Powered By Blogger

اتوار, فروری 12, 2023

تلاش گمشدہ

تلاش گمشدہ
اردودنیانیوز۷۲ 
محمد معصوم ابن محمد میکائیل مرحوم
عمر 15/سال
ساکن پرسا گڑھی تھانہ جدیہ بازار تروینیی گنج، ضلع سوپول بہار،
متعلم :- شاخ جامعہ رحمانی شجاعل پور مونگیر (بہار)
یہ بچہ بروز سوموار 6/فروری 2023 کی صبح 9/بجے سے لاپتہ ہے،
اگر کہیں یہ نظر آئے، یا اس کا سراغ لگے تو از راہ کرم اس نمبرات پر رابطہ کرکے اطلاع دیں گے،
7319803589
9608750465
8757710017
9155745674
توصیف اقبال ندوی (سوپول)

مولانا شفیق قاسمی ؒ __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا شفیق قاسمی ؒ __
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
  امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے سابق رکن، کانگریس اقلیتی سیل ضلع بیگوسرائے ، غیر منقسم مونگیر جمعیت علماءکے سابق صدر، جامعہ رشیدیہ بیگو سرائے کے بانی ، مدرسہ بدر الاسلام کے سابق استاذ حضرت مولانا شفیق عالم قاسمی براسی (82) سال کی عمر میں قلب کے آپریشن کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جاملے، اطلاع کے مطابق دوروز قبل انہیں دل کا دورہ پڑا تھا، میڈی ورسل ہوسپیٹل میں ڈاکٹر نلنی رنجن کی نگرانی میں علاج شروع ہوا، پیس میکر لگانے کی تجویز آئی، چنانچہ فوری کارروائی شروع ہوئی اور آپریشن ہو گیا، پیس میکر لگا دیا گیا، لیکن بے ہوشی دور نہیں ہوئی 23 جنوری 2023 مطابق یکم رجب 1444ھ بوقت سات بجے شام حادثہ پیش آگیا، اہلیہ پہلے ہی انتقال کر گئی تھیں، پس ماندگان میں تین بیٹے، محمد افروز، ڈاکٹر معراج الحق، محمد اعزاز اور پانچ لڑکیوں کو چھوڑا، ان میں سے ایک نامور عالم دین، بڑے محقق، مفسر اور لجنة اتحاد علماءالمسلمین قطرکے مفتی مولانا خالد حسین نیموی کے نکاح میں ہیں، مولانا خالد حسین نیموی امارت شرعیہ کے دار العلوم الاسلامیہ کے سابق اور مدرسہ بدر الاسلام بیگو سرائے کے موجودہ استاذ ہیں۔
 چوکہ ان کی رہائش ہرّک بیگو سرائے میں تھی ، اس لیے دوسرے دن ڈھائی بجے جنازہ کی نماز ہرک میں ادا کی گئی اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ہرّک قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ کی امامت ان کے داماد مولانا مفتی خالد حسین نیموی نے فرمائی، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم سے مفتی سعید الرحمن صاحب مفتی امارت شرعیہ کی قیادت میں امارت شرعیہ کے ایک مو قر وفد نے تدفین میں شرکت کی اور حضرت امیر شریعت کا پیغام سوگوار خاندان تک پہونچایا۔یکم فروری 2023 کو منعقد بیگوسرائے کی ایک تعزیتی مجلس میں احقر محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کی بھی شرکت ہوئی اور بُجھے ہوئے دل سے کچھ تعزیتی کلمات کہے گیے۔
 مولانا شفیق عالم قاسمی بن مقصود عالم کی جائے پیدائش نیما چاند پورہ ضلع بیگو سرائے ہے۔ 1940 میں اسی گاؤں میں آ پ نے آنکھیں کھولیں، ناظرہ دینیات اور ابتدائی فارسی کی تعلیم مدرسہ بشارت العلوم نیما میں حافظ وقاری محمد صدیق ؒ صاحب سے حاصل کرنے کے بعد ڈھاکہ (موجودہ ضلع بنگلہ دیش) میں حضرت مولانا محمد اللہ صاحب عرف حافظ جی حضور خلیفہ حضرت تھانوی ؒ کے سامنے حفظ قرآن کے لیے زانوے تلمذ تہہ کیا اور چودہ پارے ان سے حفظ کیے، وہاں سے پھر مولانا محمد ادریس نیموی ؒ کی تحریک پر پہلے مدرسہ تجوید القرآن مونگیرمیں مولانا سعد اللہ بخاری صاحب کی زیر سر پرستی تعلیم حاصل کی اور پھر جامعہ رحمانی مونگیر میں داخلہ لیا، ایک سال وہاں قیام کے بعد پھر جامعہ عربیہ قرآنیہ لال باغ ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش)چلے گیے اور حافظ جی حضور کی زیر سر پرستی قاری مفیض الرحمن نواکھالی اور حافظ نور الہدیٰ سے حفظ قرآن کی تکمیل اور دور کے مراحل طے کیے، اس کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی، علامہ ظفر احمد تھانوی اور مولانا احتشام الحق تھانوی کے دست مبارک سے آپ کے سر پر دستار باندھی گئی۔
 عربی کی تعلیم کا آغاز مدرسہ بدر الاسلام بیگو سرائے سے ہوا، یہاں آپ نے 60-1956کے دوران عربی اول سے عربی پنجم تک کی تعلیم پائی، 1961میں آپ دار العلوم دیو بند تشریف لے گیے، 1964تک آپ کا وہاں قیام رہا، انہوں نے بخاری شریف فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الحسنؒ سے پڑھی ، آپ کو اس وقت کے بڑے علماءومشائخ کی خدمت کا موقع ملا اور آپ نے سب سے کسب فیض کیا، مسلسلات حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور حجة اللہ البالغہ کا درس قاری محمد طیب صاحب رحمہما اللہ سے لیا، دوران طالب علمی بلکہ دار العلوم دیو بند جانے سے قبل ہی آپ کا نکاح مشہور حکیم اور معالج حکیم یٰسین صاحب کی اکلوتی صاحب زادی صفورہ خاتون سے ہو گیا تھا۔
 دیو بند سے واپسی کے بعد آپ نے تدریسی زندگی کا آغاز اپنی مادر علمی مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے سے کیا، ملی، سماجی اور سیاسی سر گرمیوں میں مشغولیت کی وجہ سے بعد میں بدر الاسلام کی تدریسی زندگی کو آپ نے خیر باد کہہ دیا ، لیکن کم وبیش بیس سالوں تک مدرسہ کی خدمت صدر کی حیثیت سے کرتے رہے۔ جمعیت علماءکے پلیٹ فارم سے بحیثیت صدر وسکریٹری مولانا کی خدمات انتہائی وقیع ہیں، سیاست کی بات کریں تو کانگریس اقلیتی سیل کے صدر کی حیثیت سے مدتوں خدمات انجام دیں، تدریسی زندگی کو خیر باد کہنے کے بعد ذریعہ معاش تجارت کو بنایا اور اس میں اس قدر نام کمایا اور شہرت حاصل کی کہ بیگو سرائے چیمبر آف کامرس کے صدر منتخب ہوئے۔ امارت شرعیہ کی شوری کے ممبر رہے اور وفود کے دوروں کے موقع سے ان کا خصوصی تعاون ہمیشہ امارت شرعیہ کو ملتا رہا ، پوری زندگی ، توانائی اور انرجی ملت کے لیے وقف کر دیا، جامعہ رشیدیہ بیگو سرائے قائم کرکے دینی تعلیم کی ترویج واشاعت کا انتظام کیا، بہت سارے مکاتب ومدارس کے سر پرست ونگراں رہے، اللہ نے خوب کام لیا، عزت بھی دی اور شہرت بھی دی ، جہاں رہے نیک نام رہے، اور آخری حد تک اپنی صلاحیت کو صالحیت کے ساتھ دینی خدمات کے لیے وقف رکھا۔
 مولانا سے میری ملاقات پرانی تھی، بیگو سرائے میں مولانا کا قائم کردہ جامعہ رشیدیہ وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ سے منسلک ہے، کبھی جائزہ یا کسی اور پروگرام میں جانا ہوتا تو مولانا سے ملاقات ضرور کرتا، مولانا اسم بامسمی تھے، شفیق نام تھا اور چھوٹوں پر شفقت بہت کیا کرتے تھے، میری آخری ملاقات گذشتہ ماہ ہی دہلی میں ہوئی تھی، موقع مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن اور فخر المحدثین مولانا سید فخر الحسن رحمہما اللہ پر سمینار کا تھا، جو صد سالہ تقریب کے عنوان سے جمعیت علماء(مولانا محمود مدنی گروپ) نے کروایا تھا، مولانا نے اس سمینار میں انتہائی جذباتی انداز میں مولانا فخر الحسن صاحب پر اپنا مقالہ سنا یا تھا، ان کے ساتھ مولانا خالد نیموی بھی تھے، دستر خوان پر ہم لوگ الگ سے ان کی باتوں سے مستفیض ہوتے رہے ، ان کے اندر بزرگانہ خشکی نہیں تھی، اور نہ ہی بزرگی کا رعب تھا، اس لیے ہم لوگ کھل کر باتیں کرتے رہے، مولانا خالد حسین نیموی سے میں نے اسی مجلس میں یہ درخواست بھی کی تھی کہ ان کی سوانح جو آپ نے مرتب کرنا شروع کیا تھا اور جس کی کئی قسطیں سوشل میڈیا پر آئی بھی تھیں کو مکمل کر دیں، تاکہ مولانا کی زندگی میں ہی یہ کام مکمل ہوجائے، مفتی خالد حسین صاحب نے وعدہ بھی کیا تھا کہ دہلی سے جا کر لگوں گا، لیکن کیا معلوم تھا کہ اس کتاب کی تکمیل کے قبل ہی ان کی حیات کا آخری ورق الٹ جائے گا اور ہم سب ان کے فیوض وبرکات سے محروم ہو جائیں گے۔ گذشتہ دنوں تعزیتی جلسہ میں جانا ہوا تو کئی مقررین نے اپنی تقریر میں اس بات کا ذکر کیا کہ وہ میری تحریروں کے بڑے مداح تھے اور اپنے عزیز و رفقاءکو اسے پڑھنے کی تلقین کیا کرتے، بعضوں کو وھاٹسپ کے ذریعہ خود منتقل کرتے۔میں یادوں کے چراغ ضرور جلاتا ہوں ، لیکن مولانا طلحہ نعمت ندوی کی رائے ہے کہ میں اسے مرثیہ بنانے سے گریز کرتاہوں اور کسی کی جدائی پر ماتم کا میرا مزاج نہیں ہے ، لیکن کیا کروں مولانا کی جدائی پر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور جب ہم دور والوں کا یہ حال ہے تو ان کے بچوں پر کیا گذر رہی ہوگی ، مولانا خالد حسین نیموی پر کیا گذر رہی ہوگی، جن کے کم سنی میں والد کے گذر جانے کے بعد سارا کچھ ایک والد کی طرح انہوں نے کیا تھا، اور مفتی صاحب سے کی زندگی پر سکون رہے اس کے لیے اپنی تربیت یافتہ لخت جگر ان کے نکاح میں دیا۔ اب مفتی صاحب زیادہ کون اس بات کو جانے گا کہ صبرآتے آتے آتا ہے، لیکن صبر صدمہ اولیٰ کے وقت کا ہی معتبر ہے، روپیٹ کر تو سب کو صبر آجاتا ہے۔
 اللہ پورے خاندان اور مفتی خالد صاحب ان کی اہلیہ، مولانا کے تلامذہ، رفقاءاور معتقدین کو صبر وثبات کی توفیق بخشے، مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کا بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ آمین۔

تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں سالانہ جلسہ کا انعقاد

تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں سالانہ جلسہ کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 
تسمیہ جوئیر ہائی اسکول میں ۳۱ واں سالانہ جلسہ کا انعقاد ہوا۔ اس موقع پر اسکول کے صدر ڈاکٹر ایس فاروق ( صدر تسمیہ آل احمد یا ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیر سوسائی کی ریلی ) نے مہمان اسوسی جناب آئی لی والے مالی سال اول گیار راہ میں اس پر اے آر آن از نالی دارد) اور مہمان ای دلار جناب ڈاکٹر محمد فاروقی (سابت الگ اور ڈی آرتھوپے تک پاس ) کا استقبال پھولوں کا گلدستہ اور یاد گارانتان پیش کر کے کیا۔ پروگرام کا آغاز دریں وائی کے

طالب اعظم اس کی حلاوت کلام پاک سے ہوا۔ جس کا اردو اور انگریزی میں ترین استوار ہے اور اگر اور جہاں نے کیا ۔ العلم اسعد ترجمہ، آمنہ درجہ اقراء سارا اور زویا نے اپنی آواز میں نعت نبوی پیش کی اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر نے اسکول کی سالانہ رپورٹ پیش کی۔ جس میں انہوں نے تعلیمی نظام ۲۳ ۲۰۲۲ کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا اور اسکول کے مستقبل کے پان سے بھی اللہ ہی کو آگاہ کیا۔ اس موقع پر اسکول کی دیگر میں انور کا بھی ملتان کیا کیا جو وان ایڈیشن ہے۔ جس میں گزرے ہوئے سال کے طلبہ و طالبات کی کارکردگی کو پیش کیا جاتا ہے۔ کلچر پروگرام میں درجہ اہل ۔ کے ۔ جی کے بچوں نے میرے میں دو ہاتھ اللہ دائیں کر کے سب کا دل جیت لیا۔ اللہ ہی کے جی کے بیجوں نے لکڑی کی کالی ہر ایکشن کے ساتھ لائیں کیا اور نہ انور کے گرداب نے یہ ہندوستان " حب الوطنی گیت سے سب کو خوش کیا۔ درجہ ۳-۱۴اور ۶ کے طلبہ و طالبات نے خوبصورت گیت استاد محترم " پیش کیا۔ درجہ ۱۵ اور ے کے گروپ نے پہلے ہی کو اہور ہے آجاؤں میں میری خدایا اثر دئے پیش کیا۔ جس نے بھی کو چند باتی کردیا۔ دریا جی کی لڑکیوں نے ہم پنیاں اسلام کی پیش کیا۔ اور ا سکے اور اورٹی کے ارکان نے بعد وہ مسلم سکھ۔ جہانی اتحاد پر اشاروں کے بعد سے خاموشی اور اس میں کیا۔ ابا جی کے گروپ نے انگریزی ارامہ ان دا کورٹ آف ہیلتھ' پیش کیا۔ کبھی بچوں نے اپنی اپنی پیشکش کے ذریعہ کوئی نہ کوئی پیغام دیا کسی نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کیا، کسی نے اپنی پیشکش کے ذریعے انگرین کی یادوں کو تازہ کیا تو کسی نے ڈان کی محبت اور استاد کا دہی اور ان کی محبت کیوں کیا۔ ایسے ہی کچھ نے اپنی تلاش کے ذریعے اللہ سے دعا مانگی اور کچھ نے اسلام میں بیٹیوں کی اہمیت کو بتایا ۔ کسی نے اپنے ملک کی طاقت کو بتایا کی ہندو مسلم سکھ عیسائی ہم بھی اپنے ملک کی طاقت ہیں اور انگریزی ڈارمہ میں صفائی اور صحت دونوں کیا ایسے سائلی جیسا کہ ہمارے اسلام میں ان ممانی کو آرمانیان اور صحت کو نئی بات بتایا گیا ہے۔ جس نے سب کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے بعد اسکول کے امتیازی نمبر حاصل کرنے والے طالبات تو یہ دلشاد، فاطمه پروین، جمیرا، زویا شیرین ، اقراء ، اصلی جمیرا، اقتصی صوفیہ، مہوش کو ٹرافی اور سرٹیفیکٹ اور ایک ہزار رو ہو سکے پی کے سے تو از کر ان کی حوصلہ انوالی کی کی۔ اس کے ساتھ ہی عمل حاضری میں دور ہے۔ کے ۔ جی کے لھا کی صدراتی بہار ہو کے دو طالبہ نیا اور خانہ درجہ کی کی شبدین، در مدتی کی اصولی اتھارٹی کی ملیہ نے اسکول میں بغیر چینی کے سال کو پورا کیا۔ ساتھ ہی اسکول کے پرتال جارہے مظہر اور اسکول کے پیپر سرعین خان نے بھی پورے سال مکمل حاضری کی رانی اور سر کا کالے حاصل کیا۔ اس موقع کا ایک آرٹ اور کرائے اور سائنس کی نمائش بھی لگائی گئی ۔ آرے اور کرافتے میں ہونے سٹائل یا شک ہوں، دریائے گلاس پینینگ چالیس سے لے پائے ان پریس فوٹو فریم و خمیر و ریکار سامان سے کیا چیز وں کو نمایا کیا گیا۔

سائیس لائن میں مال دکھائے گئے اور ان کے بارے میں بتایا گیا جس میں بچوں نے مال استر کار آف آئی۔ کویل داره نگ، دار سائیکل ، نمائش پایدان کوئی رنگ اکیس مسلمہ آلو چیک کرنا اللہ ور لاک بالی وغیرہ کے اربھائی صلاحیتوں کو دکھایا۔ کبھی مہمانان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مہمان خصوصی آئی پی پانڈے نے بچوں سے اپنی تعلیم پر توجہ دینے پر زور دیا۔ انہوں نے کہاں کہ بچوں میں خود اعتمادی ضرور کی ہے اس لئے اپنے اندر اور اعتمادی پیدا کہتے ۔انہوں نے والدین کا کی بچوں کے لئے گھر میں تعلیم کا حمد وماحول پیدا کرنے کو کہا۔ مہمان رہی انکار آئی پی پانڈے نے کہا کہ تعلیم وہ ہے جو انسان کو کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا سکھاتی ہے جو کھلی آنکھوں سے خواب نہیں دیکھتے میرے خیال میں ان کو تعبیر بھی کبھی نہیں ملے گی انھوں نے کہا تربیت سکھاتی ہے جتنا د امن ہے اس میں زندہ رہنا ہے۔ ،

اپنے صدارتی خطاب میں کہا اپنی د بنیادی تعلیم پر زور دیا انھوں نے کہا کہ علم کا سیکھنا ہر مرد اور عورت کے لئے فرض ہے ایک اچھے انسان سے ایک اچھے معاشرے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس سب کے لئے یا احتمال ہونا ضروری ہے اور تعلیم نہیں جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے دینے کا طریقہ بتاتی ہے تعلیم ہمارے عوام کے لئے اور اس وطن کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے اپنی تمام ضرورتوں کو کم کر کے اپنے بچوں کو تعلیم دیں تعلیم صرف نوکری کے لئے نہیں بلکہ ادب کے لئے ہوتی چاہئے ۔ پروگرام کے انتقام پر اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر نے سب مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اس موقع پر شہر کے اسکولوں کے پرنسپل علاقہ کے معزز لوگ اسکول کا اتاقت زبیر احمد مولانا محمد شوکت محمد مرسین ، محمد پر دین محمد شاه ریا، لاکه صحت آزاد باشه ، خوش نصیب و درخشان پردین ، رقیه باتور امر ین انصاری بازی کی اسانید مریم اسید میاں ماتم فاطمہ کا کلمہ وغیرہ موجودہ ہے۔ کیوں کے در پہ کھانے کے انسان کبھی لگائے گئے ۔ جس کا بھی نے لحق المداواة

سمستی پور کالج میں اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اسٹڈی سینٹر) کے زیر اہتمام میٹنگ کا انعقاد

سمستی پور کالج میں اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اسٹڈی سینٹر) کے زیر اہتمام میٹنگ کا انعقاد 
اردودنیانیوز۷۲ 
سمتی پور (پریس ریلیز) 11 /فروری 
 سمستی پور میں اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (IGNOU) اسٹڈی سینٹر کے زیراہتمام، جولائی سیشن 2022 - 23 کے لیے میٹنگ کا انعقاد کوآرڈینیٹر ڈاکٹر کنال کی قیادت میں کیا گیا۔
 کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے پروگرام کے آغاز میں چراغ روشن کیا، اس کے بعد IGNOU اسٹڈی سینٹر سمستی پور کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر کنال نے میٹنگ کی صدارت کی، ڈاکٹر ستین کمار اعزاز کے طور پر شال اور پھول کے مالے سے استقبال کیا ۔ اس کے بعد، کوآرڈینیٹر ڈاکٹر کنال جی نے استقبالیہ کمالات سے میٹنگ کا آغاز کیا ۔ پروگرام کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے، ڈاکٹر اکیلا جی، بی لِب، IGNOU کے ایک اسٹڈی سینٹر کے کونسلر کو مدعو کیا گیا، جنہوں نے اپنی تقریر میں " یونیورسٹی کی تعلیم کی خود انحصاری شکل" خود مطالعہ، خود ترقی کے نعرے پر زور دینے کے ساتھ ساتھ لائبریری سائنس کے مطالعہ کی مشکلات اور ان کے حل پر تفصیلی گفتگو کی۔اس کے بعد ڈاکٹر درگیش رائے جی، ڈاکٹر راہل منہر۔ اور جناب راج دیو ، جناب پرمود ، جناب ششی شیکھر وغیرہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی روایت کے مطابق آخر میں اپنی صدارتی تقریر میں ڈاکٹر ستین کمار نے اطمینان کا اظہار کیا۔ دنیا کے سب سے بڑے تعلیمی پلیٹ فارم IGNOU کے اس اسٹڈی سنٹر میں طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ تعلیمی بیداری خود احتسابی جیسے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دنیا کی اس خود کفیل روایت کی روشنی میں آڈیٹوریم میں موجود طلباء نے دوسروں کو بھی اس سے جوڑنے کا عزم کریں ۔
اور IGNOU کی تعلیم وترقی ترقی پر خصوصی گفتگو کی ، بین الاقوامی سطح پر بھی تعلیمی نظام ترقی کی راہیں کس طرح ہموار ہوں ان پر خصوصی توجہ دلائی ۔
سمستی پور کے IGNOU کے نئے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر کنال جی کے کام کرنے کے انداز کی تعریف کی اور آج کی تحریکی میٹنگ کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور آخر میں اس اسٹڈی سنٹر کے تمام کارکنوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی پرانی نسل کے لوگوں سے سیکھیں تاکہ اس مرکز کے طلباء اس سے زیادہ فائدہ اٹھاسکیں۔ ڈاکٹر خورشید احمد خان نے محفل میں تمام شرکاء کا کا شکریہ ادا کیا۔اور آخر میں قومی ترانے کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔ڈاکٹر منوہر پاٹھک نے پروگرام کی نظامت کی۔کالج کے تمام اساتذہ کرام سمیت اس میٹنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں غیر تدریسی عملہ اور طلباء موجود تھے۔
اس پروگرام کا آخری پڑاؤ سوال و جواب کے ذریعہ طلباء سے مکالمہ قائم کرنا تھا جسے اسٹڈی سینٹر میں موجود کونسلرز نے انجام دیا۔

ہفتہ, فروری 11, 2023

مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کے ’ یادوں کے چراغ ‘تعارف و تبصرہ/شکیل رشید

مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کے ’ یادوں کے چراغ ‘
تعارف و تبصرہ/شکیل رشید
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، خوب لکھتے ہیں ، اور اچھا لکھتے ہیں ۔ کچھ پہلے جب مولانا کی دو کتابیں ’ یادوں کے چراغ ‘ جِلد اوّل و جِلد دوم مجھے ملیں تو ان سے اپنی ایک ملاقات یاد آگئی ۔ پہلی اور اب تک کی آخری ملاقات ، لیکن ہمیشہ کے لیے یاد رہ جانے والی ملاقات ۔ میں کسی تقریب میں شرکت کے لیے ململ گیا تھا ، وہاں سے پٹنہ دوپہر کے وقت واپسی ہوئی تو یہ الجھن سامنے تھی کہ ممبئی کے لیے رات کا سفر ہے ، وقت کہاں گذارا جائے ۔ امارت شرعیہ پھلواری شریف کا صرف نام سنا تھا ، کبھی جانا نہیں ہوا تھا ، ایک بس پکڑ کر وہاں پہنچا ، عادل فریدی سے ملاقات ہوئی ، اس کے بعد مولانا ملے اور انہوں نے ’ میزبانی ‘ کے سارے فرائض اپنے ذمہ لے لیے ، اور سفر میرے لیے آسان بنا دیا ۔ آج اتنے دنوں بعد شکریہ کا موقعہ ملا ہے ، بہت بہت شکریہ مولانا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب !  
مولانا محترم کے مضامین دینی ، اخلاقی اور معاشرتی ، ادبی و سیاسی غرضیکہ ہر موضوع پر ملک بھر کے اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں ، اور پڑھے جاتے ہیں ۔ ان مضامین کی ایک بڑی خوبی ان کا اسلوب اور لفظوں کا انتخاب ہے ۔ اسلوب رواں ہے ، زبان سلیس لیکن عمومی نہیں ، اور موضوع بھلے بار بار کا آزمایا ہوا ہو ، لیکن لکھنے کے انداز میں نیا پن ۔ مولانا کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اردو زبان و ادب کی تمام اصناف پر لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، مثال کے طور پر زیر تعارف و تبصرہ کتاب ’ یادوں کے چراغ ‘ ہی کو لے لیں ، اس کے مضامین اردو ادب کی ایک اہم صنف ’ خاکہ ‘ کے تحت آتے ہیں ۔ خاکہ یعنی کسی کی حیات و خدمات کو یوں لوگوں کے سامنے پیش کرنا کہ انہیں وہ شخصیت ، جس کی حیات و خدمات پیش کی جا رہی ہیں ، اپنی آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی ہوئی نظر آئے ۔ اس کتاب میں مولانا محترم نے ، دو جِلدوں میں ۱۱۱ شخصیات کے خاکے پیش کیے ہیں ۔ خاکوں کو ، دونوں ہی جِلدوں میں ، چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلی جِلد میں ابواب کی تقسیم اِن عنوانات کے تحت ہے ’ علماء و مشائخ ‘ ، ’ سیاسی ، سماجی و ادبی شخصیات ‘ ، ’ بھولے بِسرے لوگ ‘ اور ’ رشتہ دار ‘۔ دوسری جِلد میں ابواب کے عنوانات میں تھوڑا سا فرق ہے ، پہلا باب تو وہی ہے ’ علماء و مشائخ ‘ لیکن دوسرے باب کا تبدیل شدہ عنوان ہے ’ شعراء ، ادباء ، سیاست داں اور صحافی حضرات ‘ ، تیسرے باب کا عنوان ہے ’ بھولے بِسرے لوگ ‘ اور چوتھا باب ہے ’ تم سلامت رہو ہزار برس ‘۔ دونوں ہی جِلدوں میں جن علماء و مشائخ کے خاکے ہیں اُن کی تعداد ۶۳ ہے ، ان میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجّاد ؒ ، مولانا منت اللہ رحمانی ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ ، مولانا ابرارالحق ہردوئی ، مولانا فضیل احمد قاسمی ؒ، مولانا سیّد عبداللہ حسنی ندوی ؒ اور مولانا سیّدنظام الدین ؒ اور دیگر اکابر علماء و مشائخ کے نام شامل ہیں ۔ ان اکابر علماء پر لکھتے ہوئے مولانا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے کہیں بھی اپنے قلم کو بہکنے نہیں دیا ہے ، نہ ہی کسی کی تعریف حد سے بڑھ کر کی ہے ، اور نہ ہی کسی کے احترام کو ہاتھ سے جانے دیا ہے ۔ ایک مثال مولانا ابرار الحق ہردوئی ؒ کی ملاحظہ کریں : ’’ حضرت مولانا فطر تا نفاست پسند تھے ، یہ نفاست ، لباس ، وضع قطع ، چال ڈھال ہی میں نہیں مسجد ومدرسہ کی تعمیرات تک میں نظر آتی ہے ، وہ شعائر اسلام کو خوبصورت دیکھنا پسند کرتے تھے ، علماء کی قدردانی ان کی فطرت تھی ، ظاہری وضع قطع پر بھی خاصہ دھیان دیتے تھے ، اصول کی شدت کے ساتھ پابندی حضرت تھانوی ؒکے یہاں سے ورثہ میں ملی تھی ، پوری زندگی اسے برتتے رہے ، اصول کی پابندی میں جو سہولت ہوتی ہے ، اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں ، جنہوں نے اس کا مزہ چکھا ہے ، کچھ لوگ اس شدت پسندی پر لیت ولعل کیا کرتے ہیں ، لیکن جس نے اس کا مزہ ہی نہ چکھا ہو اس کی تعریف کیا ، تنقید کیا ؟‘‘
اکابر کے اِن خاکوں میں ، ہندوستان کے ہر اس دور کی ، جس دور کے یہ اکابر تھے ، تاریخ بھی آ گئی ہےاور خراب حالات میں بزرگوں کا عمل بھی سامنے آ گیا ہے ۔ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کے خاکہ کی ایک مثال دیکھیں : ’’ ابھی ہم لوگ بہار پہنچ کر دَم بھی نہیں لینے پائے تھے کہ بابری مسجد کے انہدام کا وہ المناک واقعہ پیش آیا ، جس نے یہاں کے سیکولر دستور ، آئین کی بالا دستی ، اور جمہوریت پر سوالیہ نشان لگا دیا ، قاضی صاحب نے دہلی میں کیمپ کر لیا اور مسلمانوں کو صبر و ضبط ، نظم و استقامت اور جوش کے بجائے ہوش کا ایسا درس دیا جو پورے ملک میں محسوس کیا گیا ، ایک منفرد اور اچھوتی آواز ، اس موقع سے انھوں نے صبر پر استقامت کے لیے روزہ کی تجویز رکھی ، جس پر بڑی تعداد میں مسلمانوں نے عمل کیا ۔‘‘ مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے خاکے میں مسلم پرسنل لا کی حفاظت کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مرحوم کے یہ تاریخی جملے ، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے تحریر کر دیے ہیں ، شاید اب پھر اِن جملوں کو دوہرانے کا وقت قریب آ رہا ہے ، ملاحظہ کریں : ’’ میں اس کے لیے تیار ہوں کہ ہماری گردنیں اڑا دی جائیں ، ہمارے سینے چاک کر دیے جائیں ۔ مگر ہمیں یہ برداشت نہیں کہ ’ مسلم پرسنل لا ‘ کو بدل کر ایک ’ غیر اسلامی لا ‘ ہم پر لاد دی جائے ، ہم اس ملک میں باعزت قوم اور مسلم قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔‘‘
سیاسی شخصیات میں ابراہیم سلیمان سیٹھ ، کرنل محبوب احمد ، ایم شمیم جرنلسٹ ، اور اے پی جے عبدالکلام جیسی شخصیات شامل ہیں ۔ مفتی صاحب نے صرف ایک جملے میں سلیمان سیٹھ کی شخصیت اور ملّت و قوم کے لیے ان کے جذبے کو نظروں کے سامنے لا دیا ہے ، وہ لکھتے ہیں ، ’’ ٹیپو کے مزار پر جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھے تو ہم سب کی آنکھیں نم تھیں ، لیکن سیٹھ صاحب بلک بلک کر رو رہے تھے ۔ ‘‘ ڈاکٹر عبدالکلام کے بارے میں لکھتے ہیں ،’’ جب وہ خانقاہ رحمانی مونگیر پہنچے تو انہوں نے سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی اور کہا کہ میری تعلیم بھی مدرسہ میں ہوئی ہے ، سائنس میں نے قرآن سے سیکھا ہے اور اس کتاب ِ مقدس نے میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے ۔ ‘‘  
جِلد دوم کے باب چہارم میں ایک خاکہ مولانا سیّد ولی رحمانیؒ پر ہے ، یہ اس وقت لکھا گیا تھا جب مولانا حیات تھے ۔ لکھتے ہیں ’’ وہ ایک تحریکی مزاج آدمی ہیں اور جس کام کا بیڑہ اٹھا لیتے ہیں اسے پایۂ تکمیل تک پہنچاکر دَم لیتے ہیں ، استقلال ، استقامت ، عزم بالجزم اور ملّت کے مسائل کے لیے شب و روز متفکّر و سرگرداں رہنا حضرت مولانا کی خاص صفت ہے ، وہ ایک اصول پسند انسان ہیں اور دوسروں کو بھی اصول پسند ؛ بلکہ اصولوں پر عامل دیکھنا پسند کرتے ہیں ، مزاج میں سنجیدگی ہے ، لیکن موقع بموقع اپنی ظرافت سے مجلس کو زعفران زار بھی بنانا انہیں خوب آتا ہے ۔‘‘ ایک خاکہ مفتی صاحب نے اپنی والدہ پر لکھا ہے ’ ماں کے قدموں تلے ‘ یہ ایک شاندار بلکہ یادگار خاکہ ہے ، چند سطریں ملاحظہ کریں ، ’’ والدہ کبھی بھی کسی کو گھر سے باسی منھ بغیر ناشتہ کے نہیں جانے دیتی تھیں چاہے اسے رات کے تین بجے ہی کیوں نہ نکلنا ہو ، ۱۷، جون ۲۰۰۸ء کو قطر جانے سے قبل میں ان سے ملنے گیا تھا ، صبح کو اہلیہ میرا کپڑا صاف کرنے میں مشغول تھیں ۔ دفتر کے لیے نکلنے کا وقت ہو رہا تھا ، انہیں لگا کہ یہ بغیر ناشتہ کیے چلا جائے گا ، خود اٹھ کر انہوں نے آٹا گوندھا ، روٹی سبزی پکائی اور مجھے کھلا کر گھر سے نکلنے دیا ، یہ آخری کھانا تھا جو میں ان کے ہاتھ کا بنا ہوا کھا کر گھر سے نکلا تھا ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ اب میں ان کی صورت نہیں دیکھ سکوں گا۔‘‘
پہلی جِلد کا ’ مقدمہ ‘ ’ ملّی اتحاد ‘ کے معاون مدیر صفی اختر نے تحریر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں ، ’’ ’ یادوں کے چراغ ‘ مجموعہ ٔ مضامین کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس کی خوشبو سے دلوں میں تازگی اور دماغ میں فرحت انبساط کی تیز لہر دوڑتی ہے اوران خطوط پر اپنی زندگی سنوارنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، گہرائی سے مطالعہ کریں تو صاحب کتاب کی اپنی زندگی کا پَرتو بھی اس میں نظر آئے گا ۔‘‘ اس جِلد کے پیش لفظ میں مفتی صاحب نے ، اُن سے ، جن کے خاکے لکھے ہیں ، اپنی محبت کا اظہار اِن لفظوں میں کیا ہے ، ’’ یادوں کے اس چراغ کو جلانے کے لیے مجھے اپنا خونِ جگر جلانا پڑا ہے ۔ محبت کرنے والی اِن شخصیتوں کی یادوں نے مجھے بار بار رلایا ہے ۔ قلم اٹھایا اور رکھا ہے ۔ کئی کئی دن ہمّت جٹانے میں لگے ہیں تب یہ سطور لکھے جا سکے ہیں ۔‘‘ یہ جِلد ’ رحمانیہ ٹرسٹ اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ، گیاری ، دربھنگہ ‘ سے شائع ہوئی ہے ، اس کے صفحات دو سو ہیں اور قیمت ایک سو روپیہ ہے ۔
دوسری جِلد میں مولانا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے ’ ابتدائیہ ‘ میں بہت صحیح لکھا ہے کہ ’’ خاکے چاہے زندوں کے ہوں یا مُردوں کے ، احوال و آثار جس کے بھی ذکر کیے جائیں ، اس کا مقصد محض ان کے احوال و کوائف کا جاننا نہیں ہوتا ؛ بلکہ یک گونہ ان کے حالات پڑھ کر اپنی زندگی کو صحیح رخ اور صالح سمت میں ڈالنا ہوتا ہے ۔‘‘ یہ خاکے ہم سب کی ، اپنی زندگیوں کو صحیح رخ پر ڈالنے میں ، رہنمائی کرتے ہیں ۔ مفتی صاحب کی نثر کے بارے میں کتاب کے سرورق کے فلیپ پر معروف فکشن نگار شفیع مشہدی نے اپنے خیالات کا اظہار اِن لفظوں میں کیا ہے ، ’’ تحریر میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ اخلاص کی خوشبو بھی موجود ہے اور پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ شخصیت آپ کے سامنے ہے ، یہ اعلیٰ نثر نگاری کا معجزہ ہے ۔‘‘  
دوسری جِلد ’ ارم پبلشنگ ہاؤس ، دریا پور پٹنہ ‘ سے شائع ہوئی ہے ،اس کے صفحات ۲۸۸ ہیں اور قیمت چار سو روپیہ ہے ۔ یہ دونوں کتابیں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سے رابطہ کرکے منگوائی جا سکتی ہیں ۔ رابطے کا نمبر کسی کتاب میں نہیں دیا گیا ہے ۔

عبرت ناک اور حیرت انگیز __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عبرت ناک اور حیرت انگیز __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 اڈانی کی کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں اس قدر تیزی سے گری ہیں کہ وہ دنیا کے تیسرے نمبر سے مالداری میں ساتویں نمبر پراور ہندوستان میں پندرہویں نمبرپر آگیا ہے ، نیٹ انڈرسن جو ایک امریکی گاڑی ڈرائیور کا بیٹا ہے کی ہنڈن برگ ریسرچ کمپنی نے اڈانی کی تجارتی کمپنیوں کا ایسا کچا چٹھا لوگوں کے سامنے رکھ دیا کہ حصص کی قیمتیں دھڑام سے زمین پر آ رہیں، اور اڈانی گروپ کو صرف دو دن میں چار لاکھ کروڑ روپے کا گھاٹا لگ گیا اور کروڑوں روپے عوام کے ڈوب گیے ، سب سے زیادہ چونا لائف انشورنش کار پوریشن کو لگا، عوامی زمرے کے اس ادارہ کے تئیس(23) ہزار کروڑ پانی میں گیے، پہلے اڈانی گروپ میں کار پوریشن کی سرمایہ کاری سات ہزار کروڑ روپے کی تھی ، لیکن مرکزی حکومت کی کرم فرمائیوں کے طفیل 2023ءمیں سرمایہ کاری دس گنا زیادہ بڑھادی گئی اور اس کی سرمایہ کاری اکاسی(81) ہزار کروڑ تک جا پہونچی ، اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے اس کمپنی کو جو قرض دیا تھا اس کا تناسب چالیس (40)فی صد کا ہے ، جب کہ اڈانی کی پانچ (5)بڑی کمپنیوں پر بیس(20) کھرب روپے کا قرض ہے ، کمپنی کے یہ روپے چاہے بینک کے ہوں، لائف انسورنس کے ہوں یا بلا واسطہ عوام کے ، سب میں عوام ہی قربان ہوتے ہیں اور ساہو کار سونے کی چمک اترنے کے باوجود چاندی کرنے میں مشغول ہوتے ہیں۔
 ہنڈن برگ ریسرچ کمپنی اگر ہندوستان کی ہوتی اور ہندوستان میں ہوتی تو حکومت کی ایجنسیاں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ، انکم ٹیکس، سی بی آئی، ریاستی پولیس اور آئی بی، اس کی ایسی خبر لیتے کہ نیٹ ایڈرسن اب تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا اور الکٹرونک میڈیا اس کو دیش کا غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کراس کی کردار کشی میں ایک دوسرے سے آگے نکل جاتا اور حکومت ٹیکسوں میں کمی، اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، ان کے ہاتھ قومی اثاثوں کی فروخت اور مزید ٹھیکے دے کر اڈانی کو آسمان کی بلندیوں تک پہونچا نے کا کام کرتی، لیکن دقت یہ ہے کہ ریسرچ کمپنی اور اس کا مالک دونوں امریکی ہے، اور حکومت ہند اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، کمپنی کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ وہ سینہ ٹھوک کر اڈانی سے اٹھاسی (88) سوالات کے جواب مانگتی ہے ، اڈانی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ، رہ گئی ریسرچ کمپنی پر مقدمہ کی دھمکی تو وہ اس کے لیے ہر وقت تیار ہے ۔
 عوام کو دھوکہ میں رکھنا اور دھوکہ دینا دونوں نا پسندیدہ عمل ہے، بعض صورتوں میں یہ قابل مواخذہ اور لائق سزا جرم ہے ، لیکن ہمیں خوب معلوم ہے کہ اڈانی سے نہ تو کوئی مو اخذہ ہوگا اور نہ ہی اسے سزادی جائے گی ،بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس معاملہ سے نجات دلانے کے لیے اسے مزید قرض مل جائے، یا وہ خود کو دیوالیہ قرار دے کر ساری جمع پونجی لے کر دوسرے ملک چلا جائے، اور اطمینان سے زندگی بسر کرے ۔ آخر حکومت نے ہر شد مہتہ، تیلگی اور رام دیو انٹر نیشنل کا کیا بگاڑ لیا۔

جمعہ, فروری 10, 2023

مردم شماری میں تاخیر__مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مردم شماری میں تاخیر__
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 حکومت بہار نے ذات پر مبنی مردم شماری کا کام شروع کر رکھا ہے، پہلے دورمیں خانہ شماری کے بعد اپریل سے مردم شماری کا عمل ذات کی بنیاد پر شروع کیا جائے گا، حکومت بہار کو بڑی راحت سپریم کورٹ کے ذریعہ اس عمل کے خلاف عرضی خارج کرنے سے ملی ہے ، اگر مدعی سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ہائی کورٹ کا رخ نہیں کرتا تو پھر طویل عرصہ کے بعد ذات کی بنا پر مردم شماری کا کام بہار میں مکمل کیا جا سکے گا، حکومت بہار کی اس دلیل میں دم ہے کہ ہم مردم شماری نہیں ذات شماری کروا رہے ہیں؛ تاکہ پس ماندہ برادریوں کے منصوبے اور رز رویشن کا کام حقیقی اعداد وشمار کو سامنے رکھ کر کیا جاسکے۔
مردم شماری کا کام حکومت ہند کو بھی کرنا ہے، ملکی پیمانے پر یہ کام ہر دس سال پر پابندی سے ہوتا آ رہا تھا، یہ پہلا موقع ہے کہ اس کام میں تاخیر ہو رہی ہے، اس کام کو 2020 میں شروع ہونا تھا، لیکن کرونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا، 2021 کے بعد زندگی معمول پر آگئی تھی اور اس کام کو شروع ہوجانا چاہیے تھا، لیکن اب تک یہ کام موخرخر ہوتا جا رہا ہے ، 2024 میں پارلیامنٹ کے انتخاب کا مرحلہ ہوگا، اور سارا عملہ اس کام میں ابھی سے لگ رہا ہے ، ایسے میں یہ معاملہ مزید ٹل جائے گا، کیوں کہ مردم شماری کرنے والوں کی دوسری مشغولیت ہوگی، اور ان کے لیے مردم شماری کے کام کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہوگا۔
 ہمارے یہاں روایت پنج سالہ منصوبوں کی رہی ہے ، مردم شماری سے ملک کی آبادی اور ان کی معاشی ، سماجی اور تعلیمی حالات کا حکومت کو علم ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر فلاحی اسکیمیں بنائی جاتی ہیں اور منصوبے طے کیے جاتے ہیں، 2024 تک اس کام کے مو خر کرنے کا مطلب ہو گا کہ اس دہائی کا پہلا پنج سالہ منصوبہ حقیقی بنیادوں پر بن ہی نہیں سکے گا، اور ملک کی آبادی ، مسائل، ضروریات وغیرہ سے ہم پورے پانچ سال غافل رہیں گے اور پہلے سے چلی آرہی معلومات کی بنیاد پر ہی فیصلہ لینے کی پوزیشن میں ہوںگے ، ظاہر ہے یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس کام کو شروع کرائے ، تاکہ صحیح اور حقیقی بنیادوں پر منصوبہ بندی کے کام کو آگے بڑھایا جا سکے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...