Powered By Blogger

پیر, فروری 12, 2024

خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات

خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
مولانا ابو سفیان بن سعید ندوی (ولادت 3 جولائی 1973) بن سعید احمد (م2017) بن قاضی ظفر بن قاضی اشمل ایک بڑی علمی شخصیت ہیں، انہوں نے ندوۃ العلماء سے 1994 میں فضیلت اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ سے 1996 میں عربی میں ایم اے کیا ہے، تدریسی زندگی کا آغاز مظاہر علوم دار جدید سہارن پور سے 1997 میں کیا، 1998 کے آخر میں وہ جدہ سعودی عرب چلے گیے جہاں انہوں نے سعودی ریسرچ اینڈ پبلشنگ کمپنی میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا، 2017 سے 2020 تک ان کی وابستگی مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسیٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے رہی، ان دنون گذشتہ تین ماہ سے وہ قاضی نور الحسن میموریل اسکول پھلواری شریف پٹنہ سے وابستہ ہیں، یہ اسکول امارت شرعیہ کا ہے اس لیے کہنا چاہیے کہ اس ادارہ کے واسطے سے وہ امارت شرعیہ سے منسلک ہیں، مولانا عربی اور اردو زبان کے ماہر ہیں، انہیں ان زبانوں میں لکھنا، پڑھنا اور بولنا اچھی طرح آتا ہے۔ ان کی تصنیفی صلاحیت کے مظہر کے طور پر تین کتابیں، والدین کی فضیلت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں سے پیار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق حسنہ کے پیکر شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، مولانا کی چوتھی کتاب خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات ہیں، جو ابھی پریس جانے کو تیار ہے اور میرے زیر مطالعہ ہے۔
 عورت کے سلسلے میں دنیا افراط وتفریط کی شکار رہی ہے، بعض مذاہب میں اسے دیوی کا روپ دے کر اس کی پوجا کی جانے لگی، بعضوں نے اسے قدموں کی دھول سمجھ کر ذلیل وخوار کیا، اور سماج میں اس کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا، جس سے انسانیت شرمسار ہوئی، ایک زمانہ تک اسے صرف خواہش نفسانی کی تسکین کا ذریعہ جانا گیا، اس کی اپنی مرضی  اپنی خواہش کچھ نہیں ہوتی تھی، وہ مرد کے تابع ہوتی تھی، اور اسے مرد کی مرضی کے مطابق زندگی گذارنی ہوتی تھی، ظلم کی انتہا یہ تھی کہ اسے شوہر کے مرجانے کے بعد اس کے ساتھ ہی ’’ستی‘‘ چتا پر جل کر مرجانا ہوتا تھا۔
پھر ایک دور وہ آیا جب عورتوں کی آزادی کے نام پر اسے بے پردہ کیا گیا، رقص وسرود کی محفلوں میں اسے آئٹم گرل کے طور پر پیش کیا جانے لگا، بڑی بڑی مشینوں سے لے کر ماچس کی ڈبیا تک اس کی نیم برہنہ تصویریں اشہارات میں لگائی گئیں اور ان کو خوش کرنے کے لیے فلمی دنیا میں ’’اسٹار‘‘ اور طوائفوں کے حلقے میں ’’سیکس ورکر‘‘ کا نام دیا گیا، اس کے خورد ونوش کی ذمہ داری مردوں پر تھی، لیکن حقوق نسواں کا بلند وبالا نعرہ لگا کر انہیں معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنا دیا گیا، اب عورت بچے پیدا کرتی ہے، پوستی پالتی ہے، چولھا چوکا کرتی ہے اور روزگار کے حصول کے لیے مختلف کمپنیوں، فیکٹریوں، اسکولوں کالجوں اور گھروں میں کام کرتی ہے، مرد ڈیوٹی سے آکر آرام کرتا ہے اور عورتیں گھر آکر بھی گھریلو کاموں سے لگ جاتی ہیں، یعنی اسے کسی وقت آرام نہیں ہے، دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب گھر میں کئی کمانے والے ہوتے ہیں تو معاشی ترقی ہوتی ہے، حالاں کہ عورت کا اصل کام بچوں کی پرورش وپرداخت ہے، انہیں تربیت دے کر اچھا شہری بنانا ہے، اب بچے دائی اور نوکروں کے حوالہ ہوتے ہیں اور مائیں گھر سے باہر کسی دفتر میں مفوضہ امور انجام دینے میں لگی ہوتی ہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ایک مرید صوفی عبد الرب تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا کو اتنی سمجھ نہیں ہے کہ عورتیں مجاہد تیار کرنے والی کمپنی ہے، اگر کمپنی کو ہی میدان میں لے کر چلے جاؤگے تو مجاہد کہاں سے پیدا ہوں گے۔
ان دونوں نظریات کے بر عکس اسلام نے عورتوں کی عفت وعصمت کی حفاظت پر زور دیا، بعض شروط کے ساتھ اسے کام کرنے کی بھی اجازت دی، والدین کی متروکہ میں اس کا حصہ مقرر کیا، شادی بیاہ میں اس کی اجازت کا خیال رکھا جانے لگا، شوہروں کو اس پر ظلم وزیادتی سے روکا گیا، وہ ماں، بہن بیوی بیٹی جس حیثیت میں ہوں اس کے حقوق مقرر کیے، وفا شعاری اور حسن سلوک کی تلیقن کی اس طرح عورتیں افراط وتفریط کی زندگی کے بجائے اعتدال کی زندگی گذارنے لگیں ایسااعتدال جس میں مرد وعورت دونوں کے حقوق کی رعایت کرکے گھر کو جنت نشاں، پرسکون اور ’’ٹینشن فری زون‘‘ بنایا جا سکتا ہے۔
 مرد جو عورتوں سے اپنی آنکھیں سیکنے اوراسے شہوت رانی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے، محفلوں کی رونق وتابانی اسی کے دم قدم سے مانتا ہے وہ اسلام کی معتدل تعلیمات جو عورتوں کے حوالہ سے ہے اس میں کیڑے نکالتا ہے، تنقیدیں کرتا ہے اور کبھی کبھی مسلمان عورتوں کے ذریعہ بھی سوالات کھڑے کرتا ہے، ان کا منطقی اور سماجی جواب دینا آج کی ضروت ہے۔
 مولانا ابوسفیان سعید ندوی جن کی علمی صلاحیت اور تدریسی خدمات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے،انہوں نے اس موضوع پر اسلام کی جامع تعلیمات کا تفصیلی جائزہ اپنی کتاب ’’خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات‘‘ میں لیا ہے، انہوں نے اسلام سے پہلے عورت کا مقام اور عرب معاشرے میں عورت کی حیثیت پر اپنا مطالعہ پیش کیا ہے، پھر اسلام میں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے جو حقوق ہیں بشارتیں اور حسن سلوک، اطاعت وفرماں برداری پر ثواب کا جو ذکر قرآن واحادیث میں آیا ہے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ مولانا نے اپنی باتیں اپنے تبصرے اس کتاب میں کم اور احادیث کا ترجمہ زیادہ پیش کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ کتاب معتبر اور اس کے مندرجات قابل اعتماد ہیں، اگر مولانا نے اس کتاب میں واقعات ومسائل کا ذکر احادیث کی تخریج کے ساتھ کیا ہوتا تو یہ کتاب زیادہ مستند ہوجاتی، مولانا نے یہ کتاب عام مسلمانوں کے لیے لکھی ہے، ممکن ہے یہ ذہن میں رہا ہو کہ حوالہ جات کے ذکر سے کتاب بوجھل ہو جائے گی اورقاری کے مطالعہ میں کسی حد تک رکاوٹ بھی، کتاب میں پردہ، نگاہ کی حفاظت، اجنبی کو دیکھنے اورباریک وچست لباس پہننے کی حرمت اور اسلام میں رہبانیت کی ممانعت کے تعلق سے بھی اچھا خاصہ مواد موجود ہے، جس سے مولانا ابو سفیان صاحب کے مطالعہ کی گہرائی اور گیرائی کا پتہ چلتا ہے۔
 اردو میں اس موضوع پر بہت ساری کتابیں موجود ہیں، ان میں عورتوں کے حقوق سیرت نبوی کی روشنی میں مصنفہ نغمہ پروین، عورت  اسلامی معاشرہ میں از مولانا نور الحق رحمانی، مولانا رضی الاسلام ندوی اور مولانا جلال الدین انصر عمری، اسلام اور عورت از مظہر الدین صدیقی، عورت اور اسلام وغیرہ بھی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مولانا کی یہ کتاب تحصیل حاصل ہے، ہرمصنف کی اپنی فہم اور سوچ ہوتی ہے، اس لیے موضوع کی یکسانیت کے باوجود کتاب میں گفتگو صاحب کتاب کے نقطۂ نظر سے آتی ہے اور ہر گلہائے رنگ وبوئے دیگر است کے مصداق قاری کے مشام جاں کو الگ الگ انداز میں معطر اور مختلف انداز میں معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہوا کرتی ہے، اس لیے ایک موضوع پر کئی کتابوں کو دیکھ کر مصنف پر غیر ضروری محنت کا الزام چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے، مولانا ابو سفیان صاحب کی کتاب کا مطالعہ اسی نقطۂ نظر سے کرنا چاہیے۔
 مولانا کو اس کتاب کی تالیف پر مبارکباد دیتا ہوں اور دل سے دعا کرتا ہوں کہ اس کتاب کا فیض عام وتام ہو اور ان کا قلم اسی طرح رواں دواں رہے اور صحت وعافیت کے ساتھ وہ ایسی طویل عمر پائیں جس میں مشقت وپریشانی، تعب وتکان کا گذر نہ ہو۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ضیاء فتح آبادی کے یوم پیدائش پر مشاعرہ وتقریب رسم اجراء بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ضیاء فتح آبادی کے یوم پیدائش پر مشاعرہ وتقریب رسم اجراء بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا 
Urduduniyanews72 

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 12/فروری 2024 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم )

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مدرسہ ضیاء العلوم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں مورخہ 11/فروری 2024 بروز اتوار بوقت 02/بجے دوپہر ضیاء فتح آبادی کے 111 ویں یومِ پیدائش پر ایک خوبصورت مشاعرہ اور ضیاء فتح آبادی کی حیات وخدمات پر منحصر "ضیاء فتح آبادی حیات اور کارنامے " نامی کتاب کا رسم اجراء عمل میں آیا ۔ پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا، 
 پروگرام کی صدارت مشہور ومعروف بزرگ شاعر شمیم شعلہ نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض سید رضوان حیدر اور شکیل سہسرامی نے انجام دیا ۔ 
پروگرام کی شروعات تلاوت قرآن پاک سے عزیزم فیصل نے کیا ۔
اس کے بعد برانچ اونر محمد ضیاء العظیم نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کا تعارف اور ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات اور فن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضیاء فتح آبادی اردو ہندی زبان وادب کے مشہور ومعروف اور مقبول افسانہ نگار، تنقید نگار، ساغرؔ نظامی، جوشؔ ملیح آبادی، میراؔ جی اور ساحرؔ ہوشیار پوری کے ہم عصر اور استاد شاعر سیمابؔ  اکبر آبادی کے شاگرد ہیں۔
ضیاء فتح آبادی کا اصل نام مہر لال سونی تھا۔ وہ کپورتھلہ پنجاب میں اپنے ماموں شنکر داس پوری کے گھر 9؍فروری 1913 کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک اردو نظم نگار و غزل گو شاعر تھے۔ انکے والد منشی رام سونی فتح آباد ضلع ترن تارن پنجاب کے رہنے والے تھے اور پیشے کے اعتبار سے ایک مدنی مہندس تھے۔ ضیاء فتح آبادی نے اپنی ابتدائی تعلیم جےپور راجستھان کے مہاراجہ ہائی سکول میں حاصل کی اور اسکے بعد 1931 سے لیکر 1935 تک لاہور کے فورمین کرسچن کالج میں پڑھتے ہوئے بی اے (آنرز) (فارسی) اور ایم اے (انگریزی) کی اسناد حاصل کیں اسی دوران انکی ملاقات کرشن چندر ، ساغرؔ نظامی ، جوشؔ ملیح آبادی ، میراؔ جی اور ساحرؔ ہوشیارپوری سے ہوئی۔ ان احباب میں آپس میں ایک ایسا رشتہ قائم ہوا جو تمام عمر بخوبی نبھایا گیا۔۔
بعدہ ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات پر "ضیاء فتح آبادی حیات اور کارنامے" کا رسم اجراء عمل میں آیا، اس موقع پر مشہور ومعروف شاعر وادیب، مترجم ،شکیل سہسرامی نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں سے آگاہ کراتے ہوئے کہا کہ یہ وہ تنظیم ہے جس نے قوس صدیقی، ناشاد اورنگ آبادی ،شمیم شعلہ ،خالد عبادی، افتخار عاکف، دلشاد نظمی ، شکیل سہسرامی ، اور بھی دیگر شعراء وادباء کو اعزاز سے نواز چکی ہے، ہمیں اس تنظیم کی سرگرمیاں دیکھ کر بیحد خوشی ومسرت اور شادمانی ہوتی ہے، کیوں کہ یہ تنظیم اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی کے لئے مستقل کوشاں رہتی ہے، اس تنظیم کے زیر انتظام طلبہ وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں،میں خصوصی طور پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن اور محمد ضیاء العظیم برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ اس کے بعد ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات اور تصنیفات کا اجمالی خاکہ پیش کیا ۔
مشہور ومعروف شاعر ظفر صدیقی نے بھی اپنی مثبت تاثرات سے نوازتے ہوئے فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں پر اطمینان کا اظہار کیا ۔انھوں نے ضیاء فتح آبادی کے اس شعر کے ساتھ پروگرام کی ابتداء کی کہ:
بڑھ کر مہ و انجم سے ضیائے اردو
رنگینی و دلکشی برائے اردو
اپنی جسے کہہ سکتے ہو ہم سب مل جل کر
ہے کوئی زباں اور سوائے اردو

اس کے بعد مشاعرہ کا باضابطہ آغاز ہوا، مشاعرہ میں پڑھے گئے شعراء کے نام اور ان کا شعر 

ماں کبھی دیتی نہیں ہے بددعا 
کیا ہوئی تجھ سے خطا معلوم کر ۔
ڈاکٹر نصر عالم نصر 
جو چلیں خود نظر سے اوروں کی 
کاروبار ان کا رہنمائی ہے ۔
سید رضوان حیدر 
زندہ رہنا کتنا مشکل ہے 
مرجانا آسان ہے بابا ۔
سہیل فاروقی 
بہت سخت نازاں ہوا ان سے ملنا 
نگاہوں پہ پہرے ہیں، سپاہی گلی میں ۔
ڈاکٹر شمع ناسمین نازاں 
میر یہ سچی کہانی تیری ہی اردو کی ہے 
گھر کی دلہن اپنے ہی گھر میں رکھیلی ہوگئی ۔
میر سجاد 
راحت پسند دیکھ لو منزل قریب ہے 
مایوس نہ ہو راستہ دشوار دیکھ کر ۔
مصلح الدین کاظم 
اکیلے گھر سے نہ نکلا کرو تم 
بہت بگڑی ہے دنیا کی ہوا دیکھو ۔
معین گرڈیہوی 
آپ کی ذہانت پر کون خوش نہیں گا 
آپ تو بزرگوں کی خامیاں پکڑتے ہیں ۔
ظفر صدیقی 
اہل ضمیر ہیں بہت حیران آج کل 
شیشے میں اپنے آپ کو انسان دیکھ کر ۔
اصغر حسین کامل 
موج خوں، حسن چمن، رنگ وشفق، شام وصال 
تیرے گھر کا سارا منظر جانا پہچانا لگا۔
اسرار عالم سیفی 
وہ دل بھی کتنا جہاں میں حسین رکھتا ہے 
جو اپنے سینے میں ہر وقت دین رکھتا ہے ۔
وارث اسلام پوری 
تیری حیرت کا یہ سامان بھی ہو سکتا ہے 
سنگ ریزہ کبھی چٹان بھی ہو سکتا ہے ۔
شمیم شعلہ 
تم پہ مرتا ہوں، میں سچ کہتا ہوں، اللہ قسم 
تم مجھے جان وفا چھوڑ کے جایا نہ کرو ۔
محمد ضیاء العظیم ۔
آخر میں صدر محترم کی صدارتی کلمات پر پروگرام اختتام پذیر ہوا ۔

 واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر ڈاکٹر نصر عالم نصر رکن ضیائے حق فاؤنڈیشن ،ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن ،محمد ضیاء العظیم برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن نے اپنا تعاون پیش کیا، جبکہ عمومی طور پر جملہ اراکین ضیائے حق فاؤنڈیشن نے تعاون دیا ۔

ہفتہ, فروری 10, 2024

قاری احمداللہ بھاگل پوری حقیقی معنوں میں خادم قرآن تھے___

قاری احمداللہ بھاگل پوری حقیقی معنوں میں خادم قرآن تھے___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمدثناءالہدی قاسمی
 
پٹنہ 10 فروری (عبدالرحیم برہولیاوی/پریس ریلیز)
قاری احمداللہ صاحب نے اپنی پوری زندگی خدمت قرآن میں لگادی وہ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ یعنی
 تم میں اچھا وہ ہے جوقرآن پڑھے اور پرھایے کہ صحیح  مصداق تھےاس تعلق سے دیکھا جائے  تو وہ حقیقتاً خادم قرآن تھے انہوں نے  کئی نسلوں کو قرآن تجوید کی رعایت کے ساتھ پڑھنا سکھایا
ان خیالات کااظہار معروف عالم دین مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ ،اردو میڈیا فورم اور کاروان ادب کے صدر نے کیا وہ 
حضرت کے انتقال پر اظہارِ  تعزیت   کر رہے  تھے 
مفتی صاحب نے فرمایاکہ حضرت کے وصال سے تجوید وقراءت کے میدان میں جو خلا پیدا ہواہے اس کی تلافی کی ہم  سب کو دعا کرنی چاہیے گو یہ بہت آسان  نہیں ہےلیکن اللّٰہ ہر چیز پر قادر ہے۔حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ وہ اصلا بھاگلپور کے رہنے والے تھے لیکن انہوں نے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کو اپنا میدان عمل بنایا مفتی صاحب نے فرمایا حضرت مولانا سے کیی یادگار ملاقاتیں تھیں حضرت مجھ سے بہت محبت فرماتے تھے حضرت میری تحریروں کے بھے مداح تھے
 قرآن کی نسبت پر کام کرنے والوں کی حضرت بہت قدر کیا کرتے تھے ان سے محبت وشفت فرماتے اور مفید مشورے بھی دیتے تھے حضرت
مولانا نے اپنی پوری زندگی کو خدمت قران کے لیے وقف کر دیا تھا 
اس طرح ان کافیض عموماََ پورے ہندوستان خصوصاََ گجرات میں پھیلا 
مفتی صاحب نے حضرت کے لیے دعاء مغفرت اور پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا فرمائی۔انہوں نے فرمایا ابھی غم تازہ ہے کچھ کہ سناءینگےجو طبیعت سنبھل گیی

آفتاب جو غروب ہوگیا "ایک مطالعہ

" آفتاب جو غروب ہوگیا "ایک مطالعہ 
...........................................................
اردودنیانیوز۷۲ 

تبصرہ نگار:
عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے
 رابطہ :  9931644462
اس وقت میرے ہاتھ میں "آفتاب جو غروب ہوگیا "نامی کتاب اردو زبان میں ہے،ریاست بہار کے معروف عالم دین مولانا آفتاب عالم مفتاحی سابق صدر مدرس مدرسہ احمدیہ ابابکر پور کے احوال وآثار ،اوصاف وکمالات پر مشتمل مقالات ومضامین کا دلکش مجموعہ ہے، یہ کتاب مرحوم کی بانصیب اولادوں کی فہمائش پر آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صدر کاروان ادب ویشالی نے مرتب کی ہے ، جس کی ضخامت 182/صفحات تک پھیلی ہوئی ہے ۔مرتب کتاب نے پوری کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے ،باب اول : احوال وآثار ،اوصاف وکمالات ۔باب دوم : مولانا کی نثری تحریریں ۔باب سوم : ڈائری کے چند اوراق ۔باب چہارم : مولانا کی شاعری۔ مقالات ومضامین کی ہرسطر نہ صرف عقیدت ومحبت میں ڈوبی ہوئی معلوم پڑتی ہے؛بلکہ  احسان شناسی اور وسعت ظرفی کی اعلی مثال ہے۔
یقینی طور پرمولانا مرحوم سے یہ عاجز ناواقف رہتا،اگر یہ کتاب ہاتھ نہ لگتی ،بلکہ علم دوست شخصیت  مولانا عبدالرحیم بڑہولیاوی دربھنگنوی کی دست فیاضی متوجہ نہ ہوتی۔یقیناً اللہ تعالی نے مولانا مرحوم کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا ،کئی جہتوں میں ان کی خدمات کے نقوش ثبت ہیں ،وہ ملت کا اثاثہ تھے،ایک حلقے میں رجال سازی کے رخ پر انہوں نے خاصا کام کیا ،بلکہ سچ مچ "ایں خانہ ہمہ آفتاب است "کا ادراک اس کتاب سےبہ خوبی  ہوتا ہے۔ خدابہترین  جزاء دے مرتب کتاب مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب اور مولانا مرحوم کے بچوں کو جنہوں نے غیر معمولی پاکیزہ ذوق وتڑپ سے آرٹ پیپر میں کتاب کو شائع کر کے فی الواقع انہوں نے" آفتاب کو غروب" ہونے سے بچانے کا تقلیدی اور مثالی کام کیا ہے ۔مادیت کے اس دورمیں جس طرح مولانا آفتاب عالم مفتاحی کے خوش ذوق وہونہار بچے بچیوں نے بعد مرگ اپنے والد کی روح کو سکون بخشنے میں فیاضی سے کام لیا ہے ،ان شاء اللہ یہ کتاب مولانا مرحوم کے حق میں بہترین صدیقہ جاریہ ثابت ہوگی
۔تمام مقالہ نگاران ،جن میں مرحوم کے بیٹے بیٹیاں بھی براہ راست شامل ہیں ،سبھوں نے محبت کے قلم سے حرف حرف کو سجایا ہے ،بلکہ طویل و مختصر راہ ورسم کے نتیجے میں بیتے دنوں کی یادوں کی مدد سے دل نکال کر رکھ دیا ہے ۔کتاب میں شامل مولانا کی نثری تحریروں میں اکبر اور اس کا دین الہی ۔باکردار انسان ۔جہاد :ملت کے موجودہ مسائل کا حل نہیں ۔اور دوٹوک اچھا نہیں لگا جیسے مضامین کافی دلچسپ ہیں ۔اسی طرح "ڈائری کے چند اوراق " سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈائری لکھنے کا عمل کتنا قیمتی ہے اور سماجی زندگی پر اس کے کتنے خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔مولانا کی شاعری بھی بہت خوب ہے ،عصری تک بندی سے پاک ان کی شاعری کا ایک ایک بند فکر ونظر کو درخشاں کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے ،انہوں نے نعتیہ شاعری سے بھی دامن مراد کو چھیڑا ہے جب کہ غزلیہ شاعری نےان کی ہم نشینی کو ہمیشہ بامراد کیا ہے ،جب انہوں نے نعتیہ شاعری کی طرف رخ کیا تو بجا کہا : 

سارے عالم پہ ہے احساں شہ بطحا تیرا 
کون پاسکتا ہے اس دہر میں رتبہ تیرا 
آسماں نے تو بہت دیکھے ہیں انسانوں کو 
پیکر مہر و وفا ،ثانی نہ ہوگا تیرا

اسی طرح غزلیہ شاعری میں بھی انہوں نے خوب طبع آزمائی کی ہے: 

جنوں نے جس کو بنایا تھا کوہ کن کی طرح 
خرد نے اس کو بنا ڈالا دل شکن کی طرح
ہے کل کی بات  محبت میں ہوتی تھی خوشبو 
ابھی تو اس میں بڑا ہی نفاق ہوتا ہے
قصر سلطاں کے شیشوں میں رہ کر کرب کی راہ کو تکنے والو
درد راہوں میں بکھرے ہوئے ہیں ،انہیں چن چن کے سینوں میں رکھ لو۔
مہنگائی کے اس دور میں جب ہر پہلو کو لوگ تجارت کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں ،ایسے ماحول میں یہ کتاب محض سوروپے کی ہے ۔مولانا کی نیک دل ،رابعہ صفت اہلیہ ولیہ خاتون  کی نگرانی میں کتاب آرٹ پیپر میں چھپ کر منظر عام پر آئی ہے ،اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کتاب روائتی جہت سے نہ چھپی ہے اور نہ چھاپی گئی ہے ،بلکہ اس احساس کے ساتھ یہ مجموعہ تیار ہوا ہے کہ "بحیثیت اولاد ہم پر یہ ان کے شایان شان خراج عقیدت پیش کرنا فرض اور سعادت مندی کے حصول کا موجب بھی ہے"زیر تبصرہ کتاب مکتبہ امارت شرعیہ پٹنہ ۔نور اردو لائبریری،ویشالی۔بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ۔آفتاب اینڈ سنس جون پور یوپی  وغیرہ سے قیمتاً حاصل کی جاسکتی ہے ۔

جمعرات, فروری 08, 2024

" کاروان ادب"

معروف شاعر فرد الحسن فرد اور اردو دوست شخصیت سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کا انتقال سرزمین عظیم آباد کا ناقابل تلافی نقصان :
 " کاروان ادب" 
اردودنیانیوز۷۲ 
_______________________________________
حاجی پور(. نمائندہ ) اردو کے معروف شاعر و ادیب فرد الحسن فرد اور اردو دوست شخصیت سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کے انتقال پر "کاروان ادب" ،حاجی پور کے صدر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی اور جنرل سکریٹری ٹری انوار الحسن وسطوی نے اپنے گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مشترکہ تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ جناب فرد الحسن ایک اچھے شاعر، بہترین نثر نگار، ایک خوش اخلاق اور ملنسار انسان تھے-  وہ پٹنہ کے مشہور "ارم پبلکیشن" دریا پور کے مالک تھے-  انہوں نے ادبا و شعرا کی تقریبا 400 کتابیں شائع کی تھیں-  اردو ان کا اوڑھنا بچھونا تھا - لہذا ہمارے درمیان سے اچانک ان کا اٹھ جانا اردو شعر و ادب کا ایک نا قابل تلافی نقصان ہے- " کاروان ادب" کے صدر اور جنرل سکریٹری نے سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کے تعلق سے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ موصوف گرچہ ادیب و شاعر نہیں تھے، لیکن وہ کافی پڑھے لکھے اور ایک دانشور تھے-  وہ اردو نواز اور ادب نواز شخصیت تھے-  اپنے سینے میں ملت کا بے پناہ درد رکھتے تھے-  وہ ادبی اور مذہبی جلسوں میں پابندی سے شرکت کرتے تھے-  بڑی بڑی ادبی و مذہبی شخصیتوں سے ان کے مراسم تھے - وہ بالخصوص محبان اردو کے درمیان بہت مقبول تھے-  انہیں لوگ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے-  وہ بذریعہ فون اپنے چاہنے والوں سے مربوط رہتے تھے - کسی کی تحریر اخبار یا رسالے میں شائع دیکھتے تو اسے شاباشی دیتے اور اپنے تاثرات سے نوازتے- تعزیتی بیان میں کہا گیا ہے کہ فرد الحسن فرد اور سید شکیل حسن ایڈوکیٹ ایسی متحرک، فعال اور باغ و بہار طبیعت کے انسانوں کا اٹھ جانا واقعی باعثِ ملال ہے-  دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحومین کی لرزشوں کو درگزر فرما کر انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے - "کار وان ادب" کے نائب صدر ڈاکٹر بدر محمدی، سکریٹریز سید مصباح الدین احمد مولانا قمر عالم ندوی کے علاوہ محمد عظیم الدین انصاری، ماسٹر محمد فدا الہدی، ڈاکٹر عارف حسن وسطوی، مولانا نظر الہدی قاسمی،عبدالرحیم برہولیاوی ، قمر اعظم صدیقی اور مظہر وسطوی، اردو کونسل، ویشالی کے صدر نسیم الدین احمد صدیقی ایڈوکیٹ، نائب صدر نصر امام اور ڈاکٹر تابش عبید اللہ خاں وغیرہ حضرات نے بھی جناب فرد الحسن فرد اور سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کے انتقال پر اپنے گہرے ملال کا اظہار کیا ہے اور اللہ رب العزت سے ان کی مغفرت کی دعا کی ہے-

تحقیق کی زبان دھوپ کی طرح روشن ہونی چاہیے- شہاب ظفر اعظمی

تحقیق کی زبان دھوپ کی طرح روشن ہونی چاہیے- شہاب ظفر اعظمی
اردودنیانیوز۷۲ 
پٹنہ ۔ 7 فروری ۔
تحقیق کسی چیز کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کا نام ہے -حقائق کی بازیافت میں  رائے تاویل اور قیاس کی کوئی جگہ نہیں ہے- تحقیق کے لیے استدلال ٬مسلسل عمل٬ غیر جانبداری ٬محنت شاقہ٬حافظہ اور زبان پر گرفت ضروری عناصر ہیں ۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر شہاب ظفر عظمی نے شعبہ اردو کی ایک تقریب میں کیا۔ انہوں نے اردو تحقیق اصول اور مبادیات کے عنوان سےتحقیق کے اصولوں پر مثالوں کے ساتھ مدلل گفتگو کی۔ انہوں نے طلبہ کو تحقیق کے دوران جذباتیت روایت پرستی گنجلک زبان اور تن آسانی سے بچنے کی تلقین کی۔
 واضح ہو کہ آج شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام پی ایچ ڈی کورس ورک کے تحت شعبے میں ایک افتتاحی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ موضوع تھا "اردو تحقیق اصول اور مبادیات ''۔ اس موضوع پر اپنی قیمتی و تجرباتی باتیں پیش کرنے کے لیے دو خاص مہمانان پروفیسر جاوید حیات اور ڈاکٹر قاسم خورشید کی موجودگی شعبے کے طلبہ و طالبات کے لیے پرمسرت اور حوصلہ افزا تھی ۔
 شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کورس کے اس افتتاحی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر سورج دیو سنگھ نے کی جبکہ کلیدی خطبہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے پیش کیا ۔دو خاص مہمانوں میں پروفیسر جاوید حیات اور ڈاکٹر قاسم خورشید نے تحقیق کے امور اور اصول پر تکنیکی گفتگو پیش کرتے ہوئے طلبہ کو اس کے اہم نکات کی طرف متوجہ کیا۔ ڈاکٹر قاسم خورشید نے تحقیق کی سمت و رفتار پر واضح طور سے باتیں کیں جن میں ہر مواد کو اہم قرار دیتے ہوئے اس کی اصل تک رسائی کرنا ضروری بتایا۔ اس کے لیے انہوں نے بسمل عظیم آبادی  اور رام پرشاد بسمل سے منسوب ایک غزل کی مثال دیتے ہوئے بہت اچھی تقریر پیش کی ۔پروفیسر جاوید حیات نے تحقیق کی مبادیات کے حوالے سے دستی نمونوں کی قدرو قیمت کو ضروری جاننے کی تلقین کی اور تحقیق کے طریقہ کار میں ترتیب کو ناگزیر بتایا ۔انہوں نے غالب کے کئی اشعار کو حوالے کے طور پر پیش کیا۔ صدارتی خطبے میں پروفیسر سورج دیو سنگھ نے اس پروگرام کی غرض و غایت بیان کی اور طلبہ کو پابندی وقت٬دل جمعی اور ڈسپلن کی خوبیاں بتاتے ہوئے تحقیق کی سنجیدگی کی جانب متوجہ کیا ۔شعبے کے استاد ڈاکٹر محمد ضمیر رضا نے بحسن وخوبی اس پروگرام کی نظامت کی جبکہ شکریہ کے فرائض ڈاکٹر عشرت صبوحی نے ادا کیے۔  تقریب کا آغاز ڈاکٹر عارف حسین کی نعت خوانی سے ہوا تھا ۔تقریب میں شعبے کے طلبہ و طالبات کے علاوہ دیگر کالج کے طلبہ اور ریسرچ اسکالرز بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔

بدھ, فروری 07, 2024

اکبر رضا جمشید __کثیر الجہت شخصیت

اکبر رضا جمشید  __کثیر الجہت شخصیت
Urduduniyanews72 
 ✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

سید اکبر رضا نقوی (ولادت 5؍ جولائی 1944ئ) قلمی نام اکبر رضا جمشید بن سید علی جواد وسکینہ خاتون بی اے، بی ایل، سبکدوش ڈسٹرکٹ جج ساکن افضل پور، پچھم گلی نزد مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ، پٹنہ کا شمار بہار کے انگلیوں پر گنے جانے والے محبتیں اردو میں ہوتا ہے ، وہ بغیر کسی تنظیم اور فرد کے تعاون کے اردو کی خدمت کرنے والے کو ہر سال ’’اکبر رضا جمشید ایوارڈ ‘‘سے نوازتے ہیں، اردو کے نام پر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں، اور سارا صرفہ اپنی جیب خاص سے کرتے ہیں، اب تک 2013ء سے وہ ترسٹھ (63)لوگوں کو ایوارڈ دے چکے ہیں، جن میں بقول ثوبان فاروقی بابائے اردو ویشالی انوار الحسن وسطوی ان کے صاحب زادہ عارف حسن وسطوی اور دوسرے نامور شعراء ادباء شامل ہیں، ان میں علیم اللہ حالی ، شوکت حیات، عطا عابدی ، اشرف استھانوی مرحوم، کامران غنی صبا ، انوار الہدیٰ ، ڈاکٹر ظفر انصاری ظفر ، حسن نواب حسن کے اسماء گرامی شامل ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو کی اصل خدمت مدارس کے علماء کرتے ہیں، اور اردو اصلاً وہیں زندہ ہے، اکبر رضا جمشید کے انصاف کی عدالت میں کوئی مولوی اب تک ایوارڈ کا مستحق نہیں قرار پایا یا تو جج صاحب نے اس حقیقت سے اپنی آنکھیں موند لی ہیں، یا ان کے مشیر انہیں اپنے ہی گرد الجھائے رکھنا چاہتے ہیں، حقیقت جو بھی ہو دیو مالائی روایت میں انصاف کی دیوی کی آنکھیں کالی پٹی سے بندھی ہوتی ہیں، بغیر دیکھے بھی مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی کو ایک پلڑا میں ڈال دیا جائے تو دوسری طرف کے پلڑے میں رکھے کئی’’ بٹکھرے‘‘ پر وہ تنہا بھاری پڑیں گے ، رونا صرف اسی کا نہیں ہے، اس کا بھی ہے کہ اردو کے حقیقی خادموں کی ہر سطح پر ان دیکھی ہو رہی ہے، کیا سرکاری اور کیا غیر سرکاری ۔
 زیر مطالعہ کتاب انہیں اکبر رضا جمشیدسے انٹر ویو اور مصاحبہ پر مشتمل ہے، جسے ڈاکٹر عطاء اللہ خان، عرفی نام علوی اور ادبی نام ڈاکٹر اے کے علوی (ولادت 23؍ ستمبر 1955ئ) صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ ابن ڈاکٹر اٰل حسن خان مرحوم نے مرتب کرکے ادارہ فکر ونظر ، صمد منزل ، کرن سرائے، سہسرام کے زیر اہتمام ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع کرایا ہے ، ایک سو چار صفحہ کی قیمت دوسو روپے جج صاحب کی آمدنی کے اعتبار سے تو زائد نہیں ہے، لیکن یہ قیمت اردو کے عام قاری کے لیے خرید تے وقت بوجھ ثابت ہوگا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ خرید تاکون ہے، اب تو اہل علم تک پہونچانا بھی مصنف ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے، جس کا تذکرہ خود اکبر رضا جمشید نے ایک سوال کے جواب میں کیاہے ، جو اسی کتاب میں مذکور ہے، اگر ایساہے تو جتنی قیمت چاہیے رکھ دیجئے، فرق کیا پڑتا ہے، لیکن کتاب ملنے کے جو چار پتے درج ہیں ان میں بک امپوریم سبزی باغ ، پٹنہ ۔4، شاید مفت دینے کو تیار نہ ہو بقیہ تین پتے جن کا تعلق موضوع کتاب اورمصنف سے ہے ، شاید وہاں سے حصول مطلب حسب منشاء ہو سکے، کتاب کا انتساب جناب اکبر رضا جمشید کی اہلیہ محترمہ ارشاد بیگم اور ان کے دونوں صاحب زادگان کے نام ہے، اس کے بعد اکبر رضا جمشید کے سوانحی کوائف کا اندراج کیا گیا ہے،جس کا نصف کم سے کم مکررہے، کیوں کہ ٹائٹل کے آخری پیج پر بھی وہ تفصیلات درج ہیں، بلکہ سوانحی کوائف میں تصنیفات کی تعداد دس اور ٹائٹل پر  تصانیف کا ذکر ہے، جن میں چار کم ازکم ڈرامے ہیں، اور ایک کتاب اردو شعراء کی حب الوطنی پرزیر طبع ہے، سوانحی کوائف میں اکبر رضا جمشید کے فن اور شخصیت پر ایک اور کتاب کا علم ہوتا ہے ، جسے پرویز عالم نے مرتب کیا ہے ، ایک درجن میں دو کم، ایوارڈ اور اعزازات بھی جج صاحب کو دیے گیے ، اس کا بھی ہمیں سوانحی کوائف سے پتہ چلتا ہے ، پھر اکبر صاحب کے ذریعہ مختلف سالوں میں ایوارڈ یافتگان کا ذکر بھی اس کتاب میں ملتا ہے۔ 
اے کے علوی صاحب کے قلم سے ہی اس کتاب کا پیش لفظ تحریر ہوا ہے، یہ بیانیہ اور داستانی انداز میں ہے ، جس میں اے کے علوی صاحب نے جمشید اکبر صاحب کا حلیہ، اردو کے قارئین کے ذریعہ کتابوں کی ناقد ری اور ان کے والد صاحب کی خدمات کا بھی قدرے تفصیل سے ذکر کیاہے، لیکن اتنا بھی نہیں کہ اسے اطناب سے تعبیر کیا جائے ، تین صفحہ کے پیش لفظ کو ایجاز ہی کہناچاہیے، اس کے بعد اکبر رضا جمشید وکثیر الجہت شخصیت کے عنوان سے وہ انٹر ویو ہے، جو اس کتاب کا اصل موضوع ہے ، اے کے علوی صاحب نے سوالات ایسے مرتب کیے تھے کہا کبر صاحب کی پرت در پرت ، شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے ، اکبر رضا صاحب نے بھی سوالات کے جوابات میں اپنی شخصیت ، خدمات تصنیفات اپنے مقدس سفر ایوارڈ کے دائرہ کا زایوارڈ میں دی جانے والی چیزوں کا تذکرہ کیا ہے ، البتہ دی جانے والی رقم کو صیغۂ راز میں رکھا ہے ، کچھ تو خفا میں رہے تاکہ قاری کا تجسس بڑھتا رہے، یہ انٹر ویو چودہ سے باون صفحات پر جا کر ختم ہوتا ہے، اس کے بعد تاثرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جن میں بیش تر ایوارڈ کی تقریبات اکبر رضا صاحب کی کسی کتاب کے اجراء پر اظہار خیال سے ماخوذ ہے، جن لوگوں کے تاثرات کو اس کتاب میں جگہ دی گئی ہے ان میں سابق صدر جمہوریہ اور اس وقت کے وزیر خوراک حکومت ہند فخر الدین علی احمد قاضی عبد الودود ، مولانا سید کلب عابد، پروفیسر اجتبیٰ حسین رضوی، شکیلہ اختر، عابد رضا بیدار ، سرور علی ، شوکت حیات، شفیع قریشی ، ہارون رشید ، مولانا ظفر عباس ، مولانا اسد رضا ، میجر بلبیر سنگھ، نذرا حسن ، منیر حسین، پروفیسر علیم اللہ حالی، سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی،پروفیسر شمشاد حسین ، ڈاکٹر قمر الحسن ، انیل سلبھ، اعجاز علی ارشد ،ریحان غنی، محفوظ عالم، نتیش کمار، فخر الدین عارفی، ریاض عظیم آبادی، محمد نعمت اللہ ، اشرف استھانوی، مولانا محمد محسن ، ہیمنت شریواتسو، پروفیسر منظر اعجاز، ڈاکٹر ارمان نجمی، سیدشہباز عالم ، سید ارشاد علی آزاد، پروفیسر کلیم الرحمن ، امتاز احمد کریمی ، معین کوثر، پروفیسر قیام منیر، اسماعیل حسین نقوی، انوار الحسن وسطوی، آفتاب احمد اور سلطان آزاد کے تاثرات شامل ہیں، جو سب کے سب ان کی تقریروں سے ماخوذ ہیں، اس فہرست کو آپ دیکھیں، اس میں مسلم بھی ہیں، غیر مسلم بھی ، سیاسی حضرات بھی ہیں اور صحافی بھی ، شیعہ بھی ہیں اور سنی بھی، ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی، ان میں کئی وہ بھی ہیں، جو اکبر رضا جمشید ایوارڈ پا چکے ہیں، اتنے حضرات کی گواہی جب اکبر رضا جمشید کی شخصیت اور خدمات کے حوالہ سے سامنے آگئی ہیں تو ان کی شخصیت کے کثیر الجہات ہونے اور ان کی خدمت کی وقعت اور عظمت کس کے دل میں جاںگزیں نہیں ہوگی، اور کون ان کے اخلاق وکردار کا اسیر نہیں ہوگا، اسلام میں دوہی کی گواہی ثبوت کے لیے کافی ہوتی ہے، یہ اتنے بڑے بڑے اساطین علم کی شہادت اور اتنی بڑی تعداد میں اکبر رضا جمشید کی محبوبیت ومقبولیت کی بین دلیل ہے، خدا انہیں سلامت رکھے اور خوب کام لے۔
 اس کتاب کو میرے پاس لے کر اکبر رضا جمشید خود تشریف لائے تھے، میری ان سے پہلی ملاقات تھی، تپاک سے ملے، محبت سے پیش آئے ، اعترف کیا کہ میں آپ تک نہیں پہونچ سکا تھا،ا لبتہ آپ کی تحریریں دیکھتا رہا ہوں۔ کتاب کے مصنف نے انتہائی کی تھی، اے کے علوی بھی محبت کرتے ہیں، اس کتاب کی ترتیب میں جو سلیقہ انہوں نے برتا ہے وہا ں کی سلیقہ مندی کا حسین مظہر ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...