Powered By Blogger

ہفتہ, جولائی 08, 2023

صلاحیت کا غلط استعمال ٭ انس مسرورانصاری


صلاحیت کا غلط استعمال
Urudduinyanews72
      ٭ انس مسرورانصاری 
 
قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس دنیامیں بے شمارقومیں پیداہوئیں۔عروج وارتقاء کی منزلوں سے ہم کنارہوئیں،رفعت وسربلندی نے اُن کے قدم چومے، لیکن طاقت واقتدارکانشہ طاری ہواتو غرور ونخوت میں مبتلاہوئیں،خودپرستی اور خدافراموشی کواپناشعاربنالیا،خداکی قائم کرد ہ حدوں سے اجتناب کیا۔ہراُس برائی کواختیارکیا، رواج دیاجوقو مو ں کے زوال کاسبب ہوتی ہیں۔آرام طلبی و عیش کوشی اور غفلت وبے خبر ی میں ایسے کھوگئیں کہ اُنھیں اپنی ذات اوراپنی طاقت کے سِواکچھ بھی نظرنہ آتاتھا۔اُن کے علماء اوردانشوربھول گئے کہ انسان کامقصودِ حیات کیاہے۔ انھوں نے اپنے فرائض ِمنصبی سے غفلت کا گناہ کیا۔دربارگیری ،حاشیہ برداری اورجاہ طلبی اُن کی زندگی کامقصدومشن بن گئے۔وہ بھو ل گئے کہ خدانے اُنھیں دینی ودنیاوی منفعت بخش علوم سے سرفرازکیا ہے۔ دینی و دنیاوی سعادتیں عطا فرمائیں توقوم کی صحیح رہنمائی کاذمّہ دار بھی ٹھہرایا۔ مگروہ اپنی رہنمایانہ حیثیت کوفراموش کربیٹھے۔ طرح طرح کی لغویات اورخرافات کے اسیرہوگئے۔اس کے بعدبھی خدانے اُنھیں سنبھلنے اورپھرسے راہِ راست پرچلنے کے مواقع باربارعطاکیے۔لیکن جب اُن کی نادانیاں اورنافرمانیاں قدرت کے آئین سے متصادم ومتجاوزہونے لگیں ،ٹکرانے لگیں تو زوال کواُن کامقدرکردیاگیا۔پھروہ تباہ وبرباد ہوگئیں۔اُن کانام ونشان تک مٹ گیا۔بعض قومو ں کوتاریخ کے صفحات میں بھی پناہ نہ مل سکی اور نیست ونابود ہوگئیں۔ 
مصرکی فاطمی خلافت،بغدادکی خلافتِ عباسیہ ،خلفائے اسپین اورخلافتِ عثما نیہ کے جاہ وجلال اور سربلند ی و سرفرازی کی مثال نہ تھی۔اُن کے خلفاء یورپ کے بڑے حصے پرقابض ہوگئے تھے۔دنیاکے نصف سے زیادہ حصوں پراُن کاتسلّط تھا۔ وہ دینی ودنیاوی سعادتوں کے امام تھے۔یورپ کے کسی حکمراں کواُن سے آنکھیں چارکرنے کی مجال نہ تھی۔اُن میں ہمت تھی،بہادری اورشجاعت تھی،اُن کے بازوتواناتھے، نہ وہ خود چین سے بیٹھتے اورنہ اپنے عسکریوں کوآرام کا موقع دیتے،وہ خودبھی متحرک رہتے اوراپنی عسکری طاقت کوبھی متحرک رکھتے۔ خشکی پربھی وہ مقتدر تھے اورسمندروں پربھی حکمراں۔ عدل وانصاف،امن ومساوات،خداترسی،اتحادواتفاق اوراسلامی تہذیب وتمدّن کے وہ نگراں و محافظ تھے۔ انھوں نے علوم وفنون کوبہت فروغ دیا۔زندگی کے ہرشعبہ میں کارہائے نمایاں کیے۔پھراُن کے بعداُن کے جانشین آئے اورمحل سراؤں میں اسیرہوکرعیش پرستی میں مبتلاہوگئے۔اُن کے بازوکمزور ہوگئے۔اُن کی طاقت گھٹتی گئی۔وہ مخلوقِ خداسے غافل ہوکر شراب وشباب کے ہوش ربا طلسم میں کھوگئے۔یہ اُن کاآخری گناہ تھا۔پھراُنھیں قدرت نے معاف نہیں کیا۔صلاح الدین ایوبی نے اُس نام نہاد خلافت کوختم کردیااورایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ملّتِ اسلامیہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کوکنارامل گیا۔قوموں کے زوال کے اسباب مختلف ہیں لیکن عیش پرستی اورمخلوقِ خداسے بے نیازی مشترک ہے ۔ بلاشبہ عہدِ عباسیہ میں علوم وفنون کوبڑی ترقی ملی۔بہت بڑے بڑے فلاسفراورسائنس داں پیدا ہوئے جن کے کارنامے تاریخ میں محفوظ ہیں۔خلیفہ مامون رشید کے زمانے میں علمِ کلام کوعروج حاصل ہوااورخلقِ قرآن کافتنہ کھڑاہوا۔بہت سے حق پسندوحق پرست علماء وصالحین شہیدکردیے گئے۔مامون رشیدنے اُنھیں حق بیانی کے جرم میں سزائیں دیں۔امام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورآپ کے ہمنواؤں کوقیدوبندکی صعوبتیں جھیلنی پڑیں،یہاں تک کہ وہ جاں بحق ہوگئے۔مامون رشیدکے بعدبھی یہ فتنہ پُرجوش طریقے سے جاری رہا۔یہ خلفاء قرآن کومخلوق مانتے تھے ۔اُن کے حامی مصلحت پسند علماء کی تعدادکثیرتھی۔پھر ایک انقلاب پسند اورحق بیان پیداہوا۔اس نے کہا۔‘‘جس بات میں رسولِ خداخاموش رہے۔ان کے اصحاب چپ رہے۔تابعین کی جماعت خاموش رہی’اس بات پرتم لوگ بحث کررہے ہو‘جراح وتعدیل اورتاویلات سے کام لے رہے ہو‘یہ بڑی جسارت کی بات ہے۔’’ اس کے بعد یہ فتنہ اپنی موت آپ مرگیا۔ جس علم الکلام کی بنیادپریہ فتنہ کھڑاہوتھا،وہ علم مسلمانوں کوبہت مرغوب ومحبوب تھا۔خلافتِ عباسیہ کے آخری عہد میں علم کلام نے ایک نئی کروٹ بدلی۔اُس کی بنیادپرمناظروں کی گرم بازار ی شروع ہوئی۔مسجدوں میں مناظرے۔شاہراہوں اوربازاروں میں مناظرے۔مسلکی مناظرے۔ نسلی مناظرے۔ارضی وسماوی مناظرے۔ قسم قسم کے مناظرے ومباحثے ۔ طرح طرح کے موضوعات پر اِن مناظروں نے دیگرعلوم کی اہمیت کوکم کردیا۔پوری قوم مناظرہ بازی کے مرض میں مبتلاہوگئی۔ لیکن علم الکلام ہویا کوئی دوسراعلم، اپنے آپ میں اچھایابرانہیں ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ کسی کم ظرف آدمی کوعلم حاصل ہوجائے تووہ اُس کواپنے مزاج ومذاق کے مطابق استعمال کرتا ہے۔اگرمزاج صالح نہ ہوتوعالم کاعلم بھی شیطانی خرافات کاسرچشمہ ہو جاتاہے۔شہرت اورمعیشت کی طلب علمی سچائی کوکھاجاتی ہے۔علم کاغلط استعمال بہت برے نتائج سامنے لاتاہے۔چنانچہ اُس دور کے شہرت طلب علمائے سُؤ نے اپنے اصل کام دعوت وتبلیغ اورفروغِ دین وملّت کوپسِ پشت ڈال دیا۔ اپنی عسکری طاقت سے غافل آخری دَورکے خلفاء اپنی حرم سراؤں میں شراب وکباب کی لذتوں اورحسن وجمال کی رعنائیوں میں ایساگرفتارہوئے کہ پھررہائی نصیب نہ ہوسکی۔اپنے تحفظ اوربقاء کے جس تابوت میں یہ کیلیں ٹھونکتے آئے تھے،چنگیزخاں نے اُس میں آخری کیل ٹھونک دی اورخلافتِ عباسیہ کانام ونشان مٹ گیا۔مسلمان چُن چُن کر قتل کیے گئے۔معصوم بچوں کونیزوں پر اُچھالاگیا۔چنگیزخاں خداکاقہربن کرنازل ہوا۔زمین اپنی تمام تر فراخیوں کے باوجود مسلمانوں پرتنگ ہوگئی۔ 
خلافتِ اسپین کے زوال کے اسباب بھی مذکورہ دونوں خلافتوں سے مختلف نہ تھے۔قریب آٹھ سوسالہ اس خلافت کونااہل اورنا لائق بادشاہوں نے خوداپنے ہاتھوں سے کفن پہنادیا۔مسلمانوں کاقتلِ عام ہوا۔وہ ذلّت کے ساتھ اسپین سے نکال دیے گئے۔عورتیں باندیاں بنالی گئیں اوراسپین میں بچے کھچے مسلمان غلام ہوگئے۔ عیسائیوں نے اُن کے عبادت خانوں کوگر جا گھروں میں تبدیل کرلیااورباقی مساجد کو گھوڑوں کااصطبل بنادیا۔یہ اُس قوم کاانجام ہے جس کے بزرگوں کی بخشی ہوئی علم کی روشنی سے سارایورپ جگمگارہاہے۔ 
ہندوستان میں مغل سلطنت کاعروج تاریخ کاایک زرّیں باب ہے۔اور نگ زیب عالمگیرتک اس سلطنت کی حدودمیں اضافہ ہوتارہا۔کوئی طاقت مغلوں کاسامناکرنے کی جرأت نہیں رکھتی تھی۔ اورنگ زیب نے پچاس سال تک نہایت شان وشوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اس کے بعد حکمراں طبقہ آپسی اختلافات کاشکارہوگیا۔کشمیرسے کنّیاکماری اور رنگون سے کابل تک پھیلی ہوئی اس عظیم الشان سلطنت کے زوال کے اسباب بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ اورنگ زیب کے بعد کئی بادشاہوں نے تخت وتاج کوسنبھالا مگراُن کابوجھ اُٹھانے کی طاقت کسی میں بھی نہ تھی۔ ہمیشہ کی طرح عیش پرستی،بزدلی،خو ابِ غفلت اورعلمی انحطاط کی وجہ سے عظیم مغل سلطنت سمٹتے سمٹتے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرکے عہدمیں صرف دہلی تک محدودہوگئی۔بس لمبے لمبے القاب باقی رہ گئے۔جب کلکتہ سے انگریزی فوج دہلی کی طرف بڑھ رہی تھی اورمنزلوں پرمنزلیں سرکرتی ہوئی دہلی کی طرف چلی آرہی تھی اُس وقت بوڑھااورکمزوربادشاہ اپنی عسکری طاقت کاجائزہ اوراسلحوں کی درستی اورفراہمی کے بجائے شطرنج کھیلنے اورغزلیں کہنے میں مصروف تھا۔اُس کے حاشیہ نشین شعراء ومصاحبین اُس کی شان میں قصیدے کہہ کہہ کراُسے گمراہ کررہے تھے۔اُس مجبوراوربے بس دعاگوبادشاہ کو ظلِّ الٰہی اورسلطانِ عالم کے القاب سے پکارتے تھے۔ دشمن منزل بہ منزل بڑھتاچلاآرہاتھا اوربادشاہ ہاتھیوں کی لڑائی دیکھنے اورقسم قسم کے جانورپالنے اوران سے دل بہلانے میں مست تھا۔بچی کھچی فوج کوتنخواہیں نہیں مل پاتی تھیں۔اسلحے زنگ آلودہو گئے تھے۔بادشاہ شاعرانہ ومتصوفانہ تخیّلات کی دنیا میں فر ارہوگیا۔حقیقت یہ ہے کہ اُس کی حالت اُس شترمرغ جیسی ہوگئی تھی جوخطرہ محسوس کرتے ہی ریت میں گڑھاکھودکر اپنے سر کو چھپالیتاہے اورخیال کرتاہے کہ وہ دشمن کی نگاہوں سے محفوظ ہے۔ 
 مغلیہ سلطنت کے زوال پذ یر عہدکی دہلی میں عوام اورخواص کی خصوصی تفریحات کے دوبڑے ذرائع تھے۔ایک تومشاعرے اوردوسرے طوائفوں کے مجرے۔خاقانیِ ہندذوقؔ دہلوی اپنی بلاغت۔ مرزاغالبؔ اپنی فکری اورفلسفیانہ بصیرت۔مومنؔ اپنی معاملہ بندی ورومان پسندی اورداغؔ اپنی سادگی وفصاحت میں اپناثانی نہیں رکھتے تھے۔مشاعروں کی محفلیں بڑے پیمانے پربرپاہوتیں۔طوئفوں سے مجرے سننا،ان کے بالاخانوں پرجانا،رسم وراہ رکھناتہذیب وشرافت میں داخل تھے۔اپنے بچوں کی تہذیبی تربیت کے لیے طوائفوں کی خدمات حاصل کرنااس زمانے کے شرفاء کی خاص امتیازی شان تھی۔اُس زمانہ میں ‘‘اودھ اورشاہانِ اودھ’’ کابھی یہی عالم تھا۔نزاکت ایسی کہ سامنے کھیرایاککڑی کاٹ دو تو زکام ہوجائے۔اپنے اقتدارکے لیے قوم کاسودا کرنے والے ان عیش پرستوں نے قوم کوبیچ دیا
ایسٹ انڈیاکمپنی شہروں پرشہراورقصبوں پرقصبے فتح کرتی ہوئی تیزی سے دہلی کی جانب بڑھ رہی تھی مگردہلی والے طوائفوں سے مجرے سننے اورمشاعروں میں شعرأ کودادوتحسین سے نوازنے میں مصروف تھے۔مشہورہے کہ مرزاداغؔ نے دہلی میں شاعری کاوہ جادوجگارکھاتھاکہ سامعین اُن کی غزلیں سن کر مسحورہوجاتے۔کہتے ہیں کہ جب داغؔ مشاعروں میں اپناکلام سناتے تو دادوتحسین کے شور سے مشاعرہ گاہ کی چھتیں اُڑ جاتیں۔ذوقؔ وغالبؔ،مومنؔ وداغؔ کے علاوہ اردواورفارسی کے بہت سے اہلِ کمال وفن جوذہانت وذکاوت اورلیاقت وصلاحیت کے اعتبارسے اعلاترین معیارپرتھے،زندگی بھر شعرکہتے اوردادوتحسین وصول کرتے رہے۔اسی پروہ خوش تھے،قانع و مطمئن تھے۔جن کے شعروں پرمشاعرہ گاہ کی چھتیں اُڑجایاکرتی تھیں اورجوبہترین دماغ اوراعلا صلاحیتوں کے مالک تھے۔اپنی قوم کے لیے کوئی ایساعلمی وتعمیری کارنامہ نہ کرسکے جس پر آج ان کی قوم فخرکرسکتی۔ سودوسوغزلوں کے بجائے انسانیت کی ترقی اور تحفظ کے لیے صرف ایک تھیوری اور سائنٹفک نظریہ دے جاتے توآج پوری انسانیت ممنونِ احسان ہوتی۔حدتویہ ہے کہ جولوگ اپنی شاعری کے ذریعے قوم کوافیون دے کرسُلارہے تھے،جب 1857ء میں قوم پر سامراجی مظالم کی جابرانہ افتادپڑی تو یہی لوگ قوم کوغنودگی کی حالت میں چھوڑکرحصولِ عیش و معاش کے لیے دوسری ریاستوں کی طرٖف بھاگ کھڑے ہوئے۔قدرت نے انھیں اعلادماغ اور بہترین صلاحیتوں سے نو از ا تھا۔زمانہ شناسی کی لیاقت عطاکی تھی۔یہ لوگ چاہتے تو قوم کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے مگرانھوں نے کچھ نہ کیا۔ زندگی بھراپنی خدادادصلاحیتیں غیرضروری سمتوں میں صرف کرتے رہے۔وہ ایسے محاذ وں پراپنی ذہانت کامظاہرہ کرتے رہے جہاں سے اُن کی زوال پزیرقوم کو کو ئی بھی فائدہ پہنچنے والانہ تھا۔ 
اسی طرح منصورحلّاج کی زندہ کھال کھینچی گئی ۔کیونکہ انھوں نے اپنے اندرخداکوپایاتھا۔باب کو1850ء میں ایران میں اس لیے گولی ماردی گئی کہ وہ اپنے آپ کوامام موعودسمجھتے تھے۔مرزاغلام احمدقادیانی نے انکشاف کیا کہ مسیح وکرشن کی روح اُن کے اندرحلول کرگئی ہے۔مگریہ لوگ جومابعدالطبیعاتی دنیامیں اتنی بلندپروازیاں دکھارہے تھے،اُن میں کوئی ایک شخص بھی ایسانہیں پیداہواجوانسانیت کوسائنٹک علوم میں کوئی نیاطریقہ یانئی دریافت دے جاتا۔ 
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد برصغیرمیں مسلم قوم کے زوال کی رفتاربڑھتی ہی گئی۔ایسالگتاہے کہ اس قوم کے زوال کی کوئی حدہی نہیں کہ جس پر نشاۃ ثانیہ کی بنیادقائم ہو۔یہ قوم ابھی زوال پزیرہے اورزوال یا فتگی کے آثارتک نظرنہیں آرہے ہیں۔اس قوم نے ایسے علماء اوردانشورنہیں پیداکیے جواس کارخ اس کے اصلی مرکزومحوراورمرجع کی طرف موڑدیتے۔اس کامقدربدل دیتے۔قوم فرقوں،طبقوں اوربرادریوں میں بٹ گئی۔منتشرہوگئی۔اس کی ساری قوت بکھرگئی۔زندگی کے ہرمحاذپرنا کام ونامرادہوگئی۔قانونِ قدرت ہے کہ اس کائنات میں جوچیز اپنی نفع بخشی کھودے،اسے پرے کردیاجائے،ہٹادیاجائے۔مٹادیاجائے۔اس کائنات کوغیرضروری اورغیرمنفعت بخش چیزوں کی ضرورت نہیں۔دوسروں کے لیے نفع بخشی ہمیشہ ایثاروقربانی،بھلائی وخیرخواہی،بھائی چارگی اوراحساسِ ذمّہ داری کی بنیادپرممکن ہے لیکن اس قوم نے اس جذبہ واحساس کوبھی کھودیا اوربھول گئی کہ وہ جن کی محبت کادم بھرتی ہے۔جن کادامن نہ چھوڑنے کی باربار قسمیں کھاتی ہے ،اللہ کے اسی رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے باربارفرمایاہے کہ مسلمان،مسلمان کابھائی ہے،اس کے لیے وہی کچھ پسندکرے جووہ خود اپنے لیے پسندکرتاہے۔’’ اس قوم نے اجتماعیت اوروحدت کے اس بنیادی سبق کو فراموش کردیا۔ یہ بھی بھول گئی کہ خداکاوعدہ ہے کہ وہ نافرمان قوموں کو مٹادیتاہے اورایسی قوم کواسلام کی توفیق عطافرماتاہے جو اس سے بہتر ہوتی ہے۔اپنی انفرادیت کوکھوکرمسلم قوم نے غیرقوموں کے شعارکواپنالیا۔ان کی مماثلت ومتابعت اختیارکی۔ عیسائیوں نے اپنی عبادت کے لیے ہفتہ میں ایک دن اتوارکومقررکررکھاہے توعام مسلمانانِ برصغیرنے خداکی عبادت کے لیے ہفتہ میں ایک دن ‘‘جمعہ’’ کومخصوص کرلیاہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اسی ایک دن خداکی عبادت کرتی ہے۔اس قوم نے یہودیوں سے ‘‘سودخوری ،عیسائیوں سے ‘‘لباس’’اوراہلِ ہنودسے ذات اورشخصیت پرستی کے علاوہ ان کی سماجی برائیوں کوبھی رضاورغبت کے ساتھ قبول کرلیاہے۔اب اس قوم کے پاس اس کااپناکیابچا۔؟یہ سوال خود ہی اپناجواب ہے۔ 
زندگی کی ہرسطح پر قوم کے علماء اوردنشور اس کے نگراں ومحاظ ہوتے ہیں۔ان کی حیثیت رہنمایانہ ہوتی ہے۔وہی قوم کوصحیح راستوں کی طرف لے جاتے ہیں۔صحیح خطوط پرچلاتے ہیں۔ یہ ان کی ذمّہ داری ہے۔لیکن کیاخیرِ اُمّت کی صورت میں یہ ذ مّہ داری پوری کی جاری ہے۔؟یہ ایک بڑااور اہم سوال ہے۔ 
موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ فرقوں،طبقوں،برادریوں اورمزید گروہوں میں بٹی ہوئی منتشر قوم نے اپنے تہذیبی وتمدّنی اورمعاشرتی نظام کے تاروپودبکھیرلیے ہیں۔اپنی ساری اچھائیاں دوسری قوموں کوبخش کراُن کی ساری برائیاں ،خرافات اورمذموم رسوم ورواجات کواپنے معاشرہ میں رائج کر لیا ۔ نصرانیوں،یہودیوں اورہندؤں کے بہت سے طریقے اپنالیے۔اس قوم کااپناکیابچا۔؟ 
قرآن بھی خدابھی رسولِ کریم بھی
کُل کائنات اس کی ہے لیکن فقیرہے
اس کی ایک مثال ‘‘جہیز’’جیسی جابرانہ بدعملی ہے۔اسلام سے جس کاکوئی تعلق نہیں۔یہ خالص ہنودی رسم ہے جوسناتن دھرم سے جڑی ہوئی ہے اورجوکسی بھی معاشرہ کے لیے کینسرجیسی مہلک بیماری ہے ،مسلمانوں نے بڑے فخرکے ساتھ اپنے معاشرتی نظام کالازمی حصّہ بنیالیااوراُن کے علماء ودانشورخاموش ہیں۔ دیمک کی طرح چاٹ جانے والی جہیزکی رسم نے مسلم سماج کوناخواندہ وپسماندہ بنادیا۔ جہیزکی اسی لعنت کی وجہ سے آج مسلم بچیاں غیرمسلموں کواپنی زندگی کاہم سفر بنانے پرمجبورہیں۔ ان کے والدین کے پاس ‘‘جہیز’’کی استطاعت نہیں ہوتی۔ زندگی میں ہم سفر کی ضرورت بھی ناگزیر ہے۔یاپوری زندگی تنہائیوں کی نذر ہوجاتی ہے۔سیاہ بالوں میں چاندی کے تارآجاتے ہیں اور آنکھوں میں سارے سہانے خوب مرجاتے ہیں۔جہیزکی اسی لعنت کے سبب بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ بچیوں کوخداکی رحمت کہاگیاہے۔لیکن جب یہ رحمت نازل ہوتی ہے تو لوگوں کے چہرے فق ہو جاتے ہیں۔ اُترجاتے ہیں۔ ایسانہیں کہ انھیں بچیوں سے پیارنہیں۔کبھی کبھی توبچوں سے زیادہ اپنی بچیوں کوپیار کرتے ہیں۔مگر کیاکریں کہ جہیزکابوجھ ان کی کمروں کودہراکردیتاہے۔اسی بوجھ کوہلکاکرنے کے لیے وہ بچوں کو تعلیم کے بجائے کام پرلگالیتے ہیں تاکہ اپنی بچیوں کے لیے جہیز کی رقم جمع کرسکیں۔زمانۂ جاہلیت میں وحشی عرب اپنی بچیوں کو زندہ گاڑ دیاکرتے تھے۔مگرہمارے زمانے میں انھیں پیداہی نہیں ہونے دیاجاتااورماں کے شکم ہی میں دفن کردیاجاتاہے۔کچن میں زندہ جلادیاجاتاہے۔ جہیزکی اس رسم اوردیگرخرافات نے پورے مسلم معاشرہ کی دھجیاں بکھیررکھی ہیں۔ ساراکرپشن اسی سے پھیلاہواہے۔جہیزکابوجھ نہ ہوتوہرباپ چاہے گاکہ اس کے بچے تعلیم حاصل کریں۔آگے بڑھیں،ترقی کریں۔ 
بھارت کی ‘‘سچرکمیٹی’’ کی رپورٹ کہتی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر ہے۔ وہ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں۔مگران کے مصلحین کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔تباہیوں اوربربادیوں کاایک سیلاب ہے جس میں یہ قوم بہی چلی جارہی ہے۔جولوگ اس بہاؤ کوروک لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں،وہ بھی اسی میں بہے چلے جارہے ہیں۔ غیر ضروری محاذوں پر سرگرم ہیں۔اقبالؔنے کہاتھا۔ ‘‘توشاہیں ہے بسیراکرپہاڑوں کی چٹانوں پر۔’’لیکن اس قوم کا حال یہ ہے کہ اس کے زوال اورپستیوں کاسلسلہ ہی ختم ہونے میں نہیں آرہاہے۔براہیمی صداقت کوجانتی ہے مگرشعلوں سے ڈرتی ہے۔عصائے موسوی ہاتھوں میں ہے اورسانپوں سے خوفزدہ ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے مسلمانوں کے لیے نمونے کاا یک مثالی معاشرہ قائم کیاتھاجو کا میابیوں اور کامرانیوں کاضامن تھا۔اس معاشرہ نے بڑے بڑے ریفارمراورہیروزپیداکیے جوپوری دنیاپر اثراندازہوئے۔جس
 میں جہیز اوربارات جیسی خرافات کی کوئی گنجائش نہ تھی۔کوئی تصور نہ تھا۔خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرارضی اللہ تعالا عنہاکانکاح حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایاتوانھیں جہیزنام کی کوئی چیزنہیں دی۔جوکچھ دیاوہ حضرت علی کودیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اُن کے کفیل اورسرپرست تھے۔نکاح کے سارے ا خراجات حضرت علی نے اپنی زرہ بیچ کر اداکیے تھے۔ بعدکے زمانے میں اس فلاحی معاشرہ کومسلمانوں نے مستردکردیااوروہی کچھ کیاجویہودیوں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کیاتھاکہ نبی ورسول کوتومانیں گے لیکن اُن کے فرمودات پرعمل نہیں کریں گے۔اس نافرمانی پر اللہ تعالانے یہودیوں پرلعنت بھیجی۔یہودیت اس کے سواکچھ او ر نہیں کہ اپنے نبی ورسول کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جائیں اور خداکاشریک تک ٹھہرادیاجائے مگر اُن کی ہدایات پرعمل نہ کیاجائے۔کیامسلمان لعنت زدہ یہودی قوم کی راہ پرچل نکلے ہیں۔؟نافرمانی،خود غرضی،خودفریبی ،ناانصافی، بے ایمانی، لالچ،ہوس،ریاکاری،شراب نوشی،قماربازی، عشرت پسندی،سود خوری،وعدہ خلا فی، عدم مساوا ت،عدم صلہ رحمی،دھوکہ،مکر،فریب،تن آسانی،قتل وخون اورغارت گری۔!وہ کون سی برائی ہے جس کی لعنت میں مسلم قوم گرفتارنہیں۔پھربھی محبتِ رسول کادعویٰ ہے اوراس کے لیے جھوٹی قسمیں کھائی جارہی ہیں۔نتیجہ یہ کہ اللہ ورسول کے تمام ترواسطوں کے باوجود جب دعائیں نامقبول ہوجاتی ہیں توقوم شکایت پرآمادہ ہے کہ‘‘برق گرتی ہے توبے چارے مسلمانوں پر’’۔اپنی ذات کے خول میں بندناجائزمفادپرستی میں مبتلااس قوم کونہ جانے کب اپنے محاسبے کی توفیق عطاہوگی۔ہوگی بھی یانہیں۔کیاپتا۔ 
ہیں دل محروم ضربِ لاالہ سے
صدف توہے گہر باقی نہیں ہے
نمازیں ہیں مگربے ذوق سجدے
اذاں ہے پر اثر باقی نہیں ہے

انس مسرورانصاری
 قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ،امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰     
(یوپی)

حاجی محمد اسماعیل ؒ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

حاجی محمد اسماعیل ؒ  ___
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
17؍ مئی 2023ء بروز بدھ فجر کی معمولات سے فراغت کے بعد معمولا بستر پر لیٹا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی حاجی محمود صاحب کا فون تھا، بتا رہے تھے کہ بھیا کا آج صبح چار بجے انتقال ہو گیا، دل ودماغ پر بجلی گری، تسلی، تعزیت اور دعاء مغفرت کے الفاظ آٓنسوؤں میں بہہ گئے، گلو گیر آواز میں الفاظ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا، چنانچہ میں نے موبائل کاٹ دیا، فکر جنازے میں شرکت کی فکر دامن گیر ہوئی،  مولانا قمر عالم ندوی   نے میرا اور اپنا ٹکٹ انڈی گو سے بک کرایا، اتفاق سے دو ہی سیٹ خالی تھی ، جنازہ میں شرکت مقدر تھی، اس لیے مل گئی، اور اس طرح ہم لوگ دس بجے کے آس پاس کولکاتہ پہونچ گیے، جب میت کی تجہیز وتکفین کا مرحلہ جاری تھا، حاجی صاحب مرحوم کے گھر پر گلشن بلڈنگ رین اسٹریٹ ہم لوگوں کی حاضری ہو گئی، ڈھائی بجے دن میں جنازہ کی نماز گوبرا قبرستان 1؍ نمبر میں ادا کی گئی ، میں نے حاجی محمود صاحب کو کہا کہ وہ جنازہ کی نماز پڑھائیں، حق تو ان کے بڑے صاحب زادہ نوشاد صاحب کا بنتا تھا، وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، حالاں کہ وہ انتہائی متشرع آدمی ہیں، لیکن انہیں ڈھارس کھو دینے کا ڈر تھا، جنازہ میں کم وبیش تین ہزار کا مجمع تھا، جن لوگوں کو میں دیکھ سکا، ان میں مولانا آفتاب عالم ندوی بانی وناظم جامعہ ام سلمہ دھنباد، مولانا مفتی عبد الحئی صاحب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ برن پور، قاری شفیق احمد صاحب امام نا خدا مسجد کولکاتہ، مولانا عصمت اللہ رحمانی امام خیرو لین مسجد کولکاتہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں، مشہور صحافی مولانا نور اللہ جاوید، میرے شاگرد حافظ شمشاد رحمانی بھی جنازہ کی صف میں نظر آئے، بعد میں ملاقات بھی ہوئی، حاجی صاحب نے پس ماندگان میں اہلیہ، دو بیٹے، ایک بیٹی دو بھائی اور ناتی، نتنی، پوتے پوتیوں سے بھرا پُرا گھر چھوڑا ہے، 22؍ مئی کو علاقہ کے لوگوں کی طرف سے خراج عقیدت کا پروگرام ان کے گاؤں چھپرا خرد میں رکھا گیا تھا، احقر کی اس میں بھی شرکت ہوئی، غیر مسلموں نے ان کی
شخصیات اور خدمات پر بھرپورروشنی ڈالی۔
 حاجی محمد اسماعیل بن حاجی رمضان علی بن حسین بخش کی ولادت 30؍ اگست 1946ء کو چھپرہ خرد ،ڈاک خانہ خواجہ چاند چھپرہ موجودہ ضلع ویشالی میں ہوئی، حاجی صاحب کی نانی ہال قریب کے گاؤں ویر بھان جلال پور تھی اور شادی چاند پور فتح ضلع ویشالی کے محمد حدیث صاحب کی دختر نیک اختر سے تھی، والد حاجی رمضان علیؒ کی زردہ کمپنی تھی اور وہ کمپنی صاحب سے ہی مشہور تھے،کولکاتہ میں پھیلا ہوا کاروبار تھا، اس لئے ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی، کچھ دن مدرسہ عالیہ کولکاتہ اور علی گڈھ میںبھی تعلیم کے سلسلے میں گذارا، بالآخر محمد جان ہائی اسکول کولکاتہ سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا، کاروبار کا تقاضہ تھا کہ وہ والد کا ہاتھ بٹائیں، بڑے ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری ان پر آگئی، اور انہوں نے تعلیم ترک کرکے کاروبار سنبھالنے کا فیصلہ کیا، اور اپنی ذہانت ، معاملہ فہمی ، خوش خلقی سے ممتاز ترین تاجروں میں آپ کا شمار ہونے لگا، انہوں نے اپنے چھوٹے بھائیوں کی اور پھر خاندان کے دوسرے لوگوں کی کامیاب تربیت کی، وہ اردو انتہائی خوش خط لکھتے تھے، حساب وکتاب میں ان کا ذہن خوب چلتا تھا، کاروباری اعتبار سے کہاں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، کس زمین پر رقم لگانی چاہیے اور کس زمین پر توجہ نہیں دینی چاہیے، انہیں خوب آتا تھا، مختلف کاروبار کے ساتھ ایک خاندانی پیشہ زردہ سازی کا ہے، اور زردہ کی خوشبو صارفین کو متوجہ کرتی ہے، اس لیے کس طرح اچھی خوشبو پیدا کی جا سکتی ہے، کن کن اجزاء کے استعمال سے نئی خوشبو پیدا ہوگی اس میں وہ کسی فارماسسٹ سے کم نہیں تھے، مہمان نوازی میں ممتاز تھے اور قسم قسم کی چیزیں دستر خوان پر سجا دینے کا ہنر انہیں خوب آتا تھا، ہندوستان کا شاید ہی کوئی بڑا عالم بچ گیا ہو، جس کی انہوں نے دعوت نہیں کی ہو۔
 اللہ تعالیٰ نے انہیں نفع رساں بنایا تھا، مدارس ، مساجد، یتیم خانے، غربائ، مساکین سب پر ان کی نظر کرم رہتی ، اداروں کو موٹی موٹی رقم دیتے، اجتماعی شادی میں لاکھوں خرچ کرتے اور ہندومسلم سب کو وہ یکساں سمجھتے، ان کی شادی کے بعد رخصتی کا خاص اہتمام کرتے، زیورات اور ضرورت کے سامان دیتے، ان تمام کاموں میں ان کے گھر کی خواتین اور ان کے بھائی حاجی محمود عالم، حاجی محمد اسرائیل اور ان کے صاحب زادگان ان کا ہاتھ بٹاتے، انہیں معلوم تھا کہ کس سے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے، اس لیے بڑے بڑے پروگرام کا انعقاد کرتے اور پریشان ہونے کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی۔
 اصلاح معاشرہ اور مسلکی خلیج کو دور کرنے کے لیے بھی وہ بہت فکر مند رہتے ، انہوں نے اس کے لیے اپنے والد کی قائم کردہ تنظیم انجمن اصلاح المسلمین کو پھر سے متحرک اور فعال بنایا تھا، شراب، جوا، جہیز سے پاک سماج کی تعمیر کے لیے انہوں نے بڑے چھوٹے کئی پروگرام کرائے، ایک امن کمیٹی بھی انہوں نے بنا رکھی تھی، اس کے ارکان غیر مسلم زیادہ تھے، صدر وہ خود تھے نائب صدر غیر مسلم کو بنایا تھا، جب بھی کوئی معاملہ سامنے آتا وہ کولکاتہ رہ کر وہیں سے اس کمیٹی کو احکام جاری کرتے اور لوگ ماحول کو پر امن بنانے میں لگ جاتے، اس کو مزید موثر بنانے کے لیے انہوں نے ایک بڑا اجتماع مارچ 2018ء میں پورینہ میں کیا تھا، جس میں ہندوستان کے بڑے علماء ، مولانا ارشد مدنی، مولانا اسرار الحق قاسمی کے ساتھ حقیر محمد ثناء الہدیٰ قاسمی بھی شریک ہوا تھا۔
 امارت شرعیہ اور اس کے ذیلی اداروں سے انہیں بڑی محبت تھی، اور مختلف موقعوں سے وہ اس کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے فکر مند رہتے، کولکاتہ کوئی وفد جاتا تو اس کی دعوت کا خاص اہتمام کرتے۔
 ان کی ذاتی زندگی مذہبی اعتبار سے قابل رشک تھی، جماعت خانہ ان کے گھر کی منزل پر تو زمانہ سے تھا، ابھی انہوں نے نیچے کے حصے میں گراؤنڈ فلور پرخوبصورت دیدہ زیب، نماز سے متعلق ضروریات سے مزین اور اے سی وغیرہ سے آراستہ شاندار جماعت خانہ بنوایا تھا، جس میں امام متعین کے ذریعہ پنج وقتہ نماز اور رمضان میں تراویح کی جماعت کا اہتمام بھی ہوتا رہا ہے، گاؤں میں بچوں کی تعلیم کے لیے مدرسہ حسینیہ قائم کیا جو اچھی خدمت انجام دے رہا ہے۔ انہوں نے اس مدرسہ کی شاندار اور دیدۂ زیب عمارت بنوائی، یوں تو اس خاندان کا تعلق پورے ہندوستان کے علماء سے رہا ہے، لیکن مربی کی حیثیت سے مولانا محمد تسلیم رحمانی نائب ناظم جامعہ رحمانی اور مولانا سید محمد شمس الحق صاحب سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر سے بڑا مضبوط اور مستحکم رہا ، اس کی وجہ سے دولت کی ریل پیل کے باوجود یہ خاندان کبر وغرور سے دور اور خاندان کے تمام افراد کے چہرے پر داڑھی اور مذہب کی پابندی کے اثرات نمایاں ہیں، ان دونوں بزرگوں کے بعد یہ خاندان مذہبی معاملات میں مجھ سے رجوع کرتا ہے، میں نے اس خاندان کے کئی لڑکے لڑکیوں کا نکاح مسجد میں پڑھایا ہے ان لوگوں نے پانی اور ایک گلاس شربت بھی لڑکی والوں کی طرف سے قبول نہیں کیا،البتہ ولیمہ میں بڑا اہتمام ہوتا ہے اور دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔
 حاجی صاحب کے بھائی حاجی محمود عالم صاحب کی بہت ساری کتابیں شائع ہو چکی ہیں، اس میں حاجی محمد اسماعیل مرحوم کی حوصلہ افزائی کا بڑا دخل رہاہے ، ایسی با فیض اور نفع رساں شخصیت کا ہم سے جدا ہوجانا انتہائی غم والم کا سبب ہے، اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پورے خاندان کو صبر کی دولت سے مالا مال کر دے ۔ آمین یا رب العالمین

*ندائے فلک*📢 *کردار کی تاثیر*✒️📚📚📚📚📚*بہ🖋️ قلم : محمد* *انواراللہ فلک قاسمی

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

*ندائے فلک*📢 

*کردار کی تاثیر*✒️📚📚📚📚📚
اردودنیانیو۷۲
*بہ🖋️ قلم : محمد* *انواراللہ فلک قاسمی*
 *مؤسس و معتمد ادارہ سبیل الشریعہ رحمت نگر آواپور شاہ پور سیتامڑھی بہار و رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و نائب صدر جمعیت علماء ضلع سیتامڑھی بہار*
⚜️⚜️⚜️⚜️⚜️⚜️
کردار و عمل میں توافق و ہم آہنگی سے شخصیت مؤثر ہوتی ہے اور اس کی تاثیر سے ، بظاہر مشکل ترین کام ، صرف سہل نہیں ، بلکہ آسان ہو جاتا ہے ۔ اس وقت ملک کی سب سے بڑی تنظیم *آل انڈیا* *مسلم پرسنل لاء بورڈ*
 کی تحریک و ہدایت پر ، *یکساں سول کوڈ*
 کے موضوع سے ، ملک گیر سطح پر بیداری مہم کا سلسلہ جاری ہے اور *لاء کمیشن آف انڈیا*
 کو یکساں سول کوڈ سے متعلق خطرات ، اندیشے اور اس کے مضمرات پر مشتمل رائے بھیجی جارہی ہے اور یہ وقت کا اہم تقاضا ہے ۔
بہار کے مختلف اضلاع میں متعدد پروگراموں کے ذریعے ، *بیداری مہم*
 چلائی گئی ہے اور چلائی جارہی ہے اس میں *ضلع سیتامڑھی* کا بھی نمایا نام ہے ۔ یہاں کا سب سے پہلا پروگرام ، *امن و ہار ہوٹل*
 ، شہر سیتامڑھی میں منعقد ہوا اور اسی دن بعد نمازِ ظہر ، *ادارہ سبیل الشریعہ رحمت نگر آواپور شاہ پور* کی وسیع و عریض  *"مسجد ایمان"*
 میں ضلع کی بیشتر تنظیموں اور جماعتوں و جمعیتوں کے احباب و ارباب کے ساتھ اچھا اور نمائندہ پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا ۔ اس پروگرام کے کامیاب انعقاد پر *مفکر قوم ملت حضرت مولانا و مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نائب ناظم امارت شرعیہ ، رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ وصدر ادارہ خلیفہ و مجاز حضرت مولانااسلام صاحب نوراللہ مرقدہ* 
 نے اپنی خوشی کا اظہار فرمایا اور یہ بھی کہا کہ صرف دو دن  میں مشترکہ پروگرام ، کامیابی کے ساتھ منعقد کرنا اور علاقے میں کام کرنے کے لیے نوجوانوں کی ٹیم ترتیب دے کر اس کو مشغول کر دینا یہ بڑی بات ہے ، لیکن اس پروگرام کے بعد حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو یہ احساس ہوا کہ جس طرح *ادارہ سبیل الشر یعہ*
 میں پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا ہے اگر اسی طرح ضلع کی دوسری بڑی مسلم آبادیوں میں پروگرام منعقد ہوجائے تو بڑی تیزی کے ساتھ کام آگے بڑھے گا ۔ چنانچہ حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے ذاتی اثرات سے تحریک کی اور اس کے لیے ضلع کے فعال ، ذاکر و شاغل ، نوجوان  *حضرت قاری محمدمامون الرشید صاحب استاذ مدرسہ طیب المدارس پریہارخلیفہ ومجاز بیعت رشیدالامت حضرت مولاناعبدالرشید صاحب المظاہری شیخ الحدیث مدرسہ بیت العلوم سراٸے میر اعظم گڑھ یوپی* 
 کو مکلف کیا کہ نیپال کی سرحد سے متصل مسلمانوں کی بڑی آبادیوں میں یکساں سول کوڈ کے موضوع پر *بیداری مہم*
 کا نظام بنائیں ، اب وقت کم رہ گیا ہے اور کام بہت ہے ۔ بس کیا تھا کہ * قاری محمد مامون الرشید صاحب حفظہ اللہ *
 نے اپنے حلقۂ اثر کو متوجہ کیا اور تین ( 3) جولائی سے لے کر پانچ ( 5) جولائی تک *مسلسل بیداری مہم* کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اسی درمیان *عزیزی حافظ ابراراحمد غازی سلمہ * نے حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے گذارش کی کہ حضرت !  پروگرام کے اختتام پر، متصلاً اپنی رائے ، *لاء کمیشن*
 کو بھیجنے کا اہتمام و التزام کرایا جائے تاکہ کام میں تیزی آ سکے  ، تو یقیناً کام بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ جائے گا۔ یہ رائے حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ  کو بہت پسند آئی اور پورے نظام میں اس پر عمل کیا گیا ، ماشاءاللہ اس سے کاموں میں اضافہ  ہونے لگا اور بہار کی کارکردگی نمایا ہونے لگی ۔  ابراراحمد غازی اور دوسرے نوجوان اس کام کے لیے مسلسل مصروف عمل رہے ، اس طرح کاموں میں تیزی آئی اور بہار کی کارکردگی میں اچھا اضافہ ہوا ۔ حضرت مفتی صاحب نے ابراراحمد غازی کی حوصلہ افزائی کی اور پورے سفر میں اس عزیز کی گذارش سے فائدہ اٹھایا گیا ۔ اس طرح دوسرے  سفر کا آغاز * مدرسہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیرت گلی ، راجوپٹی سیتامڑھی*
 سے ہوا اس کے بعد *چکنی ، بھٹھا مور* کی * جامع مسجد *
میں بڑے پیمانے پر منعقد ہوا جہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ، وہاں *حضرت مولانا و مفتی نذیر احمد صاحب نقشبندی حفظہ اللہ*
 نے اپنی پوری جماعت کے ساتھ حضرت مفتی صاحب کا *والہانہ استقبال 
 کیا اور ایسی بیداری پیدا کی کہ ہر فرد نے اس کام کو اپنا کام سمجھا  ، یہاں تک کہ اپنی اور گرد و پیش کی پوری آبادی کو بیدار کردیا ، اس کے بعد میزبانوں کی ترتیب کے مطابق * مدرسہ طیب المدارس پریہار* میں رات کا قیام ہوا اور صبح ، بعد نمازِ فجر *مجاھدِ ملت اکابرِ* *دیوبند کے عکس جمیل ، حضرت مولانا* *حکیم ظہیر احمد* *صاحب خلیفہ و مجاز مخدوم بہار عارف باللہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق ناظم الجامعتہ العربیہ اشرف العلوم کنہواں*
 کی عیادت و زیارت اور ان کی با فیض مجلس سے استفادہ کیا گیا ۔ طے شدہ نظام کے مطابق صبح کی چائے کے بعد حضرت مفتی صاحب ، کنہواں پہنچے ۔ کنہواں ، چونکہ بڑی آبادی پر مشتمل ایک قصبہ ہے اور اس کے کئی محلے ہیں اور ہر محلہ میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے اس میں ایک محلہ *نام نگر*
 کے نام سے موسوم ہے اس پورے محلے پر *قاری محمد مامون الرشید صاحب*
 کے اچھے اثرات ہیں اور ان کی قریب ترین ، رشتہ داریاں بھی ہیں ، اس لیے وہاں کا نظام بھی بہت وقیع تھا اور میزبانوں کی بیداری کا جیتا جاگتا شاہکار  ثبوت بھی ۔ وہاں بھی پروگرام کے اختتام پر عملی پیش رفت ہوئی اور خوب ہوئی اس کے بعد *ایکڈنڈی پریہار* کی مسجد میں پروگرام کا انعقاد ہوا اور اسی دن شام میں پپراڑھی میں بعد نمازِ مغرب تا عشاء ایک بڑے پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا
جس کےمیزبان *فاضل نوجوان حضرت مولانا خورشید احمد صاحب قاسمی( خلیفہ* *ومجازحضرت مولانا حکیم ظہیر احمد صاحب قاسمی* *(پریہار) تھے*
 جس میں علاقے کے تمام مدارس کے ذمہ داروں کو بطورِ خاص دعوت دی گئی اور ان کی شرکت کو یقینی بنایا گیا اس طرح وہاں کا نظام بھی مثالی نظام رہا مختصر یہ ہے کہ راجوپٹی، سیتامڑھی سے لے کر چکنی ، پریہار ، ایکڈنڈی ، نام نگر کنہواں ، پپراڑھی ، چمڑا گڈاون بیرگنیا اور پتاہیں کا پروگرام *حضرت مولانا و مفتی محمد ثناء الھدیٰ  صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ 
 کے ذاتی اثرات اور *قاری مامون الرشید صاحب*
 کی فکر و مساعی اور جہدِ مسلسل سے بہت کامیاب رہا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ: *شخصیت کے کردار و عمل کی تاثیر بہت موثر ہوتی ہے*
 صرف بینر ، بوڈ ، عہدہ ، منصب ، نسب شور و غوغا اور تجویز و تجاوز مؤثر نہیں ہوا کرتے ۔
*آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ایک رکن* ہونے کی حیثیت سے میری بھی ذمہ داری بنتی تھی کہ:
 ہم اس نظام کو تقویت پہنچائیں، چنانچہ تمام پروگراموں میں شرکت رہی اور ہر ممکن تعاون دینے کی سعادت ملی ۔
*میں ذاتی طور پر* مخلص و محترم جناب *قاری محمد مامون الرشید صاحب*
 ، *قاری نیر صاحب*
 اور ان کی پوری ٹیم ، معاونین و محبین کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید ہی نہیں، بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ: جب کبھی *ملک و ملت* کو ہماری ضرورت پڑی ، تو ہم اپنے اسلاف کے نقشِ پا کے *علمبردار*
 اور ان کی شفاف زندگی کو اپنے لیے آئینہ بنائیں گے  ۔ان شاءاللہ 

💚♾️♾️♾️♾️💚

بدھ, جولائی 05, 2023

چین میں قدرت کا قہر، سیلاب سے لاکھوں زندگیاں مشکلات کی شکار، گرمی نے 60 سال کا ریکارڈ توڑ دیا

چین میں قدرت کا قہر، سیلاب سے لاکھوں زندگیاں مشکلات کی شکار، گرمی نے 60 سال کا ریکارڈ توڑ دیا

Urduduniyanews72 

بیجنگ: اس وقت چین میں قدرتی آفات کی وجہ سے لاکھوں افراد کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہیں۔ کہیں موسلادھار بارشوں سے سیلاب کا مسئلہ شروع ہوا ہے تو کہیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے چین کے لوگوں کی حالت ابتر ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ چینی حکام نے جولائی کے مہینے میں کئی قدرتی آفات سے خبردار کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ژنہوا کی رپورٹ کے مطابق ملک کے بعض حصوں میں شدید بارشوں کے باعث ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ان سب کو محکمہ کی وارننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا۔ محکمہ موسمیات نے وارننگ جاری کر دی ژنہوا کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ ملک کو جولائی میں سیلاب، طوفان اور شدید گرمی سمیت کئی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گلوبل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق چین میں رواں سال کی گرمی نے 60 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اور چلچلاتی دھوپ کے باعث سینکڑوں افراد جان لیوا گرمی کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ شدید بارشوں، جان لیوا گرمی اور حالیہ ژالہ باری سے ملک بھر میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ چین میں موسم کی وجہ سے مویشیوں کے ساتھ ساتھ فصلیں بھی خطرے میں ہیں۔ سیلاب کے ساتھ گرمی کی لہر جاری ہے شمال مغربی چین کے صوبہ شانشی میں ہفتے کے آخر میں 50 سالوں میں سب سے زیادہ بارش ہوئی۔ طوفانی بارشوں سے کئی مکانات اور سڑکوں کو نقصان پہنچا۔ گزشتہ ہفتے، صوبہ ہنان میں 10,000 سے زیادہ لوگوں کو سیلاب سے بچایا گیا جس نے 2,000 سے زیادہ گھروں کو نقصان پہنچایا۔ چینی میڈیا نے طوفانی بارش کی فوٹیج دکھائی جس میں سیلاب زدہ سڑک اور کاریں اور ہنان میں اپارٹمنٹ بلاکس اور دکانوں کے قریب۔ سیلاب کے ساتھ ساتھ ملک میں گرمی کی لہر بھی ریکارڈ کی گئی۔ چین کے قومی موسمیاتی مرکز نے بیجنگ اور ایک درجن دیگر علاقوں کے رہائشیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ گھر کے اندر ہی رہیں کیونکہ درجہ حرارت 35 ڈگری سیلسیس سے بڑھ گیا ہے۔

 مزید پڑھیں: فرانس میں خانہ جنگی جیسی صورتحال، فسادیوں نے میئر کے گھر، بینک اور شاپئنگ مال میں کی توڑ پھوڑ

بیجنگ میں گرمی کی لہر

موسمیاتی ایجنسی نے کہا کہ چین میں ماہانہ اوسطاً 4.1 دن اس سال کی پہلی ششماہی میں 35 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر گیا، جو کہ 1961 میں قومی ریکارڈ کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ جون میں بیجنگ میں کل 14 دن گرمی کی لہر جاری رہی۔ ماہرین نے ملک میں شدید موسم کی بڑی وجہ گلوبل وارمنگ کو قرار دیا ہے، جس کا تجربہ ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوا ہے، جہاں حالیہ ہفتوں میں مہلک ہیٹ ویوز اور ریکارڈ درجہ حرارت دیکھنے میں آیا ہے۔

منگل, جولائی 04, 2023

مہنگائی کی مار! ایل پی جی کے کمرشل سلنڈر کے داموں میں اضافہ

مہنگائی کی مار! ایل پی جی کے کمرشل سلنڈر کے داموں میں اضافہ

Urduduniyanews72 

نئی دہلی: ملک میں ایل پی جی سلنڈر کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، جس سے عوام کو مہنگائی کا ایک اور جھٹکا لگا ہے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے کمرشل ایل پی جی گیس سلنڈر کی قیمتوں میں 7 روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔ دہلی میں 19 کلو کے کمرشل ایل پی جی سلنڈر کی خوردہ فروخت کی قیمت 1773 روپے سے بڑھا کر 1780 روپے فی سلنڈر کر دی گئی ہے۔ گھریلو ایل پی جی سلنڈر کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

کولکاتا میں تجارتی سلنڈر کی قیمت بڑھ کر 1882.50 روپے ہو گئی ہے، جو پہلے 1875.50 روپے تھی۔ ممبئی میں کمرشل سلنڈر کی قیمت 1725 روپے سے بڑھ کر 1732 روپے ہو گئی ہے۔ جبکہ چنئی میں اس کی قیمت 1937 روپے سے بڑھ کر 1944 روپے کر دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دو ماہ سے 19 کلو کمرشل ایل پی جی گیس سلنڈر کے داموں میں کمی ہوئی تھی۔ یکم جون 2023 کو سلنڈر 83.5 روپے سستا ہوا تھا۔ اس سے قبل یکم مئی 2023 کو کمرشل سلنڈر کی قیمت میں 172 روپے کی کمی کی گئی تھی۔ اس دوران گھریلو کھانا پکانے والی گیس کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

ہفتہ, جولائی 01, 2023

نوجوانوں کے ذریعہ نور اردو لائبریری میں اسلامی کوئز مقابلہ کا انعقاد

نوجوانوں کے ذریعہ نور اردو لائبریری میں اسلامی کوئز مقابلہ کا انعقاد 
اردودنیانیوز۷۲ 
مہفشا ں احمد  نصرت اصغری  رہنما پروین نےعلی الترتیب اول دوم سوم انعام حاصل کیا

30 جون مہوا ویشالی شاردہ پستکالہ لال گنج کے بعد ویشالی ضلع کی سب سے بڑی لائبریری نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما  ویشالی میں اسلامی کوئز کے عظیم الشان مقابلہ کا انعقاد کیا گیا نوجوان کمیٹی کے فعال اور ممتاز رکن جناب محمد منظر عالم اور جناب عاقب اور ان کے احباب کے ذریعہ منعقد اسلامی کوئز مقابلہ میں بڑی تعداد میں بچے اور بچیوں نے حصہ لیا اور اپنی علمی صلاحیت کا بہترین مظاہرہ پیش کیا ہندوستان میں منعقد دیگر امتحان کی طرح اس مقابلہ میں بھی بچیوں نے بازی ماری چنانچہ اول انعام مہفشاں احمد ،دوسرا انعام نصرت اصغری اور تیسرا انعام رہنما پروین نے حاصل کیا جبکہ چوتھے نمبر پر محمد انوررہیں مقابلہ کے سوالات کے لیے چھوٹی چھوٹی پرچیاں بنائی گئی تھی اور انہیں ایک چھوٹے ڈ ڈبے میں رکھا گیا تھا ان بند پرچیوں میں سے پانچ کو مقابلہ کے شرکاء خود اٹھاتے تھے ان پرچیوں میں درج سوالات کے جوابات شرکا ءکو دینے ہوتے تھے تاکہ کسی بچے بچی کو یہ شکایت نہ ہو کہ اس سے مشکل مشکل سوالات پوچھا گیا اور دوسرے سے ہلکا مقابلہ کے جج محمد تاج الہدی رحمانی استاد مدرسہ فردوس العلوم لال گنج اور مولانا محمد وہاج الہدی قاسمی استاد مدرسہ حسینیہ چھپرا خرد تھے پروگرام کی صدارت امارت شریعہ کے نائب ناظم اور نور اردو لائبریری کے چیئرمین مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے کی انہوں نے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ اس قسم کے مقابلوں کے انعقاد سے بچے بچیوں میں مقابلے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور علمی اعتبار سے معلومات کا ذخیرہ ان کے پاس جمع ہوتا ہے انہوں نے حسن پور گنگھٹی کے فعال اور متحرک نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا جن کی محنت اور کاوش سے اس پروگرام کا انعقاد کیا گیا انہوں نے اس پروگرام کو مزید مفید اور مؤثر بنانے کے لیے طریقہ کار میں تھوڑی تبدیلی کا مشورہ دیا کامیاب امیدواروں کو مفتی ثناء الہدی قاسمی ،حافظ شریف صاحب امام حسن پور گنگٹی ،مولانا قمر عالم ندوی استاد مدرسہ احمدیہ ابا بکرپور اور منہاج الہدی کے ہاتھوں ایوارڈ اور نقد رقوم کی ادائیگی کی گئی مقابلے کے  شرکاءتحریم جبیں ،نماپروین،خوش نماں پروین ،من تشاء پروین ،رافیہ بانو،ثانوپروین،محمدانس،اور محمد دلشان کو تشجیعی انعامات بھی دیے گئے آئندہ مسابقہ کے لیے قران کریم کی چھوٹی سورتیں اور 20 احادیث کے حفظ کرنے کا ہدف طلبہ اور طالبات کو دیا گیا پروگرام کا اختتام حافظ شریف صاحب امام مسجد حسن پور گنگٹی کی دعا، محمد منظر عالم اور عاقب احمد کے شکریہ پر ہوا

جمعرات, جون 29, 2023

آج کا یہ دن یادگار ہےہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

آج کا یہ دن یادگار ہے
Urduduniyanews72 
آج عید الاضحٰی کا دن ہے،حدیث شریف میں اس دن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگارکہا گیا ہے، قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے؛ یہ بہت بڑا امتحان تھا، (سورةالصافات)
یادگار اور تاریخ ساز کیوں ہے؟اس کی تفصیل بھی قرآن میں لکھی ہوئی ہے کہ؛
خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں جو پہلی اولاد عطا کی وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں، ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنی اس پیاری اور اکلوتی اولاد کو خدا کی راہ میں قربان کر رہے ہیں، نبی کا خواب جھوٹا نہیں ہوتا ہے، بیٹے سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تم کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کررہا ہوں، تمہارا کیا خیال ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ؛ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے پورا کیجئے، ان شاء اللہ مجھے صابر پائیں گے،خدا کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان مقصود نہیں تھی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کاامتحان مقصود تھا کہ اپنی پیاری چیز میری راہ میں نذر کرتے ہیں یا نہیں؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بڑے امتحان میں کامیاب ہوئے تو خدا نے  اسی وقت نتیجہ بھی شائع فرمادیا کہ، واقعی آپ نے حق ادا کردیاہے،اپنےخواب کو حقیقت میں بدل کر رکھ دیاہے، یہ ایک انسان کے لئے بڑا مشکل کام ہےجو آپ نےکر دکھایا ہے، یہ امتحان بھی سخت ترین نوعیت کا ہے،اسمیں اپنی سب سے پیاری چیز مانگی گئی ہے، ایک کمزور انسان سے کمزوری اور بڑھاپے کے عالم میں بڑا مطالبہ کیا گیا ہے، گویا انسانی فطرت اور اس کے نبض پر ہاتھ رکھاگیا ہے، ایک انسان کے یہ بہت بڑا امتحان ہے،انسان اس میں کامیاب ہوسکتا ہےاور نہ اتنا سخت مطالبہ پورا کرسکتا ہے،باوجود اس کےحضرت ابراہیم علیہ السلام نےاسے پورا کردیا ، چنانچہ رزلٹ کے بعد انعام سے بھی اسی وقت وہ نوازے گئے ہیں۔
 جنت الفردوس سے انعام واکرام میں اسپیشل مینڈھا بھیجا گیا، خصوصی قاصداور مقرب ترین فرشتہ حضرت جبریل علیہ السلام لے کر حاضر ہوئے،اور وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر قربان کردیا گیا،پہلے انسان حضرت آدم سے لیکر قیامت تک کی انسانی تاریخ میں یہ قربانی تاریخ ساز ہوگئی، ،اس عمل کو خدا نے اس حد تک پسند فرمایا کہ قیامت تک کے لئےاس کی یاد کو جاری وساری فرمادیا،اس طرح یہ دن یادگاربن گیا ہے،نیزرب لم یزل ولایزال نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم میں اس واقعہ کوتفصیلی جگہ دے کرقیامت تک کے لئے زندہ وجاوید بھی کردیاہے،
تکبیر تشریق کیاہے؟
ایام تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد ہم ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھتے ہیں، اس کی حیثیت واجب کی ہے، یہ بھی آج ہی کےدن کی یادگار ہے،  یہ واقعہ بھی آج ہی کی تاریخ میں رونما ہوا ہے،حضرت جبریل نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلارہے ہیں، اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اسماعیل کوذبح نہیں ہونا ہے،بلکہ ان کے بدلہ بطور فدیہ جنت کے مینڈھےکی قربانی ہونی ہے،وہ دور سے بلند آواز میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگاہ کرنے کے لئےیہ کہنے لگے، "اللہ اکبر، اللہ اکبر" موحد اعظم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نظر جب حضرت جبریل پڑی تو یہ کلمہ زبان سے بے ساختہ جاری ہوگیا"لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر"
 حضرت اسماعیل علیہ السلام کوجب یہ علم ہوا کہ خدا نےمیری جان بخش دی  ہے، شکرانےکے یہ الفاظ  کہنے لگے"اللہ اکبر، وللہ الحمد"
 یہ تین بزرگوں کے تین بول ہیں، اسے مکمل ایک دعا کی شکل دیدی گئی ہے، اور پوری تکبیر تشریق یہ پڑھی جاتی ہے؛ الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر الله أكبر ولله الحمد "
یہ تکبیر بھی آج کے دن کی یادگار ہے،
آج عید الاضحٰی کے نماز کے لئے جاتے ہوئے اور واپسی میں آتےہوئے بھی اس تکبیر کو پڑھنا مسنون ہے۔
آج ہمیں عید الاضحٰی کے دن  کو  حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور ان کی یادگار کے طور پر دیکھنا اور محسوس کرنا چاہئے،ساتھ  ہی اپنی قربانی وخلوص سے اس دن کو ایک یادگار دن بنانے کی بھی ضرورت ہے،مگر ہمیں صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ برعکس ہوگیا ہے،دین کی بنیادی وابتدائی باتوں سے بھی ہم لاعلم ہیں، یہی وجہ ہےکہ قربانی کا بھی مقصود اصلی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ہے،قرآن میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ؛قربانی کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہونچتا ہے بلکہ خدا کے حضور دل کا تقوی اور خلوص پہونچتا ہے،اسی لئے  قربانی کی بنیادحضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل پر رکھی گئی ہے، انہوں اپنی  پیاری چیز اکلوتی اولاد کی  گردن پر آج کے دن چھری چلادی ہے،درحقیقت اس قربانی کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اپنی محبوب ترین چیز کو بھی اللہ کی راہ میں قربان کردینے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، مگر ہم آج جانور کی قربانی کرتے ہیں مگراس احساس کو زندہ نہیں کرپاتے ہیں اور قربانی کی روح کو اپنے اندرجاری نہیں کرپاتے ہیں، 
یہ ہمارے شرم کی بات ہے کہ آج ہم سے جانور کی قربانی تو ہوتی ہے مگراس کے  گوشت کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ  کرتے ہیں،اور جھوٹی تاویل سے کام لیتے ہیں، عید قرباں کے موقع پر یہ بات عام طور پر چرچے میں رہتی ہے کہ پہلے کی طرح اب لوگ قربانی کا گوشت لینے نہیں پہونچتے ہیں، کچھ حد تک  صحیح بھی ہے، مگر اپنی کمیوں کی طرف ہماری نگاہ نہیں جاتی ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے کی طرح قربانی کرنے والے مخلص لوگ اس وقت نہیں نظر آرہے ہیں، جو جانور کے ہر ہرعضو کو برابر تقسیم کرتے، ایک تہائی غربا کے لئے وہی نکالتے جو اپنے استعمال میں رکھتے،افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ اب لوگ صرف بڑے جانوروں میں غربا کا حق سمجھتے ہیں، اور چھوٹے جانوروں کا پورا گوشت خود سمیٹ لیتے ہیں، یہ عمل قربانی کی روح کے خلاف ہے،اس سے ہمیں بچنا چاہئے،بلکہ قربانی کا جذبہ تو یہ کہتا ہے کہ اس معاملہ میں یتیم ونادر اور مفلس کو خود پر ترجیح دینی چاہیے۔ موجودہ وقت کی ہوش ربا مہنگائی کےدور میں دیہات ہی نہیں بلکہ شہر میں بھی ایسے لوگ بستے ہیں جنہیں سال بھر بکرے کا گوشت  نصیب  نہیں ہوتا ہے،نہ کوئی انہیں اپنی شادی اور ولیمے میں مدعو کرتا ہے اور نہ ہمیں عید قرباں کے موقع پر انکی یادآتی ہے،آج قربانی کےبکرے کا گوشت عموما ایسے گھروں میں پہونچ رہا ہے جو خوشحال اور صاحب نصاب لوگ ہیں،سال بھر ان کے دسترخوان پر یہ موجود بھی ہوتا ہے،ان حالات میں غریبوں کو خوب سے خوب نواز کرآج کےدن کو ہم بھی یادگار بناسکتے ہیں،بالفرض ہمارے لئے پیاری چیز گوشت ہی ہےتو اسے بھی اللہ کی راہ میں قربان کردینے کا یہ دن ہم سے تقاضہ کرتاہے۔
ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...