Powered By Blogger

پیر, اپریل 17, 2023

ایم اے ظفر کا انتقال ___اردو صحافت کا بڑا نقصانمفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

ایم اے ظفر کا انتقال ___اردو صحافت کا بڑا نقصان
مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی 
Urduduniyanews72
پٹنہ پریس ریلیز ( 17 اپریل 2023)
ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ کے مدیر اعلی،اردو میڈیا فورم اور کاروان ادب کے صدر،اردو کارواں کے نایب صدر مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے فاروقی تنظیم کے مدیر اور مالک ایم اے ظفر کے انتقال پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے ۔مفتی صاحب نے فرمایا کہ اس خاندان سے میرے تعلقات انتہائی قدیم بلکہ دور طالب علمی سے رہے۔میں ان کے نامور والد مولانا فاروق الحسینی رح کی خدمت پر 1976میں جمیعت علماء کے اجلاس سمستی پو ر کے موقع سے مامور کیا گیا تھا ۔مولانا کے انتقال کے بعد بھاءی ایم اے ظفر سے بھی سلام و دعا رہی۔بعض رشتے دار کی شادی کے موقع سے مجھے نکاح پڑھانے کے لیے بھی انہوں نے  مدعو کیا ۔سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ میری تحریر کے بڑے مداح تھے۔فاروقی تنظیم کے قارءین اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کم وبیش ہر دن فاروقی تنظیم میں میرے مضامین چھپتے رہے۔کبھی کبھی تو دو دو مضامین لگا دیتے تھے پابندی سے اخبار کا پی ڈی ایف میرے واٹسپ پر ہر روز بھیجا کرتے تھے یہ ان کے تعلق اور محبت کی بات تھی۔ان کی محنت اور توجہ کے طفیل فاروقی تنظیم نے بہار اور جھار کھنڈ میں اپنی پہچان بنائی اور اس کے قاری کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہو تا گیا۔آج17اپریل کو انکے انتقال کی خبر آءی۔ان کا انتقال اردو صحافت کا بڑا نقصان ہے۔میں ان کے اہل خانہ فاروقی تنظیم کے تمام عملہ خصوصاً خورشید پرویز صدیقی اور فاروقی تنظیم کے قارءین کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں اور  انکے لیے مغفرت اور ترقی درجات کی دعا کے ساتھ لواحقین کے لیے صبر جمیل اللہ سے مانگتا ہوں ۔

ایک نظم ملت اسلامیہ کے لیے /قتل گاہوں پہ ہے نیزوں پر سروں کی فصلیں تم جو خاموش رہو بھی تو لہو بولے گا ظلم کے پاؤں سے کچلی ہوئی ساکت لاشیں چپ نہ رہ پائیں گی اور وقت زباں کھولے گامنتظر وقت کے میدان میں آئے مظلومو! پنی جمعیت بیکس کو صف آراء کر لو أخرى معرکہء ظلم و صداقت ہو جائے سرنگوں ہو کے نہ تم جینا گوارا کر لو زندگی صرف سک کر نہیں جینے کے لیے موت، گرداب سے ڈرنا ہے سفینے کے لیےانس مسرور انصاری

ایک نظم ملت اسلامیہ کے لیے /

Urduduniyanews72

قتل گاہوں پہ ہے نیزوں پر سروں کی فصلیں تم جو خاموش رہو بھی تو لہو بولے گا ظلم کے پاؤں سے کچلی ہوئی ساکت لاشیں چپ نہ رہ پائیں گی اور وقت زباں کھولے گا

منتظر وقت کے میدان میں آئے مظلومو! پنی جمعیت بیکس کو صف آراء کر لو أخرى معرکہء ظلم و صداقت ہو جائے سرنگوں ہو کے نہ تم جینا گوارا کر لو زندگی صرف سک کر نہیں جینے کے لیے موت، گرداب سے ڈرنا ہے سفینے کے لیے

انس مسرور انصاری

جس چیز کی نسبت قرآن سے جڑ گئی اس چیز کی اہمیت بڑھ گئی :مولانا ومفتی سہیل احمد قاسمی۔

جس چیز کی نسبت قرآن سے جڑ گئی اس چیز کی اہمیت بڑھ گئی :مولانا ومفتی سہیل احمد قاسمی۔
Urduduniyanews72
جامعہ مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں نماز تراویح میں قرآن مجید بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا

خواجہ پورہ پٹنہ مورخہ 17 اپریل (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) جامعہ مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں بروز اتوار 24/رمضان المبارک پچیس کی شب نماز تراویح میں قرآن مجید بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ،اس موقع پر چار اہم علماء کرام مولانا ومفتی سہیل قاسمی امارت شرعیہ پٹنہ ،مولانا نورالحق رحمانی ، مولانا محمد عظیم الدین رحمانی اور مولانا ایوب نظامی قاسمی ناظم مدرسہ صوت القرآن دانا پور پٹنہ کی نصیحت آموز خطاب ہوئے ، ساتھ ساتھ عفان ضیاء بن مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی کا رسم مکتب مولانا نورالحق رحمانی صاحب کے ذریعہ ہوا،
واضح رہے کہ جامعہ مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں ملک کے مشہور ومعروف عالم دین وصحافی مولانا عبد الواحد ندوی صاحب نے بڑے خوبصورت لب ولہجہ کے ساتھ پچیس شب میں نماز تراویح میں قرآن مجید سنایا ۔مولانا موصوف ایک نیک طبیعت عالم دین اور مشہور صحافی ہیں جنہوں نے اپنے نام یہ سعادت حاصل کی، اہلیانِ خواجہ پورہ نے مقتدیوں کی ضیافت میں عمدہ نظم ونسق کر رکھا تھا، خواجہ پورہ مسجد یہ شہر پٹنہ کے بیلی روڈ پر واقع ہے رمضان المبارک کے موقع پر یہاں چہل پہل میں اضافہ ہوا کرتا ہے، پنجگانہ ونماز تراویح میں نمازیوں کا ہجوم ہوتا ہے، مسافروں کے لئے بطور خاص افطار کا عمدہ نظم ونسق ہوتا ہے، ہر دن تقریباً ڈیڑھ سو روزہ دار یہاں افطار کرتے ہیں۔
یقیناً قرآن مجید لا ریب کتاب ہے ، فرقان حمید اور اللہ رب العزت کی با برکت کتاب ہے۔یہ رمضان المبارک کے مہینے میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل فرمائی گئی۔رمضان المبارک بابرکت مہینہ کا نام ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمان بڑے اہتمام سے روزہ رکھ کر اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں، قرآن مجید تئیس سالوں کے عرصہ میں نبی ﷺپر اتارا گیا۔قرآن مجید ہماری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ اور ضابطۂ حیات ہے۔ یہ جس راستے کی طرف ہماری رہنمائی کرے ہمیں اُسی راہ پر چلتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ قرآن مجید ہماری دونوں زندگیوں کی بہترین عکاس کتاب ہے۔لہٰذا یہ قرآن ہمیں رہنمائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھ پرایمان لانے، مجھے تلاوت کرنے، مجھے سمجھنے، اور مجھ پر عمل پیرا ہونے سے تم فلاح پاؤ گے، عزت و منزلت اور وقار حاصل کرو گےاور مجھ سے دوری کا نتیجہ دنیوی واخروی نعمتوں سے محرومی، ابدی نکامی اور بد بختی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

محب اردو حمید انور اور بک امپوریم __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

محب اردو حمید انور اور بک امپوریم  __
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نجمی بن حمید انور مرحوم خاصے پڑھے لکھے انسان ہیں، ڈبل ایم اے ، پی اچ ڈی اور ایل ایل بی کیے ہوئے ہیں، آبائی وطن میر غیاث چک ڈاکخانہ بر بیگھا ضلع نالندہ ہے، لیکن رہائش ان دنوں بی-۳، سکنڈ فلور اے ساجدہ گلیکسی اپارٹمنٹ نیو کجھور بنہ، پتھر کی مسجد پٹنہ ۶؍ ہے۔ بہار قانون ساز کونسل کے شعبہ اردو میں سیکشن افسر ہیں، فکر تو نسوی حیات وخدمات ان کی پی اچ ڈی کا مقالہ ہے، اور محب اردو حمید انور اور بک امپوریم ان کی تالیف، آخر الذکر میرے زیر مطالعہ ہے ، تین سو چھتیس (336)صفحات پر مشتمل یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، کتاب کا آغاز عرض مرتب سے ہوتا ہے ، اس کے بعد جناب محمد شکیل استھانوی کی توقیت حمید انور ہے ، کتاب کا پہلا باب مضامین وتاثرات پر مشتمل ہے ، دوسرے تیسرے باب میں مشاہیر کے مکتوبات کو جگہ دی گئی ہے ، دوسرے باب میں تعلقات اور تیسرے باب میں تعزیت کے حوالہ سے مکتوبات کو جمع کیا گیا ہے ، دوسرے باب کے مکتوبات خود حمید انور صاحب کے نام ہیں ، جب کہ ان کے انتقال کے بعد تعزیتی خطوط  فطری طور پر ان کے صاحب زادگان کے نام ہیں، چوتھا باب منظومات ہے، جس میں علقمہ شبلی کے قطعہ تاریخ وفات اور پروفیسر راشد طراز کے خراج عقیدت کو جگہ دی گئی ہے، پانچویں باب میں حمید انور صاحب کی ڈائری کے منتخب حصہ کو شامل کیا گیا ہے ، چھٹے باب میں متفرقات اور ساتویں باب میں تصاویر کا البم ہے۔ ۲۰۲۲ء میں چھپی اس کتاب کی کمپوزنگ شادماں کمپیوٹر شاہ گنج پٹنہ نے کی ہے ، امتیاز انور فہمی کے زیر اہتمام روشان پرنٹرس دہلی کے مطبع سے چھپواکر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیا ہے، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ کا نام تقسیم کار کے طور پر درج ہے۔ 336صفحات کی قیمت 350/-روپے زائد ہے ، لیکن کیا کیجئے اردو کتابوں کی طباعت کے بعد مفت تقسیم اور بک سیلروں کو دی جانے والی کمیشن کا بار بھی ان ہی حضرات کو اٹھانا پڑتا ہے جو کتاب خرید کرپڑھا کرتے ہیں، کتاب کا انتساب حمید انور صاحب کے لیے دعاء مغفرت کی گذارش کے ساتھ معزز قارئین کے نام ہے ، ممتاز فرخ نجمی نے یہ ایک اچھی طرح ڈالی ہے، اس رسم میں قارئین کو ہی فراموش کر دیا جاتا ہے ، جن کے لیے کتاب لکھی جاتی ہے ، عموما انتساب مالداروں یا اساتذہ کرام کی طرف کیا جاتا ہے، جنہیں کتاب پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ہوا کرتی ہے ۔
 کتاب کا نام محب اردو حمید انور کافی تھا، بک امپوریم جوڑنے کی وجہ سے بک امپوریم غالب ہو گیا ہے، اور حمید انور کی شخصیت کے دوسرے کئی پہلو دب سے گیے ہیں،ا یسا لگتا ہے کہ پوری زندگی انہوں نے بک امپوریم کی ترقی کے لیے کام کیا ، ہر مضمون نگارنے ادباء شعراء سے ان کے گہرے مراسم اور تعلقات کا ذکر کیا ہے، لیکن یہ مراسم بک امپوریم ہی کے حوالہ سے ہیں، یقینا بک امپوریم حمید انور صاحب کا میدان عمل رہا ہے، اور بہت سارے لوگ اسی حوالہ سے ان سے جڑے ، لیکن یہ ان کی زندگی کا صرف ایک پہلو ہے، دوسرے اوصاف وخصائل پر بھی بھر پور روشنی کی ضرورت تھی، جس کا اس کتاب میں فقدان محسوس ہوتا ہے، بعض مضمون نگاروں نے کچھ رقم کیا ہے تو وہ ضمنی محسوس ہوتا ہے ، اور قاری کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب نہیں ہے۔
 کتاب کے مرتب اور مرحوم کے صاحب زادہ ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نجمی کا عرض مرتب اس سے مستثنیٰ ہے، انہوں نے داستانی انداز میں اپنے والد کی کتاب زندگی کے اوراق کو الٹا تو الٹتے چلے گیے ، یہ پورا مضمون مرحوم حمید انور کی زندگی کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کوئی گھر کا بھیدی ہی لکھ سکتا تھا، ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نے عرض مرتب میںاپنے والد کی زندگی کا گہرا مطالعہ پیش کیا ہے ، یہ مطالعہ اس کتاب کا سب سے اہم مضمون ہے، یہ حمید انور صاحب کی مقبولیت کی بات ہے کہ ان پر بڑے ادباء شعراء نے بھی اس مجموعہ کے لیے قیمتی مضمون لکھے ہیں، انیس رفیع، رضوان اللہ آروی، سید احمد قادری، شبیر حسن شبیر ، ضیاء الرحمن غوثی، طلحہ رضوی برق، ظفر کمال ، ظہیر انور ، عاصم شہنواز شبلی، عبد الصمد ، عطا عابدی، قاسم خورشید، کوثر مظہری ،شکیل استھانوی، محمود عالم، مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر ممتاز احمد خان حاجی پوری ، مناظر عاشق ہرگانوی ، منور رانا وغیرہ جس شخصیت پر قلم اٹھا دیں تو اس کی معتبریت میں شبہہ کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے ، مکاتیب کے باب میں بھی علقمہ شبلی ، علی سردار جعفری، مظہر امام ، الیاس احمد گدی، حرمت الاکرام، ظہیر انور ، فضا بن فیضی، سلام بن رزاق ، مظفر حنفی ، حامدی کا شمیری، پروفیسر محمد حسن، اسلوب احمد انصاری، کلام حیدری ، شکیل الرحمن، شمس الرحمن فاروقی، عنوان چشتی، شمس مظفر پوری، رضا نقوی واہی، پروفیسر ظفر اوگانوی وغیرہ کے خطوط حمید انور مرحوم کے تعلقات کی وسعت اور قدر دانی کی غماز ہیں، اس باب میں مختلف عنوانات کے تحت علقمہ شبلی کی نظم خاصے کی چیز ہے ، جو انہوں نے’’ میرے ساتھی میرے حمید انور‘‘ کے حوالہ سے لکھی ہیں، ان میں واردات قلبی کا اظہار چھوٹی بحر میں سہل ممتنع کے ساتھ کیا گیا ہے ، اشعار کی بر جستگی ، سادگی اور ماجرا نگاری سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس باب کے بیش تر خطوط اچھے ہیں اور ان میں مکتوب نگاری کے فن کو برتا گیا ہے ، لیکن ان خطوط میں یکسانیت ہے، معاملات کا ذکر ہے، کتابوں کے نکلنے کا شکریہ ہے اور نئی کتابوں کے لیے مار کیٹ بنانے کی توقعات ہیں، ان خطوط کو سپاٹ بے رس تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن ان میں جذبات کی شدت اور قلبی وارفتگی کی کمی کھٹکتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ سب ضرورت کے بندے ہیں اور اپنی غرض سے حمید انور صاحب سے تعلقات بنائے ہوئے ہیں، یا بنائے رکھنا چاہتے ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ مکتوب نگار کے اپنے اپنے اسلوب نے اسے اس لائق ضرور رکھا ہے کہ قاری اسے پڑھنے پر مجبور ہوجائے۔ تیسرے باب میں تعزیتی خطوط بھی کم وبیش انہیں حضرات کے ہیں اور سب نے حمید انور صاحب کی موت پر غم وافسوس کا اظہار کیا ہے، بعضوں نے ان سے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی ہے، جس سے حمید انور صاحب کی ان حضرات کے نزدیک اہمیت کا پتہ چلتا ہے ، علقمہ شبلی سے مرحوم کا جو تعلق تھا وہ ایک اچھے دوست اور ساتھی کا تھا، انہوں نے ’’ماتم مرگ حمید انور خوش دل ‘‘ سے سن وفات 2000نکالی ہے، ایک دوسری تاریخ ہجری ہے جو’’ تربت میں حمید انور ‘‘ سے نکلتی ہے ۔ علقمہ شبلی نے حمید انور کی ذاتی خصوصیات کو تین اشعار میں نظم کیا ہے۔ 
دلدار تھا ، ہم دم تھا ، غم خوار تھا، مخلص تھا

 وہ ناز رفاقت تھا، اخلاص کا تھا پیکر 
رکھتا تھا خبر سب کی ہم درد تھا وہ سب کا 

 ایک اس کے نہ ہونے سے ماتم ہے بپا گھر گھر 
وہ خادم اردو تھا مخدوم ہمارا تھا

 گردش میں رہا برسوں ایسا تھا وہ اک ساغر
 پانچواں باب مرحوم کی ڈائری کے اقتباسات ہیں، جس میں انہوں نے سیاسی وسماجی جلسے مشاعرے اور نظم سے اپنی دلچسپی اور مطالعہ کے شوق کا اظہار کیا ہے، لائبریری سے تعلق اور اپنی امامت کا ذکر کیا ہے ، بچی کا غم ، ایوب صاحب، نہرو اور گرودت کی موت کا واقعہ بھی مع تاریخ درج ہے ، لیکن یہ اوراق بہت کم ہیں، ان کی ڈائری کے مزید اوراق کھولے جاتے تو مزید لعل وگہر قارئین تک پہونچانا ممکن ہوتا، متفرقات والا حصہ بھی معلوماتی ہے اور اس کے پڑھنے کا اپنا ایک مزہ ہے، آخر میں البم میں جو تصاویر ہیں وہ عمر کے بڑھتے ہوئے سائے اور سر گرمیوں کی روداد ہمیں سناتے ہیں، مجموعی طور پر کتاب لائق مطالعہ اور حمید انور صاحب کی زندگی کے نقوش کو جمع کرنے کی قابل قدر کوشش ہے۔
 حمید انور صاحب سے میری بھی ملاقات اور دید شنید تھی، میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا، مدرسہ میں ہی الماری میں ضرورت کے مطابق کتابیں رکھتا تھا، بچوں کی ضرورتیں پوری ہوتی تھیں، تجارتی معاملات اصلا کتاب منزل سے ہوا کرتا تھا، قاضی رئیس احمد صاحب مالک کتاب منزل اور استاذ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ حیات سے تھے، نشست وبرخواست وہیں ہوا کرتی تھی، کوئی کتاب پسند آجاتی تو بک امپوریم سے بھی خرید لیتا ، لیکن حمید انور صاحب کے چہرے پر جو سنجیدگی مجھ سے بات کرتے وقت ہوتی اس کی وجہ سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع کبھی نہیں ملا، اور نہ میں نے کبھی ہمت کی، عمر کا فاصلہ بھی اس میں مانع تھا، اس کتاب کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کس طرح لوگوں سے گھل مل جاتے تھے، کاش میری بھی کوئی ملاقات ان سے اس قسم کی ہوتی۔ اے بسا آرزو کہ خاک شد

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میںروز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرےپروین شاکرؔ


صرف عتیق نہیں ع

صرف عتیق نہیں عدالتی نظام کی قاتل ہے یوگی حکومت
Urduduniyanews72
محمد عریف الرحمن (ثمر)
لکھنؤ، اترپردیش
موبائل نمبر: +919125147115

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
پروین شاکرؔ
24 فروری 2023بروز جمعہ، یہ وہ دن تھا جس دن عتیق احمد اور ان کے خاندان کے ظلم کی انتہا منظر عام پر ہوئی۔ جب راجو پال قتل کیس کے اہم گواہ امیش پال کا قتل بھری بازار میں انجام دیا گیا۔ اس قتل کے تمام ملزم فرار ہو گئے تھے۔ جن کو اترپردیش کے پولیس اور خاص طور پر ایس ٹی ایف کی ٹیم نے کھوجا، اس قتل کے سلسلے میں کئی لوگوں کی گرفتاری بھی ہوئی۔ گرفتار شخص میں زیادہ تر عتیق احمد کے رشتے دار ہی تھے۔ اس قتل کے متعلق ملزمان کی کھوج آج بھی جاری ہے۔ اس کھوج کے دوران ہی 13 اپریل 2023 بروز جمعرات کو عتیق احمد کا چھوٹا بیٹا اسد احمد اور ساتھی غلام یوپی پولیس کے ساتھ انکاؤنٹر میں مارا گیا، قتل سے پہلے ان دونوں پر پانچ پانچ لاکھ روپے کا انعام بھی رکھا گیا تھا۔ پولیس ان کی تلاش میں مصروف تھی۔ اس دوران دونوں جھانسی میں ڈی ایس پی نویندو اور ڈی ایس پی ومل کی قیادت میں یو پی ایس ٹی ایف ٹیم کے ساتھ تصادم میں مارے گئے تھے۔ وہیں یوپی ایس ٹی ایف کے اے ڈی جی امیتابھ یش نے بتایا تھا کہ اسد اور غلام کو زندہ پکڑنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن انہوں نے ایس ٹی ایف کی ٹیم پر فائرنگ کردی جس کے بعد جوابی کارروائی میں دونوں مارے گئے۔اس انکاؤنٹر کی تعریف اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی کی تھی۔ وزیر اعلی یوگی نے یو پی ایس ٹی ایف، یوپی کے ڈی جی پی، اسپیشل ڈی جی اور پوری پولیس ٹیم کی تعریف کی تھی۔وہیں ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے اس پر بیان دیا تھا کہ امن و امان کے معاملے پر ہم کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہم ہر مافیا کو مٹی میں ملا کر ہی مریں گے۔انہوں نے کہا تھا کہ مجرم کا ایسا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ والدین کو خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو مجرم نہیں بنائیں گے اور اگر وہ انہیں مجرم نہ بناتے تو عتیق کے بیٹے کا ایسا انجام نہ ہوتا۔وہیں اس کیس میں عتیق احمد کی بیوی شائستہ پروین کو آج بھی کھوجا جا رہا ہے۔ ان دونوں کے پانچ بیٹے ہیں - محمد عمر، محمد علی، اسد احمد اور دو نابالغ بیٹے۔ اس کے پانچ میں سے چار بیٹوں کا مجرمانہ ریکارڈ بھی ہے۔ دو بیٹے محمد عمر اور محمد علی جیل میں بند ہیں۔ جبکہ دو بیٹوں محمد احجام اور محمد ابان جووینائل ہوم پریاگ راج میں ہے۔ وہیں اسد اور غلام کا جسد خاک جھانسی سے پریاگ راج لایا گیا اور 15 اپریل 2023 بروز سنیچر کی صبح دفنایا گیا۔ وہیں عتیق احمد جون 2019سے احمد آباد کی سابرمتی سنٹرل جیل میں بند ہے، 24 فروری سے 15اپریل کے درمیان دو مرتبہ عتیق احمد کو گجرات سے یوپی لایا گیا۔ پہلی دفعہ امیش پال اغوا کیس میں مجرم ٹھہرائے جانے کے بعد سزا کی سنائے جانے کے لئے عتیق احمد کو لایا گیا تھا، اس کیس میں عتیق احمد سمیت 3 افراد کو عمر قید ہوئی تھی، وہیں ان کے بھائی اشرف کو بری کر دیا گیا تھا۔ یوں تو عتیق احمد پر تقریباً 100 کیس درج تھے پر یہ پہلا مرتبہ تھا جب عتیق احمد کو کیسی کیس میں سزا ملی تھی۔ اس سزا کے بعد پھر عتیق کو سابرمتی سنٹرل جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد پھر عتیق احمد کو پریاگ راج لایا گیا اور پریاگ راج کی سی جے ایم کورٹ میں امیش پال قتل کیس میں پیش کیا گیا، جہاں عتیق اور اس کے بھائی اشرف کو عدالت نے ریمانڈ پر بھیج دیا۔ زیر حراست عتیق کی طبیعت خراب ہونے کے سبب اسے اسپتال جانچ کے لئے لایا گیا، جس کے بعد اسے پوچھ تاچھ کے لئے واپس لے جایا گیا، لیکن 15 اپریل 2023 یہ وہ دن تھا جس دن صبح میں عتیق کے بیٹے اسد کا جنازہ سپرد خاک ہی نہ ہوا بلکہ رات ہوتے ہوتے خود عتیق احمد ہی کا نام و نشاں ختم ہو گیا۔ سنیچر کو سخت سیکورٹی کے درمیان پریاگ راج کے کمشنری اسپتال کالون میڈیکل کالج میں جانچ کے لئے عتیق اور اس کے بھائی اشرف کو لایا گیا تھا، جہاں لوکیش تیواری، ارون موریہ اور سنی صحافی کی شکل میں موجود تھے ، جب صحافی عتیق اور اشرف سے سوالات پوچھ رہے تھے اس درمیان ایک پسٹل عتیق کے سر پر لگی اور گولی چل گئی۔ تینوں نے پولیس کی سخت سیکورٹی کے درمیان تابڑ توڑ گولیاں چلائی۔ تینوں ملزمان نے عتیق اور اشرف کے قتل کے بعد بھاگنے کی کوشش نہیں کہ بلکہ ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے لگ گئے۔ پولیس نے تینوں کو حراست میں لے لیا ہے اور ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایکشن لیتے ہوئے سہ رکنی جوڈیشیل کمیشن کی تشکیل کردی گئی ہے، جسے دو ماہ میں اپنی جانچ رپورٹ پیش کرنی ہوگی۔ وہیں جائے واردات پر موجود 16پولیس اہلکاروں کو معطل بھی کر دیا ہے۔ ریاست بھر میں دفعہ 144نافذ ہو گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی کے راج میں یوپی میں قانون راج کا بول بالا کہا جاتا ہے شاید اس کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے راج میں عدالت میں فیصلے کم اور سڑکوں پر فیصلے زیادہ ہوتے ہیں۔ یوپی میں انکاؤنٹر کی شرح یوگی راج میں کافی حد تک بڑھی ہے۔ انکاؤنٹر ہو جانے کے بعد کیا فرق پڑتا ہے کہ انکاؤنٹر صحیح تھا یا غلط، کیوں کے انکاؤنٹر کے بعد تو ملزم اور مجرم کے بیچ کا جو طویل فاصلہ ہے جسے عدالتی نظام طے کرتی ہے اس کا کوئی مول نہیں رہا ہے۔ ہمارے ملک میں عدالتی نظام ضروری لمبا ہے لیکن اگر ہماری حکومتیں ہی اس نظام پر آمادہ نہیں ہوں گی تو عوام کسے اس نظام پر آمادہ ہوگی۔ اور اگر یوں ہی قتل و غارت کا کھیل کھیلا جانا ہے تو عدالت کے دروازے ہمیشہ ہمیش کے لئے بند کر دینے چاہئے تھے۔ کیوں کہ اس کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے آئینہ کی طرح نمودار ہوئی ہے۔ جہاں عتیق کو گجرات سے یوپی لانے کے بہانے انکاؤنٹر کی خبریں ہماری میڈیا (چاہے وہ شوشل میڈیا ہو یا ڈیجیٹل میڈیا ہو یا پھر کیوں نہ پرنٹنگ میڈیا ہو)میں چلی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ عتیق کو پریاگ راج لانے کے دوران کس طرح مار ڈالنا ہے اس کا تو ٹوٹل گراف ہے میڈیا نے پیش کر دیا تھا اور ہماری یوگی حکومت اسے بس اپنے ووٹ بینک کے لئے استعمال کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ یوگی حکومت نے اپنے ذور ہر طرز پر دکھا، چاہے وہ بلڈوزر ہو یا لفظوں کا جملہ، ہر طرز سے حکومت کی واہ واہی کروائی۔ یوگی حکومت میں عتیق کا انکاؤنٹر تو ممکن نہ ہو سکا لیکن اس کے بیٹے اسد کو ضرور مار گرایا۔ جس سے حکومت کی تعریفوں کے بل بندھنا شروع ہو گئے۔ اور قانونی راج کا بول بالا ہو گیا۔ لیکن حکومت یہ بھول گئی کے وہ اس طریقے سے عدالتی نظام کو ختم کرنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ اور اس کے مثال ہمیں عتیق کے قتل سے صاف ملتی ہے۔ جہاں یوگی حکومت کے ’جسٹس آن دی روڈ‘ کے نظام پر چلتے ہوئے 3 افراد نے سخت سیکورٹی کے درمیان عتیق اور اشرف کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیا ان تین لوگوں کو قاتل بنانے کا ذمہ ہماری ریاستی حکومت کو نہیں جاتا ہے جو عوام کے درمیان ’جسٹس آن دی روڈ‘ جیسی مثالیں پیش کیئے جا رہے ہیں۔ ان ملزمان کا قتل کے بعد فخر سے ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانا یوگی جی کو آئیڈل ماننے کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے۔ بیشک عتیق کے اوپر 100مقدمے درج تھے، بیشک وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا۔ لیکن ہمیں ہمارا عدالتی نظام نہیں معلوم اس ملک نے کتنے ہی مجرموں کو باعزت بری ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ عتیق مجرم تھا یا نہیں اور اگر فیصلہ ہو بھی جاتا ہے کہ تو کیا فرق پڑتا ہے۔ سزا کاٹنے کے لئے یا پھر آزاد گھومنے کے لئے اب تو عتیق اس دنیا میں نہیں رہا۔ اور یہ صرف اور صرف ہماری حکومت کے پالیسی کا ہی تو نتیجہ ہے۔ آج عتیق کا پورا خاندان لگ بھگ تباہ ہو گیا ہے۔ عتیق اور اس کا بیٹا اسد اور بھائی اشرف تو اس دنیا سے جا چکے ہیں تو وہیں اس کے دو بیٹے محمد عمر اور محمد علی جیل میں بند ہیں۔ جبکہ دو بیٹوں محمد احجام اور محمد ابان جووینائل ہوم پریاگ راج میں ہے، بس ایک عتیق کی بیوی شائستہ پروین ہی ہے جو ابھی باہر ہے لیکن وہ بھی امیش پال قتل کیس میں مفرور چل رہی ہیں، زیادہ بعید نہیں ہے کہ ہمیں کل پرسو میں خبر موصول ہو کے شائستہ کا انکاؤنٹر ہو گیا ہے یا پھر کوئی اور شخص ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس بھی قتل کر دے، یوں تو دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔ دہشت گرد ہمیشہ دہشت گرد ہی ہوتا ہے لیکن دہشت گردوں کی نسبت مسلمانوں کی طرف منسوب کرنے والے وزیر اعلیٰ یوگی اور پوری بی جے پی اس دہشت گردی پر کیا کہے گی، کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے کہ بھرے بازار سخت سیکورٹی کے مابین بھیس بدل کر گھس جانا اور قتل کر دینا۔ موجودہ وقت میں چل رہی ہماری حکومتوں کی پالیسیوں اگر ایسی ہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے ملک سے خوشحالی ترک کر دیں گے، کیوں کہ ہمارے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر خود ہی اسٹیج سے گولی مارو کا نعرہ دیتے ہے، ہمارے وزیر اعظم ہی قبرستان اور شمشان کی بات کرتے ہیں یا یوں کہہ لوں کی پوری گورمنٹ نظام ہی فسادات برپا کرنے کی جانب چل رہے ہیں۔ آخر میں میں اپنے شعر کے ساتھ آپ کو حکومت کی پالیسیوں پر سوچنے کیلئے چھوڑ رہا ہوں۔
کھڑا ہوں مجرموں کی بستی میں ملزم بنا ہوا
سوال یہ ہے کہ انصاف کون کرے گا
دالتی نظام کی قاتل ہے یوگی حکومت

محمد عریف الرحمن (ثمر)
لکھنؤ، اترپردیش
موبائل نمبر: +919125147115

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
پروین شاکرؔ
24 فروری 2023بروز جمعہ، یہ وہ دن تھا جس دن عتیق احمد اور ان کے خاندان کے ظلم کی انتہا منظر عام پر ہوئی۔ جب راجو پال قتل کیس کے اہم گواہ امیش پال کا قتل بھری بازار میں انجام دیا گیا۔ اس قتل کے تمام ملزم فرار ہو گئے تھے۔ جن کو اترپردیش کے پولیس اور خاص طور پر ایس ٹی ایف کی ٹیم نے کھوجا، اس قتل کے سلسلے میں کئی لوگوں کی گرفتاری بھی ہوئی۔ گرفتار شخص میں زیادہ تر عتیق احمد کے رشتے دار ہی تھے۔ اس قتل کے متعلق ملزمان کی کھوج آج بھی جاری ہے۔ اس کھوج کے دوران ہی 13 اپریل 2023 بروز جمعرات کو عتیق احمد کا چھوٹا بیٹا اسد احمد اور ساتھی غلام یوپی پولیس کے ساتھ انکاؤنٹر میں مارا گیا، قتل سے پہلے ان دونوں پر پانچ پانچ لاکھ روپے کا انعام بھی رکھا گیا تھا۔ پولیس ان کی تلاش میں مصروف تھی۔ اس دوران دونوں جھانسی میں ڈی ایس پی نویندو اور ڈی ایس پی ومل کی قیادت میں یو پی ایس ٹی ایف ٹیم کے ساتھ تصادم میں مارے گئے تھے۔ وہیں یوپی ایس ٹی ایف کے اے ڈی جی امیتابھ یش نے بتایا تھا کہ اسد اور غلام کو زندہ پکڑنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن انہوں نے ایس ٹی ایف کی ٹیم پر فائرنگ کردی جس کے بعد جوابی کارروائی میں دونوں مارے گئے۔اس انکاؤنٹر کی تعریف اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی کی تھی۔ وزیر اعلی یوگی نے یو پی ایس ٹی ایف، یوپی کے ڈی جی پی، اسپیشل ڈی جی اور پوری پولیس ٹیم کی تعریف کی تھی۔وہیں ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے اس پر بیان دیا تھا کہ امن و امان کے معاملے پر ہم کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہم ہر مافیا کو مٹی میں ملا کر ہی مریں گے۔انہوں نے کہا تھا کہ مجرم کا ایسا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ والدین کو خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو مجرم نہیں بنائیں گے اور اگر وہ انہیں مجرم نہ بناتے تو عتیق کے بیٹے کا ایسا انجام نہ ہوتا۔وہیں اس کیس میں عتیق احمد کی بیوی شائستہ پروین کو آج بھی کھوجا جا رہا ہے۔ ان دونوں کے پانچ بیٹے ہیں - محمد عمر، محمد علی، اسد احمد اور دو نابالغ بیٹے۔ اس کے پانچ میں سے چار بیٹوں کا مجرمانہ ریکارڈ بھی ہے۔ دو بیٹے محمد عمر اور محمد علی جیل میں بند ہیں۔ جبکہ دو بیٹوں محمد احجام اور محمد ابان جووینائل ہوم پریاگ راج میں ہے۔ وہیں اسد اور غلام کا جسد خاک جھانسی سے پریاگ راج لایا گیا اور 15 اپریل 2023 بروز سنیچر کی صبح دفنایا گیا۔ وہیں عتیق احمد جون 2019سے احمد آباد کی سابرمتی سنٹرل جیل میں بند ہے، 24 فروری سے 15اپریل کے درمیان دو مرتبہ عتیق احمد کو گجرات سے یوپی لایا گیا۔ پہلی دفعہ امیش پال اغوا کیس میں مجرم ٹھہرائے جانے کے بعد سزا کی سنائے جانے کے لئے عتیق احمد کو لایا گیا تھا، اس کیس میں عتیق احمد سمیت 3 افراد کو عمر قید ہوئی تھی، وہیں ان کے بھائی اشرف کو بری کر دیا گیا تھا۔ یوں تو عتیق احمد پر تقریباً 100 کیس درج تھے پر یہ پہلا مرتبہ تھا جب عتیق احمد کو کیسی کیس میں سزا ملی تھی۔ اس سزا کے بعد پھر عتیق کو سابرمتی سنٹرل جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد پھر عتیق احمد کو پریاگ راج لایا گیا اور پریاگ راج کی سی جے ایم کورٹ میں امیش پال قتل کیس میں پیش کیا گیا، جہاں عتیق اور اس کے بھائی اشرف کو عدالت نے ریمانڈ پر بھیج دیا۔ زیر حراست عتیق کی طبیعت خراب ہونے کے سبب اسے اسپتال جانچ کے لئے لایا گیا، جس کے بعد اسے پوچھ تاچھ کے لئے واپس لے جایا گیا، لیکن 15 اپریل 2023 یہ وہ دن تھا جس دن صبح میں عتیق کے بیٹے اسد کا جنازہ سپرد خاک ہی نہ ہوا بلکہ رات ہوتے ہوتے خود عتیق احمد ہی کا نام و نشاں ختم ہو گیا۔ سنیچر کو سخت سیکورٹی کے درمیان پریاگ راج کے کمشنری اسپتال کالون میڈیکل کالج میں جانچ کے لئے عتیق اور اس کے بھائی اشرف کو لایا گیا تھا، جہاں لوکیش تیواری، ارون موریہ اور سنی صحافی کی شکل میں موجود تھے ، جب صحافی عتیق اور اشرف سے سوالات پوچھ رہے تھے اس درمیان ایک پسٹل عتیق کے سر پر لگی اور گولی چل گئی۔ تینوں نے پولیس کی سخت سیکورٹی کے درمیان تابڑ توڑ گولیاں چلائی۔ تینوں ملزمان نے عتیق اور اشرف کے قتل کے بعد بھاگنے کی کوشش نہیں کہ بلکہ ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے لگ گئے۔ پولیس نے تینوں کو حراست میں لے لیا ہے اور ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایکشن لیتے ہوئے سہ رکنی جوڈیشیل کمیشن کی تشکیل کردی گئی ہے، جسے دو ماہ میں اپنی جانچ رپورٹ پیش کرنی ہوگی۔ وہیں جائے واردات پر موجود 16پولیس اہلکاروں کو معطل بھی کر دیا ہے۔ ریاست بھر میں دفعہ 144نافذ ہو گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی کے راج میں یوپی میں قانون راج کا بول بالا کہا جاتا ہے شاید اس کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے راج میں عدالت میں فیصلے کم اور سڑکوں پر فیصلے زیادہ ہوتے ہیں۔ یوپی میں انکاؤنٹر کی شرح یوگی راج میں کافی حد تک بڑھی ہے۔ انکاؤنٹر ہو جانے کے بعد کیا فرق پڑتا ہے کہ انکاؤنٹر صحیح تھا یا غلط، کیوں کے انکاؤنٹر کے بعد تو ملزم اور مجرم کے بیچ کا جو طویل فاصلہ ہے جسے عدالتی نظام طے کرتی ہے اس کا کوئی مول نہیں رہا ہے۔ ہمارے ملک میں عدالتی نظام ضروری لمبا ہے لیکن اگر ہماری حکومتیں ہی اس نظام پر آمادہ نہیں ہوں گی تو عوام کسے اس نظام پر آمادہ ہوگی۔ اور اگر یوں ہی قتل و غارت کا کھیل کھیلا جانا ہے تو عدالت کے دروازے ہمیشہ ہمیش کے لئے بند کر دینے چاہئے تھے۔ کیوں کہ اس کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے آئینہ کی طرح نمودار ہوئی ہے۔ جہاں عتیق کو گجرات سے یوپی لانے کے بہانے انکاؤنٹر کی خبریں ہماری میڈیا (چاہے وہ شوشل میڈیا ہو یا ڈیجیٹل میڈیا ہو یا پھر کیوں نہ پرنٹنگ میڈیا ہو)میں چلی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ عتیق کو پریاگ راج لانے کے دوران کس طرح مار ڈالنا ہے اس کا تو ٹوٹل گراف ہے میڈیا نے پیش کر دیا تھا اور ہماری یوگی حکومت اسے بس اپنے ووٹ بینک کے لئے استعمال کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ یوگی حکومت نے اپنے ذور ہر طرز پر دکھا، چاہے وہ بلڈوزر ہو یا لفظوں کا جملہ، ہر طرز سے حکومت کی واہ واہی کروائی۔ یوگی حکومت میں عتیق کا انکاؤنٹر تو ممکن نہ ہو سکا لیکن اس کے بیٹے اسد کو ضرور مار گرایا۔ جس سے حکومت کی تعریفوں کے بل بندھنا شروع ہو گئے۔ اور قانونی راج کا بول بالا ہو گیا۔ لیکن حکومت یہ بھول گئی کے وہ اس طریقے سے عدالتی نظام کو ختم کرنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ اور اس کے مثال ہمیں عتیق کے قتل سے صاف ملتی ہے۔ جہاں یوگی حکومت کے ’جسٹس آن دی روڈ‘ کے نظام پر چلتے ہوئے 3 افراد نے سخت سیکورٹی کے درمیان عتیق اور اشرف کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیا ان تین لوگوں کو قاتل بنانے کا ذمہ ہماری ریاستی حکومت کو نہیں جاتا ہے جو عوام کے درمیان ’جسٹس آن دی روڈ‘ جیسی مثالیں پیش کیئے جا رہے ہیں۔ ان ملزمان کا قتل کے بعد فخر سے ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانا یوگی جی کو آئیڈل ماننے کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے۔ بیشک عتیق کے اوپر 100مقدمے درج تھے، بیشک وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا۔ لیکن ہمیں ہمارا عدالتی نظام نہیں معلوم اس ملک نے کتنے ہی مجرموں کو باعزت بری ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ عتیق مجرم تھا یا نہیں اور اگر فیصلہ ہو بھی جاتا ہے کہ تو کیا فرق پڑتا ہے۔ سزا کاٹنے کے لئے یا پھر آزاد گھومنے کے لئے اب تو عتیق اس دنیا میں نہیں رہا۔ اور یہ صرف اور صرف ہماری حکومت کے پالیسی کا ہی تو نتیجہ ہے۔ آج عتیق کا پورا خاندان لگ بھگ تباہ ہو گیا ہے۔ عتیق اور اس کا بیٹا اسد اور بھائی اشرف تو اس دنیا سے جا چکے ہیں تو وہیں اس کے دو بیٹے محمد عمر اور محمد علی جیل میں بند ہیں۔ جبکہ دو بیٹوں محمد احجام اور محمد ابان جووینائل ہوم پریاگ راج میں ہے، بس ایک عتیق کی بیوی شائستہ پروین ہی ہے جو ابھی باہر ہے لیکن وہ بھی امیش پال قتل کیس میں مفرور چل رہی ہیں، زیادہ بعید نہیں ہے کہ ہمیں کل پرسو میں خبر موصول ہو کے شائستہ کا انکاؤنٹر ہو گیا ہے یا پھر کوئی اور شخص ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس بھی قتل کر دے، یوں تو دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔ دہشت گرد ہمیشہ دہشت گرد ہی ہوتا ہے لیکن دہشت گردوں کی نسبت مسلمانوں کی طرف منسوب کرنے والے وزیر اعلیٰ یوگی اور پوری بی جے پی اس دہشت گردی پر کیا کہے گی، کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے کہ بھرے بازار سخت سیکورٹی کے مابین بھیس بدل کر گھس جانا اور قتل کر دینا۔ موجودہ وقت میں چل رہی ہماری حکومتوں کی پالیسیوں اگر ایسی ہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے ملک سے خوشحالی ترک کر دیں گے، کیوں کہ ہمارے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر خود ہی اسٹیج سے گولی مارو کا نعرہ دیتے ہے، ہمارے وزیر اعظم ہی قبرستان اور شمشان کی بات کرتے ہیں یا یوں کہہ لوں کی پوری گورمنٹ نظام ہی فسادات برپا کرنے کی جانب چل رہے ہیں۔ آخر میں میں اپنے شعر کے ساتھ آپ کو حکومت کی پالیسیوں پر سوچنے کیلئے چھوڑ رہا ہوں۔
کھڑا ہوں مجرموں کی بستی میں ملزم بنا ہوا
سوال یہ ہے کہ انصاف کون کرے گا

اتوار, اپریل 16, 2023

حقیقی خراج عقیدت !راقم الحروف ہمایوں اقبال ندوی ،ارریہ ۲۳/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ

حقیقی خراج عقیدت !
Urduduniyanews72
روزانتقال سے ہی حضرت مولانا محمد رابع حسنی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال پر تعزیت کا سلسلہ جاری ہے،تحریر وتقریر کے ذریعہ حضرت کی خوبیوں پر  روشنی ڈالی جارہی ہے،پڑھ کر ہماری معلومات میں اضافہ ہوتاہے اور قیمتی باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ مولانا مرحوم ملک ہی ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں ہندوستان کی نمائندگی کررہے تھے،آپ عربی کےبہترین ادیب اور ناقد بھی تھے، پچاسوں کتابوں کی تصنیف وتالیف  کاکارنامہ انجام دیا ہے اوربڑے بڑے مناصب جلیلہ پر آپ فائز رہے ہیں، نیز انعام واکرام سے نوازے بھی گئے ہیں،
واقعی یہ شرف وعزت کی باتیں ہیں جو ایک انسان کو معزر بنادیتی ہیں، مگر آپ کو جو مقبولیت ومحبوبیت حاصل ہوئی ہےاس کی وجہ اور بھی ہے،
حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے آپ سچے جانشین ہیں،یہ بات سبھی جانتے ہیں اور تحریر میں بھی لکھتے رہے ہیں، حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے آپ خلیفہ ومجازہیں، چاروں سلسلے(قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ، اور سہر وردیہ )سے آپ کو اجازت حاصل ہے،یہ  موضوع  تشنہ رہ جاتا ہے، جبکہ خانوادہ حسنی کی وجہ فضیلت صلاحیت کے ساتھ صالحیت ہے، دارالعلوم ندوةالعلما کی شناخت ایک بڑے دانشگاہ کی رہی ہے، یہاں کی صلاحیت کے سبھی معترف رہے ہیں مگر صالحیت کا جامع بنانے میں خانوادہ حسنی کا بڑا نمایاں  کردار رہا ہے، حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اس تعلق سےبڑی محنت کی ہے، اور مولانا محمد رابع حسنی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا علی میاں رحمۃ اللہ کی سچی جانشینی کا حق ادا کیا ہے،اس وقت ملک میں سینکڑوں مدارس ہیں جودارالعلوم ندوۃ العلماء سےملحق ہیں، انمیں پڑھانے والے بیشتر اساتذہ کرام مولانامرحوم  سے بیعت وارشاد کا تعلق رکھتے ہیں، 
حضرت رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا محمد رابع حسنی کو بیعت تو کرلیا مگر یہ جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ علی میاں یہ تمہارے ہیں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا علی میاں کو مجمع الکمالات کہا ہے، اور ان کی جانشینی کا کام اللہ نے حضرت مولانا محمد رابع حسنی سے لیا ہے، بقول حضرت مولانا بلال حسنی صاحب کہ، مولانا کو ایسی فنائیت نصیب ہوئی جو بڑے بڑے اللہ والوں کو نہیں ہوتی ہے، مولانا مرحوم جیسی شخصیت بہت کم پیدا ہوتی ہے، اللہ نےآپ کوحسن خاتمہ بھی نصیب کیا،ظہر کے وقت کہا کہ مجھے فورانماز ادا کراؤ، جماعت کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کی، نماز بعد طبیعت بگڑ گئی، ڈیڑھ گھنٹے میں انتقال ہوگیا، اللہ اللہ  کرتے دنیا سے چلے گئے،حقیقی معنوں میں وہ برکتہ الدنیا تھے، یہ درحقیقت مولانا کی مقبولیت اور محبوبیت کی وجہ ہے،جنازہ سے پہلے کی تقریر میں حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی نے یہی باتیں پیش کی ہیں، ملاحظہ کیجئے؛
حضرات  !  "جو ایمان والے اچھا کام کرتے ہیں اللہ ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے،یہاں کا پیغام توحید وسنت ہے،یہاں مجمع آیا ہوا ہے، حضرت شاہ علم اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ مسجد ہے،انہوں نے اس کی بنا اسی لئے ڈالی، حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے یہی سکھایا ہے، بعد کے لوگوں نے یہی سکھایا ہے، حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے یہی سکھایا، ان کے جانشین حضرت مولانا محمد رابع نے بھی یہی سکھایا ہے، اسی پر جینا اسی پر مرنا ہے، ہم فکر کریں کہ اللہ کے بندے ایمان میں آئیں، میرے بھائیو! یہی سبق لو،ہمارے حضرت نے ابھی دوہفتے پہلے بیان کیا،فرمایا؛دنیا کتنے دن کی ہے؟ یہ ختم ہوجائے گی، جو آیا ہے فانی ہےوہ جائے گا، کامیاب کون ہے؟جو اللہ کو راضی کرکے جائے اور اللہ اس سے خوش ہوجائے، یہی اصل ہے،یہاں مجمع آیا ہے، ہم مجمع سے کہتے ہیں، یہاں کا یہ پیغام ہے،یہی حضرت کا پیغام ہے،ساری زندگی کہتے رہے،ابھی چند روز پہلے کی بات ہے، حضرت فرمارہے تھے کہ مسلمانوں کا کیا حال ہوگیا ہے، ایک طرف مسلمان بے بس بھی ہیں اور بے دین بھی ہیں، ہمیں اللہ پر یقین پیدا کرنا ہے، اسی دین پر جینا ہے اور مرنا ہے، صرف اپنی فکر نہیں بلکہ سب کی فکر کرنی ہے،یہ پیغام لےکر جائیے کہ ہمیں دین پر مرنا ہے اور دین کے لئے جینا ہے، ایک نقطہ سے بھی ہم دستبردار نہیں ہو سکتے ہیں، جان رہے یا جائے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، یہ نبی کی سنت ہے، خدا کا کام پیدا کرنا ہے اور دنیا کا نظام بھی چلانا ہے، یہ دنیا کا نظام اللہ چلا رہا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں؟سب اللہ کے ہاتھ میں ہے،سب اللہ ہی چلارہا ہے،کبھی اپنے دشمنوں کو کھڑا کردیتا ہے، اپنے دوستوں کی غلطی پر دشمنوں سے پٹواتا ہے،دوستو ! ہمیں توبہ کرنی چاہئے، یہی یہاں کا پیغام ہے،اللہ کے ولی کے جنازے میں آپ شریک ہونے، یہاں سے یہ پیغام لیکر جائیے، حضرت مولانا بار بار کہتے تھے کہ ہر آنے والے کوکچھ سبق دو،جو لوگ یہاں آئیں خالی ہاتھ نہ جائیں، ان کو تحفہ دو، ایمان کا تحفہ دو،سنتوں کا تحفہ دو،یہاں کے بزرگوں نے جس کے لئے اپنی جانیں دیں،حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ اسی راہ میں شہید ہوئے ہیں "۔
واقعی حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی مدظلہ العالی نے مولانا مرحوم کی مقبولیت کی تاریخی وجہ بیان فرمادی ہے ،سب سے بڑی بات یہ کہ حضرت مولانا محمد رابع حسنی رحمۃ اللہ علیہ کے جنازہ کو بھی دعوت بنادیا ہے، اس سے زیادہ حقیقی خراج عقیدت مولانا مرحوم کے حق میں اور کیا ہے؟
راقم الحروف 
ہمایوں اقبال ندوی ،ارریہ 
۲۳/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ 
رابطہ، 9973722710

ہفتہ, اپریل 15, 2023

روزے کی طبی وسماجی جہتیں __

روزے کی طبی وسماجی جہتیں __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
رمضان المبارک کے روزوں کی اہمیت و افادیت مسلم ہے، اس کی اہمیت کی تین جہتیں ہیں، پہلی جہت یہ ہے کہ روزہ اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک ہے اور اس کی ادائیگی تمام مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم، کے لئے ضروری ہے۔ حاملہ، دودھ پلانے والی ، حیض و نفاس والی اور مسافر شرعی کے لئے روزہ کو مو خر کرنے اور بعد میں ادائیگی کی گنجائش ہے، ان اعذار کی وجہ سے روزہ ساقط نہیں ہوتا، صرف رمضان میں نہ رکھ کر بعد کے دنوں میں رکھنے کی سہولت مل جاتی ہے، یہی حال مریض کا ہے، اسے بھی بعد میں صحت یاب ہونے پرروزہ کی قضاکرنی ہوتی ہے۔ اگر کوئی مریض ایسا ہو ، جس کے مستقبل میں صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو یا اس قدر بوڑھا ہو کہ روزہ رکھنے سے اس کی جان پربَن آنے کا اندیشہ ہو تو ایسے مریضوں اور بوڑھوں کے لیے روزے کی قضا کے بجائے شریعت میں فدیہ کی سہولت موجود ہے ، فدیہ ایک روزہ کا ایک صدقہ  فطر کے بقدر ہے ،البتہ اس فہرست میں وہ لوگ نہیں ہیں جو اصلاً مریض نہیں ہوتے، روزہ رکھنے کے ڈر سے مریض ہوجاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اللہ رب العزت دلوں کے احوال سے واقف ہے۔ ایسے لوگوں کو جان اور سمجھ لینا چاہیے کہ برکت اور فضیلت والے یہ شب و روز گذر گئے تو اس کی واپسی اگلے سال ہی ہوپائے گی اور اگلا سال کس نے دیکھا ہے، موت کب آئے گی، کس کو پتہ، اس لیے ان ایام کی قدر کرنی چاہیے، روزہ، تراویح، تلاوت قرآن، تہجد، اوراد و اذکار،اعتکاف، خیر کے کاموں میں مشغولیت، شر کے کاموں سے اجتناب میں رمضان المبارک کے اوقات کو گذارنا چاہیے۔ یہ چند ہی ایام تو ہیں، دو عشرہ گذر گیا، ہم تیسرے میں داخل ہوگئے۔ اللہ کی رحمت ،مغفرت  کے بعد یہ تسرا عشرہ  جہنم سے گلوخلاصی کاشروع ہوگیا ہے۔ یہ آخری عشرہ پہلے دونوں عشرہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے، اسی عشرہ میں شب قدر کی تلاش کا حکم دیا گیا ہے جو اس عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوگی، تلاشیئے گا تو پائیے گا، راتیں سو کر گذار دیجئے گا تو محروم رہ جائیے گا، محرومی بھی کیسی؟ ایک ہزار مہینے کی راتوں کی عبادت سے زیادہ کے ثواب سے، لیکن کیا کہیے؟ بہت سارے مسلمانوں پر یہ راتیں بھی یوں ہی گذر جاتی ہیں اور ان کے دل میں اللہ سے قریب ہونے اورگناہوں کی مغفرت کرالینے کا خیال ہی نہیں آتا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے؛ جو رمضان کا مہینہ پانے کے بعد بھی اپنی مغفرت کا سامان نہ کرلے۔ شب قدر یقینی طور پر مل جائے اس کے لئے آخری عشرہ کا اعتکاف بہت مفید ہے۔ جوکوئی 21رمضان کی شب سے علائق دنیا اور مشغولیت کو چھوڑ کریک سوہو کر اللہ کے گھر میں جا بیٹھا اور دس دن مسجد میں رہا، اسے شب قدر کا ملنا یقینی ہے؛ کیوں کہ وہ تو اللہ کے در پر پڑا ہی ہوا ہے، شب قدر اس سے بچ کر نکل ہی نہیں سکتی۔ اور مڑدہ مغفرت یقینی ہے، بشرطیکہ یہ عمل اخلاص، ایمان اور احتساب کے ساتھ کیا جائے، ریاکاری، نمود و نمائش اور شہرت طلبی کا اس میں گذر نہ ہو۔اعتکاف کے معاملہ میں ہمارے یہاں سستی پائی جاتی ہے ، یقینا پورے محلہ اور گاو  سے ایک آدمی کا اعتکاف میں بیٹھ جانا پورے محلہ اور گاو ں کو گناہگار ہونے سے بچالیتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ مسجد کے امام کو روپے کی لالچ دے کر اعتکاف کرنے پر مجبور کیا جائے، یا کسی مزدور کو اجرت پر معتکف کیا جائے۔
روزہ کی دوسری جہت طبی ہے، میڈیکل سائنس دانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم کی بہت ساری بیماریاں دور ہوتی ہیں، روزہ معدے کی تکلیف، نظام ہضم، شوگر لیول،کولیسٹرول اور بلڈپریشر کو معتدل رکھتاہے، جس کی وجہ سے دل کے دورہ کا خطرہ کم ہوتاہے، موٹاپے میں کمی آتی ہے اور غیر ضروری چربی سے آدمی کو نجات ملتاہے، انسان اعصابی امراض میں افاقہ محسوس کرتاہے، کھال اور چھاتی کے کینسر کے خطرات میں کمی آتی ہے، معجم الاوسط میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی نقل کی گئی ہے کہ صوموا تصحوا یعنی روزہ رکھو، صحت مند ہوجاو گے، اس حدیث کی شرح میں علامہ عبد الرو وف مناوی نے لکھا ہے ، جسے مشہور کتاب فیض القدیر (ج 4ص 280)میں نقل کیا ہے کہ روزہ روح کی غذا ہے، جس طرح کھانا جسم کی غذا ہے، روزہ رکھنے سے دنیا میں بندے کو صحت و تندرستی اور وافر مقدار میں رزق ملتاہے، جب کہ آخرت میں اسے بڑا ثواب ملے گا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں روح کی گندگیاں اور کثافتیں تو دور ہوتی ہی ہیں، انسانی جسم اور دیگر اعضاءرئیسہ کو بھی بے پناہ فوائد حاصل ہوتے ہیں، جسم سے زہریلے مادہ کا اخراج اعضاءکے نظام کو چست و درست رکھنے میں معاون ہوتاہے۔ یہ روزہ کا ایک اورفائدہ ہے، جس کی طرف لوگوں کی توجہ کم جاتی ہے۔ لیکن روزہ اللہ کے لئے ہی رکھنا چاہیے اور فرض کی ادائیگی اور اجر و ثواب کی نیت سے ہی رکھنا چاہیے اس کے علاوہ جو فوائدہیں وہ تو ہر حال میں حاصل ہوکر رہیں گے، اس لیے روزہ کو دوسرے فوائد کے حصول کی نیت سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور اللہ کو اخلاص کے ساتھ کی گئی عبادت مطلوب ہے، چاہے نماز ہو یا روزہ ، زکوٰة ہو یا حج۔ سب اخلاص کے ساتھ ہی ہونی چاہیے۔
روزہ کی تیسری جہت ہمدردی و غم گساری ہے، غرباء، فقراءاور مساکین کی ضرورتوں کی تکمیل ہے، رمضان کے بارے میں حضرت سلمان فارسیؓ کی ایک روایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اس میں رمضان کو شہرمواساة یعنی غم خواری کا مہینہ قرار دیاگیا ہے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ سے زیادہ کسی ماہ میں سخی نہیں ہوا کرتے تھے، مسلمان عام طور سے اسی ماہ میں زکوٰة بھی نکالتے ہیں، یہ بھی ضرورت مندوں کی ضرورتوں کی تکمیل کا بہترین ذریعہ ہے، اس کے علاوہ رمضان المبارک میں مسلمانوں پر صدقہ  فطر کی ادائیگی بھی ضروری قرار دیاگیاہے غم خواری اور ہمدردی کا اظہار بڑے پیمانے پر ہو، اس کے لئے صدقہ  فطر عام مسلمانوں پر واجب قرار دیا گیا، اور اس میں روزہ دار غیر روزہ دار بڑے بوڑھے، عورت مرد اور بچوں تک میں تفریق نہیں کی گئی، عید کی چاند رات کو صبح صادق سے پہلے جو بچہ پیدا ہوا، اس کی جانب سے بھی صدقہ فطر کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے، اس کا بڑا مقصد یہ ہے کہ عید کے دن کی خوشیوں میں غرباءو مساکین کی شرکت بھی ہوسکے۔ اور اللہ کی میزبانی کے اس خاص دن میں کوئی مسلمان بھوکا نہ رہے اورضروریات کی تکمیل کے لئے اس کے پاس رقم دستیاب ہو۔ ایک اور مقصد روزہ داروں کی جانب سے صدقہ  فطر کی ادائیگی کی شکل میں یہ بھی ہے کہ روزہ میں جو کمی کوتاہی رہ گئی ہو اس کی تلافی صدقہ  فطر کے ذریعہ کی جائے، اس سلسلے میں احادیث کی کتابوں میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکینوں کے کھانے اور روزوں کو لغو اور گناہوں سے پاک کرنے کے لئے صدقة الفطر کو لازم کیا ہے۔ ظاہر ہے صدقة الفطر مال دینے سے ادا ہوگا تو اس کے لئے مالدار ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلام میں مالداری کاتصور بنیادی ضرورت کے سامان مثلاً مکان، کپڑے، سواری، حفاظت کے لئے اسلحے، موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اتنی قیمت سے زیادہ مال کا مالک ہونے سے ہے، صدقہ فطر میں ایک آدمی کی طرف سے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور، پنیر، کشمش، منقی اور جو ادا کرنے کی بات حدیث میں مذکور ہے، نصف صاع موجودہ رائج وزن میں ایک کلو چھ سو بیانوے اور ایک صاع تین کلو تین سو چوراسی گرام کے برابر ہوتاہے۔ یہ اشیاءچاہیں تو صدقہ فطر میں وزن کے اعتبار سے دیدیں، چاہیں تو قیمت ادا کردیں، قیمت ادا کرنا زیادہ بہتر اس لیے ہے کہ روپے کی شکل میں تعاون ہونے سے غرباءاپنی دوسری ضرورتوں کی تکمیل بھی اس رقم سے کرسکیںگے، فقہاءاسے انفع للفقراءسے تعبیر کرتے ہیں۔ قیمت میں اعتبار مقامی بازار کے نرخ کاہوگا، ایک جگہ کی قیمت کا دوسری جگہ اعتبار نہیں ہوگا، اس لیے صدقہ فطر کا اعلان ہمیشہ مقامی ہوا کرتاہے اور مقامی میں بھی قیمت دریافت کرنے میں فرق پائے جانے پر فرق ہوسکتاہے۔ اس لیے اگر ایک شہر میں فطرانہ کی رقم کی مختلف تنظیموں نے الگ الگ مقدار بیان کی ہو تو بدگمانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، قیمت دریافت کرنے پر جو بات سامنے آئی اس کے حساب سے رقم کا اعلان کیا گیا، اللہ رب العزت سے دعاءکرنی چاہیے کہ وہ ہم سب کو رمضان کے فضائل و برکات سے پورا پورا حصہ عطا فرمائے، غریبوں اور محروموں کے لئے زکوٰة، خیرات، صدقات و عطیات سے مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...