے جو کچھ کہا ، اور جو کچھ ان کی زبان سے نکلا وہ ان کا کربِ آگہی ہے جو جملوں کی شکل میں ڈھل گیا اور بر سر عام نکل پڑا، در اصل با خبری انسان کو ہر معاملہ میں حساس بنا دیتی ہے، گھر میں بڑا سے بڑا حادثہ ہوجائے، بچے کھیلتے رہتے ہیں، پاس پڑوس بے خبر ہے تو اس پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا؛ لیکن خاندان کے ایسے افراد جو موت کے بعد کی جدائی اور حالات کی سنگینی سے با خبر ہوتے ہیں، ان کا دل روتا ہے، آنکھوں سے اشک بہتے ہیں اور ذہن ودماغ پر غم کی آندھیوں کا بسیرا ہوجاتا ہے، با خبری کے اچھے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، خوشی کی خبر پر ہر موئے تن سے مسرت کی لہر چلتی ہے اور طربیہ لمحات کے کیف وسرور میں آدمی ڈوب جاتا ہے، اس مثبت اثرات کو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا اور فرمایا : اللہ کے بندوں میں علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں ، اللہ کی عظمت وجلال کا علم جس قدر بندوں کو ہوتا ہے ، اللہ کا خوف ، خشیت اسی قدر بندوں پر غالب ہوتا ہے، جو اللہ کی کبریائی اور قدرت سے نا واقف ہے اس پر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی ۔
 جناب عبد الباری صدیقی ہندوستان کے موجودہ حالات سے اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے اس کے مضر اثرات نے انہیں کرب میں مبتلا کر رکھا ہے ، اور کرب کا بیانیہ جچے تلے جملے اور الفاظ میں نہیں ہوا کرتا وہ تو کبھی آہ کی شکل میں بھی نکل جاتا ہے، عبد الباری صدیقی کے حالیہ بیان کو اسی پس منظر میں دیکھا جا نا چاہیے۔

اتوار, جنوری 15, 2023

ایک قابل رحم انسانی آبادی

ایک قابل رحم انسانی آبادی 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
آپ قومی شاہراہ نمبر۵۷ کے ذریعہ ارریہ ضلع ہیڈ کوارٹرآرہے ہیں تو شہر سے پہلے ٹول پلازہ ہےجہاں آپ کی گاڑی کچھ دیر کے لئے کھڑی ہوجاتی ہے، سامنے شہرارریہ ہے، بائیں جانب سڑک سے متصل ایک قابل رحم انسانی آبادی واقع ہے،ڈھائی سو برادران وطن جگی جھونپڑی میں رہتے ہیں ،مرد وخواتین سرپرہاتھ رکھےاپنےخیالات کی دنیا میں گم رہتےہیں،کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے،دیکھنے والی نظر کے لئے یہ بہت ہی تکلیف دہ منظر ہے، لوگ ان سے قریب ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ  لوگوں سے قریب ہوسکتے ہیں، حکومت کوبھی ان کی فکر نہیں ہے، یہ سبھی جذام کی بیماری میں مبتلا ہیں۔
 ۱۹۸۴ء میں ریاستی حکومت نے انہیں شہر سے باہر لاکر یہاں آباد کیا تھا،جبھی سے یہیں آباد ہیں،  اس جگہ کو سبھی" کشٹ روگی محلہ"سے موسوم کرتے ہیں ،جبکہ اس گاؤں کا اصل نام "مدرٹریسانگر ہریابارہ،ارریہ" ہے۔
یہاں ہاسپٹل کی ایک عمارت بھی موجود ہےجو نہایت مخدوش ہےاور جلاون سے بھرا پڑا ہے، یہاں ڈاکٹر ہیں نہ علاج کا کوئی بندوبست ہے،عام لوگ تو ان جذامیوں سے دور تھے ہی اب یہ محسوس ہورہا ہے کہ حکومت بھی ان سے گھن کرنے لگی ہےاور فاصلہ بنا رہی ہے۔
پیام انسانیت فورم ارریہ نے انتظامیہ کو اس جانب متوجہ بھی کیا ہے۔صدر اسپتال ارریہ کےسول سرجن سے ملکر طبی خدمات بحال کرنے کی مانگ بھی کی ہے،موصوف نے وعدہ کیا ہے کہ ایک ڈاکٹر وہاں موجود رہیں گے۔خدا کرے کہ  ان متاثرین کےرستے ہوئے زخم پر مرہم رکھنے والا کوئی مسیحاجلد ہی انہیں نصیب ہو،آمین۔
 پچھلے چار پانچ سالوں سے پیام انسانیت فورم ارریہ خبر وخیریت لینے مدر ٹریسا نگر پہونچ رہی ہے،موسم کے لحاظ سے کپڑے،کمبل ادویات سے تعاون کررہی ہے،بچوں کی تعلیم کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ متعین کی گئی ہے،اور مختصر پیمانے پر تعلیم کا انتظام بھی کیا گیا ہے، یہ سب کچھ جیب خاص سے کیا جارہا ہے۔جشن جمہوریہ وجشن آزادی کی خوشی کو پچھلے تین سالوں سےپیام انسانیت کے صدر جناب دیویندر مشرجی اور سکریٹری جناب مولانا مصور عالم صاحب ندوی مل بانٹ کر ان جذامیوں کےدرمیان ہی منارہے ہیں،امداد ہی نہیں بلکہ خبر وخیریت کی دریافت کےلئے بھی پیام انسانیت کی ٹیم مدر ٹریسا نگر پہونچ جاتی ہے، ملنا جلنا، گفت وشنید کرنا،حال واحوال پوچھنا بھی ان متاثرین کی مدد اورتعاون ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ان کی خبر وخیریت پوچھتے ہیں تو انہیں بڑا تعجب ہوتا ہے،اور اپنے انسان ہونے کا شاید خیال انکے دل میں مضبوط ہوتا ہے،زبان سے یہ تاثر نہیں دے پاتے ہیں مگر انکی نمناک آنکھیں مکمل تصویر بیاں کرتی ہیں، بقول شاعر 
                 پھر مری آنکھ ہوئی نمناک 
              پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے 
ارریہ پیام انسانیت فورم کے لئے یہ بھی خوشی کامقام ہے کہ انسان اور انسانیت کی ہمدردی رکھنے والے برادران وطن کی ایک قیمتی ٹیم بھی اس کے حصہ میں آئی ہے،ان کے ساتھ کام کرنے سے انسانیت کی جہاں خدمت کی جاسکتی ہے،وہیں  ملک سے نفرت کا بھی خاتمہ کیا جاسکتا ہے،ساتھ ہی مذہب اسلام کی صاف اور سچی تصویربھی پیش کی جاسکتی ہے، 
ترمذی شریف کی مشہور حدیث موجود ہے، ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ باتیں گنائیں جنمیں ایک یہ تھی کہ" لوگوں کے لئے وہی چاہو جو تم اپنے لئے چاہتے ہو تو مسلمان بن جاؤگے"
عموما ہم یہی کہتے ہیں کہ مسلمان انسان کا ہمدرد ہوتا ہے، آج اس بات میں وہ دم اور زیر وبم نہیں ہے جو مذکورہ بالا حدیث کہتی ہے، یہاں مسلمان بننے کا باضابطہ ایک نسخہ بیان کیا گیا ہے،اور یہ صاف اعلان کیا گیا ہے کہ تمام انسانوں کی بھلائی کا جذبہ اپنے دل میں پیدا کرنا ایک مسلمان بننے کے ضروری ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو یہ مسلمان ہونے کی راہ میں ایک بہت بڑی کمی ہے۔
آج ملک میں سب سے بڑی بھول ہم سے یہی ہورہی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر رحم وکرم اور پیار وشفقت کا معاملہ کیا جائے، مگرہم اپنی زندگی کا جائزہ لے رہےہیں اور نہ اپنا محاسبہ کررہے ہیں کہ ہم نے اس سلوک کے حقدار ہونے کے لئے انسانیت کی کونسی خدمت کی ہے اورکیاتیاریاں کی ہیں؟؟
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صاف فرمادیا ہے کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ہے،اس بات کی نصیحت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو کی ہے کہ خدائی وآسمانی خاص مدد کو حاصل کرنے کے لئے زمینی کوشش ضروری ہے،پہلے مخلوق خدا پر رحم کرو پھرآسمان والا تم  پر مہربان ہوجائےگااور تمہاری محبت کو اس روئے زمین پر پھیلا دے گا۔
واقعی اس موقع پر حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی فراست ایمانی سمجھ میں آتی ہے کہ کتنا اہم اور قیمتی عنوان" تحریک پیام انسانیت " کاحضرت نے ہمارے حوالہ کیا ہے، آج اس بات کو محسوس کرنے کی بھی ضرورت ہے ،پیام انسانیت تحریک موجودہ وقت میں بھارت کے مسلمانوں کی شدید ترین ضرورت ہے۔ہم اس بات کو نہیں سمجھتے ہیں اور اپنی توانائی فضول جگہوں پر خرچ کررہے ہیں،جس کا حاصل کچھ بھی نہیں ہے،
دوسروں کے بیان پر اپنا سردھنتے ہیں کہ فلاں نے کیا کہا،کہ "فلاں مذہب کےلوگ خطرہ میں ہے"،اس بات کو ماننے کے لئے برادران وطن بھی تیار نہیں ہیں، ہم سب ملکر ایک ساتھ حضرت علی میاں کی زبان میں یہ کہیں کہ:آج انسانیت خطرہ میں ہے،اس بات کو ماننے کے لئے سبھی تیار ہیں ، انسانی ہمدردی کے نام پر اپنا مال اور اپنی جان لیکر  برادران وطن بھی ہمارے شانہ بشانہ چلنے کو تیار ہیں، ذرا انہیں آواز تو دیجئے!!!

             نہ تھی امید ہمدردی کی جن سے
              وہی تقدیر سے ہمدرد نکلے

ہمایوں اقبال ندوی 
ترجمان؛آل انڈیاپیام انسانیت فورم، ارریہ 
رابطہ؛9973722710

آتش بیانی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آتش بیانی __
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  
نائب  ناظم  امارت  شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
آتش بازی اور آتش بیانی دونوں پر ہندوستانی عدالت نے بعض شروط وقیود کے ساتھ پابندی لگا رکھی ہے، لیکن نہ تو آتش بازی رک پا رہی ہے اور نہ ہی آتش بیانی، آتش بازی کے اثرات فضائی آلودگی کی شکل میں ہماری زندگی کے لیے خطرات پیدا کر رہے ہیں، اور آتش بیانی نے اس ملک کے ماحول کو نفرت انگیز بنا دیا ہے ، جس سے یہاں کی جمہوریت ، سیکولزم اور ملک کی یک جہتی کو نقصان پہونچ رہا ہے ، جس طرح فضائی آلودگی سے سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے اسی طرح نفرت انگیز ماحول میں زندگی گذارنا مشکل ہوتا ہے ۔
 خطابت میں جوش بیان مطلوب ہوتا ہے ،اور عوام بھی ایسی تقریروں سے متاثر ہوتی ہے؛ لیکن اس جوش بیان کا تعلق جب نفرت انگیز مواد سے جڑ جاتا ہے تو وہ آتش بیانی بن جاتی ہے ؛جس سے خرمن امن وسکون جل کر خاکستر ہو جاتا ہے۔ کرناٹک کے شیو موگا میں بھوپال سے رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر نے جو تقریر کی وہ اسی ذیل میں آتی ہے، وہ وہاں ”ہندوجاگرن ویدیکے“ کے ایک جلسہ سے خطاب کر رہی تھی، پرگیہ ٹھاکر 2008ءمیں مالی گاؤں بم دھماکہ کی خاص ملزمہ ہے، جس میں چھ افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ وہ خود کو سادھوی کہتی ہے اور یہ کہہ کر وہ ہندوازم میں سادھوی کے تقدس کو پامال کرنے کا کام کرتی رہی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اب یوگی، سادھو، سادھوی سب نے سیاست میں آکر اقتدار پر اپنی رہبانیت کا” بھوگ“ چڑھا دیا ہے۔
 پرگیہ ٹھاکر نے اپنے بیان میں ہندوؤں کو گھروں میں ہتھیار رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ہتھیار ممکن نہ ہو تو اپنے گھروں میں سبزی کاٹنے والے چاقو کی دھار تیز کر الیں ؛تاکہ سبزی کاٹنے کے ساتھ اس سے دشمنوں کا سر بھی کاٹا جاسکے، سب جانتے ہیں کہ پرگیہ جب دشمن کا لفظ استعمال کرتی ہے تو اس کا اشارہ مسلمان اور بعض اقلیتوں کی طرف ہوتا ہے، اور وہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو ابھارنے اور جوش وولولہ پیدا کرنے کا کام پہلے بھی کرتی رہی ہے، اس کا پارلیامنٹ تک پہونچنا مسلمانوں کے خلاف اسی نفرت پھیلانے کا شاخسانہ ہے، وہ بابری مسجد کو فضلہ، نا تھو رام گوڈسے کو قابل تعریف اور دگ وجے سنگھ کو دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔
 عدالت کے فیصلے کے مطابق اس قسم کے نفرت انگیز بیانات کاپولیس کو از خود نوٹس لے کر ایف آئی آر درج کرنا چاہیے، لیکن جب پولیس نے از خود نوٹس نہیں لیا تو ترنمول گانگریس کے ترجمان ساکیت گوکھلے اور سیاسی قائد تحسین پونا والا نے کرناٹک پولیس کو باقاعدہ تحریری شکایت کی، لیکن شموگا کے اس پی ، جی کے متھن کمار نے جسمانی طور پر حاضر ہو کر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا، بڑی مشکل سے پرگیہ ٹھاکر کے خلاف ایف آئی آردرج ہو سکا اور اب کرناٹک پولیس نے تحسین پونے والا کو تحقیق میں شامل ہونے کا حکم دیا ہے، دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔
 اس معاملہ میں چوں کہ پولیس نے از خود اس نفرت آمیز تقریر کا نوٹس نہیں لیا ہے اسی لئے یہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی مخالفت اور عدالت کی توہین کے مترادف ہے،اس لیے ہتک عدالت کے قانون کے تحت معززججوں کوپولیس کوعدالت میں طلب کرنا چاہیے، کیونکہ اس قسم کے معاملات پر روک عدالت کی سختی سے ہی لگ سکتی ہے، بھاجپا حکومت سے ایسے معاملات میں کوئی توقع رکھنا فضول ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...