Powered By Blogger

ہفتہ, مارچ 09, 2024

یہ بات کہنا چاہیں گے سارے جہاں سے ہم ____

یہ بات کہنا چاہیں گے  سارے جہاں سے ہم ____
اردودنیانیوز۷۲
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 سماج کو عربی زبان میں معاشرہ اور انگریزی میں Societyکہتے ہیں ، جس کے معنی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک ساتھ رہنے کے آتے ہیں ، ابن خلدون نے معاشرے کوحیوانی جسم کی طرح اور ارسطو نے انسان کو سماجی جاندارسے تعبیر کیا ہے ، علامہ جمال الدین افغانی کا خیال ہے کہ زندگی کی اجتماعی صورت کا ظہور سماج اور معاشرہ ہے اور معاشرہ کی حیثیت ایک جسم کی ہے ، رالف لنٹن  Ralif Lenton)) کے مطابق طویل عرصہ تک ایک جگہ رہنے والے افرا د کا گروہ معاشرہ بن جاتا ہے ، ان کے مابین اشتراک عمل ہوتاہے؛ جس کی وجہ سے وہ سب خود کو ایک جسم کی مانند سمجھتے ہیں۔ انگریزمفکر پروفیسر پیڑک نے لکھا ہے کہ Civics is  A Science Dealing only With Lfie and Prolelems of cites  ان تعریفات کی روشنی میں سماج کا دائرہ افراد کے ہرقسم کے تعلقات تمدنی ، تہذیبی اور ثقافتی احوال وکوائف اور ا ن کے اوصاف حمیدہ اوراخلاق رذیلہ کومحیط ہے ، اس میں نہ تو شعوری غیر شعوری کی تفریق ہے اور نہ ہی انضباط اورغیر انضباط کی ۔سماج کے ساتھ انصاف کو جوڑیں تو مطلب ہوگا کہ سماج کے ہر طبقے کو  ہر سطح پر پھلنے پھولنے اور ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں ، ذات برادری ، علاقہ کی تفریق کے بغیر ان کے حقوق کا تحفظ اور نگہداشت کیا جارہا ہو اس لئے اللہ رب العزت نے انصاف پرزوردیا اور فرمایا کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ،توانصاف کے ساتھ کرو ،بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کسی قوم کی دشمنی انصاف کے راستے میں مزاحم نہ ہو،معاملہ چاہے اپنی ذات، اپنے اعزو اقربااور والدین ہی کا کیوں نہ ہو، کسی بھی حال میں انصاف کا دامن نہ چھوڑا جائے، اس معاملہ میں اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں بہت سے واقعات ملتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی نبوت کا اعلان نہیں کیا ہے ، کعبہ کی تعمیر چل رہی ہے ، بات اس پرآکر رکتی ہے کہ حجراسود کو اس کی جگہ پر کون نصب کریگا ، ہرقبیلہ کے سردار اس کام پر اپنا حق جتا رہے تھے اور اپنے دعوی پر اٹل تھے ،قریب تھا کہ کشت و خوں کا بازا ر گرم ہوجائے، حرم پاک میںتلواریں نکل آئیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے، آپ کے اخلاق و کردار کے مکہ کے لوگ قائل تھے اور عرب کے نوجوانوں میں آپ کوسب سے اچھا، امین وصادق سمجھتے تھے ، چنانچہ تمام سردا روں نے آپ کو َحکَم مان لیا ، آپ نے فرمایا ، ابھی سب لوگ اپنے اپنے گھرچلے جائیں ، کل صبح سویرے جو شخص سب سے پہلے حرم شریف  میںآئے گا، اس کے فیصلے کو سب مان لیں گے ، سب مان گئے ، صبح کے وقت سردار ان قریش حرم پہونچے تو دیکھا کہ امین صادق محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے وہاں تشریف فرما ہیں ، سب نے مسرت کا اظہار کیا آپ نے فیصلہ کیا کہ حجراسود کو ایک چادر پر رکھا جائے ، اورہر قبیلہ کا سردار اس چادر کو پکڑ کر کعبہ کی دیوارتک لے جائے ، وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی طرف سے حجرا سود کودیوار میںنصب کردیا ، جھگڑا بھی ٹل گیا ، اور سب کے حصے میں حجرا سود کو مقام تک پہونچانے کی سعادت بھی حاصل ہوگئی ، ایک اور موقع ہے، اسلام میں حدود وقصاص کے احکام نازل ہوچکے ہیں ، فاطمہ نام کی ایک لڑکی ہے چوری کا ارتکاب کرتی ہے ، جرم شدید ہے ، اسلام میں ہاتھ کاٹنا اس کی سزا ہے ، سفارش میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کو لوگ بھیجتے ہیں آپ انہیں بہت چاہتے تھے لوگوں نے سمجھا کہ شاید ان کی بات پر فیصلہ بدلا جاسکے ، حضرت زید ؓ نے جیسے ہی ہاتھ کاٹنے کے عوض کچھ رقم لے کر معاملہ ختم کرنے کی بات کہی ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ٔ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا؛ تم سے پہلے کے لوگ اسی لئے ہلاک ہوئے کہ کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور کوئی کمزور چوری کرتے تو اس پر سزا جار ی کرتا ، اللہ کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹوں گا ، ان ہدایات کی روشنی میںحضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے کہ کفر کے ساتھ حکومت چل سکتی ہے ، ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچ نیچ ، کالے ، گورے عربی عجمی کی تفریق ختم کرکے صاف صاف اعلان کیا کہ تمام انسان بنی آدم کی اولاد ہیں ، اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے ، فرمایا ؛ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کا محبوب وہ ہے جو اللہ کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ دنیا نے عظمت کے جو خود ساختہ پیمانے بنا رکھے ہیں وہ سماجی انصاف کے پیمانے نہیں ہیں ، سماجی انصاف یہ ہے کہ حکومت کی نظر میں سب برابر ہوں ، اور نسلی ، لسانی اورعلاقائی بنیادوں پر تفریق نہ کی جائے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے غیر مسلم کے بارے میں جو امن و امان سے رہتا ہے اور اسلامی ملک میں مقرر کردہ ٹیکس دیتا ہے ، قتل کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ جو کسی ذمی کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبونہیں پائیگا ؛حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پائی جاتی ہے ، سماجی انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے بند ڈھیلے کرائے ، اور ثمامہ بن اثال کو قید سے آزاد کردیا ،آپ کا حسن اخلاق دیکھ کر وہ مسلمان ہوگئے ؛ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوروں ، غلاموں ، پڑوسیوں،معذوروں ، بیوائوں ، مسکینوں ، یتیموں ، عورتوں ، بچوں ، والدین کے حقوق پرانتہائی منصفانہ احکام جاری کئے اورانسانی بنیادوں پرہرایک کی ضرورت کی تکمیل اور ان کی اعانت ، وخبرگیری کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ،حدودوقصاص میں آقا اور غلام کے فرق کو مٹادیا ، اور فتنہ فساد کوروکنے کے لئے سخت ہدایات جاری کیں ، ان ہدایات کے علاوہ انسانی خیر کو بیدار کرنے اور ظلم وسرکشی سے اجتناب کرنے کے لئے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشادفرمایا کہ مظلوموں کی بدعائوں سے بچو؛ کیوں کہ اس کی آہ سیدھے عرش تک پہنچتی ہے ۔
سماجی انصاف کے ساتھ حکومت کرنے کی وجہ سے ہی مملکت اسلامی میں امن وامان کی فضا قائم ہوتی اور دوردراز کے علاقوں میں سفر اطمینان کے ساتھ ہونے لگا؛ آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفرکرے گا اوراسے اللہ کے علاوہ کسی کاڈر نہیں ہوگا ، واقعہ یہ ہے بے امنی کا ایک خا ص سبب سماجی انصاف سے ر وگردانی ہے ، بدامنی ، احتجاج، مظاہروں کے پیچھے کہیں نہ کہیں محرومی کارفرما ہوتی ہے، محرومی ہی بغاوت کو جنم دیتی ہے ،آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے سماجی مساوات اور انصاف کا جو تصوردنیا کو دیا، وہ اپنے آپ میں بے نظیر ہے۔خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین  نے انہیں بے بنیادوں پر سماجی انصاف کے ساتھ حکومت کے کام کو آگے بڑھایا ، چنانچہ اسی انصاف کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کے فتح کے بعد جو امان نامہ دیا اس میں لکھا کہ یہ امان نامہ ان کی جان ومان ، گرجا ، صلیب ، تندرست ،بیمار اور ان کے تمام مذاہب والوں کے لئے ہے، ان کے گرجائوں میںنہ سکونت کی جائیگی نہ ڈھائے جائیں گے ، نہ اس کو اور نہ اس کے احاطے کو کچھ نقصان پہونچایا جائے گا نہ ان کی صلیبوں اور نہ ان کے ما ل میں کچھ کمی کی جائے گی ، مذہب کے بارے میں ان پرجبر نہیںکیا جائے گا ، اور نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہونچایا جائے گا ، ہر دور میں اس پر عمل کیا جاتا رہا ، یہ سماجی انصاف کا ہی تقاضہ تھا کہ امیر المومنین حضرت علی ؓ پر مقدمہ چلا ،عدالت میں ان کی حاضری ہوئی ، اور مقدمہ یہودی کے حق میں فیصل ہوگیا دنیا کے دوسرے مذاہب میں اس کی کوئی نظیر نہیںملتی ، آج کے دور میں ا سکی اہمیت و معنویت بعض خارجی وداخلی احوال کی وجہ سے دوچند ہوگئی ہے ۔

جمعہ, مارچ 08, 2024

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں ____

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں ____
 اردودنیانیوز۷۲
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سلیقہ کا مطلب کسی بھی کام کو نظم وترتیب سے انجام دینا ہے، اگر یہ سلیقہ مجموعی طورپر کسی معاشرہ میں پایا جائے تو اسے عربی میں ’’الذوق الاجتماعی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، اسے قرینہ، خوش اسلوبی اور ذوق کے متبادل کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا ہے، میر تقی میر کا مشہور شعر ہے۔
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں

عیب بھی کہنے کو ہنر چاہئے

ڈاکٹر کلیم عاجز بھی یاد آگئے۔
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم

بات کرنے کا سلیقہ چاہئے

وسیم بریلوی کی بھی سن لیجیے
کون سی بات کب کہاں کیسے کہی جاتی ہے

یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
یہ سلیقہ مندی نظام وانتظام کی خوبی سے پیدا ہوتی ہے، یہ خوبی پوری دنیا کو اسلام کی دَین ہے کہ جو کام کیا جائے سلیقہ سے کیا جائے، خواہ کام چھوٹا ہو یابڑا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سارے کاموں میں اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اسے سلیقہ سے کیا جائے ’’ان اﷲ تعالیٰ یحب اذا عمل احدکم ان ینقیہ‘‘ (شعب الایمان، باب فی الامانات) حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے معارف القرآن میں سورۂ صافات کی ابتدائی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کام میں نظم وضبط اور ترتیب وسلیقہ کا لحاظ رکھنا دین میں مطلوب اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہو یا اس کے احکام کی تعمیل یہ دونوں مقصد اس طرح بھی حاصل ہوسکتے تھے کہ فرشتے صف باندھنے کے بجائے ایک غیرمنظم بھیڑ کی شکل میں جمع ہوجایا کریں، لیکن اس بد نظمی کے بجائے بتا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا بہت پسند ہے‘‘(۷؍۴۱۷)
یہی وجہ ہے کہ عبادات، معاملات اور معاشرت تینوں میں سلیقہ مندی پر شریعت نے زور دیا، نماز میں صفوں کی ترتیب، درمیان میں خلا نہ چھوڑنا یہ بھی سلیقہ مندی کا مظہر ہے، جانور کو ذبح کرتے وقت کم سے کم تکلیف پہونچانا اور پورا سر نہ اتارنا، صرف مطلوبہ رگوں کو کاٹنے کا حکم سلیقہ سے ذبح کرنے کی غرض سے ہی دیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے یہاں اس پر توجہ کم دی جارہی ہے جس کی وجہ سے سلیقہ مندی یاتو ختم ہوتی جارہی ہے یاکم ہورہی ہے، حالاںکہ ہمارے یہاں تو دسترخوان بچھانے اور اٹھانے تک میں سلیقہ کی رعایت سکھائی گئی ہے، دسترخوان پر گرے ہوئے اجناس کو اٹھاکر کھالینا، اپنے سامنے سے کھانا، چھوٹے چھوٹے لقمہ اٹھانا، خوب چبا چبا کر کھانا، دسترخوان پر اس کی رعایت کرنا کہ میرا بھائی مجھ سے زیادہ کھائے، مشروبات کے استعمال میں چسکی کی آواز نہ آنا، کھانا اٹھ جانے کے بعد دسترخوان سے اٹھنا، یہ سب سلیقہ مندی کے ذیل میں ہی آتے ہیں، حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے اپنے والد مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک بار وہ میاں اصغر حسین محدث کے مہمان ہوئے، کھانا ختم ہونے کے بعد حضرت مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ دسترخوان جھاڑدوں؟ فرمایا کہ تمہیں دسترخوان اٹھانا آتا بھی ہے؟ فرمایا : اس میں کیا خاص بات ہے؟ارشاد ہوا: تمہیں نہیں آتا، حضرت نے فرمایا: سکھا دیجئے، میاں اصغر حسین صاحب اٹھے، ایک پلیٹ لیا، دسترخوان پر روٹی کے بُرادے کو ایک طرف رکھا، گوشت کے چھیچھڑے کو دوسری طرف رکھا، روٹی کے بڑے ٹکڑے جو بچ گیے تھے اسے ایک طرف رکھا، ہڈی کو پلیٹ کے ایک کونے میں رکھا اورباہر نکل پڑے، ایک جگہ بُرادے کو، دوسری جگہ روٹی کے ٹکڑے کو تیسری جگہ ہڈی اور چوتھی جگہ روٹی کے پس ماندہ ٹکڑے کو الگ الگ رکھا، واپس آکر دستر خوان اٹھا لیا، دریافت کرنے پر فرمایا کہ روٹی کے ذرات ہم نے چیونٹی کے سوراخ پر، ہڈی کتوں کے آنے کی جگہ، روٹی کے ٹکڑے پرندوں کی جگہ اور چھیچھڑے بلی کے آنے کی جگہ پر ڈال دیا ہے ، یہ باقیات سب کی خوراک کے کام آئیں گے ، ہڈی تو جناتوں کی بھی خوراک بنا کرتی ہے، اگر ایسے ہی دستر خوان جھاڑ دیتا تو باقیات ضائع ہوجاتے، سلیقہ کی وجہ سے کتنی مخلوقات کے کھانے کا نظم ہو گیا۔
ہمارے استاذ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی ؒ کے کمرہ میں بعد نماز عصر چائے وائے کی مجلس لگتی تھی، حضرت خود ہی دسترخوان پر غذائی اشیاء لگاتے اور متوجہ کرتے کہ اس کو یہاں رکھنا چاہیے، چائے اس طرح پینی چاہیے کہ چُسکی کی آواز نہ نکلے، حضرت نستعلیق قسم کے آدمی تھے، ان کے شاگردوں میں جو جس قدر ان سے قریب رہا وہ اسی قدر سلیقہ مند بن گیا، حضرت کی سلیقہ مندی کا لازمی جزیہ بھی تھا کہ وہ آنے والے سے پورے کپڑے،کرتا، پائجامہ ٹوپی اور شیروانی کے ساتھ ملا کرتے ، فرماتے کہ مہمان کے استقبال اور اکرام کا یہ سلیقہ ہے، گنجی وغیرہ میں مہمانوں سے ملاقات کرنا ملنے والے کی بد سلیقگی کو بتاتا ہے اور مہمان کو یہ موجب ہتک محسوس ہوتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ سلیقہ مندی سے سامنے والا متاثر ہوتا ہے اورکام جلد ہونے کی توقع رہتی ہے ، گھر کو سجانے کے لیے گلدستے اور پھول ہی ضروری نہیں ہیں ، سلیقہ مند عورتیں کھانا پکانے کے برتن اور چائے کی پیالی اور کیتلی سے بھی گھر کو سجا لیتی ہیں اور’’ناک میں فقط نیم کا ٹکڑا‘‘ بھی حسن کو دو بالاکر سکتاہے ، لیکن اگر سلیقہ نہ ہو تو کام میں دشواری پیدا ہوتی ہے اور بسا اوقات کام رک جاتا ہے ، مثلاً آپ کو کسی دفتر سے کوئی کاغذ نکلوانا ہے، آپ نے مطلوبہ کاغذ فراہم نہیں کیا، درخواست کی ترتیب الٹ کر نیچے لگا دیا، درخواست پر دستخط ہی نہیں کیا، یوں ہی چھوڑ دیا، سادہ کاغذ کا استعمال کر لیا ، دستخط کی جگہ مہر لگا دیا، دستخط اور مہر لگا ہوا لیٹر پیڈ سادہ کسی کے حوالہ کر دیا، یہ سارے کام بد سلیقگی کے ہیں، اگر آپ نے دستخط کے بجائے نام کی مہر لگی ہوئی درخواست کسی کے حوالہ کر دیا تو ایساممکن ہے کہ وہ سادے لیٹر پیڈ پر آپ کی مہر لگا کر آپ کا استعفیٰ نامہ کمیٹی کے سامنے پیش کر دے اور آپ منہہ دیکھتے رہ جائیں، چوں کہ لیٹر ہیڈ ، مہر سب اصلی ہیں، ایسے میں آپ اپنے استعفیٰ کا انکار نہیں کر سکتے ، اسی طرح اردو ، ہندی میں پِن لگانے کے قاعدے الگ الگ ہیں، ہندی، انگریزی کے صفحات بائیں کھلتے ہیں، اس لیے پِن بائیں میں لگایا جاتا ہے اردو کی درخواست میں آپ نے بائیں پِن کر دیا تو وہ داہنی طرف کھل ہی نہیں سکے گا، یہ بد سلیقگی کے ذیل میں آئے گا۔ آپ کہیں گے یہ بہت چھوٹی بات ہے ، یقینا چھوٹی ہے، لیکن شاعر نے کہا ہے۔
 ایک تنکا حقیر ہے لیکن  وہ ہواؤں کا رخ بتاتا ہے 
اسی طرح بعض کا غذات کے حصول کے لیے اصل کاغذات پیش کرنے ہوتے ہیں، اب اگر فوٹو کاپی لے کر آئے ہیں، تو یہ بد سلیقگی ہے اور خطرہ یہ بھی ہے کہ دوسرا کوئی جس کے پاس اصل کاغذات ہیں، آپ کے مطلوبہ کاغذات لے کر چلا جائے اور آپ کو فوٹو کاپی لے کر واپس جانا پڑے، اس لیے ہر ممکن سلیقہ برتیے، اپنے مطلوبہ کاغذ کے حصول کے لیے ضروری شرائط کی تکمیل کیجئے، آپ آسانی سے اپنے مطلوب تک پہونچ جائیںگے، جو کاغذات تیار کرنے ہیں ، اسے جس دفتر سے کاغذ نکلوانے ہیں وہاں بیٹھ کر تیار نہ کریں، اسے گھر سے تیار کرکے لے جائیں اور خوب اچھی طرح دیکھ لیں کہ کوئی چیز چھوٹ تو نہیں رہی ہے، درخواست پر دستخط کا سلیقہ یہ ہے کہ اگر آپ مکڑی کے جالے کی طرح دستخط کرتے ہیں تو اس کے نیچے قوسین (برائکٹ) میں صاف صاف نام لکھیں، تاکہ اسے پڑھا جاسکے، دستخط کے نیچے فارم وغیرہ لکھنے کے بجائے اپنا عہدہ صاف صاف لکھیں۔
 بعض کاغذات کو دوسروں کو اٹسٹیڈ کرنا ہوتا ہے ، اٹسٹیڈ کرنے والے کا سلیقہ یہ ہے کہ وہ سامنے والے کے تمام کاغذات کو بغور دیکھ لے اس لیے کہ اس میں کسی قسم کی کمی کی وجہ اس کی بدسلیقگی اور بے اعتنائی کو قرار دیا جا سکتاہے اور ہو سکتا ہے کہ اس سے باز پرس بھی ہو جائے کہ آپ نے سادے کاغذ پر تصدیق کیوں کر دی ، اور مطلوبہ کاغذات کی جانچ کیوں نہیں کی ، اس کا مطلب ہے کہ آپ کی تھوڑی سی توجہ اور سلیقہ مندی سے آپ کا کام جلد ہو سکتا ہے، آسانی سے ہوسکتا ہے اور آپ بہت سارے خطرات سے بچ سکیں گے ۔خوب یاد رکھیے بدسلیقگی سے پریشانیاں بڑھتی ہیں، سرکاری دفاتر میں ہرکام رشوت کی ہی وجہ سے نہیں رکتا، آپ کی بدسلیقگی کا بھی اس میں بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

بدھ, مارچ 06, 2024

مثبت سوچ _____

مثبت سوچ _____Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

انسانی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، مختلف قسم کے واقعات وحوادثات ذہن ودماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں، ایسے موقع سے ذہن میں دو قسم کے خیالات پیدا ہوتے ہیں، ایک اس واقعہ کا منفی پہلو ہوتا ہے اور ذہن عموماً ادھرہی منتقل ہوتا ہے، اس منفی سوچ اور منفی اثرات سے انسان کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے، کام کرنے کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے اور اس کا بہت سارا وقت یہ سوچتے ہوئے گذر جاتا ہے کہ ایساکیوں ہوا؟ یہ معاملہ تو میرے خلاف چلا گیا ، اس کی وجہ سے میری پریشانیاں بڑھیں، سوچنے کا دوسرا طریقہ اس واقعہ کا مثبت پہلو ہے، اس پہلو تک ذہن کی رسائی آدمی کو مفلوج نہیں کرتی بلکہ اس کے قوت عمل کو مہمیز کرتی ہے، اور بسا اوقات وہ ایسا کر گذرتا ہے ، جس کی توقع عام حالات میں اس سے نہیں لگائی جا تی ۔ ابھی حال میں مطالعہ میں ایک صاحب کا واقعہ آیا ، وہ سال کے آخری دن پورے سال کی حصولیابیوں کا جائزہ لے رہے تھے، جائزہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ یہ سال میرے لیے انتہائی بُراتھا، کیوں کہ انہیں ایک آپریشن کے نتیجے میں کئی ماہ بستر سے لگا رہنا پڑا تھا ، ساٹھ سال کی عمر ہو جانے کی وجہ سے وہ اپنی پسندیدہ ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ، اسی سال ان کے والد اسی(۸۰) سال کی عمر میںراہئی آخرت ہو گیے ایک حادثہ میں بیٹا ایسا معذور ہوا کہ کئی ماہ اسے پلاسٹر کراکربستر پر پڑے رہنا پڑا، اس بیماری کی وجہ سے وہ امتحان کی بہتر تیاری نہیں کر سکا ، اور فیل ہو گیا ، ظاہر ہے اس سے بُرا سال اور کیا ہو سکتا ہے، اس منفی سوچ کے نتیجے میں وہ ذہنی اور دماغی طور پر پریشان رہنے لگے، لیکن جب ان کی رفیقہ حیات نے انہیں واقعات کا جائزہ لیا تو اس کا احساس تھا کہ یہ سال ہر اعتبار سے اچھا رہا ، اس لیے کہ برسوں سے پتّے کے درد سے پریشان میرے خاوند کو درد سے نجات مل گئی ،ا نہوں نے صحت وسلامتی کے ساتھ اپنی مدت ملازمت پوری کرلی اب وہ دفتری مصروفیات سے آزاد ہونے کی وجہ سے گھریلو معاملات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں ، مکمل یکسوئی کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں ان کا وقت لگ رہا ہے ، اس کا احساس تھا کہ میرے سسر لمبی عمر پا کر بغیر کسی پر بوجھ بنے اور غیر معمولی تکلیف اٹھائے دنیا سے رخصت ہوئے، میرا بیٹا ایک حادثہ میں بال بال بچ گیا،گاڑی جس طرح تباہ ہوئی اس طرح بیٹا بھی موت کے آغوش میں سو سکتا تھا، اللہ نے بڑا کرم کیا ، میرا بیٹا زیادہ معذور نہیں ہوا، بچ گیا ، گاڑی تو دوسری بھی آجائے گی ، اگر میر ابیٹا مر جاتا تو؟ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس سال کو اللہ نے میرے لیے رحمت بنا کر بھیجا تھا ، آپ نے دیکھا واقعات وہی ہیں؛ لیکن نتائج الگ الگ اخذ کیے جا رہے ہیں، ایک منفی انداز میں تجزیہ کررہا ہے تو اسے پورے سال میں خرابی ہی خرابی نظر آتی ہے ، اور دوسرے کی سوچ مثبت ہے تو اس کو خیر ہی خیر پورے سال میں نظر آتا ہے، ظاہر ہے اس سوچ کا اثر اعمال پر بھی پڑتا ہے، منفی سوچ والا شکایتوں کے دفتر لے کر بیٹھ جائے گا اور مثبت سوچ والا کلمۂ شکر سے اپنی زبان کو تازگی بخشے گا ، اس لیے واقعات وحالات کا ایجابی اور مثبت اثر لینا چاہیے، زندگی بہتر انداز میں گذارنے کا یہی طریقہ ہے، آپ کے سامنے ایک گلاس ہے، جس میں تھوڑا پانی ہے، آپ اسے آدھا بھرا بھی کہہ سکتے ہیں، اور آدھا خالی بھی ، واقعاتی اعتبار سے دونوں صحیح ہے، لیکن اگر آپ اس گلاس کو جس میں پانی ہے، آدھا بھرا کہتے ہیں تو آپ کی سوچ مثبت ہے، اگر آپ اسے آدھا خالی کہتے ہیں تو یہ آپ کی منفی سوچ کی غماز ہے، اُگتے اور ڈوبتے سورج کا منظر یکساں ہوتا ہے، آپ کے سامنے تصویر رکھی گئی ، آپ نے کہا کہ یہ اُگتے سورج کی تصویر ہے، تو یہ آپ کی مثبت سوچ کی نشانی ہے ، کیوں کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رات کی تاریکی دور ہو گئی اور آنے والا دن روشن اور تابناک ہے، لیکن اگر آپ نے اس تصویر میں سورج کو ڈوبتا ہوا سمجھا تو یہ آپ کی منفی سوچ کا مظہر ہے ، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سورج ڈوب رہا ہے، روشن دن کا خاتمہ ہوا، آگے تاریک رات ہے، اس سوچ کا اثرآپ کے قوت فکر وعمل پر پڑے گا ، تقریر وتحریر پر بھی پڑے گا ، اس کی وجہ سے آپ کے کہنے کا اسلوب اور الفاظ بھی بدلے گا ، گلزار دبستاں میں ایک کہانی لکھی ہے کہ بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت گر گیے ہیں، نجومی نے تعبیر بتائی کہ آپ کے سارے اعزواقرباء آپ کی زندگی میں مر جائیں گے ،بادشاہ نے کہا کہ اچھا میرا بیٹا ، میری بیوی، میرا بھائی سب مر جائے گا اور میں ان کا جنازہ اٹھانے کے لیے زندہ رہوں گا، بادشاہ نے اس نجومی کو قید کر دیا ، دوسرے کو بلایا ، اس نے مبارک سلامت کہہ کر پہلے تو بادشاہ کے ذہن پر پہلی تعبیر کے اثرات کو دور کیا ، پھر کہا کہ حضور اس کی تعبیر یہ ہے کہ پورے خاندان میں اللہ آپ کی عمر سب سے دراز کرے گا ، بادشاہ نے خوش ہو کر اسے موتیوں سے تولوا دیا ، بات وہی ہے، نتیجہ بھی وہی ہے، لیکن ایک موت کی بات کرتا ہے، جسے کم ہی لوگ پسند کرتے ہیں اور ایک زندگی کی اور درازی عمر کی بات کرتا ہے، جس کی خواہش ہر کس وناکس کو ہوتی ہے، تعبیر کا یہ فرق بھی مثبت منفی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔دفتری معاملات میں کچھ کام آپ سے لے کر دوسروں کو دیدیئے گئے ، منفی سوچ والا یہ کہے گا کہ میرے پَر کتر ے جا رہے ہیں اور دفتر میں مجھے بے وزن کیا جا رہا ہے ، مثبت سوچ والا اس واقعہ سے اس نتیجہ پر پہونچے گا کہ ہمارا دفتری بوجھ ہلکا ہو گیا ، اب ہم ان کاموں پر جو میرے ذمے رہ گیے ہیں، زیادہ توجہ اور محنت سے وقت لگا سکتے ہیں، جو ذمہ داریاں دوسروں کے حوالہ کر دی گئی ہیں، اس شخص کی اگر سوچ مثبت ہو گی تو وہ اسے آزمائش اور امتحان سمجھ کر اٹھائے گا، اور اس اضافی ذمہ داری کی وجہ سے اس کے اندر آمریت اور حاکمیت کا مزاج نہیں پیدا ہوگا، لیکن اگر سوچ منفی ہے تو اس کے اندر کبر ونخوت ، حاکمت اور آمریت کا مزاج پیدا ہوگا جو دیر سویر خود اس کے لیے مہلک ثابت ہو گا ، ملکوں کی تاریخ اور سماجی مشاہدات تو یہی بتاتے ہیں۔

منگل, مارچ 05, 2024

مولانا قاری احمد اللہ صاحب بھاگلپوری (یادوں کے چراغ)

مولانا قاری احمد اللہ صاحب بھاگلپوری  
  (یادوں کے چراغ)
Urduduniyanews72 
  ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ 
مشہور خادم قرآن ، استاذ الاساتذہ، جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے صدر القراء ’’بڑے قاری صاحب‘‘ کے نام سے عالمی شہرت یافتہ ، فنا فی القرآن، قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے کو تحریک کا رنگ دینے والے عظیم انسان حضرت مولانا قاری احمد اللہ صاحب بھاگلپوری نے 29؍ رجب المرجب 1445ھ مطابق 10؍ فروری 2024ء بروز ہفتہ اس دنیا کو الوداع کہہ دیا، وہ وضو کے لیے اٹھے تھے، اور گر گیے، جس کی وجہ سے ناک سے بہت سارا خون نکل گیا، آئی سی یو میں داخل کیا گیا ، صحت قدرے بحال ہوئی ، خون کا آنا رک گیا، لیکن ہارٹ اٹیک ہوا، آکسیجن کم ہوتا چلا گیا ، قلب کی حرکت صرف پندرہ فی صد رہ گئی تھی ، وینٹیلیٹر پر ڈالا گیا ، آواز بند ہو گئی، سانس اکھڑ گئی، اور آنکھوں نے بند ہو کر اس دنیا سے رخ موڑ لینے کا پیغام سنا دیا ، ہزاروں معتقدین ، شاگر اور محبین دیکھتے رہ گیے ، آنکھوں نے آنسوؤں سے غسل کیا، سورت اسپتال سے گھر اور گھر سے جامعہ اسلامیہ تک کا سفر عقیدت مندوں کے کاندھوں پر ہوا، بعد نماز مغرب حضرت کے جلیل القدر شاگرد مفتی محمد عباس بسم اللہ نے جنازہ کی نما زپڑھائی اور ڈابھیل کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، دو لڑکے اور دو لڑکیوں کو چھوڑا، صاحب زادہ کا نام اسعد اللہ اور سعود اللہ ہے، مولانا سعوداللہ نے امارت شرعیہ کے المعہد العالی سے تدریب افتاء وقضاء کیا ہے اور والد کے ساتھ ڈابھیل میں ہی قیام کرتے ہیں، مولانا اسعد اللہ بھاگل پور میں ایک مدرسہ کے مہتمم ہیں، جو حضرت مولانا قاری احمد اللہ صاحب کا قائم کردہ ہے، تین بھائی اور دو بہن تھیں، آپ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
 مولانا قاری احمد اللہ صاحب بن حاجی معارف حسین (1977ء) بن فضیل کریم بن تعلیم حسین بن بھِکاری شیخ بن جان محمد 12؍ ربیع الاول 1336ھ مطابق 15؍ اپریل 1944ء کو اپنے آبائی گاؤں کرن پور ، ضلع بھاگلپور میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد حفظ قرآن کا آغاز مدرسہ اصلاح المسلمین چمپا نگر بھاگلپور میں قاری عبد الرشید صاحب کے پاس کیا اور تکمیل مدرسہ شاہی مراد آباد میں قاری ابراہیم کی درسگاہ سے ہوئی، کچھ تعلیم جامعہ رحمانی مونگیر میں ہوئی ا ور ہدایہ تک کی تعلیم دار العلوم دیو بند میں پائی، وہاں سے دوبارہ مدرسہ شاہی آگیے اور یہیں سے 1393ھ مطابق 1973ء میں سند فراغ حاصل کیا، آپ کے نانا کا نام شرافت خاں اور نانی بطول النساء تھیں جو، جواکھر، ڈاکخانہ سمستی پور، تھانہ شاہ کنڈ، ضلع بھاگلپور کے رہنے والے تھے، شادی 25؍سال کی عمر میں گاؤں میں ہی اپنی پھوپھی کی لڑکی سے کرن پور میں ہوئی، آپ کو دلچسپی شروع سے ہی قرآن کی تلاوت سے رہی، چنانچہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے نامور استاذ قاری کامل صاحب سے تجوید وقراء ت کے رموز میں مہارت تامہ حاصل کی۔
 تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ اسلامیہ ڈابھیل گجرات سے 11؍ شوال 1394ء میں کیا، 1982ئ؁ میں انقلاب دارالعلوم کے بعد جب حضرت مولانا قاری عبد اللہ سلیم صاحب امریکہ کو اپنا مستقر بنالیا تو دارالعلوم دیوبند کے ارباب حل وعقد کی نگاہ حضرت قاری احمداللہ صاحب تک پہونچی اور وہ دارالعلوم دیوبند منتقل ہوگئے، لیکن ڈابھیل کی محبت جو سودائے قلب میں ان کے جاگزیں تھی، وہ دارالعلوم دیوبند کی محبت پر غالب آگئی اور وہ صرف ایک سال دار العلوم دیو بند کے شعبہ قرأت کو اپنی خدمت دے سکے اور پھر سے وہ ڈابھیل چلے آئے اور پوری زندگی خدمت قرآن میں لگادی، تا آں کہ خالق کائنات نے انہیں اپنے پاس بلا لیا، قاری صاحب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ کے صحیح مصداق تھے، وہ حقیقتاً خادم قرآن تھے،ا نہوں نے کئی نسلوں کو قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنا سکھایا ، دا رالقرآن کفلیتہ اور جامعہ اشاعت الاسلام اکل کنواں میں جو قرآن پر محنت ہو رہی ہے اس میں ان کا خون جگر بھی شامل ہے۔
قاضی صاحب کو اللہ رب العزت نے انتہائی خوبصورت اور وجیہ بنایا تھا، اکاسی (81) سال کی لمبی عمر کے بعد بھی ان کے چہرے سے قرآن کریم کی خدمت کا نور جھلکتا نہیں چھلکتا تھا۔انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں قراء ومجودین بنائے، خصوصا گجرات میں صحت کے ساتھ قرآن پڑھنے اورپڑھانے کا جو ماحول بنا وہ ان کی کد وکاوش اور جد وجہد کا عظیم مظہر ہے، آج جو لوگ بھی اس طرف اس کام سے جُڑے ہوئے ہیں وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کے شاگرد ہیں۔
 اللہ تعالیٰ نے تصنیف وتالیف کا بھی اچھا شعور بخشا تھا، پچیس کتابیں انہوں نے تیار کیں، ان میں سے بیش تر تجوید وقرأت سے متعلق ہیں، ان میں مرقاۃ التجوید، مراء ۃ التجوید، معلم الصبیان فی قواعد تجوید القرآن (چھپے)، کتاب التلخیص فی قواعد تجوید، مبادیات قراء ات، تلخیص العالی فی القراء ات السبع من طریق الشاطیہ والتیسیر، التحفۃ المکیۃ فی القراء ات الثلاث من طریق الدرۃ المضیۃ وتجسیر التسیر، تحفۃ النظر شرح طبیۃ النشر فی القراء ات الحشر کتاب التکبیر، اسلام میں قرآن مجید کا مقام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ قواعد الصرف (دو اجزائ) الدروس الاساسیۃ فی تعلیم اللغۃ العربیۃ (دوجز) درسی نصابی کتابیں ہیں، ان کے علاوہ تیرہ کتابیں تجوید وقراء ت اور سات کتابیں نحو وصرف اور عربی تعلیم سے متعلق غیر مطبوعہ ہیں، شاگردوں کے ساتھ یہ بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
حضرت قاری صاحب سے میری صرف چار ملاقاتیں تھیں، پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ دارالعلوم دیوبند میں استاذ ہوکر آئے، اس زمانہ میں، میں افتاء کا طالب علم تھا اور جمعیۃ الطلبہ کا جنرل سکریٹری، یہ ملاقات حضرت کو پورے طورپر محفوظ تھی اور نام بھی ان کو یاد ہوگیا تھا، دوسری ملاقات ڈابھیل میں ہوئی، ایک ملاقات دارالقرآن جمبوسر میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار کے موقعہ سے ہوئی تھی اور آخری ملاقات 2016ئ؁ میں امارت شرعیہ میں ہوئی تھی، ان کے چھوٹے صاحب زادہ مولانا سعد اللہ بھی ان کے ساتھ تھے، جب میرا سفر امیر شریعت سادس کے ساتھ گجرات کا ہوا تھا اور تمام قابل ذکر جامعات میں جانا ہوا تھا، اسی موقع سے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل بھی جانا ہوا، عصر بعد حضرت کے حجرے میں ملاقات ہوئی، اور خرد نوازی کا جو نقش اس دن دل پر قائم ہوا، وہ آج تک باقی ہے ۔
یہ چوتھی ملاقات تھی، انہوں نے بھاگلپور میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا، اس کا رجسٹریشن کرانا چاہتے تھے، مجھ سے جو رہنمائی ہو سکی، کر دیا تھا، حضرت نے بہت دعائیں دیں اورصاحب زادہ کو تلقین کیا کہ مدرسہ اور اس کے متعلقات کی قانونی اور دستوری تحفظ کے لیے وہ مجھ سے رابطہ میں رہیں، لیکن پھر بات آئی گئی ہو گئی ، ایک بار مدرسہ کے جلسہ میں بھی یا دکیا تھا، لیکن میں اپنی مشغولیت کی وجہ سے وہاں حاضر نہ ہو سکا، جس کا مجھے آج تک افسوس ہے ۔
 انہوں نے آخری وقت میں اپنے شاگردوں کو جو وصیت کی وہ یہ کہ ’’گاؤں گاؤں گھومو اور مسلمانوں کو مکتب کے ذریعہ قرآن پاک سے جوڑو، اس کے سوا عزت کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، نوجوان فضلاء کو اس جانب خصوصی طور پر متوجہ کرو، ان کی ذہن سازی کرو کہ مرتے دم تک قرآن کی خدمت میں لگے رہیں‘‘۔ اپنے تین شاگرد قاری حمزہ ، قاری اسحاق اور قاری رضوان سے فرمایا : ’’دیکھو ایک نصیحت یاد رکھنا اپنی زندگی کا کوئی ایک گھنٹہ بھی ایسا نہ گذرنے دینا جو قرآن سننے یا پڑھنے سے خالی ہو۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم تو اساتذۃ سے کہتے ہیں کہ مکتب سے ہی عربی زبان سکھانا شروع کر دو، جب بچے ساری زبانیں سیکھتے ہیں تو عربی کیوں نہیں سیکھیں گے ۔
 اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے اور ان کے پس ماندگان ، شاگرد اور متعلقین کو صبر جمیل کی دولت سے مالا مال کرے، رحمۃ اﷲ رحمۃ واسعۃ

ہفتہ, مارچ 02, 2024

خوف خدا- گناہوں سے روکنے کی شاہ کلید

خوف خدا- گناہوں سے روکنے کی شاہ کلید 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
============================
 انسان ، انسان ہی ہے فرشتہ نہیں ، اس سے خطا کا صدور ہوتا ہے ، شیطان معصیت کی طرف اس کی رہنمائی کرتا رہتا ہے، نفس امارہ اسے خواہشات دنیا کی لذتوں اور بازار کی چکا چوند کی طرف کھینچتا رہتا ہے ، اس کی فطرت میں خیر وشر کی قوت رکھی گئی ہے ، اسی لیے غلبہ کبھی فسق وفجور اور معصیت کا ہوجاتا ہے اور بندہ وہ کر گذرتا ہے ، جس سے اللہ رب العزت نے بچنے اور نہ کرنے کا حکم دیا ہے ، کبھی یہ معصیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آدمی اس پر ڈھیٹ ہوجاتا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ اللہ کی نا فرمانی کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے ، پھر اس کی آنکھ ، کان ،دل ودماغ پر گناہوں کثافت اس قدر چڑھ جاتی ہے کہ وہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں ہوتی اور جہنم اس کا مقدر بن جاتا ہے ۔
 معصیت کی اس فطرت اور گناہو ں کی لذت سے بچنے میں جو چیز سب سے زیاد مؤثر ہے وہ خوف خدا ہے، یہ ’’ماسٹر کی‘‘ اور شاہ کلید ہے ،یہ جب کسی کے دل میں پیدا ہوجائے تو اس کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے ، اس کے سوچنے کا انداز بدلتا ہے اور اس کی معاشرت ، رکھ رکھاؤ ، بول چال ، اعمال وافعال میں ایسی تبدیلی آتی ہے کہ لوگ کھلی آنکھوں دیکھ کر محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ اللہ سے ڈرنے والا انسان ہے، اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بار بار ڈر نے کا حکم دیا ہے اور فرمایا کہ جو اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر ا وہ دوجنت کا مستحق ہوگا، سورۃ اعراف ۵۴؍میں ہے کہ جو لوگ اللہ رب العزت سے ڈرتے ہیں، ان کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ سورۃ بینۃ :۸؍ میں ہے کہ اللہ رب العزت کی خوشنودی اس کو حاصل ہے اور وہ اللہ سے خوش ہے جو رب سے ڈرتا ہے، ڈر کی یہ صفت انسان کے اندر معرفت رب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ، اسی لیے اللہ رب العزت کا یہ بھی فرمان ہے کہ علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ (سورۃ فاطر : ۲۸)
 اس لیے بندوں کو جنت کی طلب میں خوف خدا کے ساتھ زندگی گذارنی چاہیے تاکہ اس کی آخرت سنور جائے، اللہ رب العزت نے بندوں کو یہ بھی ہدایت دی کہ سنوکم ہنسو، روؤو زیادہ ، اس لیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کا یہی تقاضہ ہے۔حضرت امام احمد بن حنبل فرمایا کرتے تھے کہ خوف خدا نے مجھے کھانے پینے سے روک دیا ہے ، اس لیے مجھے اب اس کی خواہش نہیں ہوتی، قیامت کے دن جن سات آدمیوں کو عرش کے سایے میںجگہ ملے گی ، ان میں ایک وہ بھی ہوگا جو اللہ رب العزت کے عذاب اور بد اعمالی پر وعیدوں کو یاد کرکے دنیا میں رویا کرتا تھا، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ دو آنکھیں ایسی ہیں جن کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ، ایک اللہ کے خوف سے دیر رات رونے والی آنکھیں اور دوسری وہ جو سرحد کی نگہبانی کے لیے بیدار رہی ہو، حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص کا قول ہے کہ مجھے ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ اللہ کے خوف سے ایک قطرہ آنسو کا بہنا ہے ، حضرت عوف بن عبد اللہ کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ روایت پہونچی ہے کہ اللہ کے خوف سے نکلنے والا آنسو جسم کے جس حصے کو لگ جائے اس پر دوزخ کی آگ کو اللہ نے حرام کر دیا ہے ، ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ فرماتے ہیں کہ میری عزت وجلال کی قسم میں اپنے بندے کو دو خوف میں مبتلا نہیں کر سکتا ، جو دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے گا میں اسے آخرت میں ڈراؤں گا اورجو دنیا میں مجھ سے ڈرے گا اس کو آخرت میں امن وامان اور اطمینان دوں گا، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: تم ان کافروں سے مت ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مؤمن ہو (آل عمران : ۱۷۵) ایمان والوں کی علامت میں سے ایک اللہ کے خوف کو قرار دیا گیا (المومنون: ۵۷) اور حکم ہو امجھ ہی سے ڈرو۔ (البقرۃ: ۴۰) اور اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے، (آل عمران: ۱۰۲) اور تم ڈرنے کی جس قدر استطاعت رکھتے ہو، اتنا ڈرو۔ ترمذی شریف میں ایک روایت ہے جس کو انہوں نے حسن قرار دیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ سے ڈر نا کسی خاص جگہ یا مکان سے متعلق نہیں ہے بلکہ جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرتے رہو۔ دل کو آباد رکھنے کے لیے اللہ کا خوف ضروری ہے ، جس دل میں اللہ کا خوف نہ ہو وہ ویران اور بنجر زمین کی طرح ہے، اسی لیے حضرات ابنیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ واولیاء عظام کثرت سے رویا کرتے تھے، حضرت آدم اورنوح علیہما السلام کے بارے میں حضرت حسن بصری کا قو ل ہے کہ وہ تین سو سال تک روتے رہے، حضرت داؤد ، حضرت یحیٰ کی گریہ زاری کا بھی یہی حال تھا، اس گریہ زاری کے اثرات ان کے رخسار اور زمین پر بھی پڑا کرتے تھے او رچہرے آنسوؤں کے مسلسل بہنے سے زخمی ہوجایا کرتے تھے، صحابہ کرام کے خوف خدا سے رونے کے واقعات کتابوں میں مرقوم ہیں خصوصا حضرات خلفاء راشدین اپنی تمام تر عظمت کے باوجود اللہ کے خوف سے اس قدر روتے تھے کہ اس کی نظیر ملنی مشکل ہے، بعض طبیبوں نے اولیاء کرام کو مشورہ دیا کہ آپ کی آنکھیں اچھی ہو سکتی ہیں، اگر آپ رونا چھوڑ دیں، انہوں نے اس مشورہ کو ماننے سے انکار کر دیا، اور فرمایا کہ اس آنکھ میں کوئی خیر نہیں جو نہ روئے، بعض بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ خوف خدا سے روتے روتے ان کی بینائی چلی گئی ، اور بعضوں کی آنکھوں سے آنسو کے بجائے خون بہنے لگا ۔
 حضرت عائشہ ؓ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حال نقل کیا ہے کہ آپ راتوں کو بہت گریہ زاری کرتے تھے، ایک رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے کہا کہ جب آپ کی اگلی اور پچھلی لغزشوں کو اللہ نے معاف کر دیا ہے، پھر آپ اس قدر کیوں روتے ہیں، ارشاد فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکر گذار بندہ نہ بنوں ۔
 ہر رونا خوف خدا سے نہیں ہوتا کبھی خوشی میں بھی آنسو نکل آتے ہیں، اور کبھی حزن وملال ، درد وغم ، رنج والم کی وجہ سے بھی رونا آتا ہے ، یہ فطری چیز ہے، ان رونے میں سب سے بہترین رونا اللہ کے خوف سے رونا ہے ، البتہ یہ رونا دکھلاوے اورلوگوں کے سامنے رقیق القلب کے اظہار کے لیے نہ ہو، کیوں کہ دکھاوے کے لیے رونا اللہ سے قربت کے بجائے بُعد اور دوری پیدا کرتا ہے ۔
 اللہ کے خوف سے رونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی یقین کے ساتھ اپنی مغفرت اور دخول جنت کے بارے میں مطمئن نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس پر مختلف حالتیں طاری ہوتی ہیں اوربعض موقعوں سے وہ معصیت سے خود کو بچا نہیں پاتا، اس لیے بندوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ اللہ کی پکڑ سے کوئی بے فکر نہیں ہوتا الا یہ کہ اس کی شامت ہی آگئی ہو ، گناہوں میں ملوث ہونے کے باوجود اگر کسی کو دنیاوی عیش وآرام حاصل ہے اور مرفہ حال ہے تو اس کو خدا کی قربت سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ اللہ رب العزت کا طریقہ ڈھیل دینے کا بھی ہے ، بالآخر اللہ کی پکڑ آتی ہے اور یقینا اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے، اس لیے سوء خاتمہ سے ڈرنا چاہیے، گناہوں پر جری نہیں ہونا چاہیے، عمل میں اخلاص پیدا کرنا چاہیے اور عمل نفاق سے بالکلیہ بچنا چاہیے کہ یہ سوء خاتمہ کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ۔ خوف انسان پر مسلط ہوتا ہی رہتا ہے، وہ رات کی تاریکی میں اپنے سایے سے بھی ڈرجاتا ہے ، عورتیں تھوڑی تھوڑی بات پر رونا شروع کر دیتی ہیں، یہاں خوف سے مراد ایسا خوف ہے جو انسان کو گناہوں سے روک دے اور اللہ ورسول کی اطاعت کی طرف راغب کر دے ۔
 اللہ کا خوف دل میں پیدا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ہر کام اخلاص کے ساتھ کرے ، اللہ کی رضا کے استحضار کے ساتھ کرے، غور وفکر اور سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت کیا کرے، اللہ کے نیک بندوں کی سیرت وسوانح کا مطالعہ کیا کرے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ (الانفال : ۲)  گناہوں کے ارتکاب سے بچناچاہیے کیوں کہ گناہ گار کے دل سے اللہ کا خوف نکل جاتا ہے ، ان ظالموں اور فاسقوں کے احوال کو پڑھ کر عبرت پکڑنا جن کو اللہ نے ہلاک کر دیا اور وہ شہروں میں جائے پناہ تلاشتے ہی رہے، علماء کے با اثر بیان سننا کہ یہ بھی ’’از دل خیزد بردل ریزد‘‘ کا مصداق بن کر دل کی دنیا بدلنے میں کیمیا اثر ہے، اور سب سے آخری ترکیب یہ ہے کہ رات کی تاریکی اور تنہائی میں گڑگڑا کر اللہ سے اس کی مغفرت اور معرفت طلب کی جائے ، اس لیے کہ ساری توفیق اللہ کی جانب سے ہوا کرتی ہے ۔ جگر مراد آبادی نے کہا ہے : 
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس بات نہیں 
 فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

شعبہ اردو نیوکالج، بزمِ اسوسی ایشن کے زیر اہتمام یوم اردو و مشاعرہ کا انعقاد

شعبہ اردو نیوکالج، بزمِ اسوسی ایشن کے زیر اہتمام یوم اردو  و  مشاعرہ کا انعقاد
 اردو کی بقا اور تحفظ کے لیے ہم سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا: مقررین کا اظہارخیال 
Urduduniyanews72 

چینئی(ساجدندوی) شعبہئ اردو نیوکالج کے طلباء کی انجمن بزم اردو اسوسی ایشن کے زیر اہتمام بتاریخ 29/ فروری 2024کو یوم اردو  و  مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کا آغاز بی اے اردو کے طالب علم محمد فیضان کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اورمحمد نفیس نے نعت کا نذرانہ پیش کیا۔صدر شعبہ اردو ڈاکٹر سیدسجاد عنایت نے استقبالیہ کلمات پیش فرمایا جبکہ پروگرام کی نظامت شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ساجد حسین ندوی نے کی۔کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ایم اسرار شریف نے اپنے افتتاحیہ کلمات میں کہا کہ اردو زبان دنیا کی دس بڑی زبانوں میں سے ایک ہے اور پوری دنیا میں اس زبان کو پڑھنے، لکھنے اوربولنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ دیکھنے کومل رہاہے۔ مہمان خصوصی اور مسلم ایجوکیشنل اسوسی ایشن آف سدن انڈیا(میاسی) کے سکریٹر جناب الیاس سیٹھ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ شعبہ اردو نیو کالج کا قیام1951میں ہوا اور اپنے قیام کے اول روز یہ سی ہی یہ شعبہ فعال اور متحرک ہے دن بدن اردو تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میاسی نے اردو کو گھر گھر پہونچانے کا عزم کیا ہے اوراس عزم کو پورا کرنے کے لیے جنوری 2024میں فری آن لائن اردو کلاسیس کاآغاز کیا گیا جس میں فی الحال 50 سے زائد طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں جس میں ہرعمر کے خواتین وحضرات شامل ہیں۔میاسی اردو اکیڈمی کے چیئر مین جناب اے محمد اشرف صاحب نے سامعین کو مخاطب کرکے کہا کہ اردو سب سے پیاری اور میٹھی زبان ہے، اس زبان کے ساتھ کسی اور زبان کی ملاوٹ غیر مناسب ہے۔ آج یہ رواج عام ہوتا جارہاہے کہ اردو الفاظ کے ساتھ یہ انگلش الفاظ کا استعمال بڑے زور وشور کے ساتھ کیا جارہاہے جو بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب اردو بولی جائے تو اس میں خالص اردو الفاظ کا ہی استعمال ہو کسی اور زبان کے الفاظ کواس میں شامل نہ کیا جائے۔ میاسی اردو اکیڈمی کے کنوینر جناب محمد روح اللہ صاحب نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ زبانیں کوئی بھی ہو ہر زبان کو سیکھنا چاہیے، زبان کی تعلیم کا مقصد نوکری حاصل کرنا نہیں، بلکہ اپنے اخلاق کو سنوارنا اور قوم کی خدمت کرنا ہے۔ جنوب ہند نے ہمیشہ اردو کی خدمت کی ہے اور اردو کوآگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا  ہے۔ اردو کاسب سے پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ کا تعلق بھی جنوب ہند سے تھا۔ڈاکٹر حیات افتخار صاحب سابق صدر شعبہ اردو، قائد ملت کالج، چینئی نے اردو زبان کی اہمیت وافادیت پر ایک طویل خطبہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں بولی زبان صرف صرف اردو ہی ہے، یہی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے، جسے لوگ جانے انجانے میں ہندی کا نام دے دیتے ہیں حالانکہ ہندی جو لکھی جاتی ہے وہ بولنے میں کبھی استعمال نہیں ہوتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مشترکہ طور پر دونوں زبانوں کا کوئی نام ہوسکتا ہے تو وہ ہندوستانی زبان ہے۔ خطابات کے بعد بابائے اردو تمل ناڈو جناب علیم صبا نویدی اور روزنامہ مسلمان کے سابق نائب مدیر عثمان غنی جنہوں نے بے لوث اردو کی خدمت کی تھی ان دونوں احباب کا حال ہی انتقال ہوا، ناظم مشاعرہ ساجد حسین ندوی نے ا ن دونوں کی خدمات کا مختصر تذکرہ کرتے ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کیا اورڈاکٹر سید سجادعنایت دونوں حق میں مغرفت کی دعائیں۔
اس کے بعد مشاعرہ کا آغاز ہوا جس کی صدارت جناب محمد روح اللہ صاحب نے کی۔شعراء نے خوبصورت لب ولہجہ میں اپنے غزلیہ اشعار سے سامعین کو محظوظ کیا اور خوب داد حاصل کئے۔شعرا میں شاہد مدراسی،ماہر مدراسی، سراج شانہ، ایوب مدراسی، صداء لآمری کے علاوہ نیوکالج کے طلبا میں سے طاہر بجلی اور فاضل شریف نے بہترین غزلیں پیش کی۔اس یوم اردو و مشاعرہ میں شہر کے عمائدین، ادباء و شعراء، وائس پرنسپل پروفیسر محمد اکمل و ڈاکٹر عبداللہ محبوب، میاسی کے اعزازی ایس ایم سلیم، اسسٹنٹ سکریٹری منیر الدین شیریف، ایزیکٹیو ڈائریکٹر اشتیاق احمد کے علاوہ کالج کے اساتذہ اور طلباء بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پروگرام کو کامیاب بنانے میں شعبہ کے اساتذہ ڈاکٹر غیاث احمد، ڈاکٹر طیب خرادی، پروفیسر سید شبیر حسین، پروفیسر سید باقر عباس، پروفیسر ساجد حسین اور طلباء نے بھرپور تعاون کیا۔اخیر شعبہ اردو کے ڈیپارٹمنٹ سکریٹری محمد شعیب نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور پروگرام اختتام پذیر ہوا۔

چک غلام الدین ہائی اسکول(ویشالی) میں انتخاب بیداری مہم کے تحت ڈرائینگ مقابلہ کا انعقاد ۔

چک غلام الدین ہائی اسکول(ویشالی) میں انتخاب بیداری مہم کے تحت ڈرائینگ مقابلہ کا انعقاد ۔
Urduduniyanews72 
چک غلام الدین ہائی اسکول 02/ مارچ 2024 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم )   "چک غلام الدین ہائی اسکول" انتخاب بیداری مہم کی مناسبت سے ایک ڈرائنگ مقابلہ (Drawing Competition) کا انعقاد کیا گیا۔اس پروگرام میں شریک تمام طلبہ وطالبات  نے بڑی دلچسپی کے ساتھ ، انتخاب سے متعلق، نقاشی ،پینٹنگ،آرٹ اینڈ کرافٹ وغیرہ میں حصہ لیا ۔ ۔ پروگرام میں طلبہ وطالبات کو الگ الگ گروپ میں تقسیم کئے گئے تھے، سبھوں نے ووٹ سے متعلق نقاشی، پینٹنگ وغیرہ بناکر ووٹ دینے سے متعلق مثبت پیغام دیا ۔
اس موقع پر طلبہ وطالبات سے خطاب کرتے ہوئے محترم ابھے کمار استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول (فزیکل ایجوکیشن) نے انتخاب کی اہمیت و افادیت بتاتے ہوئے کہا کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ حکومت کا انتخاب کرتی ہے، ووٹ دینا ہمارا بنیادی حق ہے، ووٹ کے ذریعہ ہم ہندوستانی شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ۔ آپکا ووٹ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ووٹ جمہوری سماج ومعاشرے میں ایک طاقتور اورمثبت ہتھیار ہے، ووٹ کے ذریعےآپ اپنی حکومت پراپنی ملکیت کا احساس پیدا کر سکتے ہیں ووٹنگ ہمیں ملک، حلقے یا امیدوارکے بارے میں اپنے خیالات وتاثرات کے اظہار کا بہترین ذریعہ  ہے، آپ اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دے کر ایوان میں اقتدار پیدا کرتے ہیں ۔
پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جن لوگوں نے اپنا تعاون دیا ان کی فہرست اس طرح ہے، ستیش کمار، ببیتا کماری، انورادھا کماری، آبھا کماری، دیپک کمار پنڈت، محمد ضیاء العظیم ، کے نام مذکور ہیں ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...