Powered By Blogger

جمعرات, اگست 24, 2023

___ دہلی انتظامیہ بل ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

___ دہلی انتظامیہ بل ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف 
 بھاجپا ایک زمانہ میں دہلی کو مستقل ریاست کا درجہ دلوانا چاہتی تھی، لال کرشن اڈوانی، مدن لال کھورانہ اور خود اٹل بہاری باجپئی1999ء میں اس کے حق میں تھے۔لیکن سیاسی داؤ پیچ میں ایسا نہیں ہو سکا، البتہ اسمبلی بن گئی، اور لفٹننٹ گورنر کو زیادہ اختیار دے دے دیا گیا جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ بے دست وپا انداز میں کام کرنے لگے، جب کوئی بات مرکزی حکومت کو بری لگتی تو لیفٹنٹ گورنر کے سہارے وہ اس کو روک دیتی، لیکن عاپ کی حکومت آئی، اروند کیجریوال نے بھاجپا کو دھول چٹا دیا اورکہنا چاہیے کہ عاب نے بھاجپا پر جھاڑو پھیر دیا، یاد رکھیے کہ عاپ کا انتخابی نشان جھاڑو ہی ہے۔
 مرکزی حکومت نے اروند کیجریوال کو پریشان کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا، دہلی کے سرکاری اسکولوں کو تعلیمی پہچان دینے والے منیش سسودیا پر بدعنوانی کا الزام لگا کر آئی بی کے ذریعہ اسے جیل رسید کر دیاگیا، اور مہینوں گذرنے کے بعد اب تک ان کی ضمانت نہیں ہوسکی ہے۔
 مرکزی حکومت کے اس رویہ کے خلاف دہلی حکومت سپریم کورٹ گئی، وہاں سے اسے راحت ملی اور عدالت نے وزیر اعلیٰ کے اختیار کی وسعت کو تسلیم کیا اور لیفٹننٹ گورنر کی بے جا دخل اندازی پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا، لیکن مرکزی حکومت کو یہ گوارہ نہیں تھا، پارلیامنٹ چل نہیں رہی تھی، اس لیے صدر جمہوریہ سے ایک آرڈی نیشن پر دستخط کراکر پھر سے دہلی کے وزیر اعلیٰ کو بے دست وپا کر دیا گیا اور دہلی نیشنل کیپٹل ٹیرٹری ایڈمنسٹریشن ترمیمی بل 2023پارلیامنٹ میں پیش کیا گیا۔
 پارلیامنٹ میں یہ بل اکثریت کے بل پر پاس ہو گیا، راجیہ سبھا میں بھاجپا کو اکثریت حاصل نہیں ہے، اس لیے یہاں گنجائش تھی کہ دہلی انتظامیہ بل پاس نہ ہو سکے، لیکن بھاجپا نے سیاسی دور اندیشی کے ساتھ چندر شیکھر کی راشٹریہ سمیتی، آندھرا کی ٹی آر ایس اس کانگریس اور اڈیشہ کے بیجو جنتا دل کو اپنے ساتھ کر لیا، اس طرح اس بل کے پاس ہونے میں رکاوٹ یہاں بھی باقی نہیں رہی، البتہ این ڈی اے کے ایک سو اکیس (121)اور انڈیا اتحاد کے ایک سو انیس(119) ارکان تھے، راجیہ سبھا میں بحث ہوئی پھرووٹنگ ہوئی تو یہ بل 102کے مقابلہ ایک سو اکتیس (131)سے پاس ہو گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا اتحاد میں بھی بھاجپا سیندھ مارنے میں کامیاب ہو گئی اور کم از کم دوسری پارٹی کے بارہ ممبران نے اس بل کی حمایت میں ووٹ دیا، اب یہ صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد قانون بن گیا، لیکن تاریخ میں یہ بات درج ہوگئی کہ بھاجپا وفاقی ڈھانچے اور ریاستوں کو کمزور کرنے کے لیے کسی حدتک جاسکتی ہے، اس کا نقصان ہندوستان کی سالمیت کو پہونچے گا۔
عین ممکن ہے کہ جب بھی دہلی اسمبلی میں بھاجپا کی اکثریت ہوگی اور اس کی حکومت تشکیل پائے گی تو یہ راگ پھر الاپاجائے گا کہ دہلی کو خود مختار اور مکمل ریاست کا درجہ ملنا چاہیے۔کیوں کہ اس کے بغیر دہلی کی ترقی ممکن نہیں ہے۔

منگل, اگست 22, 2023

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی ؒ __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی ؒ __
Urduduniyanews72 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مدرسہ مصباح العلوم مکیا، مدھوبنی کے بانی مہتمم، جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ سیتامڑھی کے سابق صدر المدرسین، الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں کے نامور فیض یافتہ، مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور کے مشہور فاضل، مدرسہ اسلامیہ شہر فتح پور کوٹ کے سابق مدرس، بڑے عالم دین البیلے خطیب، متواضع اور منکسرا المزاج حضرت مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی بن محمد صادق (م 1991) بن امام علی بن شر ف الدین بن احمد بن عبد اللہ کا 15محرم الحرام 1445ھ مطابق 3اگست 2023بروز جمعرات کوئی تین بجے سہ پہر آئی جی ایم ایس پٹنہ میں انتقال ہو گیا، وہ پیٹ کے درد آنتوں کے الجھنے کے مرض میں مبتلا تھے، علاج آپریشن تھا، لیکن پیرانہ سالی اور ضعف کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا اور مولانانے رخت سفر باندھ لیا۔ جنازہ 4اگست کو سوا تین بجے سہ پہر ان کے صاحب زادہ مولانا محمد عمران ندوی نے پڑھائی، جنازہ سے قبل مولانا محمد شبلی قاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ نے مختصر خطاب کیا، مولانا محمد اظہار الحق مظاہری ناظم الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں، مولانا محمد انوار اللہ فلک قاسمی بانی ادارہ سبیل الشرعیہ آوا پور، شاہ پور سیتامڑھی، حضرت مولانا عبد المنان صاحب بانی مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی جیسے اکابر علماء، عوام جم غفیر کے ساتھ جنازہ میں شریک تھے اس کے قبل پٹنہ سے بذریعہ امبولینس ان کا جنازہ مکیا منتقل کیا گیا، بعد نماز جمعہ عام دیدار کے لیے غسل وکفن کے بعد مدرسہ مصباح العلوم کے صحن مین جنازہ رکھا گیا، جس کی ترقی کے لیے وہ پوری زندگی کوشاں رہے، تدفین مدرسہ سے متصل جانب جنوب آبائی قبرستان میں ہوئی، پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ لڑکے انور، حافظ انظر، مولانا سلمان، مولانا محمد عمران ندوی اور شاعر حافظ بلال حسامی اور تین لڑکیاں ہیں۔
مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی کی و لادت 5مارچ1950کو موضع مکیا، ڈاکخانہ بشن پور موجودہ ضلع مدھوبنی میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال گاؤں میں ہی تھی اور ان کے نانا کا نام محمد علیم تھا، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد 1964میں الجامعۃ العربیہ اشر ف العلوم کنہواں میں داخل ہوئے، ابتدائی درجات سے عربی چہارم تک کی تعلیم یہاں پائی،1970 تک کازمانہ یہیں گذرا، مولانا نے اس وقت کے نامور اساتذہ حضرت مولانا محمدطیب صاحب ناظم مدرسہ مولانا محمد طیب صاحب کماوری، مولانا زبیر احمد رحہم اللہ سے کسب فیض کیا اور اپنے ساتھیوں میں ممتاز رہے،1971میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیا، حضرت مولانا محمد زکریا ؒ شیخ الحدیث اور مولانا محمد یونس صاحب ؒ سے زیادہ تعلق رہا اور بقدر ظرف ان اکابر کے علوم، صلاح وتقویٰ سے حصہ پایا اور سند فراغ 1974میں وہیں سے حاصل کیا۔ فراغت کے بعد 1975میں محمد صدیق بن نوازش کریم کی دختر نیک اختر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، جناب محمد صدیق صاحب حسن پور بر ہروا کے رہنے والے تھے،ا س لیے مولانا کی سسرال حسن پور برہر وا قرار پائی۔
تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ اسلامیہ شہر فتح پور کورٹ یوپی سے کیا، چودہ سال تک یہاں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، جب حضرت مولانا عبد الحنان صاحب ؒ نے جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ قائم کیا تو آپ کو فتح پور سے تدریس کے لیے بالاساتھ بلا لیا، چنانچہ تین سال تک آپ یہاں خدمت انجام دینے کے بعد کویت میں ملازمت اختیار کرلی، پڑھنے لکھنے کا ذوق رکھنے ولا آدمی زیادہ دن دوسرے کاموں میں چل نہیں پاتا، چنانچہ دو سال کے بعد آپ فرصت پر آئے تو دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کیا، حضرت مولانا عبد الحنان صاحب کا تقاضہ ہوا تو اب وہاں کے صدر مدرس بن کر آئے اور کئی سال یہاں گذارے، اس زمانہ میں مولاناکی ٹوپی مولانا عبد الحنان صاحب ؒ کی طرح ہی کھڑی ہوا کرتی تھی، اور جب دونوں پہلی صف میں جماعت کے لیے آزو بازو بیٹھے ہوتے تو لگتا کہ دو خوبصورت میناران عالی قدر لوگوں کے سروں پر رکھا ہوا ہے، کچھ دن بعد مولانا نے محسوس کیا کہ ان کے پرواز میں کمی آرہی ہے تو انہوں نے جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کو پھر سے خیر باد کہہ دیا،  آبائی وطن مکیا میں پہلے سے جاری مکتب کو مدرسہ کی شکل دیدی اور اس کو پروان چڑھانے میں پوری زندگی لگا دی، مولانا محمد عمران ندوی کی اس لائن سے تربیت کرتے رہے، توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے والد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں گے۔
مدرسہ کے ساتھ آپ کا دوسرا بڑا میدان عمل اصلاح معاشرہ کی غرض سے میدان تقریر وخطابت تھا، اس کام میں وہ محبوب، مقبول اور”مطلوب“ تھے، عوامی زبان، عوامی اصطلاحات، عوامی الفاظ، عوامی لب ولہجہ، عوامی محاورے، عوامی ضرب الامثال، لطائف اور لوگ گیتوں پر انہیں عبور تھا،انہیں کمالات کے وجہ سے میں انہیں البیلا خطیب کہا کرتا تھا، درمیان میں نعتیہ اشعار اور حمد وغیرہ بھی اپنے مخصوص لب ولہجہ میں پڑھ کر سناتے، ہر دو چار جملے کو دھیرے اور پھر زور سے بیان کرتے تو مجمع پھر سے ہوشیار اور بیدار ہوجاتا، وہ کسی بھی جلسے میں اپنی تقریر پہلے کروانے کی تجویز نہیں رکھتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہمارا نمبر نواں وکٹ گرنے کے بعد ہی آئے گا اورمجھے فجر تک ناٹ آؤٹ ہی رہنا ہے، ظاہر ہے آخر رات میں مجمع کم ہوجاتا تھا لیکن ان کے لب ولہجے اور تقریر پر اس کا اثر نہیں پڑتا تھا۔جو سامعین بچ جاتے وہی ان کے لیے حتمی ہوتے اور آخر وقت تک بچے کُھچے سامعین ان کا ساتھ دیتے رہتے،بعض لوگ ان کی تقریر شروع ہوگئی اسی وقت جلسہ میں حاضرہوتے۔ خطابت کی مشغولیت نے ان کے علمی رسوخ کو لوگوں کی نگاہ سے اوجھل کر دیا۔
 ان کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک بار ایک جلسہ میں ہم دونوں مدعو تھے، مولانا اتفاق سے تشریف نہیں لا سکے، اب بھی میرے پاس آکر بیٹھتاکہتا کہ مولانا مطلوب صاحب نہیں آئے، میں نے کہا کہ جو آگیا اس کی قدر کرنا سیکھو، کہنے لگے کہ مولانا کی بات ہی کچھ اور ہے، جب ان کی پریشانی بڑھی تو میں نے کہا کہ چلو میں آج ”مطلوب الرحمن“ بننے کی کوشش کرتا ہوں، پھر میں نے ان کے لب ولہجہ میں تین گھنٹے تقریر کی تو مجمع کو کچھ اطمینان ہوا، میں نے اپنی تقریر مولانا احمد رضا خان صاحب کی مشہور نعت کے آخری شعرختم کیا۔
 بس خانہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز  مِری نہ یہ رنگ مِرا
ارشاد احباء ناطق تھا نا چار اس راہ پر پڑا جانا
میں شروع سے رت جگے جلسوں کا مخالف رہا ہوں، ایک جلسہ میں میں نے اُس کے خلاف تقریر کر دی، میرے بعد مولانا کا نمبر تھا، میری تقریر کے اثر کو باقی رکھنے کے لیے انہوں نے اس جلسہ میں تقریر نہیں فرمائی، دعا کرکے جلسہ ختم کر دیا، وہ چاہتے تو مختلف دلائل سے میری تقریر کا رد کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، مولانا سے آخری ملاقات میری 15مارچ 2023کو مدرسہ عزیزیہ برار سیتامڑھی کے جلسہ میں ہوئی تھی، حسب سابق شفقت ومحبت سے پیش آئے،  مجھے عجلت تھی، بارہ بجے سے پہلے ہی تقریر کرکے میں چلتا بنا، اس سفر میں میرے ساتھ عزیزم محمد ظفر الہدیٰ قاسمی اور ماسٹر عبد الرحیم صاحب بھی تھے۔ اب ایسی شفقت ومحبت اور خورد نوازی کرنے والے کم رہ گیے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مولانا کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور خطابت کے میدان میں ان کا نعم البدل دے۔ آمین۔

نھواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے

نھواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے
اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (21/08/2023) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) 
زیر سرپرستی حضرت مولانا فیاضاحمدراہی/
زیر قیادت محبوب عالم  وقاری مطیع اللہ رحمانی 
زیر حمایت  قاری منظور صاحب نعمانی و عظمت اللہ نور فیضی 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا اسلم پروانہ صاحب  جناب عبدالحق صاحب بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری کلیم شاہد صاحب  دھنبادی 
نے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام ح
خطیب حیدرصاحب  ارریہ صاحب کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی ارریہ
حضرت مولانا ومفتی مجاھد الاسلام صاحب قاسمی قاضی شریعت  تحفظ شریعت 
جناب حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی بھاگل پوری
شعراء کرام 
شاعر سیمانچل شمس الزماں صاحب کیشن گنجوی' جناب فہیم دھنبادی صاحب'راشیدالقرصاحب ساجد رحمانی جناب  عبدالحق الرحمٰن صاحب قاسمی شاھد سنگاپوری خورشید قمر صاحب صدام احمد معروفی صاحب شاہنواز دل صاحب 
 شہاب صاحب دربھنگہوی مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ دانش خوشحال صاحب گڈاوی 
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' قاری انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور 
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجکر ۱۵منٹ شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :۴۵بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی تھے

گیان واپی مسجد معاملہ __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

گیان واپی مسجد معاملہ __
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
بابری مسجد کے بعد فرقہ پرست طاقتوں کی ساری توجہ ان دنون گیان واپی مسجد کی طرف ہے، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی نے ایک بیان میں گیان واپی مسجد معاملہ کو مسجد کہنے سے بات بگڑنے کی بات کیا کہہ دی کہ میڈیا نے اسے صرف گیان واپی بولنا اور لکھنا شروع کر دیا، حد یہ ہے کہ ہمارے کئی اردو اخبار والوں نے بھی مسجد کا لفظ حذف کر دیا، سوشل میڈیا پر صرف گیان واپی گشت کر رہا ہے، حالاں کہ وہ مسجد ہے اور قیامت تک مسجد رہے گی۔
 اس مسئلہ کو گرمانے کی پوری کوشش فرقہ پرست طاقتیں کر رہی ہیں، پہلے مسجد کے فوارے کے لیے استعمال لوہے کے ایک نلکے کو شیو لنگ کہہ کر بات بڑھائی گئی، مسجد کے وضو کے لیے حوض پر اس بہانے پابندی لگائی گئی، 21جولائی کو وارانسی کی ضلعی عدالت نے گیان واپی مسجد کمپلکس کو اے ایس آئی سروے کا حکم دیدیا، مسلم فریق الٰہ آباد ہائی کورٹ پہونچا، عدالت نے اس موضوع پر سماعت مکمل کرکے 27جولائی کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا، بعد میں ورانسی ضلع جج کے فیصلے کواس نے باقی رکھا اور مسلمانوں کی عرضی کو خارج کر دیا، اے ایس آئی کو بھی عجلت تھی، اس لیے اس نے 4اگست سے ہی سروے کا کام شروع کر دیا، مسلم فریق نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، چیف جسٹس ڈی وائی چندر چور نے اس پر غور کرنے اور سماعت کی تاریخ مقرر کی اورالٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو اس شرط کے ساتھ بر قرار رکھا کہ موجودہ عمارت کو سروے سے کسی قسم کا نقصان نہیں پہونچنا چاہیے۔ اے ایس آئی نے سروے کا کام سپریم کورٹ سے عرضی خارج ہونے سے پہلے ہی شروع کر دیا تھا، جو مسلسل جاری ہے، اے ایس آئی نے ابھی کوئی رپورٹ جاری نہیں کی ہے، لیکن فریق مخالف روز نئی نئی افواہیں گڑھ رہا ہے کہ ستونوں پریہ ملا،تہہ خانے میں یہ ملا، مسلم فریق نے وارانسی ضلع کوٹ میں ایک عرضی یہ بھی لگادی تھی کہ سروے کے کام سے میڈیا کو دور کھا جائے، اور افواہوں پر روک لگائی جائے،وارانسی ضلعی عدالت نے اس پر اپنا فیصلہ صادر کر دیا ہے اور اے ایس آئی افسران کو ہدایت دی ہے کہ سروے کی بات کسی کو نہیں بتائیں، البتہ سروے پر روک کی دوسری عرضی پر ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔
 یہ در اصل عدالت اور رائے عامہ کو متاثر کرنے کی گھٹیا کوشش ہے، جو لوگ فوارے کو شو لنگ کہہ سکتے ہیں، ان کے لیے کچھ بھی نکالنے کا دعویٰ کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے، بلکہ کیا بعید کہ خود ڈال کر رپورٹ میں لکھوادیں کہ یہ یہ چیز ملی اور عدالت اسے ثبوت کے طورپر مان لے، اس درمیان الٰہ آباد ہائی کورٹ نے گیان واپی مسجد میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کی عرضی کو خارج کر دیا ہے، یہ عرضی راکھی سنگھ نے دائر کی تھی، عرضی کی سماعت چیف جسٹس پرتینیکر دیواکر اور جسٹس آشوتوش سریواستو نے کی اور اسے نا قابل سماعت قرار دیا، فرقہ پرست طاقتیں اس مسئلہ کو اس قدر گرما نا چاہتی ہیں کہ ہندوؤں کے جذبات بھڑکیں اور ہندووٹوں کو متحد کرنے کے لیے اسے حربہ کے طور پرآئندہ انتخاب میں استعمال کیا جا سکے۔
لیکن جس طرح اسے موضوع بحث بنایا جا رہا ہے اور وزیر اعلیٰ اتر پردیش گیان واپی کے لیے مسجد لفظ کے استعمال سے گریز کرنے کا مشورہ دے رہے ہں،اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حجت تمام ہوجائے گی اور ملک کو یہ باور کرایا جائے گا کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد ہی گیان واپی مسجد کے بارے میں فیصلہ سنایا گیا ہے۔

اتوار, اگست 20, 2023

مولانا سید طاہر حسین گیاوی ؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا سید طاہر حسین گیاوی ؒ
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ 
—------------------------------------------------
 نامور عالم دین، ممتاز مناظر اسلام، ترجمان حق وصداقت، بے مثال خطیب، برجستہ گو اور حاضر جواب ، جامع مسجد امروہہ کے فارغین میں گل سر سبد، ماہر علم کلام، مصنف کتب کثیرہ، بانی دار العلوم حسینیہ پلاموں مولانا سید طاہر حسین گیاوی کا 10جولائی 2023مطابق 21ذی الحجہ 1444ھ روز سوموار پونے بارہ بجے دوپہر آرہ ضلع بھوجپور میں انتقا ل ہو گیا،وہ برسوں سے صاحب فراش تھے۔11جولائی 2023کو جنازہ کی نماز ان کی وصیت کے مطابق ان کے داماد مولانا ولی اللہ ولی نے پڑھائی، مولانا ولی اللہ احد کے قریب ایک مسجد کے امام ہیں، مدینہ منورہ میں قیام ہے، اللہ نے سہولت بہم پہونچائی اور وہ وقت پر مدینہ سے تشریف لے آئے، بعد نماز مغرب ولی گنج حویلی مسجد آرہ میں ہزاروں معتقدین کی موجودگی میں انہوں نے جنازہ کی نماز پڑھائی، تدفین آرہ کے روضہ گنج قبرستان میں ہوئی، پس ماندگان میں اہلیہ ، چار لڑکے مولانا عبد الغافر، مولانا عبد الناصر، عبد القادر ، عبد الظاہر، اور پانچ لڑکیاں شامل ہیں، مولانا عبد الغافر دار العلوم حسینیہ پلاموں اور مولانا عبد الناصر دار العلوم حسینیہ لوہردگا کے ناظم ہیں۔ مولانا  کوئی چالیس سال قبل ہی کوچ بلاک واقع اپنے آبائی وطن کا برگاؤں سے نقل مکانی کرکے آرہ کے سندیش تھانہ علاقہ میں منتقل ہو گیے تھے، یہاں انہوں نے آرہ کے ولی گنج محلہ میں اپنا مکان بنالیا تھااور آخری سانس یہیں لی۔
ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب سے حاصل کرنے کے بعد ابو المحاسن مولانا محمد سجاد بانی امارت شرعیہ کے قائم کردہ مدرسہ انوار العلوم گیا میں داخلہ لیا اور عربی سوم تک کی تعلیم یہاں پائی، وہاں سے مدرسہ مظہر العلوم بنارس چلے گیے، متوسطات کی کتابیں یہیں پڑھیں ایک سال مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور میں بھی گذارا ۔  1967مطابق 1386ھ میں دار العلوم دیو بند میں داخل ہوئے۔ دو سال تعلیمی سلسلہ جاری رہا، لیکن ہفتم کے سال 1969میں طلبہ کے اسٹرائک کی قیادت میں نامور ساتھیوں مولانا نور عالم خلیل امینی ، مولانا اعجاز احمد شیخو پور رحمھما اللہ کے ساتھ آپ بھی انتظامیہ کی نظر پر چڑھ گئے چنا نچہ آپ کا اخراج ہو گیا، مولانا سید فخر الدین صاحب ؒ کے مشورہ سے جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں دورہ حدیث میں داخلہ لیا اور 1970مطابق 1399ھ میں یہیں سے فراغت پائی تعلیمی اسناد کے اعتبار سے آپ الٰہ آباد بورڈ سے عالم فاضل اور جامعہ اردو علی گڈھ سے ادیب کامل بھی تھے۔
 تدریسی زندی کا آغاز جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس سے کیا، کم وبیش نو سال بنارس کے مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1984ء مطابق1404ھ میں انہوں نے دار العلوم حسینیہ کے نام سے پلاموں میں ایک مدرسہ قائم کیا،  اسے پروان چڑھانے کے لیے کوشاں رہے، مگر مناظرہ ، خطابت اور مختلف قسم کے اسفار کی وجہ سے وہ اپنی پوری توجہ ادھر مرکوز نہیں کرسکے، اس لیے ادارہ کی اپنی کوئی شناخت نہیں بن سکی۔
 تقریر اور مناظرہ کی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ اللہ رب العزت نے انہیں تصنیفی ملکہ اور تالیفی شعور سے وافر حصہ عطا کیا تھا، ان کی بیش تر کتابیں مناظرانہ انداز کی ہیں، ان میں عصمت انبیاء اور مودودی، اعجاز قرآنی، رضاخانیت کے علامتی مسائل، العدد الصحیح فی رکعات التراویح، نماز وں کے بعد کی دعا، شہید کربلااور یزید ، مقتدی پر فاتحہ واجب نہیں، انگشت بوسی سے بائبل بوسی تک ، ترک تقلید ایک بدعت ہے، بریلویت کا شیش محل، مسئلہ قدرت، حدیث ثقلین، خطبات مناظر اسلام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
 مناظرہ ان کا خاص موضوع تھا، کئی جگہ انہوں نے اپنے دلائل سے فتح کے جھنڈے گاڑے، کئی مناظروں میں ان کی شرکت مولانا ارشاد احمد صاحب مبلغ دار العلوم دیو بند کے ساتھ ہوئی، جھریا ، کٹک اور کٹیہار کے مناظرے ان کے یادگار مناظرے ہیں، جھریا کے مناظرے کی روداد اور تفصیلات مطبوعہ شکل میں موجود ہے۔
 مولانا کی خطیبانہ اور قائدانہ صلاحیتیں دار العلوم دیو بند کی طالب علمی کے دوران ابھر کر طلبہ کے سامنے آئیں، مولانا نور عالم خلیل امینی ؒ نے تفصیل سے ان کی اس صلاحیت کا تذکرہ اپنی کتاب ’’رفتگاں نا رفتہ‘‘ میں کیا ہے، یہاں ایک اقتباس کا نقل کرنا فائدے سے خالی نہیں ، لکھتے ہیں۔
 "وہ از خود یا کسی تجربہ کار کے مشورے سے اسٹرائک کے لائق وفائق اور مطلوبہ صلاحیت کے قائد بن کر ابھرے اور طلبہ کے انبوہ پر جس طرح چھا گئے، راقم نے اس کی مثال اپنی طالب علمانہ اور مدرسانہ دونوں زندگیوں میں تادم تحریر نہیں دیکھی۔ان کی زبان قینچی کی طرح چلتی، وہ سیلِ رواں کی طرح بہتی، کسی توقف یا انقطاع سے ان کا سلسلہ کلام جتنا نا آشنا تھا، اس کو میں صحیح تعبیر دینے سے بالکل قاصر ہوں۔ اس سے بڑھ کر یہ بات تھی کہ وہ طلبہ پرایسی حکومت کرنے لگے تھے، جیسی کوئی غیر معمولی رعب داب کا مالک مطلق العنان خودسر ڈکٹیٹر کرتا ہے، جس کے پاس اپنی بات من وعن منوانے کے لیے فوجی طاقت، اقتدار کی قوت، ملک کے سارے وسائل، انتظامی اداروں کی آہنی گرفت اور حدود و قیود نا آشنا اپنے عزم و ارادے کی زبردست کمک ہوتی ہے، وہ جب چاہے عوام کے سروں کی پکی ہوئی فصل کو یک لخت کاٹ ڈالنے کے لیے مکمل انتظام کے ساتھ تیار رہتا ہے۔ وہ طلبہ سے کہتے بیٹھ جاؤ،تو اسی سکنڈ میں سب بیٹھ جاتے، کہتے کھڑے ہو جاؤ، تو سبھی آن کی آن میں کھڑے ہو جاتے،سر جھکالو،تو سبھی اس لمحے سرنگوں ہو جاتے، صرف دائیں طرف دیکھو، تو کسی کی مجال نہ ہوتی کہ نفاذ حکم کے پورے دورانیے میں بائیں طرف دیکھ لے، سبھی طلبہ تین منٹ میں فلاں جگہ جمع ہو جائیں، تو دو ہی منٹ میں سب اس جگہ آ موجود ہوتے۔ ان کی ساری اداؤں میں نظم و ضبط ہوتا، ڈسپلن ہوتا، قائدانہ انداز ہوتا، خطیبانہ شان ہوتی، مربیانہ وقار ہوتا، استادانہ مہارت ہوتی،منتظمانہ دوررسی وحکمت عملی ہوتی اور وہ سب کچھ ہوتا، جس کی وجہ سے کوئی واجب التعظیم ومحترم المقام اور باعثِ فرماں برداری ہوتا ہے‘‘۔(ص:127-128)
اقتباس ذرا طویل ہو گیا، لیکن مولانا کی قائدانہ وخطیبانہ صلاحیتوں کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری تھا ، مولانا کی اسی خطیبانہ صلاحیت نے ملک اور بیرون ملک کے لوگوں کو ان کا گرویدہ بنا رکھا تھا، دلائل کی قوت اور طلاقت لسانی سے وہ مجمع پر چھا جاتے تھے اور دو تین گھنٹے تک مجمع انہیں پورے انہماک کے ساتھ سنتا رہتا تھا، مولانا کی مقبولیت ومحبوبیت میں جس قدر اضافہ ہوتا گیا ، مولانا کے وقت کی قیمت بھی بڑھتی چلی گئی،آخر میں تاریخ نوٹ ہونے کے لیے پیشگی" نوٹ "کی ادائیگی ضروری ہوا کرتی تھی، جلسہ والے ادائیگی کے بعد مطمئن ہوجاتے تھے، مولانا کس طرح جلسہ گاہ پہونچیں گے، یہ ان کا اپنا درد سر ہوتا تھا، بہت ہوا تو اسٹیشن یا بس اسٹینڈ سے جلسہ والے اپنی گاڑی میں لے جاتے تھے، اس موقع سے بھی مولانا اپنی غیرت اور خود داری سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے، گاڑی لینے نہیں پہونچی تو بلا توقف واپس ہوجاتے، مزاج کے خلاف بات ہو گئی تو اسٹیج پر خطبہ پڑھ کر واپس ہوتے بھی میں نے ان کو دیکھا تھا، ایسے موقع سے ہم چھوٹوں کی جان پر بن آتی، مولانا کے نام پر آئے مجمع کو سنبھالنا آسان کام نہیں ہوتا، مولانا کی سادہ زندگی اور بود وباش میں جو رعب تھا، وہ کم لوگوں کے حصہ میں آتا ہے۔
مولانا حق کے ترجمان تھے، اس لیے باطل قوتیں ان کے پیچھے پڑی رہا کرتی تھیں، ایک بار بھدرک اور کئی بار دوسری جگہوں پر مولانا پر قاتلانہ حملے ہوئے، لیکن اللہ نے حفاظت فرمائی، کئی بار ان کی شہادت کی افواہ اڑی، لیکن مولانا اپنا کام کرتے رہے، اور جب اللہ نے وقت مقرر کر رکھا تھا اس وقت دنیا سے تشریف لے گیے۔
 مولانا سے میری ملاقات امارت شرعیہ آنے سے قبل کی تھی، بہت ساری جگہوں پر اصلاح معاشرہ کے جلسوں کو ہم لوگوں نے ساتھ ساتھ خطاب کیا، ایک بار ہم دونوں دار العلوم دیو بند ساتھ ساتھ پہونچ گیے، مولانا دار العلوم کے مخرج تھے اور میں جمعیۃ الطلبہ کا سابق جنرل سکریٹری ، مولوی اظہار الحق مرحوم  ان دنوں انجمن تقویۃ الایمان سے جڑے ہوے تھے،انہوں نے "نودرہ" میں ہم لوگوں کا استقبالیہ انتظامیہ کی بلا اجازت کے رکھ دیا، طلبہ اپنے ہم وطنوں کو استقبالیہ دیا بھی کرتے تھے، لیکن یہ بات طویل ہو گئی اور مولوی اظہار الحق کے اخراج کے لیے جو فرد جرم  بنایا گیا، اس میں یہ بھی ایک سبب بن گیا، بعد میں مولانا دار العلوم کے اکابر کے نور نظر بن گئے ، کیوں کہ" ترجمان دیو بند" پورے ہندوستان میں ان کے طرز کا دوسرا کوئی نہیں تھا، جمعیت علماء سے بھی ان کی قربت بڑھی اور ان کی شرکت وہاں بھی ہونے لگی۔
 مولانا کی علالت کے زمانہ میں ایک بار ہوسپیٹل میں ان سے ملا اور دوسری بار ان کے گھر آرہ میں ملاقات کی سعادت ملی، یہ موقع تھا مولانا قاری علی انور کے مدرسہ کے جلسہ کا ، وقت فارغ ہوا تو میں ان کی عیادت کے لیے جا پہونچا، مولانا کی صحت وعافیت کے لیے اللہ سے دعا کرکے لوٹا، کئی سال ہو گیے، ادھر زمانہ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، انتقال کی خبر آئی تو میں سفر پر تھا، جنازہ اور تعزیتی مجلس میں حاضری سے بھی محروم رہا، دعا تو کہیں سے بھی کی جا سکتی ہے، سو دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کا سلسلہ جاری ہے، اللہ مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔

ہملٹن کاسفرنامۂ ہند۔اوراورنگ زیب عالمگیر ✍️ ٭انس مسرورؔانصاری

ہملٹن کاسفرنامۂ ہند۔اوراورنگ زیب عالمگیر
اردودنیانیوز۷۲ 
                    ✍️  ٭انس مسرورؔانصاری
       بھارت ایک قدیم ملک ہے۔اس کی قدامت اورپر اسراریت۔اس کےدریااورپہاڑ۔اس کے جنگل اور میدان۔سرسبزوادیاں۔شہراورقصبات۔اس کے گاؤں۔اس کے کسان اورکھیت کھلیان۔اس کی بساطِ رنگین وسنگین ۔ مافوق الفطرت واقعات۔اس کی عبادت گاہیں اور تعمیرات۔اس کی تہذیب وتمدّن۔سماجی رسوم ورواج۔ تایریخی عمارتیں۔قلعے۔اجنتا۔ ایلورہ،کھجوراہو۔تاج محل۔شاہ جہانی مسجد۔لال قلعہ۔جھولتے میناروں والی عمارتیں۔اوربہت سارے عجائبات ہمیشہ غیرملکی سیّاحوں کے لیے کشش اورتوجہ کامرکزرہے ہیں۔قدیم چینی سیّاح فاہیان سے ابن بطوطہ اوران کے بعدیہاں آنے والےسیّاحوں کےناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔انھوں نے سفرنامے لکھےاوراس ملک کےجغرافیائی، تاریخی وتہذیبی اورتمدّنی منظروں کی عکس ریزی کی۔ ان سفرناموں میں ہندوستان رچا بسا ہوا ہے۔ 
        مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرکے عہدمیں برطانوی سیّاح الیکزینڈرہملٹن ہندوستان میں واردہوا، اورمشرق کے اس پُراسرارملک میں پچیس سال تک گھومتارہا۔ اُس نےاورنگ زیب عالمگیرسے بھی ملاقات کی۔بادشاہ نے اس کی ایسی شاندارخاطرتواضع کی کہ ہملٹن متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکا۔اُس نے اپنے سفرنامۂ ہندمیں اورنگ زیب کی بہت تعریف کی ہے۔اُس کایہ سفرنامہ بہت مشہوراورمقبول ہوا۔
    چونکہ اورنگ زیب ہندوستان کےعظیم مغل تاجدار کے علاوہ ایک دین دارمذہبی آدمی بھی تھا،اس لیے ہندوبرہمنیت اس کی سخت مخالف رہی ہے۔وہ برہمنیت جس نےکبھی کسی مذہبی واصلاحی تحریک اور دوسرے مذہبی لوگوں کوپسندنہیں کیا۔ان سے نفرت کی اور انھیں مٹادیناچاہا۔سناتن دھرم کے علاوہ اس کے نزدیک ہرمذہب باطل ہے۔ اس نے اورنگ زیب کے خلاف ہمیشہ محاذ آرائی کی۔ مشہورمورّخ پنڈت ایشوری پرشاد لکھتے ہیں۔ 
        ‘‘پرماتماکی شان ہے کہ اورنگ زیب رعایاکاجتنا بڑاخیرخواہ تھا، برہمنی نفرت نے اسے اتناہی بدنام کیا۔کوئی اسے ظالم کہتاہے اورکوئی قاتل کہتاہے۔کوئی مندروں کوگرانے والابتاتاہے۔کوئی ہندوؤ ں کاکٹّردشمن سمجھتاہے لیکن حقیقت میں وہ‘‘عالمگیر’’کے لقب کا مستحق ہے۔اورنگ زیب کے ہم عصرہندووقائع نگار وں کابیان ہے کہ وہ ایک نیک دل حکمراں اورنیک صفت انسان تھا۔اس کاعہدِحکومت اتنااچھاتھااوروہ خود اتنااچھاتھا کہ پرماتما نے ہندوستان کی باگ ڈوراور حکومت اس کے حوالے کرکے بے فکری سے اپنی آنکھیں بندکرلی تھیں۔اورنگ زیب سلطنت کے باغیوں کے لیے سخت گیراورعام رعایاکے لیے نہایت نرم دل تھا۔’’
          (تاریخِ ہند۔ص، 58/طپنڈت ایشوری پرشا؛د)
     دوسرے سیّاحوں کی طرح کیپٹن الیکزینڈر ہملٹن نے بھی اس ملک کاجغرافیہ،تہذیب وتمدّن ،زبان اور لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں اپنے سفرنامۂ ہندمیں تفصیل سے لکھاہے۔اورنگ زیب سے ملاقات کے باب میں لکھتاہے۔
      ‘‘بادشاہ اپنے مذہب پر پوری طرح کاربندہے۔اس کی خواہش ہےکہ عام مسلمان بھی اپنےمذہب کےپابندہوں۔ان کے کرداروعمل سے ظاہرہوکہ وہ مسلمان ہیں۔لیکن مسلمانوں پراس کے مذہبی حقوق کے باوجوداُن پر سختی نہیں کرتا۔پھربھی اس کی مذہبی شخصیت کے اثرات رعایاسے ظاہرہوتے ہیں۔ہندوستان میں بہت سے مذاہب اورعقائدکے لوگ رہتے بستے ہیں لیکن وہ سب ایک قوم کہلاتے ہیں۔مذہب کوریاست سے الگ رکھاگیا ہے۔ مذہب کی تبلیغ واشاعت کے لیے کسی فرقہ پرکوئی پابندی نہیں ہے۔وہ جس طرح چاہے اپنے مذہب وعقائد کی تبلیغ کرسکتاہے۔’’ ’ 
       ‘‘یہی حال تجارت،صنعت وحرفت اورزراعت کابھی ہے۔ بادشاہ نے بہت سارے اضافی ٹیکس معاف کررکھے ہیں جس کے نتیجے میں ہرپیشہ سے متعلق افرادخاصے مطمئین اورخوش نظرآتے ہیں۔ہرچیز فروغ پارہی ہے۔ برائے نام ٹیکس ہونے کی وجہ سے بازاروں میں ہرچیز سستے داموں میں ہے۔اسی مناسبت سےاشیائےخوردنی کے نرخ بہت ارزاں ہیں۔عام طورپرخوشحالی کادَوردَورہ ہے۔خوشحالی کی وجہ سے رعایا خودبادشاہ کی مدد  گارہے۔ ایسامیں نے ہندوستان کے علاوہ کہیں اورنہیں دیکھاکہ بادشاہ اوررعایاکے درمیان رشتہ ورابطہ اتنا قریبی ہو جتناکہ اورنگ زیب اوراس کی رعایامیں ہے۔’’ 
     ‘‘مسلمانوں اوریہاں کےقدیم باشندوں کےرہن سہن اورلباس وغیرہ میں اب بھی نمایاں فرق نظرآتاہےمگر یہ فرق بھی خاص خاص موقعوں پرظاہرہوتاہے۔’’ 
     ہملٹن لکھتاہے کہ ‘‘ہندوستان کی تجارت کامقابلہ یورپ کے بڑے بڑے ممالک بھی نہیں کرسکتے۔یہاں کا صرف ایک تاجر سالانہ بیس بیس مال بردار جہاز دوسرے ملکوں کوبھیجتاہے۔ہرجہاز میں دس ہزارپونڈ سے پچیس ہزارپونڈتک کی ما لیت کاسامان ہوتاہے۔ہزاروں پونڈسالانہ کی مچھلیاں ما لابارسے یورپ کے ملکوں میں روانہ کی جاتی ہیں۔سیکڑوں جہاز  ہندوستانی مال کی برآمدات کے لیے یہاں کی بندرگاہوں میں مال سے لدے کھڑے رہتے ہیں۔’’ 
      ‘‘حکومت کوسالانہ مالیہ ساٹھ کروڑروپئے وصول ہوتاہے۔صنعت وحرفت کوخوب فروغ حاصل ہے۔اورنگ زیب نےاپنی رعایا پرسے اُن تمام نامناسب ٹیکسوں کو ہٹا لیاجو اس کے باپ شاہ جہاں اور اس سے بھی پہلے کے مغل بادشاہوں نےلگارکھےتھے۔اورنگ زیب نے تخت نشین ہوتے ہی رعایاپرسےاسّی(80) قسم کے ٹیکس ہٹالیے تھے جورعایاکی ترقی اورخوش حالی میں مانع تھے۔’’ 
      ‘‘ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان پرانی تفریق کم ضرور ہوئی ہے مگرختم نہیں ہوئی ہے۔ان کے کھانے،پینے اورپہننے اوڑھنے میں یہ تفریق اب بھی نمایاں ہے لیکن ایسالگتاہے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گاکہ یہ تفریق کم سے کم ہوتی جائےگی۔دونوں قوموں کے درمیان یک رنگی اوریکجہتی کی رفتاربتارہی ہےکہ جیسےجیسے وقت گزرے گا،سوائے مذہب کےسب ایک رنگ میں رنگ جائیں گے۔’’ 
      ‘‘اورنگ زیب نے اپنی حکمتِ عملی اورعدل گستری سےہندومسلم قومی ایکتااوراتحادکوقائم وبرقراررکھا ہے۔یہی و جہ ہے کہ حکو مت کاوفادارکوئی بھی ہو، خواہ مسلمان ہویاہندو،بڑے بڑے عہدوں پرفائزہے۔ وفاداروں کے لیےترقی اوردرجۂ کمال کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ صلاحیت کی بنیادپربڑے بڑے منصب عطاکیے جاتے ہیں۔اس سلسلے میں مذہب،قومیت اورنسل ورنگ میں تمیزنہیں کی جاتی۔ایک طرف جہاں میرجملہ اس کافوجی کمانڈرہے وہیں مشہوراورنامور سالاروں میں جسونت سنگھ اورجَے سنگھ کی طرح اوربھی بہت سے ہندو منصب دارہیں جن پروہ پوری طرح اعتمادکرتاہے۔اس کی عظیم سلطنت کاسارانظم ونسق اورتمام مالی اُمورکانگراں یعنی وزیرِخزانہ دیوان رگھوناتھ کھتّری ہے۔یہ اتنابڑاشاہی منصب ہے جس کے حصول کے لیے سلطنت کے اُمراء ورؤساءہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔حکومت کے دوسرے کلیدی شعبوں میں مسلمانوں کی طرح ہندوبھی اعلاعہدوں پرہیں۔بادشاہ وفاداروں کووفاداری کابھرپور صِلہ دیتاہے لیکن اپنے دشمنوں اورغدّاروں کوکبھی معاف نہیں کرتا۔اسی کےعہد حکومت میں۔انڈیا‘‘سونے کی چڑیا’’کے نام سےمشہور ہوا۔اس نے پچاس سال تک نہایت شان وشوکت اور دبدبہ کے ساتھ حکومت کی ۔’’
       (سفرنامۂ ہند۔۔کیپٹن الیگزینڈرہملٹن۔۔بحوالہ/ اورنگ زیب عالمگیر،،۔مصنف/انس مسرورؔانصاری)

                     ٭ انس مسرورؔانصاری
          قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ)
      سکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈ کرنگر(یو،پی)
                       رابطہ/9453347784-

جمعرات, اگست 17, 2023

مسر و ر ہے یہ آ ئینہ تطہر بھی گو ا ہ قر آ ن کے لبو ں پہ ہے نغمہ حسین کا انس مسرورانصاری قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ)

*****جلو ہ حسین کا *****
اردودنیانیوز۷۲ 
             * انس مسرورانصاری

     مقتل میں لٹ گیا سب ا ساثہ حسین کا
     شکرِخدا ہے پھر بھی و ظیفہ حسین کا
 
    طو فا نِ بر ق و با د ہے حملہ حسین کا
     پتھر کو تو ڑ تا ہو ا شیشہ حسین کا
  
    نکلا ہے لب پہ ذ کرِ حسینی لیے ہو ئے 
     اس ما ہ کا ہر ا یک ر سا لہ حسین کا
  
   جانِ یز ید یت ہےگلے میں پھنسی ہو ئی
   مضبوط کس قد ر ہے شکنجہ حسین کا

   غیرت سے پا نی پا نی تھا دریا فرأت کا
   حسرت سے د یکھتا رہا چہر ہ حسین کا

   نا نا کی ملکیت میں ہے یہ ساری کائنات
   مکًہ حسین کا ہے مد ینہ حسین کا

   شا نِ حسین شر حِ قر آ نِ عظیم ہے
  آ سا ن تو نھیں ہے سمجھنا حسین کا

   ظلمت سرائے دہر میں قند یل کی طرح
   روشن ر ہا چر ا غِ سرا پا حسین کا

   بچتا نہ ا یک فر د یز ید ی سپا ہ کا
   قدرت نے ہا تھ روک دیا تھا حسین کا

 سردیں گےپرنہ ہاتھ میں فاسق کےدیں گےہاتھ
   یہ جو ش یہ غضب یہ ا ر ا د ہ حسین کا

   اصغرکےخوں سےلکھ دیا، اسلام زند ہ باد
   یہ د م یہ حو صلہ یہ کلیجہ حسین کا
 
  پیا سے حسین کب ہیں یہ گو یا ہوا فرأت
   خود میرا قطرہ قطرہ ہے پیا ساحسین کا

   اسوہ رسول کا ہے، شر یعت رسول کی 
   سیرت کے آ ئینے میں ہے جلو ہ حسین کا
 
  نفرت یز ید یت کا ہے ا ک نا م د و سرا
   نصرت کے سا تھ ہوتا ہے چرچہ حسین کا

   نا نا سے مومنوں کی شفاعت کرا ئیں گے 
   جاری ر ہے گا حشر میں سکّہ حسین کا

   شاخوں میں جتنےپھول تھےسب ہوگئےجدا
   قا ئم سروں پہ پھر بھی ہے سا یہ حسین کا

   لپٹی ہو ئی رِ د ا ئے معطر سے عظمتیں 
   پڑھتے ہو ئے و ہ رتبے قصید ہ حسین کا
  
 جیسے کلا مِ ر ب ہو ز با نِِ رسو ل پر
   با تیں نبی کی ا و ر ہے لہجہ حسین کا

   سجد ے نثا ر لا کھو ں تقد س مآ ب کے
افضل ہےسارے سجدوں میں سجدہ حسین کا

   گھو ڑ ے پہ جب سوار ہو ا فاطمہ کا لا ل
   حو ر یں ا تا ر نے لگیں صد قہ حسین کا

   صحرا میں بین کر تی ر ہی سرخ سرخ دھوپ
   ا و ر چو متی تھیں کر نیں عما مہ حسین کا
 
اک مورچہ پہ دشت کے خوش ہے یز ید یت
لیکن ہر ا یک د ل پہ ہے قبضہ حسین کا

مو من ہے، مر دِ حق ہے ، خد ا کو عز یز ہے
ا پنا لیا ہے جس نے طر یقہ حسین کا

لا ز م ہے نسلِ نّو کو ا سے منتقل کر یں
قسمت سے جو ملا ہمیں ورثہ حسین کا

مسر و ر ہے یہ آ ئینہ تطہر بھی گو ا ہ 
قر آ ن کے لبو ں پہ ہے نغمہ حسین کا
                         انس مسرورانصاری
            قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) 
                     رابطہ/9453347784*
*******************************************

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...