Powered By Blogger

جمعرات, فروری 01, 2024

آخر میں ایک بات

آخر میں ایک بات 
Urduduniyanews72 
ماہ جنوری کے اختتام پر لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔سخت ٹھنڈک سے سبھی کو نجات ملی ہےاور ہمارےجسم کو آرام نصیب ہوا ہےمگرساتھ ہی اس مہینہ کے اختتام پرکچھ ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں جن سے بالخصوص مسلمانوں کو شدید قلبی تکلیف پہونچی ہےاورہند کےملت اسلامیہ کاجگرپارہ پارہ ہوگیاہے۔ انمیں پہلی خبرملک کی راجدھانی دہلی کے مہرولی کی ہے۔ چھ سو سالہ قدیم اخونجی مسجد جسمیں مدرسہ بھی چل رہا تھا بلڈوز سے شہید کردی گئی ہے،قرآن کریم کے نسخے، اساتذہ وطلبہ کے ساز و سامان سب مسجد کے ملبے کے ساتھ دفن کردئیے گئے ہیں، یہ کارروائی علی الصباح دہلی اتھاریٹی نے پولس کی مدد سے انجام دی ہے۔سب سے پہلے امام صاحب ودیگر موجودین کو یرغمال بنالیا گیا، ان کے موبائل فون ضبط کئےگئےتاکہ کسی کو اس انہدامی کاروائی کی خبر نہ ہوسکے،پھر سب کچھ تہس نہس کردیا گیاہے۔ اس وقت وہاں صرف مٹی کا ڈھیر ہے۔ مسجد کا نام ونشان  تک بھی موجودنہیں ہے۔
دوسری خبر شہر وارانسی سے یہ مل رہی ہے کہ ڈسٹرکٹ جج نے اپنی سروس کے آخری دن گیان واپی جامع مسجد کے تہہ خانے میں ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دے دی ہے، ابھی ابھی یہ خبر  بھی مل رہی ہے کہ راتوں رات مذکورہ مسجد کےتہہ خانے میں مورتی نصب کرکے اس کی پوجا بھی شروع ہوچکی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف مسلم پرسنل لا بورڈ نےالہ آباد ہائی کورٹ میں قانونی چارہ جوئی کی بات کہی ہے اور یہ ضروری بھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نازک ترین وقت میں بیداری کی شدید ضرورت ہے۔سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ آخرکیسی بیداری اور کس کی بیداری مطلوب ہے؟
 سوشل میڈیا میں اس وقت مفکر اسلام حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی ایک آڈیو گشت کر رہی ہے۔جن حالات کا ہم سامنا کررہے ہیں مولانا نے بہت پہلے سے ہی اس کی پیش گوئی فرمادی ہےاور اسے ایک بڑافتنہ کہا ہے،نیز اس کے حل کےلئے آخری بات کہ کر علماء کرام کو خطاب بھی کیا ہے۔
حضرت نےیہ واضح انداز میں فرمادیاہے کہ علماء کرام کی طاقت سے ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہےا۔حضرت کی یہ تقریر پورے ملک کی تصویر بدل سکتی ہے،اور ہم اس برے حالات سے نکل سکتے ہیں، اے کاش اس پر عمل ہو اور پورے ملک کے علماء کرام متحد ہوکر آج ہی سے اس انقلابی کام کو ایک تحریک کی شکل دیکر کرنے لگیں، مولانا فرماتے ہیں ؛
"آخر میں ایک بات کہ کر ختم کرتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان میں ایک ایسا دور ایا ہےجو ہمارے علم میں پہلے کبھی نہیں ایا۔ دور اکبری کو کسی قدر مشابہت ہے لیکن دور اکبری بھی اس درجے میں خطرناک نہیں تھا جتنا یہ دور جو چل رہا ہے۔ اس وقت اکثریت نے یہ طے کر لیا ہے کہ اس ملک کو"اسپین" بنا کر رہیں گے۔ یعنی اس میں مسلمان رہیں گے مگر اپنے تمام ملی تشخصات کو چھوڑ کر۰۰۰۰۰۰۰ اذانیں بھی زور سے نہ ہوں، مسجدوں کی کثرت بھی، مسجدوں کا جائے وقوع بھی اور مسجدوں کا وجود بھی خطرے میں ہے۔ بابری مسجد کے ساتھ جو واقعہ پیش ایا اس نے اس کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔ صاف صاف ہندو اخبار نے بھی اور کالم نگار اور ان کے سوچنے سمجھنے والے انگریزی اخباروں میں بھی جو مضامین نکل رہے ہیں اور ہندی اخباروں میں بھی صاف صاف یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو بالکل ہندو بن کر رہنا ہوگا، ہندوستانی بن کر رہنا ہوگایا مسلمان بن کر رہنے کی اب گنجائش نہیں ہوگی۔ لباس میں ،صورت وشکل میں ، زبان میں،رسم الخط میں اور تہذیب میں سب میں ان تمام امتیازی خصوصیات سے دستبردار ہو جائیں جن سے دور سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ مسلمان ہیں۔
 اس وقت اس فتنے کو روکنے کے لیے سب سے بڑی طاقت ہو سکتی ہے وہ علماء کی ہو سکتی ہے اور ہمارے فضلاء مدارس کی ہو سکتی ہے۔ وہ جہاں جہاں کے رہنے والے ہوں وہاں کی مسجدوں میں تقریر کریں، جمعہ کے دن تقریر کریں، عیدین میں تقریر کریں ،خوشیوں کے موقع پر تقریر کریں، نکاح وغیرہ کی مجلسوں میں تقریر کریں کہ ہمیں پورے ملی تشخص کے ساتھ اس ملک میں رہنا ہےاور کسی ایک چیز کو نہیں چھوڑنا ہے۔ہم اس کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہمارا پاجامہ ٹخنے سے نیچے ہو، ہم اس کے لیے بھی تیار نہیں کہ اپنی داڑھی کو ایسا کر لیں کہ محسوس یہ ہو کہ اتفاقا کچھ بال اگ آئے ہیں۔ ہم بالکل شریعت پر عمل کریں گے، شریعت کے ساتھ رہیں گے، ہمارا نظام تعلیم وہی یہی رہے گا، بچوں کو توحید کی تعلیم دیں گے، دینیات پڑھائیں گے، اردو سے واقف بنائیں گے، اردو رسم الخط کو زندہ رکھیں گے۔ سب سے بڑی ذمہ داری اپ پر عائد ہوتی ہے اور اپ ہی بہتر طریقے پر یہ ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی سن لیجیے اور دل پر لکھ لیجئے کہ اس وقت کا سب سے بڑا فتنہ ہے متحدہ کلچر اور ملی تشخص سے دستبردار ہونا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی حلقے یا علمی حلقے کے بعض لوگ بھی جو قلم کا استعمال جانتے ہیں اور علمی زبان میں بات کر سکتے ہیں وہ بھی اس کی دعوت دینے لگے ہیں کہ مسلمانوں کو اس پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ پرسنل لاکے سلسلے میں جو اصرار کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف خواہ مخواہ ہندوؤں میں اس سےایک رد عمل پیدا ہوا، وہ سمجھے کہ مسلمان بہت تنگ دل اور تنگ نظر ہیں۔
 صاف صاف کہتے ہیں ہم یہاں پوری خصوصیات کے ساتھ رہیں گے، اس کے ساتھ ہم امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم کو اس ملک کی قیادت نصیب فرمائے گا۔ اس لیے کہ اس ملک کی ابادی کا کوئی عنصر اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس ملک کو بچائے خطرے سے۔ سب دولت پرست ہیں،مادہ پرست ہیں، نفس پرست ہیں، طاقت پرست ہیں، اقتدار پرست ہیں، جاہ پرست ہیں۔
 اس لیے ہم عزت کے ساتھ رہیں گے، ہم اپنے تشخص کے ساتھ رہیں گے، سر اونچا کر کے چلیں گے، ہماری نگاہیں شرم سے جھکی ہوئی نہیں ہوں گی بلکہ ہماری نگاہیں بلند ہوں گی۔ اور سمجھیں گے کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ صحیح ہے اور ہندوستان کا دستور اس کی اجازت دیتا ہے۔ ہندوستان اسی حالت میں صحیح سلامت مامون محفوظ اور خوشحال رہ سکتا ہےکہ اس میں ایک دوسرے کو اس کی ازادی دی جائے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کریں، اور مذہبی شعائر کامظاہرہ کر سکیں"
(حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ )

ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
یکم فروری ۲۰۲۴ء بروز جمعرات

مولانا امام الدین قاسمی با صلاحیت اور سنجیدہ عالم دین تھے_

مولانا امام الدین قاسمی با صلاحیت اور سنجیدہ عالم
اردودنیانیوز۷۲ 
تھے___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
پٹنہ یکم فروری (عبدالرحیم برہولیاوی)
مولانا امام الدین قاسمی نے جواں عمری میں ہی آج شام پارس ہوسپٹل لے جاتے ہویے دنیا کو خیر باد کہ دیا
یہ انتہائی افسوسناک خبر رہی  جس نے بھی سنا حیران رہ گیا
اللّٰہ کے یہاں سے اتنی ہی زندگی وہ  لے کر کے آیے تھے
اللّٰہ کی مرضی کے آگے بندہ کو راضی برضاءے الہی رہنا ہوتا ہے یہی بندگی ہے اور یہی بندے کی شان ہے ان خیالات کااظہار  معروف عالم دین ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ اردو میڈیا فورم اور کاروان ادب کے صدر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے نمائندہ سے ٹیلیفونک گفتگو  میں  تعزیتی کلمات میں کیا۔انہوں نے فرمایا کہ مولانا امام الدین قاسمی با صلاحیت اور سنجیدہ عالم دین تھے جو مصیبتیں اور پریشانیاں ان کی زندگی میں آتی اسے انہوں نے صبر استقامت کے ساتھ دل پر مار کر جھیل لیا۔امارت شرعیہ سے علیحدگی کے بعد وہ الحمد ٹرسٹ کے ذریعہ خدمات انجام دے رہے تھے
وہ لاولد تھے یہ بھی ان کی زندگی کا ایک خلا تھا اللّٰہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے والدین اہلیہ اور متعلقین  کو صبر جمیل دے آمین قارین سے دعاء مغفرت کی درخواست بھی مفتی صاحب نے کی ہے

ہر اک شکست دے گی تجھے حوصلہ نیا

ہر اک شکست دے گی تجھے حوصلہ نیا 
اردودنیانیوز۷۲ 
     مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ (9431003131)

22؍ جنوری 2024ء ہندوستانی تاریخ کا وہ کالا دن تھا، جس دن مرکزی اور ریاستی حکومت نے ملکی دھن اور حکومتی تنتر اور اقتدار کے سہارے اجودھیا میں رام للا کی پران پرتشٹھا‘‘ کے نام پر گنگا جمنی تہذیب، سیکولر اقدار اور محبت کے ماحول کو نفرت کی بھینٹ چڑھادیا، یوگی جی نے اس موقع سے فرمایا کہ لوگ کہتے تھے کہ مندر تعمیر ہونے پر خون کی ندی بہہ جائے گی، وہ دیکھ لیں مندر وہیں بنا ہے، جہاں ہم بنانا چاہتے تھے،وزیر اعظم نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ رام مندر بنے گا تو آگ لگ جائے گی، ایسا کچھ نہیں ہوا، انہوں نے کہا کہ رام سب کے ہیں، تو پھر ہندو مذہب کے چاروں شنکر اچاریہ، رام مندر تحریک کے صف اول کے رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، ونے کٹیار ، اوما بھارتی اور حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے اپنے کو اس تقریب سے کیوں دور رکھا ، بات بالکل واضح ہے کہ ان حضرات نے اسے بھاجپا اور آرایس ایس کا محض ایک کھیل سمجھا، جو 2024ء میں بھاجپا کو پھر سے اقتدار تک پہونچانے اورنریندر مودی کو پھر سے وزیر اعظم بنانے کے لیے کھیلا گیا ہے، مودی جی نے  کہا کہ رام للا مندر کی تعمیر ہندوستانی سماج کے امن ، صبر، باہمی خیر سگالی اور ہم آہنگی کی علامت ہے، وزیر اعظم نے بالکل صحیح کہا، لیکن یہ ہندوستانی سماج کے بجائے یک طرفہ مسلمانوں کے صبر ، امن ،باہمی خیرسگالی اور ہم آہنگی کی وجہ سے سارا کام پر امن ماحول میں ہوگیا، جس نے مسلم مخالف نعرے اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے اکسانے اور اشتعال انگیز نعروں کے باوجود صبر،تحمل اوربرداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، وہ اپنے قائدین کے مشورے کے بموجب خاموشی سے یہ سارا تماشہ جھیل گیے اورملک کی فضا کو پُر امن بنائے رکھنے میں اپنی مضبوط حصہ داری نبھائی، جبکہ فریق مخالف نے رام للا کی گھر واپسی کے نام پر پورے ملک میں جو طوفان بد تمیزی برپا کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، پروگرام کو پورے ہندوستان میں رواں دکھایا گیا اورلوگ جھومتے رہے ، اس سے رام جی کی محبت دلوں میں پیدا ہوئی ہو یانہیں، یہ تو اللہ جانے، لیکن آر ایس ایس اور بھاجپا کے 2024ء میں اقتدار پر قبضے کی بھر پور منصوبہ بندی ہو گئی اور مودی جی کی تقریر سے متھرا اورکاشی کی آگ اور بھڑکنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا، وزیر اعظم اشاروں میں بات کرنے کے عادی ہیں اوریہ اشارے ان کے بھگت اچھی طرح سمجھتے ہیں، وہ بہت برننگ ٹاپک پر بھی کم بولا کرتے ہیں، منی پور کا معاملہ آپ کے سامنے ہے ، پارلیامنٹ کا سارا وقت برباد ہوا اور وہ چپی سادھے رہے ، مودی جی نے اس پوجا کے ججمان بننے کے لیے گیارہ دن کا اُپواس رکھا، صرف ناریل پانی پر گذارا کرتے رہے ، مندر مندر جا کر پوجا ارچنا کی، تقریب میں رام للا کو اپنی جگہ پر پہونچانے اور آنکھوں کی پٹی کھولنے کے وقت یوں تو آدتیہ ناتھ یوگی ، آر ایس ایس کے سنچالک موہن بھاگوت، اتر پردیش کی گورنر آنندی بین اور ایک پنڈت بھی تھے، لیکن ایسا لگتا تھا کہ یہ ’’ون مین شو‘‘ہے جو نریندر مودی پر مرکوز ہے، بقیہ لوگ صرف اس موقع کے چشم دید گواہ ہیں، اس موقع سے ایک بڑا جلسہ بھی ہوا، اوربڑی شخصیات نے اس میں خطاب کیا، تذکرہ اس موقع سے رام للا سے زیادہ مودی جی کا ہوا، البتہ یہ بات صحیح کے مودی جی نے اپنی مختصر تقریر میں ایک سو چودہ (114)بار رام اور رام للا کا ذکر کیا۔انہوں نے اس پورے پروگرام میں اپنے کو سادھو سنتوں کی طرح پیش کیا اورہندو راشٹر کی علامت اپنے کو بنا لیا۔ ایسے میں ہندوستان کا گودی میڈیا کب خاموش رہنے والا تھا، اس نے کئی کئی گھنٹے اس تقریب کی رواں نشریہ کا انتظام کیا اور پل پل کی خبریں اس طرح پہونچائیں، جیسے پورا ملک ہندو راشٹر میں تبدیل ہو چکا ہے، اورکیا ہندو اور کیا مسلمان سب اس تقریب میں شریک ہیں، آر ایس ایس اور موہن بھاگوت کے منظور نظر عمر الیاسی کی اونچی ٹوپی گودی میڈیا کی توجہ کا خاص مرکز رہی ، اور کیمرہ گھوم پھر کر اس پر ڈالا جاتا تھا تاکہ دنیا کو بتایا جائے کہ مسلمان کو بھی اس تقریب سے مسرت ہے، بابری مسجد کا مقدمہ پوری زندگی لڑنے والے ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری بھی اس مہم میں شریک تھے اور بھول گیے تھے کہ ان کے والد نے مرتے وقت انہیں وصیت کی تھی ، جو تصویر میڈیا دیکھا رہا تھا مسلمانوں کی حالت اس کے بر عکس تھی، وہ خون کے آنسو پی کر امن اور سکون سے رہے بھی اور دوسروں کو رکھا بھی، اگر یہ یک طرفہ تحمل نہیں ہوتا تو اس موقع پر سب کچھ جل کر خاکستر ہوجاتا اور لاشوں کا شمار ممکن نہیں ہوتا۔ 
اس پروگرام کی بڑی حد تک صحیح تصویر غیر ملکی اخبارات نے پیش کی ، اور عنوانات اور سرخیوں کے ذریعہ لوگوں کو بتایا کہ حقیقت کیا ہے، بر طانوی اخبار گارجین نے لکھا ، مودی نے بھارت میں منہدم مسجد کی جگہ ہندو مندر کا افتتاح کیا، بی بی سی کے ویب سائٹ پر سرخی لگائی گئی کہ ’’بھارتی وزیر اعظم مودی نے مسمار کی گئی بابری مسجد کے مقام پر ہندو مندر کا افتتاح کیا‘‘ رائٹر نے لکھا کہ ’’اسے ہندوستان میں ہندو بیداری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے‘‘۔
 رام للا کی جو مورتی مندر میں نصب کی گئی ہے اس کی سناتن دھرم کے مطابق کئی بار پوجا کی گئی ، سینکڑوں گھڑے پانی سے غسل دیا گیا، پالکی پر رکھ کر انہیں پورے مندر میں گھمایا گیا، بقول پنڈتوں کے انہوں نے پورے مندر احاطہ کا ’’بھرمن‘‘ کیا، اور اس کے بعد صرف چوراسی(84) سکنڈ میں منتروں کے بیچ انہیں متعینہ جگہ پر نصب کر دیا گیا، رام للا کی یہ مورتی سوئے گی، بھی جاگے گی بھی، کھائے گی بھی، بھوگ اسی کے لیے لگایا جاتا ہے، یہ دو پہر میں آرام کرے گی، رات میں دس بجے کے بعد پھر سوئے گی،اس پورے کام کو متعینہ وقت پر انجام دلانے کے لیے ان کی چھ بار آرتی اتاری جائے گی، جس میں ایک صبح ان کو جگانے، دوسری انہیں آرام پر جانے، تیسری ان کو رات میں سونے کا وقت بتانے کے لیے کیا جائے گا۔ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق ’’پران پرتشٹھا‘‘ سے مورتی کے اندر جان پڑ گئی ہے، لیکن ان کو روز مرہ کے معمول یاد دلانے کے لیے بار بار ان کی آرتی اتاری جائے گی اور ان کے آرام میں کوئی خلل واقع نہ ہو اس کے لیے رام للا کے درشن کودن میں ڈیڑھ گھنٹے اور دس بجے کے بعد سے صبح ک روک دیا جائے گا۔گوا بھی معتقدوں کی بھیڑ کی وجہ سے دن کے آرام کے وقفہ کو ختم کر دیا گیا ہے، جب تک بھیڑ رہے گی، دن میں وہ آرام نہیں کر سکیں گے ، اللہ نے کتنی پیاری بات کہی ہے، ضعف الطالب والمطلوب۔
تاریخ کے آنکھوں نے یہ دیکھ لیا کہ بابری مسجد توڑ کر اس کی جگہ مندر بنادی گئی ہے اور اس بے انصافی کا جشن پورے ہندوستان میں اکثریتی طبقہ نے پورے جوش وخروش سے منایا ، رات میں دیوالی منائی گئی ، پٹنہ میں ڈاک بنگلہ چوراہے سے بودھی پارک تک پچپن ہزار دیے جلائے گیے ، یہ صرف ایک چوراہے کا حال ہے، پورے ملک میں جو پٹاخے پھوڑے گیے، آتش بازی ہوئی ، اس کا شمار ممکن نہیں ہے، سڑکوں کی آمد ورفت کو جس طرح بند کیا گیا، لوگ ہنومان مندر پٹنہ سے گاندھی میدان تک پیدل مارچ کرنے کو مجبور ہوئے، یہ رام کا پیغام بالکل نہیں تھا، جس ملک میں عام جگہوں پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، کئی کو ایسا کرنے پر قید وبند کی صعوبت جھیلنی پڑی ہے ، اس ملک میں ایک مذہبی تقریب کے لیے سڑکیں بند کر دی گئی ہوں، تیز آواز میں ڈی جے، پٹاخے، آتش بازیاں اور چراغاں فضائی آلودگی میں اضافہ کرکے خطرناک حد تک پہونچا دے رہے ہوں، جہاں سانس لینا مشکل ہو رہاہو کیا اسے رام کا پیغام کہا جا سکتا ہے ، یقینا نہیں، خوشیاں ضرور منائیے، لیکن عام انسانوں کو تو پریشانی میں مت ڈالیے، رام جی نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا’’پرہت سرس دھرم ناہیں بھائی، پریہارسم نہیں ادھمائی‘‘،یعنی دوسروں کی بھلائی کے برابر کوئی مذہب نہیں ہے اور دوسروں کو دکھ پہونچانے کے برابر کوئی نیچتا پاپ نہیں ہے، کیا رام مندر بنانے والوں نے رام جی کے اس اپدیش کاذرا بھی خیال رکھا، انہوں نے کہا تھا کہ اجُون اینتی کچھ بھاشیوں بھائی، تو موہی برجبوبھیسرائی‘‘، اگر میں کچھ غلط کی بات کروں تو ڈرخوف بھلاکر مجھے روک دینا ، کیا ایسا ہے، ہندوستان میں رام جی کے معتقدین کا بڑا طبقہ ڈراور خوف پھیلانے میں لگا ہوا ہے ، اور اپنے موقف کے خلاف عدل وانصاف کی بات بھی سننا اسے گوارہ نہیں ہے ۔یقینا رام مندر کی تعمیر ہمارے بازی ہار جانے کی علامت ہے، بازی تو ہم اس وقت بھی ہار گیے تھے، جب بابری مسجد کا دروازہ پوجا کے لیے کھول دیا گیا تھا، اس وقت بھی ہارے تھے جب رات کی تاریکی میں مورتیاں وہاں رکھ دی گئی تھی، بازی ہارنے کا ایک موقع وہ بھی تھا جب پنج وقتہ نمازوں پر وہاں روک لگادی گئی تھی ، ہمیں شکست کا احساس اس وقت بھی ہوا تھا، جب فرقہ پرستوں کے مشتعل کارسیوکوں نے حکومت کے تحفظ کی ذمہ داری اور عدالت کی یقین دہانی پر تیشہ چلا کر بابری مسجد کو توڑ دیا تھا، ہمیں اپنی بے کسی کا اندازہ اس وقت بھی ہوا تھا جب نرسمہا راؤ کی سرکار میں عارضی مندر کی دیواریں اٹھا دی گئی تھیں اور رام للا کو درشن کے لیے ٹینٹ میں براجمان کر دیا گیا تھا، اس تمام شکست وریخت کے درمیان تھوڑی امید اس وقت بندھی تھی جب 1994ء میں یہ قانون پاس ہوا تھا کہ تمام عبادت گاہیں 1947ء میں جس پوزیشن میں تھیں رہیں گی اور اس پر کسی کا کوئی دعویٰ کبھی بھی قبول نہیں کیا جا ئے گا، لیکن یہ بھرم بھی ہمارا جاتا رہا جب عدالت نے گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کے مقدمہ کو سماعت کے لیے قبول کر لیا اور لوہے کے فوارہ کوشیو لنگ بتانے میں سروے کنندہ کو دیر نہیں لگی، بابری مسجد تاریخ کے اوراق میں سما گئی اور اب متھرا کاشی کا نمبر ہے، اگر مودی جی 2024ء میں آگیے تو 2029ء کے انتخاب کے لیے اگر ہندو راشٹر کا اعلان نہیں بھی ہوا تو متھرا کاشی کی ضرورت انہیں پڑے گی اور وہ اس کو موقع بموقع زندہ کرتے رہیں گے، انہوں نے انتخاب میں مسلم خواتین کو متوجہ کرنے کے لیے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دلوایا تھا اور اسے موجب سزا تسلیم کیا گیا تھا، لیکن مسلم خواتین ان کے اس جھانسے میں نہیں آسکیں، آج عدالتوں میں جا کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ تین طلاق کا کیس وہاں موجود نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم عورتیں خوب اچھی طرح جانتی ہیں کہ جس کام کو اللہ، رسول نے حرام قرار دیا ہے وہ کسی کے بھی کہنے اور کرنے سے حلال نہیں ہوسکتا، اس لیے عدالت کے فیصلے اور حکومت کے قوانین بھی عورتوں کو مودی جی کا ہم نوا نہیں بنا سکے، بلکہ مسلم عورتوں نے اسے دین میں مداخلت سے تعبیر کیا اور لاکھوں کی تعداد میں مسلم خواتین نے ہندوستان کے ہر خطے میں اپنا احتجاج درج کرایا، سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر میں بھی ہم اپنے کو ٹھگا ہوا محسوس کر تے رہے، لیکن حالات کے ان تمام نازک موڑ پر ہم نے بازی تو ہاری، بلکہ بار بار ہاری ، لیکن ہم نے حوصلے نہیں ہارے ، ہم نے یقینا اپنے حوصلوں کی اڑان دنیا کو نہیں دکھائی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے حوصلے پست ہو گیے ہیں اور ہم نے حوصلہ ہار دیا ہے، ایسا بالکل نہیں ہے، ہم خوب جانتے ہیں کہ تاریخ اپنے کو دہراتی ہے ، ہم نے تاریخ کو دہرانے کا عمل نادر خان کے حملے کے وقت بھی دیکھا اور تاتاریوں کی نسل کشی کے وقت بھی ، تاریخ نے ترکی میں خود کو دہرایا تو ایا صوفیا گرجا گھر پھر سے مسجد بن گئی ، ہم پورے حوصلے کے ساتھ اس دن کا انتظار کریں گے، جب پھر سے اللہ کی کبریائی کی آواز گونجے گی ، ابھی تو یہ خیال معلوم ہوتا ہے اور اسے ’’دیوانے کی بڑ‘‘یا پھر’’ ایں خیال است ومحال است وجنوں‘‘ کہہ کر دامن جھاڑ لیا جا سکتا ہے ، لیکن جن کا یقین تلک الایام نداولھا بین الناس، ان اللہ علی کل شئی قدیر اور لعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا زمانہ کے الٹ پھیر کے الٰہی نظام اس کی قدرت اور ہر شر سے خیر نکلنے پر ہے اور وہ نوشتہ دیوار پڑھنے کا ہنر جانتے ہیں وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے اور دنیا و امید ہی پر قائم ہے ۔

بدھ, جنوری 31, 2024

مفتی مظفر عالم قاسمی ؒ (یادوں کے چراغ)

مفتی مظفر عالم قاسمی ؒ
     (یادوں کے چراغ)
اردودنیانیوز۷۲ 
 ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

 مدرسہ عالیہ قاضی پورہ ممبئی اور انجمن اہل سنت والجماعت کے بانی مدرسہ تعلیم الدین برار سیتامڑھی کے بانی وسابق ناظم ، دار العلوم امدادیہ اور انجمن اسلام احمد سیلر اسکول ممبئی کے سابق استاذ ، حج کمیٹی آف انڈیا کے رکن ، معروف عالم دین اور با فیض شخصیت ، مولانا مفتی مظفر عالم قاسمی کا ممبرا ممبئی کے کالیسکر اسپتال میں 14؍ جنوری2024ء مطابق 2؍ رجب بروز اتوارانتقال ہو گیا، جنازہ کی نماز بعد نماز عشاء سورتی محلہ مسجد ممبئی کے امام قاری وقار صاحب نے پڑھائی اور ناریل واری قبرستان ممبئی میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں 4؍لڑکے 2؍لڑکیاں اور پوتے پوتی ، نواسہ، نواسی اور ہزاروں شاگرد اور مستفیدین کو چھوڑا، ایک لڑکی مشہور صحافی مولانا نور اللہ جاویدیو این آئی کولکاتہ کے نکاح میں ہے ۔اہلیہ ایک دہائی قبل ہی رخصت ہو چکی تھیں۔
مولانا مظفر عالم بن مولانا عزیز الرحمن بن شیخ صمدانی بن شیخ نواب علی کی ولادت اپنی نانی ہال مہیش استھان اورائی میں 15؍ رمضان المبارک 1361ھ مطابق 11؍ نومبر 1941ء کو ہوئی ، ان کے نانا کا نام ماجد بخش تھا جو علیم اللہ ٹھیکیدار کے چچا زاد بھائی تھے، عہد طفلی کے چار سال یہیں گذرے ، پھر اپنی دادیہال موضع برار، کوئیلی ضلع سیتامڑھی چلے آئے، یہاں کے سرکاری مکتب میں چار سال ابتدائی تعلیم پائی ، ان کے بڑے چچا جنہیں ہمارے علاقہ میں ’’بڑے ابا‘‘ کہا جاتا ہے کی طلب پر 1950ء میں ممبئی چلے گیے اور ممبئی کی مشہور دینی درسگاہ دار العلوم امدادیہ میں داخلہ لیااورسات سال تک یہاں زیر درس رہے، یہاں انہوں نے حافظ شمس الحق اعظمی، مولانا عبد المنان پٹھان پیشاوری، مولانا عباس علی بستوی اور اپنے بڑے ابا مولانا عبد العزیز صاحب(م1967ئ) عرف بڑے مولانا (رحمہم اللہ) سے کسب فیض کیا، مولانا عبد العزیز صاحب ان دنوں دارالعلوم امدادیہ کے صدر مدرس تھے، وہاں سے اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیو بند کے لیے سفر باندھا اور عربی ششم میں داخلہ لے کر تین سال میں دورۂ حدیث مکمل کرکے سند فراغت حاصل کی، مولانا نے جن اکابر اساتذہ کے سامنے دیو بند میں زانوے تلمذ تہہ کیا، ان میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب، مولانا فخر الدین احمد مراد آبادی، مولانا مبارک علی، مولانا مفتی مہدی حسن ، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، مولانا فخر الحسن ، مولانا ظہور احمد، مولانا بشیر احمد خان، مولانا عبد الجلیل ، مولانا اختر حسین، مولانا عبد الاحد، مولانا معراج الحق، مولانا نصیر احمد خان، مولانا محمد حسین بہاری (رحمہم اللہ) کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
فراغت کے بعد 1960ء میں خالہ کی لڑکی سے نکاح ہوا، نکاح خواں مولانا کے بڑے ابا مولانا عبد العزیز صاحب تھے، تدریسی زندگی کا آغاز مادر علمی دار العلوم امدادیہ سے کیا، سات سال تک یہاں استاذ رہے اور عربی کی ابتدائی کتابوں سے بخاری شریف تک کا درس اس درمیان ان سے متعلق ہوا، فجر اور عشا کی نماز کے بعد ممبئی کی کماٹی پورہ کی تیسری گلی والی مسجد میں بھی تعلیم دیا کرتے تھے۔ 1968ء سے 1973ء تک کا زمانہ قلابہ بازار ممبئی ۔۵؍کی مسجد میں امام وخطیب کی حیثیت سے گذارا۔ 1973ء میں سوٹ کیس میٹیریل سپلائی کی تجارت شروع کی، 1980ء سے 2000ء تک انجمن اسلام احمد سیلر ہائی اسکول ناگپاڑہ ممبئی میں معلم کی حیثیت سے کام کرتے رہے ، 1980ء سے 2018ء تک چوک محلہ مسجد میں جمعہ کی خطابت وامامت بھی آپ کے سپرد رہی ، 1974ء میں جامعہ تعلیم الدین کے نام سے اپنے گاؤں میں ایک مدرسہ درسگاہ تعلیم الدین کے نام سے قائم کیا تھا، جو پہلے مدرسہ اور اب جامعہ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو لفظ ہی کی حد تک جامعہ ہے ۔
 مولانا مرحوم پختہ اور منجھے ہوئے خطیب تھے، امامت وخطابت کی ذمہ داریوں نے ان کی اس صلاحیت کو خصوصیت سے صیقل کر دیا تھا، ان کی تقریر میں بہت گھن گرج تو نہیں تھا اورنہ ہی وہ زیادہ جسمانی حرکات وسکنات(باٹی لنگویج) سے کام لیتے تھے، اس کے باوجود وہ اپنی بات سلیقہ سے لوگوں کو سمجھانے پر قادر تھے، اوروہ ’’از دل خیزد دبر دل ریزد‘‘ ہوا کرتی تھی، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں تصنیف وتالیف کا بھی ملکہ عطا فرمایا تھا، وہ اپنی متنوع مشغولیات کی وجہ سے اس میدان میں بہت کام تو نہیں کرسکے، لیکن جو لکھا مسلمانوں کے عام ضرورت کی چیز ہے ۔ ان کی مشہور تصانیف میں اذان واقامت ، آئینہ نکاح، آدھا دین، آداب زندگی، تعلیم السنۃ ، پردہ سنٹر اور چند رسائل قابل ذکر ہیں۔
 مولانا مرحوم سے میرے تعلقات قدیم مضبوط اور مستحکم تھے، میری ملاقات موضع برار ضلع سیتامڑھی، کولکاتہ اور ممبئی ہر سہ جگہ ہوئی تھی، کولکاتہ میں ان کے داماد مولانا نور اللہ جاوید قیام پذیر ہیں اس تعلق سے ان کا آنا جانا ہوتا تھااور میری حاضری تینوں جگہ جلسہ کے حوالہ سے ہوتی تھی ، میں نے مولانا کو ہر مجلس میں باوقار ، مہمان نواز اور محبت وشفقت کرنے والا پایا، ممبئی کی چکا چوند والی زندگی نے انہیں کبھی بھی عالمانہ وقار اور داعیانہ کردار سے دور نہیں کیا،وہ باجماعت نمازوں کے پابند تھے، اور گھر کے چھوٹے بچوں کو بھ اس میں شریک کیا کرتے تھے، کہنے والے کہتے ہیں کہ شمالی بہار کے باشندوں کی جو بڑی تعداد ممبئی میں سکونت پذیر ہے، اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ان کو بسانے ، وقار بخشنے اور ان کی دنیاوی اور دینی ضرورتو کی تکمیل میں مولانا عبد العزیز ؒ اور ان کے خانوادے کا بڑا ہاتھ رہا ہے ، یہ خاندان آج بھی ممبئی میں مولانا کی دینی جد وجہد کو روشن وتابندہ رکھے ہوئے ہے۔ اللہ رب العزت مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

منگل, جنوری 30, 2024

علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور عربی زبان وادب

علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور عربی زبان وادب 
اردودنیانیوز۷۲ 
    ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
===============================
حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری کا نام آتے ہی ان کی علمی عبقریت وعظمت ، احادیث پر ان کی خدمات ، تحقیق کے میدان میں ان کی بے مثال مساعی اور ان کے غیر معمولی حافظہ کے احوال وواقعات پڑھ اور سن کر دل ودماغ سر نگوں ہوجاتے ہیں، اور احساس ہوتاہے کہ دار العلوم دیو بند نے کیسی کیسی علمی شخصیات کو پیدا کیا اور انہوں نے کس قدر علمی ، ملی ، دینی کاموں میں جفا کشی کی اور کیسے کیسے گہر آبدار ہم پیچھے آنے والوں کے لیے چھوڑا، واقعہ یہ ہے کہ حضرت کشمیری ؒ کی ذات اقدس اپنے وقت میں مرجع علماء تھیں اور اب ان کی کتابیں مرجع کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ان کی شخصیت کثیر الجہات تھی اور ان کے علم وتحقیق کا دائرہ تفسیر ، حدیث، فقہ ، عقائد ، تاریخ عربی ادب، لغت اور تصوف تک وسیع تھا، ہر صنف میں ان کی خدمات وقیع ہیں، اسی لیے پوری مسلم دنیا ان کی عظمت کے سامنے سرجھکاتی ہے ۔
 عربی زبان وادب میں بھی ان کی خدمات وقیع ہیں، ان کی اکثر بیشتر تصنیفات وتالیفات کی زبان عربی ہے، ان کی یہ خدمت حدیث کے مقابلہ دب سی گئی ہے اور سوانح نگاروں کی توجہ اس طرف ذرا کم ہوئی، عربی میں مولانا یوسف بنوری کی عربی سوانح نفحہ العنبر فی حیاۃ امام العصر الشیخ انور میں ان کی عربی زباندانی اور اس فن میں ان کی مہارت کا ذکر ذرا تفصیل سے آیا ہے ، بقیہ مولانا عبد الرحمن کونڈو کی الانور، مولانا ازہر شاہ قیصر کی حیات انور، مولانا انظر شاہ صاحب کی نقش دوام اور بہت سارے مضامین ومقالات میں عربی ادب کے حوالہ سے ان کی خدمات کے ذکر سے محققین سرسری گذر گیے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم کتاب ڈاکٹر عبد المالک مظفر خان کی العلامہ انور شاہ کشمیری حیاتہ وشعرہ ہے جو بلا واسطہ اس موضوع سے متعلق ہے ، مولانا محمد نافع عارفی کی یہ کتاب اردو میں مولانا کی عربی ادب کی خدمات کا تفصیلی ، تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ ہے ، جو تحقیق کے نئے زاویے اور عصری جہتوں کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے ۔اور میرے مطالعہ کی حد تک اس موضوع پر پہلی کتاب ہے۔
ابو حمزہ محمد نافع عارفی بن حضرت مولانا محمد سعد اللہ صدیقی بن حضرت مولانا عبد الرحمن ہر سنگھ پوری ؒ ایک علمی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں، علم وصلاح ان کا خاندانی ورثہ ہے ، تصوف کے حوالہ سے بھی اس خاندان کی بڑی خدمات رہی ہیں، مولانا نافع عارفی نے مدرسہ رحمانیہ سوپول ، جامع العلوم مظفر پور، دار العلوم دیو بند اور المعہد العالی الاسلامی حیدر آباد سے علمی اکتساب کیا ہے اور تحقیق وفتاویٰ کے رموز سیکھے ہیں، پھر اس صلاحیت کو صیقل کرنے کے لیے مدرسہ عبد اللہ بن مسعود حیدر آباد ، مدرسہ چشمہ فیض ملل ، دارالعلوم سبیل الفلاح جالے، معہد الولی الاسلامی ہر سنگھ پور میں پڑھایا بھی ہے ، ان کی دس کتابیں اسلام کا نظام زراعت ، کتابت وحی اور کاتبین ، مذہبی رواداری اور اسوۂ نبوی ، حیات عارف، الحدیقۃ العربیۃ (2حصے) نخبۃ دروس اللغۃ العربیۃ ، الزھرۃ العربیۃ ، عربی زبان وادب کی تاریخ، تسہیل القواعد اور زاہیۃ الادب، تصیف ، تالیف ، تحقیق اور ترتیب کے طور پر سامنے آچکی ہیں، یا آنے والی ہیں، جس سے ان کی صلاحیت اور اردو عربی زبان میں تصنیفی قدرت کا پتہ چلتا ہے، بدقسمتی سے زیر تبصرہ کتاب کے علاوہ ا ن کی کوئی دوسری کتاب میری نظر سے نہیں گذری، قصور اپنی طلب اور نظر کا ہی ہے ۔
تین سو چھ صفحات کی یہ کتاب اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے جزوی مالی تعاون سے اشاعت پذیر ہوئی ہے، کمپوزنگ ابو نصر ہاشم ندوی اور نا شر کتب خانہ نعیمیہ دیو بند سہارن پور ہے، جب قیمت کتاب پر درج نہ ہو تو مفت ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، ملنے کے چار عدد پتے درج ہیں، آپ حیدر آباد میں المعہد العالی الاسلامی ، دربھنگہ میں معہد الولی الاسلامی ہرسنگھ پور، پھلواری شریف میں ابو الکلام ریسرچ فاؤنڈیشن اور دیو بند میں کتب خانہ نعیمیہ سے یہ کتاب حاصل کر سکتے ہیں، البتہ ان جگہوں سے لینے پر مفت ملنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔ کتاب کا انتساب دار العلوم دیو بند ، والدین اور عاشقان جمال انور کے نام ہے جو مصنف کے عقیدت وتعلق کا مظہر ہے ، کتاب کا پیش لفظ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، دامت برکاتہم نے لکھا ہے ، مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ کی تقریظ اور مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی کی کلمات تحسین ہے، ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی کے نام کی پٹی فہرست میں
بعد میں چپکائی گئی ہے ، اس سے لگتا ہے کہ یہ جگہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ؒ کے لیے مختص تھی، لیکن یا تو ان کی تحریر نہیں مل سکی، یا وہ لکھنے کے پہلے ہی راہیٔ آخرت ہو گیے، اس راز کا پتہ مولانا نافع عارفی کے مقدمہ سے چلتا ہے ، جس میں انہوں نے اظہار تشکر میں مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کے نام ذکر کیا ہے ، اور ڈاکٹر شکیل قاسمی کاتذکرہ رہ گیا ہے، میں نے چشمہ اوپر نیچے کرکے بار بار فہرست اور کتاب میں ان کا نام اور ان کی تحریر تلاشنے کی کوشش کی ، لیکن ناکام رہا، پھر ساری قلعی فہرست مضامین کی پٹی اور عنوان کی تبدیلی ’’کلمات تحسین‘‘ نے کھول دیا، اگر مقدمہ سے اسے ہٹا دیا جاتا تو یہ تسامح نہیں ہوتا۔بے اختیار علامہ اقبال کے دور قدیم کی ایک غزل کا ایک شعر یاد آگیا ، جو داغ اسکول کی نمائندگی کرتا ہے۔
تمہارے ’’پیامی‘‘ نے سب راز کھولا  خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
 کتاب کا پہلا باب دار العلوم دیو بند کی علمی خدمات کی تحقیق اور ابناء دار العلوم کی مختلف موضوعات واصناف پر ان کی تصنیفی فہرست پر مبنی ہے ، اس میں تحقیق بھی ہے اور تاریخ بھی، یہ فہرست مختصر ہے، لیکن اجمالی واقفیت کے لیے مفید مطلب ہے ، اس باب کو ’’عربی زبان وادب کی ترقی میں ابنائے دار العلوم کی کاوشیں ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے ، دوسرا باب، علامہ کشمیری کے احوال وآثار اور نسلوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق ہے ، اس میں ان کی تعلیمی وتدریسی زندگی کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں تحقیق کے جدید تقاضوں کو برتا گیا ہے ، اس باب کا عنوان ’’علامہ انور شاہ کشمیری کی علمی زندگی کی داستان ‘‘ ہے۔ تیسرے باب میں عربی زبان وادب کے حوالہ سے حضرت کشمیری کی زبان دانی ، نثر نگاری اور شاعری پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ، ان کے اسلوب ، محاسن اور ندرت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ، یہ اس کتاب کا تیسرا باب ہے ، جس کا عنوان مصنف نے ’’عربی زبان وادب کے میدان میں علامہ کشمیری کے فتوحات‘‘ رکھاہے، یہ باب صفحہ 205 سے شروع ہوتا ہے اور 216 پر ختم ہوتا ہے، اس باب میں علامہ کشمیری کے ادبی ذوق ، شعر وسخن ، مرثیے، اصلاحی اشعار آپ کی شاعری کی اہم خصوصیات اور محاکمہ کے طور پر شاعری میں علامہ کشمیری کے مقام کی تعیین کی کوشش کی گئی ہے ، مصنف اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ 
’’اردو فارسی شاعری میں جو رتبہ میر وغالب کا ہے ، عربی شاعری میں
حضرت کشمیری کو وہی مقام حاصل ہے، علامہ کی عربی نثر نگاری کا محاکمہ کرتے ہوئے مولانا نافع عارفی نے لکھا ہے ‘‘۔ 
 علوم شرعیہ میں انشاء پردازی کے جو جوہر دکھلائے ہیں وہ انہیں اپنے زمانہ کے ممتاز ادباء کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔ (صفحہ 393)
295؍ سے ان شخصیات ، کتابیات اور رسائل وجرائدکا ذکر ہے، جن کے حوالہ سے تحقیق کے دشوار گذار مراحل کومصنف نے طے کیا ہے ، جن شخصیات کا ذکر کتاب میں آیا ہے، اس پر قیمتی حاشیہ درج کرنے کا انتظام کیا ہے، جس میں انکی شخصی اور علمی احوال وکوائف کے ذکر نے اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے ۔
مولانا اس کتاب کی تصنیف پر علمی دنیا سے شکریہ کے مستحق ہیں، کتاب اس لائق ہے کہ اہل علم اس کا مطالعہ کریں اور لائبریری میں ماخذ ومرجع کے طور پر محفوظ کر لی جائے۔

اتوار, جنوری 28, 2024

" تماشہ میرے آگے "

"  تماشہ میرے آگے "
   اردودنیانیوز۷۲ 
      عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے

کتاب کے باکمال مصنف آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہیں ، اپنے مثبت افکار،صالح خیالات اور قلمی معیار وکردار کی وجہ سے اکثر حلقوں  میں احترام کے ساتھ جانے جاتے ہیں ، وہ صبر آزما ذہن رکھتے ہیں ،مزاج میں ترشی نہیں ہے،خندہ پیشانی سے انہونی کوبھی انگیز کرلیتے ہیں، ملول خاطر ہوناان کے یہاں نہیں ہے،ہاں!" غیر اہم" کو "اہم" قرار دیئے جانے کا احساس انہیں شاید دیر تک رہتا ہے اور یہ فطری امرہے،البتہ ایسے تمام سیاسی ،سماجی دشوار گزار مرحلوں کو وہ اک" تماشہ" سے زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتے ہیں،اسی لئے آئے دن کے سیاسی تماشوں سے وہ نہ خودمایوس ہوتے ہیں اور نہ عام لوگوں کےعزم و عمل میں ٹھہراؤ کو جائز سمجھتے ہیں۔ان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جہاں جہاں سیاسی بازیگر ،ملک وملت کو مسائل میں الجھا کر دشواریاں پیدا کرتے ہیں،دن کو رات ثابت کرنےیا غلط کو درست دکھانے کی بے وجہ کوشش کرتے ہیں، ایسے مرحلوں میں ان کا قلم رواں رہ کر نہ صرف راہ تلاشتا ہے ،بلکہ اوروں کے لئے راہ یابی کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔مصنف کتاب اپنے اس مجموعہ تحریر کے حوالے سے پیش لفظ میں ایک جگہ بڑی خوبصورتی سےلکھتے ہیں : 
"تماشہ میرے آگے "میرے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو سیاسی احوال ومعاملات پر لکھے گئے نقیب میں چھپ کر لوگوں تک پہنچے اور مقبول ہوئے ،اب چوں کہ سیاست میں اخلاق و اقدار کا جنازہ نکل گیا ہے ،نظریات، اقتدار اور کرسی کے گرد گھومنے لگے ہیں ،یہ سب ایک تماشہ ہے جو اقتدار کے اسٹیج سے یا اقتدار  تک پہنچنے کے لئے کیا جارہا ہے اس لئے میں نے ان مضامین پر مشتمل کتاب کا نام ہی تماشہ میرے آگے رکھ دیا ہے "
سردست مجموعہ مضامین میں جن 130/ عناوین کے تحت انہوں نے" تماشہائے جہاں "کو پرکھا اور اس پر اپنے موقف کو پیش کیا ہے ،اس کا لفظ لفظ ،بلکہ حرف حرف ان کی ہمہ جہت معلومات،دوررس سیاسی آگہی،فکر ودانشمندی،بے باک موقف، درد وچبھن ،کامیاب حل اور حقیقت حال کا مظہر ہے ،خوبی کی بات یہ بھی ہےکہ ان کی خامہ فرسائی کا میدان تذکرہ ،سوانح،تاریخ،ادب، تحقیق اورتنقیدسمیت اصلاح ودعوت،تعلیم وتربیت اور فکری وسماجی موضوعات کے علاؤہ فقہ ،سیرت،حدیث، تفسیراور دین کے بنیادی مآخذ  بھی ہیں ،جن پر الگ الگ زاویوں سے وہ مسلسل یومیہ لکھ رہےہیں ، آج یہاں وہاں  سیا سی گلیاروں میں جو بے چینیاں پائی جارہی ہیں ان کے پڑھنےسمجھنے کا بھی ایک وقت متعین ہے اور خیالات کی قلم بندی کے لئے بھی وقت مقرر کیا ہوا ہے ،اوقات میں برکتوں کے حوالے سےوہ اکابرین کے پرتو ہیں،خدا نے بڑی برکتوں سے نوازا ہے ۔زیر تذکرہ کتاب کا ہرعنوان و پیراگراف ،ان کے فکر ومطالعے کی وسعت کا عکس ہے ،کتاب ہاتھ میں لیجئے تو ورق ورق الٹے بغیر آپ حرف آخر تک نہیں پہنچ سکتے ،عنوان کا انداز وساخت،عام علماء کی نثری روش سے مختلف ،کم لفظوں میں پوری کہانی کا سرنامہ ہے۔

یہ کتاب دراصل "سیاسی حالات ،مسائل اور معاملات پر امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب  (2019 -2015 )میں چھپے ادارئیے،شذرات،تجزیاتی وتنقیدی مضامین کاانتخاب "ہے۔ "تماشہ میرے آگے" قریباً 130/مختلف النوع مضامین پر مشتمل ہے ،جس کی ضخامت 280/صفحات کو محیط ہے ،ظاہر وباطن میں حسن ہی حسن،دیدہ زیب طباعت ،عمدہ کاغذ ،روایتی تقریظات سے پاک، عام فہم زبان جیسی خوبیوں والی اس دراز نفس کتاب کی عام قیمت 300/ روپے ہے۔نور اردو لائبریری حسن پور گنگٹھی بکساما،ویشالی بہار کو اس کتاب کا ناشر ہونے کا فخر حاصل ہے جب کہ مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،نور اردو لائبریری ویشالی،ادارہ سبیل الشرعیہ آواپور سیتا مڑھی اور الہدی ایجو کیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ وغیرہ سے کتاب منگوائی جاسکتی ہے۔شاندار،خوبصورت اور معیاری مطبوعات پیش کرنے کے لئے مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب مدظلہ شکریہ اور مبارک باد دونوں کے یکساں مستحق ہیں۔

مالدیپ اور ہندوستان کے بگڑتے تعلقات

مالدیپ اور ہندوستان کے بگڑتے تعلقات
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
بحر ہند میں جمہوریہ مالدیپ گیارہ سو برانوے (1192)جزائر پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے جن میں دو سو جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے، یہ ہندوستان کے جزائر لکشدیپ کے جنوب اور سری لنکا سے سات سو کلو میٹر (435میل)جنوب مغرب میں واقع ہے، یہاں کا دار الحکومت مالے ہے جہاں ملک کی مجموعی آبادی کے اسی فیصد لوگ بود وباش اختیار کیے ہوئے ہیں، یہاں کی سرکاری زبان ’’دیویہی‘‘ ہے گیارہ نومبر1968اس کا یوم تاسیس ہے، بعضوں نے 26جولائی 1965بھی لکھا ہے ، یہاں کے سر براہ ان دنوں محمد معیز ہیں، جو 17نومبر 2023کو منتخب ہو کر بر سر اقتدار آئے ہیں۔ ہندوستان سے مالدیپ کا رشتہ بہت قدیم ہے، البتہ یہاںکے حکمرانوں میں بعض چین نواز بھی ہوا کیے ہیں، محمد معیز کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ چین نواز ہیں، اسی لیے سابقہ حکمرانوں کے بر عکس انہوں نے منتخب ہونے کے بعد ہندوستان کے بجائے پہلے چین جانے کا فیصلہ لیا اور وہاں سے آکر جو بیان دیا ہے وہ بہت معنی خیز ہے، انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹے ضروری ہیں، لیکن کسی کے دباؤ میں رہنے والے نہیں ہیں، اور ہمیں کوئی دھمکا نہیں سکتا، یہ بیان انہوں نے اس پس منظر میں دیا ہے کہ ان کے تین وزراء نے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں کچھ ایسا تبصرہ کیا تھا ، جسے ہندوستان نے ہتک آمیز قرار دیا تھا، محمد معیز نے ان تینوں وزراء پر کاروائی کرتے ہوئے انہیں کابینہ سے نکال دیا جو ایک بڑا قدم تھا، لیکن ہندوستان اس سے مطمئن نہیں ہے اور اپنی بے اطمینانی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا رہا ہے، اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے، یہ کشیدگی دونوں ملکوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، تازہ خبر کے مطابق مالدیپ نے ان اٹھاسی(88) فوجیوں کو ملک چھوڑ دینے کو کہا ہے جو برسوں سے وہاں تعینات ہیں۔
 ہندوستان سے مالدیپ کا رشتہ ملک کے تحفظ، فوجی تربیت ، تجارت ، سیاحت، صحت وتعلیم کے حوالہ سے مضبوط رہا ہے، 1988سے ہی ہندوستان مالدیپ کو تحفظ کے نقطہ نظر سے تعاون دیتا رہا ہے، اپریل 2016میں ایک معاہدہ مالدیپ اور ہندوستان کے درمیان ’’ایکشن پلان فارڈیفنس‘‘ کے نام سے ہوا تھا ، جس کے مطابق ہندوستان مالدیپ کو ستر فی صد تعاون دینے کا پابند ہے، گذشتہ دس سالوں میں ہندوستان نے ایم این ڈی ایف (MNDF)کے پندرہ سوارکان کو فوجی تربیت دینے کا کام کیا ہے، ہندوستانی بحریہ فضائی نگرانی کے لیے بھی مالدیپ کو تعاون دیتی رہی ہے۔
 معاشی اعتبار سے دیکھیں تو مالدیپ چاول، گیہوں ، چینی، آلو، پیاز اور تعمیراتی سامانوں کے لیے ہندوستان پر منحصر ہے، مودی دور حکومت میں مالدیپ سے تجارت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے، تجارتی نقطہ نظر سے اسٹیٹ بینک آف انڈیامالیات کی فراہمی میں تیسرا بڑا معاون مالدیپ کا ہے، ہندوستان نے مالدیپ کو چار سو کروڑ روپے بطور تعاون مالی سال 2022-2023میں دیا ہے ۔
مالدیپ کی معیشت کا بڑا انحصار سیاحت پر ہے، وہاں کی گھریلو آمدنی کا ایک تہائی حصہ سیاحت سے فراہم ہوتا ہے، وہاں اوسطا ہر سال اٹھارہ لاکھ سے زیادہ سیاح آتے ہیں، جن میں بڑی تعداد ہندوستانیوں کی ہوتی ہے۔ 2023میں جتنے سیاح مالدیپ آئے ان میں بارہ فیصد ہندوستانی تھے۔
اسی طرح وہاں تعلیم اور صحت کے ادارے کے فروغ میں بھی ہندوستان کی اہم حصہ داری رہی ہے، ہندوستان نے وہاں اندرا گاندھی میموریل اسپتال کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرنے کے لیے باون (52)کروڑ روپے دیے اور ایک سو پچاس سے زائد اسپتالوں کے لیے جو مختلف جزیروں پر واقع ہیں رقومات فراہم کی ہیں، مالدیپ کے اساتذہ کو تربیت دینے کے لیے ہندوستان نے وہاں ووکیشنل تربیت کے مراکز قائم کیے اور اطلاع کے مطابق دو ہزار سے زائد لوگوں کو تربیت دینے کا کام کیا ہے، اس کے علاوہ مختلف میدانوں میں فنی تربیت دینے کے لیے ہندوستان اپنے یہاں بھی مالدیپ سے لوگوں کو بلاتا رہا ہے، اسی وجہ سے مالدیپ کے حکمراں ہندوستان سے تعلقات استوار رکھنے میں سبقت لے جاتے رہے ہیں، محمد معز نے انتخاب ہی اس منشور پر لڑا تھا کہ وہ ہندوستان پر انحصار کو کم کریں گے، چنانچہ انہوں نے آتے ہی یہ کام شروع کر دیا ہے۔انہوں نے ہندوستان کے بجائے چین پر انحصار کو بڑھاوا دیا ہے، چین نے وہاں پہلے سے ہی ایک ارب پینتیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جس کا بڑا حصہ قرض کی شکل میں ہے اور واقعہ یہ ہے کہ مالدیپ کی زمین کے بڑے حصہ پر مختلف سرمایہ کاری کے نام پرچین نے قبضہ کر رکھا ہے، اگر مالدیپ کا انحصار چین پر بڑھتا ہے تو علاقہ میں چین کے اثرات میں اضافہ ہوگا، جوہندوستان کے حق میں نہیں ہے، مالدیپ کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ایک چھوٹا ملک ہے اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اسے ہند وچین میں ایک کو چننا ضروری ہے، یہ افسوسناک ہے کہ موجودہ حکمراں محمد معز نے چین کو چن لیا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...