Powered By Blogger

منگل, مئی 23, 2023

بدلتے ہندوستان میں ہماری ذمہ داریاں _____✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

بدلتے ہندوستان میں ہماری ذمہ داریاں _____
Urduduniyanwes72
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ(9431003131)
ہمارا ملک اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گذر رہا ہے، دن بدن حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں، گائے کے تحفظ کے نام پر لوگوں کو مارا جا رہا ہے، گائے کے علاوہ دوسرے جانوروں کے گوشت کھانے پر بھی آپ کی جان جا سکتی ہے، جب تک جانچ رپورٹ آئے گی ، اس نام پر آپ کا قتل ہو چکا ہوگا۔ داڑھی ٹوپی اور شعائر اسلام کو اپنا نے والوں کو راستہ چلتے طنز کے ساتھ بھدی بھدی گالیاں سننی پڑتی ہیں، راستہ گذرتے ہوئے آپ کو چڑھا نے کے لیے ’’بھارت ماتا کی جَے‘‘ کی آواز زور سے لگائی جاتی ہے، خواتین کی عزت وناموس سر عام لوٹی جا رہی ہے، کسانوں کی حالت درد ناک ہے، وہ خود کشی پر مجبور ہو رہے ہیں، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ نے چھوٹے کاروباریوں پر زندگی تنگ کر دی ہے اور کاروبار مندی کے دور سے گذر رہا ہے، کچے چمڑے لاتے لے جاتے لوگ ڈر رہے ہیں، جس کی وجہ سے بیشتر ٹینریاں بند ہو گیی ہیں، لاکھوں روپے کے چمڑے بْلو کر کے گوداموں میں پڑے پڑے برباد ہو گیے، ان کا خریدار کوئی نہیں ہے، ٹکسٹائل ورکروں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔دلت ہندوؤں کی حالت انتہائی خستہ ہے اور وہ تحریک کی راہ پر چل پڑے ہیں، ملک کی سرحدیں غیر محفوظ ہیں، ہمارے جوان مر رہے ہیں، نکسل وادیوں کے زور میں کمی نہیں آرہی ہے، بھوٹان سے متصل سرحد پر چینی افواج ہمیں آنکھیں دکھا رہی ہیں اور دھمکیاں مل رہی ہے ، فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ لَو جہاد ، گھر واپسی جیسے غیر ضروری اور غیر حقیقی نعروں سے مسلمان کو پریشان ، ہراساں اور خوف زدہ کرنے میں لگے ہیں،وزیر اعظم من کی بات کے علاوہ دیگر موضوعات پر خاموش ہی رہتے ہیں اور من کی بات میں وہ ملک کو فرقہ واریت کی راہ پر لے جانے اور ایک خاص فرقہ کو نشانہ بنانے کے موضوع پر گفتگو سے گریز کرتے ہیں۔کیونکہ انہیں آر ایس ایس اور ان کی ذیلی تنظیموں نیز حلیف جماعتوں کی خفگی سے ڈر لگتا ہے   بھولے سے کبھی دبے لفظوں میں کچھ کہا تو اس کا کوئی بھی اثر فرقہ پرستوں پر نہیں ہوتا کیوں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ وزیر اعظیم کا کام ’’نندا‘‘ کرنا نہیں، قانون کے نفاذ کو یقینی بنانا ہے، اسی لیے ایک لیڈر نے یہاں تک کہہ دیا کہ’’ تم مارتے رہے ہم نندا کرتے رہیں گے‘‘، مذہبی اسفار بھی محفوظ نہیں ہیں، امرناتھ یاتریوں پر حملہ تو حال کی بات ہے، سات مرے، لیکن اگر سلیم نے مستعدی نہیں دکھائی ہوتی تو پینتالیس جانیں اور بھی جاتیں۔
 ایک صاحب نے بہت صحیح تبصرہ کیا کہ ایک سلیم نے پینتالیس کو بچا لیا اور پوری ٹرین کے مسافر مل کر ایک جنید کو نہیں بچا سکے، اس واقعہ سے مسلمان کس قدر اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ہے اس کا اندازہ ہوتا ہے، سلیم ایک علامت بن گیا ہے، صحیح یہ ہے کہ مسلمان آخری حد تک ذمہ داری نبھاتا ہے، وہ ’’روم‘‘ جل رہا ہو تو’’ نیرو‘‘ کی طرح بانسری بجانے میں مگن نہیں ہوتا، وہ آخری وقت تک مورچہ سنبھالے رہتا ہے اور جب موت آتی ہے تو دنیا جانتی ہے کہ وہ آخری وقت اور آخری سانس تک ملک کا وفادار رہتا ہے۔
ان حالات میں ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں، ملک سے محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم اس ملک کی سالمیت، قانون کے تحفظ اور اس کے نفاذ کے لیے ہر سطح پر کوشاں ہوں، ملک محفوظ اسی وقت رہے گا جب قانون کی بالا دستی ہوگی ، اور عدلیہ کا کام غنڈوں اور مافیائوں سے لینا بند کر دیا جائے گا اورکسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے گی، ، ان سے سختی سے نمٹا جائے، یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے، عوام تو صرف ان کاموں میں مدد دے سکتی ہے، اور قانون توڑنے والوں کے خلاف ان اداروں کی مدد کر سکتی ہے جن کا کام لا اینڈ آرڈر کا تحفظ ہے۔
ہماری کا مطلب صرف مسلمان نہیں اس ملک کے سارے باشندے ہیں اور اس میں ذات برادری، علاقہ، زبان مسلک ومشرب کی قید نہیں ہے ، دوسری طرف ہر مذہب کے لوگ بھی جو اس ملک میں رہتے ہیں ، یہاں کے شہری ہیں، ان سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے آگے آئیں،ض
 ہمارا ماننا ہے کہ اس ملک میں سیکولرزم اور جمہوریت کی جڑ یں بہت مضبوط ہیں، بی جے پی کے دور حکومت میں اسے کمزور کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے، بحالیوں میں بھی آر ایس ایس سے وفاداری کو ملحوظ رکھا جا رہا ہے اور ہندوستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ ملک کے تین اعلیٰ عہدے پر صدر ،نائب صدر اور وزیر اعظم آر ایس ایس کے پر وردہ اور نمک خوار فائز ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں، اس کے با وجود یہاں کی اکثریت گنگا جمنی تہذیب کی عادی ہے، ایک بڑا گروپ وہ ہے جسے ہم سائلنٹ گروپ کہہ سکتے ہیں،ا س سائلنٹ گروپ کو جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے آگے لانے کی ضرورت ہے،دلتوں، آدی باسیوں اور اقلیتوں کا اتحاد بھی ان حالات کو بدلنے میں معاون ہو سکتا ہے، یہ ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے، اقتدار اعلیٰ چونکہ فرقہ پرستوں کے ہاتھ میں ہے اس لیے یہ کام ذرا مشکل ہے، لیکن ہم اسے ناممکن نہیں کہہ سکتے۔
 اس ملک میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہے ،ملک سے محبت ، وفاداری کا تقاضہ ہے کہ ان حالات کو بدلنے کے لئے وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں کیوں کہ مسلمان ہی وہ امت ہے جس کے پاس بڑا ذخیرہ  اعلیٰ اخلاقی اقدار کا ہے، اسے خیر کے کاموں میں تعاون کا حکم دیاگیا ہے اور گناہوں کے کاموں سے بچنے کی بات کہی گئی ہے، یہ بھلائی کا حکم دیتی ہے اور بْرائی سے روکنے کا کام کرتی ہے، اسی لیے یہ خیر امت ہے، وقت آگیا ہے کہ حالات کو بدلنے کے لیے ہم اپنی جد وجہد کا آغاز کریں۔
 اس کے لیے سب سے پہلا کام انابت الی اللہ ہے، اللہ کی طرف رجوع کرنا ، اس کے سامنے گڑ گڑا کر حالات بدلنے کے لیے دعا کرنا ، اس لیے کہ اصل قوت وطاقت کا مرکز ومحور اللہ رب العزت کی ذات ہے وہ چاہے تو پل میں سب کچھ ٹھیک کردے؛کیوں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، لیکن ہماری بد اعمالی اور بے عملی نصرت خداوندی کے دروازے پر رکاوٹ بن گئی ہے، ہم اپنے اعمال کی اصلاح کریں، اللہ کا خوف ہمارے دل میں ہو اور ہماری تمام حرکات وسکنات احکام الٰہی اور ہدایت نبوی کے تابع ہو تو اللہ کی مدد آئے گی اور حالات کا رخ بدلے گا، لیکن اس کے لیے اپنا محاسبہ اور اپنے اعمال کا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ 
 دوسرا کام کرنے کا یہ ہے کہ غیر ضروری جوش سے گریز کیا جائے، فیصلے جوش کے بجائے ہوش اور اقدام جذباتیت کے بجائے عقلیت سے کیاجائے ، غیر ضروری جوش سے ملت کو نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے، اس لیے ہر حال میں تحمل وبرداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور آخری حد تک کوشش کرنی چاہیے کہ ناگوار واقعات سامنے نہ آئیں، ٹالرنس کا ماحول بنانے سے یہ کام آسان ہوگا۔
 تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ ٹالنے کی ساری کوشش ناکام ہوجائے تو اقدام کے طور پر نہیں اپنی دفاع اور جان ومال، عزت وآبرو کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے، یہ ہمارا دستوری اور قانونی حق ہے، اس سلسلے میں ’’وھن‘‘ یعنی دنیا کی محبت اور موت کے خوف سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ جد وجہد اتنی مضبوط ہو کہ فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں کو منہہ کی کھانی پڑے، وہ جان لیں کہ ہم گاجر ، مولی نہیں ہیں، ایک موقع سے حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ فسادات اسی شکل میں رک سکتے ہیں، جب مارنے والے کو یقین ہو کہ ہمیں بھی مارا جا سکتا ہے۔(لہو پکارے گا آستین کا )
ٹیپو سلطان شہید نے کہا تھا ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘، صبر اور بر داشت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی زندگی کی بقا کے لیے کوشش نہ کی جائے اور خوف ایسا مسلط ہوکہ ہم ہاتھ پاؤں تو کیا زبان بھی نہ ہلا سکیں، ملک کے سابق صدر اے پی جے عبد الکلام نے ایک بار کہا تھا کہ’’ طاقت وقوت کے ساتھ بر داشت کام کی حکمت عملی اور بے سر وسامانی اور کمزوری کے ساتھ بر داشت کا مطلب مجبوری ہے‘‘۔
چوتھا کام یہ کرنا چاہیے کہ اسلام کی صحیح اور سچی تعلیمات لوگوں تک پہونچائی جائے، غلط فہمیاں جو پھیلا ی جا رہی ہیں اس کودور کرنے کے لیے عملی اقدام کیے جائیں، واقعہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہم مجرمانہ غفلت کے شکار ہیں، دعوت دین کے کام کو اس پیمانے پر ہم نے کیا ہی نہیں،جس قدر اس کی ضرورت تھی، دعوت کا یہ کام ہمیں زبان وقلم سے بھی کرنا چاہیے اور عمل سے بھی، اسلام کی خوبیاں کتابوں سے کم اور عمل سے زیادہ سمجھ میں آتی ہیں، تھیوری جاننا ضروری ہے، لیکن جب تک وہ پریکٹیکل کے مرحلہ سے نہیں گذرے گا اس کی افادیت سامنے نہیں آسکتی رابندر ناتھ ٹیگور نے ایک موقع سے کہا تھا اسلام کی تر ویج واشاعت میں خود مسلمان رکاوٹ ہیں۔ اس لیے کے ان کاعمل اسلام کا اشتہار نہیں بن پا رہاہے۔ 
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے عمل سے اسلام کی حقانیت وصداقت واضح کریں، ہمیں شکوہ ہے کہ عوامی نمائندہ اداروں میں ہم تعداد میں بہت کم ہیں، اس لیے ہماری آواز نہیں سنی جاتی ، لیکن جہاں ہماری آواز کا سنا جانا یقینی ہے، اور جہاں جانے سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا ، وہاں ہماری نمائندگی کتنے فی صد ہے، ذہن نہیں منتقل ہوا ہو تو میں بتاتاچلوں کہ مساجد کی پنج وقتہ نمازوں میں ہماری تعداد کتنی ہے، یہ وہ در ہے جہاں سب بات سنی جاتی ہے، اور سب کی سنی جاتی ہے، لیکن اللہ کے دربار میں جانے اور اس سے اپنی مرادیں مانگنے ، اپنی تکالیف کو دور کرنے کے لیے درخواست کرنے سے ہم کس قدر گریزاں ہیں، یہی وہ در ہے جہاں آبرو نہیں جاتی اور جہاں مانگنا ذلت نہیں، عبادت ہے ، کاش مسلمان اس بات کو سمجھ لیتے۔
ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کے مقابلے ہم شیشہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں، ذات پات، مسلک ومشرب اور دوسرے فروعی مسائل میں الجھ کر ہم منتشر ہو گیے ہیں،ا س انتشار نے ہمیں انتہائی کمزور کر دیا ہے، اس خول سے باہر آکر کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کو فروغ دینا چاہیے، اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ، کفر والحاد کے تیر چلانے سے گریز کرنا چاہیے، بعض فرقے واضح طور پر اسلام سے الگ ہیں، جیسے قادیانی، اس سے ہمارا اختلاف اساسی اور ختم نبوت کے اسلامی عقیدہ پر مبنی ہے، لیکن جن فرقوں سے اختلافات فروعی ہیں، ان سے چھیڑ چھاڑ اور ان کے خلاف آواز بلند کرنا جس سے فرقہ بندی کو فروغ ہو ، اسلام کے شایان شان نہیں، اللہ رب العزت نے جس اسلام کو اپنا دین قرار دیا ہے، وہ صرف اور صرف اسلام ہے ، اسکے آگے پیچھے کوئی مضاف، مضاف الیہ نہیں ہے۔

پیر, مئی 22, 2023

حج وعمرہ کے فضائل و اصلاحات

حج وعمرہ کے فضائل و اصلاحات 
اردودنیانیوز۷۲
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

حج اسلام کا چوتھا رکن ہے اور ہر صاحب استطاعت پر حج فرض ہے یہ کوئی ایسی اختیاری عبادت نہیں ہے کہ جو چاہے  کرلے اور جو چاہے نہ کرے بلکہ جو شخص سفر اور رہائش وغیرہ کے اخراجات برداشت کر سکتا ہو اس پر حج کرنا لازم ہے اسلام کی تکمیل کا اعلان حجۃ الوداع کے موقع پر ہوا اور حج ہی سے ارکان اسلام کی تکمیل ہوتی ہے احادیثِ مبارکہ میں حج وعمرہ کے فضائل بہت کثرت سے ارشاد فرمائے گئے ہیں 
جب خانۂ خدا وند ی جلیل القدر پیغمبر ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے ہاتھوں بن کر تیار ہوگیا تو خلیل خدا کو حکم ہوا (  اذن فی الناس بالحج )  لوگوں میں حج کی منادی کردو آپ نے عرض کی کہ خدایا یہاں ہے کون میں کسے پکاروں کون میری آواز سنے گا جناب باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تم پکارو میں تمہاری آواز زمین و آسمان تک پہنچا دوں گا چنانچہ آپ نے مقام ابراہیم پر چڑھ کر آواز دی ۔ لوگو تمہارے رب نے ایک گھر بنایا اور تم پر اس کا حج فرض کیا تم اپنے رب کی دعوت قبول کرو ۔ تمام درخت اور پتھر نزدیک دور کی کل چیزیں اور جن جن کی قسمت میں حج لکھا ہوا تھا وہ سب اور تمام تر و خشک چیز یں جو اب میں پکار اٹھیں ( لبیک اللہم لبیک )
فضائل حج کے متعلق نبی کریم ﷺ کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں ۔
(1)  جس شخص نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حج کیا پھر اس میں نہ کوئی فحش بات کی اور نہ نافرمانی کی وہ ایسا پاک صاف ہو کر آتا ہے جیسا ولادت کے دن تھا
(2) نبی کریم ﷺ  سے دریافت کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کونسا ہے فرمایا اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان لانا ۔ عرض کیا گیا اس کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔  عرض کیا گیا اس کے بعد فرمایا حج مبرور
(3) ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیانی عرصے کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتی
(4) پے در پے حج و عمرے کیا کرو کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں سے اس طرح صاف کر دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کو صاف 
کر دیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب صرف جنت ہے ۔
حج عشقِ الہی کا مظہر ہے اور بیت اللہ شریف مرکز تجلیاتِ الہی ہے اس لیے بیت اللہ شریف کی زیارت اور حضور ﷺ  کی بارگاہِ عالی میں حاضری ہر مومن کی جان تمنا ہے اگر کسی کے دل میں یہ آرزو چٹکیاں نہیں لیتی تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے ایمان کی جڑیں خشک ہیں 
(5) جو شخص بیت اللہ تک پہنچنے کے لئے زاد و راحلہ رکھتا تھا اس کے باوجود اس نے حج نہیں کیا تو اس کے حق میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی یا نصرانی ہوکر مرے ۔ 

حج و عمرہ کی اصلاحات
استلام  :  حجر اسود کو بوسہ دینا اور ہاتھ سے چھونا یا حجر اسود اور رکن یمانی کو صرف ہاتھ لگانا ۔
اضطباع  : احرام کی چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا ۔ 
آفاقی  : وہ شخص جو میقات کی حدود سے باہر رہتا ہو جیسے ہندوستانی، پاکستانی، مصری، شامی،  عراقی، اور ایرانی وغیرہ ۔ 
ایام تشریق  : ذوالحجہ کی گیارہویں،  بارہویں،  اور تیرہویں تاریخیں ایام تشریق کہلاتی ہیں کیوں کہ ان میں بھی ( نویں اور دسویں ذوالحجہ کی طرح )  ہر نماز فرض کے بعد تکبیر تشریق پڑھی جاتی ہے ۔ یعنی : اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد ۔
ایام نحر  : دس ذی الحجہ سے بارہویں تک ۔
افرا  : صرف حج کا احرام باندھنا اور صرف حج کے افعال کرنا ۔
تسبیح  : سبحان اللہ کہنا ۔
تمتع  : حج کے مہینوں میں پہلے عمرہ کرنا پھر اسی سال میں حج کا احرام باندھ کر حج کرنا ۔
تلبیہ  :  لبیک اللہم لبیک ، لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک پڑھنا ۔
تہلیل  : لا الہ الااللہ پڑھنا ۔
جمرات یا جمار  : منی میں تین مقام ہیں جن پر قدآدم ستون بنے ہوئے ہیں یہاں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں ان میں سے جو مسجدِ خفیف کے قریب مشرق کی طرف ہے اس کو ( جمرۃ الاولی)  کہتے ہیں اور اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف بیچ والے کو ( جمرۃ الوسطی)  اور اس کے بعد والے کو (  جمرۃ الکبریٰ ،  اور جمرۃ العقبہ،  اور جمرۃ الاخری )  کہتے ہیں
رمل  : طواف کے پہلے تین چکروں میں اکڑ کر شانہ ہلاتے ہوئے قریب قریب قدم رکھ کر ذرا تیزی سے چلنا  ۔
رمی  : کنکریاں پھینکنا ۔
زم زم  : مسجد حرام میں بیت اللہ کے قریب ایک مشہور چشمہ ہے جو اب کنویں کی شکل میں ہے جس کو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اپنے نبی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کے لیے جاری کیا تھا ۔
سعی  : صفا اور مروہ کے درمیان مخصوص طریق سے سات چکر لگانا ۔
شوط  : ایک چکر بیت اللہ کے چاروں طرف لگانا ۔
صفا  : بیت اللہ کے قریب جنوبی طرف ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس سے سعی شروع کی جاتی ہے ۔
طواف  : بیت اللہ کے چاروں طرف سات چکر مخصوص طریق سے لگانا ۔
عمرہ  : حل یا میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرنا ۔
عرفات یا عرفہ  : مکہ مکرمہ سے تقریباً 9 میل مشرق کی طرف ایک میدان ہے جہاں پر حاجی لوگ نویں ذی الحجہ کو ٹھہرتے ہیں ۔
قران  : حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھ کر پہلے عمرہ کرنا پھر حج کرنا ۔
قارن  : قران کرنے والا ۔
قرن  : مکہ مکرمہ سے تقریبا 42 میل پر ایک پہاڑ ہے نجد،  یمن اور نجد حجاز اور نجد تہامہ سے آنے والوں کی میقات ہے ۔
قصر  :  بال کتروانا ۔
محرم  : احرام باندھنے والا ۔
مفرد  : حج کرنے والا جس نے میقات سے اکیلے حج کا احرام باندھا ہو ۔
میقات  : وہ مقام جہاں سے مکہ مکرمہ جانے والے کے لئے احرام باندھنا واجب ہے ۔
جحفہ  : را بغ کے قریب مکہ مکرمہ سے تین منزل پر ایک مقام ہے شام سے آنے والوں کی میقات ہے ۔
جنت المعلیٰ  : مکہ مکرمہ کا قبرستان ۔
جبل رحمت  : عرفات میں ایک پہاڑ ہے ۔
حجر اسود  : سیاہ پتھر ، یہ جنت کا پتھر ہے جنت سے آنے کے وقت دودھ کی مانند سفید تھا لیکن بنی آدم کے گناہوں نے اس کو سیاہ کردیا یہ بیت اللہ کے مشرقی جنوبی گوشے میں قد آدم کے قریب اونچائی پر بیت اللہ کی دیوار میں گڑا ہوا ہے اور اس کے چاروں طرف چاندی کا حلقہ چڑھا ہوا ہے ۔
حرم  : مکہ مکرمہ کے چاروں طرف کچھ دور تک زمین ( حرم)  کہلاتی ہے اس کی حدود پر نشانات لگے ہوئے ہیں اس میں شکار کھیلنا درخت کاٹنا گھاس جانور کو چرانا حرام ہے ۔
حل  : حرم کے چاروں طرف میقات تک جو زمین ہے اس کو ( حل)  کہتے ہیں کیونکہ اس میں وہ چیزیں حلال ہیں جو حرم کے اندر حرام تھیں ۔
حلق  : سر کے بال منڈوانا ۔
حطیم  : بیت اللہ کی شمالی جانب بیت اللہ سے متصل قد آدم دیوار سے کچھ حصہ زمین کا گھرا ہوا ہے اس کو ( حطیم) اور ( حظیرہ) بھی کہتے ہیں
دم  : احرام کی حالت میں بعضے ممنوع ا فعال کرنے سے بکری وغیرہ ذبح کرنی واجب ہوتی ہے اس کو ( دم) کہتے ہیں ۔
ذوالحلیفہ  : یہ ایک جگہ کا نام ہے مدینہ منورہ سے تقریبا 6 میل پر واقع ہے مدینہ منورہ کی طرف سے مکہ مکرمہ آنے والوں کے لیے میقات ہے اسے آج کل (بیر علی) کہتے ہیں ۔
ذات عرق  :  ایک مقام کا نام ہے جو آجکل ویران ہوگیا مکہ مکرمہ سے تقریبا تین روز کی مسافت پر ہے عراق سے مکہ مکرمہ آنے والوں کی میقات ہے۔
رکنِ یمانی  : بیت اللہ کے جنوب مغربی گوشے کو کہتے ہیں چونکہ یہ یمن کی جانب ہے۔
مطاف  : طواف کرنے کی جگہ جو بیت اللہ کے چاروں طرف ہے اور اس میں سنگ مر مر لگا ہوا ہے ۔
مقام ابراہیم  : جتنی پتھر ہے،  حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر کھڑے ہو کر بیت اللہ کو بنایا تھا مطاف کے مشرقی کنارے پر منبر اور زمزم کے درمیان ایک جالی دار قبے بنا ہوا ہے ۔
ملتزم  : حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان کی دیوار جس پر لپٹ کر دعا مانگنا مسنون ہے ۔
مسجدِ خفیف  : منی کی بڑی مسجد کا نام ہے جو منی کی شمالی جانب میں پہاڑ سے متصل ہے ۔
مسجدِ نمرہ  : عرفات کے کنارے پر ایک مسجد ہے ۔
مدعی  : دعا مانگنے کی جگہ مراد اس سے مسجد حرام اور مکہ مکرمہ کے قبرستان کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں دعا مانگنی مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے وقت مستحب ہے ۔
مزدلفہ  : منی اور عرفات کے درمیان ایک میدان ہے جو منی سے تین میل مشرق کی طرف ہے ۔
محسر  : مزدلفہ سے ملا ہوا ایک میدان ہے جہاں سے گزرتے ہوئے دوڑ کر نکلتے ہیں اس جگہ اصحاب فیل پر جنہوں نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تھی عذاب نازل ہوا تھا ۔
مروہ  : بیت اللہ کے شرقی شمالی گوشے کے قریب ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس پر سعی ختم ہوتی ہے ۔
میلین اخضرین  : صفا اور مروہ کے درمیان مسجد حرام کی دیوار میں دو سبز میل میں لگے ہوئے ہیں جن کے درمیان سعی کرنے والے دوڑ کر چلتے ہیں ۔
موقف  : ٹھہرنے کی جگہ حج کے افعال میں اس سے مراد میدان عرفات یا مزدلفہ میں ٹھہرنے کی جگہ ہوتی ہے۔
میقاتی  : میقات کا رہنے والا ۔
وقوف  : کے معنی ٹھرنا اور احکام حج میں اس سے مراد میدان عرفات یا مزدلفہ میں خاص وقت میں ٹھہرنا ۔
ہدی  : جو جانور حاجی حرم میں قربانی کرنے کو ساتھ لے جاتا ہے ۔
یوم عرفہ  : نویں ذی الحجہ جس روز حج ہوتا ہے اور حاجی لوگ عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔
یلملم  : مکہ مکرمہ سے جنوب کی طرف دو منزل پر ایک پہاڑ ہے اس کو آجکل ( سعدیہ) بھی کہتے ہیں یہ یمن،  ہندوستان،  اور پاکستان سے آنے والوں کی میقات ہے

تصوف عہد بعہد ایک مطالعہ مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی پٹنہ

تصوف عہد بعہد ایک مطالعہ 
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی پٹنہ 
موبائل نمبر 7909098319 
اردودنیانیوز۷۲ 
نام کتاب             تصوف عہد بعد
مؤلف /مصنف        ڈاکٹر سید شاہ حسین احمد
سن اشاعت            فروری 2021
بہ اہتمام               نظیر احمد خان ارزاں شاہی
کمپوزنگ                یونائٹیڈ ڈی ٹی پی ہاؤس ١/٤٧،سر سید احمد روڈ کلکتہ ۔١٤
کمپوزر.                  فضیل احمد
قیمت                 20/روپے
ناشر.                  دارالاشاعت درگاہ حضرت دیوان شاہ ارزانی، پٹنہ

"تصوف عہد بعہد" یہ ڈاکٹر سید شاہ حسین احمد صاحب کے ایک اہم اور نایاب خطبہ پر مشتمل تصنیف ہے، جسے آپ نے عالی جناب ڈاکٹر عابد رضا بیدار صاحب کی فرمائش پر اورینٹل لائبریرین شپ ورکشاپ کے تحت "تحریک تصوف" کے موضوع پر توسیعی خطبات کے سلسلے میں 18/جنوری 1990 کو مدعو سامعین کے رو برو خدا بخش لائبریری پٹنہ میں دیا تھا، اس خطبہ پر علماء، ادباء، صوفیا اور دانشوروں نے بہت سے اعتراضات و سوالات بھی اٹھائے تھے جس کا موصوف محترم نے مکمل، مدلل، اور مفصل و تشفی بخش جواب دیا تھا ۔
اس کتاب کی شروعات میں مصنف محترم نے عرض ناشر میں اس خطبہ کی مکمل تاریخ و وجہ تالیف بیان کردی ہے ۔

اللہ رب العزت نے انسانوں کی تخلیقات اپنی عبادت وریاضت اور بندگی کے لئے فرمائ ہے، اور انسانوں کے مزاج اور اس کی ضروریات کے مطابق اس دنیا کو پیدا فرمایا ہے، تاکہ انسانوں کی تمام تر ضروریات پوری ہوسکے، عبادت وریاضت اور بندگی نام ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا، اللہ رب العزت نے ایمان وکفر کے راستے پر چلنے کا اختیار انسانوں کو عطا فرمایا ہے، لیکن ساتھ ساتھ ایمان کی حلاوت وچاشنی، انعامات واکرامات کی مکمل وضاحت کے ساتھ یہ وعدہ فرمایا کہ,,اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتۡ لَہُمۡ جَنّٰتُ الۡفِرۡدَوۡسِ نُزُلًا ﴿۱۰۷﴾ۙ،،جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے تو یقیناً ان کے لئے فردوس کے باغات کی مہمانی ہے ۔(سورہ کہف آیت نمبر ١٠٧)
اسی طرح کفر وشرک کی مذمت کرتے ہوئے کافرین کے لئے دردناک عذاب اور ابدی جہنم کا وعید سنائی ہے۔ ارشاد باری ہے۔ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَلٰسِلَاۡ وَ اَغْلٰلًا وَّ سَعِیْرًا
ترجمہ:-  
بے شک ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں، طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ 
(سورہ دہر آیت ٤)

اللہ رب العزت نے یقیناً انسانوں کو ایمان وکفر کے راستے کے انتخاب کا اختیار دے رکھا ہے، لیکن ہم دلائل کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کفر کے راستے پر چلنے میں صرف ناکامی وتباہی اور بربادی ہے، جبکہ ایمان کی راہ میں قلبی سکون کے ساتھ ساتھ ابدی عیش وعشرت کی زندگی ہے ۔
اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہماری دنیا وآخرت دونوں کامیاب ہو جائے، آخرت کی کامیابی کا دارومدار دنیا کی کامیابی پر ہے، اللہ رب العزت نے انسانوں کو دعائیں مانگنے کا حکم دیا ہے کہ تم دنیا میں بھی بھلائی طلب کرو اور آخرت کی بھلائی کا بھی تمہیں خوب خوب خیال رہے کیوں کہ مومن کے لیے اصل زندگی وہی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے، 

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
ترجمہ  اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 202)

ان باتوں کو سمجھنے اور نتیجہ اخذ کرنے کا تصوف  ایک اہم وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔
کیونکہ تصوف نام ہے قرب الہی کا، انسانوں کا جب اللہ سے تعلق پیدا ہوگا تو لا محالہ ہرعمل میں اخلاص پیدا ہوگا،  خشیت الٰہی سے دل معمور ہوگا، اخلاق رذیلہ کے بجائے اخلاق حسنہ والی صفت آئے گی ، اپنی عبادات کو، اخلاقیات اور معاملات کو شریعت کے مطابق کرنے کی سعی کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوں گے۔ یہی دراصل تصوف کا تقاضہ ہے، یہی شریعت مطہرہ ہے ۔ تصوف کا دوسرا نام طریقت ہے۔
اس مختصر سی تحریرو خطبات میں مصنف محترم نے انہیں باتوں کو قرآن وأحاديث کے روشنی میں، اکابرین ملت کے واقعات کے ذریعہ مدلل ومفصل سمجھانے کی سعی کی ہے ۔
تصوف کیا ہے ؟
تصوف کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کیوں ہے؟
صوفیائے کرام کسے کہتے ہیں ؟ صوفیوں کے اوصاف کیا ہیں؟مشہور ومعروف صوفیائے کرام کون ہیں؟ ان کا عہد کیا تھا؟ ان کی تحریکات نے دنیا پر کیا اثر چھوڑا؟ ان کے پیغامات کن کے لئے ہیں؟ احکامات و پیغامات شرعیہ کو سمجھنے میں اور اس پر عمل پیرا ہونے میں اس سے کیا معاونت حاصل ہے؟ چند واقعات کے ذریعہ ان باتوں کو مصنف محترم نے واضح کیا ہے۔
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی نتائج اخذ ہورہے ہیں کہ احکام شرعیہ وادلۂ شرعیہ کو سمجھنے اور رب العزت سے روحانی رشتہ قائم کرنے رکھنے کے لئے تصوف جزو لازم کا درجہ رکھتا ہے ۔
کتاب میں بہت سہل الفاظ وعبارات کا استعمال ہے جسے ایک عام قاری بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے، مصنف محترم نے جن اسالیب کا استعمال کیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان پیغامات کو ہر خاص وعام تک پہنچانا چاہتے ہیں اور وہ اپنے مقصد میں بھر پور کامیاب وکامران نظر آتے ہیں ۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم تصوف کامطالعہ کریں، اسے سمجھنے کی کوشش کریں، ان اوصاف کو اپنے اندر لاکر قرب الہی وخشئیت الہی پیدا کرکے اپنی دنیا وآخرت دونوں کامیاب وکامران بنائیں،آپ اس کتاب سے استفادہ کریں، مصنف موصوف سے براہ راست ملاقات کر کے ان سے دعائیں لے سکتے ہیں، 
اللہ مصنف محترم کو اپنی شایان شان جزا وبدلہ عطا فرمائے آمین ۔

راقم الحروف ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

ارریہ جامع مسجد میں دعائیہ نشست 
اردودنیانیوز۷۲ 
مایہ ناز وکیل اور ماہر قانون جناب ظفر یاب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے مرکزی جامع مسجد ارریہ میں آج ایک دعائیہ نشست منعقد کی گئی، جناب مولانا آفتاب صاحب مظاہری امام وخطیب جامع مسجد ارریہ نے اسچموقع پراپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ؛ یوں تو مرحوم کے ہم پر بڑے احسانات ہیں،آپ نےملت اسلامیہ ہند کی بڑی خدمت اور نمائندگی کی ہے،میری نظر میں سب سے بڑی خدمت بابری مسجد مقدمہ ہے،جو قیامت تک کے لئےیاد رکھی جائے گی، مرحوم موصوف کا یہ وہ مخلصانہ کام ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے، انہوں نےاپنی پوری زندگی مسجد کےنام  وقف کردی،اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا، جس انہماک اورجس استقلال سے اس کیس میں اخیر تک لگے رہے،تگ ودو کرتے رہےاوراپنا قیمتی وقت کی قربان کرتے رہے،اس کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتا ہے، بابری مسجد کے حقیقی خادم اور نگراں ہونے کا مرحوم نے عملی ثبوت پیش کیا ہے،یہی وجہ ہےکہ جب اس مقدمہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا  تو سب سے زیادہ صدمہ بھی موصوف کو ہوا،اس کے بعد تو ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اندر سے ٹوٹ سے گئے ہیں، جبھی سے صحت بھی متاثر رہنےلگی،ابھی تقریبا دوسال پہلے ۲۰۲۱ء میں  مئی کا ہی  مہینہ تھا، جسمیں موصوف اسلامیہ اںٹر کالج کی سیڑھی سے گرگئے تھے، یادداشت بھی متاثر ہوگئی ،اور صحت پہلے جیسی نہیں رہی،پھر یہ دیکھئے کہ یہ مئی کا ہی مہینہ ہے،جسمیں اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں ، آج افسوس کہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، جبکہ ملک وملت کو آپ کی شدید ضرورت ہے، باری تعالٰی جنت الفردوس نصیب کرے اور درجات بلند فرمائے، آمین
جناب مولانا مصور عالم صاحب ندوی نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے اہم ذمہ دار اور خادم کی حیثیت سے مرحوم کی خدمات سے سامعین کو رو برو کرایا، اور مرحوم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سٹی سے قانون کی ڈگری ہی نہیں بلکہ گولڈ میڈل بھی حاصل کیا ہے، دراصل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی سےہی آپ ملی کاموں  میں حصہ لینے لگے۔ ۱۹۶۵ء میں یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو نشانہ بنایا گیا تو زبردست تحریک شروع ہوئی، مرحوم اس میں شانہ بشانہ ہی نہیں بلکہ پیش پیش رہے، بالآخر اندرا گاندھی حکومت کی حکومت نے ایکٹ میں ترمیم کرکے اس کی اقلیتی حیثیت بحال کردی،آج پھر مسلم یونیورسٹی پر بری نظر ہے،اخبارات کی خبریں تشویش میں مبتلا کررہی ہیں، دوسری طرف گیان واپی مسجد کا معاملہ کھڑا کیا گیا ہے، افسوس کہ ہمارے درمیان ایڈووکیٹ جناب ظفر یاب جیلانی نہیں ہیں، ہمیں اس وقت ان کی شدید ضرورت ہے، باری تعالٰی نعم البدل نصیب فرمائے، آمین 
جمعیت علماء ارریہ کے صدر جناب ڈاکٹر عابد صاحب نے بھی مجمع کے سامنے اپنے احساسات کو پیش کیا ،اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے مرحوم کی وفات کو بڑا خسارہ بتلایا ہے،اس نشست کی صدارت جناب الحاج سیدشمیم انور صاحب، صدر جامع مسجد ارریہ نے کی، اور دعا امام وخطیب جامع مسجد جناب مولانا آفتاب عالم صاحب مظاہری نے کرائی، باری تعالٰی شرف قبولیت سے نواز دے، اور دعائیہ مجلس میں شریک ہونے والے جملہ حاضرین کو بہترین صلہ نصیب فرمائے، آمین 

راقم الحروف 
ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
۲۱/مئی ۲۰۲۳ء بروز یکشنبہ

اتوار, مئی 21, 2023

آئندہ میقات کے لئے وفاق المدارس اسلامیہ کا انتخابی اجلاس بخیر وخوبی اختتام پذیر ۔

آئندہ میقات کے لئے وفاق المدارس اسلامیہ کا انتخابی اجلاس بخیر وخوبی اختتام پذیر ۔
اردودنیانیوز۷۲ 
( باتفاق رائےامیر شریعت صدر ،نائب امیر شریعت خازن اور مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ناظم اعلی منتخب)
بیگوسرائے 21 میی (پریس ریلیز) 
حضرت امیر شریعت ثامن مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ کی صدارت میں دارالعلوم سجاد نگر لڑوارہ  بیگ سرائے کے اندر آئندہ میقات کے لئے وفاق المدارس اسلامیہ امارت شرعیہ پٹنہ کا انتخابی اجلاس بخیر وخوبی اپنے اختتام کو پہنچا ۔آج یہاں باتفاق رائے حضرت امیر شریعت کو صدر نائب امیر شریعت کو خازن جب کہ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ کو وفاق کا ناظم اعلی منتخب کیا گیا ہے ۔
اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں حضرت امیر شریعت مدظلہ العالی نے فرمایا کہ ہمارے مدارس اسلامیہ میں اساتذہ ٹرینگ کا نظام نہیں ہے ،اس کی وجہ سے اساتذہ خاطر خواہ تعلیم دینے میں ناکام ہیں ،حروف تہجی بچوں کو پڑھا نا ہے ،مگر ٹرینگ کے بغیر یہ کام ناممکن ہے ،اساتذہ تربیت کے بغیر انہیں حروف تہجی کامیابی کے ساتھ نہیں پڑھاسکتے۔
انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ مدارس کو درجہ بندی کرنا بھی ضروری ہے تاکہ پرائمری ،میڈل اور ہائی سیکنڈری ایجوکیشن سسٹم میں پختگی پیدا ہوسکے۔مدارس کی درجہ بندی کے لئے ضروری ہے کہ مدارس کی کار پردگی کے پیش نظر ان کے لئے کٹیگریز کاتعین کیا جائے۔امیر شریعت نے یہ بھی فرمایا کہ مدارس میں اول نمبر پر عربی کی تعلیم کو رکھا جائے اس کے بغیر قرآن وحدیث  کو پوری طرح نہیں سمجھا جاسکتا اور دوسرے تیسرے نمبر پر دیگر عصری مضامین کو رکھاجائے تاکہ مضبوط سسٹم کے ساتھ مدارس اسلامیہ میں تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔
وہیں نائب امیر شریعت بہار اڑیسہ جھارکھنڈ حضرت مولانا شمشاد رحمانی  نے کہا کہ علاقائی سطح پر مدارس کے اندرونی نظام کو بہتر بنایا جائے ،کھان، پان ،رہائش اور عمارت کی صاف صفائی ودیگر سہولیات بچوں کو مہیا کرائی جائیں تاکہ مقامی بچوں کو باہر جانے سے روکنے میں مدد مل سکے ،انہوں نے کہا کہ مدرسوں میں اساتذہ کی تنخواہوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اساتذہ محنت سے تعلیم و تربیت کی خدمات انجام دے سکیں ۔
مفتی محمد خالد نیموی قاسمی نے اپنے بیان میں کہا کہ توکل علی اللہ اور رجوع الی اللہ کی صفات سے متصف ہوکر مدارس کے اندرونی نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔مفتی اختر اما عادل قاسمی نے کہا کہ علم کی راہ مشکلات سے بھری ہوئی ہے ،طلبہ کے لئے صبر اور انتظامیہ کی اطاعت ضروری ہے ۔قائم مقام ناظم  مولانا شبلی القاسمی نے کہا کہ مدارس میں بچے ہم کیوں دیں ،اس کی وجوہات ،نصاب ونظام تعلیم و تربیت جیسے عناصر پر ہمیں غور کرنا ہوگا ۔ مفتی سہراب ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ نے کہا مدارس کے اندرونی نظام کو پرکشش بنانے کے لئے کمزوریوں کو دور کرنا ضروری ہے ۔قاضی انظار عالم قاسمی نے کہا کہ مالی چندہ کے علاؤہ ہمیں بچے بھی چندہ کرنا چاہئے ،تبھی بچوں کے باہر جانے کا سلسلہ رک سکتا ہے۔قاضی عبد العظیم حیدری نے کہا کہ انتظامیہ کا قصور زیادہ ہے ،مفتی عین الحق امینی قاسمی نے اپنے مختصر خیالات کے اظہار کے دوران کہا کہ مدارس کو کٹیگریز میں لانے کی ضرورت ہے اس کے بغیر بہتر تعلیم پر قابو پانا مشکل ہے ۔
پہلی نشست کا آغاز مفتی نفیس احمد قاسمی اور قاری محمد اقبال کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا نعت نبی قاری محمد عارف نے پیش کی ،مشاہد کے طور پر قائم مقام ناظم  امارت شرعیہ مولانا شبلی القاسمی موجود رہے ،کلیدی خطاب ونظامت مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ناظم اعلی وفاق المدارس اسلامیہ کی رہی ۔
آج کے اس انتخابی اجلاس میں جن عہد ہ داران کا انتخاب عمل میں آیا وہ اس طرح ہیں ،صدر حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی۔خزانچی نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی ،نائبین صدر ، قاری شبیر احمد ،مفتی اختر امام عادل قاسمی ، ،مفتی محمد خالد نیموی قاسمی ،مولانا شبلی القاسمی ،قائم مقام ناظم امارت شرعیہ۔ناظم اعلی وفاق ،مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ،نائب ناظم امارت شرعیہ ،نائب ناظم ,مفتی وصی احمد قاسمی ،مفتی عین الحق امینی قاسمی،مولانا اقبال مغربی بنگال ،مفتی سعید الرحمان قاسمی ،قاضی انور حسین ۔معاون ناظم ،حضرت صدر محترم کے مشورے سے طئے کئے جائیں گے۔اسی طرح عاملہ کے نئے ممبران میں  قاضی شریعت قاضی انظار عالم قاسمی ،اور مفتی سہراب عالم ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ منتخب ہوئے ہیں۔ اس ۔موقع پر مدارس اسلامیہ کی اہمیت وافادیت ،مسائل وحل کے موضوع پر باضابطہ تجاویز بھی پاس ہوئیں سامعین کے درمیان پڑھ کر سنایا گیا ،جس کی بعد میں اشاعت کی جائے گی ۔
اخیر میں پروگرام کے داعی ودارالعلوم سجاد نگر لڑوارہ کے ناظم اعلی مولانا قاضی ارشد قاسمی صاحب نے اپنے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ضیافت کا بھر پور انتظام کیا ۔
پروگرام کو کامیاب بنانے والوں میں مولانا اشرف قاسمی ،نائب ناظم دارالعلوم سجاد نگر لڑوارہ ،انظامیہ کمیٹی واساتذہ دارالعلوم،مولانا مظہر قاسمی ،ایڈووکیٹ وصی الحق رحمانی ، مولانا افتخار وصی قاسمی ،مولانا فیروز عالم صدر مدرس ،حافظ سراج ،مفتی قمر صالح ،مولانا ظفر صالح وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں ۔

علم کی بنیاد پر انسان اشرف المخلوقات بنایا گیا: مولانا نیاز احمد امام وخطیب جامع مسجد سمن پورہ پٹنہ۔

علم کی بنیاد پر انسان اشرف المخلوقات بنایا گیا: مولانا نیاز احمد امام وخطیب جامع مسجد سمن پورہ پٹنہ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن ونظام العلوم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام محفل اعزازیہ وتقسیم اسناد بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا ۔
Urduduniyanews72
سمن پورہ پٹنہ مورخہ 18/مئی 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم قاسمی)
نظام العلوم فاؤنڈیشن سمن پورہ پٹنہ میں ایک اعزازیہ تقریب کا انعقاد مورخہ 18/مئی 2023 بروز جمعرات کو کیا گیا، 
جس میں نظام العلوم فاؤنڈیشن وضیائے حق فاؤنڈیشن کے اردو زبان وادب کے ان طلبہ وطالبات کو اعزازات سے نوازا گیا جنہوں نے سی بی ایس سی (دسویں بورڈ) میں عمومی طور پر تمام سبجیکٹس میں اور خصوصی طور پر اردو زبان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
اس پروگرام کی صدارت مشہور ومعروف وبیباک عالم دین مولانا نیاز احمد امام وخطیب جامع مسجد ام کلثوم سمن پورہ پٹنہ، اور سرپرستی بزرگ عالم دین مولانا محمد عظیم الدین رحمانی نے فرمائی ۔
نظامت کا فریضہ مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ نے انجام دی ۔
مہمان خصوصی کے طور پر جلال خان، آفتاب خان سمن پورہ پٹنہ، موجود تھے
مہمان اعزازی کے طور پر محمد ایوب خان جہان آبادی نے شرکت کی ۔
پروگرام کا آغاز حافظ عمران، مولانا اعجاز، محمد امان اللہ کے حمدیہ ونعتیہ کلام سے ہوا ۔
اس کے بعد ناظم محمد ضیاء العظیم نے پروگرام کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے دونوں تنظیموں کا مختصر تعارف ومقاصد پیش کیا ۔
پھر پروگرام کے سرپرست بزرگ عالم دین مولانا محمد عظیم الدین رحمانی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان وادب در اصل ہماری تہذیب وثقافت کا اہم حصہ ہے، اس کی تحفظ وبقاء در اصل اپنی تہذیب وثقافت کی تحفظ وبقاء، اپنی تاریخ، اپنے وجود کی بقا کی ضمانت ہے ۔
ہم ان دونوں اداروں کے ذمہ داران محمد شارق خان، محمد ضیاء العظیم ،کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ان اداروں میں دینیات وحفظ کے ساتھ ساتھ اردو زبان وادب کی مضبوط اور ٹھوس تعلیم وتربیت کا نظم ونسق کیا ہے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔
اس کے بعد صدر، سرپرست، مہمانان اور ان اداروں کے اساتذۂ کرام کے ہاتھوں کامیاب طلبہ وطالبات کو اعزازی سند ومیڈل سے نوازا گیا ۔
جن طلبہ وطالبات کو اعزازات سے نوازا گیا ان کی فہرست اس طرح ہے،
نصرت خورشید بنت محمد خورشید عالم، محمد زید اکرم بن محمد سہیل اکرم، نصرت پروین بنت محمد طارق عالم، محمد یوسف بن محمد سکندر، رضیہ خاتون بنت عین الحق، لئیق الرحمن بن محمد مرتضیٰ، تنویر رضا خان، انجم شاہین بنت محمد احسان، نزہت پروین بنت محمد طارق عالم، نازیہ پروین بنت محمد جان، زینت پروین بنت محمد طارق عالم ۔
آخر میں صدر محترم نے اپنے صدارتی خطاب میں تمام طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے انھیں بہترمستقبل کی دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ انسان کو اللہ رب العزت نے علم وفضل کی بنیاد پر اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔یقیناً علم حاصل کرنا ایک کا اہم فریضہ ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم عربی زبان بھی سیکھیں، لیکن اردو زبان وادب کی تعلیم خصوصیت کے ساتھ حاصل کریں، کیوں کہ یہ زبان ہماری مادری زبان ہے اور مادری زبان فطری زبان ہوا کرتی ہے، اس زبان میں قرآن وأحاديث اور فقہی مسائل کی کتابیں ہمارے اکابرین نے تصنیف وتالیف کی ہے، اور اس مادری زبان کی ہم ٹھوس تعلیم حاصل کریں گے تو ہمارے لیے شریعت بھی سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا سہل ہوگا ۔اسی کے ساتھ صدر محترم کی اجازت سے مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا ۔واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔۔۔
اور نظام العلوم فاؤنڈیشن( بیاد نظام الحق خان) سمن پورہ پٹنہ یہ ایک خالص دینی ادارہ ہے جو صوبہ بہار کے دارالحکومت شہر پٹنہ کے مشہور ومعروف علاقہ سمن پورہ راجا بازار روڈ نمبر ١ نظام کیمپس میں واقع ہے،  ادارہ تقریباً پندرہ سالوں سے ملی و تعلیمی خدمات انجام دے رہا ہے، کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات کی جماعت یہاں سے فیضیاب ہوچکی ہیں، اس ادارہ کی بنیاد محض اخلاص و للہیت پر مبنی ہے، یہ ادارہ اکابرین علماء خصوصاً مولانا محمد عظیم الدین رحمانی امام وخطیب جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ کی زیر سرپرستی ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے ۔تین ماہرو باہر اور مخلص ومحنتی اساتذہ اور دو کارکنان اپنی خدمات پر معمور ہیں ۔یہاں مقامی طلبہ وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں ،حفظ وناظرہ کی مضبوط تعلیم کے ساتھ ساتھ علم دینیات ،اردو وعربی زبان و ادب اور بنیادی عصری تعلیم کا عمدہ نظم ونسق ہے ۔اس وقت اس ادارہ میں تقریباً دو سو طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں ۔ اس ادارہ میں اکثریت اسکول کے طلبہ وطالبات کی ہے، جو دینیات واردو زبان وادب کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
ماہر نفسیات واستاذ محمد شارق خان اور ان کی ٹیم نے بڑے جدوجہد اور جاں فشانی کے ساتھ اس ادارہ کو سینچا ہے ۔
طلبہ وطالبات کے لیے ہر طرح کی سہولتیں یہاں موجود ہے، 
یہ ادارہ دینی تعلیم کے حصول کے لئے علاقے میں اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے...

انس مسرورانصاری قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) سکراول۔اردوبازار۔ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر(یوپی )

کچھ تبسم زیرلب۔۔۔۔۔ 
   
                مرغی اورآملیٹ
       
       ٭انس مسرورانصاریurduduniyanews72

 اک پھول سےآجاتی ہے ویرانے میں رونق
 ہلکا سا تبسم  بھی مر ی جا ن  بہت  ہے
پھول چندشعروشاعری کے جتنے بڑے رسیاتھے،اُن کے دوست دانشمند اتنے ہی بڑے نقادتھے۔پھول چندکی مجال نہ تھی کہ وہ اپنے شعروں کودانشمندکی تنقیدسے لڑاسکتے۔لیکن اپنی اپنی عادتوں سے دونوں ہی مجبورتھے۔پھول چند شعرضرورسناتے اور دانشمندتنقیدبھی ضرورکرتے۔
ایک موقع پرپھول چندنے دانشمند کوایک شعرسنایا۔‘‘سنومیاں!کسی شاعر نے کیاہی عمدہ شعرکہاہے۔کیسی سچّی،پکّی اورپتے کی بات کہی ہے۔’’ 
 دانشمند ـ:۔‘‘ارشاد،،،، ارشاد....مگرصرف شعر۔تمہید بالکل نہیں۔’’
 پھول چندـ:۔‘‘ملاحظہ ہو۔شاعرنے عرض کیاہے۔’’
اک نظرسے سب کودیکھے یہ صفت کانے میں ہے
ا لغرض دل کی صفائی آنکھ بہہ جانے میں ہے
پھول چندنے دادطلب اندازمیں دیکھا۔لیکن دانشمندخاموش رہے۔کچھ دیر سرجھکائے غورو فکر کرتے رہے پھربڑے عالمانہ اندازمیں بولے۔ 
‘‘دانشمندـ:۔یہ شعرکسی کانے شاعرکاکاناشعرمعلوم ہوتاہے۔’’ 
‘‘پھول چند:۔(خفگی سے)پھرتم نے میخ نکالی۔میں کہتاہوں کہ میں نے شاعرکودیکھاہے اورشرط لگانے کوتیارہوں ۔وہ شاعرکاناہرگزنہیں ہے۔’’ 
دانشمند:۔‘‘توپھرتم کانے ہو۔’’ 
پھول چند:۔‘‘کیاکہا۔؟میں کاناہوں۔.....میں کاناہوں۔؟ابے کہیں تیری آنکھیں تونہیں پھوٹ گئیں۔دیکھ یہ دیکھ ۔میری دونوں آنکھیں۔کیامیں تجھے کانادکھائی دیتاہوں۔؟؟’’ 
دانشمند:۔‘‘کاناہونے میں بُرائی کیاہے۔؟ مثال کے طورپر اگرتم کانے ہوتے تولوگ اپنی دونوں آنکھوں سے تمھاری ایک آنکھ دیکھتے مگرتم اپنی ایک آنکھ سے لوگوں کی دونوں آنکھیں دیکھتے۔کمال کی بات ہے کہ نہیں۔؟ویسے بھی آپے سے باہرہونے کی ضرورت نہیں۔جامے کے اندرہی رہو۔مطلب تومیراتم سمجھے نہیں اوربکواس کرنے لگے۔’’ 
 پھول چندـ:۔‘‘اب مطلب بھی سمجھادوبیٹا!کاناواناتوپہلے ہی بناڈالا۔اب اورکیالولا،لنگڑابھی بناؤگے۔؟’’ 
دانشمندـ:۔(ہنستے ہوئے)‘‘ نہیں پیارے!ایسانہیں ہے۔میرے کہنے کامطلب تویہ تھاکہ شاعریک چشم رہاہوگااورتمھارے دیکھنے میں غلطی ہوئی ہوگی۔اوراگرتم نے شاعرکودیکھاہے اورغورسے دیکھاہے تومجھے تمھاری بینائی پرشک ہے کہ وہ کمزورہوچکی ہے۔بُرامت ماننالیکن شعرسننے کے بعد مجھے یقین آگیاہے کہ یہ کاناشعرضرورکسی کانے شاعرنے اپنی صفائی میں کہاہے۔’’ 
پھول چند:۔‘‘اورتم نے جومجھے کاناکہاہے اس کاکیامطلب؟’’
دانشمند:۔‘‘پیارے!ناراض نہ ہو۔ وہ تومیں نے تمھیں محاورۃََ کاناکہاتھا۔سچ مچ کاکاناتھوڑے ہی کہاتھا۔’’
پھول چند:۔‘‘توگویامیں تمھارے نزدیک اُردومحاورہ میں کاناہوں۔کیوں۔؟اورمحاورہ کی آڑمیں دوبارجوتم نے کاناکاناکہاہے وہ کس کھاتے میں لکھاجائے گابیٹا۔؟’’
دانشمند:۔‘‘ تم اُردوزبان کو کیاسمجھتے ہو۔؟یہ توصرف محاورہ ہے۔اس کی گالیاں اگرپتھرپر لکھ دی جائیں تووہ بھی پگھل کرپانی پانی ہوجائے۔کیاکاناصرف وہ ہوتاہے جس کے آنکھیں نہ ہوں۔کیااسے کانانہیں کہیں گے جوآنکھیں رکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھتا۔ اورتم نے بھی تومجھے آنکھیں پھوٹاکہاتھا۔نہیں کہاتھاکیاکہ تمھاری آنکھیں پھوٹ گئی ہیں۔؟’’
پھول چند:۔‘‘وہ تومیں نے غصہ میں کہاتھا۔سچ مچ توکہانہیں تھا۔غصہ میں غلطی ولطی توہوہی جاتی ہے۔مگرایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔جب تم شعرنہیں کہتے۔شعرکہہ نہیں پاتے۔تمھارے اندرشعر گوئی کی صلاحیت نہیں ہے توپھرتم شعروں پرتنقید کیسے کرتے ہو۔؟کیاحق ہے تمھاراتنقید کرنے کا۔؟’’ 
دانشمند:۔‘‘میں خدائی فوجداراوراُردوشاعری کاٹھیکیدارہوں۔بس اتناجان لوکہ میں نے انڈے کبھی نہیں دیے لیکن آملیٹ کے بارے میں مرغیوں سے زیادہ جانتاہوں۔تم نے غصہ میں غلطی کی اورمجھے آنکھیں پھوٹاکہا۔چلوچھوڑو۔جانے دوپیارے!میں نے تمھیں ہزاربارمعاف کیا۔تم چاہوتودل کی صفائی کے لیے دوچاربارایسی ہی غلطیاں اورکرسکتے ہو ۔میں بُرانہیں مانوں گالیکن میں یہ ماننے کے لیے تیارنہیں ہوں کہ جوشعرتم نے سنایاہے وہ کسی کانے شاعرکاشعرنہیں ہے۔ارے پھولن میاں!اب توپتھرکی بنی ہوئی ایسی ایسی آنکھیں آنے لگی ہیں کہ اصلی آنکھیں جھک ماریں۔ہاں توپیارے!وہ شعر ذراایک بارپھر سناؤ۔اچھاشعرہے۔’’
پھول چند:۔‘‘بڑے دوغلے ہو۔دل میں کچھ اورزبان پر کچھ۔شعرسن لومگراب اس کے بعدمیں تمھیں کبھی شعرنہیں سناؤں گا۔’’
دانشمند:۔‘‘مجھے منظورہے۔میں جانتاہوں کہ تمھاراعہدبھی ہمارے لیڈروں کے وعدوں جیساہے جوکبھی پورانہیں ہوتا۔شعرسناؤ۔’’

اک نظرسے سب کودیکھے یہ صفت کانے میں ہے
الغرض دل کی صفائی آنکھ بہہ جانے میں ہے
 
         انس مسرورانصاری
  قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) 
   سکراول۔اردوبازار۔ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر(یوپی )                
           رابطہ/9453347784*
                              ٭٭٭

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...