Powered By Blogger

ہفتہ, فروری 03, 2024

*علم اور اہل علم کی قدر*

*علم اور اہل علم کی قدر* 
Urduduniyanews72 
*🖋️محمد فرمان الہدیٰ فرمان* 

علم  اللہ تعالی کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے ۔ یہ ان انعامات میں سے ہے جن کی بناء پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ علم ہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر اس کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت فرمائی۔ 
       دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم  کی متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رسول اللہ ﷺ  کی اس امت میں تو بالخصوص اہلِ علم بہت اعلی مقام کے حامل ہیں حتیٰ کہ انہیں انبیائے کرام کا وارث قرار دیا  گیا ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے "العلماء ورثة الانبیاء" ۔ اور علم کو فرض قرار دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا"طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمہ" یعنی دین کا اتنا علم جس سے حلال و حرام کی پہچان ہوجائے، اسکا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
 عصرِ حاضر میں ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم عصری تعلیم میں اتنا مصروف ہو چکے ہیں کہ دینی تعلیم میں وقت لگانے کو وقت کی بربادی سمجھنے لگے ہیں، اور اسمیں کہیں نا کہیں والدین کا بھی قصور ہے کیونکہ گھر ہی پہلا ادارہ ہوتا ہے ، جب بچہ گھر میں دینی علم اور علماء سے نفرت، عصری علم کیلئے جہد وجہد دیکھے گا تو یہی سیکھے گا اور جب انکی تربیت دینی نا ہو تو یقیناً یہ نیک اولاد نہیں بنیں گے۔ پھر یہی بچے اپنے والدین کو بیت المعمرین (Old age home) میں چھوڑتے ہیں تو والدین کو تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے بچے اتنے برے کیسے ہوگئے ؟ حالانکہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ سب انکی دنیاوی تربیت کا خمیازہ ہے جو وہ بھگت رہے ہیں ۔
عصری تعلیم کی محبت اور دینی تعلیم سے دوری کے سبب ہی آج ہم دنیا میں آگے تو ہیں لیکن ہمارے پاس علم اور علماء کی قدر و عزت نہیں، آج ہم مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے کہ ہم اہلِ علم حضرات بالخصوص ائمہ مساجد اور علماء کو بالکل حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم منتظر ہوتے ہیں کہ ان سے کچھ غلطی ہو اور ہمیں ان پر طنز کرنے کا موقعہ ملے۔ اہلِ علم نیک ہوتے ہیں لیکن وہ بھی بشر ہوتے ہیں نا کہ کوئی فرشتے اور غلطی کرنا ہر بشر کی فطرت ہے۔ اللہ نے جہاں بھی اپنے نیک بندوں کا ذکر کیا وہاں کہا  میرے نیک بندوں سے گناہ بھی ہوتے ہیں لیکن وہ فوراً توبہ کرلیتے ہیں۔ آج ہمارے دلوں سے علماء کی محبت بالکل ختم ہو چکی ہے، اگر دینی علم کے حصول کی بات کی جائے تو کچھ ایسی باتیں ہمارے گوش گزار ہوتی ہیں کہ گھر میں کوئی حافظ بنا لینگے، گھر میں اتنے سارے حفاظِ کرام موجود ہیں کسی کی بھی سفارش سے بخشش ہوجائے گی۔ ہمیں تو یہ جذبہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے کر خود اس قابل بنیں کہ ہم امت کی سفارش کرسکیں ۔ اور جن کی سفارش کے بھروسے ہم بیٹھے ہیں ہم ان کی قدر کرنا بھی نہیں جانتے۔ اور اس غلط فہمی میں ہیں کہ کسی کی بھی سفارش سے ہماری بخشش ہو جائے گی۔ ذرا غور کریں کہ ہماری قبر کی اتنی لمبی زندگی میں ہماری سفارش کون کریگا ؟ 
یہاں صرف ہمارا دینی علم کام آئے گا اور وہ دینی علم جس پر ہم عمل پیرا ہوئے، دینی علوم کا حصول ہم پر فرض ہے اور فرض میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہم سب اس سے واقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم کو کس حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جبکہ دینی علم کی فضیلت بھی ہم پر عیاں ہے، میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ عصری تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کی جائے بلکہ میرا مقصد ہے کہ عصری اور دینی دونوں تعلیم کو حاصل کیا جائے کیونکہ دونوں کی اہمیت ہے، اس دار فانی میں رہنے کیلئے عصری تعلیم ضروری ہے جبکہ عالم برزخ اور آخرت کے لئے دینی تعلیم کا حصول لازم ہے، لیکن آج ہم مسلمان دینی تعلیم سے اس قدر دور ہیں کہ ہمیں حلال وحرام اور فرائض و واجبات کا علم تک نہیں۔ اگر ہم دینی علم نہیں حاصل کررہے تو ہمیں کم از کم اہلِ علم یعنی علماء کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ یہ وہ وسیلہ ہے جو ہمیں اللہ کے ہاں محبوب اور مبغوض بنانے کی طاقت رکھتا ہے، اگر ہم علماء سے محبت کریں تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ بھی ہم سے محبت کرے اور ہماری آخرت سنور جائے لیکن اگر ہم علماء سے نفرت کریں گے تو ہم ملعون ہوجائینگے، آج کل اکثریت علماء سے اسی لئے نفرت کرتی ہے کیونکہ وہ دینی علوم کے حامل ہیں، لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے قیامت رکی ہوئی ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے "لا تقوم الساعة حتى يقال الله الله" یعنی قیامت اس وقت تک نہیں آئی گی جب تک روئے زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا ہو ، اور حدیث قدسی میں ہے "من عادى لى وليا فقد آذنته بالحرب" یعنی جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے ۔
 ان احادیث سے عیاں ہے کہ کس طرح ہم علماء کی قدر کے ذریعے اللہ کے محبوب بن سکتے ہیں، اور کس طرح آج ہم علماء سے نفرت کرکے اللہ سے جنگ مول لے رہے ہیں۔ اور نبی کریم ﷺ نے تو یہ تک فرما دیا کہ جو ہمارے علماء کی قدر نا کرے وہ ہم میں سے نہیں، اس سے بڑی اور کیا وعید ہو سکتی ہے کہ ہم مسلمانوں اور دین اسلام کی صف سے نکال دیے جائیں، آج اللہ کو حاضر و ناظر رکھتے ہوئے یہ عہد کرلیں کہ ہم اللہ اور رسول کے متعین کردہ مقام و مرتبہ کو علمائے کرام کے سر کا تاج بنائیں گے اور اللہ اور رسول سے محبت و الفت کے ساتھ عمومی طور پر تمام مسلمانوں سے اور خصوصی طور پر علمائے کرام سے محبت و الفت رکھیں گے ان شاءاللہ عزوجل

ایک مقدمہ ایسا بھی

ایک مقدمہ ایسا بھی 
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
مقدمات میں عموما مدعی یا مدعیہ ، مدعیٰ علیہ یا مدعیٰ علیہا میں سے ایک غلطی پر ہوتا ہے، یہ دونوں جب عدالت جاتے ہیں تو عدالت مقدمات کی سماعت کرکے فیصلہ دیا کرتی ہے، لیکن آپ کی واقفیت شاید کسی ایسے مقدمہ سے نہیں ہوگی، جس میں مدعی، مدعی علیہ کے ساتھ ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کوبھی غلط قرار دیا گیا ہو، نچلی عدالت کے فیصلے کے بعد اعلیٰ سطحی عدالت میں فیصلے بدلتے رہنے کی روایت قدیم ہے، لیکن نچلی عدالت کے ذریعہ مقدمہ کی سماعت ہی غلط ہو، یہ نادرالوقوع ہے، ایسا ہی ایک واقعہ جسٹس من میت سنگھ اڑوڑہ کی عدالت میں سامنے آیا ہے، محترمہ من میت سنگھ نے ہندوستان اسکارٹس اینڈ گائیڈز ایسی سو ایشن کے ایک مقدمہ میں مدعی اور مدعا علیہ کے ساتھ ضلعی عدالت کی سماعت کو ہی غلط قرار دے دیا ہے، دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس من میت سنگھ نے واضح کر دیا کہ ضلعی عدالت میں مدعی سنیتا ونود ودھوڑی کو ایسوسی ایشن کا قومی سکریٹری مانتے ہوئے دائر مقدمات کو سماعت کے لیے لینا ہی نہیں چاہیے تھا، عرضی خارج ہونے کے بعد درخواست گذار کے ذریعہ ادارہ کے سکریٹری کی حیثیت سے معاملہ کرنا سرے سے غلط تھا، ایسوسی ایشن کے موجودہ سکریٹری گریش جوپال نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، حالاں کہ جسٹس من میت سنگھ اڑوڑہ نے نچلی عدالت کی سماعت کو غلط رار دینے  کے باوجود ضلعی عدالت کے فیصلے کو بر قرار رکھا اور ایسوسی ایشن کا جو انتخاب ۵؍ مئی ۲۰۱۹ء کو ہوا تھا اسے غیر قانونی قرار دے کر انتخاب کرانے والے ممبران کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا ہے، یہ معاملہ ایسوسی ایشن کے نئے عہدیداران کے انتخاب سے متعلق تھا۔

جمعہ, فروری 02, 2024

مولانا محمد سجاد ___حیات اور کارنامے

مولانا محمد سجاد ___حیات اور کارنامے
اردودنیانیوز۷۲ 
 ✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 
بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کاشماربیسویں صدی کی اہم علمی ،سماجی، مذہبی اور سیاسی شخصیتوں میں ہوتا ہے،علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ انہیں فقیہ النفس عالم کہا کرتے تھے ،واقعہ یہ ہے کہ بیسویں صدی کے نامور اور بافیض لوگوں کی مختصر سے مختصر کوئی فہرست تیار کی جائے گی تو اس میں مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کا نام ضرور ملے  گا ،وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ان کا میدان عمل میں علم، سماج، مذہب، دین و سیاست سب کا گزر تھا، ان کے مضامین و مقالات ان کی علمی گہرائی اور گیرائی کا پتہ دیتے ہیں، جمعیت علماء اور امارت شرعیہ اپنے وجود میں مولانا کی مرہون منت ہے، ان اداروں کے قیام کے خاکے بنانا، ان خاکوں میں رنگ بھرنے کے لیے اپنی پوری زندگی داؤ پر لگا دینا ان کی زندگی کی بڑی خصوصیات میں سے ایک ہے ،جس کے لیے پوری ملت مولانا کی مرہون منت ہے ۔
ان خصوصیات کی وجہ سے مولانا کی حیات و خدمات محققین کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور بہت ساری کتابیں ان پر طبع ہو چکی ہیں، ان کتابوں میں مولانا مسعود عالم ندوی کی محاسن سجاد، مولانا عبدالصمدرحمانی کی حیات سجاد انہیں دونوں کتابوں سے اخذ کردہ مضامین کا مجموعہ حیات سجاد مرتبہ مولانا انیس الرحمن قاسمی ،انہیں کی مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد حیات و خدمات (سیمینار میں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ) مولانا اختر امام عادل کی حیات ابو المحاسن اور مولانا طلحہ نعمت ندوی کی حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد، انتہائی مستند محقق اور قابل قدر مجموعے ہیں ،ان میں ایک مجموعہ جمعیت علماء کی جانب سے منعقد ان پر سیمینار کے مقالوں کا ہے اور دو خالص تحقیقی نوعیت کا کام ہے، ان میں مولانا اختر امام عادل کی کتاب حیات ابو المحاسن کا جواب نہیں۔
    اب ڈاکٹر مولانا عبدالودود قاسمی کی نئی کتاب مولانا محمد سجاد ۔حیات اور کارنامے کے نام سے سامنے آئی ہے، یہ دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے پی ایچ ڈی کے مقالوں میں جو رطب ویابس ہوتا ہے، اسے حذف کر کے مقالہ کی تلخیص منظر عام پر لانے کا کام کیا ہے، اور اچھا کیا ہے۔
 ڈاکٹر عبدالودود قاسمی اپنے اصلی نام سے زیادہ اور قلمی نام واؤ قاسمی سے کم جانے جاتے ہیں ،16؍ اکتوبر 1973کو الحاج ماسٹر محمد یوسف رحمہ اللہ کے گھر ڈلوکھر، مرزا پور، تھانہ لدنیا ضلع مدہو بنی میں آنکھیں کھولیں، دارالعلوم دیوبند سے فاضل اور متھلا یونیورسٹی سے ایم اے،بی ایڈ، پی ایچ ڈی کیا، یو جی سی کا نیٹ نکالا اور ان دنوں سی ایم بی کالج ڈیوڑھ، گھوگھر ڈیہا، مدھوبنی میں اسسٹنٹ پروفیسرکے عہدے پر فائز ہیں، عمر فرید میموریل ایوارڈ برائے ادب اور انور جلال پوری ایوارڈ برائے نقابت حاصل کر چکے ہیں ،ایوارڈ میں کیا سب ملا،دوستوں کو بھی نہیں بتاتے، اس لیے اسے پردۂ خفا میں ہی رہنے دیجئے، عکس سخن، درسگاہ اسلامی۔ فکر و نظر کی بستی، صدائے اعظم، دربھنگہ کا محرم تاریخ و تجزیہ، موصوف کی مطبوعہ کتابوں میں شامل ہے،یہ تو رہا مصنف کا تعارف، اب رخ کتاب کی طرف کرتے ہیں۔
 227 صفحات کی اس کتاب کا پیش لفظ خود مصنف نے لکھا ہے، جس میں احوال واقعی کا ذکر ہے، قطعہ ٔتاریخ پروفیسر سید شاہ طلحہ رضوی برق کا ہے، کتاب کا انتساب والدین مرحومین کے نام ہے،جو مصنف کی سعادت مندی کی دلیل ہے ’’جن کی بے پناہ محبتوں اور دعاؤں کے صدقے‘‘ وہ علمی کاموں کے لائق بنے۔
 ڈاکٹر عبدالودود قاسمی نے اس کتاب میں مولانا کے خاندانی حالات ،نام و نسب ، تحصیل علم ،تدریسی خدمات اور تبحر علمی کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے، مولانا سجادؒ کی ازدواجی زندگی، جسمانی خد و خال ،اخلاق و عادات، اساتذۂ کرام، تلامذہ، رفقائے کار اور معاصرین پر روشنی ڈالی ہے، مولانا سجادؒ کی سیاسی و سماجی خدمات، ان کی سیاسی بصیرت اور نقطۂ نظر کو بھی موضوع بحث بنایا ہے، انجمن علماء بہار، جمعیت علماء ہند ،خلافت کمیٹی اور مسلم انڈیپینڈنٹ پارٹی کے قیام، مقاصد اور خدمات کو زیر بحث لا کر اس عہد کی ملی اور سیاسی تنظیموں کی خدمات اور طریقۂ کار پر کلام کیا ہے،’’ وفات سجاد‘‘ ’’یاد سجاد‘‘ ’’ماتم سجاد‘‘ ’’ذکر سجاد‘‘ اور قطعۂ تاریخ وفات کو بھی اس کتاب میں جگہ دی گئی ہے۔
کتاب کا بڑا حصہ مولانا سجاد کی اردو تصانیف ،ان کے نثر کی خصوصیات اور ان تصانیف کی اہمیت کے جائزے پر مشتمل ہے جن کتابوں پر گفتگو کی گئی ہے اس میں حکومت الٰہیہ، فتاوی امارت شرعیہ، مقالات سجاد، سیاسی مقالات، مکاتیب سجاد، قانونی مسودے، خطبۂ صدارت، قضایا سجاد،امارت شرعیہ :شبہات و جوابات، خاص اہمیت کی حامل ہیں ،مولانا کے افکار و خیالات ان کتابوں کی روشنی میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
آخر میں مولانا سجاد کے بارے میں ہم عصر ادبی و مذہبی اور دور حاضر کے دانشوروں کی آراء قلم بند کی گئی ہیںاور اس نتیجے پر پہنچا گیا ہے کہ ایک عالم دین، ایک مفکر ،ایک مدبر و محقق اور انشاء پردازی کی تمام خوبیاں ان میں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔
روشان پرنٹرس دہلی کے مطبع میں چھپی اس کتاب کا ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ہے، 200 روپے دے کر الفاطمہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ڈیوکھر ،بابو برہی ،مدھوبنی بہار، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ، ناولتی بکس و بک گیلری قلعہ گھاٹ دربھنگہ سے حاصل کر سکتے ہیں، مفت لینے کی خواہش ہو( جو اچھی نہیں ہو تی)تو مصنف کے موبائل 9534590987پر فون کر لیں۔

جمعرات, فروری 01, 2024

آخر میں ایک بات

آخر میں ایک بات 
Urduduniyanews72 
ماہ جنوری کے اختتام پر لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔سخت ٹھنڈک سے سبھی کو نجات ملی ہےاور ہمارےجسم کو آرام نصیب ہوا ہےمگرساتھ ہی اس مہینہ کے اختتام پرکچھ ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں جن سے بالخصوص مسلمانوں کو شدید قلبی تکلیف پہونچی ہےاورہند کےملت اسلامیہ کاجگرپارہ پارہ ہوگیاہے۔ انمیں پہلی خبرملک کی راجدھانی دہلی کے مہرولی کی ہے۔ چھ سو سالہ قدیم اخونجی مسجد جسمیں مدرسہ بھی چل رہا تھا بلڈوز سے شہید کردی گئی ہے،قرآن کریم کے نسخے، اساتذہ وطلبہ کے ساز و سامان سب مسجد کے ملبے کے ساتھ دفن کردئیے گئے ہیں، یہ کارروائی علی الصباح دہلی اتھاریٹی نے پولس کی مدد سے انجام دی ہے۔سب سے پہلے امام صاحب ودیگر موجودین کو یرغمال بنالیا گیا، ان کے موبائل فون ضبط کئےگئےتاکہ کسی کو اس انہدامی کاروائی کی خبر نہ ہوسکے،پھر سب کچھ تہس نہس کردیا گیاہے۔ اس وقت وہاں صرف مٹی کا ڈھیر ہے۔ مسجد کا نام ونشان  تک بھی موجودنہیں ہے۔
دوسری خبر شہر وارانسی سے یہ مل رہی ہے کہ ڈسٹرکٹ جج نے اپنی سروس کے آخری دن گیان واپی جامع مسجد کے تہہ خانے میں ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دے دی ہے، ابھی ابھی یہ خبر  بھی مل رہی ہے کہ راتوں رات مذکورہ مسجد کےتہہ خانے میں مورتی نصب کرکے اس کی پوجا بھی شروع ہوچکی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف مسلم پرسنل لا بورڈ نےالہ آباد ہائی کورٹ میں قانونی چارہ جوئی کی بات کہی ہے اور یہ ضروری بھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نازک ترین وقت میں بیداری کی شدید ضرورت ہے۔سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ آخرکیسی بیداری اور کس کی بیداری مطلوب ہے؟
 سوشل میڈیا میں اس وقت مفکر اسلام حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی ایک آڈیو گشت کر رہی ہے۔جن حالات کا ہم سامنا کررہے ہیں مولانا نے بہت پہلے سے ہی اس کی پیش گوئی فرمادی ہےاور اسے ایک بڑافتنہ کہا ہے،نیز اس کے حل کےلئے آخری بات کہ کر علماء کرام کو خطاب بھی کیا ہے۔
حضرت نےیہ واضح انداز میں فرمادیاہے کہ علماء کرام کی طاقت سے ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہےا۔حضرت کی یہ تقریر پورے ملک کی تصویر بدل سکتی ہے،اور ہم اس برے حالات سے نکل سکتے ہیں، اے کاش اس پر عمل ہو اور پورے ملک کے علماء کرام متحد ہوکر آج ہی سے اس انقلابی کام کو ایک تحریک کی شکل دیکر کرنے لگیں، مولانا فرماتے ہیں ؛
"آخر میں ایک بات کہ کر ختم کرتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان میں ایک ایسا دور ایا ہےجو ہمارے علم میں پہلے کبھی نہیں ایا۔ دور اکبری کو کسی قدر مشابہت ہے لیکن دور اکبری بھی اس درجے میں خطرناک نہیں تھا جتنا یہ دور جو چل رہا ہے۔ اس وقت اکثریت نے یہ طے کر لیا ہے کہ اس ملک کو"اسپین" بنا کر رہیں گے۔ یعنی اس میں مسلمان رہیں گے مگر اپنے تمام ملی تشخصات کو چھوڑ کر۰۰۰۰۰۰۰ اذانیں بھی زور سے نہ ہوں، مسجدوں کی کثرت بھی، مسجدوں کا جائے وقوع بھی اور مسجدوں کا وجود بھی خطرے میں ہے۔ بابری مسجد کے ساتھ جو واقعہ پیش ایا اس نے اس کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔ صاف صاف ہندو اخبار نے بھی اور کالم نگار اور ان کے سوچنے سمجھنے والے انگریزی اخباروں میں بھی جو مضامین نکل رہے ہیں اور ہندی اخباروں میں بھی صاف صاف یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو بالکل ہندو بن کر رہنا ہوگا، ہندوستانی بن کر رہنا ہوگایا مسلمان بن کر رہنے کی اب گنجائش نہیں ہوگی۔ لباس میں ،صورت وشکل میں ، زبان میں،رسم الخط میں اور تہذیب میں سب میں ان تمام امتیازی خصوصیات سے دستبردار ہو جائیں جن سے دور سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ مسلمان ہیں۔
 اس وقت اس فتنے کو روکنے کے لیے سب سے بڑی طاقت ہو سکتی ہے وہ علماء کی ہو سکتی ہے اور ہمارے فضلاء مدارس کی ہو سکتی ہے۔ وہ جہاں جہاں کے رہنے والے ہوں وہاں کی مسجدوں میں تقریر کریں، جمعہ کے دن تقریر کریں، عیدین میں تقریر کریں ،خوشیوں کے موقع پر تقریر کریں، نکاح وغیرہ کی مجلسوں میں تقریر کریں کہ ہمیں پورے ملی تشخص کے ساتھ اس ملک میں رہنا ہےاور کسی ایک چیز کو نہیں چھوڑنا ہے۔ہم اس کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہمارا پاجامہ ٹخنے سے نیچے ہو، ہم اس کے لیے بھی تیار نہیں کہ اپنی داڑھی کو ایسا کر لیں کہ محسوس یہ ہو کہ اتفاقا کچھ بال اگ آئے ہیں۔ ہم بالکل شریعت پر عمل کریں گے، شریعت کے ساتھ رہیں گے، ہمارا نظام تعلیم وہی یہی رہے گا، بچوں کو توحید کی تعلیم دیں گے، دینیات پڑھائیں گے، اردو سے واقف بنائیں گے، اردو رسم الخط کو زندہ رکھیں گے۔ سب سے بڑی ذمہ داری اپ پر عائد ہوتی ہے اور اپ ہی بہتر طریقے پر یہ ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی سن لیجیے اور دل پر لکھ لیجئے کہ اس وقت کا سب سے بڑا فتنہ ہے متحدہ کلچر اور ملی تشخص سے دستبردار ہونا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی حلقے یا علمی حلقے کے بعض لوگ بھی جو قلم کا استعمال جانتے ہیں اور علمی زبان میں بات کر سکتے ہیں وہ بھی اس کی دعوت دینے لگے ہیں کہ مسلمانوں کو اس پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ پرسنل لاکے سلسلے میں جو اصرار کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف خواہ مخواہ ہندوؤں میں اس سےایک رد عمل پیدا ہوا، وہ سمجھے کہ مسلمان بہت تنگ دل اور تنگ نظر ہیں۔
 صاف صاف کہتے ہیں ہم یہاں پوری خصوصیات کے ساتھ رہیں گے، اس کے ساتھ ہم امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم کو اس ملک کی قیادت نصیب فرمائے گا۔ اس لیے کہ اس ملک کی ابادی کا کوئی عنصر اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس ملک کو بچائے خطرے سے۔ سب دولت پرست ہیں،مادہ پرست ہیں، نفس پرست ہیں، طاقت پرست ہیں، اقتدار پرست ہیں، جاہ پرست ہیں۔
 اس لیے ہم عزت کے ساتھ رہیں گے، ہم اپنے تشخص کے ساتھ رہیں گے، سر اونچا کر کے چلیں گے، ہماری نگاہیں شرم سے جھکی ہوئی نہیں ہوں گی بلکہ ہماری نگاہیں بلند ہوں گی۔ اور سمجھیں گے کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ صحیح ہے اور ہندوستان کا دستور اس کی اجازت دیتا ہے۔ ہندوستان اسی حالت میں صحیح سلامت مامون محفوظ اور خوشحال رہ سکتا ہےکہ اس میں ایک دوسرے کو اس کی ازادی دی جائے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کریں، اور مذہبی شعائر کامظاہرہ کر سکیں"
(حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ )

ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
یکم فروری ۲۰۲۴ء بروز جمعرات

مولانا امام الدین قاسمی با صلاحیت اور سنجیدہ عالم دین تھے_

مولانا امام الدین قاسمی با صلاحیت اور سنجیدہ عالم
اردودنیانیوز۷۲ 
تھے___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
پٹنہ یکم فروری (عبدالرحیم برہولیاوی)
مولانا امام الدین قاسمی نے جواں عمری میں ہی آج شام پارس ہوسپٹل لے جاتے ہویے دنیا کو خیر باد کہ دیا
یہ انتہائی افسوسناک خبر رہی  جس نے بھی سنا حیران رہ گیا
اللّٰہ کے یہاں سے اتنی ہی زندگی وہ  لے کر کے آیے تھے
اللّٰہ کی مرضی کے آگے بندہ کو راضی برضاءے الہی رہنا ہوتا ہے یہی بندگی ہے اور یہی بندے کی شان ہے ان خیالات کااظہار  معروف عالم دین ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ اردو میڈیا فورم اور کاروان ادب کے صدر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے نمائندہ سے ٹیلیفونک گفتگو  میں  تعزیتی کلمات میں کیا۔انہوں نے فرمایا کہ مولانا امام الدین قاسمی با صلاحیت اور سنجیدہ عالم دین تھے جو مصیبتیں اور پریشانیاں ان کی زندگی میں آتی اسے انہوں نے صبر استقامت کے ساتھ دل پر مار کر جھیل لیا۔امارت شرعیہ سے علیحدگی کے بعد وہ الحمد ٹرسٹ کے ذریعہ خدمات انجام دے رہے تھے
وہ لاولد تھے یہ بھی ان کی زندگی کا ایک خلا تھا اللّٰہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے والدین اہلیہ اور متعلقین  کو صبر جمیل دے آمین قارین سے دعاء مغفرت کی درخواست بھی مفتی صاحب نے کی ہے

ہر اک شکست دے گی تجھے حوصلہ نیا

ہر اک شکست دے گی تجھے حوصلہ نیا 
اردودنیانیوز۷۲ 
     مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ (9431003131)

22؍ جنوری 2024ء ہندوستانی تاریخ کا وہ کالا دن تھا، جس دن مرکزی اور ریاستی حکومت نے ملکی دھن اور حکومتی تنتر اور اقتدار کے سہارے اجودھیا میں رام للا کی پران پرتشٹھا‘‘ کے نام پر گنگا جمنی تہذیب، سیکولر اقدار اور محبت کے ماحول کو نفرت کی بھینٹ چڑھادیا، یوگی جی نے اس موقع سے فرمایا کہ لوگ کہتے تھے کہ مندر تعمیر ہونے پر خون کی ندی بہہ جائے گی، وہ دیکھ لیں مندر وہیں بنا ہے، جہاں ہم بنانا چاہتے تھے،وزیر اعظم نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ رام مندر بنے گا تو آگ لگ جائے گی، ایسا کچھ نہیں ہوا، انہوں نے کہا کہ رام سب کے ہیں، تو پھر ہندو مذہب کے چاروں شنکر اچاریہ، رام مندر تحریک کے صف اول کے رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، ونے کٹیار ، اوما بھارتی اور حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے اپنے کو اس تقریب سے کیوں دور رکھا ، بات بالکل واضح ہے کہ ان حضرات نے اسے بھاجپا اور آرایس ایس کا محض ایک کھیل سمجھا، جو 2024ء میں بھاجپا کو پھر سے اقتدار تک پہونچانے اورنریندر مودی کو پھر سے وزیر اعظم بنانے کے لیے کھیلا گیا ہے، مودی جی نے  کہا کہ رام للا مندر کی تعمیر ہندوستانی سماج کے امن ، صبر، باہمی خیر سگالی اور ہم آہنگی کی علامت ہے، وزیر اعظم نے بالکل صحیح کہا، لیکن یہ ہندوستانی سماج کے بجائے یک طرفہ مسلمانوں کے صبر ، امن ،باہمی خیرسگالی اور ہم آہنگی کی وجہ سے سارا کام پر امن ماحول میں ہوگیا، جس نے مسلم مخالف نعرے اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے اکسانے اور اشتعال انگیز نعروں کے باوجود صبر،تحمل اوربرداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، وہ اپنے قائدین کے مشورے کے بموجب خاموشی سے یہ سارا تماشہ جھیل گیے اورملک کی فضا کو پُر امن بنائے رکھنے میں اپنی مضبوط حصہ داری نبھائی، جبکہ فریق مخالف نے رام للا کی گھر واپسی کے نام پر پورے ملک میں جو طوفان بد تمیزی برپا کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، پروگرام کو پورے ہندوستان میں رواں دکھایا گیا اورلوگ جھومتے رہے ، اس سے رام جی کی محبت دلوں میں پیدا ہوئی ہو یانہیں، یہ تو اللہ جانے، لیکن آر ایس ایس اور بھاجپا کے 2024ء میں اقتدار پر قبضے کی بھر پور منصوبہ بندی ہو گئی اور مودی جی کی تقریر سے متھرا اورکاشی کی آگ اور بھڑکنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا، وزیر اعظم اشاروں میں بات کرنے کے عادی ہیں اوریہ اشارے ان کے بھگت اچھی طرح سمجھتے ہیں، وہ بہت برننگ ٹاپک پر بھی کم بولا کرتے ہیں، منی پور کا معاملہ آپ کے سامنے ہے ، پارلیامنٹ کا سارا وقت برباد ہوا اور وہ چپی سادھے رہے ، مودی جی نے اس پوجا کے ججمان بننے کے لیے گیارہ دن کا اُپواس رکھا، صرف ناریل پانی پر گذارا کرتے رہے ، مندر مندر جا کر پوجا ارچنا کی، تقریب میں رام للا کو اپنی جگہ پر پہونچانے اور آنکھوں کی پٹی کھولنے کے وقت یوں تو آدتیہ ناتھ یوگی ، آر ایس ایس کے سنچالک موہن بھاگوت، اتر پردیش کی گورنر آنندی بین اور ایک پنڈت بھی تھے، لیکن ایسا لگتا تھا کہ یہ ’’ون مین شو‘‘ہے جو نریندر مودی پر مرکوز ہے، بقیہ لوگ صرف اس موقع کے چشم دید گواہ ہیں، اس موقع سے ایک بڑا جلسہ بھی ہوا، اوربڑی شخصیات نے اس میں خطاب کیا، تذکرہ اس موقع سے رام للا سے زیادہ مودی جی کا ہوا، البتہ یہ بات صحیح کے مودی جی نے اپنی مختصر تقریر میں ایک سو چودہ (114)بار رام اور رام للا کا ذکر کیا۔انہوں نے اس پورے پروگرام میں اپنے کو سادھو سنتوں کی طرح پیش کیا اورہندو راشٹر کی علامت اپنے کو بنا لیا۔ ایسے میں ہندوستان کا گودی میڈیا کب خاموش رہنے والا تھا، اس نے کئی کئی گھنٹے اس تقریب کی رواں نشریہ کا انتظام کیا اور پل پل کی خبریں اس طرح پہونچائیں، جیسے پورا ملک ہندو راشٹر میں تبدیل ہو چکا ہے، اورکیا ہندو اور کیا مسلمان سب اس تقریب میں شریک ہیں، آر ایس ایس اور موہن بھاگوت کے منظور نظر عمر الیاسی کی اونچی ٹوپی گودی میڈیا کی توجہ کا خاص مرکز رہی ، اور کیمرہ گھوم پھر کر اس پر ڈالا جاتا تھا تاکہ دنیا کو بتایا جائے کہ مسلمان کو بھی اس تقریب سے مسرت ہے، بابری مسجد کا مقدمہ پوری زندگی لڑنے والے ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری بھی اس مہم میں شریک تھے اور بھول گیے تھے کہ ان کے والد نے مرتے وقت انہیں وصیت کی تھی ، جو تصویر میڈیا دیکھا رہا تھا مسلمانوں کی حالت اس کے بر عکس تھی، وہ خون کے آنسو پی کر امن اور سکون سے رہے بھی اور دوسروں کو رکھا بھی، اگر یہ یک طرفہ تحمل نہیں ہوتا تو اس موقع پر سب کچھ جل کر خاکستر ہوجاتا اور لاشوں کا شمار ممکن نہیں ہوتا۔ 
اس پروگرام کی بڑی حد تک صحیح تصویر غیر ملکی اخبارات نے پیش کی ، اور عنوانات اور سرخیوں کے ذریعہ لوگوں کو بتایا کہ حقیقت کیا ہے، بر طانوی اخبار گارجین نے لکھا ، مودی نے بھارت میں منہدم مسجد کی جگہ ہندو مندر کا افتتاح کیا، بی بی سی کے ویب سائٹ پر سرخی لگائی گئی کہ ’’بھارتی وزیر اعظم مودی نے مسمار کی گئی بابری مسجد کے مقام پر ہندو مندر کا افتتاح کیا‘‘ رائٹر نے لکھا کہ ’’اسے ہندوستان میں ہندو بیداری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے‘‘۔
 رام للا کی جو مورتی مندر میں نصب کی گئی ہے اس کی سناتن دھرم کے مطابق کئی بار پوجا کی گئی ، سینکڑوں گھڑے پانی سے غسل دیا گیا، پالکی پر رکھ کر انہیں پورے مندر میں گھمایا گیا، بقول پنڈتوں کے انہوں نے پورے مندر احاطہ کا ’’بھرمن‘‘ کیا، اور اس کے بعد صرف چوراسی(84) سکنڈ میں منتروں کے بیچ انہیں متعینہ جگہ پر نصب کر دیا گیا، رام للا کی یہ مورتی سوئے گی، بھی جاگے گی بھی، کھائے گی بھی، بھوگ اسی کے لیے لگایا جاتا ہے، یہ دو پہر میں آرام کرے گی، رات میں دس بجے کے بعد پھر سوئے گی،اس پورے کام کو متعینہ وقت پر انجام دلانے کے لیے ان کی چھ بار آرتی اتاری جائے گی، جس میں ایک صبح ان کو جگانے، دوسری انہیں آرام پر جانے، تیسری ان کو رات میں سونے کا وقت بتانے کے لیے کیا جائے گا۔ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق ’’پران پرتشٹھا‘‘ سے مورتی کے اندر جان پڑ گئی ہے، لیکن ان کو روز مرہ کے معمول یاد دلانے کے لیے بار بار ان کی آرتی اتاری جائے گی اور ان کے آرام میں کوئی خلل واقع نہ ہو اس کے لیے رام للا کے درشن کودن میں ڈیڑھ گھنٹے اور دس بجے کے بعد سے صبح ک روک دیا جائے گا۔گوا بھی معتقدوں کی بھیڑ کی وجہ سے دن کے آرام کے وقفہ کو ختم کر دیا گیا ہے، جب تک بھیڑ رہے گی، دن میں وہ آرام نہیں کر سکیں گے ، اللہ نے کتنی پیاری بات کہی ہے، ضعف الطالب والمطلوب۔
تاریخ کے آنکھوں نے یہ دیکھ لیا کہ بابری مسجد توڑ کر اس کی جگہ مندر بنادی گئی ہے اور اس بے انصافی کا جشن پورے ہندوستان میں اکثریتی طبقہ نے پورے جوش وخروش سے منایا ، رات میں دیوالی منائی گئی ، پٹنہ میں ڈاک بنگلہ چوراہے سے بودھی پارک تک پچپن ہزار دیے جلائے گیے ، یہ صرف ایک چوراہے کا حال ہے، پورے ملک میں جو پٹاخے پھوڑے گیے، آتش بازی ہوئی ، اس کا شمار ممکن نہیں ہے، سڑکوں کی آمد ورفت کو جس طرح بند کیا گیا، لوگ ہنومان مندر پٹنہ سے گاندھی میدان تک پیدل مارچ کرنے کو مجبور ہوئے، یہ رام کا پیغام بالکل نہیں تھا، جس ملک میں عام جگہوں پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، کئی کو ایسا کرنے پر قید وبند کی صعوبت جھیلنی پڑی ہے ، اس ملک میں ایک مذہبی تقریب کے لیے سڑکیں بند کر دی گئی ہوں، تیز آواز میں ڈی جے، پٹاخے، آتش بازیاں اور چراغاں فضائی آلودگی میں اضافہ کرکے خطرناک حد تک پہونچا دے رہے ہوں، جہاں سانس لینا مشکل ہو رہاہو کیا اسے رام کا پیغام کہا جا سکتا ہے ، یقینا نہیں، خوشیاں ضرور منائیے، لیکن عام انسانوں کو تو پریشانی میں مت ڈالیے، رام جی نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا’’پرہت سرس دھرم ناہیں بھائی، پریہارسم نہیں ادھمائی‘‘،یعنی دوسروں کی بھلائی کے برابر کوئی مذہب نہیں ہے اور دوسروں کو دکھ پہونچانے کے برابر کوئی نیچتا پاپ نہیں ہے، کیا رام مندر بنانے والوں نے رام جی کے اس اپدیش کاذرا بھی خیال رکھا، انہوں نے کہا تھا کہ اجُون اینتی کچھ بھاشیوں بھائی، تو موہی برجبوبھیسرائی‘‘، اگر میں کچھ غلط کی بات کروں تو ڈرخوف بھلاکر مجھے روک دینا ، کیا ایسا ہے، ہندوستان میں رام جی کے معتقدین کا بڑا طبقہ ڈراور خوف پھیلانے میں لگا ہوا ہے ، اور اپنے موقف کے خلاف عدل وانصاف کی بات بھی سننا اسے گوارہ نہیں ہے ۔یقینا رام مندر کی تعمیر ہمارے بازی ہار جانے کی علامت ہے، بازی تو ہم اس وقت بھی ہار گیے تھے، جب بابری مسجد کا دروازہ پوجا کے لیے کھول دیا گیا تھا، اس وقت بھی ہارے تھے جب رات کی تاریکی میں مورتیاں وہاں رکھ دی گئی تھی، بازی ہارنے کا ایک موقع وہ بھی تھا جب پنج وقتہ نمازوں پر وہاں روک لگادی گئی تھی ، ہمیں شکست کا احساس اس وقت بھی ہوا تھا، جب فرقہ پرستوں کے مشتعل کارسیوکوں نے حکومت کے تحفظ کی ذمہ داری اور عدالت کی یقین دہانی پر تیشہ چلا کر بابری مسجد کو توڑ دیا تھا، ہمیں اپنی بے کسی کا اندازہ اس وقت بھی ہوا تھا جب نرسمہا راؤ کی سرکار میں عارضی مندر کی دیواریں اٹھا دی گئی تھیں اور رام للا کو درشن کے لیے ٹینٹ میں براجمان کر دیا گیا تھا، اس تمام شکست وریخت کے درمیان تھوڑی امید اس وقت بندھی تھی جب 1994ء میں یہ قانون پاس ہوا تھا کہ تمام عبادت گاہیں 1947ء میں جس پوزیشن میں تھیں رہیں گی اور اس پر کسی کا کوئی دعویٰ کبھی بھی قبول نہیں کیا جا ئے گا، لیکن یہ بھرم بھی ہمارا جاتا رہا جب عدالت نے گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کے مقدمہ کو سماعت کے لیے قبول کر لیا اور لوہے کے فوارہ کوشیو لنگ بتانے میں سروے کنندہ کو دیر نہیں لگی، بابری مسجد تاریخ کے اوراق میں سما گئی اور اب متھرا کاشی کا نمبر ہے، اگر مودی جی 2024ء میں آگیے تو 2029ء کے انتخاب کے لیے اگر ہندو راشٹر کا اعلان نہیں بھی ہوا تو متھرا کاشی کی ضرورت انہیں پڑے گی اور وہ اس کو موقع بموقع زندہ کرتے رہیں گے، انہوں نے انتخاب میں مسلم خواتین کو متوجہ کرنے کے لیے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دلوایا تھا اور اسے موجب سزا تسلیم کیا گیا تھا، لیکن مسلم خواتین ان کے اس جھانسے میں نہیں آسکیں، آج عدالتوں میں جا کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ تین طلاق کا کیس وہاں موجود نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم عورتیں خوب اچھی طرح جانتی ہیں کہ جس کام کو اللہ، رسول نے حرام قرار دیا ہے وہ کسی کے بھی کہنے اور کرنے سے حلال نہیں ہوسکتا، اس لیے عدالت کے فیصلے اور حکومت کے قوانین بھی عورتوں کو مودی جی کا ہم نوا نہیں بنا سکے، بلکہ مسلم عورتوں نے اسے دین میں مداخلت سے تعبیر کیا اور لاکھوں کی تعداد میں مسلم خواتین نے ہندوستان کے ہر خطے میں اپنا احتجاج درج کرایا، سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر میں بھی ہم اپنے کو ٹھگا ہوا محسوس کر تے رہے، لیکن حالات کے ان تمام نازک موڑ پر ہم نے بازی تو ہاری، بلکہ بار بار ہاری ، لیکن ہم نے حوصلے نہیں ہارے ، ہم نے یقینا اپنے حوصلوں کی اڑان دنیا کو نہیں دکھائی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے حوصلے پست ہو گیے ہیں اور ہم نے حوصلہ ہار دیا ہے، ایسا بالکل نہیں ہے، ہم خوب جانتے ہیں کہ تاریخ اپنے کو دہراتی ہے ، ہم نے تاریخ کو دہرانے کا عمل نادر خان کے حملے کے وقت بھی دیکھا اور تاتاریوں کی نسل کشی کے وقت بھی ، تاریخ نے ترکی میں خود کو دہرایا تو ایا صوفیا گرجا گھر پھر سے مسجد بن گئی ، ہم پورے حوصلے کے ساتھ اس دن کا انتظار کریں گے، جب پھر سے اللہ کی کبریائی کی آواز گونجے گی ، ابھی تو یہ خیال معلوم ہوتا ہے اور اسے ’’دیوانے کی بڑ‘‘یا پھر’’ ایں خیال است ومحال است وجنوں‘‘ کہہ کر دامن جھاڑ لیا جا سکتا ہے ، لیکن جن کا یقین تلک الایام نداولھا بین الناس، ان اللہ علی کل شئی قدیر اور لعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا زمانہ کے الٹ پھیر کے الٰہی نظام اس کی قدرت اور ہر شر سے خیر نکلنے پر ہے اور وہ نوشتہ دیوار پڑھنے کا ہنر جانتے ہیں وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے اور دنیا و امید ہی پر قائم ہے ۔

بدھ, جنوری 31, 2024

مفتی مظفر عالم قاسمی ؒ (یادوں کے چراغ)

مفتی مظفر عالم قاسمی ؒ
     (یادوں کے چراغ)
اردودنیانیوز۷۲ 
 ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

 مدرسہ عالیہ قاضی پورہ ممبئی اور انجمن اہل سنت والجماعت کے بانی مدرسہ تعلیم الدین برار سیتامڑھی کے بانی وسابق ناظم ، دار العلوم امدادیہ اور انجمن اسلام احمد سیلر اسکول ممبئی کے سابق استاذ ، حج کمیٹی آف انڈیا کے رکن ، معروف عالم دین اور با فیض شخصیت ، مولانا مفتی مظفر عالم قاسمی کا ممبرا ممبئی کے کالیسکر اسپتال میں 14؍ جنوری2024ء مطابق 2؍ رجب بروز اتوارانتقال ہو گیا، جنازہ کی نماز بعد نماز عشاء سورتی محلہ مسجد ممبئی کے امام قاری وقار صاحب نے پڑھائی اور ناریل واری قبرستان ممبئی میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں 4؍لڑکے 2؍لڑکیاں اور پوتے پوتی ، نواسہ، نواسی اور ہزاروں شاگرد اور مستفیدین کو چھوڑا، ایک لڑکی مشہور صحافی مولانا نور اللہ جاویدیو این آئی کولکاتہ کے نکاح میں ہے ۔اہلیہ ایک دہائی قبل ہی رخصت ہو چکی تھیں۔
مولانا مظفر عالم بن مولانا عزیز الرحمن بن شیخ صمدانی بن شیخ نواب علی کی ولادت اپنی نانی ہال مہیش استھان اورائی میں 15؍ رمضان المبارک 1361ھ مطابق 11؍ نومبر 1941ء کو ہوئی ، ان کے نانا کا نام ماجد بخش تھا جو علیم اللہ ٹھیکیدار کے چچا زاد بھائی تھے، عہد طفلی کے چار سال یہیں گذرے ، پھر اپنی دادیہال موضع برار، کوئیلی ضلع سیتامڑھی چلے آئے، یہاں کے سرکاری مکتب میں چار سال ابتدائی تعلیم پائی ، ان کے بڑے چچا جنہیں ہمارے علاقہ میں ’’بڑے ابا‘‘ کہا جاتا ہے کی طلب پر 1950ء میں ممبئی چلے گیے اور ممبئی کی مشہور دینی درسگاہ دار العلوم امدادیہ میں داخلہ لیااورسات سال تک یہاں زیر درس رہے، یہاں انہوں نے حافظ شمس الحق اعظمی، مولانا عبد المنان پٹھان پیشاوری، مولانا عباس علی بستوی اور اپنے بڑے ابا مولانا عبد العزیز صاحب(م1967ئ) عرف بڑے مولانا (رحمہم اللہ) سے کسب فیض کیا، مولانا عبد العزیز صاحب ان دنوں دارالعلوم امدادیہ کے صدر مدرس تھے، وہاں سے اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیو بند کے لیے سفر باندھا اور عربی ششم میں داخلہ لے کر تین سال میں دورۂ حدیث مکمل کرکے سند فراغت حاصل کی، مولانا نے جن اکابر اساتذہ کے سامنے دیو بند میں زانوے تلمذ تہہ کیا، ان میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب، مولانا فخر الدین احمد مراد آبادی، مولانا مبارک علی، مولانا مفتی مہدی حسن ، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، مولانا فخر الحسن ، مولانا ظہور احمد، مولانا بشیر احمد خان، مولانا عبد الجلیل ، مولانا اختر حسین، مولانا عبد الاحد، مولانا معراج الحق، مولانا نصیر احمد خان، مولانا محمد حسین بہاری (رحمہم اللہ) کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
فراغت کے بعد 1960ء میں خالہ کی لڑکی سے نکاح ہوا، نکاح خواں مولانا کے بڑے ابا مولانا عبد العزیز صاحب تھے، تدریسی زندگی کا آغاز مادر علمی دار العلوم امدادیہ سے کیا، سات سال تک یہاں استاذ رہے اور عربی کی ابتدائی کتابوں سے بخاری شریف تک کا درس اس درمیان ان سے متعلق ہوا، فجر اور عشا کی نماز کے بعد ممبئی کی کماٹی پورہ کی تیسری گلی والی مسجد میں بھی تعلیم دیا کرتے تھے۔ 1968ء سے 1973ء تک کا زمانہ قلابہ بازار ممبئی ۔۵؍کی مسجد میں امام وخطیب کی حیثیت سے گذارا۔ 1973ء میں سوٹ کیس میٹیریل سپلائی کی تجارت شروع کی، 1980ء سے 2000ء تک انجمن اسلام احمد سیلر ہائی اسکول ناگپاڑہ ممبئی میں معلم کی حیثیت سے کام کرتے رہے ، 1980ء سے 2018ء تک چوک محلہ مسجد میں جمعہ کی خطابت وامامت بھی آپ کے سپرد رہی ، 1974ء میں جامعہ تعلیم الدین کے نام سے اپنے گاؤں میں ایک مدرسہ درسگاہ تعلیم الدین کے نام سے قائم کیا تھا، جو پہلے مدرسہ اور اب جامعہ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو لفظ ہی کی حد تک جامعہ ہے ۔
 مولانا مرحوم پختہ اور منجھے ہوئے خطیب تھے، امامت وخطابت کی ذمہ داریوں نے ان کی اس صلاحیت کو خصوصیت سے صیقل کر دیا تھا، ان کی تقریر میں بہت گھن گرج تو نہیں تھا اورنہ ہی وہ زیادہ جسمانی حرکات وسکنات(باٹی لنگویج) سے کام لیتے تھے، اس کے باوجود وہ اپنی بات سلیقہ سے لوگوں کو سمجھانے پر قادر تھے، اوروہ ’’از دل خیزد دبر دل ریزد‘‘ ہوا کرتی تھی، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں تصنیف وتالیف کا بھی ملکہ عطا فرمایا تھا، وہ اپنی متنوع مشغولیات کی وجہ سے اس میدان میں بہت کام تو نہیں کرسکے، لیکن جو لکھا مسلمانوں کے عام ضرورت کی چیز ہے ۔ ان کی مشہور تصانیف میں اذان واقامت ، آئینہ نکاح، آدھا دین، آداب زندگی، تعلیم السنۃ ، پردہ سنٹر اور چند رسائل قابل ذکر ہیں۔
 مولانا مرحوم سے میرے تعلقات قدیم مضبوط اور مستحکم تھے، میری ملاقات موضع برار ضلع سیتامڑھی، کولکاتہ اور ممبئی ہر سہ جگہ ہوئی تھی، کولکاتہ میں ان کے داماد مولانا نور اللہ جاوید قیام پذیر ہیں اس تعلق سے ان کا آنا جانا ہوتا تھااور میری حاضری تینوں جگہ جلسہ کے حوالہ سے ہوتی تھی ، میں نے مولانا کو ہر مجلس میں باوقار ، مہمان نواز اور محبت وشفقت کرنے والا پایا، ممبئی کی چکا چوند والی زندگی نے انہیں کبھی بھی عالمانہ وقار اور داعیانہ کردار سے دور نہیں کیا،وہ باجماعت نمازوں کے پابند تھے، اور گھر کے چھوٹے بچوں کو بھ اس میں شریک کیا کرتے تھے، کہنے والے کہتے ہیں کہ شمالی بہار کے باشندوں کی جو بڑی تعداد ممبئی میں سکونت پذیر ہے، اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ان کو بسانے ، وقار بخشنے اور ان کی دنیاوی اور دینی ضرورتو کی تکمیل میں مولانا عبد العزیز ؒ اور ان کے خانوادے کا بڑا ہاتھ رہا ہے ، یہ خاندان آج بھی ممبئی میں مولانا کی دینی جد وجہد کو روشن وتابندہ رکھے ہوئے ہے۔ اللہ رب العزت مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...