Powered By Blogger

منگل, اکتوبر 31, 2023

✍️ محمد فرمان الہدا فرمان

اسلام امن کا داعی _____
اردودنیانیوز۷۲ 
  ✍️محمد فرمان الہدیٰ فرمان
اسلام امن وسلامتی کا سرچشمہ ہے،
 آپسی اخوت و بھائی چارگی، اللّٰہ کی مخلوق سے محبت و ہمدردی، اور سماج کے لیے خیر خواہی، اس کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے، یہ خیر کو فروغ دینے والا دین ہے، آج پوری دنیا میں جو فساد بپا ہے، اس کا صحیح علاج دینِ اسلام کی اتباع میں ہے؛ لیکن حیف صد حیف! آج فسادیوں اور دہشت گردوں کو اسلام سے جوڑ کر، اسے بدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے؛ بلکہ کی جاچکی ہے، اور اس میں انہیں کامیابی مل رہی ہے، جب کہ تشدد اور اسلام کے مابین کوئی تعلق ہی نہیں ہے، جہاں تشدد ہوگا وہاں اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اے ایمان والو! پورے طور پر امن وسلامتی (اسلام) میں داخل ہوجاؤ، اور شیطان مردود کی پیروی نہ کرو"۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: "زمین میں فساد مت پھیلاؤ درستگی کے بعد"۔
دنیا کے تمام ادیان و مذاھب میں انسانی جانوں کے احترام و وقار اور امن و اطمینان کے ساتھ زندگی گذارنے کے حق کو اولیت دی گئ بے، الحمد للہ اس سلسلے میں اسلام کا درجہ سب سے عظیم اور بلند ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے: "جس کا خون اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو ناحق قتل مت کرو"۔
دینِ اسلام نے روزِ اول ہی سے تشدد اور دہشت گردی کی مخالفت کی ہے، امن و سلامتی کو فروغ دینے کی تلقین کی ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ: "اگر کوئی ظلم کرے تو بدلہ لے لو؛ لیکن اگر معاف کردیا تو اللّٰہ معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے" اور آگے کہا: "بدلہ لینے میں تجاوز نہ کرنا؛ ورنہ تم خود ظالم بن جاؤگے"۔
اسلام نے جہاں تشدد سے منع کیا ہے، وہیں اپنے دفاع کا بھی حکم دیا ہے، اللّٰہ فرماتا ہے: "جو تم سے لڑائی کرے تم بھی اس سے اللّٰہ کی راہ میں لڑائی کرو، جن مسلمانوں سے لڑائی کی جاتی ہے اور جن کو ان کے گھروں سے نکالا جاتا ہے، کشادگی کے باوجود ان پر زمین تنگ کی جاتی ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ لڑنے پر اللّٰہ کی نصرت اور مدد کا بھی وعدہ ہے"۔
لوگ کہتے ہیں کہ اسلام ایک دہشت گرد دین ہے، فساد پھیلانا مسلمانوں کا شیوہ ہے، ایسے لوگوں سے بس ایک ہی سوال ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کے گھر میں گھس کر آپ کی عزت لوٹے، سامانوں کی چوری کرے تو کیا آپ اسے ایسا کرنے دیں گے؟ آپ کا جواب ہوگا بالکل نہیں۔
آج فلسطینی اسی درد وکرب سے گذر رہے ہیں، اپنی زمین اور  مسجد اقصیٰ کے لیے لڑ رہے ہیں، ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے؛ کیوں کہ مسجد اقصیٰ صرف ان کی نہیں ہے؛ بلکہ تمام عالمِ اسلام کا قبلۂ اول ہے، اس کی حفاظت ہر کس وناکس پر لازم اور ضروری ہے، یہی وہ مسجد ہے جہاں سے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم معراج کو گئے، بہت سارے انبیاء کا مسکن اور مدفن بھی ہے، اللّٰہ نے اس کے ارد گرد بڑی برکتیں نازل فرمائی ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ اسلام بلا وجہ جنگ کی اجازت نہیں دیتا؛ لیکن جب جنگ کی نوبت آجائے تو اپنی حفاظت، بچاؤ اور مکمل طور پر دفاع کا حکم ‌دیتا ہے۔
آج اگر ہم فلسطینیوں کے ساتھ لڑ نہیں سکتے ہیں، تو کم از کم ان کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کریں ۔ان کے حق میں سوشل میڈیا پر آواز بلند کریں، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، اسی کے ساتھ ہم سب مل کر بارگاہِ الٰہی میں دعا بھی کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ قدس کی حفاظت فرمائے، اس کا چھینا ہوا وقار واپس دلادے اور مسجدِ اقصیٰ کو یہودیوں کے نرغے سے نکلنے کے اسباب پیدا فرمادے، آمین ثم آمین۔
*** ____________ ___________ ***

مضمون نگار ✍️محمد ضیاء العظیم پٹنہ

اردو جرنل, شاد عظیم آبادی نمبر، فکر وفن کے آئینے میں 
Urduduniyanews72 
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم پٹنہ
موبائل نمبر 7909098319 

سر زمین عظیم آباد کی تاریخ رہی ہے کہ ہر دور میں یہاں سے علم وادب کے درخشندہ ستارے دنیائے ادب کو اپنی روشنی سے منور کرتے چلے آئے ہیں، اور ہنوز  یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ اردو زبان وادب کی ترویج وترقی ،اور اس زبان کی آبیاری میں دبستانِ عظیم آباد کا اہم رول رہا ہے ۔ اور اسی کی ایک کڑی یو جی سی کییر لسٹ  میں شامل شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی کا تحقیقی رسالہ"اردو جرنل" بھی ہے جو قارئین ادب کی علمی وادبی تشنگی دور کرنے میں کافی معاونت  کرتا ہے ۔ اردو جرنل ٢٠٢٣- خصوصی گوشہ : شاد عظیم آبادی اس وقت میرے سامنے ہے، اس رسالہ کے مدیر ممتاز ناقد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ،صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی نے بڑے خوبصورت اور دلچسپ پیرائے میں مرتب کرکے دنیائے ادب کو ایک بیش بہا تحفہ عطا کیا ہے۔ کتاب کے مشمولات کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مضامین کس قدر اہم، دلچسپ، اور کارآمد ہیں ۔ خاص طور پر شاد عظیم آبادی کی زندگی، ان کے فکر و فن کو مختلف اور دلچسپ زاویے کے ساتھ پیش کرکے یقیناً ایک تاریخ رقم کی گئی ہے ۔ یقیناً شاد نے دبستانِ عظیم آباد کی نمائندگی دنیائے ادب میں کی ہے، شاد عظیم آبادی قادر الکلام شاعر ہیں، دنیائے ادب میں انہیں جو مقام ومرتبہ حاصل ہے وہ بے شک بے نظیر ہے، لیکن اس سلسلے میں ہمارے ادباء کی توجہات کماحقہ کم رہی ہیں ، شدت سے اس کی تشنگی محسوس کی جارہی تھی، جسے ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے پوری کرنے کی بھر پور سعی کی ہے ۔ ملک کے نامور ادباء کے مضامین اردو جرنل میں شامل ہیں، مضامین کے مطالعہ سے شاد عظیم آبادی کی شخصيت و فن کا کئ زاویے سے انکشاف ہوتا ہے ۔
360/صفحات پر مشتمل اس رسالہ میں 41/ مضامین ہیں، جن میں 27/ مضامین شاد عظیم آبادی کے فن وشخصیت پر اور 14/ مضامین  دیگر موضوعات پر ہیں، اس رسالہ کی کمپوزنگ شمسی گرافس، سبزی باغ پٹنہ نے کی ہے، اسے شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی سے 350/ روپے قیمت دے کر حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
رسالہ میں شامل مضامین کی فہرست  سے چند مندرجہ ذیل ہیں،

مثنوی مادر ہند، 
 شاد عظیم آبادی کا جذبہ اصلاح (نظموں کے آئینہ میں)، 
 شاد اور مرثیہ گوئی، 
 شاد اور جمیل، 
شاد عظیم آبادی اور ان کی لسانی وعروضی خدمات، 
 کلام شاد میں عربی زبان وتعبیرات،
شاد عظیم آبادی پر حافظ شیرازی کا اثر،
شاد کی غزلوں میں فلسفۂ حیات وکائنات،
شاد عظیم آبادی کی نعتیہ شاعری ظہور رحمت کے تناظر میں،
شاد اور ان کی صوفیانہ شاعری۔
میڈیا اور اردو ادب، گوپی چند نارنگ خطوط کے آئینے میں، ذوقی کے ناولوں کے چند زاویے، پروفیسر یوسف سرمست بحیثیتِ ناول نقاد۔کتاب کی شروعات ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے,, پہلی بات،، ایک عنوان قائم کرکے وجہ تصنیف وتالیف کے ساتھ ساتھ شاد عظیم آبادی پر خصوصی گوشہ قائم کرنے کے سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ادبی اور تاریخی اعتبار سے شاد عظیم آبادی اردو کے بلند پایہ شاعر ہی نہیں، دانشور، محقق، تاریخ داں اور نثر نگار بھی تھے ۔ ان کی شاعری کو اربابِ علم ودانش نے ہر دور میں منفرد وممتاز قرار دیا ہے ۔ علامہ اقبال نے خواہش کی تھی کہ کاش عظیم آباد قریب ہوتا اور مجھے آپ کی صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع ملتا ۔
سید سلیمان ندوی نے اعتراف کیا کہ شاد کی شاعری حسن وعشق کے عامیانہ اور صوفیانہ انداز بیان سے تمام تر پاک ہے ۔
نیاز فتح پوری نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ گزشتہ پچاس سال میں شاد عظیم آبادی سے بڑا غزل گو پیدا نہیں ہوا ۔
اور کلیم الدین احمد نے یہ دعویٰ کیا کہ اردو غزل کی کائنات کی تثلیث میر، غالب اور شاد ہیں ۔ شاد ایک مجتہد شاعر تھے ۔
شمس الرحمن فاروقی نے فرمایا کہ کلاسیکی غزل کے کئ رنگوں کو اختیار کرکے انہیں سچے اور خالص ادب میں پیش کرنا شاد کا کارنامہ ہے ۔ اور شمیم حنفی کا قول ہے کہ شاد نے ایک نیا شعری محاورہ وضع کرنے کی کوشش کی ۔اسی طرح شاد کی شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کرمع مثال پیش کی ہے
پہلا حصہ ان کی رومانی شاعری جو ان کے جوانی کی شاعری رہی،
دوسرا حصہ میر درد کی صوفیانہ شاعری اور غالب کی فلسفیانہ شاعری کے اثرات،
اور تیسرا وہ حصہ ہے جہاں وہ بڑی سے بڑی بات کو با آسانی دو مصرعوں میں بیان کردیتے ہیں ۔رسالہ میں جو مضامین ہیں وہ تمام کے تمام اردو ادب میں دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں، خاص طور پر ڈاکٹر سرور عالم ندوی صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیورسٹی کا مضمون،، کلام شاد میں عربی زبان وتعبیرات،،، یہ بہت ہی انوکھا اور نایاب ہے، اس مضمون میں شاد عظیم آبادی کی شخصیت کے نئے پہلو کا انکشاف ہوتا ہے اور وہ یہ کہ یقیناً شاد عظیم آبادی کو اردو وعربی زبان وادب پر کافی گرفت تھی، اس بات کو مکمل، مفصل اور مدلل اجاگر کیا گیا ہے وہ اپنے موضوع کے لحاظ سے بہت ہی نایاب اور انوکھا ہے، جیسا کہ انہوں نے ایک موقع پر قوم کو تعلیمی مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ۔
ہو زبان عربی کا بھی شمول
نفع دیں کا ہے نہ کہ اس کو فضول۔
اسی طرح قواعد عربی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں.:
 کلمہ قالوا کو تو صیغہ غائب نہ جان
جمع کو واحد سمجھ لفظ کا دھوکہ نہ کھا
نیز
اپنے مرجع کو پھرتی ہے ضمیر
حال مرجع کا لیکن تغیر۔

دیگر موضوعات بھی کافی اہم، نایاب، اور وقت کے لحاظ سے کافی کارآمد ہیں۔
یوجی سی منظور شدہ اردو جرنل 2023 اس رسالہ میں شامل تمام مضامین پر تبصرہ ممکن نہیں ہے، قارئین ادب سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کا مطالعہ کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کریں،
ہم اپنی جانب اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے خصوصی طور پر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی اور عمومی طور پر پوری ٹیم کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس رسالہ کی ترتیب وتالیف میں اپنا تعاون پیش کیا ۔

پیر, اکتوبر 30, 2023

خواتین ادب تاریخ وتنقید : ایک تاثر

خواتین ادب تاریخ وتنقید : ایک تاثر 
اردودنیانیوز۷۲ 
محمد ضیاء العظیم، برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن ۔
موبائل نمبر 7909098319 

اُردو ادب میں خواتین کی خدمات کا دائرہ کافی وسیع رہا ہے ۔ اگر ہم اردو زبان وادب اور تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کریں گے تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مرد کے شانہ بشانہ خواتین نے بھی اس زبان کی آبیاری میں اہم خدمات انجام دی ہیں، اور اس زبان وادب کو بام عروج پر پہنچانے میں اپنی قربانیاں بھی پیش کی ہیں، جو ناقابل فراموش ہیں ۔ لیکن بڑی بدقسمتی رہی کہ ان کی تخلیقات کو ہمارے محققین و ناقدین  نے نظر انداز کیا ہے، اور اگر توجہات بھی دی ہیں تو سرسری طور پر ہی ۔ یقیناً یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اُردو زبان وادب میں بہت کم وقتوں میں اپنی قابلیت کا اعتراف کرانے والی، مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کرنے والی، ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے اس گوشے کی تشنگی کو کم کرنے کی بھر پور سعی کی ہیں ۔
ان کی تحریروں میں موضوعات کا تنوع، انفرادیت، موضوعاتی ہمہ گیری، اظہار مدعا کا سلیقہ جا بہ جا دیکھنے کو ملتا ہے، کم عمری کے باوجود ان کے یہاں تجربات ومشاہدات کا ایک وسیع دائرہ ہے ، جہاں الفاظ کا رکھ رکھاؤ، جملوں کو برتنے کا ڈھنگ، تعبیرات کے استعمال کا طریقہ کسی بزرگ قلم کار کی طرح نظر آتا ہے، جس موضوع پر قلم اٹھاتی ہیں، اس کو خوش اسلوبی سے انجام تک بغیر کسی رکاوٹ اور ہچکچاہٹ پہنچا دیتی ہیں، چاہے وہ موضوع کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو، اس سے قبل بھی اردو کے مختلف اصناف پر ان کی تخلیقات آئے دن اردو روزناموں، رسالوں، مجلات اور ماہنامے کے ساتھ خصوصی نمبرات میں شائع ہوکر قارئین سے داد ودعا حاصل کرتی رہتی ہیں،
ساتھ ساتھ سماجی خدمات میں بھی پیش پیش رہتی ہیں، تدریسی فریضے بھی پوری ذمہ داری اور ایمانداری کے ساتھ انجام دیتی ہیں ۔اب تک ان کی درجنوں تصنیفات اردو ادب میں منظر عام پر آکر مقبولیت حاصل کر چکی ہیں، جن میں کئ کتابوں کو سرکاری اعزاز بھی حاصل ہے، تانیثیت جیسے موضوع پر کام کر کے اُنہوں نے feminism کو اُردو میں مختلف زاویے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہیں ۔ اُردو ادب میں خواتین ادب پر مبنی یہ کتاب یقینا دستاویز ی اہمیت رکھتی ہے ۔خواتین ادب : تاریخ و تنقید‘‘بلا شبہہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے، جس میں بہترین موضوعات کو قلمبند کیا گیا ۔ صالحہ صدیقی کی کتاب ’’خواتین ادب : تاریخ و تنقید‘‘ یقینا ایک اہم تصنیف ہے ۔جس میں خواتین کی نثری ،غیر نثری اور شعری جہات کا احاطہ کیا گیا ہے۔اس تصنیف میں بہت ہی سلیقے سے خواتین ادب کی تاریخ و تنقید کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو دیکھ کر ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ یقینا بار بار پڑھی،سنی ،گنی جانے والی بے حد ضروری کتاب ہے ۔خصوصاً اردو ادب کے تمام طلبہ وطالبات کے لئے ایک عظیم سرمایہ ہے،
ان کی تازہ تصنیف ’’خواتین ادب تاریخ و تنقید ‘‘قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے ’’ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلشنگ ہاؤس پریاگراج سے شائع ہوئی ہے ۔جو دس ابواب پر مشتمل ہیں۔ا س کتاب میں نثری،غیر نثری،شعری ،تنقیدی ،تحقیقی اور دیگر اصناف میں اردو ادب کی خواتین قلمکاروں پر ،مبنی ڈاکٹر صالحہ صدیقی کے اکتالیس مضامین شامل ہیں ۔جن میں سے بیشتر مضامین ہندستان و بیرون ممالک کے مختلف رسائل و جرائد کے زینت بن چکے ہیں ۔ہم امید کرتے ہیں کہ اس کتاب سے اردو ادب کے ہر قارئین استفادہ کریں گے، اور ان کے لئے دعا گو ہوں کہ اللہ انہیں مزید ترقی عطا فرمائے۔

جمعرات, اکتوبر 26, 2023

بدگمانی ۔مہلک روحانی بیماریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار

بدگمانی ۔مہلک روحانی بیماری
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار
باہمی حقوق وآداب معاشرت ، جماعتی اور اجتماعی زندگی ، خاندان ، گاؤں اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کی بدگمانی سے بچا جائے، یہ بد گمانی گناہ کبیرہ تو ہے ہی آپسی تعلقات کے تاروپودبکھیرنے میں سب سے زیادہ مو ئثر ہے، اسی لیے اللہ رب ا لعزت نے سورة الحجرات آیت ۲۱ میں جن چیزوں کے کرنے سے منع کیا ہے ان میں ایک بد گمانی بھی ہے، ایمان والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ بہت سے گمان سے بچتے رہیں اس لیے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، یہ جو گناہ والے گمان ہیں انہیں کو اردو میں بد گمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسی لیے تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ مطلق گمان گناہ نہیں ہے، بلکہ بعض گمان ہی گناہ ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بلا دلائل قوی اور حجت تام کے کسی پرکوئی الزام دھر دے اور تہمت لگادے۔ مثلا اللہ تعالیٰ سے بدگمانی رکھنا کہ وہ مجھے عذاب دے گا اور مصیبت میں مبتلا رکھے گا، ایسی بد گمانی حرام ہے، اس قسم کی بد گمانی سے بندوں میں مایوسی اور قنوطیت پیدا ہوتی ہے، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو جاو ¿ اور یہ کہ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ تم میں سے کسی کو بغیر اللہ کے ساتھ اچھے گمان کے موت نہ آئے، ایک حدیث قدسی میں ہے کہ میں بندے کے ساتھ وہی برتاؤکرتا ہوں، جیسا وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے، کم سے کم بندے کو یہ گمان تو ضرور رکھنا چاہیے کہ اگر اللہ عذاب دے تو ہم اس کے بندے ہیں اور اگر وہ بخش دے تو غالب حکمت والا ہے۔ فقہاءنے لکھا ہے کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن فرض ہے، اور بدگمانی حرام ہے۔
اللہ رب العزت یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ ایک بندہ دوسرے بندے سے بد گمان رہے، اس لیے کہ یہ بدگمانی دنیا وآخرت دونوں کی تباہی کا ذریعہ ہے، واقعہ افک کو یاد کیجئے، جب حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگی، یہ تہمت اسی بدگمانی کے نتیجے میں لگی، اس میں بڑا ہاتھ یقینا منافقین کا تھا،لیکن اس موقع سے دو مسلم مرد اور ایک عورت بھی اس بدگمانی کے حصہ دار بنے، گو بعد میں اللہ رب العزت نے ان کی مغفرت کا اعلان کر دیا، اللہ رب العزت نے اس بدگمانی کے بارے میں یہ بات صاف کر دی کہ مسلمانوں نے جب یہ خبر سنی اسی وقت ان کے بارے میںوہ حسن ظن رکھتے اور کہدیتے کہ یہ کھلا جھوٹ ہے، اس سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں جب تک کسی گناہ یا عیب کے بارے میں دلیل شرعی سے معلوم نہ ہوجائے اس وقت تک نیک گمان رکھنا ضروری ہے اور جب تک دلیل سے ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک کسی بات کو اس کی طرف منسوب کرنا ایمانی تقاضوں کے خلاف ہے۔
  اب اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں غلط افواہ پھیلا تا ہے اور لوگوں میں بدگمان کرنے کی مہم چلاتا ہے تو اس سے دلائل طلب کرنے چاہیے اور دلائل نہ پیش کر سکے تو اسلامی حکومت میں حد قذف یعنی اسی(۰۸) کوڑے لگائے جائیں گے اور ایسے لوگوں کی گواہی عند القضاءقابل قبول نہیں ہوگی، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ فاسق ہیں۔
  یہ بد گمانی کا ناپھوسی سے پیدا ہوتی ہے اور جو لوگ کسی کے خلاف مہم چلاتے ہیں تو کھلم کھلا بولنے کی ہمت نہیں ہوتی، کان بھرتے رہتے ہیں، سرگوشی کرکے باتوں کو پہونچاتے ہیں، اللہ رب العزت نے اس سے سختی سے منع کیا ، سورة مجادلہ کی آیت نمبر آٹھ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جب تم کان میں بات کیا کرو تو گناہ کی زیادتی کی اور اللہ کے رسول کی نا فرمانی کی مت کیا کرو، بات کرنی ہی ہو تو احسان اور پر ہیز گاری کی کیا کرو اور اللہ رب ا لعزت سے ڈرتے رہو اس لیے کہ تمہیں اسی کے پاس جمع ہونا ہے۔ اس تفصیل کے بعد اللہ رب العزت نے اسے شیطان کا کام قرار دیا اور فرمایا کہ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ ایمان والوں کو صدمہ پہونچائیں، حالاں کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے، ایمان والوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
  قرآن واحادیث کی روشنی میں بد گمانی کے مفاسد اور اس پر اللہ کی جانب سے وعید وں کے ذکر کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بد گمانی آخر انسان کرتا کیوں ہے؟ اس کی دو وجہ ہوتی ہے، ایک تو یہ کہ دوسرے کے بارے میں بد گمان کرکے اگلے کی نظر میں مقام ومرتبہ حاصل کرنا ، اور دوسری وجہ علم کی کمی اور جہالت ہے۔بہت سے لوگ بات بات پر بدگمان ہوجاتے ہیں، مثلا آفس میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا تو آدمی بدگمان ہوتا ہے کے میرے خلاف سازش کی گئی، کاروبار میں نقصان ہو گیا تو دوسرے کاروباری سے بدگمانی کے یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے، دعا میں اگر رقت طاری ہوگئی تو بدگمانی کے دکھاوے کے لیے رورہا ہے، گھر سے کوئی چیز غائب ہوگئی تو کام کرنے والے سے بدگمانی کے اسی نے چرائی ہوگی، قانونی رکاوٹ کی وجہ سے کسی نے کام نہیں کیا تو بدگمانی کہ رشوت چاہتاہے، کسی نے آتے وقت توجہ نہ دی تو یہ گمان کہ بڑا کھمنڈی ہے، رشتہ بنتے بنتے رہ گئی تو یہ گمان کہ ہمارے پڑوسی نے کچھ لگا بجھا کیا ہوگا، بہو نے دعا لمبی کردی تو ساس کو گمان کے کام کرنے کے ڈر سے لگی ہے، یا میرے لیے بد دعا کر رہی ہے، بہو ہی کی طرف توجہ تھوڑی کم ہوئی تو ساس سے بدگمانی کے شوہر کے کان ساس نے بھر دیے، قرض لینے والے سے رابطہ نہ ہو سکا تو یہ گمان کہ ہمارا روپیہ کھا گیا، کسی کو آنے میں تاخیر ہوئی تو بدگمانی کے وعدہ کرکے مگر گیا، ویزا ٹکٹ کے روپے جس کو دیے تھے وہ نہیں مل رہا تو یہ گمان کے روپے لے کر بھاگ گیا، کامیابی پر کسی نے مبارکباد نہیں دی تو یہ گمان کہ ہم سے جلتا ہے یہ اور اس قسم کی دوسری بدگمانیاں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، کبھی مصنوعی افواہ کے ذریعہ لوگوں کے قلوب میں بد گمانی کا بیج ڈال دیا جاتا ہے، تاکہ اپنی طہارت ، پاکیزگی کا پرچم بلند کیا جا سکے، حالاں کہ ایسے ہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا ہے۔
اتنا نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ادارے، تنظیموں ، جماعتوں میںبدگمانی کی یہ بیماری عام ہے، ہر ڈگر ہر نگر ایک سا حال ہے،کسی ملازم اورکارکن کو خوش حال دیکھ لیا تو یہ گمان کہ ضرور کہیں ہاتھ مارا ہے، اس کا بڑا نقصان سماجی طور پر ہوتا ہے۔ آپ نے کسی کے بود وباش ، تھاٹ باٹ ، مکان ودوکان کے بارے میں لوگوں کو کسی خاص شخص کے بارے میں بدنام کر دیا، اس کے تو بڑے مکانات ہیں، گاڑیاں ہیں، اور تنخواہ تو اقل قلیل ہے، اب لوگ بد گمان ہو گیے کہ ضرور مدرسے، مسجد ادارے کی رقم مارا ہے، یہ بدگمانی بعض لوگوں نے پھیلائی اور جس طرح واقعہ افک میں بعض مسلمان بھی اس کو ماں بیٹھے تھے، ویسے ہی عوام کے ساتھ خاص ادارے کے ذمہ دار بھی بد گمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اسی بدگمانی سے روکنے اور غلط خبروں کی تشہیر سے بچنے کے لیے اللہ رب العزت نے سورة الحجرات کی آیت نمبر چھ میں فرمایا کہ اگر تمہارے پاس کوئی شریر آدمی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلو، اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں کوئی تکلیف پہونچا دو اور بعد میں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
 لیکن صورت حال اس قدر خراب ہے کہ کوئی تحقیق کی زحمت نہیں گوارا کرتا اور آنکھ بند کرکے کان میں جو کچھ ڈال دیا گیا، اسے مان لیا ، حالاں کہ جن ظاہری امور کی وجہ سے وہ بدگمانی میں مبتلا ہوا ہے اس کی تحقیق کرلیتا تو اس نتیجہ تک پہونچنا بہت آسان تھا کہ متعلقہ شخص کے پاس آمدنی کے دوسرے اور بھی ذرائع ہیں، ہو سکتا ہے وہ زمیندار ہو، ممکن ہے اس نے گھر زمین بیچ کر ہی بنایا ہو ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے خاندان کے دوسرے لوگ بڑی بڑی تنخواہوں پر کام سے لگے ہوں، خاندان میں آپسی تعاون کا مزاج ہو اور دوسرے بیٹے اور بھائیوں نے اس ترقی میں ہاتھ بٹایا ہو، خاندان کے لوگ ملک سے باہر کما رہے ہوں اور ان کی یافت اس قدر ہو کہ وہ ٹھاٹھ باٹ کی زندگی گذار سکتے ہوں، اور اگر اس کا شمار اہل اللہ میں ہوتا ہے تو ہدیہ، نذرانہ کی آمدنی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ، مساجد کے ائمہ اور مدارس کے اساتذہ کی بود وباش کا بڑا حصہ ہدیہ ، نذرانہ، قاضیانہ وغیرہ سے ہی آجاتا ہے اور وہ اس قدر ٹھسے سے زندگی گذار تے ہیںکہ لاکھ روپے کمانے والا اس معیار کے ساتھ زندگی نہیں گذار تا، اب لوگوں کو تجسس ہوتا ہے کہ تنخواہ تو ہم پانچ ہی ہزار دیتے ہیں، یہ اس قدر معیاری زندگی کس طرح گذارتا ہے، ظاہر ہے اس نے کسی کی جیب نہیں کاٹی ہے، یہ اللہ کے کلام کے دربان ہونے کی برکت ہے کہ قلیل تنخواہ کے باوجود اللہ اس کی ساری ضرورتوں کی کفالت کرتا ہے، اور اسے ایک معیاری زندگی نصیب ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کے کہنے سے بدگمان نہیں ہونا چاہیے، تحقیق کرنی چاہیے، تاکہ سب لوگ بدگمانی کے گناہ سے بچ سکیں اور آپس میں سماجی آہنگی قائم رہے۔
کیوں کہ بدگمانی ام الامراض ہے یہ بہت سارے گناہ کا سبب بنتی ہے، گھر ، خاندان، میاں بیوی کے تعلقات سب پر اس کے بُرے اثرات پڑتے ہیں، اگر یہ بدگمانی ادارے، تنظیموں اور جماعت کے ذمہ داروں کے دلوں میں پیدا ہوجائے تو اعتماد کی فضا ختم ہوجاتی ہے اور انفرادی فعل پوری تحریک پر اس طرح اثر انداز ہوجاتا ہے کہ بہت سے تحریک سے ہی برگشتہ ہو کر دامن جھڑا لیتے ہیں

بدھ, اکتوبر 25, 2023

ذات مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار

ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
 بہار میں ۲؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کا دن اس اعتبار سے بڑا تاریخی رہا کہ نتیش حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار جاری کر دیئے ، اس کام میں رکاوٹیں بہت آئیں، کام کو روکنا پڑا ، نتائج کی اشاعت پر پابندی لگائی گئی، لیکن جب نیت میں خلوص ہواور ارادے پختہ ہوں توراستے بند نہیں ہوتے، بہار حکومت کو ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چکر لگانے پڑے اور بالآخر ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے نتیش حکومت نے ایک ایسی پہل کر دی ، جس پر ہندوستان کی دوسری ریاستیں بھی آگے بڑھنے کو اب تیار ہیں، بہار حکومت نے ان اعدا دوشمار کے جاری کرنے کے بعد اعلان کیا کہ سماج کے ہر طبقہ کو فائدہ پہونچنا چاہیے اورجس کی جتنی تعداد ہو اس اعتبار سے حصہ داری دی جائے، ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہو نہیں پائے گا، کیوں کہ ہندوستان میں افسر شاہی اور بیوروکریٹ کی ہی حکمرانی رہتی ہے ، اور ان بڑے عہدوں پر راجپوت، بھومی ہار اور برہمن ہی قابض ہیں، جن کی تعداد بہار کی کل آبادی 130725310میں علی الترتیب 3.67,3.45اور2.89فی صد ہے ، یہ بیو رو کریٹ کبھی نہیں چاہیں گے کہ او بی سی 27.1286% ای بی سی 36.0148%درج فہرست ذات 19.6518%درج فہرست قبائل اور جنرل زمرے کے 15.5224%لوگ ان پر حکمراں بن بیٹھیں، ابھی صورت حال یہ ہے کہ مرکزی سرکار کے نوے(90) سکریٹری میںصرف تین (3)او بی سی ہیں، بقیہ سارے سکریٹری بڑی ذات سے آتے ہیں؛بہار کے حالات بھی اس سے الگ نہیں ہیں، یہاں اعلیٰ ذات آزادی کے بعدسینتیس سال (37)ایک سو سنتانوے دن وزیر اعلیٰ کی کرسی پر قابض رہے، شری کرشن سنہا ، جگرناتھ مشرا، کے بی سہائے، بندیشوری دوبے، ونودا نند جھا ، چندر شیکھر سنگھ، کیدار پانڈے، بھاگوت جھا آزاد، مہاما یا پرساد سنگھ، ستندر نرائن سنہا، ہری ہر سنگھ، دیپ نارائن سنگھ کا شمار اسی طبقہ سے ہے، صرف تین وزیر اعلیٰ اس درمیان درج فہرست ذات سے ہے، جن میں سے کسی نے بھی ایک سال کی مدت بھی پوری نہیں کی، ان وزراء اعلیٰ میں رام سندر داس 302 دن ، بھولا پاسوان شاستری 112دن ، جیتن رام مانجھی278دن ہی وزیر اعلیٰ کی کرسی پر رہ پائے، اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان کو صرف ایک بار وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا، لیکن یہ بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکے، یہ عبد الغفور تھے جن کے اقتدار کا سورج صرف ایک سال دو سو تراسی دن ہی چمک سکا ، جے پی اندولن نے ان کی بساط سیاست کو ہی سمیٹ ڈالا، اب حالات کچھ مختلف ہیں، اعلیٰ ذات کے ہندؤں کی تعداد 2.44فی صد کمی ہے، اس کے باوجود رکاوٹیں آئیں گی اور آنے والے وقت میں یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
 اعداد وشمار کے مطابق ریاست کی کل آبادی 13425310میں ہندو 81.99%مسلم 17.70%عیسائی ، سکھ ، بدھ، جین ، دیگر اور دہریے (لا مذہب) کی تعداد اعشاریہ صفر کے بعد ہے ، اس طرح مسلمان اس ریاست میں دوسری بڑی اکثریت ہے اور ایوان نمائندگان میںا ن کی تعداد اچھی خاصی ہونی چاہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسمبلی میںان کی تعداد دن بدن گھٹ رہی ہے اور سیاسی سطح پر جس حصہ داری کی بات انتخاب کے وقت میں زوروں پر اٹھتی ہے ، حقائق سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، سیاسی پارٹیاں اس تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ ہی نہیں دیتیں، جیت کر آنا تو بہت دور کی بات ہے ، جس حلقہ سے ٹکٹ دیا جاتا ہے، وہاں بھی داخلی طور پر ایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیںکہ مسلمان جیت نہیں پاتا ہے ، یہاں ذات برادری کا ہندوؤں میں اس قدر غلبہ ہے کہ وہ اپنی برادری کے امیدوار کو ہی ووٹ دے گا، چاہے وہ کسی پارٹی سے کھڑا ہو۔
مسلمانوں کے یہاں ذات برادری کا ایسا تصور تو نہیں ہے ، جیسا ہندوؤں کے یہاں ہے پھر بھی گاہے گاہے مختلف برادری کے لوگ اپنی برادری کے نام پر مسلمانوں میں طبقاتی کشمکش پیدا کرنے کا کام کرتے رہے ہیں، اس فکر اور سوچ کو بڑھا وا لا لو، رابڑی دور حکومت میں زیادہ ملا جب ہر برادری والے نے اپنی الگ الگ تنظیم بنا کر جلسے جلوس کے ذریعہ اپنا وجود منوائے کا کام کیا، موجودہ مردم شماری میں مسلمانوں کی مجموی تعداد 23149925بتائی گئی ہے ، جن برادریوں کے اعداد وشمار ظاہر کیے گیے ، اس میں شیخ برادری کے لوگوں کی تعداد 3.82%فی صد ہے، جب کہ انصاری 3.55%فی صد ہیں، خان کی تعداد 0.75ہے، سر جا پوری 1.87دھنیا1.43، راعین 1.40، شیر شاہ آبادی 1.00،کلہیا1.00، سائیںفقیر 0.50، دھوبی0.3135، قصاب، 0.1024، بکھو0.0282، اور سید 0.22، فی صد ہے، جاری اعداد وشمار نے اس پروپیگنڈہ کی ہوا نکال دی ہے کہ مسلمانوں کے یہاں خاندانی منصوبہ بندی نہیں ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد تیزی سے بڑ ھ رہی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی ہے تو اسلامی نقطۂ نظر سے غلط ، لیکن یہ مسلمانوں کے اندراس قدر رائج ہو گیا ہے کہ ان کے یہاں بھی زیادہ بچوں کی ولادت نہیں ہو رہی ہے ، اس لیے ان کی آبادی17.70فی صد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے ۔اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ بارہ سالوں میں ان کی آبادی صرف پانچ فی صد بڑھی ہے، 2011کی مردم شماری میں مسلمان 12.5فی صد تھے اب ان کی تعداد 17.7فیصد ہے، جب کہ انہیں سالوں میں دلتوں کی آبادی 14.1فی صد سے بڑھ کر 19.65فیصد ہو گئی ہے۔
 ایک دوسری تشویشناک بات عورت کی تعداد کا مرد کے مقابل فی ہزار میں 47کا کم ہونا ہے، اس لیے کہ حالیہ مردم شماری میںایک ہزار مرد کے مقابل صرف 953خواتین ہیں، ایسے میں ہر ایک ہزار میں سینتالیس مردوں کو ازدواجی زندگی گذارنے کے لیے خاتون نہیں مل پائیں گی، لوگ پروپیگنڈہ اس کا بھی کر تے رہے ہیں کہ مسلمانوں کے یہاں چار شادی کی جاتی ہے، ایسا بالکل ہوتا نہیں رہا ہے، لیکن اب تو شرعی اجازت کے باوجود اس کا امکان ہی باقی نہیں رہا، کیوں کہ جب عورتوں کی تعداد کم ہے ، تو زیادہ لڑکیاں آئیں گی کہاں سے ؟ اس لیے کم از کم اس اعداد وشمار کے اعتبار سے اس کا امکان معدوم ہوتا جا رہا ہے، یہ صنفی عدم توازن در اصل ہم نے خود ہی پیدا کیا ہے ، لڑکیوں کے حمل کا اسقاط اور ماں کے پیٹ میں لڑکی ہونے کی خبر پر اس کا قتل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، واقعہ یہ ہے کہ عرب میں بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا تو گاؤں سماج کے لوگوں کو خبر ہوجاتی تھی ، آج حمل میں لڑکیوں کو ضائع کیا جا تا ہے تو کبھی کبھی تو گھر والوں کو بھی خبر نہیں ہوتی۔
 ہندو برادری کے جو اعداد وشمار ہمارے سامنے آئے ہیں، ان میں یادو سب سے بڑی آبادی ہے، اس کا تناسب مجموعی آبادی میں 14.26فی صد ہے، دوسری تمام برادریاں، راجپوت، بھومی ہار، برہمن کائستھ، کرمی ، کشواہا، دھانک ، مسہر ، سونار، کمہار، بڑھئی، دھوبی،نائی، کانو اور تیلی کی آبادی اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے، اس تناظر میں یادو کی اہمیت انتخاب میں بہت بڑھ گئی ہے ، اور آئندہ انتخاب میں ٹکٹوں کی تقسیم میں ان کا حصہ بڑھ جائے گا، جو پہلے بھی کم نہیں ہے ، اس طرح اگر لالو یادو کا مائی (MY)مسلم +یادو+اوبی سی کا کا رڈا یمانداری سے کھیلا جائے تو مسلمانوں کی نمائندگی ایوان میں بڑھنے کے لیے راستہ صاف ہو سکتا ہے، شرط ایمان داری ہے، جو ہر سیاسی پارٹی میںان دنوں مفقود ہے، اگر ان تینوں نے انتخاب میں مل جل کر حصہ لیا، مسلمان پسماندہ طبقات، پچھڑا ، اتی پچھڑا ملا کر یہ تعداد اسی(80) فی صد تک جا پہونچتی ہے۔ 
تجزیہ کا یہ عمل آئندہ بھی جاری رہے گا، لیکن ہمیں نتیش حکومت کی اس ماسٹر اسٹروک کی ستائش کرنی چاہیے کہ وہ ایک ناممکن کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوگئی، اور اس نے وہ کر دکھایا ، جس کی ہمت ہندوستان کی دوسری ریاستیں نہیں کر سکیں، ہمیں یہاں پر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہندوستان میں انگریز دور حکومت میں 1872میں پہلی بار مردم شماری کرائی گئی 1931تک جتنی بار بھی مردم شماری ہوئی اس میں ذات برادری کے اعداد وشمار بھی جاری کیے جاتے تھے، آزادی کے بعد 1951میں پہلی مردم شماری کے موقع سے اس سلسلہ کو موقوف کر دیا گیا ، اور صرف درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے اعداد وشمار جاری کیے جانے لگے ، ہر دس سال پر مردم شماری کا کام تو جاری رہا، لیکن وہ ذات برادری کے اعداد وشمارپر مشتمل نہیں ہوا کرتا تھا، 2011میں جو اب تک کی آخری مردم شماری ہے اس میں یوپی اے سرکار نے ذات وبرادری کے اعداد وشمار کا اندراج کرایا ، لیکن مصلحتیں آڑے آگئیں اور ان اعداد وشمار کو پردہ ٔ خفا میں رکھا گیا، موجودہ مرکزی حکومت نے کورونا کا سہارا لے کر گذشتہ 150سال میں پہلا موقع ہے جب مردم شماری نہیں کرائی ، اور مستقبل قریب میں اس کا امکان بھی نظر نہیں آتا اس لیے کہ 2024کا پارلیمانی انتخاب سر پر ہے اور اس کی تیاری حکومت کے نقطۂ نظر سے مردم شماری سے زیادہ اہم ہے۔
بہار میں ذات برادری پر مشتمل اعداد وشمار کے اجراء سے سیاسی اعتبار سے سب سے بڑا نقصان بھاجپا کو اٹھانا پڑے گا، کیوں کہ بھاجپا نے ملک کو دو مذہبی طبقات میں پورے ملک کو بانٹ کر 2014اور2019میں بازی مار لی تھی، لیکن نتیش حکومت نے ہندتوا کے مقابل ایک بڑی لکیر کھینچ کر بھاجپا کا سارا کھیل بگاڑ دیا ہے، دیکھنا ہے کہ آر ایس ایس کے نظریہ ساز ادارے اور افراد اس کے مقابلہ کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، اتنی بات توپکی ہے کہ اس رپورٹ کے بعد ذات پر مبنی سیاست کو مزید بڑھاوا ملے گا، اور ہر برادر ی اپنے اپنے حق میں آواز اٹھا کر حصہ داری چاہے گی، البتہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ، مثلا جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوام مورچہ، مکیش سہنی کی وکاش شیل انسان پارٹی کا دباؤ دوسری پارٹیوں پر کم بنے گا، کیوں کہ ان کی تعداد انتہائی کم ہے، اس مردم شماری نے کمنڈل پر منڈل کو پھر سے غالب کر دیا ہے، اس سے رزرویشن کے نئے نئے فارمولے وجود میں آئیں گے۔ 
مردم شماری کے اس کام میں معاشی سروے کا کام بھی کیا گیا تھا، لیکن حکومت نے کسی خاص مصلحت سے اس کے اعداد وشمار ابھی جاری نہیں کیے ہیں، اگر وہ اعداد وشمار جاری ہوجائے تو وزیر اعظم کو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہنے کا موقع نہیں ملتا کہ برادری تو صرف دو ہے، ایک امیر اور ایک غریب، معاشی رپورٹ آنے سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ کس برادری کے کتنے فی صد لوگ غریبی میں خطرے کے نشان سے نیچے جا چکے ہیں اور ہندوستان کی اقتصادیات سے ان کو کس قدر فائدہ پہونچ رہا ہے، جب بھی یہ رپورٹ آئے گی تو ایک اور گھمسان ہندوستانی سیاست میں مضبوط دستک دینے کی پوزیشن میں ہوگا۔

اتوار, اکتوبر 22, 2023

رواداریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

رواداری
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

جس ملک میں مختلف مذاہب، تہذیب وثقافت اور کلچر کے لوگ بستے ہوں، وہاں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے درمیان بقاء باہم کے اصول کے تحت ایک دوسرے کا اکرام واحترام ضروری ہے، مسلمان اس رواداری میں کہاں تک جا سکتا ہے اور کس قدر اسے برت سکتا ہے، یہ وہ سوال ہے جو ملک میں عدم رواداری کے بڑھتے ماحول میں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، اس سوال کے جواب سے نا واقفیت کی بنیاد پر سوشل میڈیا، ٹی وی اوردوسرے ذرائع ابلاغ پر غیر ضروری بحثیں سامعین، ناظرین اور قارئین کے ذہن ودماغ کو زہر آلود کرنے کا کام کر رہی ہیں، اس آلودگی سے محفوظ رکھنے کی یہی صورت ہے کہ رواداری کے بارے میں واضح اور صاف موقف کا علم لوگوں کو ہو اور غیر ضروری باتوں سے ذہن ودماغ صاف رہے۔
 اسلام میں رواداری کا جو مفہوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے، خندہ پیشانی سے ملا جائے، ان کے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے، وہ ضرورت مندہوں تو ان کی مالی مدد بھی کی جائے اور صدقات نافلہ اور عطیات کی رقومات سے ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے، کسی کو حقیر سمجھنا اور حقارت کی نظر سے دیکھنا اکرام انسانیت کے خلاف ہے، اس لیے معاملہ تحقیر کا نہ کیا جائے اور نہ کسی غیر مذہب کا مذاق اڑایا جائے،یہ احتیاط مردوں کے سلسلے میں بھی مطلوب ہے، اور عورتوں کے سلسلے میں بھی، تاکہ یہ آپسی مذاق جنگ وجدال کا پیش خیمہ نہ بن جائے، معاملات کی صفائی بھی ہر کس وناکس کے ساتھ رکھا جائے، دھوکہ دینا، ہر حال میں ہر کسی کے ساتھ قابل مذمت ہے اور اسے اسلام نے پسند نہیں کیا ہے، البتہ حالت جنگ میں اس قسم کے حرکات کی اجازت ہے، جس سے فریق مخالف دھوکہ کھا جائے، دھوکہ دینا اور چیز ہے اور کسی عمل کے نتیجے میں دھوکا کھانا بالکل دوسری چیز۔
 اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ایسے تمام قوانین کا پاس ولحاظ بھی ضروری ہے، جو شریعت کے بنیادی احکام ومعتقدات سے متصادم نہیں ہیں، اگر کسی قسم کا معاہدہ کیا گیا ہے، زبانی یا تحریری وعدہ کیا گیا ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ ہمیں معاہدوں کا پاس ولحاظ رکھنے کو کہا گیاہے، جن شرائط پر صلح ہوئی ہے، اس سے مُکر جانا انتہائی قسم کی بد دیانتی ہے، اسی طرح رواداری کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ان تمام حرکات وسکنات سے گریز کیا جائے، جس سے نفرت کا ماحول قائم ہوتا ہے اور قتل وغارت گری کو فروغ ملتا ہے، اس ضمن میں تقریر وتحریر سبھی کچھ شامل ہے، کوئی ایسی بات نہیں کہی جائے جس سے فرقہ پرستی کی آگ بھڑکے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے، جو فتنہ وفساد کا پیش خیمہ ثابت ہو، غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے آپسی میل جول کو بڑھایا جائے اور اپنے پروگراموں میں تقریبات میں دوسرے مذاہب والوں کو بھی مدعو کیاجائے، تاکہ میڈیا کے ذریعہ پھیلا ئی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے، افواہوں پر کان نہ دھرا جائے، اور خواہ مخواہ کی بد گمانی دلوں میں نہ پالی جائے، جلسے جلوس میں بھی نفرت انگیز نعروں سے ہر ممکن بچا جائے، اشتعال انگیزی نہ کی جائے، دوکانوں میں توڑ پھوڑ، گاڑیوں کو جلانا وغیرہ بھی امن عامہ کے لیے خطرہ ہے، اس لیے ایسی نوبت نہ آنے دی جائے، اور ہر ممکن اس سے بچاجائے، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جلوس میں دوسرے مذاہب کے لوگ گھس جاتے ہیں، مسلمان اپنی وضع قطع چھوڑ چکا ہے، اس لیے پتہ نہیں چلتا کہ جلوس میں شریک لوگوں میں کتنے فی صد مسلمان ہیں اور کتنے دوسرے، پھر یہ دوسرے لوگ جو اسی کام کے لیے جلوس میں گھس جاتے ہیں، امن وامان کو تباہ کرنے والی حرکتیں کرکے جلوس سے نکل جاتے ہیں، بدنام بھی مسلمان ہوتا ہے اور نقصان بھی مسلمانوں کا ہوتا ہے۔
رواداری کے باب میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیشوا اور معبودوں تک کو برا بھلا نہ کہا جائے، کیوں کہ سب سے زیادہ اشتعال اسی عمل سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا الٹا اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہمارے اللہ ورسول کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں گویا ہمارا عمل اللہ ورسول کی توہین کا باعث بنتاہے، کسی کو بتانا اور سمجھانا بھی ہو تو نرم رویہ اختیار کیا جائے، جارحانہ انداز سے بچا جائے اور حکمت سے کام لیا جائے، حکمت مؤمن کی گم شدہ پونجی ہے، جہاں بھی ملے اسے قبول کر لینا چاہیے، لے لینا چاہیے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ رب العزت نے اپنے وقت کے سب سے بُرے انسان کے پاس اپنے وقت کے سب سے اچھے انسان حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو بھیجا تو نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا۔
 لیکن اس رواداری کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ایسے نعرے لگا ئے جائیں جو کسی خاص مذہب کے لیے مخصوص اور ان کا شعار ہیں، چاہے لغوی طور پر اس کے معنی کچھ بھی ہوں، عرف اور اصطلاح میں اس کا استعمال مشرکانہ اعمال کے طور پرکیا جاتا ہے،تو اس سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے، جے شری رام، بھارت ماتا کی جے اور بندے ماترم جیسے الفاظ دیش بھگتی کے مظہر نہیں، ایک خاص مذہب کے لوگوں کے طریقہئ عبادت کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسے الفاظ کی ادائیگی سے احتراز کرنا چاہیے، کیوں کہ ان الفاظ کا استعمال رواداری نہیں، مذہب کے ساتھ مذاق ہے۔بعض سادہ لوح مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ کہنے سے ایمان واسلام پر کوئی فرق نہیں پڑتا وہ غلط فہمی میں ہیں، کیوں کہ مسلمان کا قول وفعل جیسے ہی اسلای معتقدات کے خلاف ہوتا ہے، ایمان واسلام کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے، یہ بہت نازک اور حساس معاملہ ہے، اتنا حساس کہ مذاق کے طور پر بھی کلمات کفر کی ادائیگی نا قابل قبول ہوتی ہے، اس مسئلہ کو جبریہ کلمہئ کفر پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ جبر کی شکل میں دل ایمان پر مطمئن ہوتا ہے، الفاظ صرف زبان سے ادا ہوتے ہیں، لیکن برضا ورغبت کی شکل میں یا تو وہ دین کو مذاق بنا رہا ہے، یا واقعتاوہ ایسا کر رہا ہے، دین کا مذاق اڑانا یا کلمہئ کفر پر راضی ہونا، دونوں ایمان کے لیے مضر ہے اور دارو گیر کا سبب بھی۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارا مسلمان بھائی جو اپنے کو غیر مسلم بھائیوں کے سامنے سیکولر بننے کے لیے مختلف مندروں اور گرودواروں میں جا کر پوجا ارچنا کرتا ہے، متھا ٹیکتا ہے، وہ اپنے دین ومذہب سے کھلواڑ کرتا ہے، رواداری ایک دوسرے کے تئیں احترام کے رویہ کا نام ہے، نہ یہ کہ ایسے اعمال شرکیہ کا جو خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کے تقاضوں کے خلاف ہو، یہ رویہ زیادہ تر ہمارے سیاست دانوں میں پایا جاتا ہے، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس کو جان ودل، ایمان واسلام عزیز ہو، وہ اس گلی میں کیوں جائے، جائیے ضرور جائیے، خوب سیاست کیجئے، لیکن سیاست میں عہدے اور مال وزر کی حصولیابی کی غرض سے اپنا ایمان وعقیدہ تو بر باد نہ کیجئے، تھوڑے مفاد کے حصول کے لیے حق بات کہنے سے گریز کا رویہ نہ اختیار کیجئے، ا پرس لیے کہ دنیاوی عہدے جاہ ومنصب اور مفادات چند روزہ ہیں، اور آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے، چند روزہ زندگی کے لیے ابدی زندگی کو بر باد کر لینا عقل وخرد سے بعیدہی نہیں، بعید تر ہے۔

محمد علاء الدین ایک نیک دل اور غریب پرور انسان تھے : ✍️ نصر امام ، ڈایریکٹر بایو کیم ، انور پور حاجی پور ، ویشالی

محمد علاء الدین ایک نیک دل اور غریب پرور انسان تھے :  Urduduniyanews72 
✍️ نصر امام ، ڈایریکٹر بایو کیم ، انور پور حاجی پور ، ویشالی 

جناب محمد علاء الدین صاحب صحت کے اعتبار سے دبلے پتلے سے ایک بزرگ انسان تھے ۔ لیکن نوجوان جیسی لگن اور محنت و مشقت کرتے تھے ۔ آج کے دور میں علاءالدین صاحب جیسے ایماندار اور محنتی کم لوگ ملتے ہیں ۔ آپ آئرن ویلڈنگ میں مہارت رکھتے تھے ۔ اسی کام سے آپ نے خود کی کمپنی بنائ ۔ سیما اسٹیل پروڈکٹس کے نام سے بانکا ہاٹ ، گاۓ گھاٹ ، پٹنہ میں آپ کی کمپنی ہے ۔ آپ نے بہت سارے لوگوں کو کام سکھا کر کمپنی کھلوایا ۔ اور انہیں بھی کمپنی کا مالک بنایا اور اپنے بچوں کو بھی الگ الگ کمپنی کا مالک بنا دیا ۔ موت سے 6 روز قبل تک نوجوانوں جیسی ذمہ داری نبھائی . انہونے اپنے بل بوتے پر خود کی کمپنی کو کھرا کیا ۔ اپنے علاوہ مسلم اور غیر مسلم نوجوانوں کو ہاتھ پکڑا کر کام سکھایا ۔ محنت کرنے کی ترغیب دی ۔ محنت کش لوگ آپ کو بہت پسند تھے ۔ اپنا ہنر لوگوں کو بتاتے سکھاتے ۔ وقت کے پابند تھے ۔ آپ اپنی خوبیوں کی وجہ کر پٹنہ ہی نہیں بلکہ ریاست بہار کے کئ ڈاکٹروں سے انکی دوستی تھی ۔ فضول وقت کبھی چوک چوراہے یا کسی کی دُکان پر نہیں گزارتے ۔ اپنی ہی فیکٹری پر وقت گزارتے ۔ ١٩ اکتوبر بروز جمعرات ان کا انتقال ہو گیا ۔ آج سبھوں کو اُنکی کمی محسوس ہو رہی ہے ۔ دینی ادارہ ، مسجد  ہو یا پھر  مدرسہ کے طالب علموں کو خاموشی کے ساتھ بغیر نام و نمود خوفیہ طور پر ان کی مدد کیا کرتے تھے ۔ آج کے زمانے میں لوگ دکھاوے اور اپنی شہرت کے لیے کام کرتے ہیں ۔ جبکہ علاء الدین صاحب ان سب سے کوسوں دور تھے ۔ آپ خود میں ایک ٹرسٹ تھے ۔ آپ کے چلے جانے سے بہت سارے لوگوں کا نقصان ہوا ہے ۔ ذاتی طور پر میرا ( نصر امام ابن انجینیر یوسف مرحوم ، انور پور ، حاجی پور ) کافی بڑا نقصان ہوا ہے ۔ آپ مجھے بہت عزیز رکھتے تے ۔ آپ کی حیثیت میرے نزدیک ایک گارجین جیسی تھی ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ( آمین )

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...