Powered By Blogger

اتوار, جولائی 07, 2024

سال نوکی آمد -مرحبا

سال نوکی آمد -مرحبا
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 



1445ھ گذرگیا اور ہم 1446ھ میں داخل ہوگیے، یعنی نئے سال کا سورج ہماری زندگی کے مہ وسال سے ایک سال اور کم کرنے والا ہے، ہم موت سے اور قریب ہو گیے، انسان بھی کتنا نادان ہے وہ بڑھتی عمر کا جشن مناتا ہے، مبارک بادپیش کرتا ہے، قبول کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ ہماری عمر جس قدر بڑھتی ہے، موت اور قبر کی منزل قریب ہوتی رہتی ہے اور بالآخر وقت موعود آجاتا ہے اور آدمی قبر کی آغوش میں جا سوتا ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اور جن کے ذہن میں فکر آخرت رچی بسی ہوئی ہے، وہ گذرے ہوئے سال سے سبق لیتے ہیں، اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں، نئے سال کا استقبال تجدید عہد سے کرتے ہیں کہ آئندہ ہماری زندگی رب مانی گذرے گی، من مانی ہم نہیں کریں گے، اس عہد پر قائم رہ کر جو زندگی وہ گذارتے ہیں وہ رب کی خوش نودی کا سبب بنتا ہے اور اس کے نتیجے میں بندہ جنت کا مستحق ہوتا ہے۔
 نئے سال کی آمد پر ہم لوگ نہ محاسبہ کرتے ہیں اور نہ ہی تجدید عہد، بلکہ ہم میں سے بیش تر کو تو یاد بھی نہیں رہتاکہ کب ہم نئے سال میں داخل ہو گیے، عیسوی کلینڈر سب کو یادہے، بچے بچے کی زبان پر ہے، انگریزی مہینے فرفر یاد ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے سے جب چاہیے سن لیجئے؛ لیکن اسلامی ہجری سال، جو اسلام کی شوکت کا مظہر ہے، اس کا نہ سال ہمیں یاد رہتا ہے اور نہ مہینے، عورتوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے کچھ یاد رکھا ہے، لیکن اصلی نام انہیں بھی یاد نہیں بھلا،بڑے پیراور ترتیزی، شب برأت، خالی، عید، بقرعید کے ناموں سے محرم صفر، ربیع الاول، ربیع الآخر، جمادی الاولیٰ، جمادی الآخر، رجب، شعبان، رمضان، شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ جو اسلامی مہینوں کے اصلی نام ہیں، ان کو کیا نسبت ہو سکتی ہے، ہماری نئی نسل اور بڑے بوڑھے کو عام طور پر یا تو یہ نام یاد نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو ترتیب سے نہیں، اس لیے ہمیں اسلامی مہینوں کے نام ترتیب سے خود بھی یاد رکھنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرانا چاہیے، یاد رکھنے کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ اپنے خطوط اور دوسری تحریروں میں اسلامی کلینڈر کا استعمال کیا جائے۔پروگرام اور تقریبات کی تاریخوں میں بھی اس کا استعمال کیا جائے، کیونکہ بعض اکابر اسے شعار اسلام قرار دیتے ہیں اور شعار کے تحفظ کے لیے اقدام دوسری عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے ۔

 ہجری سال کی تعیین سے پہلے، سال کی پہچان کسی بڑے واقعے سے کی جاتی تھی۔ جیسے قبل مسیح،عام الفیل، عام ولادت نبوی وغیرہ، یہ سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وقت تک جاری تھا، حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں مجلس شوریٰ میں یہ معاملہ رکھا کہ مسلمانوں کے پاس اپنا ایک کلینڈر ہونا چاہیے۔ چنانچہ مشورہ سے یہ بات طے پائی کہ اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہو، چنانچہ سال کا شمار اسی سال سے کیاجانے لگا، البتہ ہجرت کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا تھا،لیکن سال کا آغاز محرم الحرام سے کیا گیا، کیونکہ یہ سال کا پہلا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا۔اس طرح اسلامی ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔
 محرم الحرام ان چا ر مہینوں میں سے ایک ہے، جس کا زمانہ جاہلیت میں بھی احترام کیا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہیں اور یہ اسی دن سے ہیں، جس دن اللہ رب ا لعزت نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، ان میں چار مہینے خاص ادب کے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار مہینوں کی تفصیل رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم بیان کی ہے، پھر حضرت ابو ذر غفاری ؓکی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ تمام مہینوں میں افضل ترین اللہ کا وہ مہینہ ہے جس کو تم محرم کہتے ہو، یہ روایت سنن کبریٰ کی ہے، مسلم شریف میں ایک حدیث مذکور ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں، اس ماہ کی اللہ کی جانب نسبت اور اسے اشہر حرم میں شامل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس مہینے کی فضیلت شہادت حسین کی وجہ سے نہیں، بلکہ بہت پہلے سے ہے۔
 اسی مہینے کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے، رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کے قبل اس دن کا روزہ فرض تھا، بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق قریش بھی زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، یہودیوں کے یہاں اس دن کی خاص اہمیت ہے، کیوں کہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گیے تو یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا، معلوم ہوا کہ یہودی فرعون سے نجات کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے ہیں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم یہودیوں سے زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں، لیکن اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے، اس لیے فرمایا کہ تم عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو، اس طرح کہ عاشوراء سے پہلے یا بعد ایک روزہ اور رکھو۔ علامہ عینی کے مطابق اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی،حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے اور حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر آئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی اسی دن واپس ہوئی، حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مہلک بیماری سے نجات ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو خصوصی حکومت ملی، اور ہمارے آقا مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی دن ”غفر لہ ما تقدم من ذنبہ“کے ذریعہ مغفرت کا پروانہ عطا کیا گیا۔ اس طرح دیکھیں تو یہ سارے واقعات مسرت وخوشی کے ہیں اور اس دن کی عظمت وجلالت کو واضح کرتے ہیں،اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھنا، اوراس ماہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا نا واقفیت کی دلیل ہے اور حدیث میں ہے کہ بد شگونی کوئی چیز نہیں ہے ۔

یقیناً اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اہل خاندان کے ساتھ شہادت تاریخ کا بڑاا لم ناک، کرب ناک اور افسوس ناک واقعہ ہے، جس نے اسلامی تاریخ پر بڑے اثرات ڈالے ہیں، اس کے باوجود ہم اس دن کو بْرا بھلا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ماتم کر سکتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا عقیدہ ہے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خانوادے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے، حق کی سر بلندی کے لیے شہید ہوئے اور قرآن کریم میں ان حضرات کے بارے میں ارشاد ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، البتہ تم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے، قرآن انہیں زندہ قرار دیتا ہے، اور ظاہر ہے ہمیں تومْردوں پر بھی ماتم کرنے، گریباں چاک کرنے، سینہ پیٹنے اور زور زور سے آواز لگا کر رونے سے منع کیا گیاہے، پھر جو زندہ ہیں، ان کے ماتم کی اجازت کس طور دی جا سکتی ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے
روئیں وہ، جو قائل ہیں ممات شہداء کے
ہم زندہ ٔجاوید کا ماتم نہیں کرتے
اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں تعزیے نکالے جاتے ہیں، تعزیہ نکالنے کی اجازت تو شیعوں کو چھوڑ کر کسی کے یہاں نہیں ہے، پھر جس طرح تعزیہ کے ساتھ نعرے لگائے جاتے ہی یاعلی، یا حسین یہ تو ان حضرات کے نام کی توہین لگتی ہے، حضرت علی، کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسین کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا عظمت صحابہ کا تقاضہ اور داماد رسول اور نواسہ رسول کے احترام کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن جلوس میں اس کی پرواہ کس کو ہوتی ہے، اس طرح ان حضرات کا نام ٹیڑھا میڑھا کرکے لیتے ہیں کہ ہمارے باپ کا نا م اس طرح بگاڑ کرکوئی لے تو جھگڑا رکھا ہوا ہے، بے غیرتی اور بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ اسے کار ثواب سمجھا جا رہا ہے، دیکھا یہ گیا ہے کہ اس موقع سے جلوس کے ساتھ بعض جگہوں پر رقاصائیں رقص کرتی ہوئی چلتی ہیں، عیش ونشاط اور بزم طرب ومسرت کے سارے سامان کے ساتھ حضرت حسین کی شہادت کا غم منایا جاتا ہے، اس موقع سے شریعت کے اصول واحکام کی جتنی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں، سب کی موجودگی غیروں کے مذاق اڑانے کا سبب بنتی ہے، اور ہمیں اس کا ذرا بھی احساس وادراک نہیں ہوتا۔
جلوس کے معاملہ میں ہمیں ایک دوسرے طریقہ سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، تاریخ کے دریچوں سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت حسین رضی اللہ علیہ کی شہادت کے بعد اس خانوادہ میں بیمار حضرت زین العابدین اور خواتین کے علاوہ کوئی نہیں بچا تھا،یہ ایک لٹا ہوا قافلہ تھا، جس پریزیدی افواج نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے، ان کے پاس جلوس نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا تھا، تیر،بھالے، نیزے اورعَلم تو یزیدی افواج کے پاس تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر نیزے پر تھا اوریزیدی بزعم خود اپنی فتح وکامرانی کاجلوس لیکر یزیدکے دربار کی طرف روانہ ہوئے تھے، ہمارے یہاں جلوس میں جو کروفراور شان وشوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ کس کی نقل کی جا رہی ہے؟ ذرا سوچئے کھلے ذہن سے سوچیے تو معلوم ہوگا کہ ہم کسی اور کی نقل کر رہے ہیں، حسینی قافلہ کی تو اس دن یہ شان تھی ہی نہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسی کسی بھی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہیے، ایسے جلوس میں نہ خود شامل ہوں اور نہ اپنے بچوں کو اس میں جانے کی اجازت دیں۔

کچھ تبسم زیرِ لب) انس مسرورانصاری

( کچھ تبسم زیرِ لب) 
Urduduniyanews72
              انس مسرورانصاری
       
 اک پھول سے آجاتی ہےویرانےمیں رونق 
ہلکا سا تبسم  بھی  مر ی جا ن  بہت  ہے 

                       * خوش نصیب *
  مجاہدِآزادی قاضی احسانﷲشجاع آبادی دوسال کی قید کاٹ رہےتھے۔ایک دن مولانا عطاءﷲشاہ بخاری ان سے ملنے جیل گئے۔ملازموں کو دیکھ کرپوچھا۔۔یہ کون ہیں۔؟،، 
 قاضی صاحب نے بتایا کہ یہ میرے خادم ہیں۔ایک سلیمان ہےجو پودوں کو پانی دیتاہےاوردوسرےکانام سکندرہےجوصفائی وغیرہ کردیتاہے۔،، 
عطاءﷲ بخاری نے کہا"تم تو بہت خوش نصیب ہو کہ سلیمان اورسکندرتمھارےخادم ہیں۔۔۔۔،،**
                           
                             * پڑھنا آتا ہے؟ *
    1960/میں ایک شام کوشعبہءاردو،فارسی۔لکھنؤ یونیورسٹی میں ایک ادبی نشست۔۔ شامِ افسانہ،،منعقد ہوئی۔اس افسانوی محفل میں ملک کےممتازادیبوں نے شرکت کی تھی۔
 رضیہ سجادظہیرڈائس پراپنا افسانہ۔۔مسیحا،،سنا رہی تھیں۔سامعین ہمہ تن گوش تھے۔افسانے کا ہیرو ڈاکٹر، ہیروئن مریضہ کی پیٹھ کا معائنہ کررہاہے۔سوالات بھی کرتاجارہاہے۔ہیروڈاکٹر نے پوچھا۔۔تمھیں پڑھنا آتا ہے۔؟،،
یہ الفاظ رضیہ آپانےکچھ اس اندازمیں اداکیےکہ سامعین میں سےایک طالبہ اچانک بے ساختہ بول پڑی۔۔
  ۔۔ جی ہاں،آتاہے۔،، 
 پھرکیاتھا۔ایسے قہقے پڑےکہ۔۔ شامِ،،لالہ زار بن گئی۔رضیہ آپابھی بے ساختہ ہنس پڑیں۔۔۔۔**

                              *  ا جر ت *
خواجہ الطاف حسین حالی، مرزاغالب کےشاگرداوربہت معتقد تھے۔ایک روزدونوں بیٹھے آپس میں گفت گو کررہے تھے کہ غالب نےاپنےپاؤں میں تکلیف کی شکایت کی۔خواجہ صاحب فوراً استاد کےقریب ہوگئے اور کہا۔۔ 
لایئےمیں آپ کے پاؤں دبادوں۔،، 
خواجہ صاحب چونکہ عالِم دین تھے اس لیے غالب ان سے پاؤں دبوانانھیں چاہتےتھے۔یہ دین کے علم کااحترام تھالیکن شاگرد بھی کچھ کم سعادت مند نہ تھے۔بضدہوگئےکہ نھیں! پاؤں دابیں گے۔ بڑی دیر کے بعد فیصلہ ہواکہ مولانا حالی اجرت پر پاؤں دابیں گے۔غالب نے شرط کوقبول کرلیا۔وہ کافی دیر تک غالب کے پاؤں دباتےرہے۔پھرجب کام سے فارغ ہوگئے تو غالب سے ازراہِ مذاق اجرت طلب کی۔ غالب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔ تم نےہمارےپاؤں دبائےاورہم نے تمھاری اجرت داب  لی۔حساب برابر۔۔۔۔۔ **
 
                        *  ہتھیلی کےنیچے  *
     سرسیداحمدخاں،مولانا شبلی نعمانی اورممتازعلی صاحب ایک کمرہ میں بیٹھے آپس میں گفت گوکررہے تھے۔تین بڑی علمی شبخصیات کا اجتماع،تکلف برطرف قسم کی گفتگو۔عالمانہ موشغافیاں۔ یہ سب کچھ تھا  لیکن سرسیداحمدخاں کچھ بے چین سےنظرآرہےتھے۔ گفتگو میں جی نھیں لگ رہاتھا۔بس ہاں، ہوں میں جواب دے رہے تھے۔کوئی بہت اہم کاغذکھوگیاتھااور تلاشِ بسیارکےباوجودنھیں مل پارہاتھا۔حالانکہ ہوا نےایک ہلکی سی شرارت کی تھی اوراس کاغذکومولانا شبلی کے قریب پہنچادیاتھا۔انھوں نے بڑی ہوشیاری سے مطلوبہ کاغذپراپنی ہتھیلی رکھ لی تھی اورسرسیدکے اضطراب سےلطف اندوزہورہےتھے۔لیکن ان کے ہونٹوں کی دبی دبی سی مسکراہٹ نے چغلی کھائی اورسرسید بھانپ گئےکہ مطلوبہ کاغذ مولاناکی ہتھیلی کےنیچے دباہواہے۔ 
  سرسید نےمولانا شبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔ 
  حضرت! ہم نےبڑےبوڑھوں سےسناہےکہ جب کوئی چیز کھوجائےتو سمجھو شیطان اس پر اپنی ہتھیلی رکھ دیتاہے۔کیا یہ سچ ہے۔،،؟ 
سرسید کی چوٹ پر مولانا نےشرمندگی سے مسکراتے ہوئے کاغذ ان کےحوالےکردیا۔۔۔ **

                                    * بیچاری *
  اردوکےایک معروف شاعر نے پریشان ہوکرمجازلکھنوی سے کہا۔۔مجھے اب شادی کر لینی چاہیے۔۔ 
      ۔۔تواس میں پریشانی کی کیابات ہے۔؟کرلیجیئے شادی۔،، مجازنےکہا۔ 
  ۔۔ لیکن بات یہ ہےکہ میں کسی بیوہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔،، 
    ۔۔ آپ کسی سے بھی کرلیجیئے۔۔ مجازنےسنجیدگی سےکہا۔۔ بیوہ تووہ بیچاری ہوہی جائے گی۔،، **
                          
                                  * انگلیاں *
    اردو ادیبوں کی ایک طعام کی محفل میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کےپہلومیں بیٹھے ہوئے ایک صاحب کھاناکھاتےہوئےباربارچٹخارےلےکراپنی انگلیاں چاٹنےلگتے۔جب وہ خوب چٹخارےلےلےکراپنی انگلیاں چاٹ چکےتولوی صاحب اپنی انگلیاں ان کے منھ کے قریب لےجاکربولے۔۔ لیجیۓ حضرت! اب انھیں بھی صاف کردیجئے۔،، **
                       
                          * کوئی شاعر ہے *
   دروازہ پر دستک ہوئی تو آشفتہ لکھنوی کےملازم نے دروازہ کھولا۔ لیکن دروازہ کھولنےکےبعدکافی دیر تک ملازم واپس نھیں آیا۔آشفتہ نے اسے آوازدی۔وہ آیا تو کہنے لگا۔۔ کوئی صاحب آپ کوباہربلاتےہیں۔،، 
    ۔۔ ارےﷲکےبندے! نام تو پوچھا ہوتا۔،،آشفتہ نے نرمی سےکہا۔
      ۔۔ کوئی شاعر صاحب ہیں۔آپ کےدھوکھےمیں انھوں نے مجھے غزلیں سنانی شروع کردیں۔،، ملازم نے براسامنھ بنا کر جواب دیا۔۔ **

                           * وقت اورتاریخ *
   جن دنوں رشیداحمد صدیقی مسلم یونیورسٹی میں اردو شعبہ کےصدر تھے۔ گرلز کالج کی پرنسپل نے درخواست پیش کی اورکہا۔۔ کالج کی طالبات اردو شعبہ کو دیکھنا چاہتی ہیں۔آپ کوئی مناسب وقت اور تاریخ بتادیں تاکہ سہولت رہے۔،، 
    رشید احمد صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ 
  ۔۔ وقت اورتاریخ تو ہمیشہ لڑکی والے ہی بتاتے ہیں۔،،         
              **
                      * کس کی تلاش ہے۔؟ *
    ایک روز مرزاغالب اپنےایک دوست سےکہنےلگے۔۔ہماری اہلیہ نے نماز پڑھ پڑھ کرپورےگھرکومسجدبناڈالا ہے۔لیکن کیوں صاحب! ہم تو مرد ہیں۔ہمارانمازپڑھنا تو ٹھیک ہے۔ہم تو نماز پڑھتے ہیں اس لیے کہ جنت میں حوریں ملیں گی۔غلماں ملیں گے۔آخر یہ عورتںں کیوں نماز پڑھتی ہیں۔؟ انھیں کس کی تلاش ہے۔،،؟؟**

                    * جوان بچے کی غلطی *
   کسی شاعر کےکلام کا پہلی بار کسی رسالہ میں شائع ہونا ایک عظیم الشان واقعہ سے کم نھیں ہوتا۔خوشی سنبھالے نھیں سنبھلتی۔وہ چاہتا ہے کہ ساری دنیا اسے پڑھےاوراگرکوئی پڑھنا نھیں چاہتاتوشاعرزبردستی پڑھواتاہے۔لکھنؤ کے ماہنامہ۔۔ ترچھی نظر،، میں شوکت تھانوی کی پہلی غزل چھپی تومارےخوشی کےگدگدہو گئے۔رسالہ کھول کرمیزپررکھ دیاتاکہ ہرآنےجانےوالےکی نظر پڑ سکے۔شامتِ اعمال کہ سب سے پہلے ان کے والد کی نظر پڑی۔ وہ پولیس مین تھے۔تھانےجارہےتھےکہ ان کی نظرکھلےہوئےرسالہ میں صاحبزادے کی غزل پر پڑگئی۔ایساشورمچااورہنگامہ برپا ہواکہ گویاچورکورنگے  ہاتھوں پکڑلیاگیاہو۔اہلیہ کواندرسےبلاکرلائے اور نہایت غصہ میں بولے۔
  ۔۔ دیکھئےاپنےلاڈلےکی کرتوت۔دیکھئےتوَسہی آپ کے صاحبزاےکیافرمأرہےہیں۔،، 
 ہمیشہ غیرکی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
 ترےکوچےمیں جا کر ہم ذلیل خوار ہوتے ہیں 
    چھپی ہوئی غزل کا یہ شعرسناکرشوکت تھانوی کے والد گرجے۔۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ جاتےہی کیوں ہیں کسی کےکوچےمیں۔؟اور کس سے پوچھ کرجاتےہیں۔؟،، 
        بیچاری والدہ سہم گئیں اور خوف زدہ آوازمیں بولیں۔۔ بچہ ہے،غلطی سےچلاگیاہوگا۔،، **

                            * ذہین ترین لوگ *
    امریکہ کے سابق صدر ہنری کسنجرسےانٹرویولیتے ہوئے ایک صحافی نے سوال کیا۔۔ کبھی کیا آپ کوایک ہی کمرے میں ذہین ترین لوگوں کا اجتماع نظرآیا۔؟،، 
    ۔۔ جی ہاں۔،، امریکہ کےمدبرنےجواب دیا۔۔۔ ایک بار میں ایک شیش محل میں گیا۔وہاں ہر طرف ذہین ترین لوگ نظرآرہےتھے۔یہ ان کے عکس تھے اور میں وہاں بالکل تنہا تھا۔،، **

                                   * وضاحت *
  دنیا کے تین بڑے نفسیات دانوں میں ڈاکٹر الفریڈ ایڈلر کانام کیاجاتاہے۔ ایک بار۔۔احساسِ کمتری،، کےموضوع پر وہ ایک یونیورسٹی میں لکچردےرہےتھے۔
   ۔۔ جسمانی طور پر معذور یاکمزورافراداکثرایسے کاموں کو اختیار کرتے ہیں جوان کی معزوری اورکمزوری کےبالکل برعکس ہوتے ہیں۔ یعنی کوئی ضعفِ تنفس کا مریض ہوتا ہے تو لمبی دوڑ کے جینے میں لگ جاتاہے۔ زبان میں لکنت کا مریض ہےتو خطیب بنناچاہتاہے۔ کمزور آنکھیں رکھتاہےتومصٌوری کی طرف نکل جاتاہت۔،، 
   اچانک ایک طالب علم کھڑاہوجاتاہےاورخطبہ میں مداخلت کرتے ہوئے کہتاہے۔
   ۔۔ سر! اجازت ہو تو کچھ پوچھوں۔۔ 
   ۔۔ ہاں، ہاں ضرورپوچھو،مجھے خوشی ہوگی۔،، ڈاکٹر ایڈلرنےکہا۔ 
   ۔۔ ڈاکٹر صاحب! آپ کی باتوں کا یہ مطلب تو نھیں کہ۔۔ ضعفِ دماغ،، میں مبتلا لوگ ۔۔ ماہرِ نفسیات،، بن جاتےہیں۔؟،، **
                      * جھول نھیں دھوتا *
   علٌامہ انور صابری لحیم شحیم آدمی تھے۔ایک بار ممبئی کے ایک مشاعرہ میں گئے۔وہاں کئی روزقیام کے دوران ایک دھوبی کوبلاکرکپڑےدھونےکےلیےکہا۔چونکہ انور صاحب کرتا پاجامہ پہنتے تھے اس لیےدھونےکےلیے  
چندکرتےاورپاجامےکمرہ کے فرش پرڈھیرتھے۔ دھوبی نے ایک کرتاکاسِراپکڑااوراوپراٹھاتاچلاگیا۔کافی لمباچوڑا کرتاتھا۔ سارے ہی کرتے ایسے ہی تھے۔کرتا کاجائزہ لینے کےبعددھوبی نےبراسامنھ بناکر کہا۔۔ ماف کرناجناب! اپن کپڑےدھوتاہے،جھول نھیں دھوتا۔ تنبووالےکوبلالو وہ دھوئےگا۔ اپن تو بس کپڑےدھوتاہے۔،، **

                          * جواب دے گئی *
     1961/کی ایک دوپہرکوشعبہ اردو،فارسی لکھنؤ یونیورسٹی میں ایک سیمینار کےموقع پرپروفیسر رگھوپت سہائےفراق گورکھپوری اردوشاعری کےموضوع پرلکچر دےرہےتھے۔لکچرکےدوران ایک طالبہ آہستہ سے اٹھی اور ہال سےباہر چلی گئی۔ طالبہ کےجانےکےبعد فراق نےکہا۔۔ میں سمجھا تھا کہ یہ لڑکی کھڑی ہوئی ہے تو کوئی سوال کرے گی۔،، 
     پروفیسرسیداحتثام حسین خاموش نہ رہ سکےاور برجستہ بولے۔۔ لیکن وہ جواب دے گئی۔،،  **
          
                               ** تبصرہ**
  ایبٹ آباد(موجودہ پاکستان) کے ایک وکیل الف دین نے۔۔ اسلام کی حقانیت،،کےموضوع پر ایک کتاب لکھی۔ 
 جب کتاب چھپ گئی تو ایک جلد اکبرالہ آبادی کی خدمت میں تبصرہ کےلیےبھیجا۔چنانچہ اکبرنےتبصرہ لکھا اورکتاب الف دین کوواپس بھیج دی۔ 
 الف دین نے خوب لکھی کتاب 
کہ بےد ین نے پا ئی  راہِ ثواب
                                      **
                          انس مسرورانصاری
                      قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
     سکراول، اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکرنگر (یو، پی) 
          پِن۔۔ 224190/رابطہ/9453347784/

پیر, جولائی 01, 2024

تربیتِ اولاد*

تربیتِ اولاد*
اردودنیانیوز۷۲ 
*🖋️محمد فرمان الہدیٰ فرمان*

اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کردہ ڈھیر ساری نعمتوں میں اولاد بھی ایک عظیم نعمت ہے۔ بچہ ہو یا بچی دونوں ہی اپنے والدین کے لیے نورِ نظر اور لختِ جگر ہوا کرتے ہیں، وہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتے ہیں، ان کے اندر اسلام ہوتا ہے؛ لیکن ان کے اچھے یا بُرے، مومن یا کافر اور نیکو کار یا بدکار ہونے میں ماحول اور سماج کا بڑا دخل ہوتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں‘‘، اس حدیث میں بچوں کو ایک ایسی مٹی کے مانند بتایا گیا ہے، جس کو جو نقش میں ڈھالا جائے وہ اسی طرح ڈھل جاتے ہیں۔ اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے لیے کونسا رُخ اختیار کرتے ہیں؟ اگر ان کی صحیح اسلامی تربیت کی جائے تو پھر ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے رب کے بلکہ والدین کے بھی فرماں بردار ہوں گے۔
اولاد والدین کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہوا کرتی  ہیں۔ ہر مومن و مسلمان نیک اولاد کی چاہت رکھتا ہے اور دعا کرتا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام نے یہ دعا فرمائی: "اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا کر"۔ اگر اللّٰہ نے آپ کو اولاد جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ان کی اچھی تربیت کریں، اللّٰہ و رسول کی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ کرائیں۔ بچوں کے لیے ان کا پہلا مدرسہ اپنا گھر ہوتا ہے، اور یاد رکھیں بچے آپ کی نصیحت سے نہیں؛ بلکہ آپ کے عمل سے سیکھتے ہیں، بچوں کو نصیحت سے زیادہ عمل سے سکھایا کریں، مثلاً نماز کی پابندی سکھانے کے لیے خود اس کے پابند بنیں، آپ خود بڑوں کی عزت کریں، لڑائی جھگڑے اور فسادات سے پرہیز کریں، جو بھی اچھے اور نیک افعال و اعمال ہیں وہ آپ پہلے خود کریں، ہر اچھا عمل کر کے دکھائیں تب بچے آپ سے سیکھیں گے۔ آپ اخلاق و کردار میں جیسا اپنی اولاد کو دیکھنا چاہتے ہیں ویسے خود بھی بنیں، یعنی اگر آپ انہیں نیک و صالح بنانا چاہتے ہیں تو پہلے آپ خود ویسے بنیں؛ کیوں کہ بچوں کے لیے آپ ایک آئینہ کے مانند ہیں، وہ جس طرح آپ کو دیکھیں گے اپنا عکس سمجھ کر خود بھی ویسے ہی بنیں گے، آپ خود متقی و پرہیزگار بنیں، آپ خود پنج وقتہ نمازی بنیں اور بچوں کو بھی ساتھ مسجد لے جایا کریں۔ مساجد میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے شور وغل کرنے پر انہیں ڈانٹ ڈپٹ دیا جاتا ہے اور مسجد آنے سے منع کردیا جاتا ہے اور ایسا راقم کا مشاہدہ بھی ہے؛ لیکن آخر ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ ان بچوں کی آوازیں مساجد کی رونق ہوا کرتی ہیں، اگر یہ آوازیں گونجنا بند ہو جائیں تو کوئی بعید نہیں کہ مستقبل میں مساجد خالی نظر آئیں گی، مساجد میں بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے پرہیز کریں۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ آپ کا یہ عمل بچوں کے دل میں مساجد کے لیے کتنی نفرت پیدا کر سکتا ہے، مساجد اللّٰہ کے گھر ہیں، بے شک مسجد کا احترام ضروری ہے؛ لیکن اگر بچے شور وغل کرتے ہیں تو انہیں محبت وشفقت سے بھی سمجھایا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد آتا ہے میں "مدرسہ فردوس العلوم" لعل گنج میں تھا، غالباً عصر بعد کا وقت تھا، کسی بڑے بچے نے کسے چھوٹے بچے پہ ہاتھ اٹھایا تو اس بچے نے صدر مدرس صاحب "مولانا داؤد صاحب قاسمی" سے شکایت کی، مولانا نے اس بڑے بچے کو بلایا اتفاق سے راقم بھی وہیں کھڑا تھا، مولانا نے اس بڑے بچے سے کہا کہ آپ کے مارنے پیٹنے سے بچے آپ کی عزت نہیں کریں گے؛ بلکہ آپ سے ڈریں گے؛ لہذا اس بات کا خیال رکھیں کہ پہلے آپ بچوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کریں، تبھی بچے آپ کی عزت کریں گے، اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے، کوشش کریں کہ بچوں کو محبت وشفقت کے ساتھ سمجھائیں ۔
 عصرِ حاضر کی صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ والدین بچوں کی آخرت سے زیادہ بچوں کی دنیا بنانے میں مصروف ہیں، والدین خود اپنی اولاد سے کہتے ہیں کہ؛ بیٹا / بیٹی! سو جائیں کل صبح اسکول جانا ہے، کیا کبھی آپ نے یہ سنا کہ والدین یہ کہتے ہوں کہ: بیٹا / بیٹی! سو جائیں صبح فجر کی نماز ادا کرنی ہے؟ تاخیر سے سوئیے گا تو نماز فوت ہو جائے گی، تمام والدین کا یہی حال ہے الا ماشاء اللّٰہ۔ آپ کے اس عمل سے بچے کیا سمجھیں گے؟ بچوں کے ذہن و دماغ میں یہ بات ثبت ہو جائے گی کہ نماز کی اہمیت نہیں ہے؛ حالاں کہ نماز فرض ہے اور فرض میں گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر آپ اپنے بچوں کو اللّٰہ و رسول کی تعلیمات سے دور رکھیں گے تو یاد رکھیں کہ یہ بچے روزِ محشر اللّٰہ سے آپ کی شکایت تو کریں گے ہی اور دنیا میں بھی آپ کے مطیع نہیں بنیں گے، جیسا کہ اکثر والدین کی شکایت رہتی ہے کہ ہمارے بچے ہم سے وفا نہیں کرتے ہیں، ہماری بات نہیں مانتے ہیں، یا ہمیں اہمیت نہیں دیتے ہیں، آخر وہ آپ کی بات کیوں کر مانیں گے؟ آخر وہ آپ سے وفا کیوں کر کریں گے؟ جب کہ آپ خود اپنے مالک حقیقی کے وفادار نہیں ہیں۔ والدین کو اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ والدین کو زندگی کے ہر پہلو میں مثبت رویہ اختیار کرنا چاہیے! تاکہ ہر طرح کے مشکل حالات میں مایوسی سے بچ سکیں؛ کیوں کہ یہ نہ صرف رب سے قربت کا ذریعہ ہے؛ بلکہ ذہانت، سوچ، اور اعمال کو مؤثر بناتا ہے، اور آپ کی اولاد بھی آپ سے یہی سیکھے گی اور زندگی خوشی کا گہوارہ بن جائے گی؛ کیوں‌کہ ہر والدین اپنی اولاد کو ہر حال میں خوش دیکھنا چاہتے ہیں، چاہے وہ دنیاوی خوشی ہو یا اخروی؛ اسی لیے والدین کو گھر میں دینی ماحول فراہم کرنا چاہیے اور اپنی اولاد کو کم از کم اتنی دینی تعلیم ضرور دلائیں کہ وہ حرام و حلال کی تمیز کر سکیں، اپنی نسل کو دین دار بنا سکیں، صحیح اور درست انداز میں قرآن پڑھ سکیں اور پڑھا سکیں، نکاح پڑھا سکیں اور آپ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے بھی اہل ہوسکیں۔ اگر اس طرح دینی تربیت کی جائے تو ان شاء اللّٰہ ہماری اولاد دین سے قریب تر ہوں گی، اس کے علاوہ بچوں کو علم و فن کی تعلیم دیں؛ تاکہ وہ سماجی مسائل کو سمجھیں اور ان کے حل کے لیے مؤثر طریقوں کو تلاش کریں، ان سب کے علاوہ زندگی میں صلہ رحمی سیکھنا بھی انتہائی ضروری ہے؛ کیوں کہ یہ وہ ہتھیار ہے جو ہمیں پل صراط پر گرنے سے بچا سکتا ہے؛ لیکن آج کل گھروں کا جو ماحول دیکھنے کو ملتا ہے وہ یوں ہوتا ہے کہ مائیں اپنے سسرالیوں کی برائی میں ہوتی ہیں اور غیبت و چغلی کو اپنا شیوہ بنا لیا جاتا ہے اور یہی آپ سے آپ کے معصوم نو نہالان سیکھتے ہیں اور اس معصومیت بھری عمر میں بھی افراد خاندان سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اور بھی کئی برائیاں ہیں جو تربیتِ اولاد میں بہت خلل پیدا کر رہی ہیں؛ لیکن معمول سے زیادہ طوالت ہونے کی وجہ سے راقم انہیں باتوں پر اکتفا کرتا ہے، امید ہے ان باتوں پر عمل کیا جائے گا، تو ان شاء اللّٰہ اولاد کی نیک دینی تربیت ہوگی۔


*--------------------------------------------*

ہفتہ, جون 29, 2024

میاسی اردو اکیڈمی کے سہ ماہی آن لائن اردو کورس

میاسی اردو اکیڈمی کے سہ ماہی آن لائن اردو کورس
کے پہلے بیچ کے کامیاب تکمیل پر جلسہ تقسیم اسناد کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 
چینئی(ساجدندوی) میاسی اردو اکیڈمی (مسلم ایجوکیشنل اسوسی ایشن آف سدرن انڈیا) کے زیر اہتمام سہ ماہی آن لائن اردو کورس کے پہلے بیچ کے کامیاب تکمیل پر جلسہ تقسیم اسناد کا انعقاد کیا گیا اور کورس کو مکمل کرنے والے تقریبا 40 سے زائد طلبا وطالبات کواسناد سے نوازا گیا ۔ پروگرام کا آغاز حضرت مولانا سکندر صاحب امام وخطیب مسجد نیوکالج، چنئی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر طیب خرادی ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو،نیوکالج نے انجام دی۔ میاسی اردو اکیڈمی کے کنوینر جناب محمد روح اللہ صاحب نے کلمات استقبالیہ پیش کیا جس میں انہوں نے میاسی اردو اکیڈمی کے اغراض ومقاصد کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ میاسی اردو اکیڈمی دراصل میاسی کی ایک ذیلی تنظیم ہے، جس کا مقصد اردو کو فروغ دینا اور گھر گھر اردو پہونچانا ہے۔ اس مقصد کے لیے میاسی اردو اکیڈمی مختلف میدانوں میں کام کررہی ہے، اسی سلسلہ کی ایک کڑی آن لائن کے ذریعہ اردو تعلیم کو عام کرنا اورجدید ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان لوگوں کو اردو پڑھانا اور سکھاناہے جو کسی وجہ سے اسکول وکالج میں اردو کی تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ جنوری 2024  میں پہلے بیچ کا آغاز کیا گیا تھا جس میں سو سے زائدطلباء وطالبات نے داخلہ لیا لیکن امتحان میں صرف 40 طلباء وطالبات نے شرکت کی اور ان کو اسناد سے نوازا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان شاء اللہ اگلے بیچ کا آغاز 10 جولائی2024 سے ہوجائے گا۔ لہذا محبان اردو زیادہ سے زیادہ اس بیچ میں شریک ہوکر اردو پڑھنا ،لکھنا اور بولنا سیکھیں۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ یہ کورس بالکل مفت ہے اور اس میں کسی بھی مذہب اور کسی بھی عمر کے مردو خواتین حصہ لے سکتے ہیں۔ میاسی کے اسسٹنٹ سکریٹری جناب منڈی اسلم صاحب نے کہا کہ روز اول سے میاسی اردو کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے ۔ اسی کوشش کے پیش نظر تقریبا 2015 میں میاسی نے شعبہ اردو نیوکالج میں بی اے اردو کی شروعات کی تھی۔ پورے صوبہ تمل ناڈو میں نیوکالج واحد ادارہ ہے جہاں بی اے اردو قائم ہے اور اس کورس سے اب تک سو سے زائد طلباء فارغ ہوکر مختلف میدانوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
 مہمان خصوصی اور مسلم ایجوکیشنل اسوسی ایشن آف سدن انڈیا(میاسی) کے سکریٹری جناب الیاس سیٹھ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ میاسی کا قیام 1902 میں ہوا او ر اپنے قیام اول سے ہی اس نے تعلیمی میدان میں نمایا کردار ادا کیا ہے۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد اردو ، عربی اور فارسی کو فروغ دینا ہے۔خصوصا مادری زبان اردو کے فروغ کے لیے میاسی اردو اکیڈمی کا قیام کیا گیا ۔ میاسی اردو اکیڈمی کے زیر نگرانی سہ ماہی آن لائن اردو تعلیم کا آغاز جنوری میںہوا تھا جس کے پہلے بیچ کی کامیابی پر آج یہ جلسہ تقسیم اسناد کا انعقاد کیا گیاہے۔انہوںنے مزید کہاکہ اردو سے شیریں کوئی زبان نہیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اردو میں جتنی مٹھاس ہے وہ مٹھاس آج تک میں نے کسی بھی مٹھائی میں محسوس نہیں کی۔ اس لیے آپ تمام لوگ اس کورس سے فائدہ اٹھا تے ہوئے اردو کو گھر گھر پہونچانے میں ہماری مدد کریں۔ نیوکالج کے پرنسپل ڈاکٹر اسرار شریف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو دنیا کی دس بڑی زبانوں میں سے ایک ہے، ہم سب کو یہ زبان سیکھنی چاہیے اور میاسی کے اس آن لائن کورس سے ہمیں بھرپور فائدہ اٹھا نا چاہیے۔ میاسی کےاسسٹنٹ سکریٹری جناب نظر محمد صاحب نے ہدیہ تشکر پیش کرتے ہوئے حصول اسناد کے لیے دور دراز سے آئے ہوئے طلبا وطالبات کا اور سامعین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اردو کی حفاظت ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے، اس زبان میں مذہب اسلام کے بہت سے ذخیرے موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھانے کے لیے اردو کا سیکھنا ضروری ہے۔ اس پروگرام میںشہر کے عمائدین، ادباء و شعراء، وائس پرنسپل ڈاکٹر شبیر و ڈاکٹر عبداللہ محبوب، میاسی کے اعزازی خازن ایس ایم سلیم ، اسسٹنٹ سکریٹری منیر الدین شیریف،نیوکالج کے سابق پرنسپل میجر زاہد حسین اور میاسی کے ایزیکٹیو ڈائریکٹر اشتیاق احمد کے علاوہ کالج کے اساتذہ اور طلباء نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ پروگرام کو کامیاب بنانے میں شعبہ اردوکے اساتذہ ڈاکٹر غیاث احمد، ڈاکٹر طیب خرادی، پروفیسر سید شبیر حسین، پروفیسر سید باقر عباس ، پروفیسر ساجد حسین اور طلباء نے بھرپور تعاون کیا ۔

منگل, جون 25, 2024

ماں کاوجودبڑی نعمت ہے

ماں کاوجودبڑی نعمت ہے
اردودنیانیوز۷۲ 
 یہ بات مجھے بہت کھلتی ہےکہ میری ماں اب بھی مجھے بچہ سمجھتی ہے۔بات بات پر روکنا ٹوکنا یہ عادت ان کی تاہنوز بنی ہوئی ہے ، یہ نہ کرو وہ کرو! ویسا نہ کہو ایسا کہو،یہ دیکھو وہ دیکھو! یہ سب کچھ گھر میں روزانہ چلتارہتا ہے۔ الحمدللہ اس وقت میرے کئی بچے ہیں باوجود اس کے میرے ساتھ بچوں جیسا سلوک کرتی ہے، مجھے یہ محسوس ہوتاہے کہ میری کوئی حیثیت  ہےاورنہ کوئی اہمیت ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے، میں نے دیکھا کہ ماں میرے کام میں نقصان پہونچارہی ہے،گھر پر تعمیری کام چل رہا تھا،شام اور کام کے اختتام کا وقت تھا ۔بالو سیمینٹ کے مسالے سے دیوار کی چنائی ہورہی تھی،ادھر میری ماں میرے رہائشی کمرے کے سامنےموجود ایک پرانے بل میں سیمینٹ کے مسالےکو ڈال کر اسے بند کررہی ہے۔مسالے کی یہ بربادی دیکھ کرمجھ سے رہا نہیں گیا اور یہ کہنے لگا کہ اس کی کیاضرورت ہے؟۔ ماں بول نہیں رہی ہےاورخاموشی سے اپنا کام کئے جارہی ہے۔جب میرا اصرار بڑھا تو انہوں نے جوابایہ کہا کہ یہ سوراخ پرانا معلوم ہوتا ہے، اس میں سانپ ہوسکتا ہے، اس لئے میں اسے بند کر رہی ہوں کہ میرے کسی بچہ کواس بل سے کوئی نقصان نہ پہونچ جائے۔
کچھ ہی دیر میں مغرب کی اذان ہوگئی، نماز مکمل ہوتے ہی ہم نے یہ آواز سنی،سانپ! سانپ! سانپ ،یہ میرا منجھلا بیٹا منت اللہ ہمایوں چلا رہا ہے۔ہم نےدیکھا توٹھیک اسی بل کے سیدھ کیچین کی دیوار پرایک کالا زہریلا گیہون سانپ لٹک رہا ہے، قبل اس کے کہ وہ سانپ کسی کو نقصان پہونچاتا وہ ماردیاجاتا ہے۔ہم سب نے اس پرخدا کا شکر ادا کیا کہ اللہ نےہمیں اس خبیث سانپ سے بچالیاہے، اور اپنی نادانی پربھی مجھے ندامت ہوئی کہ جوچیزاپنی سمجھ میں غیر ضروری نظر آئی وہ ماں کی نظر میں کتنی اہم اورضروری ہے۔بظاہر اس چیز میں اپنا مالی نقصان سمجھ میں آرہا ہے مگر اس سے ایک ماں اپنے بچے کی ہی حفاظت کرتی ہے۔
آج اس بات کا بھی استحضار نصیب ہوا کہ واقعی ماں کا وجودہمارے لئےبہت بڑی نعمت ہے۔ماں بوڑھی اور کمزور ہوگئی ہے مگر آج بھی اپنی ہمت وصلاحیت کے بقدر ہماری حفاظت کا سامان کررہی ہے۔غور کرنے پر ماں کی ہر ایک بات قیمتی نصیحت معلوم ہوئی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ماں کے سامنے اپنی حیثیت ایک بچہ کی سی ہے لہذا اس سے زیادہ اپنے کو منوانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، ایک انسان سے یہیں چوک ہوجاتی ہے جب وہ اپنے والدین کو بوڑھا کہ کر ان کی رائے کو ترک کردیتا ہے اور ان کے مشورہ کو اہمیت نہیں دیتا ہے۔پھرل۔وہ ٹھوکریں کھاتا ہے اور سخت نقصان اٹھاتا ہے۔اس بات کا بھی ہمیں احساس ہوا ہے۔
 ہر ایک ماں کی سچی تصویریہی ہے،ماں کی خدمت ایک انسان کوولایت کے مقام تک پہونچادیتی ہےاور مستجاب الدعوات بنادیتی ہے، حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے قصہ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔اللہ انہیں سلامت رکھے، آمین 

ہمایوں اقبال ندوی ارریہ 
۲۳/جون ۲۰۲۴ء

پیر, جون 24, 2024

اردو میں زندہ رہنے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے۔ اشرف فرید

اردو میں زندہ رہنے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے۔ اشرف فرید
جواں سال ادیب اور صحافی قمر اعظم صدیقی کی کتاب" غنچہ ادب" کے اجرا کی تقریب سے مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی ، پروفیسر توقیر عالم ، امتیاز احمد کریمی اور کئی دوسروں کا بھی خطاب
اردودنیانیوز۷۲ 
پٹنہ(ت ن س) جواں سال ادیب اور صحافی ، اردو ویب پورٹل" ایس آر میڈیا"کے بانی قمر اعظم صدیقی کے مضامین کے پہلے مجموعے "غنچہ ادب" کا اجرا  اتوار کو ویشالی کے بھیرو پور میں ایک  شاندار اور با وقار تقریب میں عمل میں آیا ۔ تقریب کی صدارت مشہور عالم دین اور صحافی مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے کی جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ اور اردو ایکشن کمیٹی بہار کےصدر جناب ایس ایم اشرف فرید نے شرکت کی ۔ اس موقع پر مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونی ورسیٹی کے سابق پرو وائس چانسلر پروفیسر توقیر عالم، بہار پبلک سروس کمیشن کے سابق چیئرمین امتیاز احمد کریمی ، اردو ایکشن کمیٹی کے نائب صدر ڈاکٹر ریحان غنی ،جنرل سکریٹری ڈاکٹر اشرف النبی قیصر ،سکریٹری ڈاکٹر انوار الہدی ، اردو یکشن کمیٹی کی مجلس عاملہ کے رکن انوارِ الحسن وسطوی اور شاہ فیض الرحمن ،اردو کونسل ہند کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں ، آلہ آباد یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر ظفر انصاری ظفر ، ڈاکٹر  امتیاز عالم اور نتیشور کالج ،مظفر پور کے صدر شعبہ اردو کامران غنی صبا مہمانان اعزازی کے طور پر موجود تھے۔پروگرام کی نظامت کا فریضہ جواں سال ادیب ڈاکٹر عارف حسن وسطوی نے انجام دیا ۔اس موقع پر اپنی صدارتی تقریر میں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے قمر اعظم صدیقی کو ان کی اس پہلی کتاب کی اشاعت کے لئے مبارک باد دی اور کہا کہ یہ اس نوجوان کا یہ نقطہ آعاز ہے ۔ اس کی کامیابی اس کے پھول بننے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کی کامیابی کی یہ دلیل ہے اس میں پٹنہ سے کافی تعداد میں دانشوران علم وادب شرکت کر رہے ہیں۔ انہوں نے  اہل قلم حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ایک موضوع پر لکھنے کا رواج تھا جو تقریبآ ختم ہو گیا ہے ۔اسے رواج دینے کی ضرورت ہے۔ کثیر موضوعاتی تصنیف کے بجائے یک موضوعاتی تصنیف کو آگے بڑھانا چاہئیے۔اس موقع پر کثیر الاشاعت اخبار قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ اور اردو ایکشن کمیٹی بہار کے صدر  جناب ایس ایم اشرف فرید نے مادری زبان کی اہمیت کا تفصیل سے ذکر کیا اور کہا کہ جو قومیں اپنی مادری زبان کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتی ہیں وہ ذہین بھی ہوتی ہیں اور ترقی بھی کرتی ہیں۔ اس کی مثال جاپان اور دوسرے ممالک ہیں۔انہوں نے کہا کہ اردو میں زندہ رہنے کی بھر پور صلاحیت موجود یے۔  اردو والوں کو احساس کمتری کے حصار سے باہر نکلنا چاہئیے ۔  اردو ژندہ زبان ہے جو پوری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔انہوں نے  اس دوران بچے اور بچیوں کی طرف سے اردو میں پیش کئے گئے پروگرام کی بھی تعریف کی ۔ مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونی ورسیٹی کے سابق پرو وائس چانسلر پروفیسر توقیر عالم نے بھیرو پور سے اپنے خاندانی لگاؤ کا ذکر کرتے کہا کہ انہیں اس سرزمین سے قلبی وابستگی ہے ۔ اس رشتے سے بھی وہ اس پروگرام میں شرکت کر رہے ہیں۔انہوں نے امید ظاہر کی قمر اعظم صدیقی کا غنچہ کھل کر پھول بنے گا اور اس کی خوشبو ویشالی کی سرحد سے باہر بھی محسوس کی جائے گی بہار پبلک سروس کمیشن کے سابق چیئرمین امتیاز احمد کریمی نے اس موقع پر کہا جب تک مذہب اسلام باقی ہے اردو زبان بھی باقی ہے۔ ہمارا پورا مذہبی سرمایہ اردو میں ہی ہے ۔امتیاز احمد کریمی نے اساتذہ سے گزارش کی کہ وہ اپنے پیشے سے انصاف کریں تاکہ آج کے بچے زندگی ہر شعبے میں کامیاب ہوں اور ڈاکٹر ،انجینئیر،افسر بننے کےساتھ ہی کل قمر اعظم صدیقی جیسے نوجوان بنیں۔انہوں نے تعلیم کو تحریک اور نصب العین بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔امتیاز احمد کریمی نے کہا ہمیں اپنی قوم کو صد فی صد تعلیم یافتہ بنانے کا عزم کرنا چاہئیے ۔  اس موقع سے تقریب میں  اردو ایکشن کمیٹی بہار کی مجلس عاملہ کے رکن انوار الحسن وسطوی ، ڈاکٹر اسلم جاوداں، ڈاکٹر ریحان غنی، ڈاکٹر اشرف النبی قیصر ،ڈاکٹر انوار الہدی ،ڈاکٹر ظفر انصاری ظفر، ڈاکٹر امتیاز عالم ، کامران غنی صبا، اکبر اعظم صدیقی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کتاب کی اشاعت کے لئے قمر اعظم صدیقی کو مبارک باد دی ۔اس موقع پر عارف حسن وسطوی اور مظہر وسطوی نے کتاب پر تبصرہ پیش کیا۔اور ڈآکٹر منصور خوشتر کی غیر موجودگی میں ان کے مقالے کو حافظ انتخاب نے پڑھ کر سنایا ۔
اس موقع پر تعلیم میں بہتر کارکردگی اور اردو سے دلچسپی  رکھنے کے لئے  اسکول کے کئی  بچے اور بچیوں کو ایس آر میڈیا کی طرف سے توصیفی سند ،  مومنٹو اور ایک سو روپیہ  نقد سے بھی نوازا گیا۔ تقریب میں اردو ایکشن کمیٹی کی مجلس عاملہ کے رکن شاہ فیض الرحمن ، عظیم الدین انصاری، ڈاکٹر کلیم اشرف،نسیم الدین صدیقی، انظار الحسن ، قمر عالم ندوی،صدر عالم ندوی، حافظ توقیر ، لطیف احمد خان،نفیس احمد خان، ڈاکٹر مفیض الرحمن ، علی الرحمٰن ، عبدالقادر ، رضوان الرحمٰن ، جنید احمد ،  محمد سبط عین ، شہنواز الرحمٰن ، عابد شوکت ، مبشر احمد ، فیضان عادل ، محمد عبداللہ ، اختر اعظم،اکبر اعظم،آصف جمیل ،فردوس مدنی،آغا عرفان، ندیم خان،محمد روشن سمیت حاجی پور اور قرب و جوار  و باشندگان بھیرو پور کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔

بدھ, جون 12, 2024

عید الاضحٰی کا پیغام

عید الاضحٰی کا پیغام 
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی 
استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول ،ویشالی بہار 
موبائل نمبر 7909098319 
Urduduniyanews72
عید الاضحٰی یا عید قرباں وہ ایام ہیں جن میں دنیا بھر کے مسلمان ماہ ذوالحجہ میں پورے جوش وخروش کے ساتھ مناتے ہیں، احکامات الہیٰ کی بنا پر اپنی جانب سے اللہ  کی راہ میں  قربانی کرکے بندگی کے تقاضے پوری کرتے ہیں ۔یہ وہ عمل ذبیحی ہے جس سے اللہ  تعالیٰ کاقرب حاصل کیا  جاتاہے ۔تخلیق ِانسانیت کے آغازہی  سے  قربانی کا جذبہ کار فرما ہے ۔ قرآن   مجید میں سیدنا ابو البشر حضرت آدم  علیہ السلام کے  دو بیٹوں کی قربانی  کا  واقعہ موجود ہے۔اور قربانی جد الانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم   کی عظیم ترین سنت ہے  ۔یہ عمل اللہ تعالیٰ  کواتنا پسند آیا  کہ اس   عمل کوقیامت تک کےلیے  مسلمانوں کے لیے  ضروری ولازمی قرار دیا گیا ۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے جلیل القدر پیغمبر گزرے ہیں ۔قرآن مجید میں صراحتاً سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اور ان کے واقعات کا تذکرہ موجود ہے ۔قرآن مجید کی ایک سورہ ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نام سے موسوم ہے ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسے ماحول میں اپنی آنکھیں کھولی جو شرک، بت پرستی اور خرافات میں غرق، اور جس گھر میں جنم لیا وہ بھی کفر و شرک، بت پرستی اور خرافات کا مسکن وملجا تھا ۔
لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے احساسات وجذبات میں رب العزت کی محبت پیوست تھی، وہ رب کی تلاش و جستجو میں کوشاں رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے ایک واقعہ کو قرآن مجید نے بڑے خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام چاند ستارے سورج میں رب کو تلاش کر رہے تھے، لیکن ان تمام چیزوں کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھا تو سمجھ گئے کہ رب کی ذات اقدس وہ ہے جو کبھی ڈوب نہیں سکتی، کوئی طاقت اسے عاجز نہیں کرسکتی، وہ رب تنہا، یکتا، اور طاقتور ہے ۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر جب بت پرستی کا باطل ہونا اور اللہ کی وحدانیت کا آشکار ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو دعوت اسلام دی، اس کے بعد عوام کے سامنے اس دعوت کو عام کیا اور پھر بادشاہ وقت نمرود سےمناظرہ کر کے اسے لاجواب کردیا ۔ اس کے باجود قوم قبولِ حق سے منحرف رہی حتیٰ کہ بادشاہ نے انہیں آگ میں جلانے کا حکم صادر کیا مگر اللہ نے آگ کو ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی کا سامان بنا دیا اور دشمن اپنے ناپاک اردادوں کے ساتھ ذلیل ورسوار ہوئے، اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کامیاب کیا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دل اللہ رب العزت کی محبت سے لبریز تھا، یقیناً اللہ رب العزت کی ذات بھی آپ سے بے پناہ محبت کرتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے کردار عمل کو اللہ رب العزت نے قرآن عظیم میں نقل کرکے انسانوں کے لئے ایک نمونہ بنا دیا، عید الاضحٰی رب العزت کی محبت و اطاعت کی ایک اہم تاریخ ہے ۔

عید الاضحٰی در اصل سنت ابراہیمی ہے، یہ ہمیں محبت، اخوت، بھائی چارگی، ایثار وقربانی، وجذبہء ایمانی کا درس دیتا ہے، اس کی تاریخ در اصل ایک عظیم تاریخ ہے، اور وہ یہ کہ ایک عظیم اور بوڑھا باپ حکم خداوندی پر اپنے پیارے، لاڈلے، چہیتے،جگر کا پارہ، ہر دل عزیز، فرزند کے حلق پر چھری چلا رہا ہے، قربانی اس قوت ایمانی کا نام ہے جس میں بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی اطاعت وبندگی کا اظہار اس طرح کرتا ہے کہ،، 
 اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۞
 میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
(سورہ انعام آیت 162) 
یقیناً ہماری عبادت وریاضت، ہماری بندگی، ہماری زندگی وموت، یہ سب محض آپ کی رضاو خوشنودی کے لئے ہے، ہم خالص آپ کے بندے ہیں، اور آپ کی ہی بندگی کرتے ہیں، ہمارا غم، ہماری خوشی، ہماری زندگی یہ سب محض آپ کی رضا کے لئے ہے، قربانی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہم خالص اللہ کے بندے بن کر رہیں، اور وقت پڑنے پر اپنی جان ومال کی قربانی پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی ہچکچاہٹ ہمیں محسوس نہ ہونے پائے ،یاد کریں اس وقت کو جبکہ ایک عظیم باپ نے اپنے عظیم بیٹے سے دریافت کی کہ  
يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِى الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰى‌ؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ‌ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ ۞
اے میرے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں ‘ اب تم سوچ کر بتائو تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس (بیٹے) نے کہا اے ابان جان ! آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ‘ آپ انشاء اللہ ! مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
(سورہ الصافات آیت 102)
  یقیناً رب العالمین تم سے تمہاری قربانی کا تقاضہ کر رہے ہیں ، تمہاری اس سلسلے میں کیا رائے ہے، باپ کے عظیم بیٹے نے بہترین جواب دیا کہ آپ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کریں، ان شاء اللہ آپ ہمیں صابر وشاکر میں پائیں گے، اس جواب نے پوری کائنات کو حیران و ششدر کرکے سکتے میں ڈال دیا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام ضعیفی میں تھے، اپنی اس اولاد سے بے پناہ محبت تھی، لیکن اس محبت کو اللہ کی اطاعت وبندگی پر ترجیح نہیں دی، 
سیدنا ابراہیم واسمٰعیل علیھما السلام نے اللہ کے اس حکم کے بعد فوراً اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا، کسی طرح کی تاویلات نہیں پیش کی کہ اللہ کا کوئی دوسرا منشا ہے، آپ کے اس کردار عمل نے پوری انسانیت کو شعور بندگی سکھایا، اور یہ درس دیا کہ جب حکم خداوندی آجائے تو پھر کیوں، کس لئے، کب، کس طرح، ان باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور عشق کا بھی یہی تقاضا ہے کہ حکم ملے سر تسلیم خم ہوجاؤ، مسلمان بھی اسی کا نام ہے کہ رب کائنات کے سامنے سر تسلیم خم ہوجانا،قربانی صرف جانور کی گردن پر چھری چلانے کا نام نہیں ہے، بلکہ قربانی کے ذریعہ انسان کے اندر زہدوتقوی اور خشئت الہی پیدا ہوتا ہے، کیوں کہ صرف جانور کے گردن پر چھری نہیں چلتی بلکہ قربانی میں اپنی انا، گھمنڈ، تکبر ،فخر، ریا کاری، سب کو قربان کرکے خالص اللہ کا بندہ بن کر زندگی گزارنے کا بندہ عزم کرتا ہے،سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کا یہ پورا واقعہ جو درحقیقت قربانی کے عمل کی بنیاد ہے روز اول سے امت کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ تمہارے دلوں میں یہ احساس یہ علم یہ معرفت اور یہ فکر پیدا ہوجائے کہ اللہ تعالی کا حکم ہر چیز پر مقدم ہے۔تمہاری تمام تر کامیابیوں کے راز اسی میں پنہاں ہیں کہ تم اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردو چاہے تمہاری عقل قبول کرے نہ کرے، تمہارے سماج کے خلاف معلوم ہو رہا ہو، تمہاری طبیعت اس کو پورا کرنے میں بوجھ محسوس کر رہی ہو۔
قربانی کا سارا فلسفہ یہی ہے اس لئے کہ قربانی کے معنی ہیں"اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے" لفظ" قربانی" قربان سے نکلا ہے اور لفظ "قربان" قرب سے بنا ہے یہ قربانی جہاں فی نفسہ ایک عظیم عبادت وبندگی اور شعاراسلام ہے وہیں یہ قربانی امت مسلمہ کو عظیم الشان سبق بھی دیتا ہے کہ یہ امت اپنے آپ کو کامل مسلمان بنائے سراسر اتباع اور اطاعت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرے اور زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی صحیح اور حقیقی روح "جذبہ اتباع" کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھ لے۔قربانی کی حقیقت اور اس کے پیچھے اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ دل میں جس چیز کی محبت اور طلب ہو وہی اللہ کی خاطر قربان کر دی جائے لیکن انسان تو صرف اپنی نفسانی خواہشات کی طلب اور اپنے خوابوں کی تکمیل میں دن رات کمربستہ رہتا ہے۔ وہ یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیا ہے، وہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ انسان سوچتا ہے تو محض یہ کہ وہ اپنے خواب کیسے پورے کرے، اپنی خواہشات کیسے حاصل کرے، مال و دولت کیسے کمائے، معاشرے میں مقام و مرتبہ کیسے بنائے۔ نہیں سوچتا تو بس یہ کہ اللہ کا قرب کیسے حاصل کیا جائے، گناہوں سے کیسے بچا جائے، اپنے نفس کی اصلاح کیسے کی جائے۔ وہ اپنی آرزوؤں کو پورا کرنے کے لیے ہر شے قربان کر دیتا ہے اگر قربانی نہیں دیتا تو محض اپنے نفس کی کیونکہ وہ اپنے نفس کی تسکین کی خاطر تو یہ سب کچھ کر رہا ہوتا ہے۔لیکن انسان تب تک خیر نہیں پا سکتا جب تک اپنے نفس کی قربانی نہیں دیتا، قربانی کا اصل تقاضا اور اس کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ جس چیز سے تمہیں سب سے زیادہ محبت وانسیت اور لگاؤ ہے تمہارے دل میں اس چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حوصلہ اور جذبہ ہمہ وقت رہے، کیوں کہ اس وقت تک بندے کی بندگی مقبول نہیں جب تک وہ اپنی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب اللہ اور اس کی نازل کردہ احکامات کو سمجھے، اور اس پر چلتا رہے، قربانی بھی اسی بندگی کی ایک کڑی ہے، عید قرباں جہاں ہمیں آداب بندگی، سلیقۂ بندگی سکھاتا ہے وہیں ہمیں ایک اہم پیغام یہ دیتا ہے کہ تمہاری زندگی، تمہارا سب کچھ در اصل یہ اللہ کا دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے، اور ان نعمتوں کا شکر یہ ہے کہ ان کے حقوق کی بھر پور ادائیگی ہونی چاہیے، جب اللہ کا حکم آجائے تو اس عمل کے ارتکاب میں کسی بھی طرح سے غور وفکر یا سستی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ فوری طور پر اسے کرہی دینا چاہیے ۔
اللہ ہم سب عید قرباں کے صحیح معانی ومفاہم سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...