Powered By Blogger

پیر, اگست 07, 2023

فسادات کی روک تھام کا نبوی طریقہ ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری ،تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

فسادات کی روک تھام کا نبوی طریقہ 
Urduduniyanews72 
ایک ویڈیو میوات سے موصول ہوئی ہے،ہرادران وطن کی ایک جماعت نےاسے وائرل کیا ہے،اس میں  پہلے ہرشخص نےاپنا نام اور پتہ بتایا ہے، پھر اپنی بات پیش کی ہے، اس کی ابتدا اسطرح ہوتی ہے؛" نمسکار ساتھیو! میرا نام ہے کرن سنگھ، گاؤں سولنبا،تحصیل نوح، ضلع میوات، یہ گاؤں میوات چھیتر میں آتا ہے،دوسرے لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ میوات کے لوگ ہمیں پریشان کرتے ہیں، میوات کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کہا جارہا ہے،اور یہاں کے ماحول کو خراب کرنے کے لئے کیا جارہا ہے، ابھی کل پرسوں جو حادثہ ہوا ہے،یہ باہر کے لوگوں نے کیا ہے، سرکار اس کی پوری طرح سے جانچ کرے، اور اس پر اچت کارروائی کرے، اس کے بعد راجیش کمار جی نے کہا ہے کہ؛"ہمارے یہاں بہت بڑھیاں بھائی چارہ ہے،یہاں امن چین سے ہم رہتے ہیں، یہاں ہمیں کوئی دقت نہیں ہے،باہر کے لوگ آکر ماحول خراب کرتے ہیں" نیزدرجن بھر سے زائد برادران وطن نے بھی یہی باتیں  آن کیمرہ اس ویڈیو میں پیش کی ہیں ۔
میوات یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے،فرقہ پرست لوگ اسے آگ کی نذر کردینا چاہتے ہیں، مگر یہ خوشی کی بات ہے کہ ہندو مسلم یہاں ایک ساتھ رہتے ہیں، اور آپس میں بھائی چارہ اور پیار ومحبت کی فضا یہاں بنی ہوئی ہے، اسی لئے فسادیوں کو میوات میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے،دنگائیوں نے گروگرام ودیگر مقامات پراپناغصہ نکالنے کی کوشش کی ہے، ایک مسجد پر رات کی تاریکی میں حملہ کرکے نائب امام کو گولی ماری گئی، نیزمسجد کونذر آتش کرکے اپنے آتش غضب کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام سعی کی گئی ہے ، جبکہ گروگرام ہی میں دوسری جگہ فضیحت کا بھی فسادیوں کو سامنا ہوا ہے، سوہنا کی شاہی مسجد پر بھی ایک ہجوم نے حملہ کیاتھا، مگر وہاں پڑوس میں رہنے والے سکھ بھائیوں نے مسجد کے امام صاحب اور پڑھنے والے بچوں کو اپنی جان پر کھیل کر بحفاظت نکال لیا ہے،یہاں پربھی فسادیوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔
آج ملک میں جہاں بھی دنگا ہوتا ہے، اس کے پیچھے گاؤں وسماج اور شہر کے سمجھدار لوگ نہیں ہیں، گاؤں، شہر اور ریاست سے باہرکے لوگ اس مقصد کے لئے امپورٹ کئے جاتے ہیں، ابھی  دہلی فساد میں بھی یہی دیکھنے میں آیا تھا، اور اب میوات اور ہریانہ فساد میں بھی یہی دیکھنے میں آرہا ہے۔میوات کو فساد میں جھونکے کی کوشش جنید اور ناصر کے قاتلوں نے کی ہے،یہ سبھی جانتے ہیں، یہ میوات سے باہر کے رہنے والے ہیں، ہنوز آزاد گھوم رہے ہیں، مگر سزا مقامی لوگوں کو دی جارہی ہے،میوات میں دکان ومکان بلڈوزگئے جارہے ہیں، دوسری طرف شرپسند عناصر جو باہر کے ہیں نقاب  پہن پہن کر غریبوں پر حملہ کررہے ہیں،ماحول ہنوز پر امن نہیں ہواہے،اس کی اصل وجہ کارروائی صحیح سمت میں نہیں ہورہی ہے،  ہریانہ کی ریاستی حکومت سے بہت زیادہ پر امید ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے،فساد کیوں ہوا؟ اس سوال کے جواب میں ریاستی وزیر داخلہ نے کہاکہ یہاں کی آبادی دو کروڑ کی ہے اور ساٹھ ہزار پولس کیا کرسکتی ہے؟ اس سے تو صاف حکومت کی نااہلی جھلکتی ہے۔
                ہم کو ان سے ہےوفا کی امید 
                جو جانتے نہیں وفا کیا ہے 

آج ہم اپنے طور کیا کرسکتے ہیں؟ فسادات کی روک تھام کے لئے کیا قربانی پیش کرسکتے ہیں؟ اور کونسا طریقہ اپناتے ہیں؟ ان عناوین پر غور وفکرکی ضرورت ہے، میوات سے اپنی ویڈیو کےذریعہ ہندو بھائیوں نے بڑا اہم پیغام دیا ہے،اس طرح کے لوگ ہر گاؤں، ہر سماج ،ہر شہراور ملک کی ہرریاست میں بستے ہیں،  سماج کے ان انصاف پسند لوگوں کو متحد کرکے ہم اندرون وباہر دونوں طرح کے حملوں سے اپنی حفاظت کا سامان کرسکتے ہیں، اپنے گاؤں،شہر اور سماج کو فساد کی شر سے محفوظ کرسکتے ہیں، یہ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، اسلام امن وسلامتی کی گارنٹی دیتا ہے،اور پیغمبر اسلام محمد صلی علیہ وسلم امن کے علمبردار رہے ہیں، قرآن میں یہ اعلان موجود ہے؛حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، (سورہ احزاب )
قرآن کریم کی اس آیت میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہر معاملہ نبی صلی اللہ کی  ذات کو اپنا آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے،  عقائد وعبادات، معاملات واخلاق، معاشرت ومعاشیات اور سیاست میں بھی آپ صلی علیہ وسلم کی ذات ہمارے لئے نمونہ ہے،
جن حالات سے ملک میں ہم سب اس وقت  دوچار ہیں، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو بھی ان کا سامنا ہوا ہے، مدینہ شہر رسول بھی دشمنوں کے نرغے میں رہا ہے،داخلی وخارجی دونوں طرح کے حملوں کے بیچ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لائحہ عمل کیا رہا ہے؟ اسے معلوم کرنے اور عمل میں لانے کی آج شدید ضرورت ہے۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں  طرح کے حملوں کاسد باب مدینہ پہونچتے ہی مسلمانوں اور یہودیوں کےدرمیان معاہدہ  کے ذریعہ ک

یا ہے، سیرت کی کتابوں میں اس کی تفصیل لکھی ہوئی ہے،معاہدہ کےخاص نکات یہ ہیں؛
یہود اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے، یہود یا مسلمانوں کو کسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک فریق دوسرے کی مدد کرے گا، کوئی فریق قریش کو امان نہیں دے گا،مدینہ پر حملہ ہوگا تو دونوں فریق شریک یکدیگر ہوں گے،(سیرت النبی)
 آج اس نوعیت کےمعاہدہ سے ہم تاریخی کارنامہ انجام دے سکتے ہیں، سد بھاونا کےنام پربڑےبڑےاجلاس منعقدکئےجاتےہیں،ہر دھرم کےلوگ اسمیں شامل ہوتے ہیں ،تو پھر کیوں  نہیں گاؤں یا شہر کی حفاظت کے نام پر مقامی لوگوں  کوہم اکٹھا کرسکتے ہیں،  بستی میں جب آگ لگتی ہے تو دھوان ہرجگہ پہونچتا ہے، اور نقصان پورے گاؤں کا ہوجاتا ہے۔راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے؛
          لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں 
           یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

یہی پیغام لیکر حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہوئے تھے، پیام انسانیت کے نام پر لوگوں کو ایک جگہ بلاکر انسانیت کی بات کہتے،اور" مانوتا کا سندیش" کے عنوان پر دراصل معاہدہ والی سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احیاء فرمارہے تھے، افسوس کہ اس نازک  وقت مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں،مگر ہم زندہ ہیں تو زندگی کا ثبوت پیش کریں،اگر ایسا ہم نے کر لیا تو بڑی کامیابی ہمیں نصیب ہوگی، ان شاء اللہ العزیز ہم ان منصوبہ بند فسادات کا سد باب کرسکتے ہیں، برادران وطن ہمارے ساتھ ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے کی دنیا وآخرت دونوں کامیاب ہوتی ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری ،تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۷/اگست ۲۰۲۳ء

شادی کا فلسفہ اور مقصد ✍️ مولانامحمد قمر الزماں ندوی

شادی کا فلسفہ اور مقصد 
اردودنیانیوز۷۲
مولانامحمد قمر الزماں ندوی

   معاشرتی زندگی کی بنیاد نکاح ہے،یہ کام شریعت اسلامی میں بہت ہی پسندیدہ اور عند اللّٰہ مستحسن ہے کہ کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ازدواجی تعلق قائم کرکے اس کے ساتھ اپنی پوری زندگی خوشی خوشی عفت و عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے ۔اسلام میں نکاح جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے، اور رہبانیت یعنی بلا شادی زندگی گزارنا مذموم ہے،نکاح تمام نبیوں کی سنت ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،،ولقد ارسلنا رسلنا من قبلک و جعلنا لھم ازواجا و ذریتہ ،، (سورہ رعد) اور ہم نے یقینا آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں اور بچے دیے،، ۔۔۔
 حضرت ابن عباس رض سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،،پانچ چیزیں انبیاء کرام کی سنتوں میں سے ہیں حیاء،بردباری وتمحل ،حجامت،خوشبو،اور نکاح ۔۔۔مجمع الزوائد باب الحث علی النکاح ۔۔
  صالح اور نیک کار بندوں نے نیک و صالح بیوی اور اولاد کے لیے دعا کی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ،،ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریاتنا قرت اعین ،،سورہ فرقان ۔۔
اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت عطا فرما ۔۔۔
   شادی شدہ ایک ایسے سکون و اطمینان اور محبت و الفت سے ہمکنار ہوتا ہے، جو کسی اور ذریعہ سے میسر نہیں ہوسکتا ۔۔قرآن مجید میں متعدد آیات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
   نکاح ایک ایسی دولت اور نعمت ہے بلکہ یہ وہ عبادت ہے، جس کے ذریعہ انسان کو سکون واطمینان اور صحت و عافیت نصیب ہوتی ہے ،اس کے اندر ایثار و قربانی محبت و الفت ،اجتماعی زندگی گزارنے اور مل جل کر رہنے کا جذبہ اور سلیقہ پروان چڑھتا ہے،نکاح کے بے شمار فائدے ہیں ،ایک مومن کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے ذریعہ اس کا نصف ایمان مکمل ہوجاتا ہے اور ایمان ایسی بیش قیمت دولت ہے جس کا دنیا میں کوئی عوض اور بدلہ نہیں ہوسکتا، اس کا بدلہ خدا کی خوشنودی اور جنت ہے ۔
    نکاح شریعت اسلامی کی نظر میں عبادت بھی ہے اور ایک معاہدہ اور پیکٹ بھی، لیکن بدقسمتی سے اکثر لوگ نکاح کو عبادت نہیں سمجھتے، اس کو محض ایک معاہدہ ،رسم اور پیکٹ سمجھتے ہیں ،جبکہ نکاح عقد اور معاہدہ کے ساتھ ایک اہم عبادت بھی ہے ،نکاح کی مجلس میں شرکت کرنے والا ،عقد کرانے والا ،گواہ بننے والا ،ایجاب و قبول کرانے والا ،اور اس مسنون اور مبارک مجلس میں شرکت کرنے والے کا مقام نفلی عبادت کرنے والے سے بڑھ کر ہے ۔
   بقول حضرت علی میاں ندوی رح ،، عام عبادت نماز ،روزہ حج اور زکوٰۃ جز وقتی عبادت ہے ،جس وقت یہ عبادت آپ انجام دیتے ہیں اس وقت آپ کو اس کا ثواب ملتا ہے، پھر دوبارہ جب انجام دیں گے تب ملے گا ،لیکن نکاح ایک کل وقتی یعنی پوری زندگی عبادت ہے، اس کے ثواب کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، کبھی رکتا اور ختم نہیں ہوتا، آخری سانس تک میاں بیوی کو ایک دوسرے کو دیکھنے پر ،ایک دوسرے کی خدمت کرنے پر ،ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے پر ،میاں بیوی کے باہمی حقوق ادا کرنے پر، ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے پر ملتے رہتا ہے ،اور اجر و ثواب کا یہ سلسلہ شریکین کے درمیان تاحیات جاری رہتا ہے۔۔۔۔
  الغرض نکاح یہ ایک عظیم عبادت اور مضبوط معاہدہ ہے، جو تمام نبیوں کی سنت اور طریقہ ہے، اس کے ذریعہ انسان زنا اور دیگر فواحش و منکرات سے محفوظ ہوجاتا ہے اور مختلف قسم کی برائیوں اور تفکرات و تصورات سے آزاد ہوجاتا ہے،اسی کے ساتھ محبت و الفت سکون واطمینان ،راحت و آرام ایثار و قربانی اور نسل انسانی کی افزائش و فروغ کے وہ نمایاں فوائد ہیں ،جن کا حصول دیگر ذرائع سے ممکن نہیں، اس لیے حکم شریعت ہے کہ جو صاحب استطاعت و وسعت ہوں وہ جلد اس مبارک عمل کو انجام دیں اور اس میں تاخیر سے گریز کریں ۔اس کے ساتھ ہی نکاح کی حمکت ،مصحلت ،اغراض و مقاصد ،فوائد اور اس کا فلسفہ شریعت میں کیا ہے؟ وہ بھی ہمارے پیش نظر رہے تاکہ اس کی روشنی میں ہم ازدواجی زندگی کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنا سکیں اور نکاح کے بعد زندگی کے کسی موڑ پر تلخی اور ناخوشگواری پیدا نہ ہوسکے اور محبت و الفت اور رآفت و رحمت کی زندگی ہمیں نصیب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم یہاں 
امام الہند مولانا "ابوالکلام آزاد " کا ایک خط نقل کرتے ہیں، جو انہوں نے ایک عزیز کو شادی کے موقع پر لکھا تھا، جس میں شادی کے فلسفہ پر اسلامی نقطہ نظر سے مدبرانہ اور فاضلانہ طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۔ ۔
ملاحظہ فرمائیں :
عزیزی! تمھارا خط پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی،تعلیم کی تکمیل کے بعد اب تمہیں زندگی کی وہ منزل پیش آ گئی ہے جہاں سے انسان کی شخصی ذمہ داریوں کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے یعنی تمھاری شادی ہو رہی ہے میرے لیے ممکن نہیں کہ اس موقع پر شریک ہو سکوں لیکن یقین کرو کہ میری دل کی دعائیں تمھارے ساتھ ہیں اپنی جگہ اپنی دعائیں تمھارے پاس بھیج رہا ہوں۔
اللہ تعالی اس تقریب کو برکت وسعادت کا موجب بنائے اور تمھاری یہ نئی زندگی ہر اعتبار سے کامیاب ہو۔
میں اس موقع پر تمھیں یاد دلاؤں گا کہ بحثیت مسلمان تمھیں چاہیے۔۔۔ازدواجی زندگی یعنی شادی کی زندگی کا وہ تصور اپنے
سامنے رکھو جو قرآن حکیم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (21)الروم
خدا کی حکمت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کر دیے ہیں یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کےلیے مرد لیکن خدا نے ایسا کیوں کیا؟
اس لیے کہ تمھاری زندگی میں تین چیزیں پیدا ہو جائیں جن تین چیزوں کے بغیر تم ایک مطمئن اور خوش حال زندگی حاصل نہیں کر سکتے وہ تین چیزیں یہ ہیں : سکون مودت رحمت لتسکنو الیھا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ ۔
"سکون"عربی زبان میں ٹھراؤ اور جماؤ کو کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تمھاری زندگی میں ایسا ٹھراؤ اور جماؤ پیدا ہو جائے کہ زندگی کی پریشانیاں اور بے چینیاں اسے ہلا نہ سکیں۔
"مودت" سے مقصود محبت ہے قرآن کہتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی تمام تر بنیاد محبت پر ہے شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے اس لیے رشتہ جوڑتی ہے تا کہ ان کی ملی جلی زندگی کی ساری تاریکیاں محبت کی روشنی سے منور ہو جائیں ۔
لیکن محبت کا یہ رشتہ پائیدار نہیں ہو سکتا اگر رحمت کا سورج ہمارے دلوں پر نہ چمکے رحمت سے مراد یہ ہے کہ شوہر اور بیوی نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کریں بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کی غلطیاں اور خطائیں بخش دیں اور ایک دوسرے کی کمزوریاں نظراننداز کرنے کےلیے اپنے دلوں کو تیار رکھیں
"رحمت کا جذبہ خود غرضانہ محبت کو فیاضانہ محبت کی شکل دیتا ہے" ایک خود غرضانہ محبت کرنے والا صرف اپنی ہی ہستی کو سامنے رکھتا ہے لیکن رحیمانہ محبت کرنے والا اپنی ہستی کو بھول جاتا ہے اور دوسرے کی ہستی کو مقدم رکھتا ہے ۔ رحمت ہمیشہ اس سے تقاضا کرے گی کہ دوسرے کی کمزوریوں پر رحم کرے غلطیاں، خطائیں بخش دے ۔ غصہ ، غضب اور انتقام کی پرچھائیاں بھی اپنے دل پر نہ پڑنے دے۔
                  (ابوالکلام آزاد)  

               * دارالتحریر*   

  قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) 
ترسیل۔۔۔ انس مسرورانصاری
رابطہ/9453347784/
شادی کا فلسفہ اور مقصد 

✍️ مولانامحمد قمر الزماں ندوی

اتوار, اگست 06, 2023

مولاناسہیل احمد ندوی ؒ۔موت ایسی جس پر رشک کرنے کو جی چاہے✍️✍️✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ

مولاناسہیل احمد ندوی ؒ۔موت ایسی جس پر رشک کرنے کو جی چاہے
Urduduniyanews72
✍️✍️✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ 
—-----------------------------------------------
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھار کھنڈ کے نائب ناظم ،امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری، مولانا منت اللہ رحمانی ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ، قاضی نو رالحسن میموریل اسکول پھلواری شریف اور دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے سکریٹری مولانا سہیل احمد ندوی کا25؍جولائی 2023 مطابق 6محرم الحرا م 1445بروز منگل کٹک سے120کلو میٹردور بالو گاؤں مسجد میں ظہر کی سنت ادا کرتے ہوئے دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ میں 1بج کر16منٹ پرانتقال ہو گیا،جنازہ کی ایک نماز بعد نماز عصر بالو گاؤ ں مسجد کے صحن میں مولانا صبغت اللہ قاسمی معاون قاضی امارت شرعیہ کٹک نے پڑھائی ،دوسری نماز جنازہ بعد نماز مغرب ٹوٹی پارہ، اڈیشہ میں ادا کی گئی ،پٹنہ میں جنازہ کی نماز 12بج کر 15 منٹ پر امارت شرعیہ پھلواری شریف کے احاطے 26جولائی کو قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی قاسمی نے پڑھائی اس کے بعد جنازہ ان کے آبائی گاؤں بگہی،تھانہ دیوراج ،بلاک لوریا موجودہ ضلع مغربی چمپارن لے جایا گیا، آخری نماز جنازہ کی امامت حضرت مولانا شمشاد رحمانی قاسمی نائب امیر شریعت نے کی، دونوں جگہ علی الترتیب مفتی وصی احمد قاسمی، مفتی محمد سہراب ندوی قاسمی ، حضرت نائب امیر شریعت اور قائم مقام ناظم نےجنازہ کی نماز سے قبل خطاب فرمایا، جنازہ کے بعد آبائی قبرستان میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں تدفین عمل میں آئی۔پس ماندگان میں اہلیہ دو لڑکے اور ایک لڑکی کو چھوڑا۔ امارت شرعیہ کے تمام شعبے اور اس کے ذیلی ادارے ہوسپٹل ،ٹکنیکل،دارالعلوم الاسلامیہ اور المعھد العالی کے ذمہ داران، کارکنان،اسا تذہ ،طلباءاور مسلمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔مجھے بھی دونوں جگہ شرکت کی سعادت نصیب ہوءی
مولانا سہیل احمد ندوی بن شکیل احمدبن وکیل احمد بن شیخ عدالت حسین جالیاکی پیدائش بگہی گاؤں کے ایک زمین دار اور متمول گھرانے میں سرکاری کاغذات کے مطابق ۵؍ جون 1962ء کو ہوئی، ان کے پردادا شیخ عدالت حسین جالیا،مجاہد آزادی اورگاندھی جی، مولانا ابوالمحا سن محمد سجادؒ وغیرہ کے رفقاء میں تھے،ابتدائی تعلیم گاؤ ں کے مکتب سے حاصل کرنے کے بعد حفظ قرآن کے لئے جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن میں داخل ہوئے اور وہیں سے حفظ کی تکمیل کی،1976 میں مدرسہ اسلامیہ بتیا آگیے اور عربی وفارسی کے ابتدائی درجات کی تعلیم یہاں پائی، 1979میں دار العلوم دیو بند میں داخلہ لیا اور عربی ششم کی تعلیم کے بعد قضیہ نامرضیہ کے زمانے میں وہ دارالعلوم چھوڑ کر ندوۃ العلماء لکھنؤ چلے آئے اور یہیں سے 1987میں امتیازی نمبرات سے فضیلت کی سند حاصل کی، دوران طالب علمی وہ جمعیۃ الاصلاح کے سکریٹری بھی رہے، فراغت کے بعد حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ( جو ان دنوں ناظم امارت شرعیہ تھے ) کے حکم سے دفتر نظامت میں بیٹھ کر مبلغین حضرات کی رپورٹ کی اصلاح کرکے نقیب میں دینے کی ذمہ داری تفویض ہوئی، تین ماہ تک نقیب میں اللہ کی باتیں اور رسول اللہ کی باتیں بھی لکھتے رہے، پھر حضرت امیر شریعت رابع ؒ کی اجازت سے دفتر نظامت میں کارکن کی حیثیت سے بحال ہوئے۔پہلے معاون ناظم،پھر نائب ناظم ،اس کے بعد ٹرسٹ کے سکریٹری منتخب ہوئے،مفتی جنید صاحب کے بعد دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے ناظم بنائے گئے اور زندگی کی آخری سانس تک ان عہدوں کے تقاضے کو پورا کر تے رہے،کٹک کا سفر بھی یو نیفارم سول کوڈکے خلاف بیداری مہم کے لئے کیا تھا،راور کیلا سے وہ ۲۵؍جولائی کو کٹک پہونچے تھے،120کلو میٹر دوربالو گاؤں میں انہیں ایک اجتماع کو خطاب کرنا تھا، ظہر کی نماز کے لیے وضو کیا،سنت کی نیت باندھی ایک رکعت مکمل کیا اور دوسری رکعت کے دوسرے سجدے میں چل بسے،دین کے کام کے لئے سفر،مسافرت کی موت اور وہ بھی سجدے میں سبحان اللہ العظیم کہتے ہوئے، مغفرت اور بخشش کے کتنے اشارے اللہ نے جمع کر دئیے ہیں، 
مولانا کی ذاتی زندگی انتہائی سادہ تھی، جتنے عہدے ان کے پاس امارت شرعیہ کے تھے اس میں وہ چاہتے تو ہر جگہ چار چکہ سے جاتے، ان کے شعبہ میں گاڑیاں دستیاب بھی ہیں، اور خود ان کے پاس اپنی گاڑی بھی تھی لیکن انہوں نے اپنا چلن اور روش نہیں بدلی اور نہ کبھی بڑے عہدوں پر فائز ہو نے کی وجہ سےاپنا سماجی اسٹیٹس بڑھانے کی کوشش کی، وہ ایک بائیک رکھے ہوئے تھے، ہر جگہ اسی سے دوڑ لگاتے ، گاڑی کا استعمال شاید بایدہی کبھی کرتے، بڑے عہدے پر متمکن ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ ہم عہدوں کے اعتبار سے دوسروں سے بڑے ہیں، وہ سب سے گھل کر ملتے، مزاج میں ظرافت تھی، اس لیے مجلس کو باغ وبہار بنائے رکھتے، جنازے میں امنڈنے والی بھیڑ اور تعزیتی پیغامات سے لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ کس قدر مقبول تھے، دفتر سے زیادہ ان کے گاؤں جا کر معلوم پڑا کہ گاؤں ہی نہیں قرب وجوار کے لوگ بھی ان سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ 
 وہ جلد سونے اور سحر خیزی کے عادی تھے، قرآن کریم بہت اچھا پڑھتے تھے اور یاد بھی اچھا تھا، زمانہ تک امارت شرعیہ میں تراویح میں قرآن سنایا کرتے تھے اور ان کے پیچھے قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سید نظام الدین صاحب رحمھما اللہ جیسی عبقری شخصیت ہوا کرتی تھی، بعد میں تلاوت کا معمول تو باقی رہا ، مگر امارت کے بیت المال کے استحکام اور دارالعلوم الاسلامیہ کی مالیاتی ضرورت کے لیے ہونے والے اسفار کی وجہ سے تراویح میں قرآن سنانے کا معمول جاتا رہا، وہ رات کے حصہ میں روزانہ بلا ناغہ سورۃ یٰسین اور سورہ واقعہ پڑھا کرتے تھے، سفر میں بھی یہ معمول باقی رہتا تھا۔ 
  میں آج سے کوئی 20؍سال قبل مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی سے حضرت امیر شریعت سادس کے حکم پر امارت شرعیہ آیا اس زمانے میں وہ معاون ناظم ہوا کرتے تھے،انہوں نے زمانہ دراز تک قاضی نورالحسن میموریل اسکول کے سکریٹری کی حیثیت سے کام کیااور ابھی بھی وہ اس عہدہ پر متمکن تھے،وہ جری،ملنسار،اور انتظامی امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے، پلاننگ، منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآوری کی شکلوں پر ان کی گہری نظر تھی،کئی لوگ انہیں دفتر میں ’’بھیا ‘‘کہا کرتے تھے۔ایڈ جسٹمنٹ کی غیر معمولی صلاحیت ان میں تھی،وہ ہر دور میں امراء شریعت کے معتمد رہے،دفتر کے ذمہ داران اور کارکنان ان کی صلاحیت کے قائل تھے،راقم الحروف سے ان کے تعلقات مخلصانہ تھے،امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے میں ہم ایک دوسرے کے معاون ہوا کرتے تھے اور مشاورت سے کام آگے بڑھتا تھا،انتقال کے دن بھی ہم لوگوں نے صبح8؍بجے دیر تک زوم(ZOOM) پر مشورہ کیا تھا ،کیا معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی،اللہ مغفرت فرمائے پس ماندگان کو صبر جمیل اور امارت شرعیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔الوداع ،الوداع،الوداع انشاءاللہ اب قیامت میں ملاقات ہوگی۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ آمین

نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جا تی انس مسرورانصاری * دارالتحریر* قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر (ہو،پی)

   ۔۔۔۔کڑ و ا شر بت ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
      * انس مسرورانصاری
         ایک عالمی سروے کےمطابق گزشتہ پانچ سالوں میں دوسرے مذاہب کے تیرہ کروڑافراد نےمذہب اسلام کوقبول کیا۔ان میں ہرقوم ہرطبقہ ہر فرقہ اور فکر و خیال کےافراد شامل ہیں۔اعلا درجہ کے تعلیم یافتہ افرادکےعلاوہ پسماندہ،ناخواندہ۔آدی واسی حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔اخبارات اور سوشل میڈیا کے مطابق گزشتہ دنوں شہرمرادآباد(یو،پی)میں پچاس دلتوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیاجن کوکلمہءطیبہ پڑھتے ہوئے ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔(ایسی خبروں کومیڈیا والےظاہرنہیں کرتے) 
       دنیامیں تیزی کےساتھ اسلام پھیل رہاہے۔ایسا معلوم ہوتا ہےکہ بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرےگاکہ اسلام دنیا کا سب سےزیادہ مقبول عام مذہب ہوجائےگا۔اس کی بنیادی وجہ اسلام کی اپنی کشش،اس کا نظام حیات وکائنات اوراس کے دشمنوں کی طرف سے پھیلائی جانےوالی غلط فہمیاں اور نفرت انگیزیاں ہیں۔قرآن کریم کے نسخوں کی بےحرمتی اوراس کوجلانا۔پیغمبراسلام کی شان میں گستاخیاں اورمسلمانوں کے خلاف انتہائی ظالمانہ شرانگیزیاں۔ایسے معاملات ہیں جو صالح ذہن وفکر کےعناصر اورغیرمتعصب،انصاف پسندافرادکو سوچنےپر مجبور کرتے ہیں کہ آخر اسلام میں ایساکیا ہےجس کے خلاف اس قدرشورشرابےاور ہنگامےاٹھائے جارہےہیں۔؟اس مقام پر انھیں اسلام اور پیغمبراسلام کےبارےمیں مطالعہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔اورجب حقیقت کاسامنا ہوتا ہےتووہ بےساختہ پکار اٹھتےہیں۔لا الہ الاﷲ محمد الرسول اﷲ۔۔اسلام ایک ایسانظام سیاست و معیشت پیش کرتاہےجس کی کوئی مثال نظرنہیں آتی۔اس پرآشوب زمانہ میں صرف اسلام ہی انسان کےدکھوں اور پریشانیوں کا حل ہے

    وہ دن قریب ہے جب انڈیا میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف منو وادیوں کی ساری نفرت انگیزیاں،شر پسندیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ ہندو رہنماؤں کو یورپ سے سبق سیکھناچاہیے۔جہاں اسلام اتنی سرعت سے پھیل رہا ہے کہ اس کے دشمن اورحاسدین بوکھلاکررہ گئیے ہیں۔ان کی عقلیں سلب ہوگئی ہیں۔ یہی حال انڈیا میں ہونے کےآثارمو جود ہیں۔بس مسلمان اپنی بیداری کا ثبوت فراہم کریں اور سارے مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈال دیں۔اسلام کو اپنے کرداروعمل سےظاہرکریں۔اس کے سواامن و عافیت کا کوئی اور دوسرا راستہ نہیں۔یہ مسلمانوں کی ذمہ داری بھی ہےاور فرض بھی۔ورنہ وہ خدا ورسول کے مجرم ہوں گے۔خدا کے رسول ﷺ نے یہی کیاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کوکردارو عمل کی بنیادپرکھڑاکیا۔عام اعلان حق سےپہلےآپ نے اپنے کردار وعمل سے اسلام کوظاہرکیا۔پھر بعدمیں اعلان حق فرمایااور لوگوں کواس کی دعوت دی۔مسلمانوں کو بھی یہی کرناہوگا۔اسلام کواپنےکرداروعل سے ظاہرکریں۔ 
     جہاں تک مسلم لڑکیوں کےارتدادکامعاملہ ہے،وہ یک طرفہ سچ نہیں ہے۔ سچ یہ ہےکہ یہ ایک ڈرامہ ہےجو مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کرنے کےلیےکھیلاجا رہاہے۔ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکیاں بناکرارتدادکافتنہ اٹھانے والےیہ نہیں جانتے کہ اس کا ردعمل خودانھیں کے خلاف اوراسلام کےلیےموافق وسازگار ہو کررہےگا۔یادرکھئے۔ہرایکشن کاایک ری ایکشن ہے۔ہر عمل کاایک ردعمل ہے۔ 
       آج بےشمار ہندو خواتین نقاب لگاکرمسلم عورتوں کے لباس میں اﷲ اوراس کے رسول کے نام پرمسلم گھروں میں جاکربھیک مانگ رہی ہیں۔میری نظرمیں ایسی درجنوں خواتین ہیں جن کاپیشہ ہی نقاب لگاکر بھیک مانگنا ہے۔
       مانتا ہوں کہ ارتداد کافتنہ موجود ہے۔ لیکن اس کی ذ مہ داری مسلم نوجوانوں پر آتی ہے۔ وہ اگراپنی لالچی اور حریص ذہنیت سے باز آ جائیں تو بازی پلٹ سکتی ہے۔ارتدادکےطوفان کوروکنےکےلیےمعاشرتی اصلاح اور خود اپنی کردار سازی کی ضرورت ہے۔۔مسلم بچیوں کوگمراہ کرنےکےلیےہندوتنظیموں کا لاکھوں روپیہ خرچ کرنا۔نوکری اور فلیٹ کی گارنٹی۔ لیکن افسوس کہ یہ ہندو فرقہ پرست تنظیموں کےغیردانش مند افراد نہیں جانتے کہ وہ کن ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اپنے سیاسی مقاصد کےلیے مذہب کے نام پر گمراہ کرنے والے ان کے رہنماؤں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کی بیٹیاں،بھتیجیاں اور بہنیں مسلمانوں کے گھروں میں خوش حال ازدواجی زندگی بسر کر رہی ہیں اور ان کے سرپرستوں کو کوئی اعتراض نہیں۔ ہسٹری اٹھاکر دیکھ لیجئے۔مجھے نام لینے کی ضرورت
 نھیں
  موجودہ حالات میں مسلمانوں کےلیے گمراہ کن ہندو شدت پسندوں کی سرگرمیاں ایک بڑی وارننگ اور انتباہ ہیں۔اب مسلمانوں کوبیدارہوجاناچاہئے۔
     آج کتنے ہی ہندو بھائی منتظر ہیں کہ مسلم سماج انھیں قبول کرے تو وہ اسلام قبول کرلیں۔مگر شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ 
     ہمارے قصبہ کےکئی ہندو، مسلمان ہوئے۔ ہندو رہنماؤں نے انھیں طرح طرح کےلالچ دیئے۔ ڈرایا،دھمکا یا۔یہاں تک کہ انھیں جیل تک کاٹنی پڑی ۔ قسم قسم کی تکلیفیں اٹھائیں لیکن ہندو دھرم میں واپس نہ گئے۔وہ آج بھی معمولی مزدورہیں۔اس کااجرتو اللہ ہی انھیں دےگاجن مشکل حالات میں وہ اسلام کے دامن سےلپٹےرہے۔ لیکن مسلم سماج نے انھیں قبول نہ کیا۔کوئی مسلم خاندان انھیں اوران کے بچوں کو شادی کےلیےنہ لڑکا دینےکےلیےتیارہےاورنہ لڑکی۔ دور دراز کے علاقوں میں ان کی شادیاں ہوتی ہیں۔ پھربھی وہ اسلام پر قائم ہیں۔ یقینی طور پر وہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ہمارا قصبہ مسلم باہلی چھہتر یعنی مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ کپڑے کی صنعت کے لیے بہت مشہور ہے۔ شاید ہی کوئی گلی ایسی ہوجس میں لکھ پتی اور کروڑپتی لوگ آبادنہ ہوں۔ یہ تجارت پیشہ افرادہیں مگران میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جوان (اصل) مومنوں کی معیشت کوبہتربناسکے۔ وہ آج بھی مزدورہیں۔ ان کے بچے بھی مزدوری کرتےہیں۔جس قوم کا یہ حال ہو وہ بھلا کس طرح فلاح پاسکتی ہے۔ 
      مسلمانوں کابکھراہوامسموم معاشرہ کسی نوارد مسلمان کو خود میں ضم کرلینے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے۔وہ بھول گیا کہ جس رسول پر اپنی جان فداکرنےکاجھوٹادعوااورپروپیگنڈہ کرتاہے،اسی نبی ﷺ نےباربارفرمایاکہ ۔۔۔ مسلمان، مسلمان کابھائی ہے۔اس کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو وہ خود اپنے لیے پسندکرتاہے۔۔۔۔ اسےنقصان نہ پہنچائے۔۔۔۔اس سےخیر خواہی کا معاملہ کرے۔۔۔۔،، 
       اس سے پہلے کہ ہم اقوم عالم کو اسلام کاپیغام دیں،ہمیں خود اس کے پیغام پر عمل کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے کردار وعمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہےاور اپنے بھائی کےلیے وہی کچھ پسند کرتاہے جو وہ خود اپنے لیے پسند کرتاہے۔یہودیوں میں ایک روایت مشہورہےکہ جب فجر کی نماز کےلیے مسجدیں جمعہ کی نماز کی طرح بھرنےلگیں توسمجھ لو کہ یہودیت کا خاتمہ ہوچکا۔اس وقت ساری دنیا پر اسلام اورمسلمانوں کی حکمرانی ہو جائے گی۔،، 
      جس روز ایسا ہو گیا۔ وہ اسلامی انقلاب کاپہلا دن ہوگا۔تب کوئی مرتدنہ ہوگا۔کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوگی۔ وہ سب
 
   کچھ چھوڑچھاڑکراسلام کے دامن سے لپٹ جائے گا۔اسے اٹھارہ کروڑ دیوی دیوتاؤں کی ضرورت نہ ہوگی۔ 
     ہمیں مرتد بچیوں کو گالیاں دینےاوربرابھلاکہنےسے پہلے اپنےلالچی،بےغیرت اور حریص بچوں کو گالیاں دیناچاہئیےاوراگرایمانی غیرت ہو تو خوداپنے آپ کو بھی گالیاں دےلیں۔اورخودہی کو برابھلاکہیں۔ 
       مرتد ہوجانے والی بچیوں کی فکر نہ کیجئے بلکہ اپنے بچوں کے لالچ اور ذہنی دیوالیہ پن کی فکرکیجئے۔ اپنی معاشرتی خرابیوں کے تدارک پرنگاہ کیجئے۔اپنی کوتاہیوں کو چھپانےکےلیےکالجوں اور یونیورسٹیوں کوبدنام نہ کیجئے۔۔
       تاریخ بتاتی ہےکہ جب بھی اسلام کےخلاف فتنے کھڑےکیےگئیے،اسےاورزیادہ ترقی اور عروج حاصل ہوا ہے۔#
        اسلام کو فطرت نے کچھ ایسی لچک دی ہے
        جتنا ہی دباؤ گے، ا تنا ہی یہ ا بھر ے گا

     نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا
      مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جا تی 
            انس مسرورانصاری
                            * دارالتحریر*
          قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) 
         اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر (ہو،پی)
                   رابطہ/9453347784/

جمعہ, اگست 04, 2023

شادی کا فلسفہ اور مقصد ✍️✍️✍️✍️ مولانامحمد قمر الزماں ندوی

شادی کا فلسفہ اور مقصد 
Urduduniyanews72
✍️✍️✍️✍️ مولانامحمد قمر الزماں ندوی

   معاشرتی زندگی کی بنیاد نکاح ہے،یہ کام شریعت اسلامی میں بہت ہی پسندیدہ اور عند اللّٰہ مستحسن ہے کہ کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ازدواجی تعلق قائم کرکے اس کے ساتھ اپنی پوری زندگی خوشی خوشی عفت و عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے ۔اسلام میں نکاح جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے، اور رہبانیت یعنی بلا شادی زندگی گزارنا مذموم ہے،نکاح تمام نبیوں کی سنت ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،،ولقد ارسلنا رسلنا من قبلک و جعلنا لھم ازواجا و ذریتہ ،، (سورہ رعد) اور ہم نے یقینا آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں اور بچے دیے،، ۔۔۔
 حضرت ابن عباس رض سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،،پانچ چیزیں انبیاء کرام کی سنتوں میں سے ہیں حیاء،بردباری وتمحل ،حجامت،خوشبو،اور نکاح ۔۔۔مجمع الزوائد باب الحث علی النکاح ۔۔
  صالح اور نیک کار بندوں نے نیک و صالح بیوی اور اولاد کے لیے دعا کی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ،،ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریاتنا قرت اعین ،،سورہ فرقان ۔۔
اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت عطا فرما ۔۔۔
   شادی شدہ ایک ایسے سکون و اطمینان اور محبت و الفت سے ہمکنار ہوتا ہے، جو کسی اور ذریعہ سے میسر نہیں ہوسکتا ۔۔قرآن مجید میں متعدد آیات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
   نکاح ایک ایسی دولت اور نعمت ہے بلکہ یہ وہ عبادت ہے، جس کے ذریعہ انسان کو سکون واطمینان اور صحت و عافیت نصیب ہوتی ہے ،اس کے اندر ایثار و قربانی محبت و الفت ،اجتماعی زندگی گزارنے اور مل جل کر رہنے کا جذبہ اور سلیقہ پروان چڑھتا ہے،نکاح کے بے شمار فائدے ہیں ،ایک مومن کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے ذریعہ اس کا نصف ایمان مکمل ہوجاتا ہے اور ایمان ایسی بیش قیمت دولت ہے جس کا دنیا میں کوئی عوض اور بدلہ نہیں ہوسکتا، اس کا بدلہ خدا کی خوشنودی اور جنت ہے ۔
    نکاح شریعت اسلامی کی نظر میں عبادت بھی ہے اور ایک معاہدہ اور پیکٹ بھی، لیکن بدقسمتی سے اکثر لوگ نکاح کو عبادت نہیں سمجھتے، اس کو محض ایک معاہدہ ،رسم اور پیکٹ سمجھتے ہیں ،جبکہ نکاح عقد اور معاہدہ کے ساتھ ایک اہم  عبادت بھی ہے ،نکاح کی مجلس میں شرکت کرنے والا ،عقد کرانے والا ،گواہ بننے والا ،ایجاب و قبول کرانے والا ،اور اس مسنون اور مبارک مجلس میں شرکت کرنے والے کا مقام نفلی عبادت کرنے والے سے بڑھ کر ہے ۔
   بقول حضرت علی میاں ندوی رح ،، عام عبادت نماز ،روزہ حج اور زکوٰۃ جز وقتی عبادت ہے ،جس وقت یہ عبادت آپ انجام دیتے ہیں اس وقت آپ کو اس کا ثواب ملتا ہے، پھر دوبارہ جب انجام دیں گے تب ملے گا ،لیکن نکاح ایک کل وقتی یعنی پوری زندگی عبادت ہے، اس کے ثواب کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، کبھی رکتا اور ختم نہیں ہوتا، آخری سانس تک میاں بیوی کو ایک دوسرے کو دیکھنے پر ،ایک دوسرے کی خدمت کرنے پر ،ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے پر ،میاں بیوی کے باہمی حقوق ادا کرنے پر، ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے پر ملتے رہتا ہے ،اور اجر و ثواب کا یہ سلسلہ شریکین کے درمیان تاحیات جاری رہتا ہے۔۔۔۔
  الغرض نکاح یہ ایک عظیم عبادت اور مضبوط معاہدہ ہے، جو تمام نبیوں کی سنت اور طریقہ ہے، اس کے ذریعہ انسان زنا اور دیگر فواحش و منکرات سے محفوظ ہوجاتا ہے اور مختلف قسم کی برائیوں اور تفکرات و تصورات سے آزاد ہوجاتا ہے،اسی کے ساتھ محبت و الفت سکون واطمینان ،راحت و آرام ایثار و قربانی اور نسل انسانی کی افزائش و فروغ کے وہ نمایاں فوائد ہیں ،جن کا حصول دیگر ذرائع سے ممکن نہیں، اس لیے حکم شریعت ہے کہ جو صاحب استطاعت و وسعت ہوں وہ جلد اس مبارک عمل کو انجام دیں اور اس میں تاخیر سے گریز کریں ۔اس کے ساتھ ہی نکاح کی  حمکت ،مصحلت ،اغراض و مقاصد ،فوائد اور اس کا فلسفہ شریعت میں کیا ہے؟ وہ بھی ہمارے پیش نظر رہے تاکہ اس کی روشنی میں ہم ازدواجی زندگی کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنا سکیں اور نکاح کے بعد زندگی کے کسی موڑ پر تلخی اور ناخوشگواری پیدا نہ ہوسکے اور محبت و الفت اور رآفت و رحمت کی زندگی ہمیں نصیب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم یہاں 
امام الہند مولانا "ابوالکلام آزاد " کا ایک خط نقل کرتے ہیں، جو انہوں نے ایک عزیز کو شادی کے موقع پر لکھا تھا، جس میں شادی کے فلسفہ پر اسلامی نقطہ نظر سے مدبرانہ اور فاضلانہ طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۔ ۔
ملاحظہ فرمائیں :
عزیزی! تمھارا خط پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی،تعلیم کی تکمیل کے بعد اب تمہیں زندگی کی وہ منزل پیش آ گئی ہے جہاں سے انسان کی شخصی ذمہ داریوں کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے یعنی تمھاری شادی ہو رہی ہے میرے لیے ممکن نہیں کہ اس موقع پر شریک ہو سکوں  لیکن یقین کرو کہ میری دل کی دعائیں تمھارے ساتھ ہیں اپنی جگہ اپنی دعائیں تمھارے پاس بھیج رہا ہوں۔
اللہ تعالی اس تقریب کو برکت وسعادت کا موجب بنائے اور تمھاری یہ نئی زندگی ہر اعتبار سے کامیاب ہو۔
میں اس موقع پر تمھیں یاد دلاؤں گا کہ بحثیت مسلمان تمھیں چاہیے۔۔۔ازدواجی زندگی یعنی شادی کی زندگی کا وہ تصور اپنے
سامنے رکھو جو قرآن حکیم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ  اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ  مَّوَدَّۃً  وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ  فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ  لِّقَوۡمٍ  یَّتَفَکَّرُوۡنَ (21)الروم
خدا کی حکمت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کر دیے ہیں یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کےلیے مرد لیکن خدا نے ایسا کیوں کیا؟
اس لیے کہ تمھاری زندگی میں تین چیزیں پیدا ہو جائیں جن تین چیزوں کے بغیر تم ایک مطمئن اور خوش حال زندگی حاصل نہیں کر سکتے وہ تین چیزیں یہ ہیں : سکون مودت رحمت لتسکنو الیھا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ ۔
"سکون"عربی زبان میں ٹھراؤ اور جماؤ کو کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تمھاری زندگی میں ایسا ٹھراؤ اور جماؤ پیدا ہو جائے کہ زندگی کی پریشانیاں اور بے چینیاں اسے ہلا نہ سکیں۔
"مودت" سے مقصود محبت ہے قرآن کہتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی تمام تر بنیاد محبت پر ہے شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے اس لیے رشتہ جوڑتی ہے  تا کہ ان کی ملی جلی زندگی کی ساری تاریکیاں محبت کی روشنی سے منور ہو جائیں ۔
لیکن محبت کا یہ رشتہ پائیدار نہیں ہو سکتا اگر رحمت کا سورج ہمارے دلوں پر نہ چمکے رحمت سے مراد یہ ہے کہ شوہر اور بیوی نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کریں بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کی غلطیاں اور خطائیں بخش دیں  اور ایک دوسرے کی کمزوریاں نظراننداز کرنے کےلیے اپنے دلوں کو تیار رکھیں
"رحمت کا جذبہ خود غرضانہ محبت کو فیاضانہ محبت کی شکل دیتا ہے" ایک خود غرضانہ محبت کرنے والا صرف اپنی ہی ہستی کو سامنے رکھتا ہے لیکن رحیمانہ محبت کرنے والا اپنی ہستی کو بھول جاتا ہے اور دوسرے کی ہستی کو مقدم رکھتا ہے ۔ رحمت ہمیشہ اس سے تقاضا کرے گی کہ دوسرے کی کمزوریوں پر رحم کرے غلطیاں، خطائیں بخش دے ۔ غصہ ، غضب اور انتقام کی پرچھائیاں بھی اپنے دل پر نہ پڑنے دے۔
                  (ابوالکلام آزاد)  

               * دارالتحریر*   

  قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) 
ترسیل۔۔۔ انس مسرورانصاری
رابطہ/9453347784/

جمعرات, اگست 03, 2023

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی بڑے عالم اور نامور خطیبِ تھے _مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی بڑے عالم اور نامور
Urudduinyanews72
 خطیبِ تھے _مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی
   پٹنہ 3 اگست(پریس ریلیز)
   مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی کا قریب 3بجے شام پٹنہ کے آیی جی ایم ایس میں انتقال ہو گیا ۔وہ کیی دنوں سے بسلسلہ علاج پٹنہ کے آی جی ایم ایس ہوسپٹل میں داخل تھے۔ان کے انتقال پر ملک کے معروف عالم دین وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ حضرت مولانا مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے نمایندہ سے ٹیلو فونک گفتگو میں فرمایا کہ مولانا مطلوب الرحمٰن مکیا وی بڑے عالم اور مشہور خطیب تھے ۔ایک زمانہ تک درس وتدریس سے وابستہ رہے۔
پھر اپنے ہی گاؤں مکیا میں مدرسہ مصباح العلوم قائم کیا اور مدرسہ کی باگ ڈور خود ہی سنبھالے ہوئے تھے، 
اور پورے ملک میں اپنی تقریروں کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کا بڑا کام کیا لوگ ان کی تقریروں کے گرویدہ تھے چار چار گھنٹے مسلسل اور بے تکان بولتے تھے۔اپنی طاقت لسانی سے مجمع کو اس قدر مسحور کر دیتے تھے کہ کوءی اپنی جگہ سے ہلتا نہیں تھا اللّٰہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو خطابت کا عظیم ملکہ عطا فرمایا تھا مولانا سے آخری ملاقات شعبان میں سیتامرھی کے جلسے میں ہویی تھی۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے مرحوم کے لیے مغفرت اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کے ساتھ تعزیت مسنونہ پیش کی ہے۔

پیاری زبان اردو: تعارف وتبصرہ**ڈاکٹر نورالسلام ندوی

*پیاری زبان اردو: تعارف وتبصرہ*
Urudduinyanews72
*ڈاکٹر نورالسلام ندوی*

ہمارے یہاں زمانہ قدیم سے یہ دستور رہا ہے کہ جب بچے پہلے پہل مکتب میں داخل ہوتے ہیں تو اسے اپنی مادری زبان اردو سکھانے کے لیے ”قاعدہ بغدادی“ اور پھر ”اردو کا قاعدہ “تھما دیا جاتا ہے، بلاشبہ یہ کتابیں بڑی مفید ثابت ہوئی ہیں، لیکن اس دور جدید میں جہاں بچے ایک ہی ساتھ اردو، ہندی، انگریزی اور دوسرے سبجکٹ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور ہندی و انگریزی میں جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ مختلف رنگوں، شکلوں اور تصویروں سے مزین کتابیں ان کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں تو بچوں کا میلان و رجحان ان کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں انہیں بچوں کے ہاتھ میں جب روایتی انداز کی اردو کی کتابیں پہنچتی ہیں تو ان کے دل و دماغ کو پوری طرح اپیل نہیں کر پاتی ہیں، اسی ضرورت کے پیش نظر بچوں کے رجحان و میلان اور جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کتابوں کی تالیف کا عمل شروع ہو چکا ہے۔زیر تبصرہ کتاب پیاری زبان اردو (تین جلدوں میں) اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
کتاب کے مصنف مولانا حامد حسین ندوی نے اپنے طویل تدریسی تجربات، علمی صلاحیت،ذاتی محنت اور انتہائی غور و فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے کتاب کی ترتیب میں ایسے دلچسپ طریقے اختیار کیے ہیں کہ پڑھنے اور سیکھنے کا ابتدائی عمل چھوٹے بچوں کے لیے نہایت ہی آسان ہو جاتا ہے اور بچوں کے دل کے سادہ تختی پر بے غبار حروف کی طرح اترتا چلا جاتا ہے۔
تدریس کا یہ جدید اصول بھی بہت کامیاب رہا ہے کہ تصویروں سے لفظ اور لفظ سے حروف کی پہچان کرائی جائے، موصوف نے اس طریقہ کو اختیار تو ضرور کیا ہے مگر اس میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، مثال کے طور پر حصہ اول میں تصاویر کے بجائے حروف کی شکلوں کو نمایاں اور جاذب نظر بنایا گیا ہے تاکہ بچوں کے ذہن پر چیزوں کی تصاویر کے بجائے حروف کی شکل منقش ہو، اسی طرح حروف کے تلفظ کی مناسبت سے تصاویر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جیسے الف سے املی کے بجائے انار، ب(بے) سے بٹن کے بجائے بیلٹ اور ج (جیم) سے جہاز کے بجائے جیپ بلوانے کی مشق کرائی گئی ہے، ترتیب وار حروف تہجی بصورت نظم اور بے ترتیب حروف تہجی کی مشق کراتے ہوئے بغیر نقطے والے حروف، ایک نقطے والے حروف، دو نقطے والے حروف، تین نقطے والے حروف اور ”ط“ کی علامت والے حروف کی شناخت کرائی گئی ہے تاکہ نقطوں کے فرق سے بننے والے حروف کی شناخت واضح اور ذہن نشےں ہوجائے، پھرمرکب حروف کی مشق کرائی گئی ہے۔
دوسرے حصے میں حروف تہجی کو خاص درجہ بندی کے ساتھ سجایا گیا ہے، دو حرفی مشکل الفاظ اور حرکات والے حروف کو بغیر ہجے رواں پڑھانے کی مشق کرائی گئی ہے، پھر مد والے حروف کی شناخت کرائی گئی ہے، جیسے آم، آگ، بتدریج سہل سے مشکل کی طرف سبق کو لے جایا گیا ہے، تاکہ طلباءکو آسانی ہو۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت جملے بچوں کے ذوق اور پسند کے مطابق ہیں، ادب و تہذیب اور اخلاق و عادت پر اچھے اثرات ڈالتے ہیں۔بچوں کے ذوق اور دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لئے حروف کے اعتبار سے شعری پیرائے میں ایسے خوبصورت جملےدیئے گئے ہیں جوپڑھنے میں پُر لطف معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلاً: ۱ سے انڈا ، ب سے بیل — آؤ پڑھ کر کھیلیں کھیل
پ سے پیڑا ، ت سے تیل—جو نہیں پڑھتے ہوتے فیل
تیسرے حصے میں پیش،جزم، الٹا پیش،تشدید، نون غنہ والے الفاظ کی پہچان کرائی گئی ہے، پھر جملوں کو رواں پڑھانے کی مشق کرائی گئی ہے، اس حصے میں سہ حرفی، چہار حرفی الفاظ اورجملوں کو رواں پڑھانے کی مشق کرائی گئی ہے، جیسے اونٹ عرب کا جہاز ہے، آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے، یہ حصہ 46 صفحات پر مشتمل ہے، اس میں بچوں کے لیے حمد، نعت اور نظمیں ہیں، جو نہایت آسان اور سہل زبان میں ہے، بچوں کو یاد کرنا اوررٹنا آسان ہے،حمد ملاحظہ کیجئے:
کون ہے مالک کون ہے آقا
کون ہے حاکم کون ہے راجا
بولو بچو! اللہ اللہ
کس نے دیے ہیں اماں ابا
کس نے دیا ہے کھانا کپڑا
بولو بچو !اللہ اللہ
کس نے سورج چاند بنایا
کس نے زمین سے غلہ اگایا
بولو بچو !اللہ اللہ
کتاب بچوں کو ذہن میں رکھ کرمرتب کی گئی ہے، اور سکھانےکے لیے مختلف تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ تصاویر کی مدد سے حروف کی شناخت،حروف تہجی، نقطوں کی پہچان، مخلوط حروف،حروف کے جوڑ کی شکلیں، اعراب کے ساتھ استعمال ہونے والے حروف، الفاظ، جملے وغیرہ کی مشق کرائی گئی ہے، پہلے تمام حروف کی شناخت کرائی گئی ہے، دو حرفی، سہ حرفی اور چہارحرفی لفظ بتائے گئے ہیں، کوئی حرف شروع میں کیسے آتا ہے، درمیان میں اس کی شکل کیا ہوتی ہے اور آخر میں اس کی صورت و شناخت کیا ہوتی ہے، اس کو خوبصورتی کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ تینوں حصوں میں تکرار گرچہ بہت ہے لیکن اس کا ایک فائدہ بچوں کو یہ ہوگا کہ حروف کی شناخت آسانی سے ہو جائے گی۔
اساتذہ کے لیے اردو پڑھانے، حروف تہجی سکھانے اور مشق کرانے کے طریقوں سے متعلق ہدایات نہیں دیے گئے ہیں، جن سے طلبہ و اساتذہ کو پریشانی ہو سکتی ہے۔ کتاب چھوٹے بچوں کے لیے لکھی گئی ہے، لیکن کس عمر کے بچوں کے لیے لکھی گئی ہے، اس کی وضاحت مصنف یا پبلشر کی جانب سے نہیں کی گئی ہے، اسی طرح سن اشاعت بھی درج نہیں ہے۔
مولانا حامد حسین ندوی ایک لانبے عرصے سے بچوں کی تربیت و تدریس کا مشکل کام انجام دے رہے ہیں، بچوں کی نفسیات میلانات، رجحانات اذواق اور مزاج سے خوب واقف ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ننھے منے بچوں کے لیے یہ ایسی کتابیں تالیف کرتے رہتے ہیں جو بچوں کے ذوق و شوق اور دلچسپی کے مطابق ہوں ساتھ ہی جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بھی۔ اس سے قبل ان کی دو کتابیں” نگار قلم“ اور ”نقوش قلم“ (تین جلدوں میں) شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، یہ دونوں کتابیں بہار کے کئی اسکولوں کے نصاب میں شامل ہو چکی ہیں۔ موصوف پٹنہ کے مشہور ”الحرا پبلک اسکول“ شریف کالونی، پٹنہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، عربی دینیات اور اردو تینوں سبجیکٹ آپ کے ذمہ ہیں۔ ان کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عربی، دینیات اور اردو کے نصاب اور سوالات کے پیٹرن کو دور جدید سے ہم آہنگ کرتے ہوئے نئے انداز میں تیار کیا ہے، صوبہ بہار کی سطح پر خواندگی مہم کے تحت ”آدری“ اور بہار ایجوکیشن پروجیکٹ کے ذریعے تیار کی جانے والی نصابی کتابوں کی ترتیب و پیشکش میں بھی آپ کا اہم رول رہا ہے۔ مختلف ٹیچرس ورکشاپ میں تدریس اور طریقے تدریس پر اظہار خیال کے لیے مدعو کیے جاتے رہے ہیں۔ بہار اردو اکادمی کے زیر اہتمام اردو لرننگ کورس میں داخلہ لینے والے غیر اردوداں افراد کو 15 دنوں میں اردو زبان سکھانے کا کامیاب تجربہ بھی حاصل ہے۔ چنانچہ آپ کی اس خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بہار اردو اکادمی نے اعزاز و انعام سے سرفراز کیا ہے۔
مولانا حامد حسین ندوی کو اپنی مادری زبان اردو سے جذباتی لگاؤ اور دلچسپی ہے، اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے بچوں کو اردو پڑھانے اور سکھانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ہے۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ اردو زبان سے لوگوں کی دلچسپی افسوسناک حد تک کم ہوتی جا رہی ہے، یہ نہایت جرات مندی اور نیک بختی کا کام ہے، اس کے لیے موصوف بلا شبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
”پیاری زبان اردو“کاپہلا حصہ 30 صفحات پر مشتمل ہے، اس کی قیمت 60 روپیہ ہے، دوسرا حصہ 38 صفحات پر مشتمل ہے، اس کی قیمت 120 روپیہ ہے، اور تیسرا حصہ 48 صفحات پر مشتمل ہے اس کی قیمت 210 روپیہ ہے،ملٹی کلر میں کتاب کی طباعت اور پرنٹنگ نہایت معیاری، عمدہ اور خوبصورت ہے۔ کتاب کے ناشر ڈیفوڈل لیسنس پبلکیشنز، نئی دہلی ہیں، پٹنہ، لکھنو، ممبئی اور بنگلور سے کتاب حاصل کی جاسکتی ہے،یا مصنف کے موبائل نمبر 7870396757 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے، امید ہے کہ بہار کے مکاتب و مدارس اور اسکول کے ذمہ داران اس کتاب کو کورس میں شامل کر کے مصنف کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

*Dr Noorus Salam Nadvi*
Vill+Post Jamalpur
Via Biraul, Dist Darbhanga
Bihar,Pin Code 847203
Mobile NO 9504275151

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...