Powered By Blogger

ہفتہ, جولائی 08, 2023

*ندائے فلک*📢 *کردار کی تاثیر*✒️📚📚📚📚📚*بہ🖋️ قلم : محمد* *انواراللہ فلک قاسمی

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

*ندائے فلک*📢 

*کردار کی تاثیر*✒️📚📚📚📚📚
اردودنیانیو۷۲
*بہ🖋️ قلم : محمد* *انواراللہ فلک قاسمی*
 *مؤسس و معتمد ادارہ سبیل الشریعہ رحمت نگر آواپور شاہ پور سیتامڑھی بہار و رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و نائب صدر جمعیت علماء ضلع سیتامڑھی بہار*
⚜️⚜️⚜️⚜️⚜️⚜️
کردار و عمل میں توافق و ہم آہنگی سے شخصیت مؤثر ہوتی ہے اور اس کی تاثیر سے ، بظاہر مشکل ترین کام ، صرف سہل نہیں ، بلکہ آسان ہو جاتا ہے ۔ اس وقت ملک کی سب سے بڑی تنظیم *آل انڈیا* *مسلم پرسنل لاء بورڈ*
 کی تحریک و ہدایت پر ، *یکساں سول کوڈ*
 کے موضوع سے ، ملک گیر سطح پر بیداری مہم کا سلسلہ جاری ہے اور *لاء کمیشن آف انڈیا*
 کو یکساں سول کوڈ سے متعلق خطرات ، اندیشے اور اس کے مضمرات پر مشتمل رائے بھیجی جارہی ہے اور یہ وقت کا اہم تقاضا ہے ۔
بہار کے مختلف اضلاع میں متعدد پروگراموں کے ذریعے ، *بیداری مہم*
 چلائی گئی ہے اور چلائی جارہی ہے اس میں *ضلع سیتامڑھی* کا بھی نمایا نام ہے ۔ یہاں کا سب سے پہلا پروگرام ، *امن و ہار ہوٹل*
 ، شہر سیتامڑھی میں منعقد ہوا اور اسی دن بعد نمازِ ظہر ، *ادارہ سبیل الشریعہ رحمت نگر آواپور شاہ پور* کی وسیع و عریض  *"مسجد ایمان"*
 میں ضلع کی بیشتر تنظیموں اور جماعتوں و جمعیتوں کے احباب و ارباب کے ساتھ اچھا اور نمائندہ پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا ۔ اس پروگرام کے کامیاب انعقاد پر *مفکر قوم ملت حضرت مولانا و مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نائب ناظم امارت شرعیہ ، رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ وصدر ادارہ خلیفہ و مجاز حضرت مولانااسلام صاحب نوراللہ مرقدہ* 
 نے اپنی خوشی کا اظہار فرمایا اور یہ بھی کہا کہ صرف دو دن  میں مشترکہ پروگرام ، کامیابی کے ساتھ منعقد کرنا اور علاقے میں کام کرنے کے لیے نوجوانوں کی ٹیم ترتیب دے کر اس کو مشغول کر دینا یہ بڑی بات ہے ، لیکن اس پروگرام کے بعد حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو یہ احساس ہوا کہ جس طرح *ادارہ سبیل الشر یعہ*
 میں پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا ہے اگر اسی طرح ضلع کی دوسری بڑی مسلم آبادیوں میں پروگرام منعقد ہوجائے تو بڑی تیزی کے ساتھ کام آگے بڑھے گا ۔ چنانچہ حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے ذاتی اثرات سے تحریک کی اور اس کے لیے ضلع کے فعال ، ذاکر و شاغل ، نوجوان  *حضرت قاری محمدمامون الرشید صاحب استاذ مدرسہ طیب المدارس پریہارخلیفہ ومجاز بیعت رشیدالامت حضرت مولاناعبدالرشید صاحب المظاہری شیخ الحدیث مدرسہ بیت العلوم سراٸے میر اعظم گڑھ یوپی* 
 کو مکلف کیا کہ نیپال کی سرحد سے متصل مسلمانوں کی بڑی آبادیوں میں یکساں سول کوڈ کے موضوع پر *بیداری مہم*
 کا نظام بنائیں ، اب وقت کم رہ گیا ہے اور کام بہت ہے ۔ بس کیا تھا کہ * قاری محمد مامون الرشید صاحب حفظہ اللہ *
 نے اپنے حلقۂ اثر کو متوجہ کیا اور تین ( 3) جولائی سے لے کر پانچ ( 5) جولائی تک *مسلسل بیداری مہم* کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اسی درمیان *عزیزی حافظ ابراراحمد غازی سلمہ * نے حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے گذارش کی کہ حضرت !  پروگرام کے اختتام پر، متصلاً اپنی رائے ، *لاء کمیشن*
 کو بھیجنے کا اہتمام و التزام کرایا جائے تاکہ کام میں تیزی آ سکے  ، تو یقیناً کام بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ جائے گا۔ یہ رائے حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ  کو بہت پسند آئی اور پورے نظام میں اس پر عمل کیا گیا ، ماشاءاللہ اس سے کاموں میں اضافہ  ہونے لگا اور بہار کی کارکردگی نمایا ہونے لگی ۔  ابراراحمد غازی اور دوسرے نوجوان اس کام کے لیے مسلسل مصروف عمل رہے ، اس طرح کاموں میں تیزی آئی اور بہار کی کارکردگی میں اچھا اضافہ ہوا ۔ حضرت مفتی صاحب نے ابراراحمد غازی کی حوصلہ افزائی کی اور پورے سفر میں اس عزیز کی گذارش سے فائدہ اٹھایا گیا ۔ اس طرح دوسرے  سفر کا آغاز * مدرسہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیرت گلی ، راجوپٹی سیتامڑھی*
 سے ہوا اس کے بعد *چکنی ، بھٹھا مور* کی * جامع مسجد *
میں بڑے پیمانے پر منعقد ہوا جہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ، وہاں *حضرت مولانا و مفتی نذیر احمد صاحب نقشبندی حفظہ اللہ*
 نے اپنی پوری جماعت کے ساتھ حضرت مفتی صاحب کا *والہانہ استقبال 
 کیا اور ایسی بیداری پیدا کی کہ ہر فرد نے اس کام کو اپنا کام سمجھا  ، یہاں تک کہ اپنی اور گرد و پیش کی پوری آبادی کو بیدار کردیا ، اس کے بعد میزبانوں کی ترتیب کے مطابق * مدرسہ طیب المدارس پریہار* میں رات کا قیام ہوا اور صبح ، بعد نمازِ فجر *مجاھدِ ملت اکابرِ* *دیوبند کے عکس جمیل ، حضرت مولانا* *حکیم ظہیر احمد* *صاحب خلیفہ و مجاز مخدوم بہار عارف باللہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق ناظم الجامعتہ العربیہ اشرف العلوم کنہواں*
 کی عیادت و زیارت اور ان کی با فیض مجلس سے استفادہ کیا گیا ۔ طے شدہ نظام کے مطابق صبح کی چائے کے بعد حضرت مفتی صاحب ، کنہواں پہنچے ۔ کنہواں ، چونکہ بڑی آبادی پر مشتمل ایک قصبہ ہے اور اس کے کئی محلے ہیں اور ہر محلہ میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے اس میں ایک محلہ *نام نگر*
 کے نام سے موسوم ہے اس پورے محلے پر *قاری محمد مامون الرشید صاحب*
 کے اچھے اثرات ہیں اور ان کی قریب ترین ، رشتہ داریاں بھی ہیں ، اس لیے وہاں کا نظام بھی بہت وقیع تھا اور میزبانوں کی بیداری کا جیتا جاگتا شاہکار  ثبوت بھی ۔ وہاں بھی پروگرام کے اختتام پر عملی پیش رفت ہوئی اور خوب ہوئی اس کے بعد *ایکڈنڈی پریہار* کی مسجد میں پروگرام کا انعقاد ہوا اور اسی دن شام میں پپراڑھی میں بعد نمازِ مغرب تا عشاء ایک بڑے پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا
جس کےمیزبان *فاضل نوجوان حضرت مولانا خورشید احمد صاحب قاسمی( خلیفہ* *ومجازحضرت مولانا حکیم ظہیر احمد صاحب قاسمی* *(پریہار) تھے*
 جس میں علاقے کے تمام مدارس کے ذمہ داروں کو بطورِ خاص دعوت دی گئی اور ان کی شرکت کو یقینی بنایا گیا اس طرح وہاں کا نظام بھی مثالی نظام رہا مختصر یہ ہے کہ راجوپٹی، سیتامڑھی سے لے کر چکنی ، پریہار ، ایکڈنڈی ، نام نگر کنہواں ، پپراڑھی ، چمڑا گڈاون بیرگنیا اور پتاہیں کا پروگرام *حضرت مولانا و مفتی محمد ثناء الھدیٰ  صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ 
 کے ذاتی اثرات اور *قاری مامون الرشید صاحب*
 کی فکر و مساعی اور جہدِ مسلسل سے بہت کامیاب رہا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ: *شخصیت کے کردار و عمل کی تاثیر بہت موثر ہوتی ہے*
 صرف بینر ، بوڈ ، عہدہ ، منصب ، نسب شور و غوغا اور تجویز و تجاوز مؤثر نہیں ہوا کرتے ۔
*آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ایک رکن* ہونے کی حیثیت سے میری بھی ذمہ داری بنتی تھی کہ:
 ہم اس نظام کو تقویت پہنچائیں، چنانچہ تمام پروگراموں میں شرکت رہی اور ہر ممکن تعاون دینے کی سعادت ملی ۔
*میں ذاتی طور پر* مخلص و محترم جناب *قاری محمد مامون الرشید صاحب*
 ، *قاری نیر صاحب*
 اور ان کی پوری ٹیم ، معاونین و محبین کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید ہی نہیں، بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ: جب کبھی *ملک و ملت* کو ہماری ضرورت پڑی ، تو ہم اپنے اسلاف کے نقشِ پا کے *علمبردار*
 اور ان کی شفاف زندگی کو اپنے لیے آئینہ بنائیں گے  ۔ان شاءاللہ 

💚♾️♾️♾️♾️💚

بدھ, جولائی 05, 2023

چین میں قدرت کا قہر، سیلاب سے لاکھوں زندگیاں مشکلات کی شکار، گرمی نے 60 سال کا ریکارڈ توڑ دیا

چین میں قدرت کا قہر، سیلاب سے لاکھوں زندگیاں مشکلات کی شکار، گرمی نے 60 سال کا ریکارڈ توڑ دیا

Urduduniyanews72 

بیجنگ: اس وقت چین میں قدرتی آفات کی وجہ سے لاکھوں افراد کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہیں۔ کہیں موسلادھار بارشوں سے سیلاب کا مسئلہ شروع ہوا ہے تو کہیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے چین کے لوگوں کی حالت ابتر ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ چینی حکام نے جولائی کے مہینے میں کئی قدرتی آفات سے خبردار کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ژنہوا کی رپورٹ کے مطابق ملک کے بعض حصوں میں شدید بارشوں کے باعث ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ان سب کو محکمہ کی وارننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا۔ محکمہ موسمیات نے وارننگ جاری کر دی ژنہوا کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ ملک کو جولائی میں سیلاب، طوفان اور شدید گرمی سمیت کئی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گلوبل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق چین میں رواں سال کی گرمی نے 60 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اور چلچلاتی دھوپ کے باعث سینکڑوں افراد جان لیوا گرمی کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ شدید بارشوں، جان لیوا گرمی اور حالیہ ژالہ باری سے ملک بھر میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ چین میں موسم کی وجہ سے مویشیوں کے ساتھ ساتھ فصلیں بھی خطرے میں ہیں۔ سیلاب کے ساتھ گرمی کی لہر جاری ہے شمال مغربی چین کے صوبہ شانشی میں ہفتے کے آخر میں 50 سالوں میں سب سے زیادہ بارش ہوئی۔ طوفانی بارشوں سے کئی مکانات اور سڑکوں کو نقصان پہنچا۔ گزشتہ ہفتے، صوبہ ہنان میں 10,000 سے زیادہ لوگوں کو سیلاب سے بچایا گیا جس نے 2,000 سے زیادہ گھروں کو نقصان پہنچایا۔ چینی میڈیا نے طوفانی بارش کی فوٹیج دکھائی جس میں سیلاب زدہ سڑک اور کاریں اور ہنان میں اپارٹمنٹ بلاکس اور دکانوں کے قریب۔ سیلاب کے ساتھ ساتھ ملک میں گرمی کی لہر بھی ریکارڈ کی گئی۔ چین کے قومی موسمیاتی مرکز نے بیجنگ اور ایک درجن دیگر علاقوں کے رہائشیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ گھر کے اندر ہی رہیں کیونکہ درجہ حرارت 35 ڈگری سیلسیس سے بڑھ گیا ہے۔

 مزید پڑھیں: فرانس میں خانہ جنگی جیسی صورتحال، فسادیوں نے میئر کے گھر، بینک اور شاپئنگ مال میں کی توڑ پھوڑ

بیجنگ میں گرمی کی لہر

موسمیاتی ایجنسی نے کہا کہ چین میں ماہانہ اوسطاً 4.1 دن اس سال کی پہلی ششماہی میں 35 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر گیا، جو کہ 1961 میں قومی ریکارڈ کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ جون میں بیجنگ میں کل 14 دن گرمی کی لہر جاری رہی۔ ماہرین نے ملک میں شدید موسم کی بڑی وجہ گلوبل وارمنگ کو قرار دیا ہے، جس کا تجربہ ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوا ہے، جہاں حالیہ ہفتوں میں مہلک ہیٹ ویوز اور ریکارڈ درجہ حرارت دیکھنے میں آیا ہے۔

منگل, جولائی 04, 2023

مہنگائی کی مار! ایل پی جی کے کمرشل سلنڈر کے داموں میں اضافہ

مہنگائی کی مار! ایل پی جی کے کمرشل سلنڈر کے داموں میں اضافہ

Urduduniyanews72 

نئی دہلی: ملک میں ایل پی جی سلنڈر کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، جس سے عوام کو مہنگائی کا ایک اور جھٹکا لگا ہے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے کمرشل ایل پی جی گیس سلنڈر کی قیمتوں میں 7 روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔ دہلی میں 19 کلو کے کمرشل ایل پی جی سلنڈر کی خوردہ فروخت کی قیمت 1773 روپے سے بڑھا کر 1780 روپے فی سلنڈر کر دی گئی ہے۔ گھریلو ایل پی جی سلنڈر کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

کولکاتا میں تجارتی سلنڈر کی قیمت بڑھ کر 1882.50 روپے ہو گئی ہے، جو پہلے 1875.50 روپے تھی۔ ممبئی میں کمرشل سلنڈر کی قیمت 1725 روپے سے بڑھ کر 1732 روپے ہو گئی ہے۔ جبکہ چنئی میں اس کی قیمت 1937 روپے سے بڑھ کر 1944 روپے کر دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دو ماہ سے 19 کلو کمرشل ایل پی جی گیس سلنڈر کے داموں میں کمی ہوئی تھی۔ یکم جون 2023 کو سلنڈر 83.5 روپے سستا ہوا تھا۔ اس سے قبل یکم مئی 2023 کو کمرشل سلنڈر کی قیمت میں 172 روپے کی کمی کی گئی تھی۔ اس دوران گھریلو کھانا پکانے والی گیس کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

ہفتہ, جولائی 01, 2023

نوجوانوں کے ذریعہ نور اردو لائبریری میں اسلامی کوئز مقابلہ کا انعقاد

نوجوانوں کے ذریعہ نور اردو لائبریری میں اسلامی کوئز مقابلہ کا انعقاد 
اردودنیانیوز۷۲ 
مہفشا ں احمد  نصرت اصغری  رہنما پروین نےعلی الترتیب اول دوم سوم انعام حاصل کیا

30 جون مہوا ویشالی شاردہ پستکالہ لال گنج کے بعد ویشالی ضلع کی سب سے بڑی لائبریری نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما  ویشالی میں اسلامی کوئز کے عظیم الشان مقابلہ کا انعقاد کیا گیا نوجوان کمیٹی کے فعال اور ممتاز رکن جناب محمد منظر عالم اور جناب عاقب اور ان کے احباب کے ذریعہ منعقد اسلامی کوئز مقابلہ میں بڑی تعداد میں بچے اور بچیوں نے حصہ لیا اور اپنی علمی صلاحیت کا بہترین مظاہرہ پیش کیا ہندوستان میں منعقد دیگر امتحان کی طرح اس مقابلہ میں بھی بچیوں نے بازی ماری چنانچہ اول انعام مہفشاں احمد ،دوسرا انعام نصرت اصغری اور تیسرا انعام رہنما پروین نے حاصل کیا جبکہ چوتھے نمبر پر محمد انوررہیں مقابلہ کے سوالات کے لیے چھوٹی چھوٹی پرچیاں بنائی گئی تھی اور انہیں ایک چھوٹے ڈ ڈبے میں رکھا گیا تھا ان بند پرچیوں میں سے پانچ کو مقابلہ کے شرکاء خود اٹھاتے تھے ان پرچیوں میں درج سوالات کے جوابات شرکا ءکو دینے ہوتے تھے تاکہ کسی بچے بچی کو یہ شکایت نہ ہو کہ اس سے مشکل مشکل سوالات پوچھا گیا اور دوسرے سے ہلکا مقابلہ کے جج محمد تاج الہدی رحمانی استاد مدرسہ فردوس العلوم لال گنج اور مولانا محمد وہاج الہدی قاسمی استاد مدرسہ حسینیہ چھپرا خرد تھے پروگرام کی صدارت امارت شریعہ کے نائب ناظم اور نور اردو لائبریری کے چیئرمین مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے کی انہوں نے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ اس قسم کے مقابلوں کے انعقاد سے بچے بچیوں میں مقابلے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور علمی اعتبار سے معلومات کا ذخیرہ ان کے پاس جمع ہوتا ہے انہوں نے حسن پور گنگھٹی کے فعال اور متحرک نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا جن کی محنت اور کاوش سے اس پروگرام کا انعقاد کیا گیا انہوں نے اس پروگرام کو مزید مفید اور مؤثر بنانے کے لیے طریقہ کار میں تھوڑی تبدیلی کا مشورہ دیا کامیاب امیدواروں کو مفتی ثناء الہدی قاسمی ،حافظ شریف صاحب امام حسن پور گنگٹی ،مولانا قمر عالم ندوی استاد مدرسہ احمدیہ ابا بکرپور اور منہاج الہدی کے ہاتھوں ایوارڈ اور نقد رقوم کی ادائیگی کی گئی مقابلے کے  شرکاءتحریم جبیں ،نماپروین،خوش نماں پروین ،من تشاء پروین ،رافیہ بانو،ثانوپروین،محمدانس،اور محمد دلشان کو تشجیعی انعامات بھی دیے گئے آئندہ مسابقہ کے لیے قران کریم کی چھوٹی سورتیں اور 20 احادیث کے حفظ کرنے کا ہدف طلبہ اور طالبات کو دیا گیا پروگرام کا اختتام حافظ شریف صاحب امام مسجد حسن پور گنگٹی کی دعا، محمد منظر عالم اور عاقب احمد کے شکریہ پر ہوا

جمعرات, جون 29, 2023

آج کا یہ دن یادگار ہےہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

آج کا یہ دن یادگار ہے
Urduduniyanews72 
آج عید الاضحٰی کا دن ہے،حدیث شریف میں اس دن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگارکہا گیا ہے، قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے؛ یہ بہت بڑا امتحان تھا، (سورةالصافات)
یادگار اور تاریخ ساز کیوں ہے؟اس کی تفصیل بھی قرآن میں لکھی ہوئی ہے کہ؛
خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں جو پہلی اولاد عطا کی وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں، ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنی اس پیاری اور اکلوتی اولاد کو خدا کی راہ میں قربان کر رہے ہیں، نبی کا خواب جھوٹا نہیں ہوتا ہے، بیٹے سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تم کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کررہا ہوں، تمہارا کیا خیال ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ؛ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے پورا کیجئے، ان شاء اللہ مجھے صابر پائیں گے،خدا کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان مقصود نہیں تھی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کاامتحان مقصود تھا کہ اپنی پیاری چیز میری راہ میں نذر کرتے ہیں یا نہیں؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بڑے امتحان میں کامیاب ہوئے تو خدا نے  اسی وقت نتیجہ بھی شائع فرمادیا کہ، واقعی آپ نے حق ادا کردیاہے،اپنےخواب کو حقیقت میں بدل کر رکھ دیاہے، یہ ایک انسان کے لئے بڑا مشکل کام ہےجو آپ نےکر دکھایا ہے، یہ امتحان بھی سخت ترین نوعیت کا ہے،اسمیں اپنی سب سے پیاری چیز مانگی گئی ہے، ایک کمزور انسان سے کمزوری اور بڑھاپے کے عالم میں بڑا مطالبہ کیا گیا ہے، گویا انسانی فطرت اور اس کے نبض پر ہاتھ رکھاگیا ہے، ایک انسان کے یہ بہت بڑا امتحان ہے،انسان اس میں کامیاب ہوسکتا ہےاور نہ اتنا سخت مطالبہ پورا کرسکتا ہے،باوجود اس کےحضرت ابراہیم علیہ السلام نےاسے پورا کردیا ، چنانچہ رزلٹ کے بعد انعام سے بھی اسی وقت وہ نوازے گئے ہیں۔
 جنت الفردوس سے انعام واکرام میں اسپیشل مینڈھا بھیجا گیا، خصوصی قاصداور مقرب ترین فرشتہ حضرت جبریل علیہ السلام لے کر حاضر ہوئے،اور وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر قربان کردیا گیا،پہلے انسان حضرت آدم سے لیکر قیامت تک کی انسانی تاریخ میں یہ قربانی تاریخ ساز ہوگئی، ،اس عمل کو خدا نے اس حد تک پسند فرمایا کہ قیامت تک کے لئےاس کی یاد کو جاری وساری فرمادیا،اس طرح یہ دن یادگاربن گیا ہے،نیزرب لم یزل ولایزال نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم میں اس واقعہ کوتفصیلی جگہ دے کرقیامت تک کے لئے زندہ وجاوید بھی کردیاہے،
تکبیر تشریق کیاہے؟
ایام تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد ہم ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھتے ہیں، اس کی حیثیت واجب کی ہے، یہ بھی آج ہی کےدن کی یادگار ہے،  یہ واقعہ بھی آج ہی کی تاریخ میں رونما ہوا ہے،حضرت جبریل نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلارہے ہیں، اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اسماعیل کوذبح نہیں ہونا ہے،بلکہ ان کے بدلہ بطور فدیہ جنت کے مینڈھےکی قربانی ہونی ہے،وہ دور سے بلند آواز میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگاہ کرنے کے لئےیہ کہنے لگے، "اللہ اکبر، اللہ اکبر" موحد اعظم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نظر جب حضرت جبریل پڑی تو یہ کلمہ زبان سے بے ساختہ جاری ہوگیا"لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر"
 حضرت اسماعیل علیہ السلام کوجب یہ علم ہوا کہ خدا نےمیری جان بخش دی  ہے، شکرانےکے یہ الفاظ  کہنے لگے"اللہ اکبر، وللہ الحمد"
 یہ تین بزرگوں کے تین بول ہیں، اسے مکمل ایک دعا کی شکل دیدی گئی ہے، اور پوری تکبیر تشریق یہ پڑھی جاتی ہے؛ الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر الله أكبر ولله الحمد "
یہ تکبیر بھی آج کے دن کی یادگار ہے،
آج عید الاضحٰی کے نماز کے لئے جاتے ہوئے اور واپسی میں آتےہوئے بھی اس تکبیر کو پڑھنا مسنون ہے۔
آج ہمیں عید الاضحٰی کے دن  کو  حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور ان کی یادگار کے طور پر دیکھنا اور محسوس کرنا چاہئے،ساتھ  ہی اپنی قربانی وخلوص سے اس دن کو ایک یادگار دن بنانے کی بھی ضرورت ہے،مگر ہمیں صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ برعکس ہوگیا ہے،دین کی بنیادی وابتدائی باتوں سے بھی ہم لاعلم ہیں، یہی وجہ ہےکہ قربانی کا بھی مقصود اصلی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ہے،قرآن میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ؛قربانی کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہونچتا ہے بلکہ خدا کے حضور دل کا تقوی اور خلوص پہونچتا ہے،اسی لئے  قربانی کی بنیادحضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل پر رکھی گئی ہے، انہوں اپنی  پیاری چیز اکلوتی اولاد کی  گردن پر آج کے دن چھری چلادی ہے،درحقیقت اس قربانی کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اپنی محبوب ترین چیز کو بھی اللہ کی راہ میں قربان کردینے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، مگر ہم آج جانور کی قربانی کرتے ہیں مگراس احساس کو زندہ نہیں کرپاتے ہیں اور قربانی کی روح کو اپنے اندرجاری نہیں کرپاتے ہیں، 
یہ ہمارے شرم کی بات ہے کہ آج ہم سے جانور کی قربانی تو ہوتی ہے مگراس کے  گوشت کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ  کرتے ہیں،اور جھوٹی تاویل سے کام لیتے ہیں، عید قرباں کے موقع پر یہ بات عام طور پر چرچے میں رہتی ہے کہ پہلے کی طرح اب لوگ قربانی کا گوشت لینے نہیں پہونچتے ہیں، کچھ حد تک  صحیح بھی ہے، مگر اپنی کمیوں کی طرف ہماری نگاہ نہیں جاتی ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے کی طرح قربانی کرنے والے مخلص لوگ اس وقت نہیں نظر آرہے ہیں، جو جانور کے ہر ہرعضو کو برابر تقسیم کرتے، ایک تہائی غربا کے لئے وہی نکالتے جو اپنے استعمال میں رکھتے،افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ اب لوگ صرف بڑے جانوروں میں غربا کا حق سمجھتے ہیں، اور چھوٹے جانوروں کا پورا گوشت خود سمیٹ لیتے ہیں، یہ عمل قربانی کی روح کے خلاف ہے،اس سے ہمیں بچنا چاہئے،بلکہ قربانی کا جذبہ تو یہ کہتا ہے کہ اس معاملہ میں یتیم ونادر اور مفلس کو خود پر ترجیح دینی چاہیے۔ موجودہ وقت کی ہوش ربا مہنگائی کےدور میں دیہات ہی نہیں بلکہ شہر میں بھی ایسے لوگ بستے ہیں جنہیں سال بھر بکرے کا گوشت  نصیب  نہیں ہوتا ہے،نہ کوئی انہیں اپنی شادی اور ولیمے میں مدعو کرتا ہے اور نہ ہمیں عید قرباں کے موقع پر انکی یادآتی ہے،آج قربانی کےبکرے کا گوشت عموما ایسے گھروں میں پہونچ رہا ہے جو خوشحال اور صاحب نصاب لوگ ہیں،سال بھر ان کے دسترخوان پر یہ موجود بھی ہوتا ہے،ان حالات میں غریبوں کو خوب سے خوب نواز کرآج کےدن کو ہم بھی یادگار بناسکتے ہیں،بالفرض ہمارے لئے پیاری چیز گوشت ہی ہےتو اسے بھی اللہ کی راہ میں قربان کردینے کا یہ دن ہم سے تقاضہ کرتاہے۔
ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

بدھ, جون 28, 2023

ہمیں جذبۂ بندگی و ایثار سکھاتی ہے عید قرباںشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

ہمیں جذبۂ بندگی و ایثار سکھاتی ہے عید قرباں
اردودنیانیوز۷۲ 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب تو یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں ۔
مذہب اسلام نے دنیا میں امن وامان قائم کردیا اور وہ مساوات پیدا کر دی جو اقوامِ عالم کو ترقی کی معراج پر پہنچا دینے کے لئے کافی ہے اس مساوات کو اور مذاہب میں ٹٹولنا اپنا وقت فضول ضائع کرنا ہے کون نہیں جانتا کہ عیسائیوں میں کالے گورے کا قبرستان تک الگ ہے کسے خبر نہیں کہ پروٹسٹ اور رومن کیتھولک ، عیسائی و غیر مذاہب والوں کی طرح آپس میں امتیاز رکھتے ہیں ہندوؤں کے چار ورن کس سے مخفی ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کسی عرب کو غیر عرب پر کسی عجمی کو غیر عجمی پر کوئی بزرگی اور برتری فضیلت و عزت نہیں تم سب حضرت آدم کی اولاد ہو اس حیثیت سے آپس میں سب برابر ہو ذاتی اور قومی فخر کوئی چیز نہیں اور چونکہ خود حضرت آدم مٹی سے پیدا شدہ ہیں اس لئے اور بھی تمہیں فخر و غرور سے یکسو رہنا چاہیے پھر مذہب تم سب کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیتا ہے ہر ایک مسلمان خواہ وہ کسی قوم کا ہو مسلمان ہو کر تمہارا بھائی ہو جاتا ہے خواہ تم کسی  برادری کے کیوں نہ ہو بلکہ اسلام تو تمہیں مساوات کا سبق اس طرح بھی سکھاتا ہے کہ اپنے غلاموں پر بھی حقارت کی نگاہ سے ان پر اپنی برتری سمجھ کر انہیں گرانہ دینا ان کا پورا خیال رکھو ان کا ہر دم پاس و لحاظ رہے جو تم کھاؤ انہیں بھی اس میں سے کھلاؤ اور جو تم پہنو انہیں بھی اس میں سے پہناؤ ۔
جہاں تک نظر ڈالی جاتی ہے اسلام کے کل احکام اسلام کے جملہ اصول حکمت اور اتفاق و اتحاد کی جیتی جاگتی عملی تصویر نظر آتے ہیں عید اور بقرہ عید کے دن کو ہی دیکھو حکم ہوا کہ اس دن نہا دھو کر اچھے کپڑے پہن کر صبح ہی صبح شہر سے باہر جنگل میں ایک جگہ جمع ہو جاؤ تاکہ تمہاری جاہ و حشمت کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھے پھر ایک کو آگے کر کے سب اس کی اقتدا میں خدا کے سامنے جھکو تاکہ تمہارا اتحاد واتفاق ظاہر ہو ۔جاؤ تو تکبیریں کہتے ہوئے نماز پڑھو تو تکبیریں کہتے ہوئے واپس آؤ تو تکبیریں کہتے ہوئے تاکہ تمہاری خدا پرستی کا اظہار ہو۔اللہ اللہ  یہ جمعیت، یہ جماعت، یہ یکجائی،  یہ یکجہتی، یہ ہم آہنگی، یہ اتحاد مقصد،  یہ اتفاق روحانی و جسمانی،  کیا وہ چیزیں نہیں؟ جو تمہارے دشمنوں پر سانپ بن کر لوٹیں اور ان کا کلیجہ پھٹ نہ جائے ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے عید الفطر کی نماز ادا کرنے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کر دو، اور عید الاضحی کی نماز کے بعد قربانی کے گوشت کا ایک حصہ غرباء ومساکین میں تقسیم کردو تاکہ تمہاری غمخواری اور ہمدردی ظاہر ہو جہاں تم اپنی ضروریات پر سیکڑوں خرچ کرتے ہو وہاں غرباء کی بھی خبر لو جو تم جیسے ہاتھ پاؤں رکھتے ہیں مگر قدرت نے انہیں تمہارا دست نگر بنا رکھا ہے۔ اپنی رانڈوں یتیموں بیکسوں کی بھی خبر لیا کرو تم نے اپنے بچوں کی ہٹ اور ضد پوری کردی ان کے لیے نئے اور عمدہ کپڑے بنوائے لیکن ایک یتیم بچہ آہ کر کے رہ گیا یہ کس کے سامنے ہٹ کرے کون اس کی ضد پوری کرے گا اس کا باپ ہوتا تو وہ بھی اپنے نور نظر لختِ جگر کے نہ جانے کیا کیا ارمان پورے کرتا تم نے اپنی بیویوں کے کپڑے لتے جوتی زیور وغیرہ کا انتظام کر لیا انہوں نے تم سے لڑ جھگڑ کر،  کہہ سن کر،  بن بگڑ کر،  اپنی اپنی چاہت کے مطابق اپنی فرمائش پوری کرائی لیکن ان غریب رانڈ عورتوں کی ناز برداری کرنے ان کی امنگوں کو پورا کرنے والا کون ہے وہ کس پر دباؤ ڈالیں گی وہ کس کا پلہ تھامیں گی وہ کہاں سے اچھے اچھے کپڑے وغیرہ لائیں گی جنہیں پیٹ پالنے کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ امیرو تم اپنے مال سے گلچھرے اڑاؤ کیا خدا کے مسکین بندوں کا حق بھول جاؤ اپنے نبی ﷺ  کی سخاوت اور غرباء نوازی کیا تم فراموش کرگئے جن کی زبان مبارک سے کبھی کسی سائل نے انکار کا لفظ تک نہیں سنا۔
غرض اس فرمان نے گلزار اتفاق میں بادِ بہاری کا کام کیا پھر حکم ہوتا ہے نماز کے بعد سب مل کر ذکر اللہ یعنی خطبہ سنو جس میں اسلام کی اگلی شان و شوکت کا نقشہ تمہارے اسلام کے بہترین جوش و خروش کے نمونے ان کی سچی جاں نثاریاں تمہاری ترقیوں کی گزشتہ داستانیں تمہارے کانوں میں پڑیں اور تمہارے برف سے زیادہ منجمد اور سرد دلوں میں پھر ایک مرتبہ گرمی پہنچے کچھ خیال بند ھے اور پھر ولولہ پیدا ہو حکم ہوا اب واپس آؤ تو راستہ بدل کر دوسری راہ سے آؤ تاکہ اس طرف بھی تکبیر کا غلغلہ بلند ہو ادھر بھی شان  اسلام نمایاں ہو ادھر بھی توحید کا چرچا ہو ۔
بقرہ عید کا دن ہے رسولِ اکرم ﷺ  ڈیرھ لاکھ مسلمانوں کے ساتھ ارکانِ حج ادا کر رہے ہیں اونٹنی پر سوار ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کی نکیل تھامے ہوئے ہیں دفعتاً حضور ﷺ سوال کرتے ہیں بتلاؤ یہ کونسا دن ہے لیکن ادب داں مزاج شناس صحابہ یہ جانتے ہوئے کہ آج عید کا دن ہے پھر بھی خاموش رہتے ہیں کہ شاید حضور اس کا کوئی نیا نام رکھیں کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سرور انبیاء  رسول خدا محمد مصطفیٰ ﷺ  فرماتے ہیں  کیا یہ قربانی کی عید کا دن نہیں ہے ہم نے کہا بے شک یہی دن ہے آپ نے فرمایا یہ کونسا مہینہ ہے ہم پھر خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس نام کے علاوہ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے ہم نے کہا بیشک ہے آپ نے فرمایا بتلاؤ یہ کون سا شہر ہے ہم نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ عالم ہیں آپ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس کا کچھ اور ہی نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ بلدہ ( یعنی مکہ) نہیں ہے ہم نے کہا بے شک  آپ نے فرمایا اب سنو تمہارے خون تمہارے مال عزت تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینے میں بتلاؤ کیا میں تمہیں خدا کا یہ حکم پہنچا چکا سب نے کہا ہاں بے شک آپ نے کہا الہی تو گواہ رہ پھر فرمایا جو موجود ہیں ان پر فرض ہے کہ جو موجود نہیں انہیں پہنچا دیں بہت سے جو پہنچائے جائیں گے سننے والوں سے بھی زیادہ  یاد رکھنے والے اور محفوظ رکھنے والے ہوں گے ۔
یاد رکھو کبھی وہ قوم پنپ  نہیں سکتی جس میں مظلوم کو ظالم سے بدلہ نہ دلوایا جائے جس کے بڑے چھوٹوں کو نگل جائیں اور دوسرے کھڑے تماشا دیکھا کریں ۔وہ جماعت جماعت کہلانے کی اور زندہ رہنے کی حقدار نہیں جس میں دو لڑنے والوں کے درمیان تیسرا کوئی فیصلہ کرنے والا نہ ہو دو مسلمانوں کے درمیان ناچاقی دیکھو فوراً اٹھ کھڑے ہو جاؤ اور حسنِ تدبیر سے انہیں گلے ملا دو یہ نہ کہو کہ ہمیں کیا؟ آج اس کی باری ہے کل تمہاری ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اگر خدانخواستہ یہ بھنور میں آئی تو نہ ان کی خیر ہے نہ ہم پر مہر۔  سب سے بڑی نیکی آپس کی اصلاح ہے اور سب سے بڑی بدی آپس کا فساد ہے نفس کو مارنا مل جل کر رہنا آپ دکھ سہہ لینا لیکن دوسروں کو رنج نہ پہنچانا اصل اسلام یہی ہے ۔
الہی تو ہمیں آپس میں اتفاق دے، محبت دے ، بغض،  عداوت،  غرور، کبر،  خودی اور خود پسندی،  کو ہم سے دور فرما دے،  ہمارے دل ملا دے ، ہمیں ترقیاں دے،تنزل  سے بچالے،  بری عادتیں ہم سے  دور کر دے اور ہم پر اپنا فضل و کرم لطف و رحم نازل فرمادے آمین

اتوار, جون 25, 2023

اظہار رائےمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اظہار رائے
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اپنی باتیں دوسروں تک پہونچانے کے جو طریقے ہمیں دیے گیے ہیں، ان میں گفتگو ، تقریر، لکچر، ڈائیلاگ، بحث ومباحثہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ، ہم اپنی باتیں تحریر کے ذریعہ بھی دوسروں تک پہونچاتے ہیں، اور حرکات وسکنات کے ذریعہ بھی، جسے اشاروں کی زبان کہتے ہیں؛ گویا یہ سب چیزیں اظہار کا وسیلہ ہیں، اظہار کے یہ وسیلے اتنے اہم ہیں کہ اسی کے ذریعہ ہمیں سامنے والے کے عیب وہنر کا ادراک ہوتا ہے۔ اسی لیے ٹھوس ، مدلل، معقول اور مؤثر گفتگو کی قدر ہر دور میں کی جاتی رہی ہے اور اس کے اثرات قوموں کی تقدیر بدلنے، حکومتوں کے عروج وزوال ، سیاسی اتار چڑھاؤ پر لازماً پڑتے رہے ہیں۔
اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رائے کے اظہار میں انصاف سے کام لیا جائے ، معاملہ اپنا ہویا والدین کا ، اقربا کا، ہو یا رشتہ دار کا امیر کا ہو یا محتاج کا، ہر حال میں انصاف ملحوظ رکھا جائے، اور کسی قوم کی دشمنی تم کوا نصاف کے راستے سے نہ ہٹائے، آج صورت حال یہ ہے کہ ہماری کسی سے دشمنی ہوتی ہے تو سارے حدود پار کر جاتے ہیں اور اگر دوستی ہوتی ہے تو زمین وآسمان کے قلاے ملا دیتے ہیں، کل تک جو لعن طعن کر رہا تھا ، آج پارٹی میں شامل ہو گیا توپارٹی سپریمو کو ڈنڈوت بھی کر رہا ہے اور قصیدہ پر قصیدہ کہے جا رہا ہے، شیخ سعدی کا مشہور قول  ہے کہ دشمنی میں بھی اس کا خیال رکھو کہ اگر کبھی دوستی ہوجائے توشرمندہ نہ ہو نا پڑے۔اس بے اعتدالی نے ہر ایک کے بیان کو بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے ۔
بیان کے بعد دوسرا مرحلہ عمل کا ہے ، بغیر عمل کے صرف بیان کو ’’بیان بازی‘‘ کہتے ہیں، بیان میں جان اس وقت پڑتی ہے، جب اس کے پیچھے عمل کی قوت ہو، عمل نہ ہو صرف قول ہی قول ہو ، بیان ہی بیان ہو تو یہ انتہائی مذموم کام ہے، عمل ہے؛ لیکن قول کے بر عکس ہے تو یہ قول وعمل کا تضاد ہے۔
قول وعمل کے اسی تضاد کی وجہ سے سرکار کی طرف سے اعلان پر اعلان ہوتا رہتا ہے اور لوگ اسے قابل اعتنا نہیں سمجھتے ، اگر ہم کم بولیں اور کام زیادہ کریں تو عوام کا بھی بھلا ہوگا اورلوگوں کا اعتماد بھی بجال ہوگا؛ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو پا رہا ہے، اس معاملہ میں سب سے زیادہ ہمارے سیاسی رہنما آگے ہیں۔ کتنے اعلانات دسیوں سال سے حکومتیں کرتی رہی ہیں اور ان پر عمل کے اعتبار سے آج بھی پہلا دن ہے، اس طرز عمل سے سیاسی لوگوں کی قدر وقیمت میں گراوٹ کا رجحان بڑھا ہے، پہلے راج نیتی ہوتی تھی، اب راج ہی راج ہے، نیتی کا پتہ نہیں ، نظریات ، پالیسیاں کبھی سیاست میں ہوا کرتی تھیں، لیکن اب یہ قصہ پارینہ اور ماضی کی داستان ہے، کل تک سیکولرزم کا نعرہ لگانے والا، کب عہدہ اور ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے فرقہ پرستی کی گود میں جا بیٹھے گا ، کہا نہیں جا سکتا، اور پھر اس کی زبان سے کیا کچھ نکلنے لگے گا اور کس کس کی پگڑی اچھالی جائے گی کہنا ، مشکل ہے۔یہ صرف خیال نہیں ہے،اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیں تو کئی نام آپ کے ذہن میں گردش کرنے لگیں گے۔ 
 پہلے پہاڑ ہی آتش فشاں ہوتے تھے، اب ہماری زبان بھی آتش فشاں ہو گئی ہے، ہمیں ان سے ہر حال میں ہوشیار رہنا ہوگا، بولتے وقت بھی اور سنتے وقت بھی، بولتے وقت الفاظ تول کر بولنا ہوگا؛ کیونکہ اللہ نے ہمارے بول پر پہرے بٹھا رکھے ہیں اور سنتے وقت اس کے رد عمل سے بچنا ہوگا؛ تاکہ ہماری زبان آلودہ نہ ہو، یاد رکھئے سخت ، گندے اور بھدے الفاظ سے قومی معاملات حل نہیں ہوتے اور سماج کا بھی بھلا نہیں ہوتا ، مولانا ابو الکلام آزاد کے لفظوں میں ، ’’زبان حد درجہ محتاط ہونی چاہیے، کچھ اس طرح کے وقار وتمکنت اور سنجیدگی ومتانت آگے بڑھ کر ان کی بلائیں لینے لگے‘‘۔
 اس لئے ہمیں کوئی بھی بیان دینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ وہ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنے ، گفتگو کرتے وقت حفظ مراتب، سامع کا پاس ولحاظ اور مقصدکا خیال رکھا جائے، فضول کی بحثوں ، الزام تراشی، ذاتی رکیک حملے اور لعنت وملامت کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے، اظہارِ اختلاف میں شائستگی اور نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...