Urduduniyanews72
Urduduniyanews72 @gmail.com
ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پر کام کرتی ہے وہ پیام انسانیت ہے۔اس کےمحرک وبانی مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ علیہ ہیں۔ ۱۹۵۰ء کے اوائل ہی میں مولانا نےوطن میں اس تحریک کی ضرورت محسوس کی اور اس عنوان پر تحریرو تقریرکا سلسلہ جاری فرمادیا تھا، مگر باضابطہ ایک تحریک کی شکل میں ۱۹۷۴ء میں الہ آباد سے اس کاآغاز فرمایا ہے۔حضرت کے انتقال کے بعدحضرت مولانا سیدعبداللہ حسنی رحمۃ اللہ تاحیات اس اہم ذمہ داری کو بحسن وخوبی نبھانے رہے اور پورے ملک میں پیام انسانیت کے بندے تیار ہوگئے،اور اس وقت ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی مدظلہ العالی کی سرپرستی میں یہ کاروں رواں دواں ہے۔ ملک میں پیام انسانیت کی موجودہ وقت میں تین سو یونٹ کام کررہی ہے۔نیز تحریک پیام انسانیت کے کام کاج کی نوعیت ونگرانی اور تعارف کے لئے مرکزی ٹیم گاہے گاہے ملکی وریاستی دورے بھی کرتی رہتی ہے۔اسی مقصد کے تحت ایک وفد کا ماہ دسمبر کے اختتام پر سیمانچل اور نیپال کا دورہ ہوا ہے،اس ٹیم میں مولانا جنید احمد صاحب ندوی نیشنل آرگنائزر پیام انسانیت، مولانا سمعان خلیفہ صاحب ندوی، نامور مصنف ڈاکٹر عبدالحمید اطہرصاحب ندوی اور انجینئر مصلح الدین سعدی صاحب شامل تھے۔کشنگنج، پورنیہ، ارریہ اور نیپال میں تعارفی اجلاس منعقد کئے گئے، اس موقع پر وفد نے بہت ہی خوبصورت انداز میں تحریک کا تعارف اور اغراض ومقاصد سے ہمیں روشناس کرایا اور اس کی ضرورت واہمیت پر موثر گفتگو کرتے ہوئےچونکا دینے والے اعداد وشمار بھی پیش کئے ہیں،ان کی جانکاری ہمارے لئے بہت ہی ضروری ہے، اسی مقصد کے تحت یہ تحریر لکھی جارہی ہے۔
مہمان وفد نے اپنی گفتگو میں یہ باتیں پیش کی ہیں کہ" اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک کی آزادی کا ہے۔کس چیز سے آزادی؟ بھوک سے آزادی کا ہے،بھوک دنیا میں اموات کی نمبر ایک وجہ بنی ہوئی ہے، اس کے بعد ایڈز کینسر وغیرہ موت کی وجہ ہیں، دنیا میں ۸۲۰/ملین لوگ دائمی طور پر بھوکے ہیں، دنیا کے ایک تہائی بھوکے ہندوستان میں رہتے ہیں، ایسے نازک حالات میں ہم تحریک پیام انسانیت اپنی اولین ترجیح اور ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کو بھوک سے آزادی دلانے کے لئے اپنی وسعت میں ہم جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کریں،ہم اپنے ملک عزیز کو بھوک سے آزاد ملک بنانے کے لئے اپنی عاجزانہ کوشش کررہے ہیں،اگر ہم میں سے ہر کوئی اس منفرد پہل میں ساتھ دے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بھوک سے پاک ہندوستان کا خواب ہمارا پورا ہوسکتا ہے۔
آج ہمیں بیماری سے آزادی چاہئے، اس وقت ہندوستان کو فی ۱۰۰۰۰/دس ہزار افراد پر ۱۵/پندرہ ڈاکٹروں اور ۲۰/بیس اسپتالوں کے بستروں کی ضرورت ہے، ہمارے پاس فی الحال اس تعداد کا نصف ہے، اس کے معنی یہ ہے کہ ۷۰۰/سات سوملین (۷۰/ستر کروڑ) لوگ نظام صحت سے دور اور بنیادی ہیلتھ کیئر سے محروم ہیں۔
ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور دنیا کی ۲۰/بیس فیصد سے زیادہ نابینا آبادی کا گھر بھی ہے۔ بدقسمتی سے، یہ کسی بھی ملک میں نابینا بچوں کی سب سے بڑی تعداد کا بھی گھر ہے۔ ہندوستان میں نابینا پن میں ۵۰/پچاس سال کی عمر کے بعد تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ شہری ہندوستان میں ماہر امراض چشم اور آبادی کا تناسب ہر پچیس ہزار افراد پر ایک ماہر ہے، لیکن دیہی ہندوستان میں، یہ تقریباًہر ڈھائی لاکھ افراد پر ایک ماہر ہے،ہائی پر ٹینشن (Hypertension) کو طویل عرصے سے ہندوستان میں دائمی بیماری کے بوجھ، بیماری اور اموات کے لیے ایک بڑے خطرے والے عوامل میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے، جو کہ ملک میں ہونے والی تمام اموات میں سے 10۰8/ فیصد ہے۔ہم تحریک پیام انسانیت اپنی عاجزانہ کوششوں سے حالات پر قابو پانے کے لیے کیمپوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ عام اور خصوصی میڈیکل کیمپس۔آئی چیک اپ کیمپس۔ ہم خصوصی آئی چیک اپ کیمپس اور ان میں حسب استعداد آنکھوں کے چشموں کے ہدیہ دینے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔
آج ملک کو منشیات سے آزادی چاہئے، گانجہ استعمال کرنے والے لوگ ۳/تین کروڑ ۱۰/دس لاکھ ہیں، افیم کا استعمال کرنے والے ۲/دوکروڑ ۳۰/تیس لاکھ ہیں، ہیروئن کا کرنے والے ۶۳/تیرسٹھ لاکھ لوگ ہیں، میڈیکل دوائیوں سے نشہ کرنے والے لوگ ۲۵/پچیس لاکھ ہیں، ناک کے ذریعے سے کھینچ کر نشہ کرنے والے ۷۷/ستترلاکھ ہیں، انمیں ۵۱/اکاون لاکھ مرد ہیں اور ۲۶/چھبیس لاکھ بچے ہیں جو اپنی ناک کے ذریعہ کھینچ کر نشہ کرتے ہیں، شرابیوں کی تعداد اس وقت وطن عزیز میں سولہ کروڑ ہے"۔
مذکورہ بالا اعداد وشمار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اپناملک اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، مذہب اور ذات پات کی سیاست یہاں ہورہی ہے، انسانیت کے لئے کوئی فکر نہیں ہے، پیام انسانیت یہ غیر سیاسی اور غیر مذہبی تحریک کانام ہے،انسانیت کی خدمت کے لئے وجود میں آئی ہے،یہ انبیائی مشن ہے، لہذا اس تحریک سے ہمیں وابستہ ہونے کی ضرورت ہے، یہ ہمارے لئے ضروری بھی ہے اورموجودہ حالات کے تناظر میں یہ ہماری مجبوری بھی ہے۔مدارس ومساجد اور خانقاہوں کی حفاظت کے لئے بھی پیام انسانیت کا اسٹیج ہمارے لئےبہت ہی موثر اور معاون ہے۔
حضرت علی میاں رحمۃ اللہ فرماتے تھے کہ "پیام انسانیت کی تحریک، ملک کے تمام دینی، تعلیمی، علمی کوششوں اور تحریکوں کے لئے ایک حصار کی حیثیت رکھتی ہے جس کے اندر رہ کر ہرکوشش کامیاب ہوسکتی ہے اوراس کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے پرسکون اور معتدل فضا مہیا ہوگی، اس لئے اس تحریک کو میں ہرتحریک کا خادم اور معاون سمجھتا ہوں، اور میرے نزدیک ہر دعوت وتحریک کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے،کم سےکم اس کی حیثیت وہ ہےجو کسی فراش یا سقہ، یا زمین برابر کرنے والے، یا شامیانہ لگانے والے کی ہوتی ہے، جس کے بعد کوئی بھی جلسہ یا اجتماع ہوسکتا ہے، خواہ وہ خالص مذہبی نوعیت کا ہو یا تعلیمی بحث و مذاکرہ کا"۔
جس کی ادا ادا پہ ہو انسانیت کو ناز
مل جائے کاش ایسا بشر ڈھونڈتے ہیں ہم
راقم الحروف
ہمایوں اقبال ندوی
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری