Powered By Blogger

جمعہ, فروری 03, 2023

پونجی کی حفاظت ضروری ہے

پونجی کی حفاظت ضروری ہے 
اردودنیانیوز۷۲

جمعرات کے دن ہم مولویوں کے ذہن میں چھٹی ہی سوار رہتی ہے، شام کے وقت جب گھر سے نکلنے پر اہلیہ نے پوچھا کہاں جارہے ہیں؟اچانک یہ جملہ منھ سے نکل گیا ؛آوارگی کرنے جارہا ہوں، بعد میں احساس ہوا کہ یہ جواب صحیح نہیں ہے،مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے،بہر کیف اسی ادھیڑ بن میں ارریہ شہر کے مولوی ٹولہ آنا ہوا، وہاں بھی سوال ہوا،مولوی صاحب! یہاں کیا کررہے ہیں؟ خلیل آباد مسجد میں آپ تمام مدرسہ والوں کا ضلعی جوڑ ہے،عشاء تک پروگرام ہے، جلدی جائیے، پہونچ گیا، پروگرام کی آخری کڑی جناب حضرت مولانا ایوب صاحب کی نصیحت ہورہی ہے، حضرت فرمارہے ہیں؛"آپ عالم انسانیت کی ہدایت کا ذریعہ ہیں، موجودہ حالات کو بدلنے کا ذریعہ علماء کرام ہی ہوسکتے ہیں، بس فکر مندی کی ضرورت ہے، رونے کی ضرورت ہے، علماء اللہ سے ڈرنے والی برادری کا نام ہے،قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ خشیت الہی عالموں میں ہوتی ہے،یہ یاد رکھئے کہ علم عمل کا امام ہے،جب علم کے ساتھ عمل نہیں جڑتا ہے تو علم رخصت ہوجاتا ہے، بہت سے لوگ تفسیر کا علم سیکھتے ہیں، حدیث کا علم سیکھتے ہیں، اس کا ماحصل اخلاق ہے،آج اس اخلاق کے علم کو پیش کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا علم ہدایت کا ذریعہ بن جائے، اس بات کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے، 
دعاؤں میں طاقت پیدا کرنے کے لئے یقین ضروری ہے ،یقین جس درجہ کا ہوگا اس کی دعا میں جان اتنی ہی ہوگی، عالموں کے لئے گناہ سے بچنے کی سخت ضرورت ہے، جب گناہ سے ایک عالم بچتا ہے جبھی اس کا علم راسخ ہوتا ہے، آپ اپنی قیمت کو پہچانیئے، آپ پوری امت کے سرمایہ اور پونجی ہیں، اگر پونجی ہی ڈوب گئی تو کاروبار ختم ہوجائے گا، پہلے پونجی کی حفاظت ضروری ہے"
واقعی مولانا نے دو منٹ کے اندر سب کچھ کہ دیا ہے اور ہمیں ذاتی طور پر یہ محسوس ہوا کہ واقعی بڑی چوک ہم سے ہورہی ہے، وہی طالب علمی کے زمانے کی کمیاں پوری عمر ہمارا پیچھا کررہی ہیں کہ آج جمعرات ہے اور چھٹی کا دن ہے، جبکہ  مولویوں کے لئے چھٹی نہیں ہے،ہمیں ہروقت یہ سبق یاد رکھنے کی ضرورت ہے، 
    ع۔۔ اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا 
 حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تاریخ دعوت وعزیمت کی پانچ جلدوں میں علماء کرام اور مصلحین مجدین کی فہرست پیش کی ہے،تیرہ سو سالہ تاریخ میں جنہوں نے اسلام کی احیاء، تجدید اور اصلاح کا کارنامہ انجام دیا ہے،
اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے کام میں حصہ لیا ہے،ان کی کوششوں سے اسلام زندہ اور مضبوط شکل میں موجود رہا ہے، کوئی زمانہ خالی نہیں رہا ہے،مگر آج یہ میدان خالی نظر آرہا ہے،مطلوبہ اوصاف سے ہم عاری نظر آرہے ہیں، ایسے میں عزم لینے کی شدید ضرورت ہے کہ ہم حالات کو بدلنے کے لئے پہلے اپنی حالت کو بدلیں گے، اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے، 

   خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
  نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا 

راقم الحروف 
ہمایوں اقبال ندوی ارریہ 
۲/فروری ۲۰۲۳ء

جمعرات, فروری 02, 2023

تیری معراج کے تو لوح وقلم تک پہونچامفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

تیری معراج کے تو لوح وقلم تک پہونچا
اُردو دنیا نیوز 72
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
طائف کی گلیوں سے اوباشوں کے پتھرکھا کھا کر ، لہولہان جسم اور رئیسوں کے طعن وتشنیع سن سن کر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ لوٹتے ہوئے نبی ¿ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف باچشم نم دیکھا، اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے:الہی اپنی کمزوری ، بے سروسامانی اور لوگوں میں تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں ، تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا، درماندہ اور عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے ، مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے ۔کسی بیگانہ ترش رو کے یا اس دشمن کے جو کام پر قابو رکھتا ہے اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے ۔“
زبان مبارک سے یہ کلمات نکل رہے تھے اور ادھر ملاءاعلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ آج جو کچھ ہوا وہ چشم فلک نے کاہے کو دیکھا ہوگا، فرشتوں میں سرگوشیاں ہورہی ہیں کہ آخر جس کے صدقے میں کائنات بنی، اسے اور کتنے مظالم سہنے ہوں گے ، رب کائنات کو بھی اس کی فکر تھی، اس لئے خالق کائنات نے اس شکستہ دل کی دل جوئی کے لئے طائف سے واپسی کے بعد ایسا نسخہ تجویز کیا کہ عروج نسل انسانی کی انتہا ہوگئی ، زمان و مکان کے قیود وحدود اٹھالئے گئے ، تیز رفتار سواری براق فراہم کی گئی ، مسجداقصی میں سارے انبیاءکی امامت کرائی گئی ، اور پھر اس جگہ لے جایا گیا؛ جہاں جاتے ہوئے جبرئیل کے بھی پر جلتے ہیں ،پھر قربت خداوندی کی وہ منزل بھی؛ آئی جس کے بارے میں قرآن کریم نے فکان قاب قوسین اوادنی کہہ کرسکوت اختیار کرلی ، ساتوں آسمانوں کی سیر ، جنت و جہنم کا معائنہ، ابنیاءکی ملاقاتیں ، اور پھر واپسی، کتنے گھنٹے لگے ؟ کیا تیز رفتاری تھی؟ سب کچھ رات کے ایک حصے میں ہوگیا ، اور صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ ¿مبارکہ سے نکلے ، اور لوگوں میں اس واقعہ کا اعلان کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تصدیق کرکے صدیق ہوگئے اور کئی نے تکذیب کرکے اپنی عاقبت خراب کرلی ، اور منافقین کے دل کی کدورتیں اور ایمان واسلام سے ان کی دوری، کھل کرسامنے آگئی ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر میں، عالم قدس میں اپنی تمام قولی ، بدنی اور مالی عبادتوں کا نذرانہ پیش کیا ، اور اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسی سلامتی بھیجی، جومومنین کے نمازوں کا جز ہوگیا ، اللہ کے رسول ، اس اہم موقع سے اپنی امت کو کیسے بھول سکتے تھے ،فورا ہی اس سلامتی میں مومنین و صالحین کو شامل کرلیا اور اس پورے مکالمہ کا اختتام کلمہ ¿ شہادت پر ہوا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔تحفے نورانی اس سفر میں اور بھی ملے ، ایسے تحفے جس سے مومنین بھی معراج کا کیف وسرور پا سکتے ہیں یہ تحفہ نماز کا تھا ، پچاس وقت کی نماز تحفہ میں ملی، قربان جایئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ، جنہوں نے بار بار بھیج کر تعدادکم کرائی اور بات پانچ پر آکر ٹھہری ، ثواب پچاس کا باقی رہا ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ نماز مومنین کی معراج ہے ۔ہم واقعہ ¿ معراج پر سر دھنتے ہیں ، دھننا چاہئے ۔لیکن اس واقعہ کا جو عظیم تحفہ ہے اس سے ہماری غفلت بھی لائق توجہ ہے ، معراج کے واقعہ کا بیان، سیرت پاک کا اہم واقعہ ہے ، ہم اس کو سن کر خوب خوش ہوتے ہیں ، جلسے جلوس بھی منعقد کرتے ہیں اور اس خاص تحفہ نماز کو بھول جاتے ہیں جو ہمارے لئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ، اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جہاں ہمیں کچھ کرنانہیں ہوتا، وہاں ہم بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، اور جہاں کچھ کرنے کی بات آتی ہے ہم اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں اور ان سے پہلو تہی کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہو توہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری رہیں گی اور رحمت ونصرت کی وہ پرُوائی چلے گی جو مصائب والم کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی ۔یہ حال تو ہمارا معراج کے اس تحفہ کے ساتھ ہے جس کا ذکر معراج سے متعلق گفتگو میں بار بارآتا رہتا ہے ۔ لیکن قرآن نے تو”فَاَو ±حَی اِلیٰ عَب ±دِہِ مَا اَو ±حٰی“کہہ کر ہمیں بتایا کہ باتیں اور بھی ہیں اور سورہ اسریٰ ہی میں بارہ احکام کے ذکر کے بعد”ذَالِکَ مِمَّا اَو ±حَی اِلَی ±کَ رَبُّکَ مِنَ ال ±حِک ±مَةِ“(یہ تمام باتیں دانش مندی کی ان باتوں میں سے ہیں جو خدا نے آپ پر وحی کی ہیں) کہہ کر واضح کردیا کہ”مااوحی“ میں کیا کچھ تھا، آیئے ان احکامات پر بھی ہم ایک نظر ڈالتے چلیں ۔
۱۔ سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا کہ شرک نہ کرو: کیوں کہ یہ بڑا ظلم ہے ، وہ اللہ جو اس سارے کائنات کا خالق اورمالک ہے اس کے ذات وصفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے ، اللہ اس بارے میں اتنا غیور ہے کہ اس نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اس گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ ”اِنَّ اللَّہَ لاَ یَغ ±فِرُاَن ± یُش ±رَکَ بِہِ وَیَغ ±فِرُمَا دُو ±نَ ذَالِکَ لِمَن ± یَشَائ۔“
۲۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو ان کی عزت واطاعت کرو ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو جھڑکنا تو بڑی بات ہے ، اف تک نہ کہو ، اور ان سے ادب سے باتیں کیا کرو ، اور ان کے سامنے اپنے کندھے عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ جھکا دو ، اور ان کے لئے دعا بھی کرتے رہو کہ اے رب ان پر رحم کر جیسا کہ انہوں نے مجھے صغر سنی میں پا لا۔واقعہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم ہے اور جس طرح اللہ کا شکر ضروری ہے ، اسی طرح والدین کا بھی شکرگذار ہونا چاہئے ، اس بارے میں احادیث بھری پڑی ہیں، لیکن ہم میں کتنے ہیں جو ان کا پاس و ادب قرآن کے مطلوب انداز میں کرتے ہیں حالانکہ مستدرک حاکم کی ایک روایت ہے کہ اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے ، اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے اور یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ حسن سلوک کے لئے ان کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہے ۔
۳۔ حق داروں کے حق کی ادائیگی کرو : والدین کے علاوہ بہت سے اعزو اقربائ، مسکین اور مسافر کے بھی حقوق ہم سے متعلق ہیں اور ہم ان کے ساتھ جو حسن سلوک کررہے ہیں یا کریں گے اصلا یہ ان کے حق کی ادائیگی ہے ان پر احسان نہیں ہے ۔
۴۔ فضول خرچی اور اسراف سے بچو : کسی گناہ کے کام میں اور بے موقع خرچ کرنے یا ضرورت سے زائد خرچ کرنے سے بھی منع کیا گیا ، اسی کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے ہاتھ بخالت کی وجہ سے گردن سے باندھ کرنہ رکھو ، اور نہ اس طرح کشادہ دست ہوجاﺅ کہ فقر و فاقہ کی نوبت آجائے ، خلاصہ یہ کہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے ،اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپناﺅ ۔
۵۔ مفلسی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو: اس لئے کہ روزی ہم تم کوبھی دیتے ہیں ان کو بھی دیں گے ، ان کا مارنا بڑی خطا ہے دراصل اس حکم کا تعلق اللہ کی صفت رزاقیت سے جڑا ہوا ہے ، بچوں کو اس خوف سے ماردینا یا ایسی ترکیبیں کرنا جس سے ان کی ولادت ممکن نہ ہو ، اللہ کی صفت رزاقیت پر یقین کی کمی کا مظہر ہے ،جب اللہ کا اعلان ہے کہ روئے زمین پرجتنے جاندار ہیں سب کا رزق میرے ذمہ ہے ۔اورمیں رزق اس طرح دیتا ہوں جو بندہ کے وہم وگمان سے بھی بالاتر ہے ۔اس صورت میں مفلسی کے خوف سے اولاد کا قتل کرنا، کس طرح جائز ہوسکتا ہے ۔
۶۔ زنا کے قریب مت جاﺅ: اس لیے کہ یہ بے حیائی کا کام ہے اور یہ برا راستہ ہے ، حدیث میں ہے کہ زانی زنا کرتے وقت مسلمان نہیں رہتا ، ایمان اس کے قلب سے نکل جاتا ہے ،آج جس طرح فحاشی بے حیائی اور کثرتِ زنا کے واقعات پیش آرہے ہیں اس سے پورا معاشرہ فساد وبگاڑ میں مبتلا ہوگیا ہے ، کاش اس حکم کی اہمیت کوہم سمجھتے ۔
۷۔ ناحق کسی کی جان مت لو: حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ قتل ناحق حرام ہے ، اور یہ ایسا جرم عظیم ہے کہ اسے قرآن میں ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا، اسی طرح اگر کسی نے ایک جان کو بچالیا تو گویا اس نے بنی نوع انسان کی جان بچالی ، اس حکم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے ۔
۸۔ یتیم کے مال کے قریب مت جاﺅ: یتیم اپنی کمزوری اور کم سنی کی وجہ سے اپنے مال کی حفاظت نہیں کرسکتا ، اس لئے بہت سے لوگ اسے سہل الحصول سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، اس حکم میں ہڑپ کرنے اور نائز جائز تصرف کرنے کا معاملہ تو کجا؟ اس کے قریب جانے اورپھٹکنے سے بھی منع کیا، کمزوروں کی اس قدر رعایت صرف اسلام کاحصہ ہے ۔
۹۔ اپنا عہد پورا کرو،معا ہدہ کی خلاف ورزی سے بچو، اس لئے کہ وعدوں کے بارے میں بھی پرشش ہوگی یعنی جس طرح قیامت میں فرائض واجبات کے بارے میں سوالات ہوں گے ، ویسے ہی معاہدات کے بارے میں بھی سوال ہوگا ، عہد کے مفہوم میں وعدہ بھی شامل ہے اسی وعدہ خلافی کو حدیث میں عملی نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
۰۱۔ ناپ تول میں پیمانہ اور ترازو کو ٹھیک رکھو :یعنی ڈنڈی نہ مارواورنہ کم ناپو، اس لیے کہ انجام کے اعتبار سے یہ اچھا اور بہتر ہے ، اگر تم نے ناپ تول میں کمی کی تو جہنم کے ’’ ویل‘‘ میں ڈالے جاﺅ گے یہ تواخروی عذاب ہے ، دنیاوی اعتبار سے پیمانے اور اوزان ٹھیک رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تجارت میں برکت بھی ہوگی ۔کاروبار بھی خوب چمکے گا۔
۱۱۔ جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل مت کرو: کیوں کہ کان، آنکھ ، اور دل سب کے بارے میں قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی ، ہمارا حال یہ ہے کہ ایک بات سن لیا اور بغیرکسی تحقیق کے اسے دوسروں سے نقل کردیا ۔یا اگر کچھ فائدہ نظر آیا تو اپنی زندگی میں اتارلیا ،قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں خبر کی تحقیق کا حکم دیا گیا ہے کہ اگرتم بغیر تحقیق کے کام شروع کردوگے تو کبھی تمہیں ندامت کاسامنا کرنا پڑے گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ کفی بالمرءکذبا ان یحدث ماسمعہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس نے جو سنا ہے وہ بیان کردے ، آج جب سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق کے نمک مرچ لگا کر بیان کرنے کا مزاج بن گیا ہے اورسنی سنائی باتوں پر عمل کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔ تو ہمیںدنیامیں ندامت کا سامناکرناپڑسکتا ہے اور آخرت کی رسوائی الگ ہے ، جہاں مجرموں کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے ہاتھ بولیں گے ، پاﺅں گواہی دیں گے کہ ان اعضاسے کیسے کیسے کام لئے گئے ۔
۲۱۔ اور آخری حکم اس سلسلے کا یہ ہے کہ زمین پر مغرور بن کر مت چلو : اس لئے کہ تم اپنے اس عمل سے نہ تو زمین کی چھاتی پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑ کی چوٹی سر کرسکتے ہو ، گویا یہ ایک احمقانہ فعل ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں پستی ذلت وخواری تمہارا مقدر ہے ، کیوں کہ قدرت کا اصول ہے کہ اکڑ کر نیچے آیا جاتا ہے اوپر نہیں ، اوپر جانے کے لئے جھک کر جانا ہوتا ہے جو کبر کی ضد ہے ۔آپ کو جب پہاڑ پر چڑھنا ہو تو جھک کر ہی چلنا ہوگا ، سائیکل اونچی سڑک پر چلا رہے ہوں یا پیدل ہی نیچے سے اوپر کو جارہے ہوں تو جھک کر چلنا ہوگا، ورنہ آپ الٹ کر کھائی میں جاگریں گے ، معلوم ہوا کہ اوپر جانے کے لئے جھکنا ہوتا ہے لیکن جب پہاڑ سے نیچے آنا ہو تو اکڑکر آنا ہوتا ہے اس لئے کہ اگر جھک کر آئے گا تو ڈھلک کر کھائی میں جا پڑے گا ۔ البتہ یہ جھکنا جاہ ومنصب اور کسی آدمی کے خوف سے نہ ہو بلکہ جھکنا صرف اللہ کے لئے ہو اسی کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے من تواضع للہ رفعہ اللہ سے تعبیر کیا ہے ۔
یہ ہے درحقیقت معراج کا پیغام اور تحفہ، جن پر عمل کرنے سے یہ دنیا جنت نشاں ہوسکتی ہے ، آج ہم نے اس پیغام کو بھلا دیا ہے ، اور شب معراج کے ذکر سے اپنی محفل کو آباد کر رکھا ہے حالانکہ شب معراج تو ہمیشہ ہمیش کے لئے وہی ایک رات تھی جس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں تشریف لے گئے تھے ، قیامت تک کوئی دوسری رات شب معراج نہیں ہوسکتی ہے ، وہ تاریخ آسکتی ہے ، لیکن وہ نورانی رات پھر کبھی نہیں آئے گی، ہم نے بھی اپنی جہالت وغفلت سے کیسی کیسی اصطلاحیں وضع کر رکھی ہیں اللہ تعالی ہم سب کو شب معراج میں دیئے گئے پیغام کی اہمیت ومعنویت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ، آمین یا رب العلمین وصلی اللہ تعالی علی النبی الکریم وعلی الہ وصحبہ اجمعین۔

گد ا گر ی کتنے افسوس کی بات ہےکہ دنیا میں آج تک گداگروں کی مردم شماری نہیں ہوئی۔ہوئی ہوتی

             گد ا گر ی   

اردو دنیا نیوز ٧٢
        کتنے افسوس کی بات ہےکہ دنیا میں آج تک گداگروں کی مردم شماری نہیں ہوئی۔ہوئی ہوتی تو لوگوں کو پتا چلتا کہ کتنے ملین افراد اس قوم میں پائے جاتےہیں۔یہ کم وبیش دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی کثرت تعداد پرلوگوں سےاپنالوہامنوائے ہوئے ہیں۔آپ صرف انڈیا کو لے لیجئے۔ مشاھدہ بتاتا ہے کہ یہاں گداگرو ں کافی صدحیرت انگیزہے۔ دنیاجیسےجیسےترقی کر تی جارہی ہے،یہ قوم بھی خوب پھل پھلول رہی ہے۔گداگری اب ایک پروفیشنل بزنس بن چکی ہے۔وہ توکہئےکہ ابھی تک سیاسی لیڈروں کی نگاہ ان کے تناسب پر نہیں پڑی ورنہ یہ قوم اور بھی ترقی کرتی۔شہر شہر قصبہ قصبہ قریہ قریہ، گلی گلی کوچہ کوچہ ہر جگہ گداگروں کی موجودگی درج ہے۔یہاں تک کہ جہاں کوئی نہیں ہوتا وہاں بھی یہ موجود ہوتے ہیں۔ ان کی ذات وصفات بھی مختلف ہیں۔ان کے انداز بھی جداجداہیں۔ 
       اسلام نے گداگری کو سخت ناپسند کیاہے۔ 
اس کی مذمت کی ہے اوربلا ضرورت کسی کے آگے دست سوال درازکرنےکومعیوب کہاہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اسی اسلام کوماننے والی مسلمان قوم میں گداگروں کی تعدادریکارڈتوڑہے۔ایسا اقتصادی بحران کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس قوم میں حرام خوروں کی بہتات ہوگئی ہے۔اسلام کہتاہے کہ اپنی زکات اور صدقات کومستحق تک پہنچاؤ۔انھیں تلاش کرو کہ غیرت کی وجہ سے وہ دست سوال نھیں پھیلاتے۔وہ ضرورت مند ہوتے ہیں مگر بھیک مانگنے سے حیاکرتےہیں،تو انھیں تلاش کرو۔وہ مستحق ہیں۔
     مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ نادانستہ مستحق کونظراندازکرتےہوئےعام طورسے غیر مستحق کوزکات وخیرات د ے کران کی حوصلہ افزائی کرتے رہتےہیں۔ اس طرح زندگی کے سب سے آسان اورنفع بخش راستے پر چلنے والی بھیڑ میں اضافہ ہوتاجاتاہے۔لوگ نیکی کر کے دریا میں ڈالتے رہتےہیں۔
      اندراگاندھی نے ایمرجنسی پیریڈ میں بھیک مانگنے پر پابندی عائدکردی تھی۔ سخت پابندی کی وجہ سے کہیں کوئی گداگر نظر نہیں آتاتھامگرایسانہیں ہوا کہ گداگر بھوکوں مرنےلکےہوں۔ بھوک سے کسی گداگر کےمرنےکی خبر نھیں آئی تھی۔
     فی زمانہ مسلم قوم میں گداگری کاپیشہ بےحد مقبول ہے۔ خوب ترقی پزیر ہے۔آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں بھیک مانگنے والا یا مانگنےوالی مرگئی تو اس کے گھر سے لاکھوں روپئے برآمد ہوئے۔ایک گداگرنےتوحدہی کردی۔اس نے اپنے ہونے والے
خسر یعنی متوقع بیوی کے باپ سے جہیز میں وہ علاقہ طلب کیا جو کافی زرخیز تھا۔اس شرط پر لڑکی کاباپ راضی ہوگیااور بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی حالانکہ لڑکی بھی خالص بزنس میڈم تھی۔ نقاب میں گھر گھر جا کر اپنی شرافت کی دہائی دیتے ہوئے خوب کمالیتی تھی۔ 
رنگ رنگ کےگداگر۔رنگ رنگ کےحلیے۔رنگ رنگ کی صدائیں۔ نئے نئے انداز۔دعاؤں کاپٹارہ لیے ہوئے گلی گلی گھومتےرہتےہیں۔زبان حال سے کہتے رہتے ہیں۔ آتے جاؤ، پھنستےجاؤ،،بھولے بھالے، سادہ لوح،نیک لوگ ان کا شکار ہوتے ہیں۔
   ایک صاحب کے بارےمیں مشہور ہے کہ وہ ممبئی میں گداگری کرتےتھے۔ کا فی بڑےعلاقہ پرقابض تھے۔ سکہ جم گیا تھا۔خوب کماتےتھے۔ہرماہ ڈھیروں روپیہ گھربھجتےتھے۔گھر والوں کوبتارکھاتھاکہ وہ دبئی میں ایک اچھی پوسٹ پر ہیں۔ 
    ایک روزہم کسی کام سےبازارگئےتوایک عجیب وغریب تماشا دیکھا۔ایک فقیرنےدونوں ہاتھوں میں کاسےلے رکھےتھے۔دائیں ہاتھ کا کاسہ ہمارےسامنےکرتےہوئےکہا-
      ۔۔ بابا۔!خدا کے نام پر ایک روپیہ دیتاجا۔تیرےبچےجیئں۔ تجھے حج نصیب ہو۔تیری ساری مرادیں پوری ہوں۔خداشادوآبادرکھے۔،، 
       ایک روپیہ میں اتنی ساری دعائیں پاکر ہم نہال ہوگئے۔ایک روپئےکاسکہ اس کے کاسہ میں
 ڈال کر پوچھا۔۔بابا۔! یہ تم نے دونوں ہاتھوں میں کا سے کیوں لے رکھے ہیں۔؟،،   
    فقیرنےجواب دیا۔۔کاروبار ترقی پرہے۔میں نےپچھلےہفتےسے ایک برانچ آفس کھول دیا ہے۔۔ ہم لاحول پڑھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ 
      ان گداگروں کی بہت ساری پلٹنیں اور کوالٹیاں ہیں۔ایک فقیرنےکسی بڑے آدمی کے درپرصدالگائی تواندرسےآواز آئی۔۔بابا معاف کرو،بی بی جی گھر میں نہیں ہیں۔۔،  
      فقیرنےنہایت معصومیت سے کہا۔۔ایک دوروپئےخیرات کردو بابا۔مجھےبی بی جی کی ضرورت نہیں ہے۔،، 
     ۔۔بانکےسائیں نے سیٹھ جی سےکہا۔۔۔سیٹھ جی۔!تین سال پہلے تم مجھے ہرجمعرات کو پانچ روپئےدیاکرتےتھے۔دوسال سے تین روپئے دینےلگے۔اب ایک روپیہ پرٹرخارہےہو۔۔؟ ،، 
     سیٹھ جی نے بڑی نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔سائیں!دوسال پہلے میری شادی ہوگئی تھی۔تم جانتے ہو کہ شادی کےبعدخرچہ بڑھ جاتاہے۔ 
اورپھر دوسال میں دو بچے بھی ہوگئے۔خرچہ اور بڑھ گیا۔،، 
      ۔۔بہت خوب۔بہت خوب۔،، بانکےسائیں بولے۔توگویامیرا
روپیہ تم اپنے کنبہ پرلگارہےہو۔؟،، 
     ایک گداگر کایہ انداز بھی دیکھئے۔اورقربان جائیے۔ اس نے
 ایک دروازہ پرصدالگائی۔۔بی بی جی۔!خدا کے نام پر کچھ خیرات کردو۔آج جمعرات کا مبارک دن ہے۔دل کی مراد پوری ہو گی۔شادوآبادرہوگی۔بچےجیئں گے۔مال و اموال میں،آل و اولادمیں برکت ہوگی۔،،
        سائل کی آوازسن کر دروازہ میں ایک شخص نمودار ہوا۔بڑی لجاجت سے بولا۔۔ 
      ۔۔سائیں! میری ایک ہی دلی مرادہے۔پوری کردوتوبڑااحسان ہوگا۔،،
      ۔۔ فقیرسےدل کی بات کہہ دےبیٹا۔،،سائل نے قلندرانہ شان سےکہا۔ہم دعا کریں گے اور تیری مرادضرورپوری ہوگی۔،، 
        ۔۔بابا جی!افسوس کہ آج جمعرات کے مبارک دن آپ کودینےکےلیےمیرےپاس کچھ بھی نہیں۔ایسا کرو کہ اگرلےجا سکوتومیری بوڑھی ساس کو خیرات میں اپنےساتھ لیتےجاؤ۔۔
         ۔۔میں خیرات میں بوڑھی ساس نہیں لیتا۔،،سائل نے منھ بنا کر جواب دیا۔
        ۔۔ توپھرباباجی! میری ساس کےلیے کوئی ایسی اثر اندازدعاکردوکہ اس سے میرا
پیچھا چھوٹ جائے۔کم بخت نے اپنی بیٹی کے کان بھربھرکےمیرا جیناحرام کررکھاہے۔کوئی تعویز
 ہی عنایت کردو۔،، 
      ۔۔ بیٹا!ساس ایسی مخلوق ہےجس کے حق میں کوئی دعا
 قبول ہوتی ہےنہ تعویذ،گنڈے کام آتےہیں۔۔میں نےتجھےمعاف کردیا،توبھی مجھےمعاف کردے۔
    دامادکوسخت مایوسی ہوئی اور سائل خداسےامان طلب کرتا ہواآگےبڑھ گیا۔ 
        اس دن سلیم سیٹھ بہت اداس تھے۔برآمدے میں کرسی پر اداس بیٹھے کسی سوچ میں غرق تھے۔اچانک ایک گداگر ان کے سامنےآکھڑاہوا۔
        ۔۔سیٹھ جی!خدا کے نام پر کچھ دیجئے۔
        ۔۔ معاف کروبابا۔،، 
          گداگر۔۔کیسے معاف کردوں۔؟الله نے آپ کو بہت کچھ دےرکھاہے۔خدا آپ کو اورترقی دےگا۔کچھ تو خیرات کردیجئے۔آپ کےبچے پھولیں پھلیں۔،، 
         سیٹھ جی۔۔ کہہ دیا نا بابا معاف کرو۔آگےبڑھو۔ابھی کل ہی تو
 میرے مکان میں چوری ہوئی ہے۔چور کم بخت میری بیوی کو چھوڑ کر سب کچھ سمیٹ لےگیا۔،، 
      گداگر۔۔تو پھر اپنی بیگم صاحبہ کو ہی خیرات میں دےدیجئے۔خدا آپ کو دو بیویاں عطاکرے۔،، 
     سیٹھ جی۔۔بھاگ جاؤ۔کیسی بےہودہ خیرات مانگتےہو۔شرم نہیں آتی۔؟،، 
        گداگر۔۔ کیا کروں بھائی۔میرےپاس تو بے ہودہ بھی نہیں ہے۔آپ ذرا دل کو بڑا کر لیں اور جی کوکڑاکرلیں۔میں اسےباہودہ بالوں گا۔،، 
        سیٹھ جی۔۔کیبےبےشرم اوربےحیامانگنے
والےہو۔ٹلنےکانام ہی نہیں لیتے۔کہہ دیا آج ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔،، 
          گداگر۔۔توپھرائےشریف اورمحتاج آدمی!فالتواوربیکارکیوں بیٹھےہو؟جب کچھ نہیں بچا ہے تو اپنی بیگم سمیت ہمارے ٹولے میں کیوں نہیں شامل ہو جاتے۔؟بہت جلد چوری گئے مال سےزیادہ واپس آ جائے گا۔گارنٹی میں لیتاہوں۔،، 
        سیٹھ جی(غصہ سےکانپتےہوئے)بس اب خیریت اسی میں ہے کہ تو جلدی سے بھاگ جا ورنہ ابھی نوکروں کوبلاتاہوں۔،، 
       گداگر۔۔ جاتا ہوں بابا،جاتا ہوں۔میں تو آپ کو دکھی سمجھ کر آپ کےبھلےکےلیےہی کہہ رہاتھا۔آپ نہیں چاہتے توآپ کی مرضی۔،، 
     گداگر کی باتوں سے تنگ آکر سلیم سیٹھ
حلق پھاڑکردہاڑے۔۔ ابےجاتاہےیااٹھاؤں ڈنڈا۔؟،، 
     ناسازگارحالات کودیکھتے ہوئےگداگر نےبھا گ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔وہ بڑبڑاتاجا
رہاتھا۔۔بڑا بیوقوف آدمی نکلا۔۔میں نے اس کے ساتھ ہمدردی کی۔نیک مشورہ دیا پروہ نہیں مانا۔گداگری کرتا تو بہت جلد ترقی پاجاتا۔بد نصیب ہے بے چارہ۔۔۔،،، 
      آپ نےگداگرکی ڈھٹائی دیکھی۔۔یہ توکچھ  بھی نہیں۔اس سے بھی بڑے بڑے ڈھیٹ آپ  کےدروازہ پر دستک دیتے ہوں گے۔اس لیے ہر دستک کومزدہء جاں فزانہ سمجھیں اور دیکھ بھال کر دروازہ کھولیں۔ہوسکتاہےدروازہ پر خطرہ موجودہو۔۔
        رمضان المبارک رحمتوں کا مہینہ ہے۔اس مہینے میں بڑی خیروبرکت ہے۔خاص طور سے گداگروں کےلیےبہارکاموسم ہوتا ہے۔دنیابھر کے گداگر اجتماعی طورپرنمودارہوتےہیں۔اوراس طرح چھاپوں پرچھاپےمارتےہیں کہ گویا سالانہ لگان وصول کر رہے ہوں۔نتیجے میں جو لوگ زکات وخیرات اور صدقات کےمستحق ہوتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں۔اورغیر مستحق مالامال ہوجاتے ہیں۔ 
       ہمارےمیردانشمندگداگری کوایک قومی مسئلہ مانتےہیں۔کہتےہیں۔۔یہ گداگر قوم کے لیے ذلت و رسوائی کا سبب ہیں۔ان کی حوصلہ افزائی بھی خوب کی جاتی ہے۔سادہ لوح طبیعت لوگ گداگروں سے بہت ڈرتے اور انھیں پیرومرشد تک مان لیتے ہیں۔وہ لوٹتے ہیں اور یہ دل کھول کرلٹتےہیں۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ہم کمائیں اور تم کھاؤ۔انھوں نے ضعیف اور معذوروں کواس سے مثتثنی رکھاہے۔ایک بارایک تندرست اور ہٹے کٹےفقیرکونصیحت کرتے ہوۓ انھوں نےکہا۔۔ 
         میاں جی!تمھیں خدا سے ڈر نہیں لگتا۔ 
اچھےخاصےہو۔صحت بھی قابل رشک ہے،پھر بھی بھیک مانگتےہو۔چاہوتودوچارلوگوں کو اورکماکرکھلاسکتےہو۔پھربھیک کیوں مانگتے ہو۔کچھ کام دھندہ کیوں نہیں کرتے۔؟،، 
      گداگرنےجواب دیا۔۔ہم بھیک مانگنا چھوڑ دیں توآپ خیرات کس کو دو گے۔ہمارا احسان مانو کہ ہم خیرات لےکر ثواب کمانے کا موقع دیتےہیں۔،، 
       میردانشمنداس گداگرپربہت ناراض ہوئے۔
کیامدرسےاوریتیم خانےبندہوگئےہیں؟ہم تم جیسے کام چوروں کو خیرات وصداقت کیوں دیں۔۔،، 
    گداگروں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کااندازہ
لگانا کچھ مشکل نہیں۔صورت حال یہ ہےکہ کسی کے والد، والدہ،بیوی،بھائی،بھتیجہ،عزیز و اقارب کسی کا فاتحہ ہو،تیجہ ہو،چالیسویں ہویامرنےوالےکی سالانہ تقریب۔!کسی فقیر سے کہئے کہ باباکھاناکھالیجئےتوباباکاسوال ہوگا  کہ پہلےسوروپئے یا پچاس روپئےدوتب کھائیں گے۔باباکوکھلانااس لیے ضروری ہےکہ لوگوں کے بےہودہ خیال میں اگر ان کو نہ کھلایا پلایا جائےتو میت کی مغفرت کےلیے مسئلہ پیدا ہو
ہوسکتاہے۔ان گداگروں میں ایک اضافی خصوصیت کاعلم فلم انڈسٹری والوں کوابھی تک نہیں ہو پایا ہے کہ میکپ کے فن میں یہ کتنی مہارت رکھتےہیں۔اگر علم ہوجائےتوکتنے
ہی فلمی میکپ مینوں کی روزی جاتی رہے اور وہ گداگری بلکہ گدھاگری پر مجبور ہو جائیں۔ 
    ***
                     انس مسرور انصاری 
   قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) 
  سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکر نگر۔یو،پی۔ 
             رابطہ/9453347784

بدھ, فروری 01, 2023

من کی دنیا من کی دنیا،سوزو مستی،جذب وشوق

من کی دنیا من کی دنیا،سوزو مستی،جذب وشوق
اردو دنیا نیوز٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

ہمارے دماغ میں جو منفی جذبات ابلتے ، پلتے اور بڑھتے ہیں، اس کی وجہ فطری اور قدرتی اصولوں کو نظر انداز کرنا ہے، جس کی وجہ سے ہم چاہتے کچھ اور ہیں، ہو کچھ اور جاتا ہے، مزاج کے خلاف وجود پذیر واقعات ، حالات اور حادثات کبھی کبھی ہمیں اندر سے توڑ کر رکھ دیتے ہیں، ہمارے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں، احساس کی اس خنکی کا اثر ہمارے دل ودماغ پر پڑتا ہے اور ہمارے اندر سے گرمئی کردار جاتی رہتی ہے، تصوف کی اصطلاح میں اسے قبض سے تعبیر کرتے ہیں اور جب جذبات میں گرمی ہوتی ہے تو انسان کے اندر بسط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں مسرت وشادمانی اور سرور وانبساط کی تیز لہر دل ودماغ میں دوڑتی ہے اور ہم انشراحی پوزیشن میں ہوتے ہیں، موقع کے اعتبار سے نہ قبض بری چیز ہے اور نہ بسط، دونوں خالق کائنات کی دو صفت کے مظہر ہیں، اللہ قابض بھی ہے اور باسط بھی ، اس لیے ہمیں دونوں کیفیات کو انگیز کرنا چاہیے اور بد دل نہیں ہونا چاہیے، راضی برضائے الٰہی کا یہی مطلوب ومقصود ہے، اس کے باوجود اسباب کے درجہ میں ہمیں ان اصولوں کو اپنا نا چاہیے، جس سے انسان کے ذہن ودماغ میں انشراحی اور انبساطی کیفیت پیدا ہو سکے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے میں سب سے اہم رول حسد کا ہے، کسی کی اچھی حالت کو دیکھ کر دوسرے کے لیے زوال نعمت کی تمنا کرنا حسد ہے، اور حاسدین کی قسمت میں دنیا اور آخرت دونوں میں جلنا لکھا ہے، دنیا میں اس جلن کے نتیجے میں وہ گھٹ گھٹ کر جیتا ہے اور آخرت میں جلانے والی آگ اس کے انتظار میں ہے۔ اللہ نے حاسدین کے حسد سے پناہ چاہنے کی تلقین کی ہے۔
حسد اور رشک میں بڑا فرق ہے، رشک کسی کی اچھی حالت دیکھ کر اپنے کو اسی حالت میں پہونچنے کی تمنا کرنا ہے، یہ اچھی چیز ہے، اس کی وجہ سے آگے بڑھنے اور مسابقہ کا مزاج پیدا ہوتا ہے ، حسد میں اپنے لیے حصول نعمت کے بجائے دوسرے کے زوال نعمت پر توجہ مرکوز رہتی ہے ، ایک لطیفہ سنئے:” ایک بزرگ کے پاس دعا کے لیے ایک شخص حاضر ہوا، بزرگ نے کہا کہ دعا تو میں کردوں گا، لیکن جو اللہ تمہیں دے گا اس کا دوگنا تمہارے پڑوسی کو مل جائے گا، اس شخص کا مزاج حسد کا تھا، اس لیے بہت پریشان ہوا کہ کس بات کی دعا کرائے، سوچتے سوچتے اس نے بزرگ سے درخواست کی کہ میری ایک آنکھ پھوٹنے کی دعا کر دیجئے، اس کی سوچ یہ تھی کہ جب ہماری ایک آنکھ پھوٹے گی تو دوسرے کی دونوں پھوٹ جائے گی۔“ ہے تو ایک یہ لطیفہ ، لیکن اس میں بڑی عبرت کی بات پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر دل میں حسد ہو تو انسان اللہ سے بھی دوسروں کا نقصان طلب کر بیٹھتا ہے، ایک بڑے مفکر کا قول ہے کہ لوگ اپنے د ±کھوں سے اس قدر دکھی نہیں ہیں، جتنا دوسروں کے سکھ دیکھ کر دکھی ہیں۔ ایسی سوچ رکھنا بہت بری چیز ہے، انسان کو ہمیشہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے خیر کا طلبگار ہو نا چاہئے۔اس لیے ضروری ہے کہ من کو حسد سے پاک رکھیے اور اپنے جذبات فکر اور سوچ میں ایک توازن رکھیے ، بے اعتدالی سے ہمارے کام بگڑتے ہیں، بے اعتدالی یہ بھی ہے کہ ہر وقت دوسرے کی شکایت کرتے رہیے، اس کو مذاق کا موضوع بنائیے، استہزاءسے کام لیجئے، اس سے ہم سوائے اپنا مخالف پیدا کرنے کے کچھ حاصل نہیں کر پاتے اور لوگ ہم سے کٹ جاتے ہیں، آپ چند لوگوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر وقتی فوائد تو حاصل کر سکتے ہیں، لیکن اس طرز عمل سے آپ لوگوں میں محبوب اور مقبول نہیں بن سکتے، محبوب ومقبول بننے کے لیے توازن کے ساتھ لوگوں کی خدمات کو سراہنا اور ماحول کو خوش گوار بنائے رکھنا ضروری ہے ، ورنہ نا خوش گوار ماحول میں زندگی آپ کے لیے بھی دشوار تر ہوتی جائے گی اور مسائل ومشکلات سے نکلنا آپ کے لیے آسان نہیں ہوگا کیوں کہ فطرت اور قدرت کا روز ازل سے یہ اصول ہے کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے، آپ گیند کوجس قوت کے ساتھ دیوار پر مارتے ہیں اسی قوت کے ساتھ وہ اچھل کر آپ کی طرف آتا ہے، اسی کو دوسرے انداز میں شاعر نے کہا ہے کہ ”ہے یہ گنبد کی صدا، جیسی کہو ویسی سنو“۔
 اس دنیا میں اتفاق کوئی معنی نہیں رکھتا ، سب بندھے ٹکے اصول کے مطابق ہوتا ہے، امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں اتفاقا کچھ نہیں ہوتا ،سب کچھ اللہ کے یہاں لکھا ہوا ہے، اسی کے مطابق واقعات ترتیب سے وقوع پذیر ہوتے ہیں، فرمایا کرتے: اتفاقا حادثہ ہو گیا، کا کوئی معنی مطلب نہیں ہے، اللہ کے نزدیک یہ حادثہ مقدر تھا اس لیے ہو گیا، اتفاق یہاں کہاں سے آگیا؟ حضرت کی یہ رائے تھی گو بول چال کی زبان میں اور حادثات کا علم بندے کو پہلے سے نہ ہونے کی وجہ سے اتفاق ہی معلوم ہوتا ہے، حضرت اتفاقا سے حقیقی معنی ومطلب مراد لیتے تھے اور عام بول چال میں یہ مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے ، حالاں کہ حقیقت تو یہی ہے کہ کوئی کام اتفاقا نہیں ہوتا، سورج پورب سے نکلتا ہے، نکلے گا ، مغرب میں غروب ہوتا ہے ، غروب ہوگا، سردی، گرمی اور برسات کے اسباب بھی مقرر ہیں ، اس لیے ہم چاہ کر بھی الٹا چکر نہیں چلا سکتے کہ سورج مغرب سے طلوع ہونے لگے اور مشرق میں جا کر ڈوبے ، میں قیامت کی بات نہیں کر رہا، روز کے معمولات کا ذکر کر رہا ہوں۔
 اگر آپ سب کی عزت نفس کا خیال رکھیں گے تو آپ کو عزت ملے گی، اگر آپ دوسروں کو ذلیل کریں گے تو خود بھی ذلیل ہوں گے ، قدرت کا مکافات عمل کا جو اصول ہے، آپ ا س سے بچ کر نہیں گذر سکتے، نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب بات کہی ہے کہ ”کیا خوب سودانقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے“ آج صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ ہمارے جذبات واحساسات اس قدر سرد پڑ گئے ہیں کہ لگتا ہے انسان مشین ہو گیا ہے، جس طرح خود کا ر مشینوں کو صرف کام سے مطلب ہوتا ہے، وہ بے حس ہوتی ہے ، اسی طرح ہم بے حس ہو گئے ہیں، مشینوں میں تو جذبات ہوتے ہی نہیں، ہم میں جذبات موجود ہیں، لیکن ہم جس سماج اور خاندان میں رہتے ہیں، اس نے ان جذبات کی پرورش صحیح انداز میں نہیں کی اور ہم اپنے جذبات کو سنبھالنے پر قادر نہیں ہو سکے، جو ان ہوئے تو زندگی مشینی انداز کی ہو کر رہ گئی،اور دیکھتے دیکھتے یہ اس قدر ہماری زندگی میں داخل ہو گیا کہ ہمیں جذبات واحساسات کی قدر کرنے اور اسے محفوظ رکھنے کا خیال ہی دل ودماغ سے جاتا رہا ، ہمارے پاس موبائل اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اطلاعات، معلومات کا اس قدر ذخیرہ جمع ہے کہ ہم انہیں میں الجھ کر رہ گیے ہیں، ہمیں جذبات کو منظم کرنے اور انہیں ترقی دے کر عملی زندگی میں داخل کرنے کا خیال ہی دل ودماغ میں پیدا نہیں ہوتا، آج ہمارے بچے ہی نہیں، جوانوں اور بوڑھوں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے، ساری معلومات تک ہماری پہونچ ہے، صرف بٹن دبا نا ہے، بٹن دبایا اور سب کچھ ہمارے سامنے ہے ، ہماری پوسٹ پر پسندیدگی کی مہر بھی لگ رہی ہے اور دوسرا بٹن دبا کر شیر بھی کیا جا رہا ہے، ایسے میں ہمارے اندر وہ کیفیت ہی پیدا نہیں ہو پاتی اور ہم ان معلومات کے دباؤ میں رہتے ہیں، ہمیں تحقیق کی جو خوشی ملتی تھی اس سے ہم محروم ہو گیے اور اس کے نتیجے میں صحیح، غلط کی تمیز بھی ہم سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔جذبات پر برف کی موٹی سل کے پڑنے اور زندگی کے مشینی ہونے کی وجہ سے رشتے اور تعلقات کی ڈور بھی انتہائی کمزور ہوتی جا رہی ہے ، ہماری زندگی سے بر داشت کی عادت ، مل جل کر رہنے کی ضرورت، بقائے باہم کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی ہے، یہ معاملہ اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ ہم اکسیڈنٹ ہونے پر متاثر کو مدد کے بجائے اس کی تصویر کھینچنے میں لگ جاتے ہیں، سڑک پر ظلم وزیادتی ہوتے دیکھ کر اپنی راہ لیتے ہیں کہ کیوں ہم دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ اڑائیں، یہ بے حسی ہے جس کا ایک سرا کہیں بزدلی سے بھی ملتا ہے، یہ ہمارے حال کو تو تباہ کر ہی رہا ہے ، مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔
ہماری خواہش ہوتی ہے کہ سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق ہو، ایسا کس طرح ممکن ہے، اللہ رب العزت کی حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے کہ اس کی مرضی اور مشیت کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا، لیکن بندہ تو بندہ ہے، وہ خود محتاج ہے ایسے میں سارا کچھ کس طرح اس کی مرضی کے مطابق ہو سکتا ہے، حضرت ابراہیم نے نمرود کو یہی تو کہہ کر ہکا بکا کر دیا تھا کہ میرا رب سورج پورب سے نکالتا ہے تو پچھم سے نکال کر دکھا ، قرآن کی تعبیر ہے:”فبھت الذی کفر“ اللہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت بھی نہیں دیتا۔
جب کوئی کام ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتا تو ہمیں غصہ آتا ہے اور ہم اپنا توازن کھو دیتے ہیں، غصہ بھی جذبات کے زیر اثر آتا ہے ، لیکن منفی جذبات ، اس منفی جذبات کی وجہ سے ہم کسی حد تک جانے اور کچھ کر گذرنے کو تیار ہوتے ہیں، اپنے پرائے کی پہچان ختم ہوجاتی ہے، کیوں کہ جب ہم غصہ ہوتے ہیں تو ہمارے دماغ کا سوچنے والا حصہ ماو ¿ف ہو کر رہ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے فیصلے غلط ہونے لگتے ہیں۔
صحیح اور سچی بات یہی ہے کہ جذبات واحساسات ہی ہمیں انسان بناتے ہیں، من کی دنیا ایک الگ دنیا ہے، جس میں سوز ومستی جذب وشوق کی فراوانی ہوتی ہے، من میں ڈوبنے کا ہنرخوشحال زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے ، اگر آپ اپنے جذبات کو سمجھنے کی پوزیشن میں ہوں گے تو آپ دوسروں کو سمجھ بھی سکیں گے اور خوش اسلوبی سے اپنی باتوں کو سمجھا بھی پائیں گے ، اگر ایسا نہیں ہو سکا تو ہمارا سلوک دوسروں سے جنگل راج کی طرح کا ہوجائے گا، ان حالات سے بچنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ ہم خود جذبات کو پروان چڑھانے کی فکر کریں ، نفسیاتی اطباءکی زبان میں اسے ”سیلف ٹرانزنٹ ایموشن “ کہتے ہیں اس کے ذریعہ آپ اپنے اندر قوت برداشت نرم مزاجی ، صبر اور حساسیت کی صفت پیدا کر سکتے ہیں، اگر آپ یہ صفت بچوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بچوں کو دوسروں کی خدمت پر ابھاریں ان کو دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کی تربیت دیں، کوشش کریں کہ ملی ، تعلیمی ، سماجی ، مذہبی اور ملکی معاملات کے بارے میں وہ پورے طور پر حساس بنے رہیں، خود بھی ان کے ساتھ کچھ وقت گذاریں اور اپنے عمل سے ثابت کریں کہ آپ جیسا انہیں بنانا چاہتے ہیں، اس پر آپ خود بھی عامل ہیں۔

لندن کاتاریخی قرآنی مظاہرہ

لندن کاتاریخی قرآنی مظاہرہ 
اردو دنیا نیوز
 یوروپی ملک سویڈن میں ایک اسلام مخالف سیاستداں رہتا ہے، اس ملعون کا نام راسموس ہے جو ڈنمارک کی بھی شہریت رکھتا ہے،پہلے سویڈن میں اس شخص نے قرآن کو نذر آتش کیا پھر ڈنمارک میں بھی اسی عمل کو دہرایا ہے،آئےدن اس ناپاک عمل کووہ دہراتا چلاجارہاہے،قرآن سے اس کی دشمنی کی وجہ بھی عجیب وغریب ہے،سویڈن یوروپی ممالک کی فوجی تنظیم ناٹو(NATO) کی رکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے اس نے درخواست دے رکھی ہے،ترکی ناٹو کا رکن ملک ہے،اس نےاپنے ویٹو پاور کا استعمال کرکے اس کی درخواست کو روک دیا ہے، اب اس کے رد عمل میں یہ منحوس شخص ترکی سفارت خانہ کے سامنےہرجگہ قرآن کا نسخہ جلارہا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟
اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک نےاس مذموم عمل کی شدید مذمت کی ہے، ساتھ ہی اسلامی ممالک نے بھی اپنا اپنا احتجاج بھی درج کرایا ہے، باوجود اس کے راسموس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے،اس کی وجہ پس پردہ مغربی طاقتیں ہیں جو اسلامو فوبیا کو بڑھاوا دینا چاہتی ہیں،مسلم ممالک کی طرف سے اس پر لگام دینے کی بات کی جاتی ہے تواظہار رائے کی آزادی کا نام لیکر اپنا پلہ جھاڑلیتی ہیں،جہاں تک ترکی کے خلاف احتجاج کا معاملہ ہے توبات سمجھ میں آتی ہے، اسے جمہوری حق کہا جاسکتا ہے،مگر قرآن کے خلاف یہ عمل کونسا جمہوری حق ہے،اور کونسی اظہار رائے کی آزادی ہے؟ یہ سمجھ سے باہر کی بات ہے۔
 ابھی دودن پہلے برطانیہ کے مسلم نوجوانوں نے ایک انوکھے احتجاج سے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے،اس بے انصافی کو سمجانے کی کوشش کی ہے،یہ ایک خوش آئند بات ہے،ملک کی راجدھانی لندن میں ایک خوبصورت مظاہرہ کا انعقاد کیاہے،قرآن ہی کی زبان میں ظالموں کو انجام بد سے آگاہ کیاہے، ان جیسے لوگوں کو بے انصاف سے خطاب کیا ہے،سویڈش سفارت خانے کے سامنے بہترین آواز میں قرآن کریم کی یہ آیتیں پڑھی گئی ہیں، ترجمہ ملاحظہ فرمائیے؛
"اورہر گز مت خیال کر کہ اللہ بےخبرہے ان کاموں سے جو کرتے ہیں بے انصاف، ان کو ڈھیل دے رکھی ہے اس دن کے لئے کہ پتھرا جائیں گی آنکھیں، دوڑتے ہوں گے اوپر اٹھائے اپنے سر،پھر کر نہیں آئیں گی ان کی طرف انکی آنکھیں، اور دل ان کے اڑے ہوں گے" ۰۰۰۰۰"اور انھوں نے بڑی بڑی چالیں چلیں، اور اللہ کے سامنے انکی چالیں تھیں،اور واقعی انکی چالیں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل جائیں، سو اللہ کواپنے پیغمبروں سے وعدہ خلافی کرنےوالا ہرگز نہ سمجھ لینا، بےشک اللہ زبردست ہے پورا بدلہ لینے والا ہے"( ابراہیم)
مذکورہ بالا قرآنی آیات میں ساری باتیں کہ دی گئی ہیں، دنیا کے سامنے یہ پیغام گیا ہے کہ یہ بےانصاف لوگ ہیں جو خود کو مہذب کہتے ہیں،ترکی نے ان کی درخواست کو اسٹےکیا ہے اسمیں قرآن کریم کی خطا کیا ہے؟ اس سے بڑی بے انصافی اور ظلم کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟
اس روئے زمین پر قرآن ہی ہے جو تمام آسمانی کتابوں کے ساتھ انصاف کی بات کرتا ہے ،ساتھ ہی صداقت کا اعلان بھی کرتا ہے، توریت، زبور، انجیل کا ذکر نام کے ساتھ قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے،ارشادخداوندی ہے؛
"اے مسلمانو! تم کہو کہ ہم خدا پر،اور جو کچھ ہماری طرف اتارا گیا ہے اس پر،اور جو کچھ ابراہیم واسماعیل پر،اور اسحاق اور یعقوب اور خاندان یعقوب کی طرف اتارا گیا اس پر،اور جوکچھ موسی وعیسی کو دیا گیا اس پر،اور جو کچھ اور سب پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے دیا گیا ان سب پر ایمان لائے،(سورہ بقرہ )
آج تک کسی مسلمان نے یا مسلم ملک نے انجیل جلانے کی بات نہیں کی ہے،ایسا کرنے پر خود اس کا ایمان خطرہ میں آجاتا ہے،ایک مسلمان ہونے کے لئے یہ ضروری ہےکہ وہ قرآن مجید کے ساتھ اس سے پہلے نازل ہونے والی تمام آسمانی کتابوں پر بھی ایمان لائے،ایمان کے لئے یہ لازمی شرط ہے۔
آج اس انصاف اور قانون کی کتاب کو ہی جلانے کی کوشش ہورہی ہے۔ قرآن وہ چراغ نہیں ہے جو پھونکوں سے بجھ جائے،عالم کی ہدایت اور انسانیت کی حفاظت کا اسمیں سامان ہے، اس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لے رکھی ہے،ایک نسخہ جلادینے سے یہ کتاب ضائع نہیں ہونے جارہی ہے، ساڑھے چودہ سوسال کی تاریخ اس پر گواہ ہے، بہت سے راسموس پیدا ہوئے اور مرگئے مگر قرآن کی ایک لفظ کو زیر وزبر نہ کرسکے،
بظاہروقتی طور پر کچھ لوگ یہ اچھل کود مچاتےرہے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ خدا کے مقابلے میں جنگ جیت لیں گے، یہ نادانی ہےاور جہالت کی بات ہے،خدا زبردست انتقام لینےوالا ہے۔
یہ باتیں برطانوی مسلم نوجوانوں نے سویڈش سفارت خانہ کے سامنے لندن میں آیات قرآنی کے ذریعہ پہونچادی ہیں،مظاہرہ کا ایک نیا انداز بھی دنیا کے سامنے آگیا ہےکہ مسکت جواب خدا کی کتاب سے ہی دیا جاسکتا ہے۔
جہاں دعوت قرآن کے ذریعہ دی جاتی ہے،امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جنکے لئے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی دعا کی تھی، قرآن کی آیتوں کو سنکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں،اسلام کے ابتدائی دور سے لیکر آج تک لوگ اس کتاب الہی کو سن سن کر، پڑھ پڑھ کر اسلام کے دامن سے وابستہ ہوتے رہے ہیں، یہ دعوت وہدایت کی کتاب ہے،وہیں آج باطل کا مقابلہ بھی ہم قرآن کے ذریعہ کرسکتے ہیں،جو قرآن کو جلانے چلے ہیں ،اسلام پر اعتراض کرتے ہیں، ان کا مقابلہ قرآن سے کرسکتے ہیں، ارشاد ربانی ہے؛
"تو اے پیغمبر منکروں کا کہا نہ مان اور اس قرآن سے ان کے ساتھ بڑے زور کا جہاد کر"(فرقان)
اس آیت کے ذریعہ پیغمبر اسلام اور اسکے سچے جانشین اور وارثین کوہدایت دی گئی ہے کہ پوری طاقت سے قرآن کریم کے ذریعہ منکرین کا مقابلہ کریں ،قرآن کریم یہ سب سے بڑا ہتھیار ہے، اور اس کے ذریعہ کیا گیا مقابلہ سب سے بڑا جہاد ہے،تاریخ گواہ ہے کہ اس کے مقابلے کی طاقت کسی قوم میں نہیں ہے، مسلمانوں کے عروج وسربلندی اسی میں رکھی گئی ہے، مگر ضرورت قرآن کی دولت سے پہلے مالامال ہونے کی بھی ہے،بہت سے مسلمانوں نے اس ویڈیو کو دیکھا ہے کہ برطانوی مسلم نوجوانوں کی ایک جماعت لندن میں قرآن کی تلاوت کررہی ہے، مگر افسوس کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں اور کیا پیغام دے رہے ہیں؟ یہ بات بہت سےمسلمانوں کی بھی سمجھ میں نہیں آئی ہے، یہ نہایت تکلیف دہ اور افسوسناک امت مسلمہ کی حالت زار ہے،،،
    ع۔۔۔وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
          اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر


ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
یکم فروری ۲۰۲۳ء 
رابطہ، 9973722710

پیر, جنوری 30, 2023

نظام العلوم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ڈرائینگ مقابلہ کا انعقاد

نظام العلوم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ڈرائینگ مقابلہ کا انعقاد 
اردو دنیا نیوز ٧٢
سمن پورہ پٹنہ مورخہ 30/جنوری (پریس ریلیز) 
تعلیم اچھی سیرت سازی اور تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل اور کامیابی کی منزل تک پہنچاتا ہے۔اس لحاظ سے تعلیم وتربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ اُستاد اورشاگرد تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر ہیں۔ معلّم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں، سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا، حقوق سے آگاہ کرنا، زندگی کے ہر موڑ پر سرمایہ حیات کی راہنمائی کرنا ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے بارے میں فرمایا: ﴿يُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَيُزَكّيهِمۚ…. ﴾ (سورة البقرة: ١٢٩)اور نبی ﷺ ان(لوگوں) کو کتاب وحکمت (سنت) کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ وتربیت کرتے ہیں‘‘۔اس بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس فریضہ ہے ،اسی اہمیت او ر تقدس کے پیش نظر اُستاد اور شاگرد دونوں کی اپنی اپنی جگہ جدا گانہ ذمہ داریاں ہیں۔ اُنہیں پورا کرنا ہر دو جانب کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کیا جائے تو پھر تعلیم بلاشبہ ضامنِ ترقی ہوتی اور فوزوفلاح کے برگ و بار لاتی ہے۔اور انہیں مقاصد کے حصول میں نظام العلوم فاؤنڈیشن (بیاد نظام خان مرحوم ) سمن پورہ پٹنہ میں ڈرائنگ مقابلے کا انعقاد کیا گیا، جس میں ادارہ کے طلبہ وطالبات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر اپنے جوہر کا لوہا منوایا۔ بہت خوبصورت اور جاذب انداز میں ڈرائنگ، آرٹس، پینٹنگ وغیرہ پیش کی، جن طلبہ وطالبات نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا انہیں ادارہ کی جانب سے سند اور میڈل سے نوازا گیا۔اس موقع نظام العلوم فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر حافظ شارق خان نے ڈرائینگ مقابلہ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے تمام طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی اچھی مستقبل کے لئے دعائیں دیں، مولانا اعجاز صاحب نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے درمیان مقابلہ سے ان کی پوشیدہ صلاحیت اجاگر ہوتی ہے ۔حافظ جاوید صاحب نے اس موقع پر تمام طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ آپ جہد مسلسل کے ساتھ اپنی تعلیمی اسفار طے کرتے رہیں، ان شاء اللہ ایک دن کامیابی آپ سب کو ملے گی، ادارہ کے اہم رکن محمد ضیاء العظیم قاسمی نے بھی اس موقع پر ادارہ کے تمام ذمہ داران کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب کی محنت رنگ لا رہی ہے اور بچوں کے اندر ایک نئی امنگ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
واضح رہے کہ کہ نظام العلوم فاؤنڈیشن (بیاد نظام خان سمن پورہ پٹنہ) کی بنیاد کئی اہم مقاصد کے تحت رکھی گئی ہے لیکن بنیادی طور پر ملک وملت کے بچے بچیوں کو تعلیم وتربیت سے روشناس کرانا ہے، یہ تنظیم خاموشی کے ساتھ پچھلے بارہ برسوں سے تسلسل کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہی ہے لیکن اس کا باقاعدہ رجسٹریشن ٢٠٢٠ میں ہوا، اس وقت ادارہ میں تقریباً ڈھائی سو طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جن لوگوں نے تعاون پیش کیا ان کی فہرست اس طرح ہے، 
حافظ عمران، حافظ تنویر، مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی،قاری جاوید مولانااعجاز ، ، مفتی نور العظیم ،حافظ مصباح العظیم، عفت یاسمین ، حافظ کیف الہدی وسیم، مشفق, عابد,راغب,وغیرہ

ضیائے حق فاؤ نڈیشن کی جانب سے یوم جمہوریہ کے موقع پر مدرسہ ضیاء العلوم میں ڈرائنگ مقابلہ کا انعقاد

ضیائے حق فاؤ نڈیشن کی جانب سے یوم جمہوریہ کے موقع پر مدرسہ ضیاء العلوم میں ڈرائنگ مقابلہ کا انعقاد
اردو دنیا نیوز ٧٢

پھلواری شریف پٹنہ 29/جنوری 2023 (پریس ریلیز) 
علم کی اہمیت وفضیلت عظمت وترغیب اور تاکید، جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کسی دوسری چیزوں میں نہیں ملتی۔ تعلیم و تربیت، درس و تدریس تو گویا زندگی کے سب سے بڑے مقاصد میں سے ایک مقصد اور جزولاینفک ہے۔  علم وجہِ فضیلت ِآدم ہے علم ہی انسان کے فکری ارتقاء کاذریعہ ہے۔علم ہی انسانوں کو راہ نجات، راہ ہدایت، راہ راست کی جانب گامزن کرتی ہے ۔اور انہیں مقاصد کے تحت بچوں میں خود اعتمادی ان کی حوصلہ افزائی اور ان کے اندر موجود صلاحیتوں کو ابھارنے، انہیں روشن مستقبل کے لیے تیار کرنے کی غرض سے انٹر نیشنل ٹرسٹ ”ضیائے حق فاؤنڈیشن“نےصوبہ بہار کے دارالحکومت میں ایک مدرسہ کا افتتاح کیا ہے ۔حالانکہ یہ مدرسہ پہلے سے بچوں کو درس و تدریس دینے کا کام کر رہا تھا لیکن اب یہ ”مدرسہ ضیاء العلوم “ کے نام سے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے ۔تاکہ غریب امیر سبھی بچوں کو یکساں پلیٹ فارم مل سکے،جہاں صرف علم و ہنر کو فوقیت دی جائے گی،اسی جذبے کے تحت 25 جنوری 2023 بروز بدھ کوبمقام ”مدرسہ ضیاء العلوم “ البا کالونی پھلواری شریف (پٹنہ) میں ایک مقابلہ جاتی کمپٹیشن کا انعقاد کیا گیا۔اس پروگرام میں شریک تمام طلباء و طالبات نے ،نقاشی ،پینٹنگ،آرٹ اینڈ کرافٹ وغیرہ میں حصہ لیا۔جس میں امتیازی نمبر حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کو سند و میڈل سے بھی نوازا گیا،جو ان کے روشن مستقبل کے لئے کار آمد ثابت ہوگا (انشاء اللہ)۔ اس پروگرام کے کنوینر محمد ضیاء العظیم  ۔جن طلبہ وطالبات نے نمایاں طور پر کامیابی حاصل کی ہے ان کی فہرست کچھ اس طرح ہیں۔اول عالیہ پروین بنت شمس عالم ،دوم حمزہ اخلاق بن اخلاق انصاری، سوم عفان عبداللہ بن عبداللہ شکیل،سید حماد بن سید وجہ الدین، چہارم فقیھہ روشن بنت ڈاکٹر فیروز عالم، صادقین اختر بنت عابد علی اختر کا نام ہے ۔اس کے علاوہ چند طلبہ وطالبات کو 2022 کے اچھے طالب علم (Best Student of the year) 2022 کے سند سے نوازا گیا۔بتاتے چلیں کہ یہ فاؤنڈیشن اردوزبان و ادب کے فروغ،غریب بچوں میں تعلیمی فروغ،انسانی فلاح و بہبود،مظلوم محکوم و معاشی طور پر کمزور خواتین کی مدد،صحت،قدرتی آفات میں ہنگامی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے علاوہ مستقل نوعیت کے فلاحی منصوبہ جات پر بھی کام کرتا ہے۔جن میں بے روزگار خواتین کو روزگار دینا،ان کے علم و ہنر کو نئی پہچان دینا،سلائی،بنائی کڑھائی جیسے ہنر کو سامنے لانا،فیس جمع نہ کر پانے والے غریب بچوں کو فری میں اردو،ہندی زبان و ادب اورقرآن مجید جیسی بنیادی تعلیم فراہم کرانا۔یتیم اور بے سہارا بچوں کی تعلیم اور کفالت کا منصوبہ،سڑکوں کے کنارے بے بس و لاچار لوگوں کی مددان سب کی صحت کے لیے فری چیک اپ وغیرہ کا اہتمام، اردو ہندی زبان و ادب کے فروغ کے لیے بھی خصوصی کام کرنا،مختلف ادبی،علمی،لٹریری پروگرام کا انعقاد کرانا، پرانے شعرأ و ادباء کے ساتھ ساتھ نئے قلم کاروں کو بھی فروغ دینا،انہیں پلیٹ فارم دینا،فری لائبریری کا انتظام جیسے اہم کام شامل ہیں۔بہت ہی کم وقت میں منعقد اس پروگرام میں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات شامل رہیں، جبکہ مقابلہ میں تیس طلبہ وطالبات کی فہرست تھی۔لیکن مقابلہ میں بچوں کی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی خواہش اور ان میں خوشی کو دیکھ کر ضیائے حق فاؤنڈیشن کے ممبران اور کمیٹی نے فیصلہ لیا ہے کہ اس طرح کے پروگرام انشا ء اللہ وقتا فوقتا اب کیا جائے گا تاکہ بچوں کو بھی پلیٹ فارم مل سکے ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔اس پروگرام میں تلاوت قرآن پاک شاداب خان ،شخصی تعارف و نظامت محمد ضاء العظیم (ضیائے حق فاوٗنڈیشن برانچ اونر وڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم )نے کرائی ،
پروگرام کا مکمل خاکہ ہندوستان کی مشہور ومعروف قلمکار وماہر اقبالیات ڈاکٹر صالحہ صدیقی، چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن واسسٹنٹ پروفیسرشعبہ اردو سمستی پور کالج نے بنایا ۔
پروگرام میں جن لوگوں نے اپنا تعاون پیش کیا ہے ان کی فہرست مولانا محمد عظیم الدین رحمانی، مفتی نورالعظیم،قاری عبدالواجد ندوی ،قاری ماجد، کاشف خان، مصباح العظیم روشن آرا، رونق آرا، زیب النساء، فاطمہ خان، عفان ضیاء،حسان عظیم، شارق خان وغیرہ کے نام شامل ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...