Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 09, 2023

حضرت امیر شریعت کے ہاتھوں مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کی کتاب کا اجرا

حضرت امیر شریعت کے ہاتھوں مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کی کتاب کا اجرا 
اردودنیانیوز۷۲
پٹنہ(پریس ریلیز) 9/ دسمبر.     امیر شریعت مفکر ملت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صدر وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ اور جناب امتیاز احمد کریمی رکن بہار پبلک سروس کمیشن کے ہاتھوں مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کی 54 ویں کتاب کا اجراء عمل میں آیا "تماشہ میرے آگے" نامی اس کتاب میں مفتی صاحب نے سیاسی اور سماجی حالات و مسائل پر پوری بالغ نظری سے تجزیہ و تبصرہ کر کے نتائج اخذ کیے ہیں، یہ کتاب سیاسی اور سماجی میدان میں خدمت انجام دینے والوں کے لیے اپنی تقریر کے مواد کے حصول میں انتہائی معاون ہے، اس اہم کتاب کا اجراء دارالملت رام پور سگھری بلبھدر پور کے اجلاس عام میں ہوا جو وفاق المدارس کے بین المدارس تربیتی اجتماع کے موقع سے منعقد کیا گیا تھا،اس کتاب کی تصنیف پر مولانا حسین احمد بالا ساتھ مولانا عبدالقوی سابق صدر مدرس دارالملت رامپور سگھری،مولانا نظام الدین اسامہ ندوی صدر مدرس دارالملت الامداد چیری ٹیبل ٹرسٹ کے بانی جناب صہیب احمد، جناب امتیاز کریمی،عبدالرحیم بڑھولیاوی،انوار الحسن وسطوی،عارف وسطوی ،مولانا محمدانوار اللہ فلک قاسمی صحافی رضوان احمد وغیرہ نے مبارک باد دی ہے، جلد ہی مفتی صاحب کی دو اور کتابوں کا اجرا عمل میں آگیا،اس کے قبل مفتی صاحب کی تصنیف "نئے مسائل کے شرعی احکام" کا عربی ایڈیشن کا اجراء نامور فقیہ اور صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ہاتھوں اسلامک فقہ اکیڈمی کے 32 ویں سیمینار منعقدہ پلاپٹی تامل ناڈو میں ہوا تھا، حضرت مفتی صاحب کے معتقدین، متوسلین اور محبین کرام نے عافیت کے ساتھ ان کے لیے درازی عمر کی دعا فرمائی تاکہ اپ کا قلم ایسے ہی رواں دواں رہے۔

انتظار کے سترہ دن

انتظار کے سترہ دن 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 
اترکاشی سلکیاراٹرنل میں پھنسے لوگ اب باہر آگیے ہیں، اور پورے ہندوستان نے راحت کی سانس لی ہے، ہر دن یہ خبر آتی تھی کہ بس رات تک وہ باہر نکل آئیں گے اور پھر رات ہوجاتی تھی اور کامیابی کا سورج نکلے بغیر ہی غروب ہوجاتا تھا، ساری تکنیک استعمال کر لی گئی ، امریکن ہوجر بھی ناکام ہو گئی وہ سرنگ کے اندر کھدائی کرتے ہوئے ہی ٹوٹ گئی اور اس کی دھمک اس قدر تھی کہ مزید چٹان کے گرنے کا خطرہ پیدا ہو گیاتھا، ساری مشینیں اور اوزار ناکام ہو گیے تو ذمہ داروں کو کھدائی کی پرانی تکنیک جسے ریٹ ہول مائننگ(RAT HOLL MINING) کہا جاتا ہے کا خیال آیا یہ طریقہ کوئلے کی کان میں استعمال کیا جاتا ہے، چھینی اور ہتھوڑے کی مدد سے ایک آدمی کا ٹتا ہے ، دوسرا ملبہ اٹھا تا ہے، یہی طریقہ عمل میں لایا گیا تب جا کر کرب والم کے سترہ دن کا اختتام ہوا اور ملک نے راحت کی سانس لی اور اکتالیس مزدور بعافیت سرنگ سے نکال لیے گیے۔غنیمت یہ ہے کہ سترہ دن گذرنے اور پھنسے رہنے کے بعد بھی وہ مایوسی کے شکار نہیں ہوئے، اور  انہوں نےحوصلہ نہیں ہارا، ان میں سے بعضوں کی صحت بگڑنے کی پہلے خبر آئی تھی، لیکن اسے دبا دیا گیا تاکہ مزدور اور ان کے خاندان والے مایوسی کے شکار نہیں ہوجائیں ، جن حالات میں ان کی زندگی گذر رہی تھی ، اس میں آدمی ڈپریشن میں چلا جاتا ہے، مایوسی کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ کبھی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، ان حالات کے باوجود کام جنگی پیمانے پر کیا جا تارہا،کھداءی کے لیے جنہوں نے جان ہتھیلی پر لے کر کام کیا ان میں چار مسلمان  تھے۔منا قریشی  کی جانباز ی کاتذکرہ تو مڈیا والوں نے خوب کیااس مہم کے مقامی اور مرکزی ذمہ دار بھی مسلمان تھے،پی ایم او آفس نگرانی کرتی رہی، فوج کے سو جوان، آئی ٹی بی پی کے ایک سو پچاس ، این ڈی آر ایف کے پچاس ، ایس ڈی آئی ایف کے سوجوان، بیس سے زائد ہندوستانی اور دس غیر ملکی ماہرین اس کام میں لگے ہوئے تھے۔ 

اس حادثہ نے ملک کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، ابھی پورے ملک میں انتیس (29) جگہوں پرسرنگوں کی کھدائی  کا کام ہو رہا ہے، نقل وحمل کی وزارت (سڑک اور پریوہن) نے ان تمام ٹرنل کے تحفظ کے جائزہ کا فیصلہ لیا ہے، اس نے کوکن ریلوے سے معاہدہ کیا ہے کہ سات دنوں میں اس کے حلقے میں بنائے جا رہے ٹرنل کی حفاظتی رپورٹ سامنے آجائے ، اس کام کی ذمہ داری نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا (NHAI)اور دہلی میٹرو کے ماہرین کو دی گئی ہے، یہ سات دنوں میں سبھی ٹرنل کا جائزہ لے کر نقل وحمل کی وزارت کو رپورٹ کریں گے۔ 

ان دنوں جن مقامات پر ٹرنل بنانے کا کام چل رہا ہے،وہ ہماچل پردیش میں 12،جموں کشمیر میں 6، اڈیشہ اور راجستھان میں دو ، دو، مدھیہ پردیش ، کرناٹک، چھتیس گڈھ، اترا کھنڈ اور دہلی میں ایک ایک  ہیں، ان سرنگوں کی مجموعی لمبائی کم وبیش اناسی (79)کلومیٹر ہے۔ 

آئندہ ٹرنل کی تعمیر میں کسی قسم کا کوئی حادثہ نہ ہو اس کے لیے ٹیکنیکل اورجغرافیائی صورت حال کا جائزہ لینا ضروری ہوگا، کیوں کہ اس قسم کے حادثات ٹکنیکل اور جغرافیائی مطالعہ کی کمی کے نتیجے میں ہی واقع ہوتے ہیں، کام کے شروع کرنے کے پہلے یہ جاننا ضروری ہےکہ یہاں زمین دھنسنے اور پہاڑ کے تودے کے گرنے کے کس قدر امکانات ہیں اس کے بعد ہی کام آگے بڑھا نا چاہیے، سرنگوں کی تعمیر سے پہلے ایک پائلٹ سرنگ  بھی تیار کرنا چاہیے اور معاون انتظامات مکمل ہونے چاہیے، تبھی اس قسم کے حادثات سے بچا جا سکے گا۔  حادثات تاریخ اور وقت بتا کر نہیں آتے اس لیے پہلے سے کیے گیے حفاظتی تدابیر کے ذریعہ ہی اس قسم کے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔

جمعرات, دسمبر 07, 2023

ڈاکٹر امام اعظم


ڈاکٹر امام اعظم
اردودنیانیوز۷۲
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ


شعر وادب تنقید وتحقیق اور صحافت کی معروف ، مشہور اور مقبول شخصیت ڈاکٹر امام اعظم نے اپنی خوابگاہ کولکاتہ میں 23؍ نومبر2023ء کو آخری سانس لی، رات کو نماز ، کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر دوستوں کی مجلس میں ساڑھے گیارہ بجے تک مشغول رہے او رپھر سوئے تو سوئے رہ گیے، کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ روح کب پرواز کر گئی، صبح کو چہل قدمی کے ان کے جو رفقاء تھے، ان کو نہ پا کر دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ ایسی جگہ جا چکے تھے، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا، موبائل کان سے لگا ہوا تھا، جیسے انہوں نے آخری وقت میںا پنے حالات بتانے اور طبی امداد کے لیے کسی کو فون کرنا چاہا ہو، لیکن رابطہ نہ ہو سکا ہو، جوپوری زندگی دوسروں کی خدمت میں لگا رہا ، اللہ نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ وہ آخری وقت میں دوسروں کا دستگیر اور احسان مند ہو، جنازہ کا فی تاخیر سے کل ہو کر ان کی مستقل قیام گاہ گنگوارہ بیلا موڑ دربھنگہ پہونچا ، جمعہ کی نماز کے بعد ان کے قائم کردہ مدرسہ البنات فاروقیہ کے صدر مدرس مولانا محمد مستقیم قاسمی نے جنازہ کی نماز پڑھائی، جنازہ اعلان شدہ وقت سے پہلے ادا کیے جانے کے باوجود مجمع اچھا خاصا تھا، علماء، صلحاء، شعراء، ادبا اور عام مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی، تدفین ان کے آبائی قبرستان گنگوارہ ہی میں ہوئی، جو ان کے نانا کے مکان کے جنوب میں واقع ہے۔حاضری میری بھی اسی دن ہوئی، لیکن تجہیز وتکفین کا مرحلہ گذر چکا تھا، میں نے ان کے صاحب زادگان ، بھائیوں اور متعلقین سے تعزیتی کلمات کہے، انہیں حوصلہ دلایا اور راضی برضا ئے الٰہی رہنے کی تلقین کی ، پس ماندگان میں ڈاکٹر زہرہ شمائل بنت سید منظر امام (م24؍اگست 2018) دو لڑکے ڈاکٹر نوا امام ، صحافی انجینئر فضا امام اور ڈاکٹر حیا فاطمہ کو چھوڑا۔

ڈاکٹر امام اعظم کا اصل نام سید اعجاز حسن تھا، مظہر امام اور منظر امام سے خاندانی تعلق اور مصاہرت تھی، انہوں نے اپنا قلمی نام امام اعظم منتخب کیا اوار ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے یہ نام اس قدر مقبول اور زبان زد عام وخاص ہوا کہ اصل نام پر دۂ خفا میں چلا گیا، ان کی ولادت 20؍ جولائی1960کو محلہ گنگوارہ دربھنگہ میں محمد ظفر المنان ظفر فاروقی عرف گیندا (م24؍اگست 2010،مطابق 13؍ رمضان المبارک 1431ھ ) بن مولوی نہال الدین (م1990) بن مولوی محمد جمال الدین بن مولوی اکبر علی (ساکن موضع بھیرو پور موجودہ ضلع ویشالی )اور بی بی مظہر النساء ، بیگم نرگس (م 4؍ مئی1970) کے گھر ہوئی، جہاں ان کے والد اپنے سسر محمد امیر السلام عرف مجھلے بابو (م ۲۱؍ جنوری ۱۹۷۷ء) کی ایما سے 1965میں موضع مدھے پور دربھنگہ سے نقل مکانی کرے آبسے تھے اور اپنا مسکن ’’کاشانہ فاروقی‘‘ کے نام سے تعمیر کرلیا تھا، گنگوارہ میں ظفر فاروقی نے ایک بیگہ زمین خرید کی تھی، کاشانہ فاروقی اسی کے ایک حصہ پر موجود ہے، ڈاکٹر امام اعظم نے متھلا محل کمپلکس محلہ گنگوارہ ، ڈاکخانہ سارا موہن پور ضلع دربھنگہ میں ’’ادبستان‘‘ کے نام سے اپنا مکان تعمیر کرایا اور والدین کی یاد میں اپنا ہی ایک شعر کندہ کراکے لگوایا وہ یہ ہے۔

خدا کی امانت ہم اس کے مکیں ہے گینداؔ ونرگس ؔکا باغ حسین

 ڈاکٹر امام اعظم ہر دم رواں پیہم جوان رہنے والی شخصیت تھی،ا نہوں نے تعلیمی اور صحافتی میدان میں بیش بہا خدمات انجام دیں، ان کی ’’ادارت ‘‘ میں نکلنے والے رسالہ’’تمثیل نو‘‘ کی ملک وبیرون ملک میں ایک شناخت تھی، اور اہل علم وقلم میں پذیرائی بھی۔2001 سے مسلسل اتنے علمی، معیاری، ادبی اور ضخیم شماروں کا نکالنا آسان نہیں تھا ، وہ نکالتے بھی تھے اور اہل تعلق تک بڑی محبت سے پہونچاتے بھی تھے،انہوں نے کم وبیش تیس معیاری ادبی کتابیں شاعری، ادب، تنقید وتحقیق ، مونوگراف، شجرے وغیرہ کی شکل میں علمی دنیا کو دیے، ان میں ان کے دوشعری مجموعے نیلم کی آواز، اور قربتوں کی دھوپ بھی شامل ہے، انہوں نے ’’نصف ملاقات‘‘ کے نام سے مشاہیر ادب کے خطوط مظہر امام کے نام مرتب کیا، ان کے نام آئے ہوئے خطوط کو شاہد اقبال نے چٹھی آئی ہے کے نام سے مرتب کیا جو شائع ہو کر مقبول ہوا، ان کی مرتب کردہ کتابوں میں اقبال انصاری فکشن کا سنگ میل، مولانا عبدا لعلیم آسی۔ تعارف اور کلام ، عہد اسلامیہ میں دربھنگہ اور دوسرے مضامین، ہندوستانی فلمیں اور اردو (ادبی جائزے) فاطمی کمیٹی رپورٹ۔ تجزیاتی مطالعہ، نامۂ نظیر، اکیسوی صدی میں ، اردو صحافت، مظہر امام ، نقوش علی نگر: تبصرے ا ورتجزیے، سہرے کی ادبی معنویت، پہلی جنگ آزادی میں اردو زبان کا کردارسے ان کا ادبی اسلوب، مطالعہ کی گہرائی، تجزیوں کی گہرائی، تاریخ وتنقید پر مضبوط گرفت کا پتہ چلتا ہے، ان کا قلم ادب وتنقید ، تاریخ وتحقیق کے حوالہ سے انتہائی رواں تھا اور انہوں نے پوری زندگی اپنی اس صلاحیت سے خوب خوب کام لیا، ان کی خدمات کی پذیرائی بھی ان کی زندگی میں خوب ہوئی، چنانچہ نو کتابیں ان کی شخصیت اور خدمات پر ان کے حوالہ سے مختلف اہل قلم نے تصنیف کیں، جن میں ڈاکٹر امام اعظم: اجمالی جائزہ، دربھنگہ کا ادبی منظر نامہ، ڈاکٹر امام کی ادبی وصحافتی خدمات کے حوالہ سے ، ڈاکٹر امام اعظم کی باز آفرینی ، جہان ادب کے سیاح اور ڈاکٹر امام اعظم کی ادبی جہتیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان کے مجموعۂ کلام قربتوں کی دھوپ کا انگریزی ترجمہ سید محمود احمد کریمی نے کیا، مختصر میں کوئی بات کہی جا سکتی ہے تو وہ یہ کہ مناظر عاشق ہرگانوی کے گذر جانے کے بعد وہ تنہا ایسے ادیب تھے جو تمام اصناف کے ساتھ تحقیق وتاریخ پر بھی سنی سنائی نہیں ، گہری اور شعوری نظر رکھتے تھے۔

 میرے تعلقات ان سے انتہائی قدیم تھے، پہلے فون سے رابطہ رہا، اس کے بعد بالمشافہ ملاقات کی نوبت آئی، وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے، اور میں ہی کیا ان کے اخلاق وعادات ، تواضع وانکساری اور تعلقات نبھانے کی غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے ہر آدمی یہی سوچتا تھا کہ وہ ان سے زیادہ قریب ہے، جن دنوں وہ دربھنگہ ’’مانو‘‘ میں ریجنل ڈائرکٹر تھے اور وہ اس کی توسیع کے لیے کوشاں تھے، خیال آیا کہ کیوں نہ ’’مانو‘‘ کا ایک سنٹر حاجی پور ویشالی میں بھی قائم ہو ،مولانا قمر عالم ندوی اس کام کے لیے آمادہ ہوئے، میں نے ان کی آمادگی دیکھ کر ایک خط اس سلسلے کا دربھنگہ ان کے نام لکھا کہ وہ مولانا قمر عالم ندوی پر اس کام کے لیے اعتماد کر سکتے ہیں اور اگر ایک سنٹر یہاں کھل گیا تو مجھے خوشی ہوگی، انہوں نے فی الفور اس کی منظوری دیدی، مولانا قمر عالم ندوی کی محنت سے جب تک وہ دربھنگہ میں رہے،یہ مرکز دکھ رام سکھ رام کالج حاجی پور میں چلتا رہا،ا فسوس کہ ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا، انتقال کے وقت وہ کولکاتہ ریجنل سنٹر کے ڈائرکٹر تھے اور بہت اچھا کام کر رہے تھے، جب بھی کولکاتا جانا ہوتا ان کے یہاں حاضری ہوتی، ضیافت کرتے، محبت سے اپنی کتاب دیتے اور اس وقت کا عکس تمثیل نو میں محفوظ کر دیتے، یہ ان کی محبت کی ہی بات تھی کہ انہوں نے ڈاکٹر نوا امام کی نکاح خوانی کے لیے بحیثیت قاضی مجھے منتخب کیا تھا او رمیرے ہی ذریعہ یہ کام انجام پایا۔

 جب بھی ان کی کوئی نئی کتاب یا تمثیل نو کا شمارہ آتا تو وہ پہلے بذریعہ ڈاک مشہور ادیب اور اردو کے حوالہ سے انتہائی فعال شخصیت انوار الحسن وسطوی کے پاس میرے نام کی کاپی بھی ارسال کر تے اور وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے مجھ تک پہونچ جاتی، لیکن جب ان کے صاحب زادہ ڈاکٹر نوا امام کی شادی محمد ابو رضوان صاحب ساکن لال پھاٹک جمال الدین چک کھگول کی لڑکی ڈاکٹر بینش فاطمہ سے ہوئی تووہ یہ کام اپنے سمدھی سے لینے لگے اور ان کے سمدھی ابو رضوان پابندی سے سعادت سمجھ کر یہ کام انجام دیتے، ڈاکٹر امام اعظم کی محبت ہی کی بات تھی کہ جہاں کہیں میرا نام داخل نہیں ہو سکتا تھا وہاں بھی وہ میرے داخلے کی شکل نکال لیتے تھے، انہوں نے اپنی کتاب ’’نگارخانہ کولکاتہ‘‘ میں ویشالی کے اس فقیر کو شامل کرنے کے لیے واردین کے حوالہ سے جگہ نکالی اور میرے اوپر اشعار کہے، جو اس کتاب میں شامل ہے
ڈاکٹر ایم صلاح الدین نے جب گنگوارہ ادب وتہذیب اور علم ورفان کا مرکز کے عنوان سے جو مضمون لکھا، اس میں گنگوارہ آنے والوں میں میرا بھی نام درج کرایا، عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برھولیاوی جب میرے اوپر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کی نظر میں،کتاب تالیف کی تو انہوں نے میرے اوپر بحر وبر کی گہرائی کے عنوان سے طویل نظم لکی جو اس کتاب کے صفحہ 53 سے 56 تک شائع شدہ ہے۔ نگار خانہ کولکاتہ طبع ہو کر آئی تو اس میں کولکاتہ کی مذہبی شخصیات کا تذکرہ نہیں تھا، خصوصا مولانا ابو سلمہ شفیع کا، میں نے ایک طویل خط انہیں لکھا اور بتایا کہ جو مولانا ابو سلمہ شفیع، حکیم محمد زماں حسینی، ابو کریم معصومی وغیرہ ان لوگوں میں تھے جنہوں نے طویل کیونسٹ حکومت میں مذہبی اقدار اور دینی علوم کی پاسداری کی اس لیے ان حضرات کی شمولیت کے بغیر یہ نگار خانہ مکمل نہیں ہے، انہوں نے اس خط کو تمثیل نو میں شائع کیا اور بعد میں یہ چھٹی آئی ہے میں بھی شامل ہوا، انہوں نے کئی مضامین تمثیل نو میں شائع کئے، تازہ شمارہ تمثیل نو کا جو وہ پریس کو دے کر رخصت ہوئے اس میں انہوں نے میرے دو مضامین شائع کیے۔

ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی کا دوسرا بڑا میدان تعلیمی تھا، اوپر لکھا جا چکا ہے کہ وہ مولانا آزاد یشنل یونیورسٹی کے کولکاتہ ریجنل آفس کے ڈائرکٹر تھے، اس کے علاوہ انہوں نے 2010 میں الفاروق ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ گنگوارہ میں قائم کیا تھا، جس کے تحت وہ مدرسۃ البنات فاروقیہ، فاروقی آئی ٹی آئی، فاروقی اورنٹیل لائبریری، مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونیورسٹی کا نالج ریسورس سنٹر 225 چلا کرتا ہے، اللہ کرے یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہ سکے۔

 میری آخری ملاقات اکتوبر کے اواخر میں ان سے ان کے دفتر 1اے/ 1 چھاتو بابو لین (محسن ہال) کولکاتا میں ہوئی تھی، استقبال کے لیے دفتر سے نیچے اترے، واپسی میں پھر گاڑی پر چھوڑنے آئے، علمی ادبی مسائل پر دیر تک گفتگو رہی، کئی پروجکٹ پر کام کے لیے تبادلہ خیال ہوا، یہ آخری موقع تھا ان سے تبادلہ خیال کا اللہ رب العزت ان کی مغفرت اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے، اب یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ’’کہیں سے آب بقاء دوام لا ساقی‘‘ بقاء دوام تو صرف اللہ کو حاصل ہے، بندوں کو تو ایک نہ ایک دن جانا ہی ہوتا ہے، البتہ اس شعر کا پہلا مصرعہ حسب حال ہے۔ 

جو بادہ کش تھے اٹھتے جاتے ہیں

جھوٹوں پر اللہ کی لعنت

جھوٹوں پر اللہ کی لعنت
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

بدگمانی، طعن وتشنیع، چغل خوری کی طرح جھوٹ بولنا بھی ان دنوں عام ہے اور اسے گناہ ہونے کا خیال لوگوں کے دلوں سے نکل گیا ہے، لوگ کثرت سے جھوٹ بولتے ہی نہیں، جھوٹ لکھتے بھی ہیں اور جھوٹی گواہی بھی دیا کرتے ہیں، ایسا کرتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرآن واحادیث میں مذکور ہے اور جس بات کو اللہ کے رسول کہہ دیں اس سے سچی بات اور کس کی ہو سکتی ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ فَنَجْعَلْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلی الکَاذِبِیْنَ۔ اللہ کی لعنت کریں ان پر جو جھوٹے ہیں، (سورۃ آل عمران: ۶۱) ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ (سورۃ مؤمن: 28)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جھوٹ سے بچتے رہو، اس لیے کہ جھوٹ فسق وفجور اور جہنم کی طرف لے جانے والی چیز ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے، جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے بالآخر اللہ رب العزت کے یہاں اس کا نام جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے، جھوٹ کی شناعت بیان کرتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ آدمی کے جھوٹ بولنے کی بد بو کی وجہ سے رحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں، ایک حدیث میں منافق کی تین علامتوں میں سے ایک جھوٹ کو قرار دیا گیا اور تینوں علامتوں کے ذکر میں سر فہرست اسے رکھا گیا، فرمایا: اذا حدث کذب۔ اور دوسری حدیث میں منافق کی چار علامتیں بیان کی گئیں، اس میں دوسرے نمبر پر اس جملہ کو رکھا گیا، اس سے جھوٹ کی شناعت کا پتہ چلتا ہے، مسند احمد اور بیہقی کی ایک روایت میں مذکور ہے کہ جھوٹ ایمان کی ضد ہے اور مؤمن جھوٹی خصلت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا، مسند احمد ہی میں ہے کہ ایک دل میں سچ اور جھوٹ دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔
 ان دنوں سماج میں مختلف قسم کے جھوٹ رائج ہیں، جھوٹ بولنا تو عام سی بات ہے، جھوٹ لکھنا بھی اسی میں شامل ہے، دفتر کا وقت جو مقرر ہے، وقت پر نہ آکر آمد میں اس وقت کا اندراج کرنا، یا رفت کا جو وقت مقرر ہے اس سے پہلے جا کر وقت کے کالم میں دفتر کا آخری وقت بھرنا، یہ جھوٹ لکھنا ہے، اسی طرح تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کسی کے بارے میں جانتے ہوں کہ اس کے اخلاق وعادات ٹھیک نہیں ہیں، مگر کیرکٹر سرٹیفیکٹ میں اس کے بر عکس لکھنا تحریری جھوٹی گواہی دینے کے زمرے میں آتا ہے۔جھوٹی سفارش کرنا، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے  وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِکہہ کر جھوٹی باتوں سے بچنے کو کہا ہے، تجارت میں عیب دار سامان کو درست اور نقلی کو اصلی کہہ کر فروخت کرنا جھوٹ کی ایسی قسم ہے، جس میں جھوٹ کے ساتھ فریب اور دھوکہ بھی پایا جاتا ہے۔
ارشاد فرمایا کہ بد گمانی سے بچو، کیوں کہ کسی کے خلاف بد گمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، جھوٹ کی ایک قسم  یہ بھی ہمارے یہاں رائج ہے کہ گھر سے نکلتے وقت بچے نے دامن پکڑااور کہا کہ ابا! ٹافی لیتے آئیے گا، آتے وقت ہم نہیں لائے تو یہ جھوٹے وعدہ جیسا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس قسم کے معاملات سے  بچیں جس میں جھوٹ کا شائبہ بھی ہو، حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ان کی والدہ نے انہیں اپنے پاس بلایا کہ وہ کچھ انہیں دیں گی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تمہارا کیا دینے کا ارادہ تھا، ان کی والدہ نے کہا کہ کھجور دینے کا ارادہ تھا، فرمایا: اگر تم اسے کھجور نہ دیتی تو تمہارے نامہئ اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا۔
کسی بات کو حقیقت کے خلاف کہنا یا لکھنا جھوٹ کہلاتا ہے، جھوٹ کبھی تو دفع مضرت کے لیے بولا جاتا ہے اور کبھی جلب منفعت یعنی نفع کے حصول کے لیے، آج کل خوشامد کرنے والے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے خلاف واقعہ جو باتیں ذکر کرتے ہیں وہ بھی جھوٹ کی اعلیٰ قسم ہے، جو نفع کے حصول کے لیے بولا جاتا ہے، بزرگوں کے بارے میں ایسی کرامات کا بیان جو کبھی ظہور پذیر نہیں ہوئے اور اسے لوگوں میں عقیدت پیدا کرنے کے لیے مریدوں نے پھیلا دیے، یہ بھی جھوٹ ہے، جس کو آج کل لوگ جھوٹ سمجھتے ہی نہیں، جھوٹ بولنا کسی بھی طرح مسلمانوں کے شایان شان نہیں ہے، اس سے خود اس شخص کا وقار تو گرتا ہی ہے، پوری ملت کے بارے میں بد گمانی پیدا ہوتی ہے، جھوٹ لکھنے کی ایک قسم ”حسابات کی تصنیف“ ہے، ٹی اے، ڈی اے اور سفر خرچ کے نام پر غلط اندراج کرنا اسی قبیل کی چیز ہے، بعض دفعہ حسابات کی یہ تصنیف اس قدر مضحکہ خیز ہوتی ہے کہ اس کا جھوٹ روشن دن کی طرح عیاں ہوتا ہے، لیکن جھوٹ لکھنے والے کو  توتصنیف کرنی ہے اور سفر خرچ کے نام پر زیادہ سے زیادہ روپے وصولنے ہیں اس لیے عقل بھی ماری جاتی ہے اور جھوٹ لکھنے کا وبال الگ ہوتا ہے، اسے کہتے ہیں دنیا کے متاع قلیل کے حصول کے لیے آخرت تباہ کرنا۔
 جھوٹ کی یہ شناعت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب جھوٹا شخص صاحب اقتدار بھی ہو، ایسے شخص کی پہلی سزا تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے نظر کرم سے محروم ہوگا، باری تعالیٰ نہ تو اس سے بات کریں گے اور نہ ہی اس کو معاف کریں گے،ا س صورت حال کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اسے جنت میں داخل ہونے سے روک دیا جائے، مسند بزار کی ایک روایت ترغیب وترہیب میں یہ بھی منقول ہے کہ تین شخص جنت میں نہیں جا سکتے،بوڑھا، زنا کار، جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر۔
 جھوٹ بولنے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ہنسنے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولا جائے، ایسے شخص کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تباہی اور بر بادی کی دعا کی ہے یہ روایت ابو داؤد اور ترمذی شریف دونوں میں مذکور ہے کہ جو شخص ہنسنے، ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے اس کے لیے بر بادی ہے، حدیث میں ”ویل“ کا لفظ آتا ہے، جو جہنم کے طبقوں میں سے ایک طبقہ بھی ہے۔
 جھوٹ بولنے کو حدیث میں خیانت سے تعبیر کیا گیا ہے اور خیانت بھی بڑی خیانت، کیوں کہ سامنے والا اس کی بات کو سچ مان رہا ہے، حالاں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے،ہمیں اچھی طرح یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جھوٹ ہلاک اور برباد کرنے والی چیز ہے، نجات صدق ہی میں ہے، فرمایا گیا: ”الصِّدْقُ یُنْجِیْ وَالکِّذْبُ یُھْلِکْ“ سچ سے نجات ملتی ہے اور جھوٹ سے آدمی ہلاک ہوجاتا ہے، بچپن میں ہم لوگوں نے ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک چرواہا روز آواز لگاتا تھا کہ بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا، کئی روز تک لوگ اس کی آواز پر لوگ دوڑتے رہے اور اس کے جھوٹی آواز لگانے سے پریشان ہوکر لوٹتے رہے، عاجز آکر لوگوں نے اس کے شور کرنے کو جھوٹا سمجھ کر مدد کے لئے آنا چھوڑ دیا، ایک دن واقعتا بھیڑیا آگیا، اس نے بہت آواز لگائی، کوئی نہیں آیا، بالآخر بھیڑیے نے اپنا کام کرلیا اور اس کو ہلاک کرڈالا، اس کہانی کو پڑھا کر استاذ بتاتے تھے کہ اس سے سبق ملتا ہے کہ جھوٹ بولنے سے لوگوں کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور بے اعتمادی انسان کو ہلاکت کے دہانے تک پہونچا دیتی ہے۔
 یہاں پر وہ مشہور روایت بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ ایک صاحب جو بہت سارے گناہ میں ملوث تھے، اپنے گناہوں کا اقرار آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کیا اور یہ بھی عرض کیا کہ ایک ہی گناہ کو میں چھوڑ سکتا ہوں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جھوٹ چھوڑنے کا حکم دیا، وہ اس پر عامل ہوگیا اور اسلام بھی لے آیا تو سارے گناہ دھیرے دھیرے اس کیچھوٹ گئے کہ جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کرلیا تھا اور سچ بولنے کی شکل میں داروگیر کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔
جھوٹ بولنے کا بڑا نقصان یہ ہے کہ جب انسان مسلسل جھوٹ بولتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے پھر تسلسل کی وجہ سے یہ دھبہ بڑھتا رہتا ہے تاآنکہ اس کا قلب توے کی طرح سیاہ ہوجاتا ہے اور اس مرحلہ میں داخل ہوجاتا ہے کہ جب اس کے دل، آنکھ اور کان پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ خیر قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے، البتہ اگر اس نے پہلے مرحلہ میں ہی توبہ کرلیا تو وہ دھبہ مٹ جاتا ہے اور خیر کی طرف رغبت کا احساس باقی رہتا ہے، اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔

درس کو مفید و موثر بنانے کے لئے مستقل سوچنے اور غور فکر کرتے رہنے کی ضرورت :امیر شریعت و صدر وفاق المدارس

 درس کو مفید و موثر بنانے کے لئے مستقل سوچنے اور غور فکر کرتے رہنے کی ضرورت :امیر شریعت و صدر وفاق المدارس 
Urduduniyanews72
مظفر پور07دسمبر 2023 (پریس ریلیز) وفاق المدارس الاسلامیہ کے زیر اہتمام مدرسہ دار الملت، رامپور سگھری بلبھدر پور میں منعقدوفاق المدارس الاسلامیہ کے زیر اہتمام بین المدارس اجتماع کے دوسرے دن کی پہلی مجلس کی صدارت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی، نائب امیر شریعت نے کی جب کہ چوتھی نششت کی صدارت امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی( جو وفاق المدارس کے صدر بھی ہیں )نے کی ان دونوں مجلسوں میں  فقہ و اصول فقہ کی عملی تدریس پر مولانا عبد العلیم ندوی،ازہری، تدریس میں وسائل کے استعمال پر، مفتی خالد حسین نیموی قاسمی، مفتی اشرف عباس قاسمی استاذ دار العلوم دیو بند نے تفسیر،اصول تفسیر،حدیث،اصول حدیث کی تدریس اور نائب امیر شریعت مولانا شمشا در حمانی نے مطالعہ کی اہمیت اور ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ مفتی محمد ثنا الہدی قاسمی نے تدریس میں مطالعہ کو مشاہدہ بنانے کی ضرورت پر گفتگو کی۔ امیر شریعت و  صدر وفاق المدارس اسلامیہ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ درس کو مفید و موثربنانے کے لئے مستقل سوچنے اورغور فکر کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کی ذہنی صلاحیت کو سامنے رکھ کر گفتگو کریں۔ انھیں درس میں شریک کریں۔ آسان زبان میں تعلیم دیں، فیڈ بک لیں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھاریں تو بات جلدی سمجھ میں آئے گی۔ نائب امیر شریعت مولانامحمد شمشاد رحمانی قاسمی نے کہا کہ تدریس میں مطالعہ کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اگر آپ کے ذہن ودماغ میں سبق کے سلسلے میں کچھ نہیں ہے تو آپ بچوں کو کیا پڑھائیں گے۔ البتہ مطالعہ میں استیعاب اور درس میں انتخاب ہونا چاہئے یعنی مطالعہ تو پورا پورا کریں لیکن طلبا کو صرف منتخب حصہ ہی پیش کریں۔مفتی خالد حسین نیموی نے کہا کہ درس کو مؤثر اور طلبا کے ذہن نشیں کرنے کے لئے تدریس میں وسائل کے استعمال کی سخت ضرورت ہے اس کے لئے بلیک بورڈ وھائٹ بورڈ اٹلس اور کمپیوٹر وغیرہ کا استعمال کرنا چاہئے۔ اس سے قبل مجلس کی صدارت وفاق المدارس کے ناظم مفتی محمد ثنا الہدی قاسمی نے اور تیسری مجلس کی صدارت مولانا اختر امام عادل بانی و ناظم جامعہ ربانی منور اشریف نے کی۔ ان نشستوں میی  ، مولا نا حماد کریمی مسقط عمان نے عربی زبان و ادب کی تدریس بحیثیت زندہ زبان اور مولانا خالد ضیاء ندوی نے عربی  زبان کی تدریس کے مسائل پر گفتگو کی۔ ناظم وفاق المدارس اسلامیہ نے اردو، فارسی، عربی کی حروف تہجی کی شناخت اور مفرادات کے صحت کے ساتھ پڑھنے کے طریقوں پر روشنی ڈالی۔ مولانا اختر امام عادل نے کہا کہ علم کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور اس کی تدریس میں اس کے مزاج کی رعایت کرنی ضروری ہے۔ متعلقہ طلبہ کے مزاج سے علاحدہ ہو کر مختلف طریقہ تدریس اختیار کرنا مفید مطلب نہیں۔ بلکہ مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ مولانا نورالدین ندوی ازہری، استاد جامعہ رحمانی، مونگیر نے بلوم ٹیکسولو جی کا تعارف کراتے ہوئے کہا کے دراصل سیکھنے کے مرحلوں کی درجہ بندی ہے۔ یہ درجہ بندی معرفت،سمجھ فہم، استخدام و تطبیق، تحلیل و تجزیہ، ترکیب اور جائزہ میں منحصر ہے۔ ذرائع کے اعتبار سے اس کی درجہ بندی دماغی جذباتی اور جسمانی طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔ مولا نا حماد ندوی نے کہا کہ عربی ایک زندہ زبان ہے اور اس کو زندہ زبان  کی حیثیت سے ہی پڑھایا جانا چاہئے۔ اس کے لئے مدارس میں عربی بول چال اور تحریر کا ماحول بنایا جانا چاہئے۔ پانچویں نششت کا اختتام حضرت امیر شریعت کی دعا پر ہوا جبکہ تیسری نششت کی دعا مولا نا عبد القوی سابق صدر مدرسہ دارالملت، رام پور سگھری بلبھدر پور نے کی۔نعت خوانی مولانا نظر الہدی قاسمی نے کی ۔یہ اطلاع مولا نا منت اللہ حیدری  شعبہ تعلیم امارت شرعیہ نے دی ہے۔

ہفتہ, دسمبر 02, 2023

مجاہد آزادی -شفیع داؤودی

مجاہد آزادی -شفیع داؤودی
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 

اوسط قد، گورا رنگ، گورا بدن، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر پر جناح کیپ، خوش طبع، خوش مزاج مسکراہٹ بر لب یہ تھے مشہور مجاہد آزادی جو اپنے عالمانہ وضع قطع، مولو یا نہ رکھ رکھاؤ کی وجہ سے عوام و خواص میں مولانا محمد شفیع داؤدی اور حسن نظامی کی نظر میں ”مولا نا ہنس مکھ“ تھے شفیع واؤ دی 27 اکتوبر 1875ء مطابق 26 رمضان 1219 (کار تک 1383 فصلی بروز بدھ ویشالی ضلع (سابق مظفر پور) کے داؤ دنگر میں محمد حسن کے گھر پیدا ہوئے، بارہ سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا جس نے انہیں حساس بنا دیا، میٹرک چھپرہ ضلع اسکول سے کرنے کے بعد، بی، اے، بی ایل تک اپنی تعلیم جاری رکھی، لیکن ٹیوشن پڑھا کر، لیمپ پوسٹ کی دھندھلی روشنی میں پڑھ کر اور سخت مالی دشواریوں کا سامنا کر کے آگے بڑھتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر مفلسوں کے لیے جذبۂ ہمدردی اور جبرو استحصال کے خلاف نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا ہو گیا تعلیم کے بعد وکالت کی طرف متوجہ ہوئے، مظفر پور میں پریکٹس اچھی چل رہی تھی کہ تحریک ترک موالات چھڑ گئی، مولانا شفیع داؤدی نے وکالت چھوڑ کر تحریک ترک موالات میں حصہ لینا شروع کیا،27ستمبر1912ء میں ایک سال بکسر جیل میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، جیل سے رہا ہونے کے بعد جون 1920ء میں وہ مظفر پور کانگریس کمیٹی کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور 1927ء تک اس عہدہ پر فائز رہے، 7/ دسمبر 1920ء کو مہاتما گاندھی علی برادران کے ساتھ مظفر پور آئے اور مولانا داؤدی کے مکان پر ٹھہرے، اس وقت سے ان کا گھر جنگ آزادی کا مرکز ہو گیا، مولانا داؤدی ضلع کانگریس کے روح رواں بن گئے اور انہوں نے اپنی قیمتی زمین کا نگریس کے دفتر کے لیے پارٹی کو دے دی، گاندھی جی نے جب بدیسی کپڑوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، اور بون فائر، Bon Fire کا سلسلہ شروع ہوا تو مولانا اپنی بیوی بچوں کے ساتھ گھر گھر سے بدیسی کپڑے لا کر نذر آتش کرنے میں لگ گئے۔ اکتوبر 1921ء میں آرہ میں بہار کانگریس کے میٹنگ کی صدارت کی اور پرنس آف ویلز کے ہندوستان آمد پر بائیکاٹ کا فیصلہ لیا، اسی سال وہ صوبائی کانگریس کے نائب صدر منتخب ہوئے، 30 ا کتوبر کو جنگ آزادی کے مرکز ہونے کی وجہ سے ان کے گھر پر چھاپا مارا گیا مسلسل 12 گھنٹے تلاشی کا کام جاری رہا، جس میں پولیس کو جنگ آزادی سے متعلق بہت سارے خطوط، سائیکلو اسٹائل مشین وغیرہ ملے، چنانچہ انہیں قید کر کے ہزاری باغ جیل بھیج دیا گیا، 1922ء میں وہ رہا کئے گئے اور کانگریس کے گیا اجلاس میں شریک ہوئے، کلکتہ کے اجلاس کو کامیاب کرنے میں بھی انہوں نے گاندھی جی کے دوش بدوش کام کیا1931ء میں دوسری گول میز کا نفرنس میں مولانا داؤدی نے گاندھی جی کے ساتھ شرکت کی، یہیں علامہ اقبال سے مولانا کی ملاقات ہوئی، جس کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم کا نفرنس کا وجود ہوا اور جنرل سکریٹری کی حیثیت سے آپ نے اس کی قیادت سنبھالی 1935 کے قانون کی رو سے 1937ء میں جدا گانہ انتخاب کے اصول پر بہار میں انتخابات ہوئے تو مولانا داؤدی ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد کی پارٹی کے امیدوار بدر الحسن وکیل سے انتخاب ہار گئے، جس سے ان کی طبیعت بجھ سی گئی 1924ء سے1934ء تک وہ سنٹرل لجسلیٹو اسمبلی دہلی کے ممبر رہے، 25 جنوری 1949ء کو رام باغ میں انتقال کیا۔
ہند و مسلم اختلاف اور ذات پات کی لعنت کے ہندوستانی سیاست میں داخل ہونے کی وجہ سے مولانا شفیع داؤدی نے آزادی کے قبل ہی اپنے کو سر گرم سیاست سے الگ کر لیا، ان پر مذہبی رنگ پورے طور پر چھا گیا، حسنین سید کی ملاقات سے وہ جماعت اسلامی کے قریب ہوئے اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک سماج کی خدمت جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کرتے رہے۔
مجاہدین آزادی میں وہ ڈاکٹر راجندر پرشاد اور مولانا مظہر الحق کے ساتھ صف اول کے لیڈر تھے ان میں قربانی کا جذبہ تھا، اور نام و نمود سے وہ دور بھاگتے تھے، اسی لیے 1920ء سے1947ء تک سرگرم رہنے والے اس مجاہد کو لوگوں نے بھلا دیا، جب کہ کے۔ کے۔ دتا نے اپنی کتاب ”بہار کی جنگ آزادی کی داستان“ کی پہلی جلد میں، انگریز مورخ ڈیوڈ، بیچ نے ”انڈین مسلم اینڈ دی ایمپاریل سسٹم اور کنٹرول“ میں انہیں ملک گیر حیثیت کا لیڈر تسلیم کیا ہے۔ ڈکشنری آف نیشنل لیڈرس میں بھی مولانا کا ذکر موجود ہے۔ جاوید اقبال نے ”زندہ رود“ میں بھی انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے، لندن کی برٹش میوزیم لائبریری، کلکتہ کی رشل لائبریری اور دہلی کی نیشنل آرکائیوز میں مولانا سے متعلق تفصیلی مواد موجود ہے۔

جمعرات, نومبر 30, 2023

جھوٹی خبریں مفاسد و نقصانات

جھوٹی خبریں مفاسد و نقصانات
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
Urduduniyanews72@gmail.com 
معاشرہ اور سماج کو جن چیزوں سے بڑا نقصان پہونچتا رہا ہے ان میں ایک جھوٹی خبریں بنانا، اس کی تشہیر کرنا اور اس طرح پھیلا نا کہ وہ افواہ کا رخ اختیار کرلے، بھی ہے، اس سے سماج کو سخت نقصان پہونچتا ہے، اسی لیے شریعت نے اس پر زور دیا ہے کہ اگر تمہارے پاس کوئی شریر آدمی ایسی خبر لائے (جس میں کسی کی شکایت ہو) تو (بدون تحقیق کے اس پر عمل نہ کیا کرو،بلکہ اگر عمل کرنا مفقود ہو تو) خوب تحقیق کر لیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہونچا دو، پھر اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔ (سورۃ الحجرات: ۶، ترجمہ حضرت تھانوی)
اس آیت پر گفتگو کرتے ہوئے امام ابو بکر جصاص ؒ نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ کسی فاسق کی خبر کو قبول کرنا اور اس پر عمل در آمد اس وقت تک جائز نہیں ہے، جب تک کہ دوسرے ذرائع سے اس خبر کے صحیح اور سچی ہونے کی تصدیق نہ ہوجائے، اسی سلسلے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ جوکچھ سنے دوسرے سے بیان کردے۔ (رواہ المسلم فی المقدمہ) اور جھوٹو ں پر اللہ کی لعنت قرآن کریم میں مذکور ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔ (متفق علیہ) یہ معاملہ اس قدر جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا سب اس میں شامل ہے۔
غیر تو غیر مسلمان بھی ان احکام وہدایات پر آج عمل پیرا نہیں ہے، اسے جھوٹی خبریں پھیلانے میں مزہ آتا ہے، اس کی وجہ سے وہ خود تو لعنت میں مبتلا ہوتا ہی ہے، سماج اور معاشرے پر بھی اس کے انتہائی مضر اثرات پڑتے ہیں اور بسا اوقات یہ جھوٹی خبریں اور افواہ بڑے فتنہ، فساد، قتل اور غارت گری کا ذریعہ بن جاتا ہے، سوشل میڈیا کے اس دور میں جھوٹی خبریں آگ کی طرح پھیلتی ہیں اور بہت کچھ خاکستر کر دیتی ہیں، اسی لیے اب جہاں کہیں فتنہ وفساد ہوتا ہے پہلے مرحلہ میں حکومت نیٹ بند کر تی ہے، تاکہ غلط خبریں اور افواہ آگ پر گھی ڈالنے کا کام نہ کرے، حالاں کہ اس کا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ صحیح خبریں لوگوں تک نہیں پہونچ پاتی ہیں، یہ عمل اس قدر مضر اور نقصان دہ ہے کہ اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب آیت 60۔61میں فرمایا کہ ”اگر منافقین اور جن کے دلوں میں خرابی ہے اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمہیں اٹھ کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے ٹِک پائیں گے ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھارہوگی۔“ جہاں کہیں ہوں گے پکڑے جائیں اور قتل کیے جائیں گے۔
مشہور یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، وہ زیادہ دیر اور دور تک چل نہیں سکتا، لیکن ایک تازہ تحقیق کے نتیجے میں جو امریکہ کی مشہور یونیورسیٹی ایم آئی ٹی نے تیار کی ہے بتایا گیا ہے، جھوٹی خبریں اوراطلاعات سچ کے مقابل چھ گنا زیادہ رفتار سے پھیلتی ہیں۔ میسا چوسٹس انسٹی چیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT)کی لیبارٹی برائے سوشل میشنز کے سر براہ ڈیپ رائے جواس تحقیق میں شامل تھے کا کہنا ہے کہ جھوٹ سچ کی بہ نسبت زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، سوا لاکھ سے زائد ایسے مضامین جو جھوٹ پر مشتمل تھے 2006سے 2016تک ٹوئٹ کیا گیا، صارفین نے اسے دوبارہ لاکھوں مرتبہ ٹوئٹ کر دیا، جب کہ سچائی اور حقیقت پر مبنی مضامین ومقالات کو پندرہ سو صارفین تک پہونچا نے میں ساٹھ گھنٹے لگے، جب کہ جھوٹی خبریں صرف دس گھنٹوں میں پندرہ سو صارفین تک پہونچ گئیں۔
 یہاں پر یہ سوال بہت اہم ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جھوٹی خبروں کے پھیلنے کی رفتار تیز ہوجاتی ہے، اس کی وجہ  جھوٹی خبروں کے اندر پائی جانے والی سنسنی خیزی ہے، خلاف توقع واقعات کا مذکورہونا ہے، تجسس، سسپنس کی طرف انسانی فطرت جلد راغب ہوتی ہے اور وہ بلا سوچے سمجھے آج کے دور میں فارورڈ کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے جھوٹی خبریں تیز رفتار بن جاتی ہیں۔
 فرضی خبر کو من گڑھت، بناوٹی اور جھوٹی خبر بھی کہتے ہیں، اس کے لیے انگریزی میں Fake Newsکی اصطلاح مستعمل ہے، یہ پروپیگنڈہ اور زرد صحافت کے قبیل کی چیز ہے، جسے دانستہ غلط بیانی، مبالغہ آمیزی اور دروغ گوئی کے سہارے تیار کیا جاتا ہے۔ ان خبروں پر پابندی لگانے کی غرض سے مختلف ممالک میں قوانین موجود ہیں 2019میں سنگا پور میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے کو دس سال کی سزا اور 738500ڈالرکا جرمانہ لگانے کا قانون بنا ہے، روس میں خصوصی طور سے یوکرین جنگ کے سلسلے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے کو دس سال کی سزا مقرر ہے اور اگر اس نے دانستہ ایسا کیا ہے تو سزا پندرہ سال تک کی ہو سکتی ہے، پاکستان میں جھوٹی خبریں پھیلانے پر پانچ سال کی سزا دی جاتی ہے اور گرفتاری غیر ضمانتی ہوا کرتی ہے۔ہندوستان میں مختلف دفعات کے تحت نقصانات کی بنیاد پر مقرر ہیں۔
 ایک اندازے کے مطابق دنیا میں جتنی من گھڑت خبریں شائع ہوتی ہیں، ان میں اٹھارہ فی صد حصہ داری ہندوستان کی ہے، بھاجپا کے دور حکومت میں اس میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، یہاں حقیقت سے دور جملے پھینکے جاتے ہیں، وعدہ کیا جاتا ہے اور سیاسی پارٹیاں رائے دہندگان کو مخالف پارٹی سے دور اور اپنوں سے قریب کرنے کے لیے بھی اپنے آئی ٹی سیل سے جعلی خبروں کی ترسیل کرتی ہیں اور لوگوں میں بھرم پیدا کرنے کا کام کرتی ہیں، ہندوستان میں یہ عمل انتخاب کے موقع سے اور زیادہ ہوجاتا ہے ان دنوں کئی ریاستوں میں انتخابات ہیں، 2024میں عام انتخابات ہیں اس لیے جھوٹی خبریں بنانے والی کمپنیاں میدان میں آگئی ہیں، اور دھیرے دھیرے رفتار پکڑ رہی ہیں۔
اب ایسا بھی نہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کی حصہ داری جھوٹی خبریں پھیلانے میں بالکل نہیں ہوتی، خوب ہوتی ہے، خاندان، ادارے، تنظیموں میں بھی اس کی خوب خوب کثرت ہوتی ہے، ایسا خاندان کو توڑنے، ادارے وتنظیموں کو کمزور کرنے کے لیے داخلی اور خارجی افراد کثرت سے کیا کرتے ہیں، تاکہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھاسکیں اور اپنے لیے ترقی کے دروازے کھول سکیں، ابتدا میں لوگ اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، لیکن اگر کسی خبر کو اس طرح پھیلا یا جائے کہ جھوٹی ہونے کے باوجود وہ تواتر تک پہونچ جائے تو کون اس پر اعتماد نہیں کرے گا، انگریزوں کا مشہور مقولہ ہے کہ جھوٹ کو اتنا پھیلاؤ اور اس قدر بولو کہ وہ سچ ثابت ہو جائے۔
 ہم لوگوں کے بچپن میں عورت کی ایک قسم ہوا کرتی تھی، جس کا کام ہی خاندان کو توڑنا، پڑوسی، پڑوسی میں دشمنی پیدا کرنا ہوتا تھا اسے ہم لوگ ”کُٹنی بُڑھیا“ کہا کرتے تھے، دو چار بار جب بُڑھیا اس کام میں کامیاب ہوجاتی تو اس کا چرچا ہوتا تھا اور دھیرے دھیرے لوگ یہ جان لیتے تھے کہ یہ سارا کیا دھرا اسی بڑھیا کا ہے، پھر جو ذلت ہوتی تھی، اس کا ذکر کرنا بے سود معلوم ہوتا ہے۔
 سوشل میڈیا اور نیٹ کے اس دور میں ”کُٹنی بُڑھیا“ کا وجود تو اب قصہئ پارینہ ہے، لیکن اس کی جگہ ”وھٹسپ اور سوشل یونیورسٹی“سے منسلک افراد نے لے لی ہے، وہ جھوٹی خبریں گڑھتے ہیں اورپورے اعتماد کے ساتھ سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں اور احباب بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے اسے آگے بڑھاتے رہتے ہیں، اور صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ کان اپنی جگہ سلامت ہے اسے کوئی دیکھنے کی زحمت نہیں کرتا، البتہ”کوا کان لے گیا“ کا پرچار ہوتا رہتا ہے اور بات کہاں سے کہاں پہونچ جاتی ہے۔ان جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کا مبلغ علم بھی زیادہ تر موبائل سے کچھ لکھنے تک محدود ہوتا ہے، ان کے املے، جملے اسلوب، طرز تخاطب دیکھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے، یہ جھوٹی خبریں بغیر تحقیق اور بلا سوچے سمجھے فارورڈ کی جاتی ہیں، اتنے ہی پر بس نہیں ہوتا بلکہ بہت سارے لوگ ان خبروں کو بعینہ نقل کرنے کے بجائے اس میں کچھ نمک مرچ کا اضافہ اپنی طرف سے کرکے مزید سنسنی خیز بناتا چلا جاتا ہے، ایسے میں جب خبر آخری شخص تک پہونچتی ہے تو اس میں جھوٹ کا کئی گنا اضافہ ہوچکا ہوتا ہے، اب معاملہ جھوٹ میں مبالغہ کا ہو جاتا ہے اور مبالغہ بھی ایسا کہ الامان والحفیظ۔ اس لیے ہمیں جھوٹی خبروں پر تحقیق کی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کوئی اقدام کر 
بیٹھیں اور بعد میں ہمیں شرمندگی کا منہہ دیکھنا پڑے، اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...