Powered By Blogger

پیر, نومبر 06, 2023

اسلامی اقامت گاہوں کی ضرورت

اسلامی اقامت گاہوں کی ضرورت
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

ہندوستان میں نئی نسل کی بے راہ روی، دین سے دوری، لایعنی کاموں میں مشغولیت، فرائض وواجبات میں کوتاہی، حقوق کی ادائیگی سے پہلوتہی عام سی بات ہے، اس کے اسباب ووجوہات بہت سارے ہیں، ان میں سے ایک بڑا سبب اسکول وکالج میں اخلاق واقدار سے بے پرواہی، تعلیم کے ساتھ تربیت کا فقدان اور نصاب تعلیم میں خدا بیزار مواد وموضوعات کی شمولیت ہے، ان اداروں سے پڑھ کر جو طلبہ نکل رہے ہیں، وہ عموماً ذہنی طور پر مذہب بیزار اور دین سے دور ہوجاتے ہیں۔
صورت حال کی اس سنگینی کے بارے میں مجھے یہ کہنا ہے کہ اسکول وکالج میں پڑھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد دیہاتوں سے آکر حصول علم کے لئے شہروں میں فروکش ہوتی ہے، یہاں انہیں اسکولی تعلیم کے ساتھ کوچنگ کی بھی سہولت ہوتی ہے، ظاہر ہے وہ ہر دن گھر سے آجا نہیں سکتے، اس لئے کسی ہوسٹل می4545ں قیام پذیر ہوتے ہیں، کسی لاج کو اپنا مسکن بناتے ہیں، جہاں کا ماحول اور بھی خراب ہوتا ہے، یہاں عموماً مالک مکان کو کرایہ سے مطلب ہوتا ہے، بچے کدھر جارہے ہیں؟ خارج وقت میں کیا کررہے ہیں؟ کن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں؟ اس کی نگرانی نہیں کی جاتی اور اگر کوئی نگرانی کرتا ہے تو ایسے ہوسٹل کو طلبہ پسند نہیں کرتے اور اسے اپنی آزادی پر پہرہ قرار دیتے ہیں، ظاہر ہے ہمارے لیے یہ ناممکن سا ہے کہ اسکول وکالج کے ماحول میں کوئی بڑی تبدیلی لائیں، اس طرح جو ہوسٹلس قائم ہیں، ان کے اندر کہہ سن کر جزوی تبدیلی تو لائی جاسکتی ہے؛ لیکن بالکلیہ اسے اسلامی اخلاق واقدار سے ہم آہنگ کرنا کوہ کنی سے زیادہ مشکل کام ہے، ایسے میں ایک شکل تو یہ ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور نسلوں کو تباہ ہوتا دیکھتے رہیں، دوسری شکل یہ ہے کہ ہم اس کے لیے اپنی حد تک جد وجہد کریں، تاکہ نئی نسل کو گمراہ ہونے سے بچایا جاسکے۔
بیسویں صدی کے نصف اول میں اسکول وکالج کا ایسا حال نہیں تھا، طلبہ کی تربیت گھر سے باہر تک کی جاتی تھی، اساتذہ کے ادب واحترام کا ماحول تھا، ایسے میں لڑکے لڑکیاں کم گمراہ ہوتے تھے اور بہر کیف ان اخلاق واقدار کو چھوڑنا معیوب سمجھا جاتا تھا، آج صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ تربیت کی کمی کے ساتھ اخلاق رذیلہ پیدا کرنے کے لئے موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل سائٹس بھی بے راہ روی کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں اور لڑکے لڑکیوں پر اس حوالہ سے کوئی قدغن نہیں ہے، اختلاط مرد وزن عام ہے، اور اس کے مضر اثرات سے کوئی گاؤں، محلہ اور علاقہ محفوظ نہیں ہے، مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں سے ساتھ چلے جانا، کورٹ میریج کر لینا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، یہ معاملہ صرف شادی کا نہیں، ارتداد کا ہے، جس کا سامنا ہر جگہ مسلمانوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کو اس کا احساس کوئی ستر سال پہلے ہوگیا تھا، ان کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ہوا کا رخ کیا ہے اور کس تیزی سے تبدیلی آرہی ہے، مولانا گیلانی کی تحریر وتقریر کا مرکز اصلاً انسان سازی ہی تھا، وہ بے راہ رواور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا جذبہ رکھتے تھے، نام نہاد روشن خیال لوگوں کو عمل کی حد تک نہ سہی، کم از کم ایمان ویقین کی حد تک انہیں مسلمان رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔ اس سلسلہ میں ان کے پاس ایک اسکیم تھی جو جدید نسل کی بے راہ روی کے لیے تریاق کا درجہ رکھتی ہے، جس کا ذکر مکاتیب گیلانی: مرتبہ حضرت امیر شریعت رابع ؒکے مقدمہ میں مولانا عبد الباری ندویؒ نے تفصیل سے کیا ہے، اس کے مطابق طلبہ وطالبات کو دین وایمان پر قائم رکھنے کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہر جگہ اور ہر علاقہ میں اسلامی نہج کے اسکول کھولے جائیں، جہاں دینی تعلیم اور اسلامی ماحول میں مسلم طلبہ وطالبات کو تعلیم دی جائے، اس کے لیے سرمایہ کثیر چاہیے، جس کے خرچ کے مسلمان متحمل نہیں ہیں اور جو لوگ متمول ہیں ان کو اس کا خیال ہی نہیں ہے، وہ سرکاری اسکول وکالجز میں پڑھنے پڑھانے کو کافی سمجھتے ہیں، پھر جو مسلمانوں ہی کے قائم کردہ ادارے ہیں، ان میں بھی کتنے ہیں جو اسلامی تہذیب وثقافت اور معتقدات کی حفاظت کو ضروری سمجھتے ہیں، ضرورت کے مطابق اسکول وکالجز کھولنے کے لیے نہ تو ہمارے پاس سرمایہ ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی تیار ہے، اس لیے اس کا قابل عمل حل مولانا گیلانی نے اسلامی اقامت خانے (ہوسٹل) کے طور پر ڈھونڈ نکالا تھا، ان کا خیال تھا کہ اسے سستا ہونا چاہیے اور تجارتی نقطہئ نظر کے بجائے اس میں اصلاحی فکر کے ساتھ لگنا چاہیے، وہ دیکھ رہے تھے کہ عصری تعلیم کا شیوع اس تیزی سے ہورہا ہے کہ امراء کے بچوں کے ساتھ غرباء کے بچے بھی اس ریس میں شامل رہے ہیں، اعلی تعلیم کے لیے شہروں میں وہ بود وباش کریں گے اور غیر اسلامی تہذیب وثقافت اور کلچر کا سیلاب انہیں خس وخاشاک کی طرح بہالے جائے گا، ایسے وقت میں یہ اسلامی اقامت خانے ان کو دین وایمان پر قائم اور ثابت قدم رکھنے میں مفید ہوں گے۔
 مولانا گیلانی نے ان اقامت گاہوں کا ایک خاکہ بھی بنایا تھا، جس کے مطابق بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ اقامت گاہوں کا ماحول دینی رکھنا ضروری تھا، نگراں اور وارڈن تو متشرع ہوں ہی، ان کی نشست وبرخواست بھی کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ کرائی جاتی رہے، جن کو دیکھ کر طلبہ کے اندر دینی شوق اور جذبہ پیدا ہو، روزہ اور نماز با جماعت کی پابندی تو ضرور کرائی جائے، البتہ زیادہ زور معاملات اور اخلاق کی درستگی پر دیا جائے، کتابی تعلیم کا بوجھ ان پر نہ ڈالا جائے، بعد نماز فجر آدھے گھنٹے قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر، منتخب احادیث جو ایمان ویقین کے ساتھ اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ پر ابھار سکتے ہوں، روزمرہ کے ضروری دینی مسائل کی واقفیت کے لئے فقہ کی کوئی ہلکی پھلکی کتاب، ان سب کے لیے ایک گھنٹے سے زیادہ نہ لگایا جائے؛ تاکہ طلبہ کو بار خاطر نہ ہو، تھوڑا تھوڑا کر کے سیرت کا مطالعہ اور بس۔
مولانا گیلانی کے یار غار مولانا عبد الباری ندوی نے مولانا کے اس خاکے کی جزئیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، انہوں نے اقامت گاہوں میں دار المطالعہ کے قیام اور ان میں رسائل وجرائد اور جدید ذہنوں کے لیے مناسب کتابوں کی فراہمی پر زور دیا ہے، انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ایسے اقامت گاہوں میں ابتدا میں ایسے طلبہ رکھے جائیں جو دین وایمان کے اعتبار سے زیادہ لا پرواہ نہ ہوں، تاکہ دوسرے طلبہ انتہائی سرکش لڑکوں کے اخلاق وعادات سے محفوظ رہ سکیں۔ ابتدا میں اقامت گاہ میں عارضی داخلہ دیا جائے اور اگر ان کے عادات واطوار ایسے نظرآئیں جن پر محنت کرنے سے صحیح رخ پاجانے کا امکان ہو تو اس کو مستقل کردیا جائے۔مولانا عبد الباری ندویؒ گیلانی اقامت خانوں کے قیام کو اس ارتدادی فتنہ کے نئے طوفان کے مقابلہ کے لیے ضروری سمجھتے تھے، ان کے خیال میں جس طرح گاؤں گاؤں میں سیکولر نظام تعلیم کے مقابلے اسلامی مکتب کھولنے کی مہم چل رہی ہے، گیلانی اقامت خانے قائم کرنے کی بھی مہم چلنی چاہیے۔حضرت گیلانی کے معتقدین اور ان کی فکر رسا کے مادحین اور ان کے شاگرد کسی کو بھی اس تجویز کو عملی شکل دینے میں دلچسپی نہیں ہوئی، حالانکہ اس تجویز کی اہمیت وافادیت کے قائل مولانا عبد الماجد دریابادی، حضرت مولانا محمد منظور نعمانی، حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی اور ڈاکٹر مولانا سید عبد العلی رحمہم اللہ سبھی تھے۔
مولانا عبد الباری ندویؒ عثمانیہ یونیورسیٹی سے سبکدوشی کے بعد اس تجویز کو عملی رنگ وروپ دینا چاہتے تھے، انہوں نے ہارڈنگ روڈ لکھنؤ میں خود اپنے وسیع وعریض اور لق ودق مکان ”شبستان قدم رسول“ کو اس کام کے لیے دینے کا ارادہ کر لیا تھا، ایک صاحب عزیمت جواں سال
نگرانی کے لیے تیار بھی ہو گئے تھے، لیکن پھر وہ اس پتہ ماری کے کام کے لیے خود کو تیار نہ رکھ سکے اور اقامت گاہوں کا قیام موزوں نگراں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے دھرا کا دھرا رہ گیا، حالانکہ اس کام کے لیے کسی بڑے عالم وفاضل کی ضرورت بھی نہیں، صرف جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہنی رجحانات وکوائف سے مانوس اور خود دینی احکام وہدایات پر عمل پیرا ہونا ضروری تھا، اس کام کے لیے عصری تعلیم یافتہ کو بھی رکھا جاسکتا تھا، لیکن اسلامی اقامت خانوں کی گیلانی تجویز کو سب سے زیادہ کارگر، آسان اور عملی تسلیم کرنے کے باوجود اس معاملہ میں ہنوز روز اول ہے، وجہ صرف ایک سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ مادی منفعت سے دو ریہ کام خالص پِتّہ ماری اور عملی ہے، اور ہم لوگ جو حصول شہرت کے لیے اپنی بہت ساری توانائی لگادیتے ہیں، اس بے نام کے کام کی عملی صلاحیت سے کوسوں دور ہیں۔
 حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی ؒلکھتے ہیں:”حالات وہی ہیں جو انگریزوں کے دور حکومت میں تھے؛ بلکہ بعض اعتبار سے حالات پہلے سے زیادہ سنگین ہیں اور مسلمان نوجوانوں کو مختلف راستوں سے گمراہ کرنے کی تدبیریں جاری ہیں؛ بالخصوص مذہب بیزاری یا خدا بیزاری پر بڑی طاقتیں جو کچھ کررہی ہیں وہ کسی با خبر سے مخفی نہیں ہے، الحاد کا ایک طوفان ہے، جو مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک انسانی ذہنوں کو متاثر کرنے میں کام کررہا ہے۔“ (حیات گیلانی:۶۹۱)
اس تناظر میں دیکھیں تو اسلامی اقامت گاہوں کے قیام کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے۔

آفتاب:جو غروب ہو گیا

آفتاب: جو غروب ہو گیا  ____
اردودنیانیوز۷۲ 
   ✍️مولانا رضوان احمد ندوی 
سب ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب پھلواری شریف، پٹنہ

 دبستان ویشالی (بہار) کے ممتاز عالم دین ، کامیاب معلم ومدرس اور مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور کے سابق پرنسپل حضرت مولانا آفتاب عالم مفتاحی ۱۱؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء کو رب ذو الجلال سے جا ملے، مولانا مرحوم کا وطن کواتھ روہتاس تھا، لیکن انہوں نے مدرسہ احمدیہ کو علم نبوت کی نشر واشاعت کے لئے مرکز بنایا جہاں مختلف علوم وفنون کی معیاری کتابیں پڑھائیں اور اپنی علمی وفکری صلاحیت اور انتظامی خصوصیت سے ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے، اور اپنی گوناگوں خوبیوں اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا، گوکہ ان کی شہرت عام نہ تھی، لیکن خطابت وامامت کے باعث ضلع ویشالی میں ہر دل عزیز رہے، جس کا اہل نظر کو بھی اعتراف تھا، ایسے متحرک اور درد مند شخصیت  کا دور قحط الرجال میں اٹھ جانا ایک نعمت خداوندی سے محروم ہوجانا ہے، گرچہ میں حضرت مولانا کی زیارت سے محروم رہا تاہم ان کے احباب ومعاصرین اور تلامذہ کی زبانی ان کے ذکر خیر سے کان آشنا ضرور تھا، جوکمی رہ گئی اس کو زیر تبصرہ کتاب ’’آفتاب جو غروب ہو گیا‘‘ نے پوری کر دی ، جس کو علوم اسلامیہ کے فاضل جلیل مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ نے مرتب کی ہے، لائق مرتب صاحب تصانیف کثیرہ ہیں، حدیث اور اصول حدیث ، تاریخ وسیر اور ادب وتنقید پر ان کی متعدد کتابیں معروف ومقبول ہیں، ہفتہ وار جریدہ نقیب کے ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے ان میں ان کی تحریریں برابر چھپتی رہتی ہیں، جو باذوق قارئین کے لئے نشاط روح کا سامان فراہم کرتی ہیں، پیش نظر کتاب بھی ان کی کاوش کا عکس جمیل ہے، در اصل مولانا مرحوم کے صاحبزادے جناب محمد احمد کی تحریک پر مفتی صاحب آمادہ ہوئے اور مولانا مرحوم کے احباب ومتعلقین اور شاگردوں سے نگارشات کے لئے رابطہ کیا ، مراسلات وفون کے ذریعہ متوجہ کرتے رہے، حتی المقدور اہل قلم کا قلمی تعاون حاصل کر لیا ۔ اس طرح یہ مجموعہ مقالات ’’آفتاب جو غروب ہو گیا‘‘ منظر عام پر آگیا۔
مرتب نے اس کتاب کے مضامین کو چار عنوانات کے تحت شامل کیا ہے۔ پہلا عنوان احوال وآثار ، اوصاف وکمالات رکھا ، جس کے تحت 24اصحاب قلم نے اپنے تاثرات وانطباعات کا اظہار کیا ، ان میں مولانا سید مظاہرعالم قمر شمسی ، مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری، جناب انوار الحسن وسطوی ، شاہد محمود پوری ، مولانا محمد قمر عالم ندوی، مفتی ظفر الہدیٰ قاسمی ، محمد الغزالی، ڈاکٹر حسین اور خود مرتب کتاب کے رشحات قلم شامل ہیں۔ باب دوم میں مولانا کی نثری تحریریں ہیں، جنہیں مولانا مرحوم نے وقت اور حالات کے تناظر میں سپرد قلم فرمایا، ان میں اکبر اور اسکا دین الٰہی ، باکردار انسان ، عبد المغنی صدیقی یاد ماضی ، شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات، جیسے عناوین پر اظہار خیال کیا۔ باب سوم میں ڈائری کے چند اوراق کے تحت خسر محترم کے انتقال پر دلی صدمے کا ظہار اور جمشید پور کے سفر نامے کی روداد وغیرہ شامل ہیں، اور آخری باب چہارم میں مولانا کی نظموں اور غزلوں کو شامل کیا گیا ہے، ان کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو زبان وبیان پر قدرت حاصل تھا۔ اس طرح یہ کتاب معلوماتی مضامین کا مجموعہ اور مولانا مرحوم کے اوصاف وکمالات کا حسین گلدستہ ہے، کتاب کی طباعت دیدہ زیب ہے اور کاغذ بھی ہر اعتبار سے مناسب ہے، میں اس کتاب کی اشاعت پر نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساماں ویشالی کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ قارئین اس کو پسند یدگی کی نظروں سے دیکھیں گے ۔ 182صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ایک سو روپے ہے، سیرت وسوانح سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب ذوق کو یہ کتاب ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ضرورت مند حضرات بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ سے خرید سکتے ہیں، یا براہ راست مرتب کتاب کے موبائل نمبر 9431003131پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

بدھ, نومبر 01, 2023

انبیاء کرام نے اپنی جان ومال سے انسانیت کی تعمیر کی ہے۔ انجینئر محمد شمیم

انبیاء کرام نے اپنی جان ومال سے انسانیت کی تعمیر کی ہے۔
اردودنیانیوز۷۲ 
 انجینئر محمد شمیم 

مدرسہ تحفیظ القرآن کے زیر اہتمام رابطۂ علماء کرام واستقبالیہ بحسن خوبی اختتام پذیر۔

سمن پورہ پٹنہ (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ پٹنہ کے زیر اہتمام مورخہ 01/نومبر 2023 بروز بدھ صبح 12/بجے رابطۂ علماء کرام و استقبالیہ بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ۔
اس پروگرام کی صدارت نمونۂ اسلاف حضرت مولانا اشتیاق صاحب مظفر پوری،
شیخ الحدیث جامع العلوم مظفر پور، خلیفہ حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی رح، ورکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے کی،
نظامت کا فریضہ مفتی عبد الرحمن صاحب قاسمی ،استاذ وناظم مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ نے انجام دی،
مہمان خصوصی کے طور پر امیر جماعت انجینئر محمد شمیم ، مفتی عبد الباسط  ،مولانا نورالحق رحمانی  ،مفتی امتیاز ،قاری ایوب نظامی قاسمی،مولانا محمد عظیم الدین رحمانی ،مولانا نیاز احمد ،مولانا اعجاز کریم، مولانا شبیر شیش نے شرکت فرمائی ۔
ان کے علاوہ بھی کثیر تعداد میں پٹنہ کے علماء وائمہ نے شرکت کی ۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے قاری انظار صاحب استاذ مدرسہ تحفیظ القرآن نے کی، اس کے بعد مدرسہ ہذا کے ایک طالب علم عبداللہ حسان رفیق گنج درجہ عربی ششم نے نعت پاک پیش کرکے ماحول کو سازگار بنا دیا ۔
بعدہ ناظم پروگرام مفتی عبد الرحمن صاحب قاسمی نے پروگرام کا تعارف کراتے ہوئے ہوئے پروگرام کے اغراض ومقاصد، دینی مدارس ومکاتب، دینی تعلیم وتربیت کی اہمیت و افادیت اور اس کی ضرورت وقت کے لحاظ سے کیا ہے ان باتوں کو مکمل، مفصل، اور مدلل انداز میں پیش کیا، ساتھ ساتھ مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ پٹنہ کا تعارف وتاریخ اور ادارہ کی خدمات سے سامعین کو آگاہ کراتے ہوئے کہا کہ مدرسہ تحفیظ القرآن کی تاریخ بہت قدیم نہیں ہے، البتہ جس وقت اس ادارہ کی بنیاد رکھی گئی اس وقت علاقے کی نوعیت کچھ اور تھی، دینی تعلیم وتربیت سے ناواقفیت کے بنا پر ایک تشنگی کا شدت سے احساس ہوتا تھا جسے  الحمد للہ اس ادارہ نے دور کردیا۔
اس ادارہ سے کثیر تعداد میں علماء وحفاظ کی ایک لمبی جماعت تیار ہے جو قوم وملت میں  دینی ملی خدمات انجام دے رہی ہے۔۔
پھر مہمان خصوصی محترم انجینئر شمیم صاحب نے اپنے تاثرات سے نوازتے ہوئے کہا کہ علماء در اصل نائبین انبیاء ہیں، اب چونکہ انبیاء کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اسی لئے ان علماء کو مشن انبیاء لے کر چلنا ہے۔
کیوں کہ علماء وائمہ صرف مساجد کے امام نہیں ہوتے ہیں بلکہ پوری انسانیت کے امام ہیں،علماء کرام سے عوام دور ہوتی جارہی ہے اور انہیں وجوہات کی بنا پر طاغوتی طاقتیں دن بدن پوری دنیا پر مسلط ہوتی جارہی ہیں، انبیاء کرام نے اپنی جان ومال سے انسانیت کی تعمیر کی ہیں ، اور یہ پیغام دیا کہ تمہاری جان ومال یہ سب رب کی عطاء کردہ ایک امانت ہے، لہٰذا رب کی رضا وخوشنودی میں ہی اسے خرچ کرنا تمہارے لئے ضروری ہے، ساتھ ساتھ علماء کرام کو بیحد عمدہ مشورہ دیا، اور ایک مثبت تجویز بھی پیش کی جو ہر حال میں کار آمد ہے ۔
اس کے بعد صدر محترم کی اجازت سے ان کی دعا کے ساتھ اس پروگرام کا اختتام ہوا ۔ ادارہ کی طرف سے مہمانوں کی ضیافت کے لئے ایک ٹیم کو ترتیب دی گئی تھی جو مہمانوں کو کھانے پینے سے لے کر دیگر تمام سہولیات فراہم کرتی تھی ۔
یقیناً اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں رہنمائی  کی ہے۔عبادات ومعاملات، سیاست، قیادت سیادت ،عدالت، خلوت وجلوت، محفل وتنہائی، گویا کہ مہد سے لحد تک اسلام نے  تمام امور کے سلسلے میں مکمل تعلیمات اور طرز زندگی فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کا دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکا ہے ۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت  میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں، بلکہ دنیا میں بھی ہمارے لئے کامیابی اور طمانیت قلب فراہم کرتی ہیں ۔ اور یہ باتیں تب ہی ہماری فہم وفراست میں آسکتی ہیں جب کہ ہم علوم دینیہ سے خود کو اور سماج ومعاشرہ کو آراستہ وپیراستہ کریں گے ۔
انہیں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے ملک کے مشہور ومعروف اور مقبول ادارہ مدرسہ تحفیظ القرآن میں علماء کرام کی خصوصی تربیت کے لئے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا ۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر جن لوگوں کا تعاون رہا ان میں مفتی عبد الرحمن صاحب قاسمی ،قاری ہشام الدین صاحب مفتاحی ،مفتی محمد نورالاسلام صاحب قاسمی سمیت مدرسہ تحفیظ القرآن کے تمام اساتذہ وکارکنان اور طالب علم کا نام مذکور ہے ۔
واضح رہے کہ مدرسہ تحفیظ القرآن ملک کا ایک مشہور ومعروف خالص دینی ادارہ ہے ،جہاں کثیر تعداد میں مقامی وبیرونی طلباء اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں ،اس ادارہ کی بنیاد محض خلوص وللہیت پر  ہے،1997/ میں اس ادارہ کی بنیاد سابق امیر شریعت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،حضرت مولانا سید نظام الدین رح کے دست مبارک سے رکھی گئی ہے، اس کے بعد مرحوم ڈاکٹر شوکت علی خان سمن پورہ پٹنہ ودیگر اہلیان سمن پورہ پٹنہ نے اس ادارہ کو اپنی محنت ومشقت، اور جاں فشانی کے ساتھ سینچ کر ایک پھلدار درخت بنایا ۔ یہ ادارہ اس وقت سے مسلسل دینی، ملی، سماجی، معاشرتی، خدمات انجام دے رہا ہے، اور ادارہ علماء، عوام، اور طلباء کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔

منگل, اکتوبر 31, 2023

✍️ محمد فرمان الہدا فرمان

اسلام امن کا داعی _____
اردودنیانیوز۷۲ 
  ✍️محمد فرمان الہدیٰ فرمان
اسلام امن وسلامتی کا سرچشمہ ہے،
 آپسی اخوت و بھائی چارگی، اللّٰہ کی مخلوق سے محبت و ہمدردی، اور سماج کے لیے خیر خواہی، اس کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے، یہ خیر کو فروغ دینے والا دین ہے، آج پوری دنیا میں جو فساد بپا ہے، اس کا صحیح علاج دینِ اسلام کی اتباع میں ہے؛ لیکن حیف صد حیف! آج فسادیوں اور دہشت گردوں کو اسلام سے جوڑ کر، اسے بدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے؛ بلکہ کی جاچکی ہے، اور اس میں انہیں کامیابی مل رہی ہے، جب کہ تشدد اور اسلام کے مابین کوئی تعلق ہی نہیں ہے، جہاں تشدد ہوگا وہاں اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اے ایمان والو! پورے طور پر امن وسلامتی (اسلام) میں داخل ہوجاؤ، اور شیطان مردود کی پیروی نہ کرو"۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: "زمین میں فساد مت پھیلاؤ درستگی کے بعد"۔
دنیا کے تمام ادیان و مذاھب میں انسانی جانوں کے احترام و وقار اور امن و اطمینان کے ساتھ زندگی گذارنے کے حق کو اولیت دی گئ بے، الحمد للہ اس سلسلے میں اسلام کا درجہ سب سے عظیم اور بلند ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے: "جس کا خون اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو ناحق قتل مت کرو"۔
دینِ اسلام نے روزِ اول ہی سے تشدد اور دہشت گردی کی مخالفت کی ہے، امن و سلامتی کو فروغ دینے کی تلقین کی ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ: "اگر کوئی ظلم کرے تو بدلہ لے لو؛ لیکن اگر معاف کردیا تو اللّٰہ معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے" اور آگے کہا: "بدلہ لینے میں تجاوز نہ کرنا؛ ورنہ تم خود ظالم بن جاؤگے"۔
اسلام نے جہاں تشدد سے منع کیا ہے، وہیں اپنے دفاع کا بھی حکم دیا ہے، اللّٰہ فرماتا ہے: "جو تم سے لڑائی کرے تم بھی اس سے اللّٰہ کی راہ میں لڑائی کرو، جن مسلمانوں سے لڑائی کی جاتی ہے اور جن کو ان کے گھروں سے نکالا جاتا ہے، کشادگی کے باوجود ان پر زمین تنگ کی جاتی ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ لڑنے پر اللّٰہ کی نصرت اور مدد کا بھی وعدہ ہے"۔
لوگ کہتے ہیں کہ اسلام ایک دہشت گرد دین ہے، فساد پھیلانا مسلمانوں کا شیوہ ہے، ایسے لوگوں سے بس ایک ہی سوال ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کے گھر میں گھس کر آپ کی عزت لوٹے، سامانوں کی چوری کرے تو کیا آپ اسے ایسا کرنے دیں گے؟ آپ کا جواب ہوگا بالکل نہیں۔
آج فلسطینی اسی درد وکرب سے گذر رہے ہیں، اپنی زمین اور  مسجد اقصیٰ کے لیے لڑ رہے ہیں، ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے؛ کیوں کہ مسجد اقصیٰ صرف ان کی نہیں ہے؛ بلکہ تمام عالمِ اسلام کا قبلۂ اول ہے، اس کی حفاظت ہر کس وناکس پر لازم اور ضروری ہے، یہی وہ مسجد ہے جہاں سے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم معراج کو گئے، بہت سارے انبیاء کا مسکن اور مدفن بھی ہے، اللّٰہ نے اس کے ارد گرد بڑی برکتیں نازل فرمائی ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ اسلام بلا وجہ جنگ کی اجازت نہیں دیتا؛ لیکن جب جنگ کی نوبت آجائے تو اپنی حفاظت، بچاؤ اور مکمل طور پر دفاع کا حکم ‌دیتا ہے۔
آج اگر ہم فلسطینیوں کے ساتھ لڑ نہیں سکتے ہیں، تو کم از کم ان کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کریں ۔ان کے حق میں سوشل میڈیا پر آواز بلند کریں، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، اسی کے ساتھ ہم سب مل کر بارگاہِ الٰہی میں دعا بھی کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ قدس کی حفاظت فرمائے، اس کا چھینا ہوا وقار واپس دلادے اور مسجدِ اقصیٰ کو یہودیوں کے نرغے سے نکلنے کے اسباب پیدا فرمادے، آمین ثم آمین۔
*** ____________ ___________ ***

مضمون نگار ✍️محمد ضیاء العظیم پٹنہ

اردو جرنل, شاد عظیم آبادی نمبر، فکر وفن کے آئینے میں 
Urduduniyanews72 
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم پٹنہ
موبائل نمبر 7909098319 

سر زمین عظیم آباد کی تاریخ رہی ہے کہ ہر دور میں یہاں سے علم وادب کے درخشندہ ستارے دنیائے ادب کو اپنی روشنی سے منور کرتے چلے آئے ہیں، اور ہنوز  یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ اردو زبان وادب کی ترویج وترقی ،اور اس زبان کی آبیاری میں دبستانِ عظیم آباد کا اہم رول رہا ہے ۔ اور اسی کی ایک کڑی یو جی سی کییر لسٹ  میں شامل شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی کا تحقیقی رسالہ"اردو جرنل" بھی ہے جو قارئین ادب کی علمی وادبی تشنگی دور کرنے میں کافی معاونت  کرتا ہے ۔ اردو جرنل ٢٠٢٣- خصوصی گوشہ : شاد عظیم آبادی اس وقت میرے سامنے ہے، اس رسالہ کے مدیر ممتاز ناقد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ،صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی نے بڑے خوبصورت اور دلچسپ پیرائے میں مرتب کرکے دنیائے ادب کو ایک بیش بہا تحفہ عطا کیا ہے۔ کتاب کے مشمولات کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مضامین کس قدر اہم، دلچسپ، اور کارآمد ہیں ۔ خاص طور پر شاد عظیم آبادی کی زندگی، ان کے فکر و فن کو مختلف اور دلچسپ زاویے کے ساتھ پیش کرکے یقیناً ایک تاریخ رقم کی گئی ہے ۔ یقیناً شاد نے دبستانِ عظیم آباد کی نمائندگی دنیائے ادب میں کی ہے، شاد عظیم آبادی قادر الکلام شاعر ہیں، دنیائے ادب میں انہیں جو مقام ومرتبہ حاصل ہے وہ بے شک بے نظیر ہے، لیکن اس سلسلے میں ہمارے ادباء کی توجہات کماحقہ کم رہی ہیں ، شدت سے اس کی تشنگی محسوس کی جارہی تھی، جسے ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے پوری کرنے کی بھر پور سعی کی ہے ۔ ملک کے نامور ادباء کے مضامین اردو جرنل میں شامل ہیں، مضامین کے مطالعہ سے شاد عظیم آبادی کی شخصيت و فن کا کئ زاویے سے انکشاف ہوتا ہے ۔
360/صفحات پر مشتمل اس رسالہ میں 41/ مضامین ہیں، جن میں 27/ مضامین شاد عظیم آبادی کے فن وشخصیت پر اور 14/ مضامین  دیگر موضوعات پر ہیں، اس رسالہ کی کمپوزنگ شمسی گرافس، سبزی باغ پٹنہ نے کی ہے، اسے شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی سے 350/ روپے قیمت دے کر حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
رسالہ میں شامل مضامین کی فہرست  سے چند مندرجہ ذیل ہیں،

مثنوی مادر ہند، 
 شاد عظیم آبادی کا جذبہ اصلاح (نظموں کے آئینہ میں)، 
 شاد اور مرثیہ گوئی، 
 شاد اور جمیل، 
شاد عظیم آبادی اور ان کی لسانی وعروضی خدمات، 
 کلام شاد میں عربی زبان وتعبیرات،
شاد عظیم آبادی پر حافظ شیرازی کا اثر،
شاد کی غزلوں میں فلسفۂ حیات وکائنات،
شاد عظیم آبادی کی نعتیہ شاعری ظہور رحمت کے تناظر میں،
شاد اور ان کی صوفیانہ شاعری۔
میڈیا اور اردو ادب، گوپی چند نارنگ خطوط کے آئینے میں، ذوقی کے ناولوں کے چند زاویے، پروفیسر یوسف سرمست بحیثیتِ ناول نقاد۔کتاب کی شروعات ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے,, پہلی بات،، ایک عنوان قائم کرکے وجہ تصنیف وتالیف کے ساتھ ساتھ شاد عظیم آبادی پر خصوصی گوشہ قائم کرنے کے سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ادبی اور تاریخی اعتبار سے شاد عظیم آبادی اردو کے بلند پایہ شاعر ہی نہیں، دانشور، محقق، تاریخ داں اور نثر نگار بھی تھے ۔ ان کی شاعری کو اربابِ علم ودانش نے ہر دور میں منفرد وممتاز قرار دیا ہے ۔ علامہ اقبال نے خواہش کی تھی کہ کاش عظیم آباد قریب ہوتا اور مجھے آپ کی صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع ملتا ۔
سید سلیمان ندوی نے اعتراف کیا کہ شاد کی شاعری حسن وعشق کے عامیانہ اور صوفیانہ انداز بیان سے تمام تر پاک ہے ۔
نیاز فتح پوری نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ گزشتہ پچاس سال میں شاد عظیم آبادی سے بڑا غزل گو پیدا نہیں ہوا ۔
اور کلیم الدین احمد نے یہ دعویٰ کیا کہ اردو غزل کی کائنات کی تثلیث میر، غالب اور شاد ہیں ۔ شاد ایک مجتہد شاعر تھے ۔
شمس الرحمن فاروقی نے فرمایا کہ کلاسیکی غزل کے کئ رنگوں کو اختیار کرکے انہیں سچے اور خالص ادب میں پیش کرنا شاد کا کارنامہ ہے ۔ اور شمیم حنفی کا قول ہے کہ شاد نے ایک نیا شعری محاورہ وضع کرنے کی کوشش کی ۔اسی طرح شاد کی شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کرمع مثال پیش کی ہے
پہلا حصہ ان کی رومانی شاعری جو ان کے جوانی کی شاعری رہی،
دوسرا حصہ میر درد کی صوفیانہ شاعری اور غالب کی فلسفیانہ شاعری کے اثرات،
اور تیسرا وہ حصہ ہے جہاں وہ بڑی سے بڑی بات کو با آسانی دو مصرعوں میں بیان کردیتے ہیں ۔رسالہ میں جو مضامین ہیں وہ تمام کے تمام اردو ادب میں دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں، خاص طور پر ڈاکٹر سرور عالم ندوی صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیورسٹی کا مضمون،، کلام شاد میں عربی زبان وتعبیرات،،، یہ بہت ہی انوکھا اور نایاب ہے، اس مضمون میں شاد عظیم آبادی کی شخصیت کے نئے پہلو کا انکشاف ہوتا ہے اور وہ یہ کہ یقیناً شاد عظیم آبادی کو اردو وعربی زبان وادب پر کافی گرفت تھی، اس بات کو مکمل، مفصل اور مدلل اجاگر کیا گیا ہے وہ اپنے موضوع کے لحاظ سے بہت ہی نایاب اور انوکھا ہے، جیسا کہ انہوں نے ایک موقع پر قوم کو تعلیمی مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ۔
ہو زبان عربی کا بھی شمول
نفع دیں کا ہے نہ کہ اس کو فضول۔
اسی طرح قواعد عربی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں.:
 کلمہ قالوا کو تو صیغہ غائب نہ جان
جمع کو واحد سمجھ لفظ کا دھوکہ نہ کھا
نیز
اپنے مرجع کو پھرتی ہے ضمیر
حال مرجع کا لیکن تغیر۔

دیگر موضوعات بھی کافی اہم، نایاب، اور وقت کے لحاظ سے کافی کارآمد ہیں۔
یوجی سی منظور شدہ اردو جرنل 2023 اس رسالہ میں شامل تمام مضامین پر تبصرہ ممکن نہیں ہے، قارئین ادب سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کا مطالعہ کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کریں،
ہم اپنی جانب اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے خصوصی طور پر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی اور عمومی طور پر پوری ٹیم کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس رسالہ کی ترتیب وتالیف میں اپنا تعاون پیش کیا ۔

پیر, اکتوبر 30, 2023

خواتین ادب تاریخ وتنقید : ایک تاثر

خواتین ادب تاریخ وتنقید : ایک تاثر 
اردودنیانیوز۷۲ 
محمد ضیاء العظیم، برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن ۔
موبائل نمبر 7909098319 

اُردو ادب میں خواتین کی خدمات کا دائرہ کافی وسیع رہا ہے ۔ اگر ہم اردو زبان وادب اور تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کریں گے تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مرد کے شانہ بشانہ خواتین نے بھی اس زبان کی آبیاری میں اہم خدمات انجام دی ہیں، اور اس زبان وادب کو بام عروج پر پہنچانے میں اپنی قربانیاں بھی پیش کی ہیں، جو ناقابل فراموش ہیں ۔ لیکن بڑی بدقسمتی رہی کہ ان کی تخلیقات کو ہمارے محققین و ناقدین  نے نظر انداز کیا ہے، اور اگر توجہات بھی دی ہیں تو سرسری طور پر ہی ۔ یقیناً یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اُردو زبان وادب میں بہت کم وقتوں میں اپنی قابلیت کا اعتراف کرانے والی، مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کرنے والی، ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے اس گوشے کی تشنگی کو کم کرنے کی بھر پور سعی کی ہیں ۔
ان کی تحریروں میں موضوعات کا تنوع، انفرادیت، موضوعاتی ہمہ گیری، اظہار مدعا کا سلیقہ جا بہ جا دیکھنے کو ملتا ہے، کم عمری کے باوجود ان کے یہاں تجربات ومشاہدات کا ایک وسیع دائرہ ہے ، جہاں الفاظ کا رکھ رکھاؤ، جملوں کو برتنے کا ڈھنگ، تعبیرات کے استعمال کا طریقہ کسی بزرگ قلم کار کی طرح نظر آتا ہے، جس موضوع پر قلم اٹھاتی ہیں، اس کو خوش اسلوبی سے انجام تک بغیر کسی رکاوٹ اور ہچکچاہٹ پہنچا دیتی ہیں، چاہے وہ موضوع کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو، اس سے قبل بھی اردو کے مختلف اصناف پر ان کی تخلیقات آئے دن اردو روزناموں، رسالوں، مجلات اور ماہنامے کے ساتھ خصوصی نمبرات میں شائع ہوکر قارئین سے داد ودعا حاصل کرتی رہتی ہیں،
ساتھ ساتھ سماجی خدمات میں بھی پیش پیش رہتی ہیں، تدریسی فریضے بھی پوری ذمہ داری اور ایمانداری کے ساتھ انجام دیتی ہیں ۔اب تک ان کی درجنوں تصنیفات اردو ادب میں منظر عام پر آکر مقبولیت حاصل کر چکی ہیں، جن میں کئ کتابوں کو سرکاری اعزاز بھی حاصل ہے، تانیثیت جیسے موضوع پر کام کر کے اُنہوں نے feminism کو اُردو میں مختلف زاویے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہیں ۔ اُردو ادب میں خواتین ادب پر مبنی یہ کتاب یقینا دستاویز ی اہمیت رکھتی ہے ۔خواتین ادب : تاریخ و تنقید‘‘بلا شبہہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے، جس میں بہترین موضوعات کو قلمبند کیا گیا ۔ صالحہ صدیقی کی کتاب ’’خواتین ادب : تاریخ و تنقید‘‘ یقینا ایک اہم تصنیف ہے ۔جس میں خواتین کی نثری ،غیر نثری اور شعری جہات کا احاطہ کیا گیا ہے۔اس تصنیف میں بہت ہی سلیقے سے خواتین ادب کی تاریخ و تنقید کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو دیکھ کر ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ یقینا بار بار پڑھی،سنی ،گنی جانے والی بے حد ضروری کتاب ہے ۔خصوصاً اردو ادب کے تمام طلبہ وطالبات کے لئے ایک عظیم سرمایہ ہے،
ان کی تازہ تصنیف ’’خواتین ادب تاریخ و تنقید ‘‘قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے ’’ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلشنگ ہاؤس پریاگراج سے شائع ہوئی ہے ۔جو دس ابواب پر مشتمل ہیں۔ا س کتاب میں نثری،غیر نثری،شعری ،تنقیدی ،تحقیقی اور دیگر اصناف میں اردو ادب کی خواتین قلمکاروں پر ،مبنی ڈاکٹر صالحہ صدیقی کے اکتالیس مضامین شامل ہیں ۔جن میں سے بیشتر مضامین ہندستان و بیرون ممالک کے مختلف رسائل و جرائد کے زینت بن چکے ہیں ۔ہم امید کرتے ہیں کہ اس کتاب سے اردو ادب کے ہر قارئین استفادہ کریں گے، اور ان کے لئے دعا گو ہوں کہ اللہ انہیں مزید ترقی عطا فرمائے۔

جمعرات, اکتوبر 26, 2023

بدگمانی ۔مہلک روحانی بیماریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار

بدگمانی ۔مہلک روحانی بیماری
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار
باہمی حقوق وآداب معاشرت ، جماعتی اور اجتماعی زندگی ، خاندان ، گاؤں اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کی بدگمانی سے بچا جائے، یہ بد گمانی گناہ کبیرہ تو ہے ہی آپسی تعلقات کے تاروپودبکھیرنے میں سب سے زیادہ مو ئثر ہے، اسی لیے اللہ رب ا لعزت نے سورة الحجرات آیت ۲۱ میں جن چیزوں کے کرنے سے منع کیا ہے ان میں ایک بد گمانی بھی ہے، ایمان والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ بہت سے گمان سے بچتے رہیں اس لیے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، یہ جو گناہ والے گمان ہیں انہیں کو اردو میں بد گمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسی لیے تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ مطلق گمان گناہ نہیں ہے، بلکہ بعض گمان ہی گناہ ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بلا دلائل قوی اور حجت تام کے کسی پرکوئی الزام دھر دے اور تہمت لگادے۔ مثلا اللہ تعالیٰ سے بدگمانی رکھنا کہ وہ مجھے عذاب دے گا اور مصیبت میں مبتلا رکھے گا، ایسی بد گمانی حرام ہے، اس قسم کی بد گمانی سے بندوں میں مایوسی اور قنوطیت پیدا ہوتی ہے، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو جاو ¿ اور یہ کہ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ تم میں سے کسی کو بغیر اللہ کے ساتھ اچھے گمان کے موت نہ آئے، ایک حدیث قدسی میں ہے کہ میں بندے کے ساتھ وہی برتاؤکرتا ہوں، جیسا وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے، کم سے کم بندے کو یہ گمان تو ضرور رکھنا چاہیے کہ اگر اللہ عذاب دے تو ہم اس کے بندے ہیں اور اگر وہ بخش دے تو غالب حکمت والا ہے۔ فقہاءنے لکھا ہے کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن فرض ہے، اور بدگمانی حرام ہے۔
اللہ رب العزت یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ ایک بندہ دوسرے بندے سے بد گمان رہے، اس لیے کہ یہ بدگمانی دنیا وآخرت دونوں کی تباہی کا ذریعہ ہے، واقعہ افک کو یاد کیجئے، جب حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگی، یہ تہمت اسی بدگمانی کے نتیجے میں لگی، اس میں بڑا ہاتھ یقینا منافقین کا تھا،لیکن اس موقع سے دو مسلم مرد اور ایک عورت بھی اس بدگمانی کے حصہ دار بنے، گو بعد میں اللہ رب العزت نے ان کی مغفرت کا اعلان کر دیا، اللہ رب العزت نے اس بدگمانی کے بارے میں یہ بات صاف کر دی کہ مسلمانوں نے جب یہ خبر سنی اسی وقت ان کے بارے میںوہ حسن ظن رکھتے اور کہدیتے کہ یہ کھلا جھوٹ ہے، اس سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں جب تک کسی گناہ یا عیب کے بارے میں دلیل شرعی سے معلوم نہ ہوجائے اس وقت تک نیک گمان رکھنا ضروری ہے اور جب تک دلیل سے ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک کسی بات کو اس کی طرف منسوب کرنا ایمانی تقاضوں کے خلاف ہے۔
  اب اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں غلط افواہ پھیلا تا ہے اور لوگوں میں بدگمان کرنے کی مہم چلاتا ہے تو اس سے دلائل طلب کرنے چاہیے اور دلائل نہ پیش کر سکے تو اسلامی حکومت میں حد قذف یعنی اسی(۰۸) کوڑے لگائے جائیں گے اور ایسے لوگوں کی گواہی عند القضاءقابل قبول نہیں ہوگی، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ فاسق ہیں۔
  یہ بد گمانی کا ناپھوسی سے پیدا ہوتی ہے اور جو لوگ کسی کے خلاف مہم چلاتے ہیں تو کھلم کھلا بولنے کی ہمت نہیں ہوتی، کان بھرتے رہتے ہیں، سرگوشی کرکے باتوں کو پہونچاتے ہیں، اللہ رب العزت نے اس سے سختی سے منع کیا ، سورة مجادلہ کی آیت نمبر آٹھ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جب تم کان میں بات کیا کرو تو گناہ کی زیادتی کی اور اللہ کے رسول کی نا فرمانی کی مت کیا کرو، بات کرنی ہی ہو تو احسان اور پر ہیز گاری کی کیا کرو اور اللہ رب ا لعزت سے ڈرتے رہو اس لیے کہ تمہیں اسی کے پاس جمع ہونا ہے۔ اس تفصیل کے بعد اللہ رب العزت نے اسے شیطان کا کام قرار دیا اور فرمایا کہ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ ایمان والوں کو صدمہ پہونچائیں، حالاں کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے، ایمان والوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
  قرآن واحادیث کی روشنی میں بد گمانی کے مفاسد اور اس پر اللہ کی جانب سے وعید وں کے ذکر کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بد گمانی آخر انسان کرتا کیوں ہے؟ اس کی دو وجہ ہوتی ہے، ایک تو یہ کہ دوسرے کے بارے میں بد گمان کرکے اگلے کی نظر میں مقام ومرتبہ حاصل کرنا ، اور دوسری وجہ علم کی کمی اور جہالت ہے۔بہت سے لوگ بات بات پر بدگمان ہوجاتے ہیں، مثلا آفس میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا تو آدمی بدگمان ہوتا ہے کے میرے خلاف سازش کی گئی، کاروبار میں نقصان ہو گیا تو دوسرے کاروباری سے بدگمانی کے یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے، دعا میں اگر رقت طاری ہوگئی تو بدگمانی کے دکھاوے کے لیے رورہا ہے، گھر سے کوئی چیز غائب ہوگئی تو کام کرنے والے سے بدگمانی کے اسی نے چرائی ہوگی، قانونی رکاوٹ کی وجہ سے کسی نے کام نہیں کیا تو بدگمانی کہ رشوت چاہتاہے، کسی نے آتے وقت توجہ نہ دی تو یہ گمان کہ بڑا کھمنڈی ہے، رشتہ بنتے بنتے رہ گئی تو یہ گمان کہ ہمارے پڑوسی نے کچھ لگا بجھا کیا ہوگا، بہو نے دعا لمبی کردی تو ساس کو گمان کے کام کرنے کے ڈر سے لگی ہے، یا میرے لیے بد دعا کر رہی ہے، بہو ہی کی طرف توجہ تھوڑی کم ہوئی تو ساس سے بدگمانی کے شوہر کے کان ساس نے بھر دیے، قرض لینے والے سے رابطہ نہ ہو سکا تو یہ گمان کہ ہمارا روپیہ کھا گیا، کسی کو آنے میں تاخیر ہوئی تو بدگمانی کے وعدہ کرکے مگر گیا، ویزا ٹکٹ کے روپے جس کو دیے تھے وہ نہیں مل رہا تو یہ گمان کے روپے لے کر بھاگ گیا، کامیابی پر کسی نے مبارکباد نہیں دی تو یہ گمان کہ ہم سے جلتا ہے یہ اور اس قسم کی دوسری بدگمانیاں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، کبھی مصنوعی افواہ کے ذریعہ لوگوں کے قلوب میں بد گمانی کا بیج ڈال دیا جاتا ہے، تاکہ اپنی طہارت ، پاکیزگی کا پرچم بلند کیا جا سکے، حالاں کہ ایسے ہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا ہے۔
اتنا نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ادارے، تنظیموں ، جماعتوں میںبدگمانی کی یہ بیماری عام ہے، ہر ڈگر ہر نگر ایک سا حال ہے،کسی ملازم اورکارکن کو خوش حال دیکھ لیا تو یہ گمان کہ ضرور کہیں ہاتھ مارا ہے، اس کا بڑا نقصان سماجی طور پر ہوتا ہے۔ آپ نے کسی کے بود وباش ، تھاٹ باٹ ، مکان ودوکان کے بارے میں لوگوں کو کسی خاص شخص کے بارے میں بدنام کر دیا، اس کے تو بڑے مکانات ہیں، گاڑیاں ہیں، اور تنخواہ تو اقل قلیل ہے، اب لوگ بد گمان ہو گیے کہ ضرور مدرسے، مسجد ادارے کی رقم مارا ہے، یہ بدگمانی بعض لوگوں نے پھیلائی اور جس طرح واقعہ افک میں بعض مسلمان بھی اس کو ماں بیٹھے تھے، ویسے ہی عوام کے ساتھ خاص ادارے کے ذمہ دار بھی بد گمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اسی بدگمانی سے روکنے اور غلط خبروں کی تشہیر سے بچنے کے لیے اللہ رب العزت نے سورة الحجرات کی آیت نمبر چھ میں فرمایا کہ اگر تمہارے پاس کوئی شریر آدمی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلو، اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں کوئی تکلیف پہونچا دو اور بعد میں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
 لیکن صورت حال اس قدر خراب ہے کہ کوئی تحقیق کی زحمت نہیں گوارا کرتا اور آنکھ بند کرکے کان میں جو کچھ ڈال دیا گیا، اسے مان لیا ، حالاں کہ جن ظاہری امور کی وجہ سے وہ بدگمانی میں مبتلا ہوا ہے اس کی تحقیق کرلیتا تو اس نتیجہ تک پہونچنا بہت آسان تھا کہ متعلقہ شخص کے پاس آمدنی کے دوسرے اور بھی ذرائع ہیں، ہو سکتا ہے وہ زمیندار ہو، ممکن ہے اس نے گھر زمین بیچ کر ہی بنایا ہو ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے خاندان کے دوسرے لوگ بڑی بڑی تنخواہوں پر کام سے لگے ہوں، خاندان میں آپسی تعاون کا مزاج ہو اور دوسرے بیٹے اور بھائیوں نے اس ترقی میں ہاتھ بٹایا ہو، خاندان کے لوگ ملک سے باہر کما رہے ہوں اور ان کی یافت اس قدر ہو کہ وہ ٹھاٹھ باٹ کی زندگی گذار سکتے ہوں، اور اگر اس کا شمار اہل اللہ میں ہوتا ہے تو ہدیہ، نذرانہ کی آمدنی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ، مساجد کے ائمہ اور مدارس کے اساتذہ کی بود وباش کا بڑا حصہ ہدیہ ، نذرانہ، قاضیانہ وغیرہ سے ہی آجاتا ہے اور وہ اس قدر ٹھسے سے زندگی گذار تے ہیںکہ لاکھ روپے کمانے والا اس معیار کے ساتھ زندگی نہیں گذار تا، اب لوگوں کو تجسس ہوتا ہے کہ تنخواہ تو ہم پانچ ہی ہزار دیتے ہیں، یہ اس قدر معیاری زندگی کس طرح گذارتا ہے، ظاہر ہے اس نے کسی کی جیب نہیں کاٹی ہے، یہ اللہ کے کلام کے دربان ہونے کی برکت ہے کہ قلیل تنخواہ کے باوجود اللہ اس کی ساری ضرورتوں کی کفالت کرتا ہے، اور اسے ایک معیاری زندگی نصیب ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کے کہنے سے بدگمان نہیں ہونا چاہیے، تحقیق کرنی چاہیے، تاکہ سب لوگ بدگمانی کے گناہ سے بچ سکیں اور آپس میں سماجی آہنگی قائم رہے۔
کیوں کہ بدگمانی ام الامراض ہے یہ بہت سارے گناہ کا سبب بنتی ہے، گھر ، خاندان، میاں بیوی کے تعلقات سب پر اس کے بُرے اثرات پڑتے ہیں، اگر یہ بدگمانی ادارے، تنظیموں اور جماعت کے ذمہ داروں کے دلوں میں پیدا ہوجائے تو اعتماد کی فضا ختم ہوجاتی ہے اور انفرادی فعل پوری تحریک پر اس طرح اثر انداز ہوجاتا ہے کہ بہت سے تحریک سے ہی برگشتہ ہو کر دامن جھڑا لیتے ہیں

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...