Powered By Blogger

اتوار, ستمبر 10, 2023

** گھرآنگن کی شاعری***
اردودنیانیوز۷۲ 
      ✍️       ٭ انس مسرورؔانصاری 

           ہندوستان کی مہذ ب زبانوں میں شاعری کےبیشتر حصّےعورت کےذکرسےعبارت ہیں لیکن جیساکہ ‘‘گھرآنگن’’میں کرشن چند ر نےلکھاہے:
          ‘‘شاعراپنی محبوبہ کو جنگل جنگل،صحراصحراتلاش کرتاہےمگرکبھی وہاں نہیں تلاش کرتاجہاں وہ پائی جاتی ہے۔یعنی اپنےگھرمیں۔مزاحیہ یاطنزیہ شاعری میں گھرکی عورت کاذکر آتاہےلیکن اس تذکرےمیں عورت ہدفِ ملامت بن کراُبھرتی ہے۔رزمیہ شاعری میں عورت ایک نرس ہےیاروتی پیٹتی بیوہ ہے، بےبس اورمجبور،ماحول حشر کاہے،گھرکانہیں۔فلسفیانہ شاعری میں بالعموم عرش کےمسائل سے بحث کی جاتی ہےاور عورت بالعموم گھرکےفرش پرکام کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔کبھی کبھی فلسفی شاعرعورت کاذکرکردیتے ہیں تواکثراوقات اُس کی متلؤن مزاجی کاگلہ بھی کرتےہیں۔کیوں کہ عظیم فلسفیانہ شاعری صرف مردوں نےکی ہے۔اس لیےاُنہیں  حق پہنچتاہےکہ جوچاہیں کہہ دیں۔عورت تک فلسفی شاعرکے افکارنہی پہنچتے،کیونکہ وہ اُس کاکھاناتیارکرنےمیں مصروف ہوتی ہے۔’’ 
      کرشن چندرکایہ تبصرہ حقائق پرمبنی ہے۔یہ خلاء نہ صرف ہندوستانی زبانوں میں پایاجاتاہےبلکہ دنیا کی قدیم وجدیدزبانوں کی شاعری،گھر آنگن کےموضوع سےتقریباّّ محروم ہے۔ہم دنیابھرکی شاعری میں عورت کوڈرائنگ روم یا کافی ہاؤس میں مشروبات سے شغل کرتےہوئے،پرائے مردوں سےہنس ہنس کرباتیں کرتے ہوئے،کئی روپ میں دیکھ سکتے ہیں لیکن ہمیں وہ عورت کہیں نظرنہیں آتی جواپنی فطری حیا وشرم کےباعث بعض مرتبہ اپنے شوہرسےبھی آنکھ نہیں ملاپاتی۔شاعری میں شوخ وچنچل، قاتل،بے رحم اورستم گرحسینہ تونظرآجاتی ہےلیکن اس وفا شعاراورپاکبازبیوی کادوردورتک پتانہیں جوگھرمیں چلتی پھرتی،اٹھتی بیٹھتی،کھاناتیار کرتی،شرٹ کی ٹوٹی ہوئی بٹن ٹانکتی،حسدورقابت میں جلتی ہوئی،بچوں کویونیفارم پنہاکر اسکول بھیجتی اوررات گئےتک اپنےشوہر،اپنے مجازی خداکے انتظارمیں اونگھتی اوردیرسے گھرلوٹنےپرکھاناگرم کرتی ہوئی ہوتی ہے۔ 
       ہم یہ بات مان بھی لیں کہ مغربی تہذیب میں اس عورت کاوجودکبھی نہیں رہامگر مشرق میں پائی جانےوالی اس حقیقت کوہم کیسےفرامو ش کرسکتے ہیں۔دورکیوں جایئےصرف اردو شاعری کامطالعہ کرلیجئےجو عورت کےذکرسےبھری پڑی ہے، لیکن ہمیں گھرکی عورت کہیں بھی نظرنہیں آ تی اوراگرعورت جیسی کسی مخلوق کوشاعروں نے پیش کیاہےتووہ آسمان کی حورہوکررہ گئی ہےیاایک قاتل اورخنجربکف حسینہ کی صورت اختیارکیےہوئےہے۔عورت ہمیں کہیں نہیں ملتی۔اس کےعشوہ واندازاورنازونیازکاذکرتوملتاہے لیکن اس کے تقدس،پاکیزگی، نازک جذبات واحساسات، اس کی فطری شرافت اوروفاداری کاذکرنہیں ملتا۔کیونکہ ہماری شاعری میں عورت کبھی کنوارپن سےآگے نہیں بڑھ سکی۔یعنی عورت کوکبھی اس کے اصل رنگ وروپ اورصحیح مقام سےپیش نہیں کیاگیا۔ہمیشہ اس کی صورت پہلے مسخ کی گئی، پھراسے سامنے لایاگیا۔
          اُردوشاعری میں عورت کبھی ماورائی اورقابلِ پرستش مخلوق رہی ہےاورکبھی لائقِ صد نفریں۔!میں سمجھتاہوں کہ شاعروں نےاپنی بےوفامحبوبہ  کوکبھی وفاشعاربیوی بننےکاحق  اورموقع نہیں دیا۔یہ شاعر کی بےایمانی اورحقائق سےچشم پوشی ہے
اُردوشاعری میں اس خلاکوپُرکرنےکی اوّلین کوشش فراقؔ گورکھپوری کی ہے۔نداؔ فاضلی کی توجہ بھی اس طرف ہوئی اوراحمدندیم قاسمی نے بھی عورت کےصحیح خدوخال ابھارنےکی سعی کی لیکن وہ بھی اس قتا لۂ عالم حسینہ کو صرف محبوبہ بنا سکے،اس سے شادی کرنےکی جرأت قاسمی میں بھی نہیں ہوئی۔انھوں نے البتہ اتناکیاکہ عرش کی حورکو فرش پراتارکراسےغورسےدیکھا اورلب کشاہوئے ۔
 دیکھ ری توپنگھٹ پرجاکرمیرا ذکرنہ چھیڑاکر
میں کیاجانوں وہ کیسےہیں کس کوچےمیں رہتےہیں
 میں نےکب تعریفیں کی ہیں اُن کےبانکےنینوں کی 
وہ اچھےخوش پوش جواں ہیں،میرےبھیّا کہتےہیں 
       قاسمی نےاتناتوکیاکہ شاعری کی الّھڑاورشوخ وچنچل دوشیزہ کوایک بھائی عطاکردیا لیکن وہ گھریلوعورت ہمیں پھر بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی جس کےوجودکو اقبالؔ نےتصویرِ کائنات کارنگ کہا ہے۔ 
   ‘‘وجودِزن سے ہےتصویرِ کائنات میں رنگ۔’’ 
 لیکن اقبال کی شاعری میں زن یعنی عورت کاکوئی اہم کردار نہیں۔اکثرشاعروں نےگھرکی عورت کونظرانداز کیا۔اردوشاعری میں اس کمی کو جاں نثاراخترؔ(1974/1914) نےپوراکرنےکی کوشش کی اور شاعری میں پہلی بارایساہواکہ گھریلوعورت کوموضوعِ سخن بنایاگیا۔
     جاں نثاراخترؔکی رباعیات کا مجموعہ‘‘گھرآنگن’’ کی شاعری عائلی اورگھریلوموضوعات سے عبارت ہے۔یہ دیکھ کرخوشی ہوتی ہےکہ غالبؔ واقبالؔ اور دیگر شعرائےاردوکی نظرانداز کی ہوئی شوخ وچنچل اورسربرہنہ لڑکی کو اخترؔ نےپہلی بارسہاگن کاروپ دیااوراس سےشادی کرکے اس کےسرپردوپٹّہ ڈال کراپنے گھرلےگئےاوراس سےجی بھرکے پیارکیا۔عورت جوشاعری میں ہمیشہ ایک محبوبہ اورشراب پلانےولی (ساقی)رہی ہے،اختر نےاسےآوارگی کی دلدل سےنکال کراس کےساتھ ایک خوبصورت ساگھربسایا۔اس کےرنج وراحت کےشریک ہوئے۔اپنےدکھ سکھ میں اسےشامل کیا۔عورت کواس کاصحیح مقام اخترؔ نےدیا۔             
       ۔۔گھرآنگن۔۔کی عورت ہماری اپنی محبوب بیوی اورشریکِ حیات ہےجوہمارےدکھ سےدکھی اورہمارےسکھ سےسکھی ہے،اور جورات گئےتک ہماراانتظارکرتی، کھاناگرم کرکےہمیں پیارسےکھلا تی ہے۔دیر سےگھرآنےکی شکایت کرتی ہے۔ہم سےلڑتی جھگڑتی ہے۔روٹھتی اورمناتی ہے۔ہمارے بچوں کواسکول پہنچاتی ہے۔ہم سےلڑتی ہےاورہمیں جی جان سے ٹوٹ کرپیاربھی کرتی ہے۔ یہ عورت پھولوں کی گلابی اور سُرمئی وادیوں کےبجائےہمارے اپنےگھرمیں رہتی ہے۔      
         اخترؔکاکمال یہ ہےکہ انھوں نےعورت کواس کےتمام فطری تقاضوں اورنسائی حسن کےساتھ پیش کیاہے۔خوبیوں اور خامیوں کےساتھ۔!مکمّل ایک عورت جوشوہرکی نینداُچٹ جانےکےخوف سےاپنےکپڑوں کی سرسراہٹ بھی روک لیتی ہےاور بہت خاموشی کے ساتھ اپنے ‘‘اُن’’کوچادراڑھادیتی ہے۔ 
  کپڑ و ں کو سمیٹے ہو ئے اُ ٹھی ہے مگر
  ڈ ر تی ہے کہیں اُ ن کو نہ ہو جا ئے خبر
  تھک کرابھی سوئےہیں کہیں جاگ نہ جائیں
  د ھیر ے سے اُ ڑھا رہی ہے اُ ن کو چا د ر 
         عورت کےاندررشک وحسد اوررقابت کاجذبہ شدیدہوتاہے۔وہ برداشت نہیں کرسکتی کہ دو سراکوئی اس کےشوہرکوآنکھ بھی اٹھاکردیکھے۔شوہر سےاُس کی بےپناہ محبت کایہ بھی ایک اندازہے۔
ہرچاند نی را ت اُ س کے د ل کو د ھڑکائے 
 بھولےسےبھی کھڑکیوں کےپردے نہ ہٹائے
ڈ رتی ہے کسی وقت کو ئی شو خ کر ن
چپکے سے نہ اُ ن کے پا س آ کر سو جا ئے 
        مردگھرکےباہرکاکام کرتاہے لیکن عورت بھی ازدواجی زندگی کوخو ش گواربنانےکے لیےگھرکےاندر کچھ کم محنت نہیں کرتی۔ہم گھرکےآنگن میں اسےکام کرتےہوئےدیکھ سکتے ہیں۔وہ خنجرچلانےکےبجائے کچن کی صفائی کرتی اوربرتن مانجھتی ہےاوراپنے شوہرکا بوجھ ہلکا کرتی ہے ؂
گاتی ہوئی ہاتھوں میں یہ سنگر کی مشین
قطر و ں سے پسینے کے شر ا بو ر جبین
مصروف کسی کام میں دیکھوں جوتجھے
تو ا و ر بھی مجھ کو نظر آ تی ہے حسین
       کل کی بےنیازخنجربکف محبوبہ شادی کےبعدایسی محبت کرنےوالی شریکِ حیات بن جاتی ہےجوشوہرکےقدموں کی آہٹ پاکراپنی سُدھ بُدھ کھو بیٹھتی ہے،یہاں تک کہ اُن کے قدموں کی آہٹ سےچونک پڑتی ہےاورکچن میں توےپرجلتی ہوئی روٹی چھوڑکراپنے ہم سفر کااستقبال خوش دلی سےکرتی ہے ؂
آہٹ مرے قدموں کی جوسن پائی ہے
 بجلی سی تن بد ن میں لہر ا ئی ہے
دوڑی ہے ہراک بات کی سدھ بسراکے
روٹی، جلتی، تو ے پر چھو ڑ آ ئی ہے
       یہ کوئی ماورائی مخلوق نہیں،بلکہ ہمارےدرمیان دھرتی پرچلتی پھرتی ہوئی حساس عورت ہےجوچائےپراپنےشوہر کاانتظارکرسکتی ہےاوردیر ہونےپرطرح طرح کےوہم اورخدشات میں مبتلاہوکر بےقرارہوسکتی ہے؂
ہر ا یک گھڑ ی شا ق گز ر تی ہو گی
سو طر ح کے و ہم کر کے مر تی ہو گی
گھرجانےکی جلدی تو نہیں مجھ کومگر
و ہ چا ئے پہ ا نتظا ر کر تی ہو گی 
           گھرآنگن کی عورت مختلف اندازمیں ہمارےسامنے آتی ہے۔شریکِ حیات کی تمام ترذمّہ داریوں کےساتھ ! ؂
پانی کبھی دے رہی ہے پھلواری میں
کپڑے کبھی رکھ رہی ہے الماری میں
تو کتنی گھر یلو سی نظر آ تی ہے
لپٹی ہوئی ہاتھ کی دھلی ساری میں 
                                              ****
 ا شکوں سے بھرے نین کلا ئی سے چھپائے
 کہتی ہےمیں کیامانگوں بس اب اس کےسوائے
 جا تے ہو تو سینے سے لگا کر ا ک با ر
 یوں بھینچ لو مجھ کو کہ مرا د م گھُٹ جائے
                                                 *****
فکروں سے اُ تر گئی ہے صورت اُ ن کی
اُ لجھی ہو ئی ر ہتی ہے طبیعت اُ ن کی 
آ ئے گی سکھی کہا ں سے ہمت اُ ن میں
میں ہی نہ بندھا ؤں گی جوہمت اُ ن کی
       جاں نثاراخترؔ کی ر باعیوں میں خالص ہندوستانی تہذیب وتمدن اورعام گھریلوزندگی کے نشیب وفرازکی جھلکیاں پوری آب وتاب کےساتھ نظرآتی ہیں۔اُن کےاُسلوب میں آبشارکی سی ترنم ریزی ہے۔ڈاکٹر زیبامحمود لکھتی ہیں:
         ‘‘جاں نثاراخترکےفن پارےاس امرکی تصدیق کرتےنظرآتےہیں کہ انسان جذبات وخیالات کامجموعہ ہے۔جاں نثار اخترکی شخصیت رومان پرور ہے۔اُن کےرومانی خیالات میں جوخلوصِ درداورترنّم ملتاہےوہ اُن کی اپنی یادوں کامرہونِ منت ہے۔جاں نثاراخترجہاں ایک طرف مارکسی فکرونظرسےمرعوب نظرآتےہیں تودوسری طرف ہندیائی عناصرکی خوشبوسے بھی اُن کاکلام معطّر ہے۔وہ ڈاکٹرکشورسلطانہ کی تحریرکے حوالےسےکہتی ہیں کہ غالب نے اُردوزبان کوسلیس اُسلوبِ بیان عطاکیاہےاور مراسلہ کومکالمہ بنادیاہے۔جاں نثاراخترنےاپنی نظم کومکالمہ بنادیاہے۔اُنھوں نے اپنی شاعری میں جدیدروش اختیارکرکےسادگی اور سلاست کےایسےخوشنمابیل بوٹےکھلائے ہیں جنھیں اُردوشاعری کی زینت کہاجاسکتاہے۔’’ 
      زیبا محمودلکھتی ہیں کہ ‘‘بنیادی طورپروہ محبت کے شاعرہیں اورامن ومحبت اُن کاپسندیدہ موضوع ہے۔بیان کی سادگی،صداقت وسلاست سے مزین ہے،اُن کا اندازِبیان دل پزیر ہے۔رومانی جذبات نگاری میں سماجی شعورسمونےمیں اُن کو یدِطولیٰ حاصل ہےاوراس اعتبار سےاُن کی شاعری میں رومان کا ایک نمایاں اورمربوط پہلوسامنے آیاہے......جاں نثاراخترکی رومانیت یک رخی نہیں بلکہ ہشت پہلونگینےکی وقعت رکھتی ہےجس سےمعنی ومفہوم کی شعاعیں پھوٹتی نظرآتی ہیں۔اُن کی شاعری میں اُن کا دھیمالہجہ رومانی تلخی میں شرابور ہے۔جاں نثاراخترکی شاعری کی دنیاپُرکیف کیفیات کا اظہارہےاورجب وہ سیاسی اور انقلابی میدان میں قدم رکھتے ہیں تواُن کی شاعری اُن کے فطری مزاج سے ہم آہنگ نظرآتی ہےاوراُن کافطری رجحان لفظیات پرحاوی ہے۔اُنھوں نے رومان اور انقلاب کےاحساس کوانتہائی خوبصورت جمالیاتی پیکرعطا کیاہےجواُن کی شاعرانہ شخصیت کی تشکیل میں اساسی اہمیت رکھتاہے۔اُن کی شاعری میں ایک صاحبِ دل کا جوش وخروش ہےاوراُن کی شعری صدامیں عزم واستقلال کی گونج ہے۔درحقیقت وہی فن پارہ پائدارہوتاہےجومحض فن کے معیارپرنہیں بلکہ زندگی کی کسوٹی پربھی پورااُترےاورجاں نثاراخترنےاپنےفن پاروں میں رومان اورافادیت دونوں کو ملحوظ رکھاہے۔زندگی کی صداقتوں سےلبریزاُن کےشعری فن پارےگراں قدراہمیت کےحامل ہیں اوراس دورکی حسیت کے بھر پورترجمان بھی۔رومانیت کی تواناآوازبھی۔جس میں شدت بھی ہےاوردل بستگی بھی ۔’’
    ‘‘انتقادیات،،ص،73/68۔۔ڈاکٹرزیبا محمود) 
         جاں نثاراخترکاشعری اُسلوب نہایت نرم مگرتواناہے۔وہ انقلاب کی بات بھی کرتےہیں تو بہت نرم لہجے میں۔ترقی پسند شاعرہونےکےباوجوداُن کی شاعری میں گھن گرج نہیں بلکہ شیتل پانی کی پُرسکون طراوت ہے۔ایک برفیلی آگ ہےجواُن کے شعری پیکروں میں آتش فشانی کرتی ہے۔بلاشبہ وہ محبت کے نغمہ نگارہیں۔محبت کی دیوی کےپجاری ہیں۔سب سےبڑی اور اہم بات یہ ہےکہ دوسرےشاعروں کی طرح اُنھیں کسی خیالی محبوبہ کی بھی ضرورت نہیں۔وہ مقدرکےسکندرتھےکہ صفیہ باجی(مجازؔ کی بہن) جیسی محبت کرنےوالی ہم سفربیوی ملیں جو ہمیشہ اُن کےحوصلوں کوتقویت دیتی رہیں۔اُن کی رحلت کےبعدجاں نثاراخترکو خدیجہ،آپاجیسی چاہنےوالی شریکِ حیات ملیں۔اُن کےجیسا خوش نصیب شاعرکون ہوگا۔ان ، حالات میں اگروہ آتش وآہن کی بات کرتےتوواقعی تعجب ہوتا۔ 
تو د یش کے مہکے ہو ئے آ نچل میں پلی 
 ہرسوچ ہےخوشبوؤں کےسانچےمیں ڈھلی
ہا تھو ں کو یہ جو ڑ نے کا د ل کش ا نداز
ڈ ا لی پہ کنو ل کی جس طر ح بند کلی 
                                               ****
 یہ تیر ا سبھا ؤ یہ سلیقہ یہ سر و پ
 لہجےکی یہ چھاؤں،گرم جذبوں کی یہ د ھوپ
 سیتا بھی ، شکنتلا بھی ، ر ا د ھا بھی تو
 یگ یگ سے بد لتی آ ئی ہے تو ر و پ
      درج بالارباعیات کےمطالعہ کےبعدہم یہ کہہ سکتےہیں کہ اردوشاعری میں پہلی بارعورت کواس کےاصلی اورنسائی روپ میں پیش کرنےکی ایک کامیاب اور فعال کوشش کی گئی ہےاور یہ جاں نثاراخترؔ کاحصّہ ہے۔             
       سردارؔ جعفری،ساحرؔلدھیا نوی،مخدوم محی الدین اوراخترؔ الایمان جیسےبلندآہنگ شاعروں کےدرمیان رہ کراپنی شاعری کو گھن گرج سےبچانامشکل تھا لیکن یہ مرحلہ بھی اُنھوں نے سرکیا۔ان کی شاعری چاندنی کی طرح ٹھنڈی اور پانی کی طرح شیتل ہے،پہاڑی ندی کی طرح پُرشور نہیں بلکہ سمندر کی طرح پُرسکون اور گمبھیر۔! 
                                 *******    

      ٭ انس مسرورؔانصاری

قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(انڈیا)
                 رابطہ:۔ ب9453347784/

ہفتہ, ستمبر 09, 2023

کوچنگ انسٹی چیوٹ پر نئی پابندیاں
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 محکمہ تعلیم حکومت بہار نے کوچنگ انسٹی چیوٹ کے ضوابط میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں، اور کوچنگ انسٹی چیوٹ پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں، ان کے مطابق کوئی بھی کوچنگ سرکاری تعلیمی اداروں خواہ وہ اسکول ہو یا کالج کے اساتذہ سے اپنے یہاں تدریسی کام نہیں لے سکتا، کوچنگ کی فیس میں من مانی نہیں چلے گی، ڈی ایم اس پر نہ صرف نگاہ رکھیں گے بلکہ حسب ضرورت اس میں کٹوتی بھی کر سکتے ہیں، منظوری کے لیے ضروری ہوگا کہ ہر درجہ کا کار پیٹ ایریا 300اسکوائر فٹ ہو، تعلیمی اوقات بھی وہ رکھنے ہوں گے جو سرکاری تعلیمی اداروں کا تدریسی اوقات نہ ہو، تاکہ طلبہ سرکاری اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں اپنا وقت لگا سکیں گے، کوچنگ میں وہاں کی سہولیات کو مد نظر رکھ کر طلبہ کی تعداد مقرر کی جائے گی اور جب ضرورت ہوگی ضلع مجسٹریٹ کو اس میں کسی بھی تبدیلی کا حق ہوگا اور وہ طلبہ کی فلاح کو سامنے رکھ کر کوئی بھی حکم دے سکتے ہیں، ڈی ایم کے حکم کی خلاف ورزی پر کوچنگ کا رجسٹریشن ختم کیا جا سکے گا۔ یہ ابھی ایک ڈرافٹ ہے اور اس پر عام لوگوں کو سات دنوں کے اندر رائے دینے کو کہا گیا ہے۔ محکمۂ تعلیم نے اسے ویب سائٹ پر لوڈ کردیا ہے۔directors.edu@gmail.comپر اپنی رائے بھی سکتے ہیں۔

جمعرات, ستمبر 07, 2023

سی بی آئی کے التوا شدہ مقدمات

سی بی آئی کے التوا شدہ مقدمات
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (CBI) ملک کا باوقار ادارہ سمجھاجاتارہاہے، اس کا کام جرائم اوربدعنوانی کی تحقیق اور ملزمین کے خلاف مقدمات کرکے اسے سزا دلانا ہے، اس کی اپنی عدالت ہے، پہلے وہاں سے فیصلہ ہوتا ہے اور پھر ہندوستان کی مروجہ عدالت میں نچلی سطح سے اوپر تک اس کے خلاف اپیل کی جاسکتی ہے، سی بی آئی بھی عدالت کے فیصلے کو اوپری عدالت میں چیلنج کرسکتی ہے اور کرتی رہی ہے، حال ہی میں آپ نے سنا ہوگا کہ سی بی آئی، لالو جی کی ضمانت رد کرانے کے لئے سپریم کورٹ گئی ہے۔
سی بی آئی کی تحقیق اور عدالت میں مقدمات کے حوالہ سے سنٹرل ویجی لینس کمیشن (CVC) کی رپورٹ کے مطابق سی بی آئی کے ذریعہ بدعنوانی کے 6841مقدمات ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر غور ہیں، تفصیلات کے مطابق 313مقدمات 20سال، 2039مقدمات 15سال، 2324مقدمات 5سے 10سال اور 842سے زیادہ مقدمات 3سے 5سال سے عدالتوں میں زیر التوا ہیں یہ رپورٹ 31دسمبر 2022ء تک کی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی مختلف عدالتوں میں فیصلہ پر نظرثانی اور اپیلیں اس کے علاوہ ہیں۔ 12408 مقدمات وہ ہیں جو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں نظرثانی کی منتظر ہیں، ایسے مقدمات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 417وہ مقدمات ہیں جو 20سال سے زائد سے زیر التوا ہیں، 688اپیلیں نظرثانی کی پندرہ سالوں سے منتظر ہیں، 2314معاملات10سال، 4005مقدمات پانچ سے دس سال اور 2881مقدمات دو سے پانچ سال اور 2103مقدمات دوسال سے کم عرصہ سے نظرثانی کی فہرست میں ہیں، ساٹھ معاملات وہ ہیں، جن کی گزشتہ تین سالوں سے اب تک جانچ بھی شروع نہیں ہوسکی ہے، جو مقدمات زیر التوا ہیں ان میں گروپ اے کے افسران کے خلاف 52اور گروپ بی اور سی کے انیس(19) مقدمات کی تحقیقات التواء میں ہیں۔ 2022ء میں سی بی آئی نے جو مقدمات درج کیے ان کی تعداد 946ہے، جن میں 829عام اور 117 ابتدائی جانچ سے متعلق ہے، ان میں سے 30مقدمات ریاستی حکومتوں کے اور 107مقدمات مختلف عدالتوں کے فیصلے کے نتیجے میں سی بی آئی کے پاس آئے ہیں۔ 
ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں جرائم کی تحقیق اور سزا دلانے کا عمل کس قدر سست ہے، کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر کا عمل خود بے انصافی ہے۔ یقینا اس سست رفتاری کی ایک بڑی وجہ سی بی آئی کے پاس کام کا زیادہ بوجھ اور عملے کی کمی ہے، یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جس کو دور نہیں کیا جاسکتاہے۔ اپنے مخالفین کو غلط طور پر پریشان کرنا اگر حکمراں طبقہ چھوڑ دے تو کام کا بوجھ سی بی آئی پر کم ہوجائے گا اور عملے کی تعداد بڑھاکر کام میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔ اس سے مجرمین کو سزا بھی جلد ملے گی اور سی بی آئی کی کارکردگی پر مختلف موقعوں سے جو سوالات اٹھتے رہے ہیں اس میں کمی بھی آئے گی۔

بدھ, ستمبر 06, 2023

یک طرفہ بلڈوزر کاروائی___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 ہریانہ کے نوح میں شوبھا یاترا کے دوران ہوئے پر تشدد واقعات اور فرقہ وارانہ فسادات نے ریاست کے لا اینڈ آرڈر کی چولیں ہلا کر رکھ دیں، اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد وہاں کی بی جے پی سرکار اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے یک طرفہ طور پر کاروائی کرتے ہوئے بلڈوزر کے ذریعہ بے قصور لوگوں اور غریب مسلمانوں کے بیشتر مکانات، دوکانوں اور کاروباری اداروں کو منہدم کرنا شروع کر دیا، اور دلیل یہ دی گئی کہ یہ انہدامی کاروائی نا جائز تعمیرات کی بنیاد پر کی جا رہی ہے، آخر حکومت اتنے دنوں سے کیا کر رہی تھی کہ برسوں سے آباد آشیانے کو اب اجاڑ نے کے لئے کمربستہ ہو گئی، ہاں جب پانی سر سے اونچا ہو گیا  اور شاہ راہ کے قریب واقع سینکڑوں دکانوں اور مکانوں کو زمیں بوس کر دیا گیاتو پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ نے اس معاملہ پر از خود نوٹس لیتے ہوئے توڑ پھوڑ کی کاروائی پر روک لگادی اور حکومت سے اب تک منہدم کئے گئے مکانات ودوکانوں کی فہرست طلب کی مگر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جن لوگوں کے مکانات گرائے گئے، حکومت اس کی از سر نو تعمیر کرائے گی یا اس کا معقول معاوضہ دے گی، یا یوپی اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں کی طرح عدالتی پھٹکار سن کر خاموش ہو جائے گی، کیونکہ ہریانہ کی کھٹر سرکار نے جو انہدامی کاروائی کی ہے اس میں ایسے لوگوں کے بھی مکانات ہیں جن کا اس واقعہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، فلہراگاؤں جو جنگل میں پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے، وہاں کے غریب مسلمانوں کی پوری بستی کو اجاڑ دیا، جہاں کے لوگوں نے تنکا تنکا جمع کرکے آشیانہ تیار کیا تھا، یک لخت بلڈوزر نے سب کو کنکڑ، پتھر اور ملبے میں تبدیل کردیا، انہیں حالات کے پس منظر میں مشور شاعر بشیر بدر نے کہا تھا کہ
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
افسوس اس بات پر بھی ہے کہ اتنے بڑے اقدام سے پہلے حکومت کسی کو نوٹس تک جاری نہیں کرتی، بلکہ اس کو جہاں جہاں مسلم آبادی نظر آئی اجاڑ تی چلی گئی اور بے قصوروں کو مجرم بتا کر دھڑ پکڑ کرتی رہی ہے، جس کی وجہ سے مسلمان خوف ودہشت کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں اور جہاں تہاں پناہ لینے پر مجبور ہیں، دوسری طرف اس فساد کے کلیدی مجرم شر پسند بلا روک ٹوک کے دندناتے پھر رہے ہیں، بلکہ انتظامیہ اور پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی اورنعرے بازی کرتے نظر آ رہے ہیں، انصاف کے اس دوہرے پیمانے نے ملک کے عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ نفرت کی سیاست کرنے اور مذہب کا استحصال کرنے والوں نے ملک کو کہاں پہونچا دیا ہے، اگر ملک کا سنجیدہ اور امن پسند طبقہ اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا تو نفرت کی آگ اور اس کی چنگاری سے کسی کا گھر محفوظ نہیں رہے گا، کیوں کہ یہ سب کچھ 2024ء کے عام انتخابات کے لئے ریہرسل کیا جا رہا ہے، اس کے لئے ہوشیار رہئے، بیدار رہئے اور نفرت کی سیاست کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی سعی مسلسل کیجئے۔

منگل, ستمبر 05, 2023

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں یوم اساتذہ منایا گیا
Urduduniyanews72 
 ہندوستان میں ہر سال ۵ ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے یہ ملک کے پہلے نائب صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس مو موقع پر تسمیہ جو نئیر ہائی اسکول میں بھی ڈاکٹر رادھا کرشنن کا یوم پیدائش دھوم دھام سے منایا گیا سبھی طالب علموں نے رنگا رنگ پروگرام پیش کیئے ۔ پروگرام کی شروعات سورہ فاتحہ کی تلاوت سے کی گئی۔ درجہ کی سائرہ اور حمیرہ نے ڈاکٹر رادھا کرشنن کی زندگی پر روشنی ڈالی، درجہ کی نویا اور شفاہ نے ڈاکٹر سرد پلی رادھا کرشنن کی زندگی پر روشنی ڈالی اور انکے کاموں کو سراہا، درجہ ۵ کی عالیہ اور عائشہ نے بھی ڈاکٹر رادھا کرشنن کے بارے میں سبھی طالب علموں کو آگاہ کرایا اسکے بعد درجہ کی نبیہ ذکر امنتشا، اقراہ عافیہ نے ایک گانا پیش کیا اور کبھی ٹیچرس کو مبارک بادی آخر میں پرنسپل صاحب نے سبھی کا شکریہ داد کیا اور بھی ٹیچرس کو یوم اساتذہ کی مبارک باد پیش کی۔ اس موقع پر اسکول کی جانب سے بھی ٹیچرس کو تحائف سے نوازا گیا۔

ہفتہ, ستمبر 02, 2023

چندریان-۳
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بالآخر 23؍اگست 2023ء کو چھ بج کر چار منٹ پر ہندوستان کے چاند پر پہونچ جانے کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور ہمارے سائنس دانوں نے ایک طویل خواب کو سچ کر دکھایا ، امریکہ، روس اور چین کے بعد چاند کی سطح پر سافٹ لینڈنگ حاصل کرنے والا ہندوستان چوتھا اور چاند کے قطب جنوبی پر اترنے والا ہندوستان پہلا ملک بن گیاہے’’چندریان-۲ ‘‘اور روس کے ’’لونا ۲۵‘‘کے ناکام ہونے کے بعد چندریان-۳ پوری دنیا کی امیدوں کا مرکز بن گیا تھا، جب تک سلامتی کے ساتھ لینڈ نہیں کیا، ہندوستان کے ہر شہری کی سانسیں رک سی گئی تھیں، لکھنؤ میں خبر ہے کہ گذشتہ روز سلامتی سے لینڈ کرنے کے لئے نماز پڑھ کر دعا بھی مانگی گئی اور اس پر سوشل میڈیا میں اچھی خاصی لے دے مچی اور کئی نے اسے’’ سیاسی نماز‘‘ سے تعبیر کیا، بات اس قدر بڑھی کہ جن صاحب نے اس نماز کا چرچا میڈیا پر کیا تھا، انہوں نے گیارہ بجے شب اس کی تاویل بلکہ تردید کرنی شروع کردی، صورت حال جو بھی ہو واقعہ یہی ہے کہ اس مشن کی کامیابی کے لئے سارے ہندوستان کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق دعائیں مانگ رہے تھے کہ ہمارے ہندوستانی سائنس دانوں کی محنت بار آور ہو۔
14جولائی 2023ء کو آندھرا پردیش واقع شری ہری کوٹہ کے دھون ایپس سنٹر سے چندریان -۳ کو اسرو(ہندوستانی خلائی تحقیقی مرکز) نے خلا میں بھیجنے میں کامیابی حاصل کی تھی، 15جولائی کو زمین سے اوپر لے جانے والے عمل کو پورا کیا گیا اور اس نے 37080کلومیٹر فی سکنڈ کے حساب سے زمین کے مدار میں گھومنا شروع کردیا، یکم اگست کو زمین کے مدار سے نکال کر اسے چاند کے مدار میں پہونچانے میں سائنس دانوں نے کامیابی حاصل کی، 9؍اگست کو وہ تیسرے مرحلہ کو مکمل کرکے پانچ ہزارکلو میٹر والے مرحلہ میں داخل ہوگیا، 16؍اگست کو یہ چاند کے قریب پہونچ گیا اور اس کی دوری صرف سو کلو میٹر رہ گئی، 23؍اگست کو شام کے پونے چھ بجے سے فیصلہ کن مرحلہ شروع ہواجس میں چندریان کی رفتار کو 1680 میٹر فی سکنڈ سے گھٹاکر دو میٹر فی سکنڈ کیا گیا، پھر وہ چاند سے صرف سو میٹر اوپر رہ گیا اور لینڈ روکرم نے اترنے کی مخصوص جگہ کی تلاشی میں کامیابی حاصل کی اور لینڈ میوڈل کے چاروں پاؤں چاند کی سطح پر جم گئے، سافٹ لینڈگ کے بعد لینڈروکرم نے پہلاپیغام ارسال کیاکہ ’’ہم منزل پر پہونچ گئیاور ہندوستانی بھی‘‘ اور کچھ ہی گھنٹے بعد جب چاندپر گردو غبار چھٹاتو ’’روبر پرگان ‘‘نے کام شروع کردیا،چودہ دنوں تک اِسرو کے سائنس دانوںکے ذریعہ بھیجے گئے احکام کے مطابق کام کرے گاروبر میں لگے لیزر کے ذریعہ چاند کی سطح کا مطالعہ کرے گا،وہاں موجود معدنیات اور گہرے گڈھے میں چھپے برف کی تلاش کرے گا،روبر سے نکلنے والی ایک چیز رمھیاہے،یہ چاند کی سطح پر ماحولیات اور زلزلہ سے متعلق تفصیلات جٹائے گاچندریا ن۔۳ کا وزن ۳۹۰۰ کلو گرام ہے،اس کی تیاری میں چھ ارب روپے صرف ہوئے ہیں،اس میں موجود چاند گاڑی کانام اسرو کے بانی وکرم سے منسوب کیا گیا ہے،اس گاڑی کا وزن ۱۵۰۰؍کلو گرام ہے۔
اس پورے پروگرام میں سافٹ لینڈنگ کی بڑی اہمیت تھی، سافٹ لینڈنگ کا مطلب 6000کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار کو کنٹرول کرکے رفتار کو صفر پر لانا ہے، اس دوران لینڈر وکرم خود کو نوے ڈگری پر لاکر چاند کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا، وہ منظر بڑا دلکش تھا جب سائنس دانوں نے چندریان-۳ کی رفتار کو کنٹرول کرنے کے بعدلینڈنگ کے لئے سیدھا کردیا، یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ خلا میں سب سے پہلی اڑان چاند پر پہونچنے کے لئے امریکہ کے اپولو-۱۱ نے بھری تھی، چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے لوگوں میں نیل آرم اسٹرانگ اور ایڈون بج ایلڈرین جونیر تھا، جس نے اپولو-۱۱ کی کامیاب اڑان کے نتیجے میں 21؍جولائی 1969ء کو چاند تک پہونچنے میں کامیابی حاصل کی تھی، یہ ایک بڑی کامیابی تھی، جس نے تاریخ رچائی تھی، پھر دوسرے ملکوں کے لئے چاند کے سفر کی راہ ہموار ہوئی۔
ہندوستان کے ذریعہ خلا میں بغیر کسی انسان کے چاند پر پہونچنے والے چندریان نے 22؍اکتوبر 2008ء کو شری ہری کوٹہ کے ستیش دھون سکنڈ پیڈ سے 6.22اڑان بھری تھی، اسے چاند کے مدار میں پہونچنے میں پندرہ دن لگے تھے، 14؍نومبر 2008ء کو صبح آٹھ بجکر آٹھ منٹ پر قطب جنوبی کے قریب شیکلٹن گرسٹر کے قریب وہ ٹکرا گیا، 25منٹ کے اس سفر میں چندریان-اے نے چاند کی متعدد تصویریں لیں اور انہیں خلائی جہاز میں بھیجنے کا کام کیا، اس کا وزن لانچ کے وقت 1130کلو گرام تھا، اس مہم پر کل 386کڑور روپے خرچ ہواتھا،چندریان ۔۱ نے مختصر وقت میں سائنس دانوں کو بتایا کہ چاند کی سطح پر پانی کا مالیکولز موجود ہے،اور وہاں دن کے وقت ایک خاص ماحول رہتا ہے،اس اطلاع نے سائنس دانوں کے اندر وہاں انسانوں کے رہنے اور بسنے کے امکانات و روشن کیا ۔
اس کے بعد بھارت نے چندریان-۲، 22؍جولائی 2019ء کو چاند پر بھیجا، اس مصنوعی خلائی سیارہ کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس کاٹونار آبریٹری، لینڈر اور گاڑی سب ہندوستان ہی میں تیار کیا گیا تھا، اس خلائی سفر کا مقصد چاند پر پانی کی تلاش تھا، یہ چندریان لیڈنگ کے دوران اسرو سے رابطہ منقطع ہونے کے سبب ناکام ہوگیاتھا،گو اس کا آر میٹر آج بھی چاند کے مدار میں موجود ہے اور چندریان۔۳ کے آبر میٹر سے اس کا رابطہ قائم ہو گیا ہے،،چندریان ۔۲ کے ناکام ہونے کے بعد ہمارے سائنس دانوں نے چندریان-۳ میں کافی احتیاط برتی اور اس کے نتیجہ میں آج ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا کہ ہندوستان چاند کی قطب جنوبی پر اترنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
 یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ رب العزت نے آسمان اور زمین جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے انسانوںکی خدمت پر مامور کر رکھا ہے، ہم اس سے کس قدر نفع حاصل کرسکتے ہیں، اپنے علم کے محدود ہونے کی وجہ سے دھیرے دھیرے ہم وہاں تک پہونچ پا رہے، سورۃ الجاثیہ آیت ۱۳ میں اللہ رب العزت نے واضح کردیاہے کہ اس نے آسمان و زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے لئے تابع کردیا ہے، جو لوگ غور کریںگے وہ اس میں بہت ساری نشانیاں پالیں گے، اس لئے چندریان-۳ کی کامیابی کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے، چاند تو پھر بھی برودت لیے ہوئے ہے، اللہ کے اس فرمان کی روشنی میں تو انسان کا نظام شمسی تک پہونچنا بھی ناممکنات میں سے نہیں ہے، صرف اس کی حرارت کو کنٹرول کرنے والا آلہ خلائی سیارہ میں لگانا ہوگا، انسان نے سورج کی حرارت کو جذب کرنے کا فارمولہ ایجاد کرلیا ہے، سولر لائٹ کا سارا نظام اسی کے تحت ہے تو ایسا کوئی آلہ ایجاد کرنا دشوار نہیں ہے جو سورج کی شعاعوں سے روبوٹ کو متاثر نہ ہونے دے؛ کیوں کہ اب خلائی سیارہ کاکنٹرول زمین سے ہوتا ہے اور کام سارا روبوٹ ہی کررہے ہیں،باخبر ذرائع کے مطابق اسرو اس پر تیزی سے کام کر رہاہے۔
اس بڑی حصول یابی پر یقینا ہندوستانی خلائی مشن اسرو کے سائنس داں مبارک باد کے مستحق ہیں، چندریان ۔۲ کی ناکامی کے بعد اسرو کے صدر ایس سومناتھ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے،چندریان ۔۳ کی سافٹ لینڈنگ سے انہیںایسی کامیابی ملی ہے کہ پورا ملک ان کی کار کردگی کا معترف اور دنیا ان کو مبارکباد ی دیتے نہیں تھک رہی ہے،شکریہ ایس سومناتھ ،شکریہ اِسرو جنہوں نے ناکامی سے مایوسی کے بجائے حوصلہ مندی کا سبق لیا اور ہندوستان کے لئے یہ دن دیکھنا نصیب ہوا۔

بدھ, اگست 30, 2023

عصر حاضر میں مدارس میں

عصر حاضر میں مدارس میں تدریس ___غور و فکر کے چند گوشے
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (9431003131)

مدارس اسلامیہ کی خدمات تعلیم و تربیت کے حوالہ سے بڑی وقیع رہی ہیں ، مدرسہ کی چٹائی پر بیٹھ کر اجرت نہیں ، اجر خداوندی کے حصول کی نیت سے تعلیم و تدریس میں ہمارے اساتذہ نے جو وقت لگا یا اور جو رجال کار تیار کیے وہ تاریخ کا روشن باب ہے ، ان اساتذہ نے اپنے اساتذہ سے کسب فیض کیا، درس و تدریس کے رموز سیکھے اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا کام کیا، ان کے فیض یافتہ طلبہ نے علم و فن کے میدان میں جو انقلاب برپا کیا، اس کی نظیر دیگر علوم و فنون کے لوگوں میں نہیں ملتی ، حالانکہ دیگر علوم و فنون کے اساتذہ نے بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور تربیت یافتہ اساتذہ سے انہوں نے تعلیم پائی ، مدارس اسلامیہ کے اساتذہ کے لیے تدریسی ٹریننگ اور تربیت کا با قاعدہ اداراتی شکل میں کبھی کوئی نظام نہیں رہا ، ا ن کی تدریسی تربیت “تکرار” کے ذریعہ ماضی میں ہوا کرتی تھی اور آج بھی یہی سلسلہ جاری ہے ، یہاں “تکرار” جھگڑے کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ اساتذہ نے جو کچھ پڑھایا ، اس کو طلبہ کے سامنے اسی طرح دہرانا جیسے استاذ نے اسے پڑھایا، مدارس اسلامیہ میں تکرار کہلاتا ہے۔ طلبہ اس تکرار سے سبق کو سمجھانے کی تربیت پالیتے تھے ، بعض ایسے تکرار کرا نے والے ہوتے تھے جو ہو بہو اساتذہ کی نقل اتارا کرتے تھے۔ان کے تکرار پر استاذ کو اتنا اعتماد ہوتا تھا کہ غیر حاضر طلبہ کو اس شاگرد کے تکرار میں بیٹھنے کا مشورہ دیا کر تے تھے،بعد کے دنوں میں بعض مدارس میں معین المدرس کے نام سے فارغ ہونے والے با صلاحیت طلبہ کو دو سال کے لیے رکھا جا نے لگا۔ تاکہ متعلقہ مدرسہ میں اس طرح اساتذہ کی کمی پوری کی جا سکے اور اس طالب علم کو پڑھانے کی عملی مشق ہو جائے۔تھیوری کے طور پر اصول تعلیم مدارس میں پڑھانے کا نظام نہیں رہا،سارا زور عملی تعلیم پر ہوا کرتا تھااور اسے کافی سمجھا جا تا تھا۔
لیکن اب تعلیم و تربیت ایک فن ہے ، اور ہر دم تدریس کے خوب سے خوب تر طریقوں کی تلاش کی جا رہی ہے ، ایسے میں اب مدارس میں تدریس کی تربیت کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ، اور قدیم طریقہ تدریس کے ساتھ جدید طریقۂ تعلیم کی شمولیت بھی مفید معلوم ہو تی ہے۔اس افادیت کے حصول کے لیے ہمیں از سر نو اپنے تدریسی نظام کا جائزہ لے کر اساتذہ کی تربیت کا بھی ایک نظام بنانا چاہئے ، عصری درسگاہوں کی طرح مدارس کے لیے بھی تدریسی تربیتی ادارے ہو نے چاہئے، جب مضمون نگاری ، تحقیق و تنقید ، فقہی بصیرت اور فتویٰ نویسی کی مشق کے لیے بہت سے ادارے کھلے ہوئے ہیں تو تدریس کے فن میں مہارت اور اچھا استاذ بننے کے لیے بھی ادارے کھولنےکی ضرور ت محسوس ہوتی ہے۔کیوں کہ اب بہت کچھ ماضی کی بہ نسبت بدل چکا ہے۔
ماضی میں جو طریقہ رہا ہے ، اس میں بغیر مطالعہ کےپڑھانے کو ناجائز سمجھا جا تا تھا، کوئی استاد بغیر مطالعہ کے لڑکے کو پڑھاتا نہیں تھا، اگر اس نے رات مطالعہ نہیں کیا تو صبح میں وہ پیچھے کا آموختہ ہی
 دہرادیتا تھا، یہ بات ہمارے یہاں اب کم نہیں، ختم ہو تی جا رہی ہے۔
مطالعہ کے بعد طریقۂ تدریس میں ایک دوسری اہم چیز ہے جسے ہم لیسن پلان (Lesson Plan)یعنی منصوبۂ تدریس کہتے ہیں ، لیسن پلان کا مطلب ہے کہ آپ کلاس میں بچوں کو کیسے پڑھائیں گے ، آپ یہ طے کریں گے کہ آج بچے کو کتنا ڈوز (Dose) ہمیں دینا ہے، آج کے سبق میں بچے کو ہمیں کیا بتانا ہے اور کیا نہیں بتانا ہے، آپ نے شروحات دیکھ لی، حواشی دیکھ لیا ، بین السطور پڑھ لیا، اب آپ چاہتے ہیں کہ یہ سارا کچھ بچوں میں منتقل کر دیں، بچے کا ذہن ابھی اس لائق نہیں ہے کہ وہ آپ کے سارے مطالعے کو برداشت کرے، ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے، کہ بعض اساتذہ اپنے مطالعہ کی قے کرتے ہیں“قے” کی تعبیر ہے تو قبیح ،لیکن عملاً ہوتا یہی ہے، آپ دیکھیں کہ بچے کو جو کچھ ہم بتا رہے ہیں وہ کتنا فولو( Follow) کر رہا ہے اور کتنا اس کو سمجھ رہا ہے تلخیص پڑھاتے وقت آپ نے مختصر المعانی پوری پڑھادی، اس سے بچے کو فائدہ نہیں پہونچے گا۔
 تدریس میں عملی مشق اور مشاہدات کی بڑی اہمیتِ ہے۔مدارس میں یہ طریقہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔پہلے کی طرح اب بھی قطب تارہ،صبح صادق،فیئ اصلی، مثل اول ،مثل ثانی ،شفق ابیض ،شفق احمر،صبح صادق ،صبح کاذب وغیرہ کو عملی طور پر طلبہ کو دکھانے،سمجھانے اور مشا ہدہ کرانے کی ضرورت ہے۔بڑے مدرسوں میں بھی یہ طریقہ ان دنوں مفقود ہے۔اسی طرح ہمارے لیے یہ بہت آسان ہے کہ جب طالب علم کو سامان ڈھونے کے لیے مارکیٹ لے جائیں تو صرف جھولا نہ ڈھلوائیں بلکہ خرید و فروخت کرتے وقت بیوع کی بحثیں آسانی سے عملی مشق کے ذریعہ ہم بچوں کوسمجھا سکتے ہیں۔بایٔع،مشتری،ایجاب،قبول،مبیع،ثمن، قیمت،اقالہ،خیار شرط ،خیار رویت،خیار عیب جیسے مسائل طالب علم جھولا ڈھو تے ڈھو تے سیکھ جائے گا۔ضرورت صرف توجہ کی ہے۔ 
 تدریس میں پلاننگ کی بھی بڑی اہمیتِ ہے۔ ہمیں پلانگ کرنی چاہیے کہ 45 منٹ کی گھنٹی ہے، اس گھنٹی میں ہمیں کتنا پڑھانا ہے اور کیا کیا پڑھانا ہے؟ ہمیں کتنی دیر بچوں سے سوالات کرنے ہیں؟ کتنی دیر میں عبارتیں صحیح کروا دینی ہیں اور ترجمہ کر کے مطلب کتنا بیان کر دینا ہے، اگر یہ تیاری رات میں ہی آپ نے کر لی تو کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ استاد باہر کھڑا ہے ،گھنٹی لگ گئی ہے اورآپ کا سبق ختم ہونے کو ہی نہیں آتا۔
 بچوں کو مارنے ڈانٹنے کے مزاج کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے، آپ نے اسے ڈانٹ کر کہا تجھےکچھ نہیں آتا ،کم بخت اتنا بڑا ہو گیا!آپ کی اس ڈانٹ نے اس کے ذہن کے سارے دروازے بند کر دیے، آپ یہ مت دیکھئے کہ بچے نے سبق یاد نہیں کیا، آپ یہ دیکھیے کہ اس بچے نے کیوں سبق یاد نہیں کیا ؟ آخر اس کے اسباب کیا ہیں ؟ جس کی وجہ سے بچہ سبق یاد نہیں کر سکا ، آپ جب اسباب پر غور کریں گے، تو ایسا ہوسکتا ہے کہ رات اس کی طبیعت خراب ہوگئی ہو، ایسا ممکن ہے کہ اس کے باپ آگئے ہوں اور وہ اپنے باپ سے بات کرنے میں لگارہ گیا ہو، ایسا بھی ممکن ہے کہ سبق کو اس نے سمجھا ہی نہ ہو، یااس نے سبق کو سمجھا تو لیکن اپنے مافی الضمیر کو ادا نہیں کر پا رہا ہے، کچھ بھی وجہ ہو سکتی ہے۔
 ایک آدمی نورانی قاعدہ پڑھارہا ہے، نورانی قاعدہ میں بچے نے قل لِلّٰہ صحیح نہیں پڑھا، اب استاد نے اسے دو طمانچہ مارا اور کہا کہ بھاگ یہاں سے، کمبخت تم کو کچھ نہیں آتا ، اس صورت میں یا تو کل سے وہ بچہ نہیں آئے گا ، یا آئے گا تو کسی سے رٹوا کر آئے گا ، جس کی بنا پر اس کو آئے گا کچھ نہیں، رٹّو ہو کر رہ جائے گا، بچے کی اس غلطی پر آپ کا ذہن فورا ًکام کرنا چاہئے کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے؟ آپ جب اس کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ تشدید کے عمل کو نہیں جان رہا ہے، وہ پورے لام کو پہچا نتا ہے، آدھے لام کو نہیں پہچانتا ہے، زیر زبر میں غلطی کر رہا ہے، اب آپ نے اس کو پکڑ لیا کہ یہ بچہ فلاں جگہ غلطی کر رہا ہے، پانچ منٹ اس کمی کو دور کرنے کے لئے الگ سے کلاس کے بعد آپ نے اس بچہ کو دے دیا تو دوسرے دن سے وہ دوسرے بچوں کے ساتھ شریک ہو جائے گا، سبق بھی اس کو یاد ہوگا، وہ شوق سے آئے گا بھی ، پڑھے گا بھی۔اور اگر آپ نے اس کو ڈانٹ کے بھگا دیا تو رٹ کر کے آئے گا ، یا آنا چھوڑ دیگا، پڑھائی چھوڑ دیگا۔ 
 اسی طرح آپ حساب پڑھا رہے ہیں، حساب پڑھانے میں 25 سے45 کو آپ نے ضرب کرنے کو کہا ، بچے نے ضرب میں غلطی کر دی، آپ کا کام یہ نہیں ہے کہ اس کو مار کے بھگا دیجئے ، آپ کا کام یہ ہے کہ آپ یہ دیکھئے کہ اس بچے نے غلطی کہاں پر کی ، ایسا ممکن ہے کہ اس کا پہاڑا صحیح نہیں ہے، ایسا ممکن ہے کہ گنتی اس کی صحیح نہیں ہے، ایسا ممکن ہے کہ عدد لکھنے میں اس نے غلطی کر دی، ایسا ممکن ہے کہ عدد کی قیمت کا اس کو پتہ نہیں ہے۔ اس طریقے کو جب آپ اپنا لیں گے، بچہ شوق سے پڑھنے آئے گا اور خوش خوش درسگاہ میں شریک ہوگا۔ 
 خواجہ غلام السیدین نے زبر دست بات لکھی ہے کہ اچھے استاد کا کمال ہے کہ وہ اپنے شعور و آگہی میں بچے کو شریک کر لے ، آپ نے جو کچھ پڑھا ہے آپ کے پاس جو کچھ سرمایہ ہے یہ آپ کا کمال نہیں ہے، یہ آپ کے استاد کا کمال ہے کہ انہوں نے اس علم کو آپ کے اندر منتقل کر دیا
جو استاد کے پاس تھا،اب اگر ہماری صلاحیت ہمارے بچوں میں ، ہمارے طلبہ میں نہیں منتقل ہو رہی ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہم اچھے استاد نہیں ہیں ، اچھا استاد وہ ہے جو اپنے شعور ، اپنی آگہی اور اپنے علم کو ٹرانسفر Transfer کرنے کی اچھی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور کبھی طلبہ سےمایوس نہ ہو۔
یقینا بعض بچے ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے ہمیں بہت پریشانی ہوتی ہے ، وہ کچھ کر کےہی نہیں دیتے، یہاں پر ہمیں ڈاکٹر ذاکر حسین کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب ساری دنیا کسی سے مایوس ہو جاتی ہے ،تب بھی دو ذات ایسی ہوتی ہے جو مایوس نہیں ہوتی ، ایک اس کی ماں اور دوسرا اچھا استاد، اس لیے اگر اچھا استاذ بننا ہے تو طلبہ سے مایوس مت ہوئیے، طریقہ تدریس میں یکسانیت لائیے، اگر طریقہ تدریس میں یکسانیت آئے گی، تو نصاب میں یکسانیت کا فائدہ زیادہ مؤثر انداز میں سامنے آئے گا اور یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ 
اساتذہ کو کبھی کبھی بڑے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، طلبہ کی شرار تیں بھی سہنی پڑتی ہیں، مدارس میں تو کم ہوتا ہے اسکول اور کالجیز میں بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن بہت منفی باتوں سے مثبت باتوں کو اخذ کر لینا یہ استاذ کا بڑا کام ہے۔ ایک استاد کو کلاس روم میں آنا تھا، پہلا دن تھا لڑکوں نے سوچا کہ آج اگر ہم ان پر حاوی ہو گئے تو پورے سال ہم ان پر حاوی رہیں گے، اور اگر آج استاد حاوی ہو گئے تو معاملہ ہمارا دب جائے گا ،لڑکوں نے سوچا کہ آج پہلے ہی دن ان کو ایسا سبق دینا ہے کہ یہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہیں، سمجھ لیں کہ یہ لڑ کے بہت شریر ہیں، طلبہ نے ایک ترکیب نکالی کہ کلاس کے گیٹ پر تیل گرادیں گے کہ آتے ہی ان کا پاؤں پھسلے اور گریں ، ہم لوگ خوب ہنسیں گے، استاذڈیمولائز ہو جائیں گے ، نروس ہو جائیں گے، چنانچہ ایسا ہی کیا، استاد کلاس روم میں آرہے تھے، اس بیچارے کو کیا پتہ کہ کیا قیامت آنے والی ہے ، جیسے ہی داخل ہوئے جوتا پھسلا اور دھڑام سے نیچے، استاد فورا کھڑے ہوئے ، اور کہا کہ پیارے بچو! آج کا پہلا سبق یہ ہے کہ زندگی میں گرنے کے بڑے مواقع آتے ہیں ،عقلمند اور ہوشیار وہ ہے، جو گر کر فوراً سنبھل جائے ،تم نے دیکھا، میں کس طرح سنبھل گیا، آپ سوچئے کتنی منفی بات ہے، ہم آپ ہوتے تو پہلے تحقیق شروع ہوتی کہ کس نے ایسا کیا اس کے بعد چھڑی آتی اور پتہ نہیں کتنی کر چیاں بدن پر توڑ دی جاتیں، لیکن اس استاد نے انتہائی خراب بات کو ایسا مثبت رنگ دیا کہ لڑکوں کو ایک سبق مل گیا۔ آپ کلاس روم میں جا رہے ہیں لڑ کا شور کر رہا ہے ، آپ کی طبیعت اتنی مکدر ہو گئی کہ سبق ہی نہیں چل رہا ہے، آپ اس کو اس طرح خوشگوار ماحول میں تبدیل کر دیں کہ بچہ محسوس کرنے لگے کہ ہم کو ایسا کرنا چاہئے اور ایسا نہیں کرنا چاہئے۔یاد رکھیئے عصری تعلیمی اداروں اور مدارس کے اساتذہ میں فرق ہے ، مدارس کے اساتذہ دراصل کا رنبوت میں لگے ہوئے ہیں اور وارث انبیاء ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں دوسرے اساتذہ سے کچھ زیادہ بڑھی ہوئی ہیں، تدریسی زندگی میں یہ احساس ہمارے اندر وہ سب کچھ کر گذرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے، جس سے ہماری زندگی اخلاق حمیدہ سے مزین اور ہمارے طلبہ تعلیم وتربیت کے مختلف مراحل سے گذر کر علوم وفنون میں مہارت اور نفس کو رذائل سے پاک کر کے اچھا مؤمن اور اچھا انسان بن سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے مدارس دینیہ کو انسانیت سازی کا کارخانہ قرار دیا ہے، جہاں انسان ڈھالے جاتے ہیں اور جس سے پوری دنیا میں اخلاق و کردار کی پاکیزگی، قول وعمل میں تازگی اور ظلم وستم کے بازار میں محبت واخوت ، مروت و ہمدردی کی نورانی چادر تنی ہوتی ہے، ظاہر ہے یہ کام آسان نہیں ہے، اس کام کے لئے اپنے کو تپانا اور کئی دفعہ مٹانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کے اندر مختلف ذہنی سطح کے طلبہ کے مابین اپنے علم کوٹرانسفر کرنے کی اچھی صلاحیت ہر حال میں موجود ہو۔ 
یہ صلاحیت کبھی تو وہبی ہوتی ہے اور کبھی کسبی ، وہبی صلاحیتوں کا ذکر نہیں کروں گا اس لئے کہ وہ خدا داد بلاکسب ہوتی ہیں، لیکن بیشتر حالات میں ہمارے اندر صلاحیت خدا کے فضل اور محنت سے پیدا ہوتی ہے، اسلئے ”من جد وجد“ کہا گیا ہے۔یہ محنت اور جد جہد کتابوں کے عمیق مطالعے اور اساتذہ کے تجربات سے بڑی حد تک فائد ہ اٹھانے میں مضمر ہے۔ کتابوں کے مطالعہ کی اہمیت، تجربات سے استفادہ اور تدریس کے طریقے کار پر اکابر کی مفید تحریروں کا مطالعہ بھی اساتذہ کے لیے فائدہ مند ہو گا۔
ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا دل و دماغ سفید کاغذ کی طرح ہوتا ہے، اس کاغذ پر مختلف نقوش بنانے اور سب کچھ سکھانے کی ذمہ داری گھر ، ماحول اور خاندان کی ہوتی ہے اس طرح دیکھا جائے تو گھر ماحول، اور خاندان، بچہ کا پہلا اسکول ہوتا ہے ، اور اس میں کارفرما عوامل اس کے پہلے استاد، پھر جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اسے فطری طور پر بہت کچھ جاننے کی خواہش ہوتی ہے، اور بہت کچھ سکھانا گھر ، ماحول اور خاندان کے بس کا نہیں ہوتا، اس لئے اسے کسی ادارہ کا سہارا لینا ہوتا ہے ادارہ میں جن کے ذریعہ وہ علم حاصل کرتا اور سیکھتا ہے اسے اصطلاح میں استاد کہتے ہیں۔استاد کے کام کی نوعیت بڑی عجیب و غریب ہوتی ہے، اس اعتبار سے اس کا کام آسان ہوتا ہے کہ اس کے اوقات عام طور پر مختصر ہوتے ہیں ، دوسرے کاروباری اور پیشہ ور لوگوں کی طرح اسے سال کے اڑتالیس یا پچاس ہفتے صبح سے شام تک کام میں جٹار ہنا نہیں پڑتا، لیکن دوسری طرف اس کا کام دشوار اس طرح ہوتا ہے کہ اسے ہر معیار کے بچوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اس کے لئے اسے بڑے دشور ار مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ استاذ کو اس جان گسل مراحل سے گزرنے میں جو چیز اس کی مدد کرتی ہے وہ ہےدوسروں کو کچھ سکھانے کا احساس، طلبہ جب اساتذہ کے پاس آتے ہیں تو انکی دماغی نشونما ادھوری ، عام معلومات ناقص ، اور فکری صلاحیتیں نیم بیدار ہوتی ہیں ؛استاد اپنی معقول تدریس کے ذریعہ ان طلبہ کو نہ صرف نئے نئے حقائق سے روشناش کراتا ہے ، بلکہ ان کی سادہ لوحی کو شعور کی پختگی میں بدلتا ہے اور ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے، استاد کو یہ سب کر کے کچھ ایسا اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے ، جیسا کسی مصور کو رنگوں کی مدد سے سادہ کینوس پر ایک اچھوتی تصویر بنا کر ہوتا ہے یا ایک طبیب کو اپنی بہترین تشخیص کی بدولت یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ زیر علاج مریض کی ڈوبتی ہوئی نبض میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ظاہر ہے یہ مسرت ہر ایک استاد کے حصہ میں نہیں آسکتی ، اس مسرت کے حصول کے خاطر استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مضمون کو خوب اچھی طرح جانتا ہو، اس لئے یہ کہنا بجا ہی ہے کہ سیکھنا اور سکھانا لازم و ملزوم ہیں، ہر اچھا استاد ہر سال ہر مہینے ؛ بلکہ اگر ممکن ہو تو ہر ہفتے کچھ نہ کچھ نئی باتیں ضرور سیکھتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب ہر وقت ندرت اور جدت کا سرچشمہ نہیں بن سکتے لیکن ایک استاد کو اپنے مضامین میں اتنا باذوق ضرور ہونا چاہئے کہ وہ ان پر طلبہ سے دلچسپی کے ساتھ گفتگو کر سکے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو طلبہ ذوق وشوق کے باوجود اس مضمون میں ترقی نہیں کر سکیں گے اس لئے ایک استاذ کو اپنے مضمون کی دلچسپی اور قدر و قیمت میں وہی یقین رکھنا چاہئے جو ایک ڈاکٹر تندرستی میں رکھتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ استاذ مضامین کا انتخاب بہت احتیاط اور ہوشیاری سے کرے، اور تعلیمی پیشہ اختیار کرنے سے پہلے ہی سوچ سمجھ کر اپنے مضمون منتخب کرے، اس کے ساتھ ساتھ اسے طلبہ سے ایک قسم کی رغبت ہو وہ طلبہ کو اپنے لئے بوجھ نہ سمجھے ، اس کے سوالوں سے نہ گھبرائے ، بلکہ ان سے محبت کرے، خود کو انکا مد مقابل نہ سمجھے، کوئی بات اس انداز میں نہ کہے جو کسی کو بری لگے ، اس طرح استاذ بڑی حد تک اداروں میں جاری طلبہ کی سرکشانہ روش سے محفوظ رہ سکے گا۔اچھے استاد کو ایک دلچسپ انسان اور بذلہ سنج ہونا چاہئے تعلیم اس طرح دینی چاہئےکہ رٹی رٹائی باتوں کے دہرانے کے بجائے اپنی بصیرت افروز باتوں کے ذریعہ ان کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے ،وہ اگر سوالات کریں تو انکو معقول جواب دیا جائے تا کہ ان کے ذہنوں میں کوئی نئی بات سمجھنے میں الجھن نہ ہو۔ استاد کا حافظہ قوی ہونا چاہئے ، کمزور حافظہ کا استاد مضحکہ خیز بھی ہوتا ہے، اور خطرناک بھی، دوسری چیز قوت ارادی ہے، اچھے استاد کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے ارادے بالکل اٹل ہوں۔تعلیم کے لئے استاذ کو تین مراحل سے گزرنا ہوتا ہے اول یہ کہ اپنے مضمون کو خوب اچھی طرح تیار کرے، دوم یہ کہ طلبہ کے سامنے اچھی طرح بیان کر سکے اور انہیں ذہن نشیں کرا سکے سوم یہ کہ یہ اطمینان کرلے کہ جو اس نے پڑھایا ہے اسے طلبہ نے اچھی طرح یاد کر لیا ہے۔ استاد کو اپنے طرز عمل سے ثابت کرنا چاہئے کہ وہ ایک ہمدرد دوست اور مشکلات کودور کرنے والا ساتھی ہے اور مدرسہ کی زندگی طلبہ اور استاد کے مابین مہرومحبت اور شرکت عمل کی زندگی ہے۔یہ سب چیزیں ایک استاذ کے اندر موجود ہونی چاہئیں ، لیکن صرف نصاب کی کتابوں سے یہ چیزیں حاصل نہیں ہو سکتیں ، ان میں سے بیشتر کا تعلق عملی تربیت سے ہے ، اس لیے ایک ایسے مستقل نظام کا ہونا بہت ضروری ہے ، جو مدارس میں تدریس کے لیے تیار کی جارہی اساتذہ کی اگلی کھیپ کو ان بنیادوں پر تیار کر سکے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...