Powered By Blogger

اتوار, مئی 14, 2023

مدارس اسلامیہ……غورو فکر کے چند گوشے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

مدارس اسلامیہ……غورو فکر کے چند گوشے
Urduduniyanews72
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ  قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
ہندوستان کے مدارس اسلامیہ میں رمضان المبارک کی تعطیل کے بعد نئے داخلے کی کارروائی چل رہی ہے، اوربعض مدارس میں داخلہ کی کاروائی مکمل ہو چکی ہے اور اب تعلیمی سال کا آغاز ہوا چاہتا  ہے، اساتذہ نئے حوصلے اور جذبے کے ساتھ تدریس میں لگیں گے  طلبہ بھی اپنے کامیاب مستقبل کے لیے جد وجہد اور محنت کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
 مدارس اسلامیہ دینیہ کی اہمیت کو غیروں نے زیادہ سمجھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ امت مسلمہ میں اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب وثقافت کی سپلائی یہیں سے ہوتی ہے، اسی لیے وہ ہمارے مدارس کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلاتے رہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن سے اس کی اہمیت وافادیت نکال دی جائے اور سماج کو باور کرادیاجائے کہ یہ ادارے از کار رفتہ اورآؤٹ آف ڈیٹOut of Date)) ہو چکے ہیں، ان میں اساسی اور بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، بد قسمتی سے ہمارے دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہو گیا ہے، اور وہ تعلیم سے متعلق ہر سمینار، سمپوزیم اور مجلسی گفتگو میں ٹیپ کے بند کی طرح اسے دہراتا رہتا ہے؛ حالانکہ ہمارے مدارس اسلامیہ نے ماضی سے لیکر تا حال ملک وملت کی جو خدمت انجام دی ہیں، اس کی نظیر کسی اور قسم کے تعلیمی اداروں میں مشکل سے مل پائے گی،ہمارے اساتذہ نے اس تعلیمی نظام کو اجرت کے بجائے اجر خدا وندی کے حصول کے جذبہ سے پروان چڑھایا،اپنی زندگیاں کھپادیں، دنیا وی آسائش اور حصولیابیوں کی طرف سے منہہ پھیر لیا، مقصد رضائے الٰہی کا حصول تھا، یہ مقصد کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ 
ہمارے مدارس کے طلبہ نے بھی اپنے اساتذہ کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کیا، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہاں مادی منفعت کے مواقع کم ہیں، سرکاری مراعات کا گذر نہیں ہے،اور جہاں گذر ہواہے وہاں کا ر طفلاں تمام ہوتا جارہا ہے،اور رشوت کی گرم بازاری نے ان اقدار سے انہیں منحرف کردیا ہے،جو ہمارے مدارس کا طرہ امتیاز رہا ہے، میں یہاں بات آزاد مدارس کی کر رہا ہوں، ملحقہ مدارس کی نہیں، ملحقہ مدارس میں بھی جن مدارس نے عزم کر لیا ہے کہ ہم بزرگوں کے نقش قدم پر چلیں گے،ا ن کے یہاں اس مادی نظام کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے، البتہ ایسے مدارس انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور ان کی ہمارے دل میں بڑی وقعت اور قدروقیمت ہے۔ مدارس کے اس نئے تعلیمی سال کو مزید معیاری اور تربیت کے اعتبار سے مزید مثالی بنانے کے لیے ہمیں اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ، طلبہ اور انتظامیہ کی نیتوں میں خلوص ہو، کیونکہ ہمارے اعمال کی کیا ری کو سر سبز وشاداب اور سدا بہار رکھنے میں اخلاص کے چشمۂ صافی سے ہی توانائی ملتی ہے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒفرمایا کرتے تھے کہ خلوص وللہیت کے جذبے سے جوکام کیاجا تا ہے اس میں اللہ کی نصرت ضرورآتی ہے، اعمال کا مدار نیتوں پر ہی ہے۔
مدارس اسلامیہ اصلاً قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے لئے ہیں، بقیہ علوم وفنون انہیں دونوں نصوص کی افہام وتفہیم کے طور پر پڑھا ئے جاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ان دونوں چیزوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے،یقینا قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کا مزاج بڑھاہے،لیکن اب بھی بہت سارے گاو?ں اور دیہات ایسے ہیں، جہاں اس معاملے میں کافی کمی پائی جاتی ہے کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ قرب وجوار کے ان گاؤں کی بھی فکرکریں، جو بنیادی دینی تعلیم سے آج بھی دورہیں، اس پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہمارے وسائل اس کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم چند ایسے گاؤں کو گود لے لیں،جو اب تک بنیادی دینی تعلیم سے محروم اور بے بہرہ ہیں،اس کی وجہ سے مدرسہ کو ہر قسم کا فائدہ پہونچے گا۔
حضرت مولانا ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی مدرسہ مالی بحران کا شکوہ کرتا ہے تو مجھے معاً خیال آتا ہے کہ وہاں قرآن کریم کی تعلیم صحت کے ساتھ نہیں ہو رہی ہے،وہ فرماتے تھے کہ نا ممکن ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم پر توجہ دی جائے اور ادارہ مالی بحران میں مبتلا ہو،اس لیے کہ اللہ بڑا غیور ہے، اس کی غیرت کس طرح گوارہ کر سکتی ہے کہ اس کے کلام پاک کا حق ادا کیاجائے اور حق ادا کرنے والے پریشان حال ہوں۔
معیاری تعلیم کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ جو کچھ پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے اس کے اچھے ہونے کااعتماد ہو، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں اچھا وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے،اس لیے اساتذہ اور طلبہ سب کو اعتماد ہو نا چاہئے کہ ہم جن کاموں میں لگے ہیں وہ دنیا کااچھا کام ہے، اس احساس کے نتیجے میں ہمیں نفسیاتی طور پر اطمینان نصیب ہوگا اورہم دینی تعلیم اورتہذیب وثقافت کے قدر داں ہوں گے اور دوسری تہذیب ہمیں متاثر نہیں کر سکے گی۔
 عموماً دیکھا جاتا ہے کہ طلبہ جب مدرسہ سے گھرکا رخ کرتے ہیں یا فارغ ہوکر دوسرے اداروں میں داخلہ لیتے ہیں تو ان کی وضع قطع بدل جاتی ہے،چہرے سے داڑھی تک غائب ہو جاتی ہے۔وضع قطع اس طرح مغربی ہوجاتی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کبھی انہوں نے مدرسہ میں پڑھا ہے، یہ ہماری تربیت کی کمی ہے، ہم نے دوران تعلیم طالب علم کے ذہن میں اپنے تہذیبی سرمایہ اور ثقافت وکلچر کی اہمیت نہیں بٹھائی، وہ دوسری تہذیبوں سے متاثر ہوتے رہے اورذرا سا ماحول بدلا تو سب کچھ بدلتا چلا گیا، ہمیں خصوصیت سے تربیت کے اس اہم نکتہ پر توجہ مبذول رکھنی چاہیے تاکہ ہمارا سرمایہ ضائع نہ ہو۔ حضرت مولانا محمدالیاس صاحب ؒ، فرمایا کرتے تھے کہ اپنی کھیتی میں کچھ نہ پیدا ہو یہ افسوس کی بات ہے، لیکن اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پیداوار ہماری ہو اور وہ دوسروں کے کام آئے۔
تعلیم کو معیاری بنانے کے لئے اساتذہ وطلبہ دونوں کے لیے مطالعہ کی پابندی نا گزیر ہے، اساتذہ متعلقہ کتابوں کا مطالبہ کرکے درس گاہ میں جائیں، بلکہ جدید طریقۂ تعلیم کے مطابق نقشۂ تدریس یعنی لیسن پلان رات کو ہی مرتب کر لیں، اس سے تدریس کے کام میں سہولت بھی ہوگی اورتدریس کا حق بھی پورے طور پر ادا کرنا ممکن ہو گا، لیسن پلان کی وجہ سے ہم اپنے سوالات مرتب کر سکیں گے، لڑکوں کی سابقہ معلومات کو سامنے رکھ کر ان کی معلومات میں تدریجا اضافہ کرنا ہمارے لیے ممکن ہو سکے گا، اور طلبہ بھی اساتذہ کے غیر ضروری سوالات سے بچ کر مورد عتاب نہیں ہوں گے۔ 
معیاری تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے طلبہ کا ایک نشانہ اور ٹارگیٹ ہو کہ  ہمیں دیگر مضامین میں کامیاب ہونا ہے،لیکن فلاں مضمون میں مہارت پیدا کرنی ہے،یہ دور اختصاص کا ہے، اس کے بغیردنیا میں کوئی قیمت نہیں لگتی اور عام طالب علموں کو ترقی کے مواقع نہیں ملتے؛ اس لیے کسی ایک فن میں اختصاص کی کوشش کرنی چاہیے۔
 چونکہ یہ سارا کام رضاء الٰہی کے لئے ہی کرنا ہے اوردوسراکوئی مقصد نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کے حکم پر چلیں، گناہوں سے اجتناب کریں اور ان تمام امور پر کار بند ہونے کیلئے اللہ سے توفیق طلب کر تے رہیں، سارے کام اللہ کی توفیق ہی سے بندہ کر سکتا ہے،اس لیے اللہ سے مانگیں اس کے سامنے گڑگڑائیں، آہ سحر گاہی اور دعاء نیم شبی کا اہتمام کریں، اللہ سے اس طرح لو لگائیں کہ تعلیم میں مدرسہ اور تربیت وتزکیہ میں ادارہ خانقاہ نظر آئے اور جب کوئی بندہ ادھر سے گذرے تو اعلان کرے کہ   ع    در مدرسہ خانقاہ دیدم
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت مدارس اسلامیہ کے سامنے مختلف قسم کی مشکلات ہیں، اندرونی فتنوں کے ساتھ بیرونی فتنوں کا بھی تسلسل ہے، اس پس منظر میں چند باتوں کی طرف اساتذہ اور ذمہ داران مدارس کی توجہ مبذول کرانا ضروری معلوم ہوتا ہے: (۱) درجہ حفظ کے طلبہ کو اردو املاء نویسی کرائی جائے، دیکھا یہ جارہا ہے کہ درجہ حفظ سے فارغ طلبہ بہت مشکل سے اپنا نام لکھتے ہیں، جبکہ انہیں اردو لکھنے پڑھنے کی اچھی مشق ہونی چاہئے، ہندوستان میں ہندی زبان سے بھی واقفیت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ (2) خوش خطی کی طرف بھی دھیان دیا جائے اور تمام درجات میں خوش خطی کی مشق کا اہتمام کرایا جائے۔ (3) عام معلومات میں، جغرافیائی معلومات ملکی معلومات اور ریاستوں کے نام سے روشناس کرایا جائے، سوالات کے ذریعہ اس کا استحضار کرایا جائے۔ (4) عام احساس یہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کے تربیتی نظام میں انحطاط آیا ہے، اس لیے تعلیم کے ساتھ تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے اور ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جائے۔ (5) مدارس کے نظام میں طلبہ کے اوقات کی پوری حفاظت کی جائے، اور تضیع اوقات سے انہیں بچایا جائے۔ (6) ورزش کے درمیان کھیل سے متعلق عربی الفاظ کا سوال جواب بھی جاری رہے تمرین کی یہ اچھی صورت ہے۔ (7) مفرد کلمات کا ذخیرہ ہونا بھی ضروری ہے، اس سے مضمون نگاری اور انشاء پردازی میں مدد ملتی ہے، ہر طالب علم کے لیے عربی لغت کا رکھنا ضروری قرار دیا جائے۔ (8) لغت سے کیسے معانی نکالیں گے اس کی طرف رہنمائی کرنی چاہیے، اسی طرح لغت کے اشارات بھی بتا دیا جائے،عربی کے دوسرے اور تیسرے درجہ سے یہ مشق ضروری ہے۔ (9) معیاری و اصلاحی اشعار بھی اساتذہ کی نگرانی میں یاد کرائے جائیں، بیت بازی کے ذریعہ یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔ (10) تقریری مشق میں صرف الفاظ نہ ہوں بلکہ آیات قرآنی اور احادیث کے عربی کلمات بھی یاد کرائے جائیں۔ (11) انجمن میں اگر نحوی وصرفی سوالات و جوابات (مکالمات) کا سلسلہ شروع کیا جائے تو اس سے بھی قواعد عربیت کا استحضار ہو گا۔
ایک مسئلہ نصاب تعلیم کابھی ہے، بہار کی حد تک تین قسم کے نصاب تعلیم جزوی طور پرترمیم کے ساتھ مدارس میں رائج ہیں۔ ایک دیو بند کا دوسرے ندوۃ العلماء کا اور تیسرا وفاق المدارس المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ کا، یہ تینوں نصاب اپنی اپنی جگہ اہم ہیں، ان میں تبدیلی پیدا کرکے مخلوط نصاب رائج کرنے کی تحریک طبقہ دانشوران کی طرف سے پیدا کی جاتی رہی ہے، لیکن دینی وعصری علوم کا امتزاج آج کے دور میں عملی نہیں ہے، یہ انتظامی مجبوری ہے کہ دونوں طریقہ تعلیم کو الگ الگ رکھا جائے۔
 مدارس اسلامیہ  زکوٰۃ وخیرات کی آمدنی  سیگراں تنخواہ پر عصری علوم کے ماہرین کو نہیں رکھ بائیں گے اور عصری علوم کے لوگ تنخواہ پر مولویوں کی طرح رہنا پسند نہیں کرتے  بیش تر لوگوں کی نگاہ متاع دنیا پر ہوتی ہے اور مولویوں کی نظر اجرت کے بجائے اجر خداوندی پر، یہی وجہ ہے کہ پورے ہندوستان میں مدارس پھیلے ہوئے ہیں، اور ان میں دینی تعلیم سے طلبہ آراستہ ہوتے ہیں، مدارس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دینی علوم کے اساتذہ کو کم اور عصری علوم کے ماسٹر صاحبان کو زیادہ تنخواہ پر رکھیں اس لیے کہ اس سے دینی تعلیم کی بے توقیری ہوتی ہے اور یہ عدل کے بھی خلاف ہے، اس لیے نصاب میں جزوی تبدیلی انگریزی وغیرہ کی شمولیت کے ساتھ کی جاسکتی ہے، کمپیوٹر سکھایا جا سکتا ہے، لیکن سائنس، کامرس، آرٹس اور ان کی شاخ درشاخ کو مدارس میں پڑھانا بالکل ممکن نہیں ہے، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے مولوی آرٹس، سائنس، کامرس کا نصاب متعلقہ مدارس کو فراہم کیا ہے، لیکن اس نصاب کو اسی طرح ناکام ہونا ہے، جیسے گذشتہ تیس برسوں میں پڑھا یا جانے والا نصاب کوئی انقلاب پیدا نہیں کر سکا، یہ مدرسہ کے بنیادی مقاصد کو فوت کرنے جیسا ہے اور اس کی افادیت موہوم ہے، نصاب بڑھادیا گیا ہے اور اساتذہ وہی تیرہ ہیں، جہاں درجات کے اعتبار سے اساتذہ مہیا نہ ہوں وہاں تعلیمی اور وہ بھی معیاری کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
 صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ہم طلبہ کو محنت، اساتذہ کو معیاری تدریس، انتظامیہ کو تدریسی سہولت کی فراہمی پر آمادہ نہیں کر پا رہے ہیں، اس لیے ہمیں رہ رہ کر نصاب کے کان مروڑنے کا شوق پیدا ہوتا ہے، کیوں کہ ایک نصاب ہی ہے جو جتناادل بدل کیجئے آپ کے خلاف کھڑا نہیں ہو سکتا، بے جان جو ٹھہرا۔
مدارس اسلامیہ کے بچوں کو اگر آپ میٹرک وغیرہ کرانا چاہیں تو نیشنل اوپن اسکولنگ سسٹم سے ان کے امتحانات دلوادیجئے، وہاں سہولت بھی ہے اور یہ چونکہ اوپن اسکولنگ ہے، اس میں طلبہ کا تدریسی نقصان نہیں ہوگا، اور مختصر تیاری کے ساتھ ان کے پاس عصری علوم کی سند بھی ہوگی۔
 معروضات لمبی ہو گئیں، لیکن یہ مدارس کے ذمہ داران کے لیے غور وفکر کے چند گوشے ہیں،بات سے بات نکلتی ہے اور پھر کسی نتیجہ پر پہونچنا ممکن ہوتا ہے، اللہ کرے یہ معروضات قارئین کے ذہن ودماغ پر دستک دے سکیں اور مدارس اسلامیہ کی عہد زریں کی واپسی میں معاون ومددگار ثابت ہو سکیں

بتاریخ 20شوال المکرم 1444ہجری مطابق 11مئی 2023 بروز جمعرات بعد نمازِ مغرب مدرسہ تجوید القرآن جگت چند پور عرف چلکیا پوسٹ بڑھا پور ضلع بجنور یوپی میں جمعیت علماء ہند حلقہء گانوڑی کے زیرِ اہتمام ایک پروگرام "بعنوان اصلاح معاشرہ" منعقد ہوا۔۔

بتاریخ 20شوال المکرم 1444ہجری مطابق 11مئی 2023 بروز جمعرات بعد نمازِ مغرب مدرسہ تجوید القرآن جگت چند پور عرف چلکیا پوسٹ بڑھا پور ضلع بجنور یوپی میں جمعیت علماء ہند حلقہء گانوڑی کے زیرِ اہتمام ایک پروگرام "بعنوان اصلاح معاشرہ" منعقد ہوا۔۔ 
اردودنیانیوز۷۲ 
 صدارت کے فرائض عشقِ قرآن سے سر شار ، حامئ سنت حضرت اقدس قاری محمد یاسین صاحب دامت برکاتہم العالیہ صدر شعبہ حفظ مدرسہ فخر العلوم گانوڑی نے انجام دیئے
سرپرستی فاضل نوجواں حضرت مولانا مفتی محمد ناصر صاحب مدظلہ امام و خطیب مسجد عرفات چلکیا نے فرمائی
جبکہ نظامت کے فرائض راقم الحروف اور مولانا سرور صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے مشترکہ طور پر انجام دیئے 
پروگرام کا آغاز حضرت قاری محمد سہیل فخری صاحب چلکیاوی نے اپنے خوب صورت لب و لہجہ کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرکے کیا 
اور نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت حافظ انس چلکیاوی کے حصہ میں آئی
مہمانِ خصوصی حضرت مولانا نسیم احمد صاحب دامت برکاتہم العالیہ مہتمم مدرسہ منبع العلوم اسلام گڑھ نے اپنے خصوصی خطاب میں معاشرہ میں آئے بگاڑ اور فساد کو بڑے بے باک انداز میں بیان کیا 
حضرت مولانا نے فرمایا کہ معاشرہ میں پھیلی برائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ،اپنے بیان میں حضرت نے کہا کہ خاندانی تعلق کو ایمانی تعلق سے اوپر مت رکھو بلکہ اگر کہیں خاندانی رشتہ ایمانی رشتہ کے مقابل آئے تو خاندانی رشتہ کو چھوڑا جائے گا ایمانی رشتہ کو باقی رکھا جائے گا ۔
نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آج کا نوجوان شراب نوشی اور حرام خوری جیسے بڑے بڑے گناہوں میں مبتلاء ہیں۔
 شراب نوشی اور گانے بجانے کے نقصانات بیان کرتے ہوئے نوجوانوں سے ان تمام برائیوں سے بچنے کی تلقین کی۔ مولانا نے کہا گھر کے زمہ دار افراد کو چاہئے کہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں اُن کو دین کی طرف راغب کریں۔
اس کے علاوہ شادی بیاہ کی رسومات کی طرف بھی توجہ دلائی
وہیں صدرِ محترم حضرت قاری یاسین صاحب مدظلہ العالی نے بھی حالاتِ حاضرہ کے تعلق سے بڑی قیمتی باتیں بتائیں 
حضرت نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمیں تمام طرح کی رسومات سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے
حضرت نے آخرت کی یاد دلاتے ہوئے میدانِ حشر کا ذکر کیا جب انسان کا نامہ اعمال اُس کے ہاتھ میں دیا جائے گا تو اس وقت انسان بڑا پریشان ہوگا حواس باختہ ہوجائیں گے اگر بندے نے نیک اعمال کئے ہوں گے تو نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور اگر برے اعمال کئے ہوں گے تو نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اسی طرح اگر بندے نے نیک اعمال کئے ہوں گے اعمال کے وزن کے وقت نیکیوں کہ پلڑا بھاری ہوگا اور اگر برے کام کئے ہوں گے تو برائیوں کا پلڑا بھاری ہوگا اسی طرح یہ بھی بتایا کہ اگر بندے کے پاس نیک اعمال ہوں گے تو پل صراط سے بجلی کے مانند گزر جائے گا اور برے اعمال ہوں گے تو پل صراط سے کٹ کٹ کر جہنم میں گر جائے گا۔۔ 
حضرت صدرِ محترم کی مستجاب دعاء پر پروگرام کا اختتام ہوا۔۔
پروگرام میں حضرت قاری عبد الحفیظ صاحب نور پور ،حضرت مولانا منیر الاسلام علاؤ الدین پور، ماسٹر صنوبر صاحب علاء الدین پور حضرت قاری عبد الحفیظ صاحب چلکیا حضرت قاری زین العابدین صاحب، قاری تصور حسین صاحب ، قاری عرفات صاحب، قاری انتخاب صاحب ، قاری محمد تصور صاحب کے علاوہ کثیر تعداد میں عوام نے بھی شرکت فرمائی جس پر حضرت صدرِ محترم اور مہمانِ خصوصی نے اپنی خوشی کا اظہار بھی کیا
دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس مل بیٹھنے کو قبول فرمائے اور ہم سب کو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے  
راقم الحروف: انس حسامی بجنوری
11 مئی 2023

جمعہ, مئی 12, 2023

زبان وادب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

زبان وادب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
اردودنیانیوز۷۲ ۔
ڈاکٹر ستین کمار پرنسپل سمستی پور کالج سمستی پور 
سمستی پور کالج میں ایک روزہ عظیم الشان سیمینار بعنوان انسانی زندگی میں زبان وادب کی اہمیت بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا

سمستی پور مورخہ 10/مئی 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم)

سمستی پور کالج  سمستی پور میں عظیم الشان سیمینار بعنوان انسانی زندگی میں زبان وادب کی اہمیت پر شعبہ اردو سنسکرت ومیتھلی کے اشتراک سے ڈاکٹر ستین کمار پرنسپل سمستی پور کالج کی صدارت میں انعقاد کیا گیا ۔
اس سیمینار میں نظامت کے  فریضے کو شعبۂ اردو کی جانب سے ماہر اقبالیات ڈاکٹر صالحہ صدیقی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج نے انجام دی،
اس موقع پر ڈاکٹر ستین کمار پرنسپل سمستی پور کالج نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے شعبۂ اردو، میتھلی اور سنسکرت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری زندگی میں زبان وادب کی بیحد اہمیت و افادیت ہے، زبان وادب مکمل ایک تہذیب وثقافت کا نام ہے، خصوصاً مادری مادری زبان سے انسانوں کو فطری لگاؤ ہوتا ہے، زبان وادب کو کسی بھی مذہب سے نہیں جوڑنا چاہیے، ہر زبان وادب کا پیغام فقط محبت ہے ۔
ہم مقالہ نگاروں سمیت اردو، سنسکرت ومیتھلی زبان وادب کے طلبہ وطالبات کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بہت خوبصورت انداز میں زبان وادب کی اہمیت و افادیت کو واضح کردیا ۔
ناظم سیمینار وکنوینر ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے اردو زبان وادب کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر ستین کمار کا شکریہ ادا کیا کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً یہ عظیم الشان کامیاب سیمینار ڈاکٹر ستین کمار پرنسپل سمستی پور کالج کی کاوشوں کا نتیجہ اور ثمرہ ہے کہ آپ نے اس پروگرام کے انعقاد پر ہماری توجہ مرکوز کراتے ہوئے ہر طرح کا تعاون پیش کیا ۔ہم یوں سمجھیں کہ باغ میں صرف ایک طرح کے پھول ہوتے ہیں تو باغ کی کی خوبصورتی میں نکھار نہیں پیدا ہوتا ہے، اور جس باغ میں منتخب قسم کے پھول اور کلیاں ہوتی ہیں اس باغ کی خوبصورتی میں بیحد اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک کی بھی خوبصورتی در اصل کئ قسم کے زبان وادب ہیں، ان میں اردو زبان وادب کئ جہت سے اپنی الگ اور اہم شناخت رکھتی ہے، ایک انسان اردو زبان وادب بولتا ہے تو گویا وہ عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت، میتھلی وغیرہ بیک وقت تمام زبانیں بول رہا ہوتا ہے، چونکہ اردو ان زبانوں کے مجموعے اور سنگم کا ہی نام ہے،
سیمینار کی تیاریاں پچھلے کئ دنوں سے چل رہی ہیں اور کالج کی ٹیم پورے طور پر پروگرام کی کامیابی کے لیے کوشاں رہی ہے ۔
طلبہ وطالبات نے بھی بھر پور انداز میں مسلسل تیاریوں میں مصروف تھے، جس کا نتیجہ ہم سبھوں نے یہاں دیکھا ۔
ہم تمام مہمانان، اساتذہ، طلبہ وطالبات کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اپنا تعاون اس پروگرام کے انعقاد سے لے کر اختتام تک دیا ۔
ڈاکٹر صفوان صفوی نے اپنے تاثرات سے نوازتے ہوئے کہا کہ زبان وادب ہی ہماری اصل شناخت ہے، زبان وادب کے ذریعہ انسان کے مراتب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اردو، ہندی، سنسکرت، ومیتھلی کا شمار ہندوستان کی عظیم زبانوں میں ہوتا ہے ۔
مزید کئ اہم شخصیات نے اردو، سنسکرت ومیتھلی زبان وادب پر خوبصورت، جامع اور تاریخی گفتگو کے ذریعہ سے ان زبانوں کی اہمیت و افادیت اجاگر کی ۔
مقالہ پیش کرنے والوں میں 
اشوک کمار، راہل منہر،آشیش پانڈے، ڈاکٹر خورشید احمد، جے چندر جھا کا نام مذکور ہے ۔
شعبۂ اردو سے جن طلبہ وطالبات  نے مقالات،  نظمیں، پیش کیں اُن کی فہرست اس طرح ہے ،افسران الحق،ماریہ فردوس،عرفان احمد،شبانہ،روحی پروین،فلک ناز، نکہت پروین،شعبۂ میتھلی سے  جیوتی اور مكند کماری، سنسکرت سے منو رنجن، پشکر نے اپنے کلام پیش کئے ۔
 اس کے بعد ان بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سند سے بھی نوازا گیا ۔
آخیر میں درگیش رائے نے شکریہ کے رسم کو ادا کرتے ہوئے صدر محترم کی اجازت سے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا ۔
پروگرام کو کامیاب بنانے میں راجا ، توفیق، عرفان، سنی عرف شبھکانت، حامد، محمد عمراج ، افسران ا لحق  نے اہم رول ادا کیا۔

بدھ, مئی 10, 2023

شرعی زندگی حصہ سوم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

شرعی زندگی حصہ سوم 
Urduduniyanews72
مفتی  محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 شاہ انظار کریم فریدی چک بہاؤ الدین ضلع سمستی پور کے رہنے والے ہیں، مشغلہ ایمس دہلی میں لیب ٹیکنیشین کا ہے ،ا سلامی تحریکات سے متاثر ہیں، اپنی زندگی میں اسلام کو پورے طور پر برتتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس دائرہ میں لا کر اپنے اور دوسروں کے لیے اخروی سرخروئی کا ذریعہ بننا چاہتے ہیں، اپنی رہائش کے قریب زید پور ایکسٹنشن حصہ ۲، بدر پور نئی دہلی میں دینی مکتب چلا تے ہیں اور ڈیوٹی کے بعد جو وقت بچتا ہے اس کو دینی تعلیم کی ترویج واشاعت میں صرف کرتے ہیں، ظاہری وضع قطع بھی درست ہے، چہرے پر داڑھی اس طرح دراز اور گھنی ہے کہ بادی النظر میں کسی شیخ وقت کا گمان ہوتا ہے ۔
 شرعی زندگی حصہ سوم حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق ہے، شروع کے دو حصہ میں کیا ہے اس کا علم مجھے نہیں ، کتاب کے صفحات دو سو بہتر ہیں اور قیمت ایک سو پچاس روپے ہے جو آج کل اردو کتابوں پر درج قیمت کے اعتبار سے کم ہے ، آج کل فی صفحہ ایک روپیہ قیمت رکھنے کا مزاج بن گیا ہے ، یوں بھی اردو کتابوں کے قاری کی تعداد بھی کم ہے اور ان کی قوت خرید اس سے بھی کم تر، شاہ انظار کریم فریدی نے قیمت اس لیے کم رکھی ہے تاکہ وہ زیادہ لوگوں تک پہونچ سکے اور اس کا فائدہ عام وتام ہو ، اس کتاب کی ترتیب میں مولانا انظر خان قاسمی نے ان کی معاونت کی ہے اور ان کا نام بھی سر ورق پر درج ہے۔
 پیش لفظ میں مصنف نے اپنی علمی صلاحیت اور اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ نہ میری علمی صلاحیت کاکوئی معیار ہے اور نہ ہی میری کوشش اس انداز کی ہے ، جس سے مجھے یقین ہو کہ اس کتاب یعنی شرعی زندگی حصہ سوم سے قوم کو کچھ فائدہ حاصل ہوگا، مصنف کاکہ جہالت کی تاریکی میں ایک شمع جلا کر اپنی حصہ داری ادا کرنا چاہتے ہیں اور جہالت نیز عقائد باطلہ ، رسوم وشرک وبدعات کی مخالفت کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں، لکھتے ہیں: 
’’میں بھی اللہ کے دین کو غالب کرنے کی کوشش میں قریہ قریہ ، شہر شہر اس کتاب کی روشنی کو پھیلا نا چاہتا ہوں، جس سے قوم کے بچے اور بڑوں کے ایمان کی حفاظت ہو سکے اور لوگوں کو ارتداد سے بچانا آسان ہو جائے۔‘‘
 کتاب کا آغاز اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت سے کیا گیا ہے ، پھر اسلام، ایمان ، کفر، شرک وبدعات اللہ کے نظام میں فرشتوں کا کردار ، قرب قیامت کی علامتیں، جنت ودوزخ ، طہارت ، نماز کی اہمیت وفضیلت ، احکام نیت، رمضان، زکوٰۃ ، حج قربانی وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے ، حقوق العباد کے ضمن میں والدین، رشتہ داروں، پڑوسیوں ، ضرورت مندوں کے حقوق پرقلم بند کیے گیے ہیں ، شراب نوشی کے دینی ودنیوی نقصانات پر بھی گفتگو کی گئی ہے ، حقیقت جن، تعویز ،گنڈے، صبح وشامل کے اذکار  پربھی اچھی گفتگو شامل کتاب ہے ۔
 شاہ انظار کریم فریدی کی اس کتاب کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر اصلاح کا جوش وجذبہ پورے طور پر موج زن ہے، وہ شریعت کے احکام بلاواسطہ نصوص سے اخذ نہیں کر سکتے، اس لیے ان کے مطالعہ کا مرکز ومحور زیادہ تر ان موضوعات پر لکھی اردو کتابیں رہی ہیں، قرآن کے تراجم سے انہوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے، آیات واحادیث کے حوالہ کا اہتمام تو کیا ہے ، لیکن اس میں جدید انداز کو نہیں برتا ہے ، کتابوں کا نام لکھ دینا ہی کافی نہیں ہے ، اس کے باب اور احادیث کے نمبرات کا اندراج بھی ضروری ہے ، بلکہ اس قسم کی کتابوں میں میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آیات قرآنی اور حادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل متن ، عربی عبارت مع اعراب کے درج کرنا چاہیے،ا س سے دو فائدے ہیں، ایک تو یہ کہ قاری کا ذہن مطمئن ہو کہ یہ فلاں کتاب سے ماخوذ ہے، ہوا میں تیر نہیں چلائی گئی ہے ، دوسرے اگر قاری ان آیات واحادیث کو یاد کرنا چاہے تو اسے عربی عبارت کے یاد کرنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، تجربہ سے یہ بات معلوم ہے کہ اردو ترجمہ حافظہ کی گرفت سے جلد نکل جاتا ہے اور عربی عبارتیں ایک بار یاد کر لی جائیں تو مدتوں ذہن کے نہاں خانے میں محفوظ ہوجاتی ہیں، مصنف نے کہیں کہیں اس کا التزام کیا ہے، لیکن یہ کم ہے، شاید کتاب کی ضخامت کو کم کرنے کے لیے ا نہوں نے ایسا کیا ہے ، یا پھر وہ قاری کے ذہن کو حوالہ دے کر بوجھل نہیں کرنا چاہتے، حوالوں کی کثرت سے مطالعہ کا تسلسل ٹوٹتا ہے، لیکن بہر کیف حوالوں کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
دوسری کمی اس کتاب میں مضامین کی ترتیب کی ہے، شاہ انظار کریم فریدی کے حاصل مطالعہ کو مولانا انظر خان قاسمی کی صحیح معاونت مل جاتی تو مندرجات کے اعتبار سے اسے زیادہ مفید بنایا جا سکتا تھا، اس کتاب میں نہ حقوق اللہ کی درجہ بندی ہے اور نہ حقوق العباد کی، کیف ما اتفق قدیم بیاض کے انداز میں مضامین کا اندراج کر دیا گیا ہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے حقوق اللہ کے عنوانات کی فہرست ہوتی ، پھر حقوق العباد کی درجہ بندی کی جاتی ، اس طرح حقوق اللہ اور حقوق العباد کے حوالہ سے جو بہت ساری چیزیں رہ گئیں ، وہ بھی کتاب کا حصہ بن جاتیں۔
 کتاب میں پروف کی اغلاط بھی کافی ہیں، ان پر سخت محنت کی ضرورت ہے ، یقینا کتابوں میں غلطیاں رہ جاتی ہیں، لیکن اس قدر نہیں کہ ہر صفحہ میں دو چار اغلاط نکل آئیں، اس سے کبھی تو معنی تک پہونچنا ممکن نہیں رہتا اور کبھی دشوار تر ہوجاتا ہے، اس لیے اس طرف توجہ کی بھی خاص ضرورت تھی ۔
 کتاب کے مندرجات مفید ہیں، لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اس کی اشاعت کا جذبہ نیک ہے، شاہ انظار کریم فریدی سے میری کئی ملاقاتیں رہی ہیں، میں انہیں مخلص سمجھتا ہوں او ربھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے کی ان کی جد وجہد کو پسند کرتا ہوں، ان کی کوششوں کی قدر کرتا ہوں، جو باتیں لکھی گئیں وہ اس کتاب کی قدر وقیمت کو کم کرنے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ اسے مزید مفید اور کار آمد بنانے کے لیے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کے فائدہ کو عام وتام فرمائے اور جن مقاصد کے لیے اسے ترتیب دیا گیا ہے اس کی تکمیل میں معاون بنائے اور مصنف کو ان کے اخلاص ، محنت ، جد وجہد اور لوگوں کو دین تک لانے کی مہم کا بہترین اجر عطا فرمائے، آمیں یا رب العالمین

منگل, مئی 09, 2023

ک پھو ل سے آجا تی ہےویرانےمیں رونق ہلکا سا تبسّم بھی مر ی جا ن بہت ہے ہے

(کچھ تبسّم زیرِ لب)     
 Urduduniyanews72
                       آم کی چٹنی
 
 ٭ انس مسرورؔانصاری
 
ا ک پھو ل سے آجا تی ہےویرانےمیں رونق 
ہلکا سا تبسّم بھی مر ی جا ن بہت ہے ہے
گرمیوں کے موسم کاآغازہوچکاہے۔آ م کے پیڑوں پرامولیاں آگئی ہیں۔آم کے باغوں میں بچے گھومنے پھرنے لگے ہیں۔ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھرلیے امولیوں کوللچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔خواتین اوربچوں کے لیے یہ امولیاں بڑی کشش رکھتی ہیں۔ان کی کھٹاس من کوبہت بھاتی ہے۔ ان دنوں گھروں میں آم کی چٹنی کابڑارواج ہے۔خوشبو،کھٹاس،لذّت،کیاکچھ نہیں ہوتاآم کی چٹنی میں۔آم کی ریڈیمیڈچٹنیاں بھی کئی کمپنیاں بناتی ہیں،مگران میں وہ بات کہاں۔آم کی چٹنی پنڈت دیارام کوبہت پسند تھی۔ 
پنڈت دیارام اورمولوی قدرت اللہ میں بڑی گہری دوستی تھی۔دونوں لنگوٹیایارتھے۔دونوں میں چھوت چھات کی بیماری بھی نہ تھی۔مزے کی بات یہ تھی کہ دونوں ہی اپنے اپنے مذہبوں کے پیشواتھے۔پنڈت جی ایک ودّیالیہ میں سکچھاپردان کرتے تھے جبکہ مولوی قدرت اللہ ایک عربی مدرسہ میں در س تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔اتنے زیادہ فرق کے باوجود پنڈت اورملّا میں گاڑھی چھنتی تھی۔بس پنڈت جی کوایک ہی بات بہت بُری لگتی تھی۔جب بھی مولوی قدرت اللہ ‘‘گلاب جامن’’کانام لیتے،پنڈت جی چڑھ جاتے اورانھیں بہت بُرابھلاکہتے۔کھری کھوٹی سناتے۔ بھلا‘‘گلاب جامن ’’بھی کوئی مٹھائی ہے۔ بالکل واہیات۔مولوی صاحب کوبھی انھیں چھیڑنے میں بڑالطف آتا۔کسی نہ کسی بہانے وہ بات ہی بات میں گلاب جامن کاذکرچھیڑہی دیتے اورپنڈت جی کاپارہ گرم ہوجاتا۔پنڈت جی کوتمام مٹھائیوں میں گلاب جامن سے الرجی تھی۔اُن کے سامنے کوئی بھولے سے بھی گلاب جامن کانام بھی لے لیتاتواُس کی خیر نہ تھی۔مزالینے کے لیے بچے اکثر اُنھیں دیکھ کر گلاب جامن کہتے اورپنڈت جی دیرتک اُنھیں اوراُن کے آباواجدادکوکھری کھری سناتے رہتے۔ 
 آخرایک دن مولوی قدرت اللہ نے پوچھ ہی لیا:‘‘پانڈے!ایک بات بتاؤ۔؟’’ 
 ‘‘کون سی بات۔؟’’     ‘‘یہی کہ گلاب جامن جیسی بڑھیامٹھائی سے اتناچڑھتے کیوں ہو۔گلاب جامن نے تمھارا کیا بگاڑاہے۔؟’’   ‘‘دیکھومولوی کے بچے!خبردارجواب تم نے اُس کانام بھی لیا۔اچھانھیں ہوگا۔سمجھے۔’’
‘‘اچھاپیارے یہی بتادوکہ تمھیں کون سی چیزسب سے زیادہ پسندہے۔؟’’ 
پنڈت جی دیرتک سوچتے رہے۔پھربولے۔‘‘مجھے آم کی چٹنی بہت پسندہے۔دال بھات کے ساتھ مزادے جاتی ہے۔’’ 
‘‘اچھایادرکھناکہ تمھیں آم کی چٹنی بہت پسندہے۔’’ 
‘‘بھلایہ بھی کوئی بھولنے کی چیزہے۔بھگوان قسم آم کی چٹنی کاتوجواب ہی نہیں ہے۔’پنڈت جی چٹخارے لیتے ہوئے بولے۔مانو منھ میں پانی آگیاہو۔  
ایک ہفتہ بعد مولوی قدرت اللہ نے اپنے چندشاگردوں کوتیارکیااورانھیں سمجھایاکہ تمھیں کون ساکام کس طریقے انجام دیناہے۔کام چونکہ مزیدارتھااس لیے شاگرد لڑکے خوشی سے تیارہوگئے۔ 
گرمی کاموسم تھا۔دوپہرتپ رہی تھی۔پنڈت جی پسینے میں شرابوراسکول سے بھوجن کے لیے گھر لَوٹے تھے۔ہاتھ منھ دھوکربھوجن کے لیے بیٹھے۔اُن کی پتنی پنڈتائن نے بھوجن پروساہی تھاکہ مولوی قدرت اللہ کاایک شاگردلڑکاپہنچا۔‘‘پنڈت جی مہاراج!مولوی صاحب نے آم کی چٹنی مانگی ہے۔’’ 
  ‘‘بیٹا!آج توآم چٹنی نھیں بنی ہے،کل بھیج دوں گا۔’’ لڑکاواپس آگیا،لیکن ابھی پنڈت جی نے بھوجن شروع بھی نہیں کیاتھاکہ دوسرالڑکاپہنچا۔‘‘پنڈت جی !پنڈت جی!مولوی صاحب نے آم کی چٹنی مانگی ہے۔’’ 
‘‘بھئی ایک بالک چٹنی کے لیے آیاتھالیکن افسوس کہ آج آم کی چٹنی بنی نہیں ہے۔بنی ہوتی توبھلاکیوں نہ دیتا۔مولوی صاحب سے کہناکہ آم کی چٹنی بنے گی توبھیج دوں گا۔’’پنڈت جی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ 
دوسرالڑکابھی واپس گیا۔پنڈت جی نے جیسے ہی بھوجن شروع کیا،تیسرالڑکاپہنچ گیا۔‘‘پنڈت جی!مولوی صاحب نے آم کی چٹنی مانگی ہے۔’’اب توپنڈت جی کاپارہ گرم ہوناشروع ہوگیا۔نہایت خفگی سے بولے۔ 
‘‘ایک بارنہیں بلکہ تین بارکہہ چکاہوں کہ آج میرے گھرآم کی چٹنی نہیں بنی ہے۔اپنے مولوی سے آخری بارکہہ دینا۔بنے گی توبھیج دوں گا۔’’ 
پنڈت جی کے گھرسے تیسرالڑکاباہرنکلاتوفوراََچوتھاپہنچ گیا۔ 
‘‘پنڈت جی!پنڈت جیــ.......!’’  
‘‘کیاہے؟کیابات ہے؟’’ پنڈت جی نے لڑکے کوقہربھری نظروں سے دیکھا ۔
 ‘‘وہـــ.....وہ....’’لڑکاہکلایا۔‘‘وہ جی ہمارے مولوی صاحب نے آم کی چٹنی.......’’ 
 ‘‘آم کی چٹنی کے بچّے!ابھی میں تھکاماندہ اسکول سے چلاآرہاہوں۔بھوجن تک نہیں کیااورتم کم بختو!میراجیناحرام کیے دے رہے ہو۔کتنی بارکہوں کہ آم کی چٹنی نہیں بنی۔کہاں سے لاؤ ں آم کی چٹنی۔؟ بھاگ جاؤ بدبختو۔’’پنڈت جی کوغصّہ میں بھرے دیکھ کرلڑکابھاگ نکلا۔یہ چوتھالڑکاجیسے ہی دروازہ کے باہر ہوا۔پانچواں لڑکاپنڈت جی کے سرپرپہنچ گیا۔
‘‘پنڈت جی!آم کی چٹنی.......!’’پانچواں لڑکاابھی اتناہی کہہ پایاتھا کہ پنڈت جی آپے سے باہرہو گئے۔بھوجن سے بھری تھالی لڑکے پر کھینچ ماری۔لڑکاجھکائی نہ دے جاتاتواُس کاسرہی پھٹ جاتا۔وہ لڑکابھاگاہی تھاکہ چھٹواں لڑکاآدھمکا۔
‘‘پنڈت جی..........!’’
‘‘ہاں.ہاں.....کہوبیٹا۔!’’وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔
‘‘مولوی صاحب.........آم کی چٹنی۔’’
‘‘ہاں ہاں....کیوں نہیں۔ابھی دیتاہوں آم کی چٹنی۔’’پنڈت جی نے لپک کرکونے میں کھڑی بید کی چھڑی اُٹھائی اورلڑکے کی طرف بڑھے۔لڑکابھاگ کھڑاہوا۔وہ چیخنے لگے۔
‘‘بلاؤ مولوی قدرت کو۔آج ہی میں اُسے آم کی چٹنی کھلاؤں گا۔حرام خور.......بدمعاش...... کمینہ......میں سب سمجھتاہوں۔ارے کیاتم کبھی ملوگے نہیں........سمجھ لوں گابیٹا۔!میں بھی پنڈت دیا رام ہوں۔گن گن کے بدلہ لوں گا۔’’ 
‘‘اجی کیاہوا۔؟کیوں چیخ رہے ہو۔؟؟’’پنڈتائن ہانپتی کانپتی ہوئی کمرے میں آئیں توساراکمر ہ کباڑخانہ بناہواتھا۔ ‘‘یہ سب کیاہے ؟کیوں چلّارہے ہو۔’’وہ حیران وپریشان کبھی اپنے پنڈت کودیکھتیں اورکبھی کمرے کو۔
‘‘بس کچھ مت پوچھوساویتری۔!وہ کم بخت مولوی کابچہ ....!وہ آم کی چٹنی..... !’’پنڈت جی بُری طرح ہانپ گئے۔ 
‘‘آم کی چٹنی.....؟کیامطلب....؟’’پنڈتائن نے حیرت سے پوچھا۔
‘‘بس بس ساو یتری !آگے کچھ بھی نہیں۔’’وہ بوکھلائی بوکھلائی اپنے پتی دیوکاچہرہ تک رہی تھیں۔آم کی چٹنی کامطلب وہ نہیں سمجھ پارہی تھیں۔ پنڈت جی کے ہاتھ میں بیدوالی چھڑی تھی اوروہ دروازہ کے باہرجھانک رہے تھے۔شاید وہ ساتویں لڑکے کی راہ تک رہے تھے۔لیکن ساتواں لڑکاآم کی چٹنی کے لیے نہیں آیا۔اُنھیں غصّہ کے ساتھ سخت مایوسی بھی ہوئی۔البتہ اس دن کے بعدسے وہ ‘‘گلاب جامن’’کے ساتھ‘‘آم کی چٹنی’’ سے بھی چڑھنے لگے۔ 
یہ گزرے ہوئے زمانوں کی باتیں ہیں۔جب ہندومسلم ایک قوم ہواکرتے تھے۔بھائی چارہ اور یک جہتی تھی۔ایک دوسرے کے ساتھ خوشی اورغم میں جینامرناتھا۔ہولی کے تیوہارمیں مسلمان دل کھول کرشریک ہوتے۔محرم میں ہندوامام حسین کاماتم کرتے اورتعزیئے رکھتے۔منتیں مانتے۔ ہولی اوردیوالی کے تیوہاروں پر مسلمانوں کے گھروں میں بھی قسم قسم کے پکوان بنتے۔ دیوالی کے چراغاں میں مسلمان بھی برابرکے شریک ہوتے۔عیدکے روزعیدگاہ کے باہر ہندوبھائی گلاب جل لیے کھڑے رہتے۔جیسے ہی مسلمان عیدکی نماز پڑھ کرعیدگاہ سے باہرنکلتے،اُن پرگلاب جل کاچھڑکاؤ کرتے ۔گلے ملتے۔مبارک سلامت کی صدائیں گونجتیں۔گزراہوازمانہ ہے خواب سازمانہ۔میری اِن بوڑھی آنکھوں نے اُن حسین منظروں کوبارباردیکھاہے۔اُن خوبصورت رنگین زمانوں کی یادیں آج خون کے آنسورلاتی ہیں۔کیسے بے ریااورمخلص لوگ تھے۔ایک دوسرے کے دکھ سُکھ میں برابرکے شریک۔! ہندوپڑوسی جنازہ کے ساتھ گورستان جاتے۔مسلم پڑوسی ارتھی کے ساتھ شمشان گھاٹ جاتے ۔ایک دیوارپرکئی کئی لوگ اپنی اپنی چھتیں ڈالتے اوردیوارکے مالک کوذراسابھی اعتراض نہ ہوتا۔ اُن میں ہندومسلم کی کوئی تفریق نہ ہوتی۔غریبی میں بڑی خوش حالیاں تھیں۔
 ٭٭

خواتین کی بے توقیریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

خواتین کی بے توقیری
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ  قاسمی  نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
ہندوستان میں خواتین کی بے توقیری کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں، بازار میں زدوکوب کرنا ، مادر زاد برہنہ کرکے سڑکوں پر گھمانا، ان کے سر کے بال مونڈدینا اورجنسی ہراسانی کے مختلف طریقے ان پر آزمانا عام سی بات ہے ، لیکن یہ بے توقیری اگر قانون کا سہارا لے کر کیا جائے اور انسانی حقوق کی پاسداری اور تحفظ کرنے والی ایجنسیوں کے ذریعہ سامنے آئے تو یہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہوجاتا ہے۔
 بہت سارے معاملات میں پولیس خواتین کی بکارت کا ٹسٹ (Virginity Test)کراتی رہی ہے ، ظاہرہے یہ عورت کی انتہائی بے توقیری اور اسے نفسیاتی طور پر ذلیل کرنے کا ایک طریقہ ہے ، آبروریزی کے مقدمات میں عام طور پر خواتین کو اس مرحلے سے گذارا جاتا ہے ، کم عمری کی شادی میں بلوغیت کی جانچ کے لیے بھی خواتین پر اس طریقہ کار کو آزمایا جاتا ہے۔
 معاملہ یکم مئی 2010کا ہے ، جنوبی دیناج پور کے بالور گھاٹ ضلع میں ربی رائے نام کے ایک شخص نے ایک نابالغہ لڑکی کی عصمت دری کی کوشش کی ، عدالت کے حکم پر نا بالغہ کا میڈیکل ٹسٹ کرایا گیا، 2019میں مسٹر سیفی نے عدالت میں درخواست دی کہ اس کی مرضی کے بغیر سی بی آئی نے اس کی بکارت کا ٹسٹ کرایا۔
 کولکاتہ اور دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں اس قسم کی جانچ کو غیر آئینی اور متعلقہ ملزم کے وقار کے منافی قرار دیا ہے ، دہلی ہائی کورٹ جج جسٹس سوریہ کانتا شرما نے اپنے فیصلہ میں کہا بکارت (کنوارپن) کا ٹسٹ قانون کی وفعہ 21کے خلاف ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی۔
 عدالت کا یہ فیصلہ خواتین کی بے توقیری کو روکنے میں نظیر بنے گا، اس فیصلہ کے بین السطور سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کے ذریعہ یہ کام غیر قانونی ہوگا، البتہ عدالت اس کی ضرورت محسوس کرے تو وہ ایسا کراسکتی ہے ، اس طرح عدالت نے پولیس کے ذریعہ کرائی جانے والی جانچ کو غیر قانونی اور عصمت دری کے مترادف ٹھہرایا ہے ، چوں کہ بے راہ رویاں زیادہ وہیں ہوتی ہیں، عدالت کے ذریعہ کیا جانے والا ٹسٹ انتہائی ضرورت کے وقت ہی ہوگا، اس لیے اس پر نکیر نہیں کی جا سکتی۔

اتوار, مئی 07, 2023

رومان اشرف کی کامیابیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

رومان اشرف کی کامیابی
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
امسال میٹرک کے نتیجہ ٔ امتحان میں اسلامیہ ہائی اسکول شیخ پورہ کے رومان اشرف نے پورے بہار میں ٹاپ کرکے ایک تاریخ رقم کی ہے ، اس نے پانچ سو نمبر میں سے چار سو نواسی (489) 8ء 98فی صد نمبرات حاصل کرکے سولہ لاکھ تیس ہزار چار سو چودہ شرکاء امتحان کو پیچھے چھوڑ دیا، اور اپنی بر تری اور سر فہرست ہونے کا جھنڈا گاڑ دیا، اس نے لڑکیوں کے سبقت لے جانے کی قدیم روایت کو بھی توڑ کر رکھ دیا اور ثابت کیا کہ لڑکے بھی پڑھنے میں دل لگاتے ہیں ، رومان ایک چھوٹے ضلع شیخ پورہ کے رہنے والے ہیں، لیکن ان کی سخت محنت اور آگے بڑھنے کے پختہ ارادے نے انہیں یہ دن دکھایا، ان کے گھر میں پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا وہ بھی ان کے جہد مسلسل میں معاون بنا، رومان اشرف کے والد ایک اسکول میں استاذ ہیں اور رومان نے اپنے والد کی نگرانی میں امتحان کی تیاری کی اور تمام لڑکوں کا وقار بلند کیا۔
 ٹاپ۱۰؍ میں ایک نام نہا پروین کا بھی ہے، اس کے والد شیخ خلیل درزی کا کام کرتے ہیں، نہا پروین نے پانچ سو میں چار سو تراسی (483)نمبر حاصل کیا ، وہ میرٹ لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہے، وہ ٹی ایل ایم بالیکا انٹر اسکول گوگری کھگڑیا کی طالبہ تھی، اس نے چوتھی پوزیشن حاصل کرکے ثابت کر دیا ہے کہ غربت آگے بڑھنے میں رکاوٹ نہیں ہے ، حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج کے دور میں اگر کوئی نہیں پڑھ رہا ہے ، تعلیم کے میدان میں آگے نہیں بڑھ رہا ہے تو یہ معاملہ بے کسی ، بے بسی کا نہیں، بے حسی کا ہے ، نہا پروین نے بڑی کامیابی حاصل کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اور ان کے والد غریب ضرور ہیں، لیکن بے حس نہیں ہیں، رومان اشرف اور نہا پروین کویہ کامیابی مبارک ہو، امید کی جاتی ہے کہ اس کامیابی سے دوسرے لڑکے لڑکیوں کو بھی حوصلہ ملے گا اور وہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ کر بڑا نام کما سکیں گے۔
 امسال بہار بورڈ کے امتحان میں 4ء 81فی صد طلبہ وطالبات نے کامیابی حاصل کی جو گذشتہ سال کی بہ نسبت بہتر ہے، چار لاکھ چوہتر ہزار چھ سو پندرہ فرسٹ ڈویزن، پانچ لاکھ گیارہ ہزار چھ سو تینتیس سکنڈ ڈویزن اور دو لاکھ ننانوے ہزار پانچ سو اٹھارہ نے تھرڈ ڈویزن سے کامیابی حاصل کی ، جموئی ضلع نے اپنا جلوہ حسب سابق بر قرار رکھا ہے ، سر فہرست دس میں بارہ اضلاع کے طلبہ وطالبات نے جگہ بنائی ہے، جس میں تینتیس لڑکیاں ہیں، دوسرے نمبر پر نمرتا اور گیانی انوپما ہیں، ان دونوں نے برا بر 486یعنی ۷ء ۹۷ فی صد نمبرات حاصل کیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...