Powered By Blogger

منگل, دسمبر 31, 2024

نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر

نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر

Urduduniyanews72 
نیا سال ایک نیا آغاز، ایک نئی امید اور نئی جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن نہ صرف ایک کیلنڈر کی تبدیلی کا علامت ہے بلکہ ایک نئے سفر کی شروعات کا بھی اعلان کرتا ہے۔ جب ہم پچھلے سال کے تجربات اور یادوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں، تو یہ وقت ہمیں اپنے مقاصد پر نظر ثانی کرنے، اپنی زندگی کے راستے کو دوبارہ ترتیب دینے اور خود کو نئے سرے سے دریافت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
نئے سال کی آمد ہمیں ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنے گذشتہ سال کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر غور کریں۔ یہ لمحے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زندگی مسلسل تبدیلی کا نام ہے۔ ہر دن ایک نیا موقع ہے اور ہر سال ایک نیا مرحلہ۔ نئے سال کی ابتدا ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم نے گزشتہ سال کیا سیکھا، کہاں غلطی کی، اور آئندہ سال کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔
نئے سال کی قراردادیں ایک روایتی عمل ہیں جن میں لوگ اپنے ذاتی، پیشہ ورانہ یا جسمانی اہداف کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ اہداف کچھ بھی ہو سکتے ہیں، جیسے کہ وزن کم کرنا، نئی مہارتیں سیکھنا، زیادہ وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارنا، یا زندگی کے کسی مقصد کی طرف قدم بڑھانا۔ یہ قراردادیں صرف لفظوں تک محدود نہیں رہنی چاہئیں بلکہ ان پر عمل بھی ضروری ہے۔ نئے سال کا آغاز ایک نیا عزم اور لگن کا وقت ہوتا ہے، جب ہم اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے سرگرم ہو جاتے ہیں۔
نیا سال ہمیں اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں خوشی، سکون اور کامیابی کی دعائیں دینے کا موقع دیتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کی قدر کرنی چاہیے، چاہے وہ دوست ہوں، خاندان ہو یا وہ افراد جو ہماری زندگی میں خوشی کی لہر لاتے ہیں۔ نیا سال ایک نیا آغاز ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور دوسروں کی خوشی میں شریک ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔
آج کے دور میں نئے سال کا جشن بہت سے مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ دوستوں اور خاندان کے ساتھ محفلیں سجاتے ہیں، کچھ لوگ عبادت گاہوں میں جا کر دعا گو ہوتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ سفر کرتے ہیں یا نئے تجربات حاصل کرنے کے لئے نئے راستوں پر نکل پڑتے ہیں۔ ہر طریقہ مختلف ہو سکتا ہے لیکن تمام جشن کا مقصد ایک ہی ہے: خوشی، محبت اور امید کا پیغام دینا۔
نیا سال ہمیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لئے محبت، عزت اور خوشی کے پیغامات دینے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ وقت ہے جب ہم اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور ہمسایوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ محبت اور مہربانی انسانیت کا بنیادی جزو ہیں اور ہمیں اپنے تعلقات میں ان اصولوں کو ترجیح دینی چاہیے۔ نئے سال کا جشن نہ صرف اپنی خوشیوں کو منانے کا موقع ہوتا ہے، بلکہ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا بھی ہوتا ہے۔\
نیا سال ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی ایک مسلسل سفر ہے جس میں خوشی، غم، کامیابیاں اور ناکامیاں سب کچھ ہیں۔ ہمیں ہر سال کو ایک نئے آغاز کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اس میں نئی امید، نیا عزم اور نیا جذبہ تلاش کرنا چاہیے۔ ہر دن کو ایک نیا موقع سمجھیں اور اس کے ساتھ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے محنت کریں۔ نیا سال ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم کس طرح اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں اور ایک نئی سمت میں قدم بڑھا سکتے ہیں۔
نتیجہ: 
نیا سال ایک نیا موقع ہے، ایک نیا آغاز، اور ایک نیا عہد۔ یہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے صرف ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنے اندر کی طاقت اور عزم کو بروئے کار لاتے ہیں، تو ہم اپنے تمام مقاصد اور خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ نئے سال کے ساتھ ہی ہمیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے، دوسروں کی مدد کرنے اور دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لئے کام کرنا چاہیے۔

از قلم ✍️: احمد علی ندوی 
معلم: خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ ،دربھنگہ ،بہار

کیلنڈر کے بدلنےسے مقدر کب بدلتا ہےڈاکٹر صالحہ صدیقی (الٰہ آباد)

کیلنڈر کے بدلنےسے مقدر کب بدلتا ہے
Urduduniyanews72 
ڈاکٹر صالحہ صدیقی (الٰہ آباد)

سال 2024 میں ہندوستان نے سماجی اور معاشی میدانوں میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق، حقیقی جی ڈی پی میں 6.5 سے 7 فیصد کے درمیان اضافہ متوقع ہے، جو وبائی مرض کے بعد معیشت کی تیز رفتار بحالی کی نشاندہی کرتا ہے۔ افراط زر کی شرح میں مسلسل کمی دیکھی گئی، جو 4 فیصد کے ہدف کی جانب بڑھ رہی ہے، جبکہ بنیادی افراط زر (نان فوڈ، نان فیول) 3.1 فیصد پر مستحکم ہے۔ 
خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کی شرح میں بھی اضافہ ہوا، جو 2017-18 میں 23.3 فیصد سے بڑھ کر 2022-23 میں 37 فیصد ہوگئی، جس کی بنیادی وجہ دیہی خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت ہے۔ تاہم، سماجی سطح پر کچھ چیلنجز بھی درپیش رہے۔ مسلم معاشرہ تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا کر رہا ہے، جو ان کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے، ہندوستان کی معیشت میں تیز رفتار ترقی کے امکانات روشن ہیں۔ توقع ہے کہ 2030 تک ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، جس کی جی ڈی پی 2022 میں تقریباً 3.5 کھرب ڈالر سے بڑھ کر 2030 تک 7.3 کھرب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔ مزید برآں، قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ پچھلے ساڑھے آٹھ سالوں میں نصب شدہ غیر فوسل ایندھن کی صلاحیت میں 396 فیصد اضافہ ہوا، اور ملک کی توانائی کی کل صلاحیت کا تقریباً 46.3 فیصد اب غیر فوسل ذرائع سے حاصل ہوتا ہے، جو پائیدار توانائی کے تئیں ہندوستان کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ 
ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہندوستان کا مستقبل سماجی اور معاشی دونوں اعتبار سے روشن نظر آتا ہے، بشرطیکہ موجودہ چیلنجز کا مؤثر حل تلاش کیا جائے اور ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا جائے۔سال 2024 میں ہندوستان نے سماجی اور معاشی میدانوں میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق، حقیقی جی ڈی پی میں 6.5 سے 7 فیصد کے درمیان اضافہ متوقع ہے، جو وبائی مرض کے بعد معیشت کی تیز رفتار بحالی کی نشاندہی کرتا ہے۔ افراط زر کی شرح میں مسلسل کمی دیکھی گئی، جو 4 فیصد کے ہدف کی جانب بڑھ رہی ہے، جبکہ بنیادی افراط زر (نان فوڈ، نان فیول) 3.1 فیصد پر مستحکم ہے۔ خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کی شرح میں بھی اضافہ ہوا، جو 2017-18 میں 23.3 فیصد سے بڑھ کر 2022-23 میں 37 فیصد ہوگئی، جس کی بنیادی وجہ دیہی خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت ہے۔ تاہم، سماجی سطح پر کچھ چیلنجز بھی درپیش رہے۔ مسلم معاشرہ تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا کر رہا ہے، جو ان کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے، ہندوستان کی معیشت میں تیز رفتار ترقی کے امکانات روشن ہیں۔ توقع ہے کہ 2030 تک ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، جس کی جی ڈی پی 2022 میں تقریباً 3.5 کھرب ڈالر سے بڑھ کر 2030 تک 7.3 کھرب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔ 
مزید برآں، قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ پچھلے ساڑھے آٹھ سالوں میں نصب شدہ غیر فوسل ایندھن کی صلاحیت میں 396 فیصد اضافہ ہوا، اور ملک کی توانائی کی کل صلاحیت کا تقریباً 46.3 فیصد اب غیر فوسل ذرائع سے حاصل ہوتا ہے، جو پائیدار توانائی کے تئیں ہندوستان کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہندوستان کا مستقبل سماجی اور معاشی دونوں اعتبار سے روشن نظر آتا ہے، بشرطیکہ موجودہ چیلنجز کا مؤثر حل تلاش کیا جائے اور ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا جائے۔سال 2024 میں، مختلف شعبوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ کچھ کمی اور چیلنجز بھی دیکھے گئے جو ہندوستان اور دیگر ممالک کی مجموعی ترقی پر اثرانداز ہوئے۔
1. ماحولیاتی چیلنجز:
موسمیاتی تبدیلی: 2024 میں گلوبل وارمنگ کے اثرات مزید شدت اختیار کر گئے، جس سے گرمی کی شدید لہریں اور قدرتی آفات میں اضافہ ہوا۔
ماحولیاتی تحفظ کے وعدوں پر عملدرآمد میں کئی ممالک ناکام رہے۔
2. اقتصادی مسائل:
افراطِ زر اور بیروزگاری نے عام عوام کی زندگی کو متاثر کیا۔کئی شعبوں میں غیر متوقع معاشی دباؤ کے باعث چھوٹے کاروبار اور زراعت متاثر ہوئے۔عالمی سطح پر معیشت کی سست روی، جس کی وجہ یوکرین جنگ کے اثرات اور دیگر عالمی تنازعات ہیں۔
3. سماجی مسائل:
عدم مساوات اور غربت کے مسائل میں نمایاں کمی نہیں آئی۔خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے پیش رفت کے باوجود، کئی علاقوں میں عدم مساوات جاری رہی۔
4. تعلیمی شعبے میں کمی:
ترقی پذیر ممالک میں ڈیجیٹل تعلیم تک رسائی کی کمی نمایاں رہی۔تعلیمی بجٹ میں کمی اور معیاری تعلیمی مواقع کی کمیابی نے تعلیم کے شعبے میں مسائل پیدا کیے۔
5. صحت کے مسائل:
نئی بیماریوں اور ویکسینیشن کے حوالے سے مسائل۔صحت کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی کمی نے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کو متاثر کیا۔
6. سیاسی چیلنجز:
سیاسی عدم استحکام اور تنازعات، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، اقتصادی اور سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں ناکامی اور مذہبی و نسلی تنازعات۔
7. ٹیکنالوجی کے منفی اثرات:
مصنوعی ذہانت اور آٹومیشن کے بڑھتے ہوئے استعمال نے بیروزگاری میں اضافہ کیا۔سائبر سیکیورٹی کے خطرات میں اضافہ ہوا۔2024 میں درپیش ان چیلنجز سے سیکھ کر، ممالک کو پائیدار ترقی، سماجی انصاف، اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے مزید موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔2024 کے تجربات کی روشنی میں، ان پہلوؤں پر توجہ دینا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے:
1. معیشت کی مضبوطی:
روزگار کے مواقع: بیروزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہنر مندی کے پروگراموں اور چھوٹے کاروباروں کی حمایت پر توجہ دی جائے۔
معاشی ناہمواری: دولت کی منصفانہ تقسیم اور غربت کے خاتمے کے لیے پالیسیاں بنائی جائیں۔
زرعی ترقی: زراعت کے جدید طریقوں کو فروغ دینا اور کسانوں کے مسائل حل کرنا۔
2. ماحولیاتی تحفظ:
قابل تجدید توانائی: قابل تجدید ذرائع جیسے سولر اور ونڈ انرجی پر سرمایہ کاری بڑھائی جائے۔
شجرکاری مہمات: جنگلات کی کٹائی کو روک کر شجرکاری مہمات کو فروغ دیا جائے۔
آلودگی کا خاتمہ: صنعتی آلودگی پر قابو پانے اور پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔
3. تعلیم اور تحقیق:
معیاری تعلیم: دیہی اور پسماندہ علاقوں میں معیاری تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں۔
ڈیجیٹل تعلیم: انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی تک رسائی کو عام کیا جائے۔
تحقیق کی اہمیت: تعلیمی اداروں میں تحقیق کے مواقع پیدا کیے جائیں، خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی میں۔
4. صحت کا بہتر نظام:
صحت کی بنیادی سہولیات: دیہی علاقوں میں اسپتال اور کلینک کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔
ویکسینیشن اور بیماریوں کی روک تھام: وبائی امراض کے خلاف موثر منصوبہ بندی۔
ذہنی صحت: ذہنی صحت کے مسائل کو ترجیح دی جائے اور مشاورت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
5. سماجی ہم آہنگی:
مساوات: خواتین، اقلیتوں، اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
مذہبی ہم آہنگی: رواداری اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی اور سماجی مہمات چلائی جائیں۔
غربت کا خاتمہ: سماجی تحفظ کے پروگرامز کے ذریعے ضرورت مندوں کو سہارا دیا جائے۔
6. سیاسی استحکام:
شفافیت: حکومتی فیصلوں میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جائے۔
سیاسی ہم آہنگی: مختلف نظریات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مذاکرات کو فروغ دیا جائے۔
 اصلاحات: انتخابات کو شفاف اور غیر متنازع بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
7. ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال:
ڈیجیٹل معیشت: ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دے کر معیشت کو مضبوط بنایا جائے۔
سائبر سیکیورٹی: سائبر خطرات سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور تربیت پر زور دیا جائے۔
مصنوعی ذہانت: AI اور آٹومیشن کے شعبے میں ملازمت کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں۔
8. عالمی تعاون:
بین الاقوامی تعلقات: تجارتی اور ماحولیاتی معاہدوں میں فعال کردار ادا کریں۔
امن کا فروغ: عالمی سطح پر امن و امان کے قیام کے لیے موثر سفارتی حکمت عملی اپنائیں۔
یہ پہلو زندگی کے تمام شعبوں میں پائیدار ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنا سکتے ہیں، بشرطیکہ ان پر ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

جمعہ, دسمبر 27, 2024

ज़िया ए हक़ फाउंडेशन की ओर से भारत के महान नेता, पूर्व प्रधानमंत्री डॉ. मनमोहन सिंह जी को भावपूर्ण श्रद्धांजलि।

ज़िया ए हक़ फाउंडेशन की ओर से भारत के महान नेता, पूर्व प्रधानमंत्री डॉ. मनमोहन सिंह जी को भावपूर्ण श्रद्धांजलि।
Urduduniyanews72 

डॉ. मनमोहन सिंह ने देश के आर्थिक और सामाजिक विकास में अभूतपूर्व योगदान दिया। उनकी ईमानदारी, विद्वत्ता, और मृदुभाषी नेतृत्व ने भारत को नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया। उनका जीवन और योगदान हर भारतीय के लिए प्रेरणास्रोत रहेगा।
उनकी स्मृति में, ज़िया ए हक़ फाउंडेशन उनके आदर्शों पर चलते हुए समाज सेवा और राष्ट्रीय विकास के प्रति अपनी प्रतिबद्धता दोहराता है। ईश्वर उनकी आत्मा को शांति प्रदान करें और उनके परिवार को इस कठिन समय में संबल दें।
डॉ. मनमोहन सिंह जी को श्रद्धांजलि देते हुए मोहम्मद वकार, मोहम्मद हाशिम, मोहम्मद ओसामा, और डॉ. सालेहा सिद्दीकी ने अपने विचार साझा किए:
मोहम्मद वकार ने कहा "डॉ. मनमोहन सिंह जी देश के सच्चे सेवक थे। उन्होंने अपने नेतृत्व और विद्वता से देश की अर्थव्यवस्था को नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया। उनका जीवन हमें ईमानदारी और कर्तव्यनिष्ठा का संदेश देता है।"मोहम्मद हाशिम ने कहा "उनका योगदान न केवल भारतीय अर्थव्यवस्था के लिए ऐतिहासिक था, बल्कि उन्होंने समाज में सादगी और सेवा की मिसाल कायम की। उनका नेतृत्व और दृष्टिकोण हर भारतीय के लिए प्रेरणा का स्रोत रहेगा।" मोहम्मद ओसामा ने कहा 
"डॉ. सिंह ने अपनी विद्वता और दूरदृष्टि से भारत को वैश्विक स्तर पर एक सम्मानजनक स्थान दिलाया। उनकी मृदुभाषी और सादगीपूर्ण शैली हर किसी को प्रभावित करती थी। उनकी कमी हमेशा महसूस होगी।"डॉ. सालेहा सिद्दीकी ने कहा"डॉ. मनमोहन सिंह जी एक अद्वितीय विद्वान और सच्चे राष्ट्रसेवक थे। उन्होंने न केवल भारत को आर्थिक रूप से सशक्त किया बल्कि राजनीति में नैतिकता का उदाहरण प्रस्तुत किया। उनकी स्मृतियां हमें सदैव प्रेरित करेंगी।"
इन चारों ने मिलकर कहा कि डॉ. मनमोहन सिंह का जीवन और योगदान सदैव याद किए जाएंगे, और उनके आदर्शों को आगे बढ़ाने का प्रयास किया जाएगा।
"देश उन्हें हमेशा याद करेगा।"

ضیائے حق فاؤنڈیشن اور ینگ مائنڈ ایجوکیشن کی جانب سے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو خراج عقیدت

ضیائے حق فاؤنڈیشن اور ینگ مائنڈ ایجوکیشن کی جانب سے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو خراج عقیدت
Urduduniyanews72 
 (پریس ریلیز، الہ آباد)
ضیائے حق فاؤنڈیشن اور ینگ مائنڈ ایجوکیشن کی جانب سے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد 27 تاریخ بمقام ینگ مائنڈ ایجوکیشن اسکول راجا پور الٰہ آباد میں کیا گیا، جس میں ہندستان  کے سابق وزیرِاعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ تقریب کا مقصد اُن کی خدمات کو یاد کرنا اور اُن کے قومی اور بین الاقوامی کردار پر روشنی ڈالنا تھا۔جس میں اسکول کے سبھی اساتذہ،والدین  اور بچے شامل ہوئے اُن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر  صالحہ صدیقی نے کہا:
"ڈاکٹر من موہن سنگھ ایک عظیم معیشت دان، مخلص لیڈر، اور قوم کے سچے خادم تھے۔ انہوں نے بھارت کو اقتصادی طور پر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُن کی سادگی اور مروّت سیاست میں اخلاقیات کا ایک نیا معیار قائم کرتی ہے۔"
محمد اسامہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"ڈاکٹر من موہن سنگھ کی دوراندیشی اور قائدانہ صلاحیت نے بھارت کو عالمی سطح پر ایک نئی پہچان دی۔ اُن کی بصیرت اور علم نوجوان نسل کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گی۔"محمد ہاشم نے کہا:
"اُن کی قیادت نے بھارت کو اقتصادی بحران سے نکال کر ترقی کے راستے پر گامزن کیا۔ وہ ایک خاموش لیکن مؤثر لیڈر تھے، جو ہمیشہ اپنے کام سے پہچانے گئے۔ اُن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔" وقار نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا:
"ڈاکٹر من موہن سنگھ کی شخصیت نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ اُن کی زندگی محنت، دیانتداری اور خدمت کا بہترین نمونہ ہے۔ ہم اُن کے نقشِ قدم پر چل کر ہی ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔"
تقریب میں شرکاء نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر من موہن سنگھ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا کرے۔ تقریب کے اختتام پر یہ عزم کیا گیا کہ اُن کے اصولوں اور خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قوم کی تعمیر میں حصہ ڈالا جائے گا۔

منگل, دسمبر 24, 2024

اداس موسم ، مصنف: انور آفاقی

اداس موسم ، مصنف: انور آفاقی
Urduduniyanews72 
انور آفاقی اردو شعر و ادب کے اس قبیل کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں پرورشِ لوح و قلم عبادت سے کم نہیں، سو انہوں نے شاعری کو اس طور پر اپنایا کہ دل کی صدا کا اظہاریہ بنا ڈالا ۔ انہوں نے گذشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں شاعری کی شروعات کی ۔ پہلا شعری مجموعہ" لمسوں کی خوشبو "2011 میں شائع ہوا ۔ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ "دیرینہ خواب کی تعبیر " (سفرنامہ کشمیر) "پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے گفتگو " (انٹرویو) "نئی راہ نئی روشنی"( افسانوی مجموعہ)دوبدو"(ادبی مکالمہ ) ،"میزانِ فکر و فن" ( مضامین) تصنیفات و تالیفات کے ذریعے انہوں نے اپنی ادبی کاوشوں کو پیش کیا ہے۔ ان کے اولین شعری مجموعہ "لمسوں کی خوشبو "کا ترجمہ جناب سید محمود احمد کریمی نے Fragrance of Palpability نام سے کیا ۔ انگریزی میں 
 " Anwar Afaqi: A Versatile genius"
کے نام سے سید محمود احمد کریمی کی کتاب سے انگریزی داں حضرات کو انور آفاقی کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں ۔" انور آفاقی: آئینہ در آئینہ" کے نام سے ڈاکٹر عفاف امام نوری کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے جس سے ان کی شخصیت اور ادبی فتوحات کا کم و بیش مکمل احاطہ ہوتا ہے ۔ مذکورہ گفتگو سے انور آفاقی بحیثیت ادیب ان کے مراتب کا اندازہ کیاجا سکتا ہے۔
"اداس موسم" ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔اس میں 60 سے زیادہ غزلیں، بارہ نظمیں ، قطعات اور منتخب اشعار شامل ہیں۔ مشمولات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعر کو غزلیہ شاعری سے زیادہ دلچسپی ہے ۔ شاعر کی اس بانگی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاعری ان کی طبیعت کا حصہ ہے۔ وہ اپنی بات میں لکھتے ہیں کہ " زندگی کے دوسرے حادثات و واقعات کا تجربہ کیا کچھ کر سکا ہوں اس کا مجھے پتہ نہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ میرا یہ مجموعہ کلام "اداس موسم "پہلے مجموعہ کلام" لمسوں کی خوشبو" سے قارئین کو مختلف ضرور نظر ائے گا ۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر کسی شاعر کا کوئی بھی شعر کسی بھی قاری کے ذہن میں محفوظ ہو جاتا ہے تو اسے شاعری سے بنواس نہیں لینا چاہیے۔ لہذا اس نئے شعری مجموعہ کے ساتھ حاضر ہوں ۔ ایک بات گوش گزار کرتا چلوں کہ اس مجموعہ کلام پر میں نے دانستہ طور پر کسی بھی شخص استاد یا شاعر سے کوئی اصلاح نہیں لی ہے ۔ کسی استاد سے اصلاح کے نام پر غزلیں لکھوا لینا اور پھر مجموعہ کلام چھپوا لینا نہ تو میری فطرت ہے اور نہ ہی میری طبیعت اسے گوارا کرتی ہے"۔
           ان کی شاعری کے مرکز میں محبت کا حسن موجود ہے۔ رنگِ تغزل کمال کا ہے۔ واردات قلبی کا اظہار سکون دیتا ہے ۔ دل سے نکلی محبت کی صدا محسوس کیجئے ۔ یہ اشعار میری پسند کے ہیں۔
سلگتی رات کی تنہائی مار ڈالے گی
 چلے بھی آؤ کہ جینے کی آرزو ہے ابھی
 یہ کس مقام پر دل نے مجھے ہے پہنچایا
 جدھر بھی دیکھوں فقط تو ہی روبرو ہے ابھی 
بس آسمان سے تکتا ہے رات بھر مجھ کو
 وہ چاند چھت پہ بھی اترے یہ آرزو ہے ابھی
 وہ میری نظم و کہانی میں سانس لیتا ہے 
بچھڑ گیا ہے مگر دل سے وہ گیا بھی نہیں
 آنکھیں بھی قتل عام کرتی ہیں 
نام بد نام ہے قیامت کا۔
انور آفاقی الفاظ کے انتخاب میں کافی چوکس رہتے ہیں ۔ شاعری یوں بھی فنون لطیفہ میں اپنی نزاکت اور حسن خیال سے پہچانی جاتی ہے۔ ان اشعار کو گنگنانے کو جی چاہتا ہے۔ کئی دفعہ چھوٹی بحروں کے اشعار خوب متاثر کرتے ہیں۔
 تتلیوں کے حسین جھرمٹ میں
 پھول کو اشکبار ہونا تھا 
رکھ لیا تم نے ہے بھرم ورنہ
 زندگی بھر شرمسار ہونا تھا 
وہ کلی بعد ایک مدت کے 
دیکھ کر مجھ کو کھل گئی ہوگی۔
ان کی شاعری کے مطالعہ میں ایک خوشگوار جذبے کا احساس ہوا۔ وہ ہے اپنے گاؤں کی مٹی سے محبت، وہاں کی فضا، ہریالی وغیرہ جو ان کے ذہن و دل میں رچا بسا ہے ۔ اردو شاعری میں یہ جذبے قابل قدر ہیں ۔ اس قبیل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے :
ہمارے گاؤں میں پیپل کی چھاؤں کافی ہے 
تمہارے شہر میں ہوٹل ستارہ ہے تو ہے 

تمہارے شہر میں جینا ہے مشکل 
دھواں ہے شور ہے تنہائیاں ہیں
 ہمارے گاؤں میں آکر تو دیکھو
 ہوا ہے کھیت ہے ہریالیاں ہیں
دوران مطالعہ کئی اشعار نے دامنِ دل تھام لیا اور دیر تک محظوظ ہونے کو مجبور کیا ۔ یہ اشعار شاید آپ کو بھی پسند آئیں :
میں نے پلکیں جھکا لیا قصدا 
زندگی اس کو مل گئی ہو گی 
اس کے ہاتھوں میں دیکھا ہے پتھر 
پھول میں جس کو پیش کرتا ہوں
 عشق تو نام ہے عبادت کا 
عشق میں فلسفہ نہیں ہوتا 
زباں سے سخت تھا دل سے وہ پھول جیسا تھا 
چلا گیا ہے تو ہر شخص یاد کرتا ہے۔
اس مجموعے میں ایک توشیحی نظم" مناظر عاشق ہرگانوی" اور" سید محمود احمد کریمی کی نذر" کے بعد "کرونا"، " بہت گہرا اندھیرا چھا گیا ہے" ،" جلتی ہوائیں" ، " خدشہ " ، "غلیل کی زد پہ " ، " انتظار"( ایک منظوم افسانہ) "ذکر تیرا بعد تیرے" مع انگریزی ترجمہ، "بد نصیب لوگ" ، " کربِ تنہائی" ، اور" الوداع الودع اے جانِ پدر" نظمیں پرتاثیر ہیں۔ " انتظار " تو لاجواب تخلیق ہے۔ غزلوں کی پیشکش میں جدت دکھائی دیتی ہے کہ شاعر نے غزل کے کسی ایک مصرع کو شرخی بنایا ہے ۔ یہ نیا تو ہے پر اچھا ہے۔ مجموعہ میں "اداس موسم" نام کو چھوڑ کر کچھ بھی اداس نہیں ہے بلکہ فرحت و تازگی ہر سو بکھری ہوئی ہے۔ مجموعے کے اندرونی فلیپ پہ کامران غنی صؔبا اور احمد اشفاق کی مختصر تحریر میں شاعر کی کارکردگی کو سراہا گیا ہے جبکہ بیک کور پر جناب حقانی القاسمی کی نپی تلی رائے شاعر کے اعتراف و اقرار کی راہ ہموار کرتی ہے۔ یقین ہے کہ شائقین ادب اس مجموعے کو پسند کریں گے۔
*********************************
ڈاکٹر مجیر احمد آزاد 
محلہ۔ فیض اللہ خاں ، حامد کالونی،
دربھنگہ۔ 846004
Mob. 9430 8987 66

ایک شام ضیاء فتح آبادی کے نام"ضیائے حق فاؤنڈیشن و ینگ مائنڈ ایجوکیشن کی جانب سے مشاعرہ وسیمینار بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ۔

"ایک شام ضیاء فتح آبادی کے نام"
ضیائے حق فاؤنڈیشن و ینگ مائنڈ ایجوکیشن کی جانب سے مشاعرہ وسیمینار بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ۔
Urduduniyanews72 
الہ آباد (پریس ریلیز )

ضیائے حق فاؤنڈیشن "وینگ مائنڈ ایجوکیشن"اسکول میں مورخہ 22/دسمبر 2024 بروز اتوار بوقت 03/بجے دوپہر ایک خوبصورت مشاعرہ اور ضیاء فتح آبادی کی حیات وخدمات پر منحصر ایک سیمینار اور ینگ مائنڈ ایجوکیشن کے بچّوں کے پروگرام کا انعقاد کیا گیا ۔
 پروگرام چار حصوں پر مشتمل تھا۔
پروگرام کی شروعات حمدیہ کلام سے ہوا ۔ پہلے حصے میں فاؤنڈیشن اور ینگ مائنڈ ایجوکیشن کا اور سیمنار کا انعقاد عمل میں آیا ،جس کی صدارت الٰہ آباد یونیورسٹی کی صدر شعبہ فارسی پروفیسر صالحہ رشید نے کیں ۔
اس کے بعد فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کا تعارف اور ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات اور فن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضیاء فتح آبادی اردو ہندی زبان وادب کے مشہور ومعروف اور مقبول شاعر ،افسانہ نگار، تنقید نگار،سا نیٹ نگار کے ساتھ ساغرؔ نظامی، جوشؔ ملیح آبادی، میراؔ جی اور ساحرؔ ہوشیار پوری کے ہم عصر اور استاد شاعر سیمابؔ اکبر آبادی کے شاگرد تھے۔
ضیاء فتح آبادی کا اصل نام مہر لال سونی تھا۔ وہ کپورتھلہ پنجاب میں اپنے ماموں شنکر داس پوری کے گھر 9؍فروری 1913 کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک اردو نظم نگار و غزل گو شاعر تھے۔ انکے والد منشی رام سونی فتح آباد ضلع ترن تارن پنجاب کے رہنے والے تھے اور پیشے کے اعتبار سے ایک مدنی مہندس تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضیاء فتح آبادی کا ادبی سفر اردو شاعری کی ترقی میں ایک اہم باب ہے، جس میں ان کی تخلیقی صلاحیت اور زبان پر گرفت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں "
 محمد اسامہ(ڈائریکٹر ینگ مائنڈ ایجوکیشن) نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا"ان کی شاعری میں سادگی اور گہرائی کا امتزاج ہے، جو قاری کو بآسانی متوجہ کرتا ہے اور ان کے دلوں میں جگہ بناتا ہے۔"
مہمان خصوصی اسرار گاندھی نے کہا"ضیاء فتح آبادی کی نظمیں اور غزلیں اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں، ان کی تخلیقات محبت، درد اور معاشرتی حقائق کی عکاسی کرتی ہیں۔"
اس کے بعد پروگرام کی صدارت فرما رہی پروفیسر صالحہ رشید نے پڑھے گئے مقالات اور اسکول اور فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا انھوں نے کہا کہ یہ وہ تنظیم ہے جس نے قوس صدیقی، ناشاد اورنگ آبادی ،شمیم شعلہ ،خالد عبادی، افتخار عاکف، دلشاد نظمی ، شکیل سہسرامی ، اثر فریدی روزنامہ قومی تنظیم ، ڈاکٹر ریحان غنی، برقی اعظمی، اور بھی دیگر شعراء وادباء کو اعزاز سے نواز چکی ہے، ہمیں اس تنظیم کی سرگرمیاں دیکھ کر بیحد خوشی ومسرت اور شادمانی ہوتی ہے، کیونکہ یہ تنظیم اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی کے لئے مستقل کوشاں ہےاور آج اس تنظیم کے زیر انتظام ایک اسکول کا بھی قیام عمل میں آیا،جس میں طلبہ وطالبات اپنی علمی پیاس سکیں گے ،میں خصوصی طور پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن کو مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔نیز ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات اور تصنیفات کا اجمالی خاکہ پیش کیا ۔پروفیسر صالحہ رشید نے کہا "ضیاء فتح آبادی کی شاعری میں زندگی کی گہرائیوں اور انسانی جذبات کا منفرد اظہار ملتا ہے، جو قاری کو خود شناسی کی دعوت دیتا ہے۔انھوں نے ضیاء فتح آبادی کے اس شعر کے ساتھ اپنی باتیں مکمل کی :
بڑھ کر مہ و انجم سے ضیائے اردو
رنگینی و دلکشی برائے اردو
اپنی جسے کہہ سکتے ہو ہم سب مل جل کر
ہے کوئی زباں اور سوائے اردو

اس کے بعد دوسرے حصے میں مشاعرہ کا باضابطہ آغاز ہوا ۔ جس کی صدارت ڈاکٹر اشرف علی بیگ نے کیں ۔ اس میں الٰہ آباد شہر کے معروف شاعروں نے اپنے کلام کے ساتھ ساتھ ضیاء فتح آبادی کی غزلیں نظمیں پیش کر اُن کو خراج عقیدت پیش کیا ، شاعروں میں راکیش دلبر،حسین جیلانی سلال پھول پوری، پرکاش سنگھ اشک نے اپنا کلام پیش کیا چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
چراغوں کو بُجھا ڈالا ہے لیکن 
ہوا کا رنگ، کالا ہو گیا ہے
(ر اکیش دلبر سلطانپوری)

حسین آؤ چلیں ہم شہر سے پھر گاؤں کی جانب
بڑے ہی خوش نما ہر دور میں دیہات ہوتے ہیں
(ڈاکٹر حسین جیلانی)
یُوں زندگی نے ہم سے بہانے بہت کیے
چلتی رہی بھی ساتھ ٹھکانے بہت کیے
(ا شرف علی بیگ)
بیوفائی جنہیں نہیں آتی
رسم اُلفت وہیں نبھاتے ہیں 
(سلال الٰہ آبادی)

برباد کر کے مجھ کو وہ جانے کدھر گئے
جو زخم بھر چلے تھے وہ پھر سے ابھر گئے
(پرکاش سنگھ اشک)

تیسرے حصے میں اسکول کے بچّوں نے ڈانس ،موسیقی، ہوگا جیسے پروگرام کو پیش کیا جس میں چھ ٹیم نے حصہ لیا 
پروگرام کے چوتھے اور آخری حصے میں "ضیاء فتح آبادی" ایوارڈ سے شاعروں اور ادیبوں کو اُن کی علمی و ادبی خدمات کے لئے نوازا گیا۔جن میں پروفیسر صالحہ رشید کو ان کی ادبی خدمات کے لئے، اسرار گاندھی کو اُن کے افسانوی ادب کے لئے شاعروں میں اور ضیاء فتح آبادی کو اُن کے سوشل ورک کے لئے ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ساتھ ہی ضیاء فتح آبادی کی شخصیت اور فن پر مبنی کتاب "ضیاء فتح آبادی حیات اور کارنامے" مصنف شبّیر اقبال کی رسم اجراء بھی عمل میں آئی ۔
 واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ اتر پردیش کے شہر الہ آباد کے راجا پور میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک اسکول کاقیام "ینگ مائنڈ ایجوکیشن" کے نام سے عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر محمد اسامہ، محمد ہاشم ، ڈی کے سونی اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن ، نے اپنا تعاون پیش کیا، جبکہ عمومی طور پر جملہ اراکین ضیائے حق فاؤنڈیشن نے تعاون دیا ۔پروگرام کے آخر میں ڈی کے سونی اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔اور اس پروگرام میں شامل تمام بچّوں ، والدین اور دیگر مہمانان کا بھی شکریہ ادا کیا اور اس طرح یہ پروگرام بحسن وخوبی انجام تک پہنچا۔

پیر, دسمبر 23, 2024

میں پٹاخے سے ہی مر جاؤں گا بم رہنے دے

میں پٹاخے سے ہی مر جاؤں گا بم رہنے دے
Urduduniyanews72 
(طنزومزاح)

  * ڈاکٹر محبوب حسن

معاشرے میں ہر طرف جھوٹ،اور افواہ کا بازار گرم ہے۔ اب تو سچ بات پر بھی اعتبار مشکل سے آتا ہے۔ خبر ہے کہ گزشتہ مہینے بھوپال کے ایئر پورٹ پر سات شاعر بے ہوش پائے گئے۔ شاعروں کا یہ قافلہ کسی عالمی مشاعرہ سے واپس ہو رہا تھا۔ پولیس کی ابتدائی تحقیق کے مطابق اس سازش میں کئ نثر نگاروں کے نام سامنے آ رہے ہیں۔ شک کی بنیاد پر کئ نثر نگاروں کو پولس حراست میں رکھا گیا ہے اور لگاتار دھر پکڑ جاری ہے۔ خدایا! کیا زمانہ آ گیا ہے۔ اب بے چارے شاعر بھی محفوظ نہیں رہے۔ غم کا مقام ہے کہ عشق و محبت کے گیت گانے والے شاعروں کی راہوں میں پھول کی بجائے کانٹے بچھائے جانے لگے ہیں۔ پاپولر میرٹھی نے کیا خوب کہا ہے: 
میں  ہوں جس حال میں اے میرے صنم رہنے دے
تیغ مت دے میرے ہاتھوں میں قلم  رہنے   دے
میں تو شاعر  ہوں مرا  دل  ہے  بہت  ہی  نازک
میں پٹاخے سے  ہی مر جاؤں گا  بم  رہنے  دے

بھوپال حادثے کی خبر پھیلتے ہی ملک کے مختلف شہروں میں شعرا حضرات نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ ادھر دہلی میں شاعر و شاعرات کا ایک ہجوم جنتر منتر پر امڑ پڑا۔ نثر نگاروں کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاجی جلسہ مشاعرے میں تبدیل ہو گیا۔ شاعروں نے گل و بلبل اور لب و رخسار کی بجائے کڑوے کسیلے اشعار سنائے۔ غزلوں کی بجائے مرثیے پڑھے گئے۔ واہ! واہ! کی جگہ آہ! آہ! کی صدا بلند ہوتی رہی۔ اس طرح انقلاب زندہ باد کے نعروں کے ساتھ مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔ آخر میں شاعروں کا ایک ڈیلیگیشن وزیر داخلہ سے ملا اور اپنی سیکورٹی کی مانگ کی۔

افسوس کہ بے چاری شاعرات بھی اب محفوظ نہیں رہیں۔ ابھی پچھلے برس کی بات ہے۔ دلی میں ایک عظیم الشان کل ہند مشاعرے کا انعقاد ہونا تھا۔ ملک کی کئ اہم شاعرات ایک روز پہلے ہی دہلی میں جمع کر لی گئیں۔ ان کے قیام اور طعام کا معقول انتظام کناٹ پلیس کے کسی مہنگے ہوٹل میں کیا گیا۔ شاعرات کے رنگ و روپ کو چمکانے کے لیے حسب روایت بیوٹی پارلر سے کاریگر بھی بلائے گئے۔ شاعرات چہرے کی رنگائ پتائ میں مصروف تھیں۔ موقع ملتے ہی کسی اچکے نے ان کے قیمتی زیورات اڑا دیے۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ عالم غم میں صف ماتم بچھ گئ۔ کاجل اور غازہ ہم کنار ہونے لگے۔ قافیہ اور ردیف کی رومانی فضا یکایک پتجھڑ کی نذر ہو گئ۔ گویا کوئ آسمانی قہر نازل ہو گیا ہو۔ سفینہ رقیب، فنا دہلوی اور قبا بلرامپوری کئ گھنٹوں تک بیہوش رہیں۔

معتبر ذرائع کے مطابق بھوپال مشاعرہ کیس میں اب تک سات ملزمین کو کورٹ سے ضمانت مل چکی ہے۔ کچھ ابھی بھی پولیس حراست میں ہیں۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق شاعروں کو چائے کے ساتھ نشیلی گولیاں دی گئ تھیں۔ ضرب المثل ہے کہ گڑ سے جو مر جائے اسے زہر سے کیوں مارے! بقول حضرت جون ایلیا "یہ ضروری تو نہیں کہ مجھے زہر پلایا جائے/عین ممکن ہے کسی پھول سے مارا جاؤں" حاسدین کو خدا غارت کرے! آمین! ثم آمین! افسوس کہ ازل سے ہی شاعروں کے خلاف سازشیں جاری ہیں۔ کبھی شاعروں کو مخرب اخلاق قرار دے کر شہر بدر کیا گیا تو کبھی ان کے راستوں میں سانپ بچھو چھوڑے گئے۔ جانے کیوں زمانہ شاعروں کی بیش قیمتی قربانیوں کو نظر انداز کرتا ہے؟ آپ لوگوں کو جان کر حیرانی ہوگی کہ شعروادب کی فکر میں شاعروں کی باضابطہ جماعتیں نکلنے لگی ہیں۔ تبلیغی جماعت کی طرز پر شاعروں کا قافلہ کندھوں پر پشتارہ لٹکائے جنگل جنگل اور صحرا صحرا بھٹک رہا ہے۔ دہلی و دبئی کی چمچماتی محفلوں سے نکل کر شاعر گاؤں کی چلچلاتی دھوپ میں جل رہا ہے۔ شاعروں کی قربانیاں ہرگز ہرگز ضائع نہ ہوں گی۔ 

سنا ہے کہ ضمانت پر رہا ہونے والے نثر نگاروں نے بھی آسمان سر پر اٹھا لیا۔ نثر نگاروں نے شاعروں کے خلاف مختلف شہروں میں جلسے منعقد کیے۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں"نثر نگار زندہ باد" کے عنوان سے ایک مذاکرہ منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں دہلی، بنارس، الہ آباد، گورکھپور، لکھنو اور دوسرے شہروں سے خاصی تعداد میں نثر نگار جمع ہوئے۔ مسلسل پانچ  گھنٹے چلنے والے اس پروگرام میں نثر نگاروں نے شاعروں کے خلاف اپنے شدید رنج کا اظہار کیا۔ ممبئی کے مشہور انشائیہ نگار ریاض احمد فیضی نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا:

"حاضرین جلسہ! آپ لوگ بخوبی واقف ہیں کہ ادب کی جمہوری قدریں کوما میں چلی گئ ہیں۔ جلد ہی ان کی موت کا اعلان کیا جائے گا۔ تعصب اور تعفن زدہ اس ماحول میں نثر نگاروں کا دم گھٹ رہا ہے۔ شاعرحلق میں ہاتھ ڈال کر ہمارا نوالہ چھین رہے ہیں۔ نثر نگاروں پر زمین تنگ ہو چکی ہے۔ ہر طرف صرف مشاعروں کی آندھی چل رہی ہے۔ مشرق سے مغرب تک مشاعرہ۔۔زمین سے آسمان تک مشاعرہ۔۔دھوپ سے چھاؤں تک مشاعرہ۔۔ ہر طرف مشاعرہ ہی مشاعرہ۔ اب تو حد ہو گئ بھئ! اب تو ختنہ کے بعد بھی مشاعرے ہونے لگے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب کفن دفن کے بعد شعری محفلیں سجنے لگیں۔ یعنی زندگی کے ساتھ بھی اور زندگی کے بعد بھی! دبئی کے ایک مشاعرہ میں صدر محفل نے شاعروں کی فضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا "اس دھرتی پر جب ایک بھی شاعر زندہ رہے گا، رب ذو الجلال اس کائنات کے نظام کو باقی رکھے گا۔ آمین! ثم آمین!"

دہلی کے نوجوان فکشن نگار شاکر فیضی نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "نثر نگاری نہایت صبر آزما اور ٹیبل ورک ہے۔ شاعری کی طرح نثری مال اڑانا ممکن نہیں جبکہ مشاعرہ باز شاعر اور شاعرات دوسروں کا کلام گاتے ہوئے آئے دن پکڑے جاتے ہیں۔ گلی محلوں میں پرچون کی طرح شاعری کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ غزلیں اور نظمیں نمک اور پیاز کی طرح فروخت ہو رہی ہیں۔ شاعروں کی تعداد پر اسرار طریقے سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ شاہین باغ کے علاقے میں شاعروں اور انسانوں کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ شاعروں کے احترام میں خاکسار نے سڑک پر تھوکنا بند کر دیا ہے کہ خدا جانے کب کون سا شاعر وہاں سے گزر جائے۔

دہلی کی معروف خاتون فکشن نویس فگار عظیم بطور مہمان خصوصی شریک ہوئیں۔ دوران تقریر انہوں نے فرمایا "صاحباں! زمانے کی ستم ظریفی کہیے کہ نثر نگار دن بہ دن باریک ہوئے جاتے ہیں جبکہ شاعر بھاری بھرکم توند لیے پھر رہے ہیں۔ نثر نگاروں کے پاس ناخن کٹانے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور شاعر حضرات رخ پر قمقمہ چپکائے جگمگا رہے ہیں۔ مفلسی کے ستائے ہوئے لاچار نثر نگاروں کو ایک جوڑی لنگی تک میسر نہیں جبکہ زرق برق سے جڑی خوشبو دار شیروانی میں ملبوس شاعر منھ میں پان دبائے مسکرا رہے ہیں۔ حاضرین! یاد رکھیں۔ یہ ناانصافی اور غیربرابری ہی فساد کی اصل جڑ ہے۔

بہار کے فکشن نویس احمد کبیر نے بطور مہمان اعزازی شرکت کی۔ موصوف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ "خدارا! مجھے شاعر اور شاعرات سے کوئی ذاتی بغض نہیں۔ میں تو خود مشاعروں میں تالیاں بجاتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ شاعری ادب کا جز ہے کل نہیں۔ ادب کو میر غالب اقبال فراق کے ساتھ ساتھ میر امن، بطرس بخاری، پریم چند اور بیدی کی بھی ضرورت ہے۔ شاعری کو اتنی بھی افضلیت حاصل نہ ہو جائے کہ دوسری اصناف پوری طرح سے بے روزگار ہو جائیں۔ زمانہ واقف ہے کہ مشاعروں میں چوری کا مال بیچتے ہوئے یہ برادری اکثر و بیشتر دھری جاتی ہے۔ ایک تازہ واقعہ پیش خدمت ہے۔ چند روز قبل علی گڑھ میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا۔ اس مشاعرہ میں شریک ایک بین الاقوامی شاعر نے اسٹیج سے ہی علیگڑھ کو الف سے ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس نئ تحقیق کے لیے دل کھول کر داد دیجیے۔ خیر! جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ اس نئے تحقیقی انکشاف کے بعد علی گڑھ کے پروفیسر حضرات ابھی تک گہرے کنفیوژن میں غرق ہیں۔ انھیں اندیشہ لاحق ہے کہ کوئی شاعر نما محقق شیروانی کو ص سے نہ قرار دے دے۔ چچا غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے "شرم تم کو مگر نہیں آتی"

اس تقریب کی صدارت الہ آباد کے بزرگ نثر نگار ابرار گاندھی نے فرمائ۔ اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے گویا ہوئے "حاضرین جلسہ! مشاعرہ باز شاعروں نے باضابطہ اپنے اپنے گروہ بنا رکھے ہیں۔ ان کے تار دبئی اور دوسرے خلیجی ممالک سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ قوالوں کو مات دینے والے ان گویوں کی شاعری سامعین سے دادوتحسین کی بھیک مانگتی ہوئ نظر آتی ہے۔ مشاعرہ باز شاعر شہوت انگیز جذبات اور ہیجان انگیز خیالات کی گٹھری لیے پھرتا ہے۔ خود کو میر و غالب کا وارث سمجھنے والے اس گروہ نے اردو زبان و ادب کو حسن و عشق اور لب و رخسار تک محدود کر دیا ہے۔ اس گمراہ کن صورت حال کے باعث لوگ اردو کو ایک ایسی نشہ آور محفل تصور کر بیٹھے ہیں، جہاں ہر آن جام و پیمانہ چھلک رہے ہوں۔۔۔دھیمی دھیمی آنچ پر کباب کی خوشبو اٹھ رہی ہو۔۔۔شباب انگڑائی لیتے ہوئے عالم سرمستی میں ڈوبا ہوا ہو۔۔آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ہوری، بدھیا، کالو بھنگی اور سکینہ کا بھی راشن کارڈ بننا چاہیے تاکہ کہانی کے سارے کردار شاد و آباد رہ سکیں۔ اردو زبان و ادب کو لیلی مجنوں اور شیریں  فرہاد کے خیالی غار سے آزاد کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے"

صدارتی خطبہ کے بعد مہمانوں میں بطور تبرک خرما تقسیم کیا گیا۔ سنا ہے کہ شاعروں پر رب کا خاص کرم ہوتا ہے۔ صحیفوں میں ذکر آیا ہے کہ خدا اس مخلوق کو ایک خاص سانچے میں ڈھال کر تیار کرتا ہے۔ عام انسانوں کے برعکس اللہ شاعروں کو پھیپھڑوں اور گردوں کی مانند ایک جوڑی دل کے ساتھ دنیا میں بھیجتا ہے۔ کیوں کہ ایک عدد دل کے سہارے غم جاناں اور غم دوراں دونوں کا بوجھ برداشت کرنا ممکن نہیں۔ امیر مینائی نے سچ ہی کہا ہے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ اس قابل رحم طبقہ کی زندگی میں درد ہی درد ہے۔ حضرت میاں فقیر فرماتے ہیں کہ شاعروں کے دل سے نکلی ہوئی آہ براہ راست عرش معلی تک پہنچتی ہے۔ خدا معاف فرمائے! یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔


ڈاکٹر محبوب حسن 
اسسٹنٹ پروفیسر 
شعبہ اردو، گورکھپور یونیورسٹی

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...