Powered By Blogger

پیر, ستمبر 02, 2024

کرب واحساس کی شاعرہ "امریتا پریتم" ذوالفقار علی خان

کرب واحساس کی شاعرہ "امریتا پریتم" ذوالفقار علی خان 
Urduduniyanews72 
چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی میں امریتا پریتم کے 105 ویں سالگرہ پر تقریب کا انعقاد۔

ویشالی مورخہ 2/ستمبر ( پریس ریلیز) چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی میں ملک کی مشہور معروف قلمکار امریتا پریتم کے 105 ویں سالگرہ کے موقع پر سیمینار ومشاعرہ اور انیل کمار، استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول کی تصنیف " کاویا مرتی" (شعری مجموعہ) کا رسم اجرا چک غلام الدین ہائی کے سیمنار ہال میں عمل میں آیا ۔ تقریب کی صدارت امریندر کمار صدر مدرس چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض رتنیش کمار نے انجام دیا۔ پروگرام کی شروعات شمع روشن کرکے کیا گیا ۔ پھر محمد ضیاء العظیم، استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے پروگرام کا مکمل خاکہ پیش کیا ۔
محمد ضیاء العظیم نے امریتا پریتم کے حیات وخدمات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امرتا پریتم ایک ہندوستانی قلم کار تھیں جنہوں نے مختلف اصناف پر ہندی اور پنجابی میں لکھا۔ وہ پنجابی زبان کی پہلی ممتاز ناول نگار، مضمون نویس اور بیسویں صدی کی پنجابی زبان کی شاعرہ تھیں جنہیں پاک وہند سرحد کے دونوں جانب یکساں طور پسندیدگی سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ چھے دہائیوں سے زیادہ اپنے ادبی دور میں انہوں نے شاعری، افسانے، سوانح عمری، مضامین، پنجابی لوک گیتوں کے مجموعے اور ایک خود نوشت سمیت سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن کا ترجمہ متعدد علاقائی اور غیرملکی زبانوں میں کیا گیا۔
پھر انیل کمار کی تصنیف "کاویا مرتی" (شعری مجموعہ) پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس شعری مجموعے میں پیش کئے گئے اشعار کے ہر موضوع پر بات کرنا ممکن نہیں ہے خلاصہ کے طور پر دیکھا جائے تو انیل کمار نے اس شعری مجموعے میں عالمی سطح کے مسائل کے ہر پہلوؤں پر گفتگو کی ہے اور اپنے پیغامات ایک عام انسان تک پہنچانے کی بھر پور سعی کی ہے ۔ انہوں نے بڑی بےباکی اور جرات مندی اور مضبوطی کے ساتھ اپنی باتیں رکھی ہیں انہوں نے واضح انداز میں حق گوئی سے کام لیا ہے ۔
اس کے بعد مہمان خصوصی محترم سدھار پٹیل (ایم ایل اے ویشالی) ودیگر مہمانوں کے ہاتھوں کتاب کا رسم اجرا ہوا ، اور سیمینار ومشاعرہ عمل میں آیا ۔ اس موقع پر موجود مہمان خصوصی محترم سدھار پٹیل (ایم ایل اے) ویشالی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب دو بنیاد پر ہے، پہلا امریتا پریتم کی یوم ولادت اور دوسرا انیل کمار کی کتاب "کاویا مرتی" کی رسم اجرا، امریتا پریتم کی تخلیقات میں کرب ہے، احساس کی شدت ہے، انہوں نے زندگی میں جو کچھ محسوس کیا اسے اپنی تحریر میں اتارا ہے ۔ نیز میں محترم انیل کمار کو ان کے اس عظیم کارنامے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔
روپیش کمار نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریتا پریتم ہمارے درمیان اگرچہ نہیں ہیں، لیکن ان کی تحریر اور ان کا فن ہمارے ہمیشہ انہیں زندہ وجاوید رکھے گا،ساتھ ساتھ انیل کمار کی تخلیق "کاویا مرتی" نئی نسل کو ایک مثبت پیغام کی طرف گامزن کرے گا، ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ستروہن رام استاذ چک غلام الدین نے بھی بہت عمدگی کے ساتھ اپنے تاثرات کا اظہار کیا ۔ذوالفقارعلی خان استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریتا پریتم کے 105 ویں سالگرہ کے موقع پر سیمینار ومشاعرہ کی اس تقریب کا انعقاد اس بات کی علامت ہے کہ ابھی ادب زندہ ہے، قارئین ادب زندہ ہیں، امریتا پریتم کرب واحساس کی شاعرہ ہیں، ان کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے، ان کی شخصیت کئ پہلوؤں پر ممتاز ہے، ان کی زندگی اور ان کی تحریر کا اگر ہم بغور مطالعہ کریں گے تو ہم بخوبی اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ زندگی میں سب کچھ حاصل ہو جائے ضروری نہیں ہے ۔ امریتا پریتم کو سب کچھ ملا، شہرت، دولت، عزت، لیکن انہوں نے جو چاہا وہ نہ مل سکا ۔ آخر میں صدر محترم کی اجازت سے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا ۔

جمعرات, اگست 22, 2024

تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ

راقم الحروف ✍️ 
اردودنیانیوز۷۲ 
(مولانا) فیاض احمد راہی سوناپور سکٹی 
خادم التدریس ، 
دارالعـــــــــلوم صــــدیق نـــگر ڈینــــــگا چــــوک میناپـــلاســی ارریہ بہـــــار 
____________________________________________

تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ کے زیراہتمام آج بتاریخ 22 اگست 2024 بروز جمعرات بوقت 7 بجے صبح سرزمین ہروا گاؤں میں ایک اور مکتب شروع کیا گیا جس کی نگرانی حضرت قاری معصوم صاحب رحیمی فرمائیں گے یہ قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا ہے اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ وپلاسی کی سرپرستی حاصل رہیگی جس سے قوم کے نونہالان کے اندر علمی بیداری آئیگی مزید علاقے سے برائی کا خاتمہ ہوگا آئے دن ہمارے سماج میں برائیاں رو نما ہوتی ہے اسکی خاص وجہ علم سے دوری کا سبب ہے جس سے نپٹنے کیلئے ہمیں علم سے لو لگانا ہوگا تبھی ممکن ہوگا اپنے سماج کو سنوارنے اور اچھے مستقبل کیلئے ایک مکمل لائحہ عمل تیار کرکے سماج کے ہر عام و خاص کے اندر علمی شغف پیدا کرنا ضروری ہے جو آج اس کام کو تنظیم تحفظ شریعت جوکی ہاٹ ارریہ بخوبی انجام دینے کیلئے میدان میں اتر چکی ہے ، 
تنظیم کی اغراض ومقاصد بھی یہی ہے کہ قوم وملت کے اندر بہتر سے بہتر ماحول پیدا ہو اور سماج کا ہر بچہ درستگئ زندگی کیلئے عملی جامہ پہن کر علم کی روشنی سے مکمل فیضیاب ہو جو آج بہت ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ترین کام ہے جہاں بھی دیکھیں آج علم کی ضرورت درپیش ہے جس کے اندر تھوڑی بہت علم ہے وہ شخص اپنے سماج میں ایک مقام پر فائز ہے اور جس کے اندر علم نہیں ہے وہ  خود اپنے قوم میں معیار پانے سے کوسوں دور ہے وجہ صرف یہ ہے کہ علم سے نا آشنائی ہے جس کی شدت کو محسوس کرکے تمام اراکین تحفظ شریعت نے فیصلہ کیاکہ ہر گاؤں اور ہر محلے کو مکاتب سے جوڑا جائے جس میں مولانا عارف صاحب قاسمی مہتمم وبانی مدرسہ دعوت القران فیٹکی چوک اور مولانا عبداللہ سالم قمر قاسمی چترویدی صاحب ، مولانا عبدالسلام عادل ندوی صاحب ، مولانا مفتی نعمان اختر صاحب نعمانی ، مولانا عبدالوارث صاحب مظاہری ، مولانا عبدالحق عظیمی صاحب ، مفتی اطہر صاحب قاسمی ، مولانا فیاض احمد راہی صاحب ، قاری منظور عالم صاحب نعمانی ، قاری امتیاز احمد صاحب ، جناب عبدالقدوس راہی صاحب مولانا لعل محمد صاحب مظاہری 
مولانا محمد الیاس صاحب مولانا عبدالرحمن صاحب قاسمی وغیرہم کی قومی وملی فلاحی و سماجی سوچ کا ثمرہ ہے جو آج یہ بہترین پہل کو سماج کیلئے ایک آئینہ بنانے کیلئے کمر بستہ ہوئے الحمدللہ پوری ٹیم قوت و توانائی کے ساتھ عملی جامہ پہنانے کیلئے ہر گاؤں محلے کو مکاتب سے جوڑنے کیلئے اپنی کوششیں شروع کردیں ہیں ،
اپیل آپ حضرات سے گزارش ہے کہ تنظیم تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ وپلاسی ارریہ بہار  تعاون ضرور کریں 
اللہ سے دعاء کریں اللہ رب العزت اس کار خیر کو ہم سب کیلئے مزید تمام امت مسلمہ کیلئے نجات کاذریعہ بنائے آمین یارب العالمین 
           نیک خواہشــــــات 
اراکین تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ بہار 9686759181

منگل, اگست 20, 2024

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام 
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی، استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول ،ویشالی بہار ۔
موبائل نمبر: 7909098319 
Urduduniyanews72
اسلام ایک پر امن مذہب، اور دین فطرت ہے۔ جس نے قدم قدم قدم پر انسانوں کی راہنمائی کے ساتھ ساتھ راہ حق کی طرف گامزن رہنے کی ہدایت تلقین کی ہے ، زندگی کے ہر پہلوؤں کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔مقصد زندگی وبندگی کو کھول کھول کر واضح کر دیا ہے ۔ زندگی کے کے کسی بھی پہلوؤں پر جب ہم غور وفکر کرتے ہیں تو ہمیں کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی تہذیب وثقافت نے ہمیں بے یار ومددگار چھوڑا، اور مایوس کیا ہے ، مہد سے لے کر لحد تک انسانی راہنمائی کی ہے، امن و سلامتی کےاور صلح و آشتی کا سرچشمہ ہے۔ خواہ خلوت ہو، جلوت ہو، محفل وتنہائی، عبادات ومعاملات، بیع وشرا، کسی بھی پہلو کو اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ اسلامی تعلیمات مل جائیں گے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے قبل سینکڑوں خرابیاں اور بے شمار برائیاں سماج میں رائج تھیں۔
اس روئے زمین پر انسانی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسی علیہ السلام تک انبیاء کرام کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، آخر میں صدرکے طور پر سیدناےحضرت محمد ﷺ کو بحیثیت آخری نبی بنا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا ،آپ کی ذات مقدس وہ کامل ترین ہستی ہے جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا بھر پور سامان رکھتی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیےبہترین اور کامل نمونہ ہے۔آپ کو اللہ رب العزت نے سراپا رحمت وبرکت اور ہدایت بنا کر اس دنیا میں انسانوں کی فلاح وکامیابی کے لئے بھیجا، آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ انسانوں کے لئے ایسا پیغام ہے جو انسانوں کو مکمل کامیابی کی ضمانت بخشتا ہے ۔آپ نے زبانی اور عملی مشق کے ساتھ زندگی گزار کر دکھا دیا کہ ہم زندگی کس طرح گزاریں، کون سی زندگی رب چاہی زندگی ہے، زندگی کے کسی گوشے اور پہلو اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ آپ علیہ السلام نے ہماری رہنمائی کی ہے، خواہ عبادات ہو کہ معاملات ہو، سماجی ومعاشرتی، اقتصادی، اخلاقی،پہلو ہو، سفر ہو کہ حضر ہو، تنہائی ہو کہ محفل ہو، خلوت ہو کہ جلوت ہو، رات ہو کہ دن ہو، صبح ہو کہ شام ہو۔
اور رسول ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل دنیا کی حالت ِ زار ناقابل بیان ہے۔تاریخ اس دور کو دور جاہلیت کہتی ہے ، کیوں کہ وہ معرفت الہی اور ہدایت سے بہت دور گمراہی وضلالت میں گھرے تھے ۔ عرب کی حالت ایام جاہلیت کا بیان مولانا الطاف حسین کے الفاظ میں کچھ یوں ہے :۔

عَرَب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اِک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا، نہ کشور کشا تھا

تمدّن کا اُس پر پڑا تھا نہ سایا
ترّقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا

نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کِھل جائیں دل کے سراسر

نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی

زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ، بادِ صر صر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغیلاں

نہ کھتّوں میں غلّہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی

نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبعِ بشر تھی
خدا کی زمیں بن جُتی سر بسر تھی

پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا

کہیں آگ پُجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سُو بسُو جا بجا تھا

کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی

وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیّت نے تھا جس کو تاکا
کہ اس گھر سے اُبلے گا چشمہ ہدیٰ کا

وہ تیرتھ تھا اِک بُت پرستوں کا گویا
جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا

قبیلے قبیلے کا بُت اِک جدا تھا
کسی کا ہُبَل تھا، کسی کا صفا تھا
یہ عزّا پہ، وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اِک خدا تھا

نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اِک لُوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے

نہ ٹلتے تھے ہر گز جو اڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صد ہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے

بلند ایک ہوتا تھا گر واں شرارا
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا

وہ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی
صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی
قبیلوں کی کر دی تھی جس نے صفائی
تھی اک آگ ہر سُو عرب میں لگائی

نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ

کہیں تھا مویشی چَرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
ہونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں

جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھے شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر

وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی

جوا انکی دن رات کی دل لگی تھی
شراب انکی گھٹی میں گویا پڑی تھی
تعیّش تھا، غفلت تھی، دیوانگی تھی
غرَض ہر طرح ان کی حالت بُری تھی

بہت اس طرح ان کو گزری تھیں صدیاں
کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھیں بدیاں

 توحید کی جگہ شرک، خیر کی جگہ شر، امن کی جگہ جنگ، اور عدل وانصاف کی جگہ ظلم وزیادتی نے لے لی تھی۔ معاشرے میں کون سی ایسی خرابیاں نہ تھیں جو ان میں نہ ہوں ۔ جن عورتوں کو اسلام نے عزت واحترام بخشتے ہوئے ان کے اعزاز میں مکمل سورہ،، سورہ نساء،، نازل فرمائی ان کی کوئی اہمیت نہ تھی، ان کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا،ذلت و رسوائی کا سبب مانا جاتا ، اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی جنگ وجدال شروع ہوتے تو وہ سالہا سال چلتے رہتے ۔شراب نوشی، قمار بازی، اور اصنام پرستی ان کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا تھا۔ایک رب کو چھوڑ کر سینکڑوں بتوں کی پرستش کرتے تھے، انسانیت سسک سسک کر ، بلک بلک کر، اور چیخ چیخ کر دم توڑ رہی تھی، انہیں ایک مسیحا کا انتظار تھا، جو ان کی دکھتی رگوں پر دست شفا رکھ کر راحت و آرام کا سامان بن سکے، جو ان کے غموں کو اپنے اندر سمیٹ کر ان کے لئے خوشی وشادمانی کا پیغام سناسکے، انہیں ان جاہلانہ رسومات و بدعات ، خود ساختہ مذہبی خرافات ، سماجی ومعاشرتی تنزلی اور گراوٹ ، فتنہ و فساد، تخریب کاری، سے آزادی دلا کر راہ راست پر لاسکے، ظلم وبربریت کی گھٹا ٹوپ اندھیر میں ہدایت کی شمع جلائے ، اللہ کی رحمت انعام واکرام،عذاب وعتاب سے آشنا کرا سکے ، چنانچہ اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور ایسا سورج طلوع ہوا جس کی روشنی سے ہر سو اجالا ہو گیا۔جس کی آمد نے سارے جہاں میں حق کا پیغام سنایا،جس کا وجود سراپا سارے جہاں کے لئے رحمت ہے، جس کی آمد کی خبر سابقہ انبیاء کرام نے دی، 
جس کی آمد سراپا عشق ومحبت اور پیار پر منحصر ہے، جس کا کام عشق ،جس کا پیغام عشق، جس نے صرف درس عشق دیا، عشق بھی وہ عشق جسے ہم عشق حقیقی کہتے ہیں،جو عشق سارے جہاں میں کامیاب وکامران بنائے، کیوں عشق یہ انسانی فطرت اور تقاضے ہیں،انسان کے رگ وریشے میں قدرت نے اسے رکھا ہے ۔یہ فطری تقاضے کبھی انسانوں کو کامیاب وکامران بنا دیتی ہے اور کبھی ذلت ورسوائ کا سبب بنتی ہے ۔ایک انسان کے لئے اشد ضروری ہے کہ وہ مالک حقیقی سے عشق کرے اور عشق کے جو تقاضے ہیں ان تقاضوں کو عملی جامہ پہنائے ۔اس کے مطابق اس کے ہر اشارہ پر عمل کے لیے آمادہ رہے، کیوں کہ عشق کا تعلق قلب سے ہوتا ہے اور یہ قلبی محبت اگر عروج پر پہنچ جائے تو بسا اوقات جان بھی قربان کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے بندہ مومن سے اسلام کا مطالبہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف عمومی محبت نہ کرے بلکہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھے تاکہ احکامات خداوندی اور اتباع رسولؐ کا حق کلی طور پر ادا ہو سکے ۔
کیوں کہ کسی چیز کو ہم اس وقت تسلیم کرتے ہیں جب کلی طور پر اس کی حقیقت وافادیت سے واقف ہوتے ہیں، اس کے نتائج کا علم ہوتا ہے ، اور جب ہم کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں تو پہلی شرط یہ ہے کہ اس تسلیم شدہ چیز کے تقاضے کو پوری کریں ۔ اسی طرح ایک مسلمان اللہ کی وحدانیت اور رسول ؐ کی رسالت کو پوری عقیدت و محبت کے ساتھ تسلیم کر لیتا ہے تو بحیثیت محب اس کے اوپر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن کی ادائیگی اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ جو پیغامات لے کر آئے ہیں ان پیغامات کو تسلیم کرکے ان پر عمل پیرا ہوں۔چونکہ اسلام نام ہی ہے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کردینے کا اور یہ تقاضا تب ہی پورا ہو سکتا ہے جبکہ ہم سیرت کے پیغامات کو اپنائیں، 
اور عشق کے تقاضے یہ ہیں کہ ہم سیرتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اہمیت وافادیت سمجھیں، اور یہ ہر مسلمان پر روز روشن کی طرح واضح ہے۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وپیغامات پر ہی عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت کی کامیابی اور سرخروئی کی ضمانت ہے ۔قرآنِ کریم کی پوری عبارت اور مفہوم در اصل سیرت کا ہی پیغام ہے ۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ تمام انسانوں کے لئے عملی نمونہ ہے جسے قرآن ”اسوۂ حسنہ“ سے تعبیر کرتا ہے۔ قرآن مجید مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کے احکامات کا مجموعہ ہے اور سیرتِ نبوی اس مجموعہ کی عملی تعبیر، تصویر، تحریر، اور تقریر ہے۔اسلامی عقائد، اعمال، اخلاق وکردار ، سماجی ومعاشرتی مسائل، انفرادی و اجتماعی مسائل،قومی وبین الاقوامی تعلقات، روابطِ عامہ، امن کے تقاضے، جنگی اصول وقوانین وغیرہ وغیرہ یہ سب سیرتِ طیّبہ کے موضوعات ہیں اور سیرتِ طیبہ میں ان تمام موضوعات کا حل موجود ہے۔ اسی وسعت اور ہمہ جہت پہلوؤں کی وجہ سے سیرت کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان اپنے سامنے انسانیتِ کاملہ کی ایسی اعلیٰ مثال دیکھتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں کامل و مکمل نظرآتی ہے، زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ سامنے آتا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مقدس حیات کا اعجاز ہے کہ انسانی زندگی کے جس بھی پہلو کو سامنے رکھ کر سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک زندگی میں نظر آتا ہے۔
رسول اللہ کی زندگی کو نمونہ بنا کر اس کی روشنی میں زندگی گزارنے کی کوشش وہی شخص کرے گا جس کو بعث بعدالموت کا یقین کے ساتھ ساتھ احساس بھی اور اعمال کے واجبی نتائج کا یقین کامل ہو۔ رہا وہ فرد جسے یا توآخرت کی امید ہی نہ ہو یا اگر ہو تو کبھی کبھار ہی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والا ہو اور زندگی کی ہماہمی و مصروفیات نے اسے موت کے بعد پیش آنے والے نتائج سے غافل کر رکھا ہو تو ایسا شخص بجائے اللہ کے رسول ؐ کو رہنما بنانے کے، اپنی مطلوب من پسند شخصیت کو رہنما بنائے گا تاکہ اس کے لیے دنیاوی ترقی ممکن ہو سکے۔اور یہ ہم اس دور میں میں بدرجہ اولی دیکھ رہے ہیں، ہم اور ہمارا معاشرہ ہر جہت سے اللہ کی ناراضگی اور رسول اللہ صلعم کی تعلیمات کا جنازہ نکال رہا ہے، ہم زندگی کے ہر شعبے میں اپنے سر صرف اللہ کی لعنت مول لے رہے ہیں، ہماری عبادات کا تو اللہ ہی محافظ ہے، معاملات بہت بگڑ چکے ہیں، دکاندار تجارت میں جھوٹ بول کر چیزیں فروخت کر رہے ہیں، وعدہ خلافی کر رہے ہیں، لیا ہوا قرض لی ہوئی وامانت لوٹانے کا نام نہیں لے رہے ہیں، بیٹیوں اور پھوپھیوں کے حقوق تلف کر رہے ہیں، نکاح وشادیات جو کہ محض ایک عبادت وبندگی کا نام ہے اس موقع پر ہم چار قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں، ناچ گانا، آتش بازیاں، مرد وعورت کے اختلاط، جانوروں کی طرح گھوم گھوم کر کھانے لینا پھر اسے کھڑے ہوکر کھانا، اس دوران اگر کھانا اٹک گیا تو دوڑ کر پانی تلاش کرنا ان تہذیب وثقافت میں خود کو رنگ لیا ہے۔
مسلمانوں کے اکثریت علاقے میں کسی بھی گھر کی بنیاد بغیر جھگڑے کے نہیں پڑتی ہے، جان بوجھ کر دوسرے کی زمین کے حد میں پیلر ڈالنا، ناحق قبضہ جما لینا، اگر کسی سے کوئی رنجش یا اختلاف ہو جائے تو اس کے راز فاش کردینا،کسی کمزور پر ظلم کرنا، کسی کو ناحق ستانا، کسی کی کامیابی پر جلنا، پڑوسیوں کو تکلیف دینا، فقراء ومساکین، یتیموں اور نوکروں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرنا، اللہ رب العزت نے سورہ ماعون میں کفار ومنافقین کے چند علامات کا تذکرہ کیا ہے اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اس سورہ کے پس منظر میں خود کے کردار عمل کو دیکھ سکتے ہیں،انہیں وجوہات کی بنا پر اللہ کا عذاب وعتاب نازل ہورہا ہے چونکہ اللہ رب العزت نے واضح فرما دیا

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰى‏ ۞

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جس نے میرے ذکر سے اعراض کیا تو یقیناً اس کی زندگی بہت تنگی میں گزرے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے وہ کہے گا اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟ حالانکہ میں (تو دنیا میں دیکھنے والا تھا اللہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس دنیا میں میری نشانیاں آئیں تھیں تو تو نے ان کو فراموش کردیا تھا اور اسی طرح آج تجھے بھی فراموش کردیا جائے گا اور جو شخص اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اور حد سے تجاوز کرے ہم اسی طرح اس کو سزا دیتے ہیں اور بیشک آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور بہت باقی رہنے والا ہے (طہ :124-127)

ہم اس آیت کریمہ پر غور وفکر کریں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یقیناً ہم اللہ کے احکامات کو پامال کر رہے ہیں جس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے، اللہ کے احکامات کو توڑنا یہ دنیا و آخرت میں خسارہ ہی خسارہ ہے،حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اللہ کی رسی مضبوطی سے تھام کر اپنے اندر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام پہلوؤں کو بسا کر اس پر عمل پیرا ہو جائیں، یہی تقاضا رب اپنے بندے سے کرتے ہیں، اسی سے زندگی کامیاب ہو سکتی ہے چونکہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے ولَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۳۹)
ترجمہ
مت گھبراؤ غمزدہ نہ ہو تم ہی سربلند رہوگےاگرتم مومن ہو،

اور اللہ کا وعدہ برحق ہے، سچا ہے،
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے زندگی میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنائیں تاکہ ہماری زندگی مکمل کامیاب ہو سکے۔
اللہ ہم سب ایمان و یقین کے ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین،

وقف ایکٹ کو کمزور بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے

وقف ایکٹ کو کمزور بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے
Urduduniyanews72
  مولانا عطاء الرحمن قاسمی  
۷اگست میرٹھ، وقف ایکٹ۹۵ ۱۹اور وقف ترمیمی ایکٹ۳ ۱ ۰ ۲کو نام نہاد اصلاحات کے نام پر کمزور اور غیر موثر بنانا،اوقاف کے قطعی مفاد میں نہیں ہے،بلکہ وقف کی روح کے سراسر منافی ہے، موجودہ وقف بل۶ ۲۰۲ کے مسودہ میں شعوری یا بے شعوری طور پر وقف ترمیمی ایکٹ ۳ ۱ ۰ ۲میں سے کچھ ایسی دفعات کی شقیں حذف کردی گئی ہیں اور کچھ ایسی دفعات کی شقیں شامل کر لی گئی ہیں جو وقف بو رڈوں اور اسلامی اوقاف کے مفادات کے صراحتا خلاف ہیں۔
ان خیالات کا اظہار، اوقاف و آثار پر گہری نظر رکھنے والے مشہور عالم دین مولانا مفتی عطاء۱لرحمن قاسمی چیئرمین شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی و نائب صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے میرٹھ کے معروف ادارہ مدرسہ امداد الاسلام کی مسجد میں مولانا مشہود الرحمن شاہین جمالی کی تحریک و دعوت پر علماء و سامعین سے جمعہ کی نماز سے قبل کیا۔
مولانا عطا ء الرحمن قاسمی نے مزیدکہاکہ مسودہ بل میں ایک طرف وقف علی ا لاولاد اور وقف بائی یوزر  (Waqf By User)کو ختم کرنے کی تجویزہے، جس سے ہزاروں سال پرانے اوقاف، قدیم قبرستان، مقابر، تکیے، درگاہیں، خانقاہیں، قدیم مساجد اور مدارس ہمارے ہاتھوں سے یک لخت نکل جائیں گے اور وقف علی الاولاد کی جائیدادوں میں وراثت جاری ہو جائے گی جو وقف کے اسلامی حکم کے سراسر خلاف ہے، وہاں دوسری طرف وقف لمیٹشین ایکٹ(Limitation Act) کو شامل کرنے کی تجویز  ہے، جس کینتیجہ میں نا جائز قا بضین کے۰ ۲ سالہ قبضہ غا صبانہ کوچیلنج نہیں کیا جا سکتاہے۔
جو پہلے وقف ترمیمی ایکٹ۳ ۱ ۰ ۲ میں شامل نہیں تھا اوراس سے مثتنی کیا گیا تھا اوراسی طرح قابضین کی سزائے مشقت اور جرمانے کو کم تر اور ہلکا کرنے کی تجویزہے اور غیر ضمانتی وارنٹ کو سرے سے خارج کر دیا گیا ہے، جس سے قابضین وغاصبین کے حو صلے بلند ہو نگے۔
مولانا قاسمی نے کہا کہ اوقاف کے مسائل کو وقف کمشنر کے بجائے کلی طور پر ڈی ایم کے سپرد کرنے کی تجویز بہت ہی تشویشناک ہے، جس سے وقف جائیدادوں پر سر کاری قبضوں کو چیلنج کرنے میں بڑی دشواری پیش آسکتی ہے اور اسی طرح وقف ٹریبونل کے فیصلوں کوکلعدم کرنا اور جبکہ دوسرے ٹریبنلوں کے فیصلوں کو نافذ العمل تسلیم کرنا، تعجب خیز معاملہ ہے۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے نائب صدر مولانا عطاء الرحمن قاسمی نے مزید کہا کہ مسودہ میں خواتین کی شمولیت کی تجویز مضحکہ خیز ہے اور سراسر ناواقفیت وعدم مطالعے پر مبنی ہے، پچھلے وقف ایکٹ میں پہلے سے عورتیں شامل رہی ہیں، یہ کوئی اچھوتا معاملہ نہیں ہے، مگر اسی کو اچھالنا ایک سیاسی حربہ اور خوشنما و پر فریب نعرہ اور پرو پگنڈ ے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور وقف بورڈوں کے لیے غیر مسلم ممبران کی شمولیت ۱ میں سے۷ غیر مسلم جن میں سے دوممبران غیر مسلم پر اصرار اور دوسرے مذہبی اداروں، گرو دوارہ بندہک کمیٹی اور ہند و منومنٹ ایکٹ(Hindu Monument Act) وغیرہ کے لیے صرف سکھوں اور آخر الذ کر کے لیے صر ف ہندوں کا انتخاب کو لازمی قرار دینا، تضاد عمل ہے اور دہرے معیار دستور و عمل کا انوکھا سچ ہے۔
خوش آئند بات ہے کہ یہ مسودہ بل جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی میں چلا گیاہے، جس میں اصلاحات کے امکا نات بڑھ گیے ہیں،اب ملت کے باشعور لوگوں کے امتحان و آزمائش کا نازک وقت ہے۔

 مولانا عطاء الرحمن قاسمی
  چیئرمین شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ دہلی و نائب صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت

جمعہ, اگست 16, 2024

ہندونیپال کے سرحد پر رشد وھدایت کامرکز

15 اگست کا پروگرام  
Urduduniyanews72                                       ہندونیپال کے سرحد پر رشد وھدایت کامرکز  جامعۃ الفلاح دارالعلوم الاسلامیہ ومعہد عائشۃ للبنات فاربس گنج ارریابہار میں جشن یوم آزادی کے موقع پرمدرسہ مظاہر علوم قدیم سہارنپور کےمحدث حضرت مولانا مفتی محمد کوثر علی سبحانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ  کی سربراہی میں علماء کرام وائمہ عظام کی ایک فکری وتحریکی  مجلس کا انعقاد ہوا اس میں تین موضوع پر حضرات علماء کرام  نے غور فکر اور مختصر بیان  فرمایا(1) شیمانچل کے علاقے میں غربت وجہالت کی وجہ سے آپسی اختلاف لڑائی جھگڑے میں مبتلا ہو کر لوگ کیس ٬ مقدمات میں لاکھوں روپئے برباد کر رہے ہیں اس کو روکنے کے لئے دار الصلح کے ذریعہ شرعی اور سماجی طور سے معاملات کوحل کیا جائےاورباہمی منافرت کو ختم کر کے لوگوں میں آپسی تعلقات  ٬ اخوت وہمدردی پیدا کرنے کی مستحکم کوشش کی جائے(۲) اصلاح معاشرہ کے لئے علاقے کو مختلف حصوں اور زون میں تقسیم کرکے ہر حصہ میں گاہے بگاہے کم سے کم مہنہ میں ایک بار  اکابر علماء محدثین ومفسرین مفکرین اور بزرگان دین کے اصلاحی اور روحانی بیانات کرائےجائیں حتی المقدور کوشش ہو کہ جلسہ جلوس کی شکل نہ ہو بلکہ علاقے کی ہر بڑی مسجد وں میں جوڑ کی شکل میں پروگرام ہو(۴) خود کفیل مکاتب قرآنیہ کا قیام ہرہر گاوں ومحلہ میں ہو صحت اور تجوید کے ساتھ نورانی قاعدہ ٬ حفظ وناظرۂ قرآن وغیرہ کے علاوہ عصری( اسکولی) تعلیم وتعلم کا مستحکم انتظام ہو الحمدللہ حضرات علماء کرام وائمہ عظام اور سر بران قوم وملت نے اس عزم مصمم کے ساتھ اپنے اپنے پیغام  پیش کئے کہ ہم انشاءاللہ تا زہ دم ہو کر  کام کریں گے جذبات سرد نہیں ہو نے دیں گے اور   فخر بہا ر  قائدسیمانچل حضرت مفتی صاحب سبحانی دام فیوضکم کی سربراہی میں بار بار ایسی فکری وتحریکی مجلسیں آور پروگرام منعقد کرکے اس تحریک کو آگئے بڑھا تے رہیں گے۔  _  زندگی موت سے ٹکرا کے نکھر جاتی ہے ÷ عزم محکم ہو تو تقدیر بدل جاتی ہے۔                       ا                     
   اخیر میں حضرت مفتی صاحب کی دعاء پر پروگرام اختتام پذیر ہوا  جامعۃ الفلاح دارالعلوم الاسلامیہ  فاربس گنج کی ضیافت کے بعد  حضرت مولانا مفتی محمد کوثر علی سبحانی صاحب نے اپنے دست مبارک سےتشریف لائے ہوئے تمام علماء کرام وائمہ عظام کی خدمت میں ایک ایک  جوڑی کپڑے اور کچھ رقموں پر مشتمل لفافے ھدیۃ پیش فرما یا جزاکم اللہ خیرا               فقط والسلام                                     رقمہ  (مفتی) محمد عسی قاسمی۔        صدرالمدرسین جامعۃ الفلاح دارالعلوم الاسلامیہ ومعہد عائشۃ للبنات فاربس نزد ریفرل ھسپتال فاربس گنج ارریابہار انڈیا

स्वतंत्रता ददिवस की 78 वीं जयंती धूमधाम से मनी


स्वतंत्रता ददिवस की 78 वीं जयंती धूमधाम से मनी
Urduduniyanews72
उ.मा.वि.चकगुलामुद्दीन में बच्चों ने बिखेरे जलवे 

शिक्षक अनिल ने अपने रचे गीत 'बच्चे चकुलामुदीन वाले' को,जब बच्चों के साथ स्वर दिए तो कार्यक्रम स्थल तालियों से गूंज उठा  

पटेढी बेलसर,रिपोर्टर :-
स्वतंत्रता दिवस की 78 वीं जयंती प्रखंड में धूमधाम से मनी l इस मौके पर उ.मा.वि.चकगुलामुद्दीन में बच्चों ने अपनी कलाओं का जलवा बिखेरा l एक-पर-एक देशभक्ति गीत परोसकर श्रोताओं का दिल जीत लिया l सात शहीदों के स्वांग के साथ छात्रा शिवानी ने "ऐ मेरे वतन के लोगों'' के बोल वाले गीत पर जिस तरह  लिप्सिंग किया उसे देख दर्शक भाव-विभोर हो गए l तत्पश्चात बच्चों ने देशभक्ति के एक-पर-एक गीत प्रस्तुत कर दर्शकों का दिल जीत लिया l कार्यक्रम के अंत में शिक्षक अनिल कुमार ने बच्चों के साथ अपने रचे गीत "बच्चे चकगगुलामुद्दीन वाले" को जब स्वर दिया तो कार्यक्रम स्थल तालियों से गूंज उठा l कार्यक्रम को रुप देने में शिक्षक शत्रुधन राम व रुपेश कुमार ने अहम् भूमिका निभायी थी l शिक्षक जिआउल अजीम ने अपने यांत्रिकी सहयोग से प्रस्तुतियों को जीवंत बना दिया था l मौके पर शिक्षक जुल्फेकार अली खां,सतीश कुमार आदि ने कार्यक्रम को संबोधित कर शिक्षकों एवं छात्रों को शाबाशी दी l ज्ञात हो कि सात शहीद बनने वाले छात्रों में क्रमश:अभिषेक कुमार,अमनदीप,आदित्य,चंदन,विवेक,प्रिंस,सूरज,विट्टू ,अनुरागप्रमुख थे जबकि भारत मां का स्वांग  रिद्धि ने रचा था l इसके साथ-साथ समीक्षा,सोनाली,अमीषा,शिवानी,संजना,साक्षी,स्नेहा,खुशी,आकांक्षा,रीतिका,प्रियांशु,जिज्ञासा,मोना,छोटी,प्रियांशु, विजयलक्ष्मी,सिमरन,मुस्कान,राजनंदिनी,गुड़िया ने अपनी कलाओं का जलवा बिखेरा l मौके पर विद्यालय के शिक्षक,शिक्षिकाएं,शिक्षकेत्तर कर्मी व जन प्रतिनिधि सहित अन्य गणमान्य लोग उपस्थित थे lकार्यक्रम का संचालन प्रभारी प्रधानाध्यापक अमरेन्द्र कुमार व शारीरिक शिक्षक अभय कुमार ने संयुक्त रुप से किया था।

جمعرات, اگست 15, 2024

چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی میں تقریب جشن یوم آزادی بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ۔

چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی میں تقریب جشن یوم آزادی بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ۔
Urduduniyanews72
چک غلام الدین ویشالی مورخہ 15/اگست 2024 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) پندرہ اگست یوم آزادی کے موقع پر چک غلام الدین ہائی اسکول میں ایک خوبصورت پروگرام کا انعقاد کیا گیا ۔
پروگرام کی صدارت محترم امریندر کمار صدر مدرس چک غلام الدین ہائی اسکول نے کی، نظامت کے فریضے محترم انیل کمار نے انجام دی، 
پروگرام کا آغازقومی پرچم لہرانے کی رسم سے ہوا۔ صدر مدرس امریندر کمار اور اسکول کے تمام اساتذہ وکارکنان، مقامی لوگ سمیت بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات کی موجودگی میں یہ رسم انجام دی گئی۔۔ محترم ستیش سریواستو استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول نے یوم آزادی کے حوالے سے عوام کو خطاب کرتے ہوئے آزادی کی جدو جہد اور عظیم مجاہدین آزادی کے کردار کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا، اور کہا کہ ہم لوگ مجاہدین آزادی کے دکھائے ہوئے راستے پر وطن عزیز کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کریں۔آزادی کے حوالے سے لوگوں کو معلومات فراہم کریں، یقیناً آج کا دن ہر ہندوستانی کے لئے خوشی ومسرت اور شادمانی کا دن ہے، 15اگست 1947 یہ وہی تاریخ ہے جس میں ہندوستان انگریزوں کے ناپاک چنگل سے آزاد ہوا تھا۔ ملک میں رہنے والے سبھی مذاہب کا قومی تہوار ہے انہوں نے عوام کو یوم آزادی کی پرخلوص مبارکبادی پیش کی ۔ محترمہ روپم کماری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار انگریزی زبان میں کرتے ہوئے یوم آزادی پر مختصر اور جامع روشنی ڈالی ۔یوم آزادی کی تقریب میں اسکول کے طلباء وطالبات نے یوم آزادی کی مناسبت سے مختلف اور دلچسپ پروگرام پروگرامز پیش کیا ۔۔۔ پروگرام پیش کرنے والے طلبہ وطالبات کے درمیان انعامات بھی تقسیم کئے گئے ۔
آخر میں صدر محترم امریندر کمار صدر مدرس چک غلام الدین ہائی اسکول نے سرپرست وگارجین اور عوام سے خطاب کرتے ہوئے یوم آزادی کی تاریخ واہمیت بتایا ۔ مزید یہ کہا کہ چک غلام الدین ہائی اسکول میں تعلیم وتربیت کا عمدہ نظم ونسق ہے، یہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں، میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے بچے کو آپ پابندی کے ساتھ اسکول بھیجنے کی کوشش کریں، تاکہ یہ بچے عمدہ طور پر تعلیم وتربیت حاصل کرکے اپنی مستقبل کو سنوار سکیں، اس کے بعد صدر محترم نے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا ۔۔۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تمام اساتذۂ کرام، طلبہ وطالبات،اور کارکنان کا اہم رول رہا ۔۔۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...