Powered By Blogger

جمعرات, اکتوبر 26, 2023

بدگمانی ۔مہلک روحانی بیماریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار

بدگمانی ۔مہلک روحانی بیماری
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار
باہمی حقوق وآداب معاشرت ، جماعتی اور اجتماعی زندگی ، خاندان ، گاؤں اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کی بدگمانی سے بچا جائے، یہ بد گمانی گناہ کبیرہ تو ہے ہی آپسی تعلقات کے تاروپودبکھیرنے میں سب سے زیادہ مو ئثر ہے، اسی لیے اللہ رب ا لعزت نے سورة الحجرات آیت ۲۱ میں جن چیزوں کے کرنے سے منع کیا ہے ان میں ایک بد گمانی بھی ہے، ایمان والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ بہت سے گمان سے بچتے رہیں اس لیے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، یہ جو گناہ والے گمان ہیں انہیں کو اردو میں بد گمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسی لیے تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ مطلق گمان گناہ نہیں ہے، بلکہ بعض گمان ہی گناہ ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بلا دلائل قوی اور حجت تام کے کسی پرکوئی الزام دھر دے اور تہمت لگادے۔ مثلا اللہ تعالیٰ سے بدگمانی رکھنا کہ وہ مجھے عذاب دے گا اور مصیبت میں مبتلا رکھے گا، ایسی بد گمانی حرام ہے، اس قسم کی بد گمانی سے بندوں میں مایوسی اور قنوطیت پیدا ہوتی ہے، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو جاو ¿ اور یہ کہ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ تم میں سے کسی کو بغیر اللہ کے ساتھ اچھے گمان کے موت نہ آئے، ایک حدیث قدسی میں ہے کہ میں بندے کے ساتھ وہی برتاؤکرتا ہوں، جیسا وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے، کم سے کم بندے کو یہ گمان تو ضرور رکھنا چاہیے کہ اگر اللہ عذاب دے تو ہم اس کے بندے ہیں اور اگر وہ بخش دے تو غالب حکمت والا ہے۔ فقہاءنے لکھا ہے کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن فرض ہے، اور بدگمانی حرام ہے۔
اللہ رب العزت یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ ایک بندہ دوسرے بندے سے بد گمان رہے، اس لیے کہ یہ بدگمانی دنیا وآخرت دونوں کی تباہی کا ذریعہ ہے، واقعہ افک کو یاد کیجئے، جب حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگی، یہ تہمت اسی بدگمانی کے نتیجے میں لگی، اس میں بڑا ہاتھ یقینا منافقین کا تھا،لیکن اس موقع سے دو مسلم مرد اور ایک عورت بھی اس بدگمانی کے حصہ دار بنے، گو بعد میں اللہ رب العزت نے ان کی مغفرت کا اعلان کر دیا، اللہ رب العزت نے اس بدگمانی کے بارے میں یہ بات صاف کر دی کہ مسلمانوں نے جب یہ خبر سنی اسی وقت ان کے بارے میںوہ حسن ظن رکھتے اور کہدیتے کہ یہ کھلا جھوٹ ہے، اس سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں جب تک کسی گناہ یا عیب کے بارے میں دلیل شرعی سے معلوم نہ ہوجائے اس وقت تک نیک گمان رکھنا ضروری ہے اور جب تک دلیل سے ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک کسی بات کو اس کی طرف منسوب کرنا ایمانی تقاضوں کے خلاف ہے۔
  اب اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں غلط افواہ پھیلا تا ہے اور لوگوں میں بدگمان کرنے کی مہم چلاتا ہے تو اس سے دلائل طلب کرنے چاہیے اور دلائل نہ پیش کر سکے تو اسلامی حکومت میں حد قذف یعنی اسی(۰۸) کوڑے لگائے جائیں گے اور ایسے لوگوں کی گواہی عند القضاءقابل قبول نہیں ہوگی، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ فاسق ہیں۔
  یہ بد گمانی کا ناپھوسی سے پیدا ہوتی ہے اور جو لوگ کسی کے خلاف مہم چلاتے ہیں تو کھلم کھلا بولنے کی ہمت نہیں ہوتی، کان بھرتے رہتے ہیں، سرگوشی کرکے باتوں کو پہونچاتے ہیں، اللہ رب العزت نے اس سے سختی سے منع کیا ، سورة مجادلہ کی آیت نمبر آٹھ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جب تم کان میں بات کیا کرو تو گناہ کی زیادتی کی اور اللہ کے رسول کی نا فرمانی کی مت کیا کرو، بات کرنی ہی ہو تو احسان اور پر ہیز گاری کی کیا کرو اور اللہ رب ا لعزت سے ڈرتے رہو اس لیے کہ تمہیں اسی کے پاس جمع ہونا ہے۔ اس تفصیل کے بعد اللہ رب العزت نے اسے شیطان کا کام قرار دیا اور فرمایا کہ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ ایمان والوں کو صدمہ پہونچائیں، حالاں کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے، ایمان والوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
  قرآن واحادیث کی روشنی میں بد گمانی کے مفاسد اور اس پر اللہ کی جانب سے وعید وں کے ذکر کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بد گمانی آخر انسان کرتا کیوں ہے؟ اس کی دو وجہ ہوتی ہے، ایک تو یہ کہ دوسرے کے بارے میں بد گمان کرکے اگلے کی نظر میں مقام ومرتبہ حاصل کرنا ، اور دوسری وجہ علم کی کمی اور جہالت ہے۔بہت سے لوگ بات بات پر بدگمان ہوجاتے ہیں، مثلا آفس میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا تو آدمی بدگمان ہوتا ہے کے میرے خلاف سازش کی گئی، کاروبار میں نقصان ہو گیا تو دوسرے کاروباری سے بدگمانی کے یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے، دعا میں اگر رقت طاری ہوگئی تو بدگمانی کے دکھاوے کے لیے رورہا ہے، گھر سے کوئی چیز غائب ہوگئی تو کام کرنے والے سے بدگمانی کے اسی نے چرائی ہوگی، قانونی رکاوٹ کی وجہ سے کسی نے کام نہیں کیا تو بدگمانی کہ رشوت چاہتاہے، کسی نے آتے وقت توجہ نہ دی تو یہ گمان کہ بڑا کھمنڈی ہے، رشتہ بنتے بنتے رہ گئی تو یہ گمان کہ ہمارے پڑوسی نے کچھ لگا بجھا کیا ہوگا، بہو نے دعا لمبی کردی تو ساس کو گمان کے کام کرنے کے ڈر سے لگی ہے، یا میرے لیے بد دعا کر رہی ہے، بہو ہی کی طرف توجہ تھوڑی کم ہوئی تو ساس سے بدگمانی کے شوہر کے کان ساس نے بھر دیے، قرض لینے والے سے رابطہ نہ ہو سکا تو یہ گمان کہ ہمارا روپیہ کھا گیا، کسی کو آنے میں تاخیر ہوئی تو بدگمانی کے وعدہ کرکے مگر گیا، ویزا ٹکٹ کے روپے جس کو دیے تھے وہ نہیں مل رہا تو یہ گمان کے روپے لے کر بھاگ گیا، کامیابی پر کسی نے مبارکباد نہیں دی تو یہ گمان کہ ہم سے جلتا ہے یہ اور اس قسم کی دوسری بدگمانیاں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، کبھی مصنوعی افواہ کے ذریعہ لوگوں کے قلوب میں بد گمانی کا بیج ڈال دیا جاتا ہے، تاکہ اپنی طہارت ، پاکیزگی کا پرچم بلند کیا جا سکے، حالاں کہ ایسے ہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا ہے۔
اتنا نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ادارے، تنظیموں ، جماعتوں میںبدگمانی کی یہ بیماری عام ہے، ہر ڈگر ہر نگر ایک سا حال ہے،کسی ملازم اورکارکن کو خوش حال دیکھ لیا تو یہ گمان کہ ضرور کہیں ہاتھ مارا ہے، اس کا بڑا نقصان سماجی طور پر ہوتا ہے۔ آپ نے کسی کے بود وباش ، تھاٹ باٹ ، مکان ودوکان کے بارے میں لوگوں کو کسی خاص شخص کے بارے میں بدنام کر دیا، اس کے تو بڑے مکانات ہیں، گاڑیاں ہیں، اور تنخواہ تو اقل قلیل ہے، اب لوگ بد گمان ہو گیے کہ ضرور مدرسے، مسجد ادارے کی رقم مارا ہے، یہ بدگمانی بعض لوگوں نے پھیلائی اور جس طرح واقعہ افک میں بعض مسلمان بھی اس کو ماں بیٹھے تھے، ویسے ہی عوام کے ساتھ خاص ادارے کے ذمہ دار بھی بد گمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اسی بدگمانی سے روکنے اور غلط خبروں کی تشہیر سے بچنے کے لیے اللہ رب العزت نے سورة الحجرات کی آیت نمبر چھ میں فرمایا کہ اگر تمہارے پاس کوئی شریر آدمی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلو، اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں کوئی تکلیف پہونچا دو اور بعد میں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
 لیکن صورت حال اس قدر خراب ہے کہ کوئی تحقیق کی زحمت نہیں گوارا کرتا اور آنکھ بند کرکے کان میں جو کچھ ڈال دیا گیا، اسے مان لیا ، حالاں کہ جن ظاہری امور کی وجہ سے وہ بدگمانی میں مبتلا ہوا ہے اس کی تحقیق کرلیتا تو اس نتیجہ تک پہونچنا بہت آسان تھا کہ متعلقہ شخص کے پاس آمدنی کے دوسرے اور بھی ذرائع ہیں، ہو سکتا ہے وہ زمیندار ہو، ممکن ہے اس نے گھر زمین بیچ کر ہی بنایا ہو ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے خاندان کے دوسرے لوگ بڑی بڑی تنخواہوں پر کام سے لگے ہوں، خاندان میں آپسی تعاون کا مزاج ہو اور دوسرے بیٹے اور بھائیوں نے اس ترقی میں ہاتھ بٹایا ہو، خاندان کے لوگ ملک سے باہر کما رہے ہوں اور ان کی یافت اس قدر ہو کہ وہ ٹھاٹھ باٹ کی زندگی گذار سکتے ہوں، اور اگر اس کا شمار اہل اللہ میں ہوتا ہے تو ہدیہ، نذرانہ کی آمدنی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ، مساجد کے ائمہ اور مدارس کے اساتذہ کی بود وباش کا بڑا حصہ ہدیہ ، نذرانہ، قاضیانہ وغیرہ سے ہی آجاتا ہے اور وہ اس قدر ٹھسے سے زندگی گذار تے ہیںکہ لاکھ روپے کمانے والا اس معیار کے ساتھ زندگی نہیں گذار تا، اب لوگوں کو تجسس ہوتا ہے کہ تنخواہ تو ہم پانچ ہی ہزار دیتے ہیں، یہ اس قدر معیاری زندگی کس طرح گذارتا ہے، ظاہر ہے اس نے کسی کی جیب نہیں کاٹی ہے، یہ اللہ کے کلام کے دربان ہونے کی برکت ہے کہ قلیل تنخواہ کے باوجود اللہ اس کی ساری ضرورتوں کی کفالت کرتا ہے، اور اسے ایک معیاری زندگی نصیب ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کے کہنے سے بدگمان نہیں ہونا چاہیے، تحقیق کرنی چاہیے، تاکہ سب لوگ بدگمانی کے گناہ سے بچ سکیں اور آپس میں سماجی آہنگی قائم رہے۔
کیوں کہ بدگمانی ام الامراض ہے یہ بہت سارے گناہ کا سبب بنتی ہے، گھر ، خاندان، میاں بیوی کے تعلقات سب پر اس کے بُرے اثرات پڑتے ہیں، اگر یہ بدگمانی ادارے، تنظیموں اور جماعت کے ذمہ داروں کے دلوں میں پیدا ہوجائے تو اعتماد کی فضا ختم ہوجاتی ہے اور انفرادی فعل پوری تحریک پر اس طرح اثر انداز ہوجاتا ہے کہ بہت سے تحریک سے ہی برگشتہ ہو کر دامن جھڑا لیتے ہیں

بدھ, اکتوبر 25, 2023

ذات مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار

ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
 بہار میں ۲؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کا دن اس اعتبار سے بڑا تاریخی رہا کہ نتیش حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار جاری کر دیئے ، اس کام میں رکاوٹیں بہت آئیں، کام کو روکنا پڑا ، نتائج کی اشاعت پر پابندی لگائی گئی، لیکن جب نیت میں خلوص ہواور ارادے پختہ ہوں توراستے بند نہیں ہوتے، بہار حکومت کو ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چکر لگانے پڑے اور بالآخر ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے نتیش حکومت نے ایک ایسی پہل کر دی ، جس پر ہندوستان کی دوسری ریاستیں بھی آگے بڑھنے کو اب تیار ہیں، بہار حکومت نے ان اعدا دوشمار کے جاری کرنے کے بعد اعلان کیا کہ سماج کے ہر طبقہ کو فائدہ پہونچنا چاہیے اورجس کی جتنی تعداد ہو اس اعتبار سے حصہ داری دی جائے، ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہو نہیں پائے گا، کیوں کہ ہندوستان میں افسر شاہی اور بیوروکریٹ کی ہی حکمرانی رہتی ہے ، اور ان بڑے عہدوں پر راجپوت، بھومی ہار اور برہمن ہی قابض ہیں، جن کی تعداد بہار کی کل آبادی 130725310میں علی الترتیب 3.67,3.45اور2.89فی صد ہے ، یہ بیو رو کریٹ کبھی نہیں چاہیں گے کہ او بی سی 27.1286% ای بی سی 36.0148%درج فہرست ذات 19.6518%درج فہرست قبائل اور جنرل زمرے کے 15.5224%لوگ ان پر حکمراں بن بیٹھیں، ابھی صورت حال یہ ہے کہ مرکزی سرکار کے نوے(90) سکریٹری میںصرف تین (3)او بی سی ہیں، بقیہ سارے سکریٹری بڑی ذات سے آتے ہیں؛بہار کے حالات بھی اس سے الگ نہیں ہیں، یہاں اعلیٰ ذات آزادی کے بعدسینتیس سال (37)ایک سو سنتانوے دن وزیر اعلیٰ کی کرسی پر قابض رہے، شری کرشن سنہا ، جگرناتھ مشرا، کے بی سہائے، بندیشوری دوبے، ونودا نند جھا ، چندر شیکھر سنگھ، کیدار پانڈے، بھاگوت جھا آزاد، مہاما یا پرساد سنگھ، ستندر نرائن سنہا، ہری ہر سنگھ، دیپ نارائن سنگھ کا شمار اسی طبقہ سے ہے، صرف تین وزیر اعلیٰ اس درمیان درج فہرست ذات سے ہے، جن میں سے کسی نے بھی ایک سال کی مدت بھی پوری نہیں کی، ان وزراء اعلیٰ میں رام سندر داس 302 دن ، بھولا پاسوان شاستری 112دن ، جیتن رام مانجھی278دن ہی وزیر اعلیٰ کی کرسی پر رہ پائے، اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان کو صرف ایک بار وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا، لیکن یہ بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکے، یہ عبد الغفور تھے جن کے اقتدار کا سورج صرف ایک سال دو سو تراسی دن ہی چمک سکا ، جے پی اندولن نے ان کی بساط سیاست کو ہی سمیٹ ڈالا، اب حالات کچھ مختلف ہیں، اعلیٰ ذات کے ہندؤں کی تعداد 2.44فی صد کمی ہے، اس کے باوجود رکاوٹیں آئیں گی اور آنے والے وقت میں یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
 اعداد وشمار کے مطابق ریاست کی کل آبادی 13425310میں ہندو 81.99%مسلم 17.70%عیسائی ، سکھ ، بدھ، جین ، دیگر اور دہریے (لا مذہب) کی تعداد اعشاریہ صفر کے بعد ہے ، اس طرح مسلمان اس ریاست میں دوسری بڑی اکثریت ہے اور ایوان نمائندگان میںا ن کی تعداد اچھی خاصی ہونی چاہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسمبلی میںان کی تعداد دن بدن گھٹ رہی ہے اور سیاسی سطح پر جس حصہ داری کی بات انتخاب کے وقت میں زوروں پر اٹھتی ہے ، حقائق سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، سیاسی پارٹیاں اس تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ ہی نہیں دیتیں، جیت کر آنا تو بہت دور کی بات ہے ، جس حلقہ سے ٹکٹ دیا جاتا ہے، وہاں بھی داخلی طور پر ایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیںکہ مسلمان جیت نہیں پاتا ہے ، یہاں ذات برادری کا ہندوؤں میں اس قدر غلبہ ہے کہ وہ اپنی برادری کے امیدوار کو ہی ووٹ دے گا، چاہے وہ کسی پارٹی سے کھڑا ہو۔
مسلمانوں کے یہاں ذات برادری کا ایسا تصور تو نہیں ہے ، جیسا ہندوؤں کے یہاں ہے پھر بھی گاہے گاہے مختلف برادری کے لوگ اپنی برادری کے نام پر مسلمانوں میں طبقاتی کشمکش پیدا کرنے کا کام کرتے رہے ہیں، اس فکر اور سوچ کو بڑھا وا لا لو، رابڑی دور حکومت میں زیادہ ملا جب ہر برادری والے نے اپنی الگ الگ تنظیم بنا کر جلسے جلوس کے ذریعہ اپنا وجود منوائے کا کام کیا، موجودہ مردم شماری میں مسلمانوں کی مجموی تعداد 23149925بتائی گئی ہے ، جن برادریوں کے اعداد وشمار ظاہر کیے گیے ، اس میں شیخ برادری کے لوگوں کی تعداد 3.82%فی صد ہے، جب کہ انصاری 3.55%فی صد ہیں، خان کی تعداد 0.75ہے، سر جا پوری 1.87دھنیا1.43، راعین 1.40، شیر شاہ آبادی 1.00،کلہیا1.00، سائیںفقیر 0.50، دھوبی0.3135، قصاب، 0.1024، بکھو0.0282، اور سید 0.22، فی صد ہے، جاری اعداد وشمار نے اس پروپیگنڈہ کی ہوا نکال دی ہے کہ مسلمانوں کے یہاں خاندانی منصوبہ بندی نہیں ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد تیزی سے بڑ ھ رہی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی ہے تو اسلامی نقطۂ نظر سے غلط ، لیکن یہ مسلمانوں کے اندراس قدر رائج ہو گیا ہے کہ ان کے یہاں بھی زیادہ بچوں کی ولادت نہیں ہو رہی ہے ، اس لیے ان کی آبادی17.70فی صد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے ۔اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ بارہ سالوں میں ان کی آبادی صرف پانچ فی صد بڑھی ہے، 2011کی مردم شماری میں مسلمان 12.5فی صد تھے اب ان کی تعداد 17.7فیصد ہے، جب کہ انہیں سالوں میں دلتوں کی آبادی 14.1فی صد سے بڑھ کر 19.65فیصد ہو گئی ہے۔
 ایک دوسری تشویشناک بات عورت کی تعداد کا مرد کے مقابل فی ہزار میں 47کا کم ہونا ہے، اس لیے کہ حالیہ مردم شماری میںایک ہزار مرد کے مقابل صرف 953خواتین ہیں، ایسے میں ہر ایک ہزار میں سینتالیس مردوں کو ازدواجی زندگی گذارنے کے لیے خاتون نہیں مل پائیں گی، لوگ پروپیگنڈہ اس کا بھی کر تے رہے ہیں کہ مسلمانوں کے یہاں چار شادی کی جاتی ہے، ایسا بالکل ہوتا نہیں رہا ہے، لیکن اب تو شرعی اجازت کے باوجود اس کا امکان ہی باقی نہیں رہا، کیوں کہ جب عورتوں کی تعداد کم ہے ، تو زیادہ لڑکیاں آئیں گی کہاں سے ؟ اس لیے کم از کم اس اعداد وشمار کے اعتبار سے اس کا امکان معدوم ہوتا جا رہا ہے، یہ صنفی عدم توازن در اصل ہم نے خود ہی پیدا کیا ہے ، لڑکیوں کے حمل کا اسقاط اور ماں کے پیٹ میں لڑکی ہونے کی خبر پر اس کا قتل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، واقعہ یہ ہے کہ عرب میں بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا تو گاؤں سماج کے لوگوں کو خبر ہوجاتی تھی ، آج حمل میں لڑکیوں کو ضائع کیا جا تا ہے تو کبھی کبھی تو گھر والوں کو بھی خبر نہیں ہوتی۔
 ہندو برادری کے جو اعداد وشمار ہمارے سامنے آئے ہیں، ان میں یادو سب سے بڑی آبادی ہے، اس کا تناسب مجموعی آبادی میں 14.26فی صد ہے، دوسری تمام برادریاں، راجپوت، بھومی ہار، برہمن کائستھ، کرمی ، کشواہا، دھانک ، مسہر ، سونار، کمہار، بڑھئی، دھوبی،نائی، کانو اور تیلی کی آبادی اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے، اس تناظر میں یادو کی اہمیت انتخاب میں بہت بڑھ گئی ہے ، اور آئندہ انتخاب میں ٹکٹوں کی تقسیم میں ان کا حصہ بڑھ جائے گا، جو پہلے بھی کم نہیں ہے ، اس طرح اگر لالو یادو کا مائی (MY)مسلم +یادو+اوبی سی کا کا رڈا یمانداری سے کھیلا جائے تو مسلمانوں کی نمائندگی ایوان میں بڑھنے کے لیے راستہ صاف ہو سکتا ہے، شرط ایمان داری ہے، جو ہر سیاسی پارٹی میںان دنوں مفقود ہے، اگر ان تینوں نے انتخاب میں مل جل کر حصہ لیا، مسلمان پسماندہ طبقات، پچھڑا ، اتی پچھڑا ملا کر یہ تعداد اسی(80) فی صد تک جا پہونچتی ہے۔ 
تجزیہ کا یہ عمل آئندہ بھی جاری رہے گا، لیکن ہمیں نتیش حکومت کی اس ماسٹر اسٹروک کی ستائش کرنی چاہیے کہ وہ ایک ناممکن کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوگئی، اور اس نے وہ کر دکھایا ، جس کی ہمت ہندوستان کی دوسری ریاستیں نہیں کر سکیں، ہمیں یہاں پر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہندوستان میں انگریز دور حکومت میں 1872میں پہلی بار مردم شماری کرائی گئی 1931تک جتنی بار بھی مردم شماری ہوئی اس میں ذات برادری کے اعداد وشمار بھی جاری کیے جاتے تھے، آزادی کے بعد 1951میں پہلی مردم شماری کے موقع سے اس سلسلہ کو موقوف کر دیا گیا ، اور صرف درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے اعداد وشمار جاری کیے جانے لگے ، ہر دس سال پر مردم شماری کا کام تو جاری رہا، لیکن وہ ذات برادری کے اعداد وشمارپر مشتمل نہیں ہوا کرتا تھا، 2011میں جو اب تک کی آخری مردم شماری ہے اس میں یوپی اے سرکار نے ذات وبرادری کے اعداد وشمار کا اندراج کرایا ، لیکن مصلحتیں آڑے آگئیں اور ان اعداد وشمار کو پردہ ٔ خفا میں رکھا گیا، موجودہ مرکزی حکومت نے کورونا کا سہارا لے کر گذشتہ 150سال میں پہلا موقع ہے جب مردم شماری نہیں کرائی ، اور مستقبل قریب میں اس کا امکان بھی نظر نہیں آتا اس لیے کہ 2024کا پارلیمانی انتخاب سر پر ہے اور اس کی تیاری حکومت کے نقطۂ نظر سے مردم شماری سے زیادہ اہم ہے۔
بہار میں ذات برادری پر مشتمل اعداد وشمار کے اجراء سے سیاسی اعتبار سے سب سے بڑا نقصان بھاجپا کو اٹھانا پڑے گا، کیوں کہ بھاجپا نے ملک کو دو مذہبی طبقات میں پورے ملک کو بانٹ کر 2014اور2019میں بازی مار لی تھی، لیکن نتیش حکومت نے ہندتوا کے مقابل ایک بڑی لکیر کھینچ کر بھاجپا کا سارا کھیل بگاڑ دیا ہے، دیکھنا ہے کہ آر ایس ایس کے نظریہ ساز ادارے اور افراد اس کے مقابلہ کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، اتنی بات توپکی ہے کہ اس رپورٹ کے بعد ذات پر مبنی سیاست کو مزید بڑھاوا ملے گا، اور ہر برادر ی اپنے اپنے حق میں آواز اٹھا کر حصہ داری چاہے گی، البتہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ، مثلا جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوام مورچہ، مکیش سہنی کی وکاش شیل انسان پارٹی کا دباؤ دوسری پارٹیوں پر کم بنے گا، کیوں کہ ان کی تعداد انتہائی کم ہے، اس مردم شماری نے کمنڈل پر منڈل کو پھر سے غالب کر دیا ہے، اس سے رزرویشن کے نئے نئے فارمولے وجود میں آئیں گے۔ 
مردم شماری کے اس کام میں معاشی سروے کا کام بھی کیا گیا تھا، لیکن حکومت نے کسی خاص مصلحت سے اس کے اعداد وشمار ابھی جاری نہیں کیے ہیں، اگر وہ اعداد وشمار جاری ہوجائے تو وزیر اعظم کو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہنے کا موقع نہیں ملتا کہ برادری تو صرف دو ہے، ایک امیر اور ایک غریب، معاشی رپورٹ آنے سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ کس برادری کے کتنے فی صد لوگ غریبی میں خطرے کے نشان سے نیچے جا چکے ہیں اور ہندوستان کی اقتصادیات سے ان کو کس قدر فائدہ پہونچ رہا ہے، جب بھی یہ رپورٹ آئے گی تو ایک اور گھمسان ہندوستانی سیاست میں مضبوط دستک دینے کی پوزیشن میں ہوگا۔

اتوار, اکتوبر 22, 2023

رواداریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

رواداری
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

جس ملک میں مختلف مذاہب، تہذیب وثقافت اور کلچر کے لوگ بستے ہوں، وہاں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے درمیان بقاء باہم کے اصول کے تحت ایک دوسرے کا اکرام واحترام ضروری ہے، مسلمان اس رواداری میں کہاں تک جا سکتا ہے اور کس قدر اسے برت سکتا ہے، یہ وہ سوال ہے جو ملک میں عدم رواداری کے بڑھتے ماحول میں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، اس سوال کے جواب سے نا واقفیت کی بنیاد پر سوشل میڈیا، ٹی وی اوردوسرے ذرائع ابلاغ پر غیر ضروری بحثیں سامعین، ناظرین اور قارئین کے ذہن ودماغ کو زہر آلود کرنے کا کام کر رہی ہیں، اس آلودگی سے محفوظ رکھنے کی یہی صورت ہے کہ رواداری کے بارے میں واضح اور صاف موقف کا علم لوگوں کو ہو اور غیر ضروری باتوں سے ذہن ودماغ صاف رہے۔
 اسلام میں رواداری کا جو مفہوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے، خندہ پیشانی سے ملا جائے، ان کے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے، وہ ضرورت مندہوں تو ان کی مالی مدد بھی کی جائے اور صدقات نافلہ اور عطیات کی رقومات سے ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے، کسی کو حقیر سمجھنا اور حقارت کی نظر سے دیکھنا اکرام انسانیت کے خلاف ہے، اس لیے معاملہ تحقیر کا نہ کیا جائے اور نہ کسی غیر مذہب کا مذاق اڑایا جائے،یہ احتیاط مردوں کے سلسلے میں بھی مطلوب ہے، اور عورتوں کے سلسلے میں بھی، تاکہ یہ آپسی مذاق جنگ وجدال کا پیش خیمہ نہ بن جائے، معاملات کی صفائی بھی ہر کس وناکس کے ساتھ رکھا جائے، دھوکہ دینا، ہر حال میں ہر کسی کے ساتھ قابل مذمت ہے اور اسے اسلام نے پسند نہیں کیا ہے، البتہ حالت جنگ میں اس قسم کے حرکات کی اجازت ہے، جس سے فریق مخالف دھوکہ کھا جائے، دھوکہ دینا اور چیز ہے اور کسی عمل کے نتیجے میں دھوکا کھانا بالکل دوسری چیز۔
 اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ایسے تمام قوانین کا پاس ولحاظ بھی ضروری ہے، جو شریعت کے بنیادی احکام ومعتقدات سے متصادم نہیں ہیں، اگر کسی قسم کا معاہدہ کیا گیا ہے، زبانی یا تحریری وعدہ کیا گیا ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ ہمیں معاہدوں کا پاس ولحاظ رکھنے کو کہا گیاہے، جن شرائط پر صلح ہوئی ہے، اس سے مُکر جانا انتہائی قسم کی بد دیانتی ہے، اسی طرح رواداری کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ان تمام حرکات وسکنات سے گریز کیا جائے، جس سے نفرت کا ماحول قائم ہوتا ہے اور قتل وغارت گری کو فروغ ملتا ہے، اس ضمن میں تقریر وتحریر سبھی کچھ شامل ہے، کوئی ایسی بات نہیں کہی جائے جس سے فرقہ پرستی کی آگ بھڑکے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے، جو فتنہ وفساد کا پیش خیمہ ثابت ہو، غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے آپسی میل جول کو بڑھایا جائے اور اپنے پروگراموں میں تقریبات میں دوسرے مذاہب والوں کو بھی مدعو کیاجائے، تاکہ میڈیا کے ذریعہ پھیلا ئی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے، افواہوں پر کان نہ دھرا جائے، اور خواہ مخواہ کی بد گمانی دلوں میں نہ پالی جائے، جلسے جلوس میں بھی نفرت انگیز نعروں سے ہر ممکن بچا جائے، اشتعال انگیزی نہ کی جائے، دوکانوں میں توڑ پھوڑ، گاڑیوں کو جلانا وغیرہ بھی امن عامہ کے لیے خطرہ ہے، اس لیے ایسی نوبت نہ آنے دی جائے، اور ہر ممکن اس سے بچاجائے، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جلوس میں دوسرے مذاہب کے لوگ گھس جاتے ہیں، مسلمان اپنی وضع قطع چھوڑ چکا ہے، اس لیے پتہ نہیں چلتا کہ جلوس میں شریک لوگوں میں کتنے فی صد مسلمان ہیں اور کتنے دوسرے، پھر یہ دوسرے لوگ جو اسی کام کے لیے جلوس میں گھس جاتے ہیں، امن وامان کو تباہ کرنے والی حرکتیں کرکے جلوس سے نکل جاتے ہیں، بدنام بھی مسلمان ہوتا ہے اور نقصان بھی مسلمانوں کا ہوتا ہے۔
رواداری کے باب میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیشوا اور معبودوں تک کو برا بھلا نہ کہا جائے، کیوں کہ سب سے زیادہ اشتعال اسی عمل سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا الٹا اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہمارے اللہ ورسول کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں گویا ہمارا عمل اللہ ورسول کی توہین کا باعث بنتاہے، کسی کو بتانا اور سمجھانا بھی ہو تو نرم رویہ اختیار کیا جائے، جارحانہ انداز سے بچا جائے اور حکمت سے کام لیا جائے، حکمت مؤمن کی گم شدہ پونجی ہے، جہاں بھی ملے اسے قبول کر لینا چاہیے، لے لینا چاہیے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ رب العزت نے اپنے وقت کے سب سے بُرے انسان کے پاس اپنے وقت کے سب سے اچھے انسان حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو بھیجا تو نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا۔
 لیکن اس رواداری کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ایسے نعرے لگا ئے جائیں جو کسی خاص مذہب کے لیے مخصوص اور ان کا شعار ہیں، چاہے لغوی طور پر اس کے معنی کچھ بھی ہوں، عرف اور اصطلاح میں اس کا استعمال مشرکانہ اعمال کے طور پرکیا جاتا ہے،تو اس سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے، جے شری رام، بھارت ماتا کی جے اور بندے ماترم جیسے الفاظ دیش بھگتی کے مظہر نہیں، ایک خاص مذہب کے لوگوں کے طریقہئ عبادت کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسے الفاظ کی ادائیگی سے احتراز کرنا چاہیے، کیوں کہ ان الفاظ کا استعمال رواداری نہیں، مذہب کے ساتھ مذاق ہے۔بعض سادہ لوح مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ کہنے سے ایمان واسلام پر کوئی فرق نہیں پڑتا وہ غلط فہمی میں ہیں، کیوں کہ مسلمان کا قول وفعل جیسے ہی اسلای معتقدات کے خلاف ہوتا ہے، ایمان واسلام کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے، یہ بہت نازک اور حساس معاملہ ہے، اتنا حساس کہ مذاق کے طور پر بھی کلمات کفر کی ادائیگی نا قابل قبول ہوتی ہے، اس مسئلہ کو جبریہ کلمہئ کفر پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ جبر کی شکل میں دل ایمان پر مطمئن ہوتا ہے، الفاظ صرف زبان سے ادا ہوتے ہیں، لیکن برضا ورغبت کی شکل میں یا تو وہ دین کو مذاق بنا رہا ہے، یا واقعتاوہ ایسا کر رہا ہے، دین کا مذاق اڑانا یا کلمہئ کفر پر راضی ہونا، دونوں ایمان کے لیے مضر ہے اور دارو گیر کا سبب بھی۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارا مسلمان بھائی جو اپنے کو غیر مسلم بھائیوں کے سامنے سیکولر بننے کے لیے مختلف مندروں اور گرودواروں میں جا کر پوجا ارچنا کرتا ہے، متھا ٹیکتا ہے، وہ اپنے دین ومذہب سے کھلواڑ کرتا ہے، رواداری ایک دوسرے کے تئیں احترام کے رویہ کا نام ہے، نہ یہ کہ ایسے اعمال شرکیہ کا جو خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کے تقاضوں کے خلاف ہو، یہ رویہ زیادہ تر ہمارے سیاست دانوں میں پایا جاتا ہے، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس کو جان ودل، ایمان واسلام عزیز ہو، وہ اس گلی میں کیوں جائے، جائیے ضرور جائیے، خوب سیاست کیجئے، لیکن سیاست میں عہدے اور مال وزر کی حصولیابی کی غرض سے اپنا ایمان وعقیدہ تو بر باد نہ کیجئے، تھوڑے مفاد کے حصول کے لیے حق بات کہنے سے گریز کا رویہ نہ اختیار کیجئے، ا پرس لیے کہ دنیاوی عہدے جاہ ومنصب اور مفادات چند روزہ ہیں، اور آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے، چند روزہ زندگی کے لیے ابدی زندگی کو بر باد کر لینا عقل وخرد سے بعیدہی نہیں، بعید تر ہے۔

محمد علاء الدین ایک نیک دل اور غریب پرور انسان تھے : ✍️ نصر امام ، ڈایریکٹر بایو کیم ، انور پور حاجی پور ، ویشالی

محمد علاء الدین ایک نیک دل اور غریب پرور انسان تھے :  Urduduniyanews72 
✍️ نصر امام ، ڈایریکٹر بایو کیم ، انور پور حاجی پور ، ویشالی 

جناب محمد علاء الدین صاحب صحت کے اعتبار سے دبلے پتلے سے ایک بزرگ انسان تھے ۔ لیکن نوجوان جیسی لگن اور محنت و مشقت کرتے تھے ۔ آج کے دور میں علاءالدین صاحب جیسے ایماندار اور محنتی کم لوگ ملتے ہیں ۔ آپ آئرن ویلڈنگ میں مہارت رکھتے تھے ۔ اسی کام سے آپ نے خود کی کمپنی بنائ ۔ سیما اسٹیل پروڈکٹس کے نام سے بانکا ہاٹ ، گاۓ گھاٹ ، پٹنہ میں آپ کی کمپنی ہے ۔ آپ نے بہت سارے لوگوں کو کام سکھا کر کمپنی کھلوایا ۔ اور انہیں بھی کمپنی کا مالک بنایا اور اپنے بچوں کو بھی الگ الگ کمپنی کا مالک بنا دیا ۔ موت سے 6 روز قبل تک نوجوانوں جیسی ذمہ داری نبھائی . انہونے اپنے بل بوتے پر خود کی کمپنی کو کھرا کیا ۔ اپنے علاوہ مسلم اور غیر مسلم نوجوانوں کو ہاتھ پکڑا کر کام سکھایا ۔ محنت کرنے کی ترغیب دی ۔ محنت کش لوگ آپ کو بہت پسند تھے ۔ اپنا ہنر لوگوں کو بتاتے سکھاتے ۔ وقت کے پابند تھے ۔ آپ اپنی خوبیوں کی وجہ کر پٹنہ ہی نہیں بلکہ ریاست بہار کے کئ ڈاکٹروں سے انکی دوستی تھی ۔ فضول وقت کبھی چوک چوراہے یا کسی کی دُکان پر نہیں گزارتے ۔ اپنی ہی فیکٹری پر وقت گزارتے ۔ ١٩ اکتوبر بروز جمعرات ان کا انتقال ہو گیا ۔ آج سبھوں کو اُنکی کمی محسوس ہو رہی ہے ۔ دینی ادارہ ، مسجد  ہو یا پھر  مدرسہ کے طالب علموں کو خاموشی کے ساتھ بغیر نام و نمود خوفیہ طور پر ان کی مدد کیا کرتے تھے ۔ آج کے زمانے میں لوگ دکھاوے اور اپنی شہرت کے لیے کام کرتے ہیں ۔ جبکہ علاء الدین صاحب ان سب سے کوسوں دور تھے ۔ آپ خود میں ایک ٹرسٹ تھے ۔ آپ کے چلے جانے سے بہت سارے لوگوں کا نقصان ہوا ہے ۔ ذاتی طور پر میرا ( نصر امام ابن انجینیر یوسف مرحوم ، انور پور ، حاجی پور ) کافی بڑا نقصان ہوا ہے ۔ آپ مجھے بہت عزیز رکھتے تے ۔ آپ کی حیثیت میرے نزدیک ایک گارجین جیسی تھی ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ( آمین )

ہفتہ, اکتوبر 21, 2023

طوفان اقصٰی

طوفان اقصیٰ
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

فلسطین کے غزہ علاقہ پر حکمراں حماس کے مجاہدین نے اسرائیلی جارحیت اور ظلم وجور کو سہتے سہتے اسرائیل پر زور دار حملہ بول دیا، یہ دہشت گردی نہیں نیوٹن کے اصول کے مطابق اسرائیلی عمل کا  رد عمل ہے، حماس والے رد عمل کا اظہار اپنی صلاحیت کے اعتبار سے پہلے بھی کرتے رہے ہیں، لیکن وہ انتہائی محدود ہوا کرتا تھا، اور ذرائع ابلاغ میں اس کی خبر یا تو آتی نہیں تھی، یا دبا دی جاتی تھی، لیکن اس بار کا حملہ گذشتہ پچاس سالوں میں حماس کا سب سے بڑا حملہ ہے، جس نے اسرائیل کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں، جس خفیہ ایجنسی پر اسے بہت بھروسہ تھا وہ اس طرح ناکام ہو گئی کہ حماس والے اسرائیل کے اندر تک گھستے چلے گئے، آج 11 اکتوبر کو یہ لڑائی پانچویں دن میں داخل ہو گئی ہے، دونوں طرف بربادی ہوئی ہے، دونوں طرف کے لوگ خوف زدہ اور پریشان ہیں، غزہ کے محاصرہ کو اقوام متحدہ نے عالمی قانون کے مطابق ممنوع قرار دیا ہے، لیکن اسرائیل کو اس کی پرواہ ہی کب ہے، وہ ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے'' کے مطابق انسانیت کے خلاف جتنے کام کر سکتا ہے، کر رہا ہے، عالمی برادری کو اسی وقت پریشانی ہوتی ہے، جب یہودیوں کی ہلاکت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جب تک فلسطینیوں کا قتل ہوتا ہے ساری عالمی برادری بشمول مسلم ممالک چادر تان کر سو رہی ہوتی ہے، جہاں اسرائیل پر ضرب پڑی سارے بلبلانے لگتے ہیں اور ایک ہوجاتے ہیں، اس بار بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، امریکہ، برطانیہ، فرانس بلکہ یورپی یونین بھی اسرائیل کے ساتھ ہے، رہ گیے عرب لیگ اور مسلم ممالک تو اس کا رویہ ہمیشہ کی طرح ڈھلمل والا ہے۔ یہ پورے طور پر سامنے آتے نہیں، بلکہ زبانی حمایت میں بھی الفاظ اس قدر جچے تُلے ہوتے ہیں کہ ان کی آواز کا کچھ اثر نہیں ہوتا اور ان کی چیخیں حلق میں ہی دم توڑ دیتی ہیں، اس بار بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، قطر، (جہاں حماس کے سر براہ اسماعیل ہانیہ قیام پذیر ہیں،) ترکی اور سعودی عرب کھل کر سامنے ہے، ایران نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ حملہ میں اس کا ہاتھ ہے، البتہ ایرانی صدر نے حملہ آور کے ہاتھ چومنے کی بات کہہ کر اپنا موقف اور پیغام عالمی برادری تک واضح لفظوں میں پہونچا دیا ہے، ایران کی حمایتی تنظیم لبنان میں سرگرم حزب اللہ نے عملی طور پر فلسطینیوں کا ساتھ دینا شروع کر دیا ہے، حزب اللہ ماضی میں سعودی عرب کو پریشان کرتارہا ہے، ان کے لوگوں نے سعودی عرب میں کئی مسجدوں پر حملہ بھی کیا تھا، لیکن اس بار وہ فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔
بھارت کا موقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی مقبوضہ زمین اسرائیل کو واپس کرنی چاہیے، زمانہ تک یہاں اسرائیلی سفارت خانہ نہیں تھا اور یہاں کے سربراہ اسرائیل کا سفر نہیں کیا کرتے تھے، سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی کا بھی یہی موقف تھا، لیکن اب ہندوستان میں اسرائیلی سفارت خانہ بھی ہے اور ہمارے وزیر اعظم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، جرمنی کے چانسلر ہٹلر نے جب مبینہ ہولو کاسٹ کے ذریعہ یہودیوں کا قتل عام کیا تھااور کچھ کو چھوڑدینے کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ ان کے کرتوت کو دیکھ کر دنیا سمجھ سکے کہ ہم نے انہیں کیوں قتل کیا تھا، آج کے حالات ہٹلر کے اس قول کی تائید کرتے ہیں اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ یہ کتنے ظالم ہیں۔
غزہ فلسطین کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے، اس کی سرحد اکاون(51) کلو میٹر اسرائیل سے اور گیارہ(11) کلو میٹر مصر سے لگتی ہے، اس طرح غزہ کا مجموعی رقبہ تین سو پینسٹھ (365)مربع کلو میٹر ہے، تئیس (23)لاکھ پچھہتر(75) ہزار مسلم یہاں بہستے ہیں، 2005میں غزہ اسرائیل سے الگ ہوا تھا، یہ اسرائیل کے پچھم میں ہے۔ پانی بجلی اور غذائی اجناس کی سپلائی اسرائیل کے راستے سے ہی ہوتی ہے، غزہ کے مکمل محاصرہ کا مطلب ہے کہ انسانی ضروریات کی سارے اشیاء کا وہاں پہونچنا ممکن نہیں ہوسکیگا۔ اور انسانی جانوں کا ضیاع ہوگا، ضروری اشیاء کی فراہمی مصر کی طرف سے بھی ہو سکتی تھی، لیکن مصر نے یہ کہہ کر اپنی سرحد بند کر دی ہے کہ یہودی اور فلسطینی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد یہاں پہونچ کر ہماری معیشت اور اقتصادیات کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس لیے یہ راستہ بھی بند ہو گیا ہے، اقوام متحدہ نے انسانی بنیادوں پر غزہ پہونچنے کے لیے ایک محفوظ راستہ اور کار یڈور اسرائیل کو کھولنے کو کہا ہے، لیکن اس اپیل کا بھی اس پر اثر نہیں ہوا ہے، خود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بند کمرے کی میٹنگ بے نتیجہ ختم ہو گئی ہے، حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں عالمی برادری کو باعزت مفاہمت کی راہ اختیار کرانے کے لئے آگے آنا چاہیے، یہی اس مسئلے کا حل ہے، ورنہ بقول ساحر لدھیانوی
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی

جمعہ, اکتوبر 20, 2023

کینڈا کے ساتھ بگڑتے تعلقات

کینڈا کے ساتھ بگڑتے تعلقات 
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
 جی ٹونٹی کانفرنس کے کامیاب انعقاد کی شاباشی کا مرحلہ ابھی مکمل نہیں ہواتھا کہ ہندوستان اور کینڈا کے تعلقات میں ایسی تلخی آگئی کہ ہندوستان نے کینڈین اعلیٰ سفارت کار کو پانچ دن کے اندر ملک چھوڑنے کو کہہ دیا اور ہندوستان آنے کے لیے کینیڈین شہریوں کو فی الحال ویزہ دینے سے منع کر دیا ہے، جس میں طلبہ بھی شامل ہیں، ہندوستان کینڈا کے وزیر اعظم جسٹن ترودو کے اس بیان سے خفا ہے جو انہوں نے کینڈین پارلیامنٹ میں دیا کہ ہمارے ایک سکھ شہری کے قتل میں ہندوستان کی خفیہ ایجنسی شریک ہے،ا س بات کو انہوں نے دوباراپنے ملک کی پارلیمان میں کہا اور ایک بار جی-20اجلاس کے موقع سے وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے رکھا، جسے وزیر اعظم نے فورا ہی مسترد کر دیا۔
 خالصتان حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نِجّر جالندھر ضلع کے مہر سنگھ پورہ کا رہنے والا تھا، اطلاع کے مطابق خالصتان کی حمایت کی وجہ سے وہ جعلی پاسپورٹ روی شرما کے نام بنوا کر ہندوستان سے 1997میں فرار ہو گیا تھا اور ہندوستان نے اس کے خلاف ’’ریڈ کارنرس نوٹس‘‘ جاری کر رکھا تھا، اس کے باوجود کینڈا نے نہ صرف اس کو وہاں کی شہریت دے دی بلکہ ’’نو فلائی لسٹ‘‘ میں بھی اسے نہیں ڈالاتھا، جب کہ بخر پر درجنوں مقدمات ہندوستان میں قائم تھے، ہندوستان کا کہنا ہے کہ ہر دیپ سنگھ گینگ وار میں مارا گیا۔اس کے قتل سے ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ادھر امریکہ کے نیو یارک ٹائمس کا دعویٰ ہے کہ امریکہ نے نجر کے قتل کے بعد خفیہ جانکاری کینڈا کو مہیا کرائی تھی، اس کے علاوہ اوپاوا نے جو جانکاری جٹائی تھی اس کی بنیاد پر کینڈا نے بھارت کی خفیہ ایجنسی کے سرا س الزام کو منڈھ دیا تھا۔
 ادھر ہندوستان نے کینڈا کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات خراب کرنے کے بعد قومی جانچ ایجنسی (CNIA)کو خصوصیت کے ساتھ دوسرے ملکوں میں رہ کر ہندوستانی مخالف مہم چلانے والوں پر کاروائی کرنے کو کہا ہے، جس کے نتیجہ میں انیس خالصتان حمایتیوں کی جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ ان کا OICکارڈ بھی رد کر دیا گیا ہے، یہ لوگ مختلف ملکوں میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔جو لوگ خفیہ ایجنسیوں کی کاروائی کی زد میں آئے ہیں ان میں گریون سنگھ پنو(کناڈا) پرم جیت سنگھ پمپا(برطانیہ) وادھوا سنگھ نیر عرف چاچا(پاکستان) کلونت سنگھ مُتھرا (برطانیہ) جے اس دھاری وال (امریکہ) سوکھ پک سنگھ (برطانیہ) ہیریٹ سنگھ عرف رانا سنگھ (برطانیہ ) سرجیت سنگھ بے نور (برطانیہ) کلونت سنگھ عرف کانتا (برطانیہ) ہرجاپ سنگھ عرف جَپی دنگھ (امریکہ) رنجیت سنگھ نیتا (پاکستان) گرمیت سنگھ بگا اور گُر پریت سنگھ عرف باگھی (برطانیہ) جیسمین سنگھ حکیم زادہ (یو اے ای) گرجنت سنگھ ڈھلوں (آشٹریلیا) وغیرہ کے نام شامل ہیں، ان تمام کی جائیداد یو اے پی اے دفعہ 33(5)کے تحت ضبط کی جائے گی۔
 خالصتانی تحریک سے ہندوستان  ہندوستان کی سا  لمیت کو ماضی میں شدید خطرہ رہا ہے، ایک زمانہ تک پنجاب اس تحریک کی وجہ سے دہشت گردی کا اڈہ بن گیا تھا، اس تحریک کے نتیجے میں ہی اندرا گاندھی کو ان کے محافظوں نے گولی مار دی تھی ،ا س لیے کوئی بھی محب وطن اس تحریک کی حمایت نہیں کر سکتا، اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات استوار رکھنے میں ہی دونوں ملکوں کا فائدہ ہے، اس لیے کہ کناڈا ہندوستانی شہریت چھوڑ کر جانے والوں کی پہلی پسند بن گیا ہے، وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں جو اعداد وشمار جاری کیے ہیں، اس کے مطابق جنوری 2018سے جون 2023کے درمیان سولہ لاکھ ہندوستانیوں نے کناڈا کی شہریت حاصل کی ہے، جو ترک وطن کرنے والوں کی مجموعی تعداد کا بیس فی صد ہے، ہندوستان چھوڑ کر جانے والوں کی پہلی پسند امریکہ دوسری کناڈا، تیسری آسٹریلیا اور چوتھی برطانیہ ہے، وزارت خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ 2018سے 2023کے درمیان تقریبا آٹھ لاکھ چار ہزار لوگ ہندوستان چھوڑ کر ایک سو چودہ ممالک میں جا بسے ہیں، ان حالات میںدونوں ملک کے سر براہوں کو ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے وزیر اعظم نے جی-20کانفرنس میں ملکوں کے درمیان ہم آہنگی کے فروغ کے لیے جو طریقہ بتایا تھا، اس میں اعتماد کی بحالی کو اولیت دی گئی تھی ، ہمیں اس کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔

جمعرات, اکتوبر 19, 2023

ڈاکٹر عبد العزیز سلفی

ڈاکٹر عبد العزیزسلفی ؒ  ___
اردودنیانیوز۷۲

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
 جمعیت اہل حدیث ہند کے نائب امیر، دا رالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے ناظم اعلیٰ، سلفیہ ہائی اسکول ، سلفیہ یونانی میڈیکل کالج، ملت شفاخانہ امام باڑی دربھنگہ کے منتظم وسکریٹری، شفیع مسلم ہائی اسکول کی مجلس منتظمہ اوردار العلوم ندوۃ العلماء کی مجلس عاملہ کے رکن، انجمن نادیۃ الاصلاح کے سابق لائبریرین، مسلم انجمن تعلیم کے سابق خزانچی جناب ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفی کا 12؍ ستمبر 2023ء روز منگل بوقت 10؍ بجے دن  دربھنگہ میں انتقال ہو گیا، ان کی عمر تقریبا پچاسی سال تھی، جنازہ کی نمازبعد نماز مغرب قبیل عشاء مولانا خورشید مدنی سلفی کی امامت میں ادا کی گئی، تدفین چک زہرہ قبرستان میں عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، دو فرزند انجینئر سید اسماعیل خرم، ڈاکٹر سید یوسف فیصل، ایک صاحب زادی عائشہ فرحین اور ایک بھائی ڈاکٹر سید عبد الحکیم سلفی کو چھوڑا، اس طرح ملت ایک بڑے دانشور، ملی کاموں میں سر گرم اور با فیض شخصیت سے محروم ہو گئی۔ سدا رہے نام اللہ کا۔
 مولانا ڈاکٹر عبد العزیز سلفی بن ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفی (م 1988) بن ڈاکٹر سید فرید رحمہم اللہ نے 10؍ جنوری 1948ء کو دانا پور پٹنہ میں آنکھیں کھولیں، چھ سال کی عمر میں دا رالعلوم احمدیہ سلفیہ میں فارسی دوم کی جماعت میں داخلہ ہوا اور 1955ء میں یہاں سے سند فراغ حاصل کیا، فارسی کی ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی، اس کے بعد جن اساتذہ کے سامنے آپ نے زانوے تلمذ تہہ کیا ان میں مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی، مولانا نذیر احمد املوی، مولانا فضل الرحمن اعظمی، مولانا عبد الرحمن سلفی، مولانا ظہور رحمانی، مولانا ادریس آزاد رحمانی، مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی، مولانا عبید الرحمن عاقل رحمانی کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، یہاں دوران تعلیم آپ کافی سر گرم رہے، بیت بازی، مختلف نوعیت کے انعامی مقابلے اور مشاعروں کا انعقاد کرایا، قلمی رسالہ ’’شگوفہ‘‘ اور ’’منادی‘‘ کے نام سے نکالا،اس طرح آپ طلبہ واساتذہ کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
 مدرسہ کی تعلیم کی تکمیل کے بعد شفیع مسلم ہائی اسکول کے دسویں کلاس میں داخلہ لیا اور 1975ء میں سائنس لے کر میٹرک کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد سی ایم کالج دربھنگہ میں آئی ایس سی میں داخلہ لیا، لیکن 1961ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڈھ چلے گیے اور بی ایس سی تک کی تعلیم وہیں پائی، نالندہ میڈیکل کالج پٹنہ میں داخلہ 1970ء میں ہوا اور یہیں سے 1976ء میں ایم بی بی ایس کیا، اسکول کے اساتذہ میں جناب محمد محسن (بی اے) ماسٹر مطیع الرحمن صاحب جن سے ڈاکٹر صاحب نے انگریزی جغرافیہ اور حساب، ماسٹر جمیل احمد صاحب جن سے سائنس اور بشیر احمد شاداں فاروقی سے سماجیات کی تعلیم کے لیے زانوئے تلمذ تہہ کیا، ان حضرات نے ڈاکٹر صاحب کے علمی وادبی ذوق کو پروان چڑھایا، علی گڈھ کے دوران قیام ان کے استاذ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی سابق گورنر بہار اور ہریانہ رہے، میڈیکل کالج کے اساتذہ کا مجھے علم نہیں ہو سکا۔
 ایم بی بی ایس سے فراغت کے ایک سال قبل 1975ء میں رخسانہ خاتون بنت قاضی سید حسن شیر گھاٹی گیا کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ، اللہ رب العزت نے اس رشتہ میں برکت عطا فرمائی اور دو لڑکے، ایک لڑکی کے ساتھ پوتے ، پوتیاں نواسے اور نواسیوں سے بھرا پُرا گھر موجود ہے۔
 ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات کئی تھی، لیکن گہرے مراسم نہیں تھے، ان کی بہ نسبت ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبد الحلیم سلفی سے میرے مراسم مضبوط تھے،ا س کی خاص وجہ یہ تھی کہ جب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ریاستی سطح پر اصلاح معاشرہ کمیٹی کی توسیع کی تو بہار کو دو حصوں میں تقسیم کرکے جنوبی بہار کا کنوینر مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ اور شمالی بہار کا کنوینر ڈاکٹر عبد الحلیم سلفی کو بنایا تھا اورمجھے شمالی بہار کا جوائنٹ کنوینر بنایا گیا تھا، اس حوالہ سے میرا آنا جانا کئی بار دربھنگہ ہوا اور ڈاکٹر عبد الحلیم سلفی ؒ کے ساتھ ان کے گھر حاضری ہوتی تھی، ڈاکٹر عبد العزیز صاحب سے وہیں ملاقات ہوتی رہی، اس زمانہ میں بھی ڈاکٹر صاحب پر ضعف کا غلبہ تھا، بلکہ جسم میں رعشہ تھا، اس کے باوجود جب بھی ملے پورے اخلاق سے ملے، ضیافت کا اہتمام کیا، ان سے مل کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہم کسی خاص مسک کے قائد سے مل رہے ہیں، اپنے مسلک پر مضبوطی سے قائم رہنے؛ بلکہ بڑی حد تک اس کی ترویج واشاعت کے لیے کوشاں ہونے کے باوجود دوسرے مسلک کا وہ احترام کرتے تھے اور ملت کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عادی تھے، مزاج میں سنجیدگی کے باوجود گفتگو مؤثر اور دلآویز کیا کرتے تھے، پہلی ملاقات میں کوئی ان سے متاثر نہیں ہوتا تھا، لیکن جیسے جیسے قربت بڑھتی ، تعلقات میں اضافہ ہوتا، آدمی ان کا گرویدہ ہوتا تھا، اسی گرویدگی کی وجہ سے ان کے گرد ایسے لوگ جمع ہو گیے تھے، جنہوں نے ان کے دادا اور والد کے قائم کردہ اداروں کو اضمحلال اور تنازل کے اس دور میں پورے وقار ، معیار، اعتبار اور اعتماد کے ساتھ چلایا اور آج بھی وہ تمام تعلیمی ادارے تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہیں، ڈاکٹر صاحب کی ایک بڑی خصوصیت عہدوں سے اجتناب تھا، کئی موقعوں پر انہوں نے عہدوں کے قبول کرنے سے انکار کیا،حالاں کہ وہ بغیر طلب آ رہے تھے اور بغیر طلب عہدوں پر اللہ کی نصرت بھی آیا کرتی ہے، اس کے باوجود عہدے ان کی طرف کھینچے آرہے تھے، نوجوانوں کو جمعیت اہل حدیث بہار سے جوڑنے کے لیے جمعیت شبان اہل حدیث کا قیام 1973ء میں مظفر پور اجلاس میں ہوا تو اس کی دستور سازی کے لیے جو سہ رکنی کمیٹی بنائی گئی اس میں جعفر زید سلفی ، بدر عظیم آبادی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب بھی شریک تھے، وہ ایک زمانہ تک جمعیت اہل حدیث بہار کے خازن بھی رہے۔ 1998ء میں دار العلوم احمدیہ سلفیہ کے ناظم منتخب ہوئے اور آخری سانس تک اس ذمہ داری کو نبھایا، ان کی تحریریں کتابی شکل میں میرے سامنے نہیں ہیں، لیکن بعض موقعوں سے ان کے مضامین دار العلوم احمدیہ سلفیہ کے ترجمان الھدیٰ میں شائع ہوا کرتے تھے، بعض شمارے میں اداریے بھی ان کے قلم سے ہیں۔
 ڈاکٹر صاحب کو اسٹیج سے تقریر کرتے ہوئے بھی میں نے نہ کبھی دیکھا ،نہ سنا ، میں نے جس دور میں دیکھا، اس میں وہ ضعف قویٰ کے شکار تھے اور گفتگو بھی کم کیا کرتے تھے، ان کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ حکیم عبد الحمید مرحوم کی قبر کا وہ کتبہ یاد آتا تھا جس میں ان کے ملفوظ نقل کیے گیے ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ ابو الکلام ، ابو اللسان، ابو البیان تو بہت لوگ ہیں، میں تو ابو العمل بننا چاہتا ہوں، چنانچہ ہمدرد یونیورسٹی اورہمدرد کی دوائیاں ان کے اسی ابو العمل ہونے کی گواہ ہیں، ڈاکٹر عبد العزیز صاحب بھی ابو العمل تھے، انہوں نے اپنی زندگی گفتار کے غازی کے بجائے عملی مجاہد کے طور پر گذارا، تبھی وہ اتنے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ادا کرنے میں کامیاب ہوئے، بلا شبہ ان کی پوری زندگی، دعوتی، ملی اور تعلیمی تھی اور انہوںنے ہر محاذ پر کام کو آگے بڑھا کر ہم سب کو کام کرنیکا سلیقہ بتانے گیے، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو قبول فرمائے اور زندگی بھر کی جد وجہد کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...