Powered By Blogger

منگل, فروری 07, 2023

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: شعراء کرام کی نظر میں ۔ایک مطالعہ


مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: شعراء کرام کی نظر میں ۔ایک مطالعہ
اردودنیانیوز۷۲ 

انوار الحسن وسطوی
  9430649112

زیر تذکرہ کتاب کے مرتب جناب عبد الرحیم برہولیاوی ہیں ۔ برہولیا ضلع دربھنگہ کی مشہور بستی ہے جہاں کئ اہل علم و دانش پیدا ہوئے جن میں نامور ادیب ، ناقد، شاعر اور صحافی ڈاکٹر عطا عابدی کا نام بھی شامل ہے ، عبد الرحیم برہولیاوی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ، للت نارائنن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ایم اے (اردو) کی سند رکھتے ہیں ، فی الحال ضلع ویشالی کے مشہور دینی درسگاہ معھد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سراۓ (ویشالی) میں بحیثیت مدرس مامور ہیں ، علمی و ادبی مضامین و مقالات لکھنے کا عمدہ ذوق ہے ۔ اپنے اسی ادبی ذوق کے سبب ضلع ویشالی کی مشہور ادبی تنظیم " کاروان ادب" حاجی پور کے رکن نامزد کئے گئے ہیں ۔ موصوف " العزیز میڈیا سروس" کے بانی و ایڈمن کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔ نامور عالم دین ،ادیب ،ناقد، اور صحافی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف سے انہیں قلبی و فکری لگاؤ حاصل ہے ، مفتی صاحب بھی عبد الرحیم برہولیاوی کو عزیز رکھتے ہیں ۔ اسی محبت کا ثبوت پیش کرنے یا اس کا قرض چکانے کے لئے عبد الرحیم صاحب نے مفتی صاحب کی شان میں لکھے تقریباً تین درجن شعراء کرام کے منظوم کلام کو یکجا کرکے کتابی شکل دینے کا کارنامہ انجام دیا ہے ۔
عبد الرحیم برہولیاوی نے اپنی کتاب کا آغاز اپنی تحریر بعنوان " اپنی بات" سے کیا ہے ، کتاب کا " پیش لفظ" جواں سال ادیب ، ناقد ،شاعر ،اور صحافی ڈاکٹر کامران غنی صبا کا تحریر کردہ ہے جبکہ معروف ادیب ،ناقد ،شاعر ، محقق اور صحافی ڈاکٹر عطا عابدی نے بھی کتاب کے تعلق سے اپنی بات" دوباتیں " کے عنوان سے لکھی ہیں ، مذکورہ تینوں تحریروں میں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ذات اور ان کی صفات کے علاوہ زیر تذکرہ کتاب کے تعلق سے بھی بڑی عمدہ اور قیمتی باتیں کہی گئی ہیں ، ان تحریروں سے محظوظ ہونے کے لئے یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں
زیر نظر کتاب میں شامل نظمیں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت و خدمات کا دلکش مرقع ہے ، ان نظموں سے ثناء الہدیٰ صاحب کی حیات و خدمات کے مختلف گوشے اجاگر ہوتے ہیں ، عبد الرحیم برہولیاوی مبارکباد اور پذیرائی کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ان نظموں کو حاصل کرکے ترتیب دینے کا کام کیا ہے ، عبد الرحیم برہولیاوی بزرگوں کی خدمت کرنے ، ان سے سیکھنے اور ان کی خصوصیات کو اجاگر کرنے کا پے پناہ جذبہ رکھتے ہیں" ۔(ڈاکٹر عطا عابدی ۔ص۔۱٤)
"عبد الرحیم برہولیاوی نے اس کتاب میں شعراء کے کلام کو جمع کیا ہے جن میں شعراء نے مفتی صاحب کے تئیں اپنی بھرپور عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے اور مفتی صاحب کی علمی ،ادبی، مذہبی ، سماجی اور فلاحی خدمات کو منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے ، موصوف نے مفتی صاحب کے تعلق سے اتنے سارے منظوم کلام کو یکجا کرکے ایک بڑا کام کیا ہے جس کی ستائش کی جانی چاہیے"۔ (ڈاکٹر کامران غنی صبا ۔ص ۔١٠)
"مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی حیات و خدمات پر جس طرح نثر نگاروں نے خامہ فرسائی کی ہے اسی طرح شعراء کرام نے بھی مختلف موقع کی مناسبت سے اپنا کلام پیش کیا ہے مجھے خوشی ہے کہ ان نظموں کو ترتیب دے کر خاص و عام کے سامنے پیش کرنے کی سعادت میرے حصہ میں آئ ہے ۔ مجھے امید ہے کہ منظوم کلام کا یہ مجموعہ حضرت مفتی صاحب کی شخصیت کو جاننے اور سمجھنے میں مزید ممدو معاون ثابت ہوگا"(عبد الرحیم برہولیاوی ۔ص ۔۵۔٦)
جناب عبد الرحیم برہولیاوی اگر مجھے معاف کریں تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مفتی صاحب کے تعلق سے شعراء کے منظوم کلام کو یکجا کرکے کتابی شکل دینا یقیناً ایک بڑا اور قابل تحسین کام ہے لیکن موصوف کے اس خیال سے راقم السطور کو قطعی یہ اتفاق نہیں ہے کہ منظوم کلام کا یہ مجموعہ مفتی صاحب موصوف کی شخصیت کو جاننے اور سمجھنے میں مزید ممدو و معاون ثابت ہوگا ، اس سلسلے میں میرا یہ ماننا ہے کہ آج سے دو دہائی قبل ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق مرحوم نے مفتی صاحب کی شخصیت اور خدمات پر جو کتاب ترتیب دی تھی وہ مفتی ثناء الہدیٰ شناسی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ، اس کتاب کی مقبولیت اس واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے دو ایڈیشن شائع ہوۓ ، یہ وہ کتاب ہے جس میں پروفیسر ثوبان فاروقی رح اور پروفیسر نجم الہدیٰ جیسے نابغۂ روزگار ،ادیب و شاعر کی تحریریں شامل ہیں ، مذکورہ حضرات آج سے بیس (٢٠) سال قبل مفتی صاحب کے تعلق سے جو کچھ لکھ دیا ہے وہ باتیں کسی بھی شاعر کی نظم میں نہیں آسکی ہیں ۔ خواہش مند حضرات مذکورہ کتاب کو نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکسامامہوا (ویشالی) سے حاصل کرسکتے ہیں اور راقم السطور کے دعوی کو صداقت کی کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں ۔
" مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: شعراء کرام کی نظر میں " ٧٢/صفحات پر مشتمل ہے ، جس میں تقریباً تین درجن شعراء کے منظوم کلام کو شامل کتاب کیا گیا ہے ، شعراء کرام کی اس فہرست میں کئ بزرگ شعراء بھی ہیں اور جواں سال بھی ، کئ معروف شعراء بھی ہیں اور غیر معروف بھی ہیں ۔ کتاب میں شامل کچھ نظمیں ٢٠٠٠ء میں مفتی صاحب موصوف کو صدر جمہوریہ ہند سے ملے ایوارڈ سے متاثر ہوکر لکھی ہوئی ہیں ۔ کچھ نظمیں موصوف کو چوتھی دفعہ حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہونے کے موقع پر کہی ہوئی ہیں، بقیہ نظمیں مفتی صاحب کی علمی، دینی، ملی خدمات کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں اور کچھ نظمیں ان کی دیدۂ وری ، ان کے اخلاق و عادات اور ان کی انسانی خوبیوں سے متعلق ہیں۔جن شعراء کرام کے منظوم کلام سے یہ کتاب مزین ہے ان کے نام ہیں: پروفیسر عبد المنان طرزی ، ذکی احمد ذکی، حسن نواب حسن ،ڈاکٹر امام اعظم ، ولی اللہ ولی، سید مظاہر عالم قمر، امان ذخیروی، محمد انوار الحق داؤد قاسمی ، مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی ، طارق ابن ثاقب ، کامران غنی صبا ، ڈاکٹر منصور خوشتر ، احمد حسین محرم قاسمی ، شمیم اکرم رحمانی ، اشتیاق حیدر قاسمی ، منصور قاسمی ، محب الرحمن کوثر ، زماں بردہوای ، محمد ضیاء العظیم ، محمد مکرم حسین ندوی ، عظیم الدین عظیم ، کمال الدین کمال عظیم آبادی ، وقیع منظر ، فیض رسول فیض، یاسین ثاقب ، آفتاب عالم آفتاب ، ڈاکٹر عبد الودود قاسمی ، محمد بدر عالم بدر ، ثنا رقم مؤی ، فیاض احمد مضطر عزیزی ، عبد الصمد ویشالوی، مظہر وسطوی اور تحسین روزی ۔
 چند شعراء کے منظوم کلام سے چند منتخب اشعار بطور نمونہ ملاحظہ ہوں؛ جن میں مفتی صاحب کے تیئں عقیدت و محبت کے اظہار کے ساتھ ان کی علمی ، ادبی ، مذہبی ، سماجی اور فلاحی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے

عالم دیں کا ہو ادبی مشغلہ
شاذونادر ہی ایسا ہے دیکھا گیا
جو ہاں مگر ہیں مفتی ثناء الہدیٰ
ان کا ہے ان سبھوں سے الگ راستہ
             (پروفیسر عبد المنان طرزی)
وہ ہیں عالم باعمل بالیقیں
جنہیں کہیے اسلاف کا جانشیں
مفکر ، مدبر کہ دانشوراں
سبھی ان کےحق میں ہیں رطب اللساں
(ڈاکٹر کامران غنی صبا)
دلنشیں انداز ہے تقریر کا 
بزم کو کر دیتے ہیں وہ مشک بار
بخشی ہے خوبی خداۓ پاک نے
ریگ زاروں کو بنا دیں لالہ زار
(ڈاکٹر منصور خوشتر)
شہسوار خطابت ہیں شاہ قلم
چشم بینا نے دیکھی ہے جادو گری
وہ شریعت کے حامی، امارت کی جاں
قوم و ملت سے ان کو ہے وابستگی
(منصور قاسمی)
صدر جمہوریہ ایوارڈ بھی تھا
ان کو ملنا ضرور کیا کہنا
ان کو سرکار نے بھی مانا ہے
علم و فن پر عبور، کیا کہنا
            (ذکی احمد ذکی)
مدارس کے محافظ ہیں، مدرس ہیں، مدبر ہیں
محدث اور مفتی ہیں ،مصنف ہیں، مفکر ہیں
نظامت میں ، خطابت میں ، فصاحت میں ،بلاغت میں
مثالی شخصیت ہے آپ کی علم و فراست میں
                       (مظہر وسطوی)
درنایاب لعل و گہر آپ ہیں
نازش علم نورِ سحر آپ ہیں
سچ تو یہ ہے ثناء الہدیٰ قاسمی
فہم و ادراک سے بالا تر آپ ہیں
               (عظیم الدین عظیم)
دین حق کے امیں ہیں ثناء الہدیٰ
مفتی شرع دیں ہیں ثناء الہدیٰ
تزکرہ علم و دانش کا ہوتا جہاں
اس مکاں کے مکیں ہیں ثناء الہدیٰ
         (ڈاکٹر عبد الودود قاسمی)
تحریر لازوال ہے تقریر بے مثال
ماضی کی داستاں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
شعر و ادب کی بزم ہو یا علم دیں کی راہ
ہر سمت پُرفشاں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
                            (امان ذخیروی)
تقریر دلنشیں ہے تو انداز دلکشا
ہر سننے والا آپ کا شیدائی ہوگیا
ہے گفتگو میں ایسی حلاوت کے دیکھیے
شاباش، آفریں تو کہے کوئی مرحبا
                            (یاسین ثاقب)
      مختصر یہ کہ زیر نظر کتاب مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت ،صفات، خدمات کا ایک دلکش مرقع ہے ۔ایسی عمدہ، دلچسپ اور فرحت بخش کتاب ترتیب دینے پر عبد الرحیم برہولیاوی یقیناً مبارکباد
 اور پذیرائی کے مستحق ہیں ۔انھوں نے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کے تعلق سے تقریباً تین درجن شعراء کے مختلف اوقات میں کیے گئے منظوم کلام کو یکجا کرکے کتابی شکل دینے کا واقعی ایک بڑا کام کیا ہے ۔ان کے اس کام میں تعاون دینے کے لیے مولانا نظر الہدیٰ قاسمی اور مولانا راشد العزیری بھی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔زیر تزکرہ کتاب کی قیمت صرف ساٹھ(٦٠) روپے ہے ، جسے مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،نور اردو لایبریری حسن پور گنگھٹی بکساما ، مہوا (ویشالی) ، ادارہ سبیل الشریعہ آوا پور شاہ پور سیتامڑھی، معھد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سراۓ ویشالی اور الھدیٰ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ آشیانہ کالونی باغ ملی حاجی پور سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔کتاب کے تعلق سے مزید معلومات کے لئے مرتب کتاب عبد الرحیم برہولیاوی کے موبائل نمبر 9308426298پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

یادوں کے چراغ ___✍️پروفیسر محسن عثمانی ندوی

یادوں کے چراغ ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️پروفیسر محسن عثمانی ندوی
 
  یادوں کے چراغ کے مصنف کانام چراغ سے زیادہ روشن ہے ایسے معروف مصنف کی کتاب پر دیباچہ لکھنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ایسا لگتا ے کہ مصنف نے عزت افزائی کے لئے اس مقدمہ نگارکو زحمت دی ہے، مصنف کا نام علمی اور صحافتی دنیا مین معروف بھی ہے مقبول بھی ہے انہیں نہ تعارف کی ضرورت ہے اور نہ تحسین وتعریف کی ۔ البتہ اس تعارف کی وجہ سے مقدمہ نگار کا کچھ زیادہ تعارف ہوجائے گا۔ جو شخص نقیب جیسے قدیم صحیفہ کا مدیر شہیر ہو اور جس کے مضامین ہندوستان کے طول وعرض میں شائع ہوتے رہتے ہوں اور ہزار نگاہوں کے لئے سرمہ بصیرت بنتے ہوں جس کی سطور اور مابین السطور میں غیب سے مضامین کا نزول ہوتا ہواور
 نگاہ ناز جسے آشنائے راز کرے 
 وہ کیوں نہ خوبی قسمت پہ اپنی ناز کرے 
ان سطور میں مبالغہ نہیں یہ شاعری بھی نہیں ۔نہ یہ بات پہلی بار کہی جارہی ہے اس مقدمہ نگار نے اس مقدمہ سے پہلے کئی بار اس مصنف سے اپنے تعلق اور محبت کا اظہار کیا ہے وہ امارت شرعیہ کے اخبار نقیب کے ایڈیٹر ہیں میں نے امارت شرعیہ کے سابق امیر سے بھی نقیب کے اداریوں کی تعریف کی تھی اور میرے بس میں ہوتا تومیں ان کو سب سے بلند اور ارفع جگہ دلانے کی کوشش کرتا۔
  قرطاس وقلم کی بساط سجانا اور خیالات و افکار کو لفظوں کے موتیوں میں ڈھالنا اور پھر موتیوں کو پروکرکے مضمون کی شکل دینا یہ ایک بہت بڑا ہنر ہے بہت بڑا آرٹ ہے اور جو اس ہنر سے واقف ہے وہ بڑا آرٹسٹ اور فنکارہے بہت زیادہ قابل قدر ہے اور سماج میں سب سے زیادہ عزت کے لائق ہے کسی ڈاکٹر اور کسی انجینئر سے زیادہ، دفتر کے دفتریوں سے زیادہ مملکت کے اونچے عہدہ داروں سے زیادہ ۔ یہ اور بات ہے کہ ڈاکٹر اور انجینئرکو امیرو وزیر کو، زرکار محل اور عیش کدہ نصیب ہوتا ہے اور دفتریوں کو اپنے دفتر امارت کا تاج اور مضمون نگار اور صحافی اور ادیب کو بس ایک معمولی کرایہ کا مکان وہ بیچارہ کبھی کبھی نان شبینہ کا بھی محتاج ہوتا ہے ۔ یہ اس لئے کہ سماج کو ادیب کی قدر وقیمت نہیں معلوم ۔ حالانکہ صحافی اور ادیب ہی ڈاکٹر اور انجینیر ہوتا ہے اس کا ہاتھ سماج کی نبض پر ہوتا ہے وہ بیماری کی تشخیص کرتا ہے اور علاج بھی تجویز کرتا ہے وہ اپنے افکار وخیالات کے سازوسامان سے سماج کی تعمیر کرتا ہے اس کے ہاتھ میں کتاب ہوتی ہے اور انگشت تا قلم اور زبان پر” ن والقلم وما یسطرون “۔ اس کے علم اس کے عقل کی خرد افروزی سے لوگوں کو نشانات راہ کا علم ہوتا ہے وہ پوری امت کی رہنمائی کرتا ہے وہ امیر نہیں مامور ہوتا ہے لیکن دفتر کے ہر سقراط بقراط سے بڑھ کر فاضل اور امت کا رہبر ہوتا ہے اس کے پاس اختیارات کی طاقت نہیں ہوتی لیکن قلم کی طاقت ہوتی ہے اور یہ طاقت تلوارسے بڑھ کر طاقتور ہوتی ہے وہ سپاہی ہوتا ہے اور خود ہی سپہ سالاراورخودہی لشکر جرار ۔ اہل علم کو چاہئے کہ اس کی عزت کریں اس کی توقیر کریں اور سماج میں اس کو عزت کی جگہ دیں ۔ایسا نہ ہو جس کے پاس علم ہو قلم ہو لیکن وہ محروم عزت واحترام ہو ۔اور یہ شعرماحول پر صادق آئے۔
اسپ تازی ہوا مجروح بزیر پالاں
طوق زریں ہمہ در گردن خر می بینم 
 کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اسپ تازی کسی درجہ میں مجروح ہوا ہے ۔ یادوں کے چراغ کی یہ چوتھی جلد ہے جس میں علماء مشائخ وحفاظ کرام اور شعراءوادباءودانشورا ن قوم وغیرہ کے خاکے ہیں۔مولانامفتی محمد ثناءالہدی قاسمی معروف ادیب اور صحافی ہیں ہندوستان کے اخبارات میں کثرت سے ان کے مضامین شائع ہوتے ہیں اور نگاہ تحسین سے دیکھے جاتے ہیں ان کے اندر ملت کا درد بھی ہے، قلم کا سوز بھی ہے، فکر کی حرارت بھی ہے، مزاج کا توازن بھی ہے، میری نگاہ نارسا ان کے مضامین کو تلاش کرتی رہتی ہے اور جب رسائی ہوجاتی ہے تو اہتمام سے اسے پڑھتی ہے میں نے جو لکھا ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے بسا اوقات باہمی تبادلہ خیال بھی ہوا ہے اورکبھی کسی اہم موضوع پر میں نے ان کے فکر کو زرخیز اور قلم کو مہمیز کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔میں نے ہمیشہ ان سے اس لئے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ملت کی فکر ی رہنمائی کرسکیں ، مجھے ہندوستان کی ملی تنظیموں سے ایک گونہ مایوسی ہے نہ کہیں تخیل کی لالہ زاری نہ کہیں فکر کی تازہ کاری نہ کہیں ہمت اورحوصلہ نہ کہیں تازہ ولولہ، نہ کہیں ندرت خیال ، بس تار عنکبوت کی طرح بوسیدہ خیالات اور حد سے بڑھی ہوئی عقیدتوں کی پرچھائیاں نہ جوش عمل نہ جدت کردار، ایسی ازکار رفتہ قیادت کس کام کی 
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے نمناک 
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
  یادوں کے چراغ شخصیات پر خاکوں کا مجموعہ ہے، اردو ادب میں اس سے پہلے مولوی عبد الحق کی کتاب ”چند ہم عصر“ سامنے آچکی ہے مولانا ابو الحسن علی ندوی کی “پرانے چراغ “ رشید احمد صدیقی کی ”ہم نفسان رفتہ “اور” گنج ہائے گراں مایہ “ اور مولانا نور عالم خلیل امینی کی ”پس مرگ زندہ “ چراغ حسن حسرت کی ”مردم دیدہ“ اور نقوش کے دو خاص نمبر اور بے شمار نام ، سارے نام گنوانا چاہوں تو گنوانہ سکوں ۔مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کی یہ کتاب خاکوں کے گلدستہ میں ایک دلکش پھول کا اضافہ ہے ۔یہ تعریف جھوٹ موٹ کی تعریف نہیں ہے مولانا ثناءالہدی قاسمی کا طرز تحریر اتنا دلکش ہے کہ ان شخصیتوں پر رشک آتا ہے، جن پر خاکے لکھے گئے ا ور جی چاہتا ہے ان خوش قسمت انسانوں کی فہرست میں مقدمہ نگار کا نام بھی آئے اور شاید آبھی جائے کیونکہ عمر کا آفتاب لب بام آچکا ہے اور صحت غنچہ گل کے ثبات سے مختصر اور نازک تر۔اگرچہ مقدمہ نگار کے حالات زندگی پر انسٹیوٹ آف آبجکٹو اسٹڈیز نے پوری کتاب شائع کردی ہے مگر ثناءالہدی قاسمی کا رنگِ قلم کہاں ” وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی “ 
  

پیر, فروری 06, 2023

مولانا عبداللہ رحمانی قاسمی __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا عبداللہ رحمانی قاسمی __
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس ارباب حل وعقد کے رکن ، مدرسہ اسلامیہ چھٹہی ہنومان نگر سوپول کے سابق صدر مدرس، مدرسہ اٹکی رانچی اور ترہت اکیڈمی سمستی پور کے سابق استاذ، شاہی عیدگاہ بیگم پور سمستی پور کے امام وخطیب، حضرت مولانا محمد عارف ہرسنگھ پوری کے بڑے پوتا، جید عالم دین، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی ہرسنگھ پوری حال مقام وارڈ نمبر 14 ،رام نگر سمستی پور نے 23 جمادی الاخریٰ 1444ھ مطابق 16 جنوری 2023ءبروز پیر صبح کے آٹھ بجے سمستی پور واقع اپنے مکان میں جان، جان آفرین کے سپرد کر دیا، اہلیہ کا انتقال 2007 میں پہلے ہی ہوچکا تھا، پسماندگان میں دو صاحب زادے؛ فضل الرحمن ، حفظ الرحمن اورچارصاحب زادیوں کو چھوڑا،جنازہ کی نماز دوسرے دن بروز منگل صبح کے دس بجے مولانا مظہر الحق ٹیچرس ٹریننگ کالج متھرا پور کے وسیع میدان میں ان کے حقیقی چھوٹے بھائی حضرت مولانا سعد اللہ صاحب صدیقی سابق مہتمم مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ نے پڑھائی ، اس موقع سے علماء، صلحاء، صوفیاءکے ساتھ بڑی تعداد میں عام مسلمانوں نے شرکت کی اور جنازہ کے بعد ان کو لحد تک پہونچایا ، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم پر امارت شرعیہ کے ایک موقر وفد نے مولانا مفتی محمد انظار عالم قاسمی قاضی شریعت کی قیادت میں جنازہ اور تجہیز وتکفین میں شرکت کی،اس وفد میں نائب قاضی شریعت مولانا مفتی وصی احمد قاسمی، مولانا سید محمد عادل فریدی اور قاضی شریعت سمستی پور مولانامفتی امان اللہ قاسمی شریک تھے۔ مولانا مظہر الحق ٹیچر ٹریننگ کالج متھراپور کے احاطہ میں تدفین عمل میں آئی۔
مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی بن مولانا عبد الرحمن (م 1982) بن حضرت مولانا محمد عارف صاحب ہرسنگھ پوری (متوفی9 صفر1363 ھ مطابق 13فروری 1924) بن شیخ بلاغت حسین بن امداد حسین عرف نبدی بابو بن شیخ خیرات علی بن شیخ منشی حسن یار وکیل بن شیخ ہبة اللہ کی ولادت 1929ءمیں ہرسنگھ پور ضلع دربھنگہ میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال محمد پور مبارک عرف آوارہبنگرا، ضلع مظفر پور تھی، نانا کا نام علی حسن تھا، جو سروے آفس میں امین تھے، بعد میں مولانا کی نانی روپس پور دھمسائن ضلع دربھنگہ نقل مکانی کرکے جا بسیں ، مولانا کے دو ماموں مولانا غزالی اور مولانا نظیر حسن کا شمار علاقہ کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ابتدائی تعلیم گھر پر والد ماجد مولانا عبد الرحمن صاحب ہرسنگھ پوری اور مولوی امداد حسین سے حاصل کرنے کے بعد مولانا نے پہلے باقرخاں کے مدرسہ آشاپور، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ، مدرسہ رحمانیہ سوپول اور پھر جامعہ رحمانی مونگیر کے اساتذہ علم وفن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، اعلیٰ تعلیم کے لیے دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے بخاری شریف پڑھ کر 1955 میں سند فراغ حاصل کیا، انہوں نے دارالعلوم دیو بند میں قیام کے دوران حضرت مولانا اعزاز علی اور مولانا نصیر احمد خان رحمہما اللہ سے بھی کسب فیض کیا۔مولانا کے رفقاءدرس میں حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒکا نام سب سے نمایاں ہے، ان کے علاوہ حضرت مولانا ابوظفر رحمانی،حضرت مولانا اکرام اور مولانا سعید احمد سابق معاون قاضی امارت شرعیہ بھی آپ کے رفیق درس تھے۔
 تدریسی زندگی کا آغاز اپنے چھوٹے چچا مولانا ولی الرحمن صاحب ہرسنگھ پوری (م2001) کے قائم کردہ مدرسہ اسلامیہ چھٹہی ہنومان نگر سوپول سے کیا، کوئی بارہ سال 1971ءتک یہاں بحیثیت صدر مدرس خدمت انجام دیتے رہے، چھٹہی ہنومان نگر میں مسلمانوں کے درمیان جو بدعات ان دنوں رائج تھیں ان میں ایک بدعت تعزیہ سازی اور اس کے مروجہ ملحقات تھے، مولانا نے یہاں قیام کے دوران اس بدعت کے زور کو توڑنے، بلکہ ختم کرنے کی مثالی جد وجہد کی اور اس مہم میں بڑی حد تک وہ کامیاب رہے۔ چھٹہی مدرسہ اسلامیہ چھوڑنے کے بعد دو سال مدرسہ اٹکی رانچی میں پڑھایا اس کے بعد ترہت اکیڈمی سمستی پور میں فارسی زبان وادب کے استاذ کی حیثیت سے بحال ہو گیے، اور مدت ملازمت پوری کرکے یہیں سے سبکدوش ہوئے۔ مولانا کی سسرال داوود نگر سمستی پور تھی،حضرت مولانا محمود صاحب کی دختر نیک اختر سے آپ رشتہِ ازدواج میں منسلک ہوئے، مولانا محمود صاحب شاہی عیدگاہ بیگم پور کے خطیب وامام عیدین تھے، مولانا کے انتقال سے جب یہ جگہ خالی ہوئی تو لوگوں کی توجہ حضرت مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی کی طرف گئی، جن کی صلاحیت وصالحیت کا چرچا ہر خاص وعام کی زبان پر تھا، چنانچہ مولانا بیگم پور شاہی عیدگاہ کے خطیب اور امام عیدین مقرر ہوئے اور پوری زندگی، کوئی بتیس سال تک انتہائی ذمہ داری کے ساتھ فی سبیل اللہ اس کام کو انجام دیتے رہے۔
 مولانا عبد اللہ صاحب اپنے خاندانی روایتوں کے امین تھے، ان کا علم پختہ تھا اور تقویٰ طہارت میں شہر کے ممتاز ترین لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا، مولانا کی وابستگی یوں تو عصری تعلیم کے ادارہ سے تھی ، لیکن رکھ رکھاو، وضع قطع، شریعت کی پاسداری، دینی حمیت اور جذبہ اصلاح معاشرہ میں کبھی کمی نہیں آئی، خود شاعری تو نہیں کرتے تھے، لیکن شعراءکے سینکڑوں اشعار ان کے حافظہ کی گرفت میں تھے، اقبال کے شیدائی تھے اور ان کے اشعار خاص لطف وکیف کے ساتھ حسب موقع پڑھا کرتے تھے، طبیعت میں لطافت تھی اور خشیت الٰہی نے ان کے قلب کو نرم اور دماغ میں تواضع اور انکساری کو جاگزیں کر دیا تھا، وہ اچھے خطیب تھے، آج کے پیشہ ور مقرروں کی طرح ان کی خطابت میں گھن گرج نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اعضاءو جوارح (باڈی لنگویج) کا وہ زیادہ استعمال کرتے تھے، لیکن خلوص سے نکلے ہوئے الفاظ لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتے تھے، عوامی اور درسگاہی زندگی میں خفگی ان کا شعار نہیں تھا، وہ بات نرمی سے کہنے کے عادی تھے، ڈانٹنا ، بگڑنا، تنبیہ کرنا ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا، مولانا باخبر عالم دین تھے، ان کی نگاہ عالم اسلام کے رست وخیز اور سیاسی حالات پر گہری تھی وہ اسلام پسندوں کے غلبوں سے خوش ہوتے تھے، اور اسلام دشمن کا رروائیوں پر ان کا دل روتا تھا، جو اصلا کامل ایمان کی پہچان ہے، کیوں کہ مو من جسد واحد کی طرح ہے ، جب کسی ایک عضو میں کانٹا چبھتا ہے تو دماغ تکلیف محسوس کرتا ہے، زبان اف اف کرتی ہے اور آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں، مولانا کی کیفیت بھی کچھ اسی طرح کی ہوا کرتی تھی۔
 میرا سمستی پور سے گہرا رشتہ رہا ہے ، میں نے تدریسی زندگی کا آغاز دار العلوم بربٹہ سے کیا تھا، جتوار پور، چاند چوڑ وغیرہ رشتہ داری کی وجہ سے آناجانا رہا ، سمیع خان مرحوم جب تک زندہ تھے، سمستی پور کھینچ لیا کرتے تھے، اس طرح مختلف موقعوں سے ان سے ملاقات کی سعادت مجھے بھی ملی، لیکن عجیب وغریب بات ہے کہ کبھی کسی نے ان کا تعارف خانوادہ ہرسنگھ پور کے گل سر سبد کی حیثیت سے نہیں کرایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا کی شناخت اپنی تھی اور سمستی پور کے لوگ ان کے تعارف میں خاندانی عظمت کا ذکر ضروری نہیں سمجھتے تھے، مولانا جید عالم دین تھے، اس حیثیت سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ موت العالِم ، موت العالَم۔
 اللہ کا بڑا فضل اور کرم ہے کہ مولانا کے دو حقیقی بھائی حضرت مولانا سعد اللہ صاحب صدیقی اور مولانا ظفر اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم حیات سے ہیں اور یہ حقیر ان دونوں حضرات کی شفقت اور لطف وعنایت سے بہرہ ور ہوتا رہا ہے، حضرت مولانا ظفر اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ کی پوسا رہائش گاہ میں جو کتابیں تھیں خود سے میرے لڑ کے نظرالہدیٰ قاسمی کو بلا کر نور اردو لائبریری حسن پور گنگٹھی ویشالی کے لیے حوالہ کیا ، اس سے زیادہ اعتماد کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ اللہ مولانا عبد اللہ صاحب کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ آمین
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اتوار, فروری 05, 2023

ہلدوانی اور جوشی مٹھ__اردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

۔
ہلدوانی اور جوشی مٹھ__
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اتراکھنڈ کے دو بڑے شہران دنوں سرخیوں میں ہیں، ایک ہلدوانی، دوسرا جوشی مٹھ، ودنوں کی تاریخی حیثیت واہمیت ہے اور دونوں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہردور میں رہے ہیں، پہلے معاملہ ہلدوانی کا اٹھا تھا، وہاں کی غفور کالونی میں گذشتہ ستر پچھہتر سال سے لوگ بود وباش رکھتے ہیں، کالونی کے آباد ہونے کے بعد سے تیسری نسل اب یہاں رہائش پذیر ہے، کم وبیش پچھہتر ہزار کی آبادی پر مشتمل اس کالونی میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے، سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ یہ کالونی غیر قانونی طور پر ریلوے کی زمین پر آباد ہے، اس لیے بلڈوزر چلا کر اسے ویرانہ بنا نا ہے، تیاری ساری کر لی گئی تھی ، بلڈوزر کا رخ کالونی کی طرف ہو گیا تھا، ناامید ہوکر وہاں کے مکینوں نے احتجاج شروع کر دیا، وہ لوگ اس کے لیے بھی تیار ہوگئے کہ بلڈوزر پہلے ہمارے جسم وجاں پر چلے گا، پھر ہمارے مکانوں تک پہونچے گا، پوری دنیا کی میڈیا اس طرف متوجہ ہوئی اور سوالات کھڑے ہونے شروع ہوئے کہ اگر یہ غیر قانونی ہے تو وہاں سرکاری اسکول ، شفا خانے کس طور قائم ہوئے، بجلی اور پانی کی سرکاری سپلائی کا نظام کس بنیاد پر ہے، کثیر منزلہ عمارتیں یک بارگی تو نہیں بنیں، انہیں سرکاری کارندوں کی تحریری یا زبانی رضا مندی کس طور حاصل ہوئی، ان سوالات کا کوئی جواب نہ تو محکمہ ریلوے کے پاس تھا اور نہ ہی حکومت کے پاس، احتجاج جاری رہا، کچھ لوگ اللہ کی طرف رجوع ہوئے اور کچھ سپریم کورٹ کی طرف، سب کی محنت رنگ لائی اور سپریم کورٹ نے بلڈوزر کی کارروائی پر روک لگادی، عدالت نے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ ساٹھ ستر ہزار لوگوں کو صرف سات دن میں مکان خالی کرنے کا نوٹس دے کر اجاڑا نہیں جا سکتا، یہ انسانیت کے خلاف ہے ، اس ٹھنڈ میں وہ کہاں جائیں گے۔ اس لیے سرکار کو چاہیے کہ وہ غفور کالونی کے مکینوں کی باز آباد کاری کے لیے پہلے منصوبہ بنائے اور جب وہ نقل مکانی کی پوزیشن میں سرکاری امداد وراحت رسانی سے پہونچ جائیں تو زمین خالی کرائی جا سکتی ہے ، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ عبوری ہے ، سماعت جاری رہے گی، لیکن وقتی طور پر لوگوں کو اس فیصلے سے راحت ملی ہے۔
 ہلدوانی معاملہ کی باز گشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ جوشی مٹھ کی زمینیں پاؤں کے نیچے سے کھسکنے لگیں، مکانوں میں دڑاریں پڑنے لگیں اور کسی بھی وقت مکان کے گرنے اور مکینوں کے اس میں دب جانے کے خطرہ نے سر اٹھانا شروع کیا، ہندوؤں کے نزدیک یہ ایک مقدس شہر ہے ، زائرین کی کثرت کی وجہ سے یہاں کثیر منزلہ ہوٹل ہیں، ان میں جب دڑاریں پڑنے لگیں تو اسے زمیں بوس کر دیا گیا اور وہاں کی آبادی کو سرکاری طور پر دوسری جگہ منتقل کرنے اور انہیں گذارا بھتہ دینے کا عمل جاری ہے، اتراکھنڈ کی ریاستی حکومت اور مرکزکی مودی حکومت ان حالات سے نمٹنے اور اس شہر کو بچانے کے لیے سر گرم عمل ہے، لیکن زمین اور مکانوں میں دڑاریں مسلسل آرہی ہیں، پاور پلانٹ بھی یہاں کا خطرے میں ہے اور شہر میں بجلی کسی وقت بھی غائب ہو سکتی ہے ، نیا پاور پلانٹ بنانا خرچیلا بھی ہے اور وقت طلب بھی ، ماہرین کی رائے ہے کہ مسلسل سرنگوں کے کھودنے اور غیر قانونی کھدائی کی وجہ سے یہ مصیبت آئی ہے ، اور اب یہ شہر اس لائق نہیں ہے کہ یہاں لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے ، یہ انسانی بس کی بات نہیں ہے ، انسانوں نے اپنے ہاتھوں اس مصیبت کو دعوت دی ہے اور یہ معاملہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ شہر خالی کراکر ویرانہ میں تبدیل کر دینا ہی اس کا واحد حل ہے، حقوق انسانی کی بعض تنظیمیں متاثرین کی مدد کے لیے آگے آئی ہیں، وہ مالی مدد تو فراہم کر سکتی ہیں، لیکن زمینوں کے کھسکنے کو روکنا ان کے بس میں بھی نہیں ہے۔
 معاملہ ہلدوانی کا ہو یا جوشی مٹھ کا ، دونوں جگہ انسان ہی بستے ہیں اور ہر دوشہر کے باشندوں کی پریشانیوں سے ہمیں بھی پریشانی ہے اور ہماری خواہش ہے کہ اس کا حل جلد نکل آئے، لیکن دونوں کی نوعیت کو سامنے رکھنا چاہیے، غفور کالونی کو اجاڑنے کے لیے انسان کمر بستہ ہے، جبکہ جوشی مٹھ کو اختتام تک پہونچانے کے لیے قدرتی طور پر انتظام ہو گیا ہے ، انسانوں کے فیصلے تو بدل جاتے ہیں، جیسا غفور کالونی معاملہ میں سپریم کورٹ نے کیا، لیکن جب قدرت انتقام لینے پر آتی ہے تو اس کا کوئی انسانی حل کار گر نہیں ہوتا، ملکوں کے آباد اور ویران ہونے کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے۔”فاعتبروا یاٰولی الابصار“

ہفتہ, فروری 04, 2023

جنتر منتر پر دنگل __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جنتر منتر پر دنگل __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ہندوستان کی نامور خواتین پہلوانوں نے؛ جنہوں نے غیرملکی کھیلوں میں ہندوستان کو کئی تمغے اور گولڈ میڈل دلوائے، وہ اچانک اپنے اپنے اکھاڑوں سے نکل کر ڈبلو وائی فائی آی (ریسلنگ فیڈریشن انڈیا) کے خلاف جنتر منتر دہلی میں تین دنوں تک دھرنا پر پر بیٹھے ورلڈ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا سوئزرلینڈ میں قائم تنظیم یو ڈبلو ڈبلو کی ایک ذیلی شاخ ہے یو ڈبلو ڈبلو بین الاقوامی سطح پر اولمپک کامن ویلتھ اور دولت مشترکہ ممالک کے کھیلوں کی نگرانی کا کام کرتی ہے ، جس طرح عدالت کے جج صاحبان کا ایک بار پریس کانفرنس میں عدلیہ کے طریقہ کار پر سوال اٹھانا چونکانے والا تھا، اسی طرح ان پہلوانوں کا جنتر منتر پر آکر دھرنا پر بیٹھ جانا خلاف توقع تھا اور ہر خلاف توقع کام میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتا ہے، سو اس مسئلہ میں بھی ایسا ہی ہوا ، ملک اور بیرون ملک کے ذرائع ابلاغ نے اس معاملے کی اس قدر تشہیر کی کہ وزیر کھیل کو پہلوانوں سے کم از کم دو دور کی بات کرنی پڑی وزارت نے جانچ کمیٹی بنائی تب اتھیلٹک جنتر منتر سے ہٹے، لیکن اس واقعہ سے ہندوستان کی جو کر کری پوری دنیا میں ہوئی اس کی تلافی ظاہر ہے جانچ کمیٹی نہیں کر سکے گی ۔
ان پہلوانوں نے عاجز آکر ڈبلو ایف آئی کے سربراہ صدر برج سنگھ کے خلاف مورچہ کھولا، برج بھوشن سنگھ بھاجپا کے چھ بار سے پارلیمنٹ میں ممبر اور فیڈریشن کے صدر ہیں، مرکز کی اعلی قیادت کے چہیتوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، اس لیے فوری طور پر انہیں استعفیٰ دینے پر نہ تو مجبور کیا جا سکا اور نہ ہی انہیں برطرف کیا گیا، جب پہلوانوں نے دھرنے سے ہٹنے کا نام نہیں لیا تو وزارت کھیل حرکت میں آئی اور وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر نے باکسر میری کوم کی سربراہی میں پانچ (۵) ارکان پر مشتمل جانچ کمیٹی کی تشکیل کر دی، یہ کمیٹی چار ہفتوں میں اپنی رپورٹ وزارت کو سونپے گی اور اس کے جانچ کے دائرے میں جنسی استحصال، معاشی اور انتظامی غیرقانونی حرکتیں بھی شامل ہوں گی، اس دوران عملی طور پر برج بھوشن سنگھ کو فیڈریشن کے کام سے روک دیا گیا، تاکہ جانچ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ پیدا ہو، کمیٹی کے دیگر ارکان میں اولمپک میڈلست پہلوان یگیشوردت، سابق بیڈمنٹن کھلاڑی اور مشن اولمپک سیل کی رکن ترپتی مرگنڈے، ٹاپس کے سابق سی او او راج گوپالن اور اسپورٹ اتھارنی آف انڈیا (ایس، اے، آئی) کی سابق ایکزیکٹو ڈائرکٹ رادھیکا ستریمن کے نام شامل ہیں ۔
پارلیمنٹ رکن برج بھوشن سنگھ کی تصویر سماج میں صاف ستھری نہیں ہے، اس پر کئی جرم کے الزام میں مقدمات چل رہے ہیں، انیس سو نوے کی دہائی میں وہ ٹاڈا کے تحت جیل میں بھی رہ چکا ہے، وہ ایک پہلوان کو اسٹیج پر مار بھی چکا ہے۔
برج بھوشن پر سب سے بڑا اور سنگین الزام یہ ہے کہ اس نے خاتون پہلوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا ہے، جو خواتین برج بھوشن سے بچ گئیں وہ مختلف کوچس کی ہراسانی کا شکار ہوئیں، ملک کے لیے ورلڈ چمپئن شپ، کامن ویلتھ گیمز اور ایشین گیمز میں ملک کے لیے سب سے زیادہ تمغے حاصل کرنے والی معروف ہندوستانی خاتون پہلوان کا ونیش پھوگاٹ کا یہ الزام ہمارے نظام تربیت کی خامی اور استاذ و شاگرد کے مقدس رشتوں کو پامال کرنے والا ہے، یہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے، یہ تعداد بقول ونیش پھوگاٹ ایک دو نہیں دس بارہ کے درمیان ہے اور وقت آنے پر اسے ثابت کیا جا سکتا ہے، ونیش پھوگاٹ اور دوسری خواتین پہلوانوں نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ اگر برج بھوشن سنگھ کو برطرف نہیں کیا گیا تو وہ بین الاقوامی کھیلوں میں حصہ نہیں لیں گی۔ خواتین کھلاڑیوں کی جانب سے ذمہ داروں پر اس قسم کے الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں، اسی سال صرف 18 دن قبل ہریانہ کے وزیر کھیل اور ہندوستانی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان سندیپ سنگھ پر چنڈی گڑھ پولیس نے ایف آئی آر درج کیا تھا ، یہ ایف آئی آر ایک خاتون کوچ کی شکایت پر درج کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے سندیپ سنگھ پر جنسی استحصال اور ڈرانے دھمکانے کا الزام لگایا تھا، بات اس قدر آگے بڑھی کہ وزیر موصوف کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑ گیا، اس کے قبل بھی اولمپک میں وزن اٹھانے کا مقابلہ کرنے والی خاتون کرنم ملیشوری نے کچھ ایسے ہی حالات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی فکر مندی کا اظہار کیا تھا، جس کے نتیجہ میں تربیت دینے والے (کوچ) رمیش ملہوترہ کو معطل کر دیا گیا تھا، اور ان کا نام مجوزہ ایوارڈ سے بھی نکال باہر کیا گیا تھا۔ یہاں پر اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں کل چھپن (56) کھیل تنظیمیں سرکار سے منظور ہیں، جو کھیل اور کھلاڑیوں سے متعلق امور کی انجام دہی اور اس کی ترویج وترقی کے لیے کام کرتی ہیں، بد قسمتی سے ان میں سے سینتالیس (47) فی صد کے سر براہ سیاسی لوگ ہیں، المیہ یہ بھی ہے کہ اولمپک میں تمغہ حاصل کرنے والے پہلوان سوشیل کمار اور ماضی میں کرکٹر اور حال کے سیاسی لیڈر نوجوت سنگھ سدھو قتل کے معاملہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ بظاہر اس دنگل کا اختتام برج بھوشن سنگھ کی رخصتی پر ہوتا نظر آتا ہے کیوں کہ وزارت کھیل اور ہندوستان کی مرکزی حکومت نہیں چاہے گی کہ پیرس اولمپک میں خواتین پہلوان حصہ نہ لیں ، جس کو اب صرف ڈیڑھ سال رہ گیے ہیں، آزادی کے پچھتر سالوں میں ہم نے جو اولمپک میں پینتیس (35) تمغے حاصل کیے ہیں، ان میں ہاکی کے بعد کشتی کے ذریعہ ہی ہماری جھولی میں آئے ہیں اور ان تمغوں کے سہارے ہی ہم کھیل کی دنیا میں سینہ پیھلا کر چل رہے ہیں، اس لیے دانشمندی یہی ہے کہ ہم برج بھوشن کوبچانے کے چکر میں کھیل کا کواڑہ نہ کریں اور خواتین پہلوانوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔

جمعہ, فروری 03, 2023

قرآن کریم کی بے حرمتی ___

قرآن کریم کی بے حرمتی ___
اردودنیانیوز۷۲
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ناٹو (NATO) سویڈن کی شمولیت کے مسئلہ پر ترکی نے سخت موقف اختیار کیا، اور جم کر ناٹو کے فوجی اتحاد میں اس کے شامل ہونے کی مخالفت کی، جس کی وجہ سے سویڈن کے دار الحکومت اسٹاک ہوم میں دائیں بازو کی اسٹرام کرس پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے 21جنوری 2023ءکو ترکی سفارت خانے کے باہر ترکی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے قرآن کریم نذر آتش کیا اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کی تصویروں کو بوٹوں سے روندا، قرآن شریف کی یہ بے حرمتی کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے، چنانچہ پورا عالم اسلام اس وقت اس واقعہ کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، ترکی، قطر، ایران، سعودی عرب، کویت، ایران اور پاکستان جیسے ممالک نے اس پرشدید برہمی کا اظہار کیاہے، آذر بائی جان کے حکمراں، سینگال کے صدرمیکی سال، عراق کے مقتدی صدر نے اپنے اپنے بیان میں اسے قابل مذمت عمل قرار دیا ہے، ہندوستان کی ملی تنظیموں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو سمجھے اور اس واقعہ پر سویڈن حکومت کے سامنے اپنی برہمی اور ناراضگی کا اظہار کرے۔ ترکی میں اس واقعہ پر احتجاج اور مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔ سویڈن کے وزیر خارجہ ٹوبیا سی بلسٹروم نے اسے اسلام فوبک اشتعال سے تعبیر کیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہم اس قسم کے اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ نمائندہ میگل اینجل مورا ٹینوز کے ترجمان نے کہا کہ یہ مسلمانوں کی توہین ہے اور اسے اظہار رائے کی آزاد ی کا نام نہیں دیا جاسکتا، انہوں نے باہمی احترام کے فروغ اور پرامن معاشرہ کی تشکیل پر زور دیا، سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن نے بھی اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میں ان تمام مسلمانوں کے لیے اپنی ہمدردی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جنہیں آج اسٹاک ہوم میں ہونے والے واقعہ سے تکلیف پہونچی ہے۔
 ظاہر ہے اس قسم کی گھناؤنی حرکت کے ذریعہ ترکی کو اپنے موقف سے ہٹایا نہیں جاسکتا، بلکہ اس عمل سے دوریاں اور بڑھیںگی، چنانچہ اس کا اظہار ترکی نے سویڈن کے وزیر دفاع پال جانسن کے ترکی دورے کو منسوخ کرکے شروع کردیا ہے، ترکی کا کہنا ہے کہ اس عمل کے بعد یہ دورہ اپنی اہمیت اور معنویت کھو چکا ہے۔اس سلسلے میں پال جنسن نے جرمنی کے شہر راسٹین میں ترک وزیر دفاع ہولوسی آکار سے امریکی فوجی اڈے پر ملاقات کی، لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ واقعہ کے صحیح ہونے کے باوجود اس واقعہ کا جو ویڈیو سوشل میڈیا پر گشت کررہاہے وہ سویڈن کا نہیں۔کہیں اورکاہے سوشل میڈیا پر پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔

پونجی کی حفاظت ضروری ہے

پونجی کی حفاظت ضروری ہے 
اردودنیانیوز۷۲

جمعرات کے دن ہم مولویوں کے ذہن میں چھٹی ہی سوار رہتی ہے، شام کے وقت جب گھر سے نکلنے پر اہلیہ نے پوچھا کہاں جارہے ہیں؟اچانک یہ جملہ منھ سے نکل گیا ؛آوارگی کرنے جارہا ہوں، بعد میں احساس ہوا کہ یہ جواب صحیح نہیں ہے،مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے،بہر کیف اسی ادھیڑ بن میں ارریہ شہر کے مولوی ٹولہ آنا ہوا، وہاں بھی سوال ہوا،مولوی صاحب! یہاں کیا کررہے ہیں؟ خلیل آباد مسجد میں آپ تمام مدرسہ والوں کا ضلعی جوڑ ہے،عشاء تک پروگرام ہے، جلدی جائیے، پہونچ گیا، پروگرام کی آخری کڑی جناب حضرت مولانا ایوب صاحب کی نصیحت ہورہی ہے، حضرت فرمارہے ہیں؛"آپ عالم انسانیت کی ہدایت کا ذریعہ ہیں، موجودہ حالات کو بدلنے کا ذریعہ علماء کرام ہی ہوسکتے ہیں، بس فکر مندی کی ضرورت ہے، رونے کی ضرورت ہے، علماء اللہ سے ڈرنے والی برادری کا نام ہے،قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ خشیت الہی عالموں میں ہوتی ہے،یہ یاد رکھئے کہ علم عمل کا امام ہے،جب علم کے ساتھ عمل نہیں جڑتا ہے تو علم رخصت ہوجاتا ہے، بہت سے لوگ تفسیر کا علم سیکھتے ہیں، حدیث کا علم سیکھتے ہیں، اس کا ماحصل اخلاق ہے،آج اس اخلاق کے علم کو پیش کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا علم ہدایت کا ذریعہ بن جائے، اس بات کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے، 
دعاؤں میں طاقت پیدا کرنے کے لئے یقین ضروری ہے ،یقین جس درجہ کا ہوگا اس کی دعا میں جان اتنی ہی ہوگی، عالموں کے لئے گناہ سے بچنے کی سخت ضرورت ہے، جب گناہ سے ایک عالم بچتا ہے جبھی اس کا علم راسخ ہوتا ہے، آپ اپنی قیمت کو پہچانیئے، آپ پوری امت کے سرمایہ اور پونجی ہیں، اگر پونجی ہی ڈوب گئی تو کاروبار ختم ہوجائے گا، پہلے پونجی کی حفاظت ضروری ہے"
واقعی مولانا نے دو منٹ کے اندر سب کچھ کہ دیا ہے اور ہمیں ذاتی طور پر یہ محسوس ہوا کہ واقعی بڑی چوک ہم سے ہورہی ہے، وہی طالب علمی کے زمانے کی کمیاں پوری عمر ہمارا پیچھا کررہی ہیں کہ آج جمعرات ہے اور چھٹی کا دن ہے، جبکہ  مولویوں کے لئے چھٹی نہیں ہے،ہمیں ہروقت یہ سبق یاد رکھنے کی ضرورت ہے، 
    ع۔۔ اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا 
 حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تاریخ دعوت وعزیمت کی پانچ جلدوں میں علماء کرام اور مصلحین مجدین کی فہرست پیش کی ہے،تیرہ سو سالہ تاریخ میں جنہوں نے اسلام کی احیاء، تجدید اور اصلاح کا کارنامہ انجام دیا ہے،
اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے کام میں حصہ لیا ہے،ان کی کوششوں سے اسلام زندہ اور مضبوط شکل میں موجود رہا ہے، کوئی زمانہ خالی نہیں رہا ہے،مگر آج یہ میدان خالی نظر آرہا ہے،مطلوبہ اوصاف سے ہم عاری نظر آرہے ہیں، ایسے میں عزم لینے کی شدید ضرورت ہے کہ ہم حالات کو بدلنے کے لئے پہلے اپنی حالت کو بدلیں گے، اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے، 

   خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
  نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا 

راقم الحروف 
ہمایوں اقبال ندوی ارریہ 
۲/فروری ۲۰۲۳ء

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...