Powered By Blogger

جمعرات, مئی 29, 2025

حج یہ "مہاکمبھ" کا میلہ نہیں ہے !              


آرایس ایس کا ہفتہ واری اخبار پنچ جنیہ ہے، اس کے ٹویٹر ہینڈل سےحجاج کرام کے قیام مزدلفہ کی ایک تصویرشائع کی گئی ہے، اس پر ایک نوٹ بھی تحریرکیا گیا ہے جس میں لکھا ہے: "٥٦/ اسلامی دیش، پیسے کے معاملے میں سبھی طاقتور، اس کے باوجود مکہ میں حج یاتریوں کی حالت اور بےبسی دیکھیے، یہ توچند لوگوں کی بھیڑ ہے، مہا کمبھ میں ۵٦/ کروڑ سے زائد لوگ ائے، پھر بھی ایسی کوبھ ویوستھانہیں رہی"
مذکورہ تحریر کے ذریعے سمجھے بغیر حج جیسی افضل ترین عبادت پرسوال قائم کیا گیا ہے، قیام مزدلفہ کےموقع کی ایک تصویربھی اس کے ساتھ شئر کی گئی ہےجس میں حجاج کھلے میدان میں ارام کر رہے ہیں اور کچھ لوگ عبادت میں مصروف ہیں، ان کی کسم پرسی دکھانے کی کوشش ہے، اور یہ کہنا ہے کہ مال و دولت کی ریل پیل کے باوجود یہ مسلمان ممالک حجاج کے لیے بندوبست نہیں کرتے ہیں ،یہاں کوئی ٹینٹ ہے نہ چھپڑ،سبھی رام بھروسے کھلے میدان میں پڑے ہیں۔
انصاف کی بات تو تھی کہ پہلےسمجھنے کی کوشش کرتےکہ آخر اس کھلے میدان میں یہ حجاج کیا کر رہے ہیں؟ کیوں اس پتھریلی زمین پر لیٹےپڑے ہیں؟ یہ ساری معلومات کے بعد مذہب اسلام کے اس بنیادی رکن پر سوال اٹھاتے، اور سوشل میڈیا کیاسے زینت بناتے، مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں کیا گیا، بس ایک تصویر ہاتھ لگی اور میدان مزدلفہ کی جسے مکہ مکرمہ کہ کر بنا کچھ سوچے سمجھے پوسٹ کر دیا، اس کا مقصد اسلام ومسلمان کو ذلیل کرنے اور نیچا دکھانے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟اخبار کے اس عمل سے ہمیں ٹھیس پہونچی ہے اور سب سے پہلے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
حج کے مختلف ارکان ہیں، ان کو سمجھنے کے لیے حج کے پورے سفر کا مطالعہ ضروری ہے، پہلی بات تو یہ کہ حج کے سفر پہ جانے والا کوئی غریب نہیں ہوتا ہےجس کا رونا رویا جارہا ہے، حج اسلام میں اسی پر فرض ہے جو مال و دولت رکھتا ہے، مذکورہ سوال جو مزدلفہ کی ایک تصویر کے ذریعہ کیا جارہا ہے، اس قدر دور جانے کی ضرورت کیا ہے؟ بلکہ یہ توحج کے سفر کی ابتدا ہی سے قائم ہوسکتا ہے، اس کی تصویربآسانی یہیں دستیاب ہوسکتی ہے وہ یہ ہرحاجی ایک ہی طرح طرح کا کپڑا زیب تن کیا ہوا ہے،گرمی کا زمانہ ہے، سفر سب کے سر کھلے ہیں، ٹوپی ہے نہ پگڑی ہے، سیدھی دھوپ سر پر پڑ رہی ہے، اس کے بچاؤ کے لیے کوئی نظم نہیں ہے، جبکہ عام دنوں میں اور اپنی عبادتوں میں یہ مسلمان ٹوپی اور پگڑی میں نظر اتے ہیں،میری سمجھ سے یہ پہلا اور ابتدائی وبنیادی سوال اگر حل کر لیتےتو باقی تمام سوالات خود بخود حل ہوتے چلے جاتے۔ 
حج مالداروں پر فرض ہے، انسان کی فطرت یہ ہے کہ دولت جب اس کے پاس آتی تو اپنے کو وہ خود کو بڑی چیز سمجھنے لگتا ہے، حج کے سفر میں اس بیماری کابھی علاج بھی اللہ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ایک ہی لباس میں جسے احرام کہتے ہیں ،وہ سفید کپڑے کا اورسلا ہوا نہیں ہوتا ہے ،مردہ کو جس کپڑے میں دفن کیا جاتا ہے وہ بھی سفید ہوتا ہے اور بغیرسلاہوتا ہے، خواہ بادشاہ ہو یا فقیر،اسی کپڑے میں دفن کیا جاتا ہے، یہی کپڑا حج کے سفر میں ہر حاجی کو پہننا پڑتا ہے، اور سبھوں کے منہ سے ایک ہی ترانہ جاری ہوتا ہے جیسے تلبیہ کہتے ہیں، اس میں خدا کی بڑائی کا اعلان ہے، اپنی بڑائی کہیں نہیں ہے ،حاجیوں کے لیے حج کے سفر میں خیمے اور ٹینٹ کا بھی نظم ہے، مگر وہ منی اور عرفات کے میدان میں ہے، ان خیموں میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی ہے، بادشاہ کا بھی خیمہ وہی ہوتا ہے جو ایک عام ادمی کا ہے، عرفات کے میدان سے چل کر حجاج مزدلفہ جاتے ہیں، مزدلفہ میں رات گزارنا حاجیوں کے لیے واجب و ضروری ہے، مگر یہاں خیمہ ہے اور نہ کوئی چھت ہے، بلکہ کھلے اسمان کے نیچے کھلے میدان میں رہنا ہے، عبادت کرنی ہے۔
 دراصل اس بات کا یہاں پر احساس کرنا ہے کہ کس طرح وہ لوگ زندگی گزارتے ہیں جنہیں گھر نصیب ہے اور نہ کوئی سائبان، اسی درد کو یہاں آکرمحسوس کرنا ہے ، پتھریلی زمین پر بیٹھنا ہے،اور ان کے درد و غم میں شریک ہونا ہے، ایک بادشاہ بھی اسی طرح کنکریلی زمین پر بیٹھاہوا،لیٹا ہوا، عبادت کرتا ہوا نظر اتا ہے جس طرح ایک عام حاجی کا معمول ہے، یہاں کوئی وی ائی پی کوٹا نہیں ہے، یہ مساوات اور برابری کا بڑا پیغام ہے ،جو مزدلفہ کے میدان سے پوری دنیا کو دیا جاتا ہے۔
 افسوس کے اس پیغام کو نہیں سمجھا گیا اور اج اس اہم پیغام کو اعتراض کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مذہب اسلام میں نماز کے ذریعے ایک ہی صف میں محمود و ایاز کو کھڑا کر کے یہی پیغام دیا گیا ہے، اسلام میں ایمان والے کی قیمت ایک ہے، یہاں سب کے لیے یکساں معاملہ کیا جاتا ہے۔
اسی حج کے سفر کی بات ہے، مکہ کے قریشی لوگ خود کو وی ائی پی سمجھتے تھے، عرفات کے میدان نہیں جاتے تھے، 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امد سے پہلے مکہ کے قریشی لوگ خود کو وی ائی پی سمجھتے تھے وہاں حاجیوں کے ساتھ عرفات کے میدان نہیں جاتے تھے حضرت علی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں جاہلیت میں قریش حاجیوں کے ساتھ عرفات نہیں جاتے تھے اللہ تعالی نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی:ہاں تو تم وہاں جا کر واپس اؤ جہاں سے لوگ واپس اتے ہیں (سورہ بقرہ)
مذہب اسلام میں نسل کی بنیاد پر کوئی امتیاز کسی کو حاصل نہیں ہے،اور نہ کسی کے لیے کوئی اسپیشل قانون ہے۔ افسوس کہ لاعلمی کی بنیاد پر اج اس عمل کا غلط مطلب نکالا جارہا ہے،یہ سراسر جھوٹ اور مذہب اسلام کے خلاف پروپگنڈا ہے، حج کی عبادت کا نام ہے، یہ کوئی کمبھ کا میلہ نہیں ہے ،ایام جاہلیت میں لوگوں نے اسے میلہ بنا دیا تھا، تفریح، کھیل، تماشے اور لڑائی جھگڑے جومیلوں میں ہوتے ہیں، یہاں بھی ہونے لگےتھے، قران نے یہ اعلان کیا:" حج میں نے کوئی فحش بات ہونے پائے اور نہ کوئی بےحکمی اور نہ کوئی جھگڑا( سورہ بقرہ)
عبادت کا مطلب صرف اور صرف خدا کی بڑائی وبندگی ہے،خدا کا پہلا گھر دھرتی پر کعبہ ہے ،حاجی وہاں جا کر طواف کرتے ہیں، اور حضرت ابراہیم اور اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیہم السلام کی قربانیوں کو تازہ کرتے ہیں، صفا مروہ کا چکر لگا کر ایک ماں کی ممتا اوراس کی تڑپ کو تازہ کرتے ہیں، مزدلفہ کے ویرانے میں رات گزار کر اس بات کا احساس اپنے اندر پیدا کرتے ہیں کہ اللہ کے گھر کو اباد کرنے کے لیے اس ویرانہ کا انتخاب ان بزرگوں نے کیا ہے،مقصد کھیتی باڑی نہیں ہے، بلکہ خدا کی عبادت اور اس کے گھر کی حفاظت ہے۔ اسی مزدلفہ میں ایک وادی بھی ہےجسے وادی محسر کہتے ہیں، یہ وہی مقام ہے جہاں ابرہہ کی فوج کو اللہ نے نیست و نابود کیا تھا اور اپنے کعبہ کو بچا لیا تھا۔ اس جگہ حاجیوں کو ٹھہرنے سے منع کیا جاتا ہے، اس لیے کہ وہاں خدا کا عذاب ایا تھا، یہ تاریخی مقامات ہیں، اور ان میں بڑے پیغامات ہیں۔ آج انہیں عام کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ کہیں کا روڑہ کہیں کا پتھر، مارے گھٹنا پھوٹے سر۔
مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
یکم ذی الحج ۱۴۴۶ھ بروز جمعرات

پیر, مئی 26, 2025

وقف ترمیمی قانون کےخلاف امارت کانیامحاذ        


یہ سبھی کے علم میں ہےکہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف عرضیوں پر گزشتہ ۲۲/ مئی ۲۰۲۵ء کو ہی سماعت مکمل ہو چکی ہےاورسپریم کورٹ نےاپنافیصلہ محفوظ کر لیاہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کب ائےگا؟ اس تعلق سے دو باتیں کہی جارہی ہیں، اول یہ کہ ماہ رواں کے اختتام تک اس کی آمد کاقوی امکان ہے،دوم یہ کہ تاخیر کی صورت میں ۱۳/جولائی ۲۰۲۵ء کو تعطیل کے اختتام پرفیصلے کی گھڑی ان کھڑی ہوسکتی ہے۔ یہ فیصلہ کس کے حق میں ہے؟ 
یہ بات حتمی طور پر کوئی نہیں کہہ سکتا ہے،البتہ قیاس وقرینہ سےاس کے بہتر اور مسلمانوں کے حق میں ہونے کی امید کی جارہی ہے،اور یہ قیاس بے بنیاد بھی نہیں ہے،درحقیقت ترمیمی ایکٹ کے خلاف داخل عرضیوں پر جو اخری تین دنوں میں سماعت ہوئی ہے اس سے یہ امید کی کرن پھوٹی ہے، قوی امکان یہ ہے کہ انصاف پسند لوگوں اور ائین پر یقین رکھنے والوں کے لیے یہ بڑی تاریخی جیت ثابت ہو نے جارہی ہے۔ماہروکلاء نے جس مضبوطی کے ساتھ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف دلائل پیش کیے ہیں اس کی نظیر دیگر مقدمات میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

آخری سماعت میں ۲۵/سے زائدایسےپوائنٹس عدالت کے سامنے رکھے گئے ہیں جنہیں دلائل قاطعہ کہا جارہا ہے۔سینیئر ایڈوکیٹ جناب کپل سبل نےدرجن بھر سے زائد دلائل پیش کیے ہیں،یہ باتیں کس قدر اہم ہیں اندازہ کرنے کےلئے ملاحظہ فرمائیے;
  وقف قانون تحفظ کے نام پر اوقاف پر قبضہ ہے، اور ملک میں ایک نیا تنازع پیدا کرنے کی کوشش ہے، وقف ایک خالص مذہبی معاملہ ہے، اس کو سیکولر نظریے سے نہیں دیکھا جا سکتا ہےاورنہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو اس کا ممبر بھی نہیں بنایا جا سکتا ہے۔وقف بائی یوزر کو اس نئے قانون سے ہٹا دیا گیا ہے، جو پراپرٹی وقف ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہے وہ وقف نہیں ماناجائے گا۔ اس نئے قانون کے رو سے وہ جائیداد جو آرکیا لوجیکل کے تحت رجسٹرڈ ہے وقف نہیں مانا جائے گا۔ وقف کرنے کے لیے پانچ سال سے مسلمان ہونے کی شرط یہ آئین ہند کے خلاف ہے، ملکی قانون میں یہ نہیں ہے کہ ایک ہی مذہب کے لوگ دان کر سکتے ہیں وغیرہ ۰۰۰یہ مضبوط دلائل عدالت عظمی میں   پیش کئے ہیں،مزید ایڈوکیٹ راجیو دھون جی، منو سنگوی وایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے ایسے پوائنٹس پیش کیے ہیں جنکی توڑ فریق مخالف کی طرف سےہنوز نہیں کی جا سکی ہے،اسی لئے اس کیس کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آنے کی امید قوی ہے۔

دوسری جانب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و دیگر تمام ملی تنظیموں کاوقف ترمیمی ایکٹ کے حوالہ سے یہ واضح اعلان موجود ہے کہ اس قانون کو واپسی تک اس کے خلاف تحریک جاری رہے گی، گزشتہ کل امارت شرعیہ کے ۵۴۱/ارباب حل و عقد نے باضابطہ اس کاریزولیشن بھی لیا ہے اوراس تحریک کو مسلسل جاری وساری رکھنے کا عزم مصمم کیا ہے،تجویز ملاحظہ کیجئے;
"اجلاس اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ وقف املاک ملت اسلامیہ کا قیمتی اثاثہ ہیں، اور وقف ایکٹ 2025ء ان اثاثوں کو سرکاری تحویل میں لینے کی سازش ہے، امارت شرعیہ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر ملی اداروں کی زیر قیادت احتجاجی جلوس، تحفظ اوقاف کانفرنسیں، اورضلعی حکام کو دیے گئے میمورنڈم قابل تحسین ہیں، یہ مہم اس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک یہ قانون واپس نہ لے لیا جائے ،اجلاس تجویز کرتا ہے کہ گاندھی میدان میں تحفظ اوقاف کی ایک عظیم الشان کانفرنس کے انعقاد کی تیاری فوری طور پر شروع کی جائے"۔
مذکورہ تجویز اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا ودیگر تمام ملی تنظیموں کے متفقہ فیصلے سے واضح ہوتا ہے یہ لڑائی وقف ترمیمی قانون کی واپسی تک جاری و ساری رہے گی، عدالت عظمی کا فیصلہ اس کی منزل نہیں ہے۔بلکہ اس تحریک کا اختتام قانون واپسی پر ہے۔
ابھی کچھ دنوں سے محسوس یہ ہو رہا تھا کہ یہ تحریک سرد مہری کا شکار ہو گئی ہے، ایسے وقت میں امیر شریعت جناب حضرت مولاناسید احمد ولی فیصل رحمانی نےاپنے صدارتی خطاب کے ذریعہ بھی یہ پیغام دیا ہےکہ تحفظ اوقاف تحریک کو تسلسل کے ساتھ جاری وساری رکھنا ہے، مزید اسمیں ندرت پیدا کرتے ہوئے مندرجہ ذیل ہدایات دی ہیں کہ; جمعہ کو کالی پٹی باندھ کر جمعہ کی نماز ادا کریں، اور ہفتہ کے دن فلش لائٹ کے ذریعہ احتجاج درج کرائیں، ان باتوں سے ایک بار پھرعوام الناس میں ایک نئی امنگ پیدا ہوئی ہے،مزید اس کو عظیم الشان اور تاریخ ساز بنانے کے لئےبہار کی راجدھانی کے گاندھی میدان میں ایک بڑا احتجاجی جلسہ ۲۹/جون ۲۰۲۵ء کو امارت شرعیہ کرنے جارہی ہے، اس شاندار فیصلہ پرحضرت امیر شریعت و جملہ ارکان ارباب و حل و عقد کے ہم سبھی ممنون ومشکور ہیں۔واقعی اس کے ذریعہ وقف ترمیمی قانون کےخلاف تحریک کو ریاست بہار میں امارت نے ایک نئی زندگی بخش دی ہے اور اس کےلئےنیا میدان بھی تیار کرلیا ہے۔
مذکورہ ایکٹ کے خلاف امارت شرعیہ کی سابقہ کارگزاری بھی بڑی لائق تحسین رہی ہے،امارت کی نگرانی میں بہار کے ہر ضلع میں احتجاجی جلسے منعقد کیے گئےہیں،ہر ضلع کے کلکٹر کو میمورنڈم بھی دیا گیا ہے۔بہت ہی منظم انداز میں یہ سب کچھ انجام دیا گیا ہے ،کہیں سے کوئی بدنظمی کی شکایت نہیں آئی ہے، یہ امارت کے حسن انتظام کی برکت ہے،اور اب بحمداللہ چار ریاستوں کے تعاون سے گاندھی میدان میں عظیم الشان اجلاس کا تاریخی فیصلہ امارت نےلیا ہےگویا یہ زبردست پروگرام ہونے جارہا ہے، ہمیں امید ہے کہ ملک کے کونے کونے میں پھر سے امارت ودیگر ملی تنظیموں کی محنت سے وقف ترمیمی قانون کے خلاف تحریک مضبوط انداز میں دوبارہ شروع ہورہی ہے۔ اس آواز کوبہار میں مضبوطی کے ساتھ بلند کرنے میں امارت کی بڑی قربانی ہے،نیز صرف اسی لئے ناگفتہ بہ حالات کا بھی اسے سامنا کرنا پڑا ہے، مگر ذاتی نقصان کو برداشت کرتے ہوئے امارت  ملی مسائل کے لئے ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار  ثابت ہوئی ہے،آج بھی یہ اپنے مشن پر گامزن ہے۔
پھونک کر میں نے آشیانے کو               
روشنی بخش دی زمانے کو                
               
مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 

26/5/2025

پیر, مئی 12, 2025

1857 کی ’جنگِ آزادی‘: جب دلی نے موت کو رقصاں دیکھامصنف : ریحان فضل

1857 کی ’جنگِ آزادی‘: جب دلی نے موت کو رقصاں دیکھا
Urduduniyanews72
مصنف : ریحان فضل
بی بی سی ہندی، دہلی

یہ مضمون ابتدائی طور پر مئی 2020 میں شائع ہوا اور قارئین کی دلچسپی کے پیشِ نظر دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مشت غبار ہوں

آج کے دور میں ایک عام آدمی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ ان اشعار کے خالق آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے سنہ 1857 میں انگریزوں کے خلاف لڑی جانے والی آزادی کی پہلی جنگ میں ہندوستانیوں کی قیادت کی ہو گی۔
11 مئی سنہ 1857 کو پیر تھا اور رمضان کی 16 تاریخ۔
صبح سات بجے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ندی کنارے لال قلعے کے تصویر خانے میں اشراق کی نماز پڑھ رہے تھے۔
اسی وقت انھیں جمنا پار ٹول ہاؤس سے دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔
انھوں نے اس کی وجہ جاننے کے لیے فوراً اپنا ہرکارہ وہاں بھیجا اور وزیراعظم حکیم احسان اللہ خان اور قلعے کی حفاظت کے ذمہ دار کیپٹن ڈگلس کو بھی طلب کر لیا۔

ہرکارے نے آ کر بتایا کہ انگریزی فوج کی وردی میں ملبوس کچھ ہندوستانی سواروں نے برہنہ تلواروں کے ساتھ دریائے جمنا کا پل عبور کیا تھا اور انھوں نے دریا کے مشرقی کنارے پر واقع ٹول ہاؤس کو لوٹنے کے بعد آگ لگا دی تھی۔
یہ سن کر بادشاہ نے شہر اور قلعے کے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دے دیا۔

شام چار بجے ان باغیوں کے رہنما نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا کہ وہ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ یہ باغی دیوان خاص کے احاطے میں جمع ہو گئے اور اپنی بندوقوں اور پستولوں سے ہوائی فائرنگ کرنے لگے۔

’باغی بادشاہ کی آشیرباد کے خواہشمند تھے‘

دلی میں اس زمانے کے بڑے رئیس عبدالطیف نے 11 مئی کے اپنے روزنامچے میں لکھا: ’بادشاہ کی مثال وہی تھی جو شطرنج کی بساط پر شہ دیے جانے کے بعد بادشاہ کی ہوتی ہے۔‘
بہت دیر چپ رہنے کے بعد بہادر شاہ ظفر نے کہا کہ ’میرے جیسے بزرگ آدمی کی اتنی بےعزتی کیوں کی جا رہی ہے، اس شور کی وجہ کیا ہے؟ ہماری زندگی کا سورج پہلے ہی اپنی شام تک پہنچ چکا ہے۔ یہ ہماری زندگی کے آخری دن ہیں۔ اس وقت ہم صرف تنہائی چاہتے ہیں۔‘
بعد میں چارلس میٹکاف نے اپنی کتاب ’ٹو نیشنز نیریٹو‘ میں لکھا: ’حکیم احسان اللہ خان نے سپاہیوں سے کہا آپ انگریزوں کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور مقررہ تنخواہ کے عادی ہیں۔ بادشاہ کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے۔ وہ کہاں سے آپ کو تنخواہ دیں گے؟‘
’سپاہیوں نے جواب دیا کہ ہم سارے ملک کا پیسہ آپ کے خزانے میں لے آئیں گے۔ بہادر شاہ ظفر نے کہا کہ میرے پاس نہ تو فوجی ہے، نہ ہتھیار اور نہ ہی پیسہ، تو انھوں نے کہا ہمیں صرف آپ کی حمایت چاہیے۔ ہم آپ کے لیے سب کچھ لے آئیں گے۔‘
چارلس لکھتے ہیں ’بہادر شاہ ظفر تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ فوری فیصلہ نہ کر پانا ان کی شخصیت کا سب سے بڑا نقص تھا لیکن اس دن بہادر شاہ ظفر نے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کی اور ہاں کر دی۔

’وہ ایک کرسی پر بیٹھے اور سبھی سپاہیوں نے باری باری ان کے سامنے آ کر سر جھکایا اور انھوں نے ان کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔ سپاہیوں نے قلعے کے کمروں پر قبضہ کر لیا اور کچھ نے تو دیوان عام میں اپنے بستر لگا دیے۔‘

چاندی کا تخت اور نئے سکے

بادشاہ نہ تو اتنے بڑے لشکر کو قابو میں رکھ سکتے تھے اور نہ ہی ان کا انتظام کر سکتے تھے لہٰذا وہ خود لشکر کے قابو میں آ گئے۔
اگلے دن بادشاہ نے اپنا شاہی لباس زیبِ تان کیا۔ چاندی کے تخت پر رونق افروز ہوئے۔
بادشاہ کے نام پر سکے جاری کیے گئے پھر پھر ایک بڑی توپ داغے جانے کی آواز سنائی دی۔

انگریزوں کے خلاف بغاوت کیسے اور کیوں شروع ہوئی

اس سب کی شروعات 10 مئی 1857 کو میرٹھ میں اس وقت ہوئی تھی جب بنگال لانسر کے سپاہیوں نے بغاوت کر کے دلی کی جانب کوچ کیا تھا۔

سنہ 1857 کے واقعات پر انتہائی اہم تحقیق کرنے والی معروف تاریخ دان رعنا صفوی بتاتی ہیں: ’ایسی بندوقیں آئی تھیں جس کے کارتوسوں کو منہ سے کاٹ کر بندوق میں بھرنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اس کے اندر گائے کی اور خنزیر کی چربی ہے لہٰذا جو مسلمان تھے وہ بھی ان کو چھونے سے کترا رہے تھے اور ہندو بھی ان کو چھونے سے کترا رہے تھے۔‘
رعنا صفوی کے مطابق ’اس کے علاوہ بھی اسباب تھے کہ انھیں سمندر پار لڑائی کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ تو برہمنوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پانی یعنی سمندر پار کر لیا تو ان کی ذات ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی ترقی بھی صرف ایک حد تک ہوتی تھی۔ ہندوستانی سپاہی صوبے دار سے آگے نہیں جا سکتے تھے۔ اس طرح کی ان کی بہت ساری شکایتیں تھیں۔‘
کچھ لوگوں نے اسے غدر کہا تو کچھ نے جنگ آزادی کا نام دیا۔

دلی والوں نے باغیوں کا خیرمقدم نہیں کیا

ابتدا میں دلی والوں نے ہاتھ پھیلا کر ان باغیوں کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ کچھ حلقوں یہاں تک کہ بہادر شاہ کے قریبی لوگوں نے بھی ان کی مخالفت کی تھی۔
کہا گیا کہ ان باغیوں نے بھی شہنشاہ کا احترام نہیں کیا اور اس معاملے میں دربار کے قوانین کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔ درباریوں کو اعتراض تھا کہ وہ دربار میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے نہیں اتارتے اور شہنشاہ کے سامنے ہتھیار لے کر جاتے تھے۔
مشہور تاریخ دان اور کتاب ’بسیج 1857: وائسز آف دہلی‘ کے مصنف محبوب فاروقی بتاتے ہیں کہ ’دلی والے ناراض تھے لیکن اس سے ہم ایسا کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ دلی والے انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑنا نہیں چاہتے تھے۔
’بات یہ ہے کہ انگریزوں کے خلاف لڑائی ہر آدمی اپنے حساب سے لڑنا چاہے گا۔ کوئی یہ نہیں چاہے گا کہ انگریزوں کے خلاف لڑائی میں آپ کے گھر کے اوپر 40 سپاہی آ کر بیٹھ جائیں۔‘
’جب ہم آزادی کی لڑائی مہاتما گاندھی یا کانگریس پارٹی کے ساتھ لڑ رہے تھے، بھگت سنگھ کے ساتھ لڑ رہے تھے تو بھی ہندوستان میں ہزاروں لاکھوں ایسے لوگ تھے جو یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے گھر پر کوئی آنچ آئے یا پولیس ان کے گھر پر آ جائے۔ یہی بات سنہ 1857 پر بھی صادق آتی ہے۔‘

انتشار کے باوجود انتظام برقرار تھا

کہا جاتا ہے کہ ان واقعات نے دلی والوں کی زندگی میں بہت ہی اتھل پتھل مچا دی لیکن محبوب فاروقی کا خیال ہے کہ تمام تر انتشار کے باوجود نظام پہلے ہی کی طرح قائم تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’1857 کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت افرا تفری تھی، بہت بدنظمی تھی، کوئی تنظیم نہیں تھی، کوئی کنٹرول نہیں تھا، کوئی ڈھانچہ نہیں تھا لیکن میں اپنی کتاب میں یہ بات کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔
’ظاہر سی بات ہے کہ ڈیڑھ لاکھ شہریوں کے درمیان اگر 70 یا 80 ہزار فوجی آ جائيں گے تو کچھ نہ کچھ افرا تفری تو پھیلے گی۔ اگر آج دلی کی جتنی آبادی ہے اس میں 30 لاکھ فوجی آ کر بیٹھ جائیں تو شہر کا کیا حال ہو گا۔‘
ان کے مطابق ’اس کے باوجود جو بہت ہی حیرت انگیز اور عجیب و غریب چیز ہے کہ اگر کمانڈر ان چیف کوتوال سے کہہ رہا ہے کہ چار سپاہی جو ڈیوٹی پر نہیں گئے تھے ان کو پکڑ لاؤ اور چار سپاہی پکڑ لیے جاتے ہیں اور وہ آ جاتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ اچھا نظم و ضبط ہے۔ ‘
’آپ کو محاذ پر چار سو چارپائیاں چاہییں اور وہ آپ کو مل رہی ہیں تو یہ فراہمی کا ایک طریقہ ہے۔ یہ آسمان سے تو نہیں اتر رہیں، کسی نے کہا، کوئی گیا، کوئی لے کر آیا اور فورا ہی اس کا پیسہ دیا گیا۔ یہ تو ایک مثال ہے کہ لڑائی صرف سپاہی نہیں لڑتے ہیں۔ لڑائی جب آپ لڑتے ہیں تو آج کے زمانے میں بھی اگر آپ کو ٹاٹ کی بوریاں چاہییں، آپ کو پانی چاہیے، قلی چاہیے، مزدور چاہیے تو وہ سب ایک سپاہی کے ساتھ چار مزدور ہوتے ہیں تو وہ سب کہاں سے آ رہے تھے؟'

56 برطانوی مارے گئے

12 مئی کی صبح دلی انگریزوں سے پوری طرح خالی ہو چکی تھی لیکن چند انگریز خواتین نے قلعے کے باورچی خانے کے پاس کچھ کمروں میں پناہ لے رکھی تھی۔ باغیوں نے بادشاہ کی مخالفت کے باوجود ان سب کو قتل کر دیا۔
رعنا صفوی کہتی ہیں ’11 اور 12 کو جب انھوں نے حملہ کیا اور انگریزوں پر وار کیا تو اس وقت کافی انگریز تو شہر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور کافیوں کو انھوں نے مارا بھی۔ کچھ عورتوں نے قلعے میں آ کر پناہ لی۔ وہیں پر انھوں نے دشمنی میں 56 لوگوں کو مار ڈالا۔ ان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے جبکہ ان میں ایک دو مرد بھی تھے۔‘
ان کے مطابق ’بہادر شاہ ظفر کے خلاف جب مقدمہ چلا تو ان کے خلاف سب سے بڑا الزام یہی تھا کہ انھیں آپ نے مروایا۔ حالانکہ ظہیر دہلوی کی کتاب اگر پڑھیے تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت 1857 کے غدر کے وقت قلعے میں موجود عینی شاہدین تھے وہ بتاتے ہیں کہ بادشاہ نے بہت کہا تھا کہ یہ کسی بھی مذہب میں نہیں لکھا ہے کہ تم معصوموں کو مارو۔‘

انگریزوں کی واپسی اور سزائیں

کچھ دنوں کے بعد ہی بغاوت کرنے والوں کے قدم اکھڑنے لگے اور دلی سے بھاگ نکلنے والے انگریزوں نے واپسی کی۔ انبالہ سے آنے والے فوجیوں نے بازی پلٹ دی اور انگریز ایک بار پھر دلی میں داخل ہو گئے۔

اور پھر شروع ہوا سزاؤں کا سلسلہ۔ اس وقت کے ایک برطانوی سپاہی، 19 سالہ ایڈورڈ وائبرڈ نے اپنے چچا گورڈن کو ایک خط میں لکھا تھا ’میں نے اس سے پہلے بھیانک مناظر دیکھے ہیں ، لیکن کل میں نے جو کچھ دیکھا ہے، میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ میں پھر کبھی ایسا منظر نہیں دیکھوں۔‘
’خواتین کو چھوڑ دیا گیا، لیکن اپنے شوہروں اور بیٹوں کی موت کے بعد ، ان کی چیخیں اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ مجھے ان پر ترس نہیں آیا لیکن جب میری آنکھوں کے سامنے معمر افراد کو جمع کر کے مار دیا گیا تو یہ میں مجھ پر اثرانداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔‘
محبوب فاروقی کہتے ہیں ’سنہ 1857 میں بہر حال افراتفری تھی اور کیوں نہ ہو کہ آپ اس بڑے پیمانے پر ایک ورلڈ پاور اور سپر پاور کے ساتھ لڑائی کر رہے ہیں تو ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ شہر میں جو کچھ جیسا تھا چلتا رہے گا۔ ظاہر سی بات ہے شہر میں شدید دہشت کا ماحول تھا، شک کا ماحول تھا، لڑائی چل رہی تھی تو اس قسم کا ماحول تو ہو گا۔‘
تاہم ان کے مطابق ’1857 کی بغاوت کے بعد جس طرح سے شہر اور شہریوں کو جبر کا نشانہ بنایا گیا اور جو انگریزوں نے کیا اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔
’دلی کے تمام شہریوں کو چھ مہینے تک شہر کے باہر رکھا گیا اور دلی والوں نے چھ مہینے تک سردی اور برسات میں کھلے آسمان تلے گزارے جبکہ محلوں کے محلے لوٹ لیے گئے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’مرزا غالب بھی اسی دلی میں تھے۔ دیکھیں کہ وہ اس سب سے کتنے دہشت زدہ ہوئے کہ انھوں نے 1857 کے بعد سے اپنی زندگی کے باقی 12 برسوں میں کل 11 غزلیں کہی ہیں۔ یعنی ایک سال کی ایک غزل بھی نہیں بنتی ہے۔ تو شاعر مرزا غالب اور فنکار مرزا غالب یا جو وہ پوری کھیپ تھی 1857 کے بعد ختم ہو گئی۔‘

سنہ 1857 کے بعد سے ہندوستانی کبھی اس اعتماد کے ساتھ نہ انگریزوں سے مل پائے نہ بات کر پائے جو اس سے قبل ان میں موجود تھی۔ 1857 کی لڑائی ہندوستانی کی آخری لڑائی تھی جو وہ اپنی شرائط پر لڑ رہے تھے۔ اس کا مطلب اپنے ہتھیاروں پر نہیں بلکہ اپنی ذہنی شرائط پر، اپنی نفسیاتی شرائط پر۔‘

بادشاہ نے ہتھیار ڈال دیے

انگریز دلی میں داخل ہوئے تو بہادر شاہ ظفر لال قلعے کے عقب سے اپنی پالکی میں بیٹھ کر پہلے حضرت نظام الدین کے مزار پر گئے اور پھر وہاں سے ہمایوں کے مقبرے پر جہاں پر 18 ستمبر 1857 کو کیپٹن ولیم ہاجسن نے انھیں گرفتار کیا۔
بعد میں سی پی ساؤنڈرس کو تحریر کردہ خط میں انھوں نے اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’بادشاہ، مرزا الٰہی بخش اور مولوی کے ساتھ ایک پالکی پر باہر آئے۔ ان کے پیچھے بیگم اپنے بیٹے مرزا جوان بخت اور والد مرزا قلی خان کے ساتھ باہر نکلیں۔ پھر پالکیاں رک گئیں اور بادشاہ نے پیغام بھجوایا کہ وہ میرے منہ سے سننا چاہتے ہیں کہ ان کی جان بخش دی جائے گی۔‘
’میں اپنے گھوڑے سے اترا اور میں نے بادشاہ اور ان کی بیگم کو یقین دلایا کہ ہم آپ کی زندگی کی ضمانت دیتے ہیں بشرطیکہ کہ آپ کو بچانے کی کوئی کوشش نہ کی جائے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ ان کی بےعزتی نہیں کی جائے گی اور ان کے وقار کو برقرار رکھا جائے گا۔‘
بہادر شاہ ظفر کی جان تو بخش دی گئی لیکن ان کے تین بیٹوں خضر سلطان، مرزا مغل اور ابوبکر کو ہتھیار ڈالنے کے باوجود گولی مار دی گئی۔
ولیم ہڈسن نے اپنی بہن کو ایک خط میں لکھا ’میں فطرتاً بےرحم نہیں ہوں لیکن مجھے ان تین بدبختوں سے چھٹکارا پا کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔‘

جب بادشاہ قیدی بنا

بادشاہ کو لال قلعے کی ایک کوٹھڑی میں ایک معمولی قیدی کی طرح رکھا گیا۔
سر جارج کیمبل اپنی کتاب ’میموائرز آف مائی انڈین کریئر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بادشاہ کو ایسے رکھا گیا جیسے کسی جانور کو پنجرے میں رکھتے ہیں۔‘
بہادر شاہ ظفر کی نگرانی کے لیے تعینات لیفٹننٹ چارلس گریفتھ نے اپنی کتاب ’سیج آف دہلی‘ میں لکھا: ’ایک عام سی چار پائی پر مغل بادشاہ کا آخری نمائندہ بیٹھا ہوا تھا۔ ان کی لمبی سفید داڑھی تھی جو ان کے پیٹ تک آ رہی تھی۔ انھوں نے سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اسی رنگ کا صافہ باندھ رکھا تھا۔ ان کے پیچھے دو اردلی کھڑے ہوئے تھے جو مور کے پنکھ سے بنے پنکھے سے ان پر پنکھا جھل رہے تھے۔ ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا، ان کی آنکھیں زمین پر ہی گڑی ہوئی تھیں۔‘
ان کے مطابق ’بادشاہ سے تین فٹ دور ایک دوسری چارپائی پر ایک برطانوی افسر بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے دونوں طرف سنگینیں لیے انگریز سنتری کھڑے تھے جنھیں حکم تھا کہ اگر بادشاہ کو بچانے کی کوشش کی جائے تو وہ فوراً اسے مار ڈالیں۔‘

بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی اس حد تک بےعزتی کی گئی کہ انگریزوں کے گروہ کے گروہ انھیں دیکھنے آتے تھے کہ مغل بادشاہ دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں۔
محمود فاروقی کہتے ہیں: ’بہادر شاہ ظفر کو قید کرنے کے بعد سے لال قلعے کی ایک کوٹھڑی میں رکھا گیا تھا جہاں انگریز سیاح آ کر جس طرح آپ لال قلعے کو آج دیکھنے جاتے ہیں اسی طرح وہ ان کی کوٹھری میں جا کر انھیں دیکھتے تھے کہ یہ ہیں بہادر شاہ ظفر۔
’جس آدمی کا، جس بادشاہ ہندوستان کا دلی میں ہی یہ حال تھا تو ظاہر سی بات ہے کہ انھوں نے اپنی موت کی حسرت میں ہی باقی سال گزارے۔ یہاں سے انھیں رنگون بھیجا گیا اور اسی کے آس پاس رنگون کے بادشاہ کو مہاراشٹر لایا گیا۔‘
’یہ انگریزوں کی دنیا بھر میں حکومت تھی کہ بادشاہوں کی تجارت ادھر سے ادھر ہو رہی تھی۔ بہادر شاہ کے آخری ایام افسوس ناک اور دردناک ہیں۔ یہی وہ صورتحال تھی جس میں انھوں نے کہا:
’کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں‘
’ان پر جو کچھ گزرنا تھی میرا خیال ہے کہ سنہ 57 کے دوران اور اس کے بعد ان پر گزر چکی تھی۔ اس سے برا کیا ہو گا کہ تیموریہ جانشین اور بادشاہ ہندوستان کو آپ نے ایک کوٹھڑی میں رکھا ہوا ہے اور انگریز عورتیں اور بچے آ رہے ہیں ان کو دیکھنے کے لیے کہ اچھا یہ تھا بہادر شاہ!‘

بادشاہ کی موت

سات نومبر 1862 کو رنگون کے ایک جیل نما گھر میں کچھ برطانوی فوجی ایک 87 سالہ شخص کی لاش کو احاطے میں کھودی گئی قبر میں دفنانے کے لیے لے کر چلے۔ جنازے میں مرنے والے کے دو بیٹے اور ایک مولوی شامل تھے۔ کسی خاتون کو جنازے میں شرکت کی اجازت نہ تھی۔
بازار میں کچھ لوگوں کو اس کی بھنک پڑی تو انھوں نے جنازے میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن مسلح سپاہیوں نے انھیں قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا۔
دفنانے سے قبل فوجیوں نے قبر میں چونا ڈال دیا تاکہ لاش جلد از جلد گل کر مٹی میں مل جائے۔
ایک ہفتے بعد برطانوی کمشنر ایچ این ڈیویز نے لندن بھیجی گئی رپورٹ میں لکھا ’اس کے بعد میں بقیہ شاہی قیدیوں کی خبر لینے ان کی رہائش گاہ پر گیا۔ سب ٹھیک ٹھاک ہیں اور کسی پر اس بوڑھے کی موت کا اثر دکھائی نہیں دیا۔ ان کی موت گلے میں فالج کی وجہ سے ہوئی۔
’تدفین کی صبح پانچ بجے ان کا انتقال ہوا۔ ان کی قبر کے چاروں طرف بانس کی باڑ لگائی جا چکی ہے۔ جب تک یہ باڑ ختم ہو گی تب تک وہاں گھاس اس زمین کو ڈھانپ چکی ہو گی اور کسی کو علم نہیں ہو گا کہ مغلوں کا آخری بادشاہ یہاں دفن ہے‘۔

اتوار, اپریل 27, 2025

خون کا آخری قطرہ مہمان کی نذر

خون کا آخری قطرہ مہمان کی نذر               
Urduduniyanews72 
کشمیر کے ضلع پہلگام میں واقع بیسرن گھاٹی کا واقعہ نہایت ہی دردناک والمناک ہے۔ گزشتہ منگل کے دن ۲۲/اپریل ۲۰۲۵ءکو نہتے اور مظلوم۲۸/ سیاحوں کودہشت گردوں نےموت کی نیند سلادیا ہے۔اس واقعے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ سبھی بیسرن گھاٹی میں جسے "منی سویزرلینڈ" کہا جاتا ہے سیر و سیاحت کے لیے آئے تھے۔کشمیر میں باہر سے آنے والوں کی حیثیت مہمان کی سی ہے۔یہاں کی اکثریت آبادی مسلمانوں کی ہے۔ مذہب اسلام میں مہمانوں کابڑا مقام ہے، ارشاد نبوی ہے: "جو شخص خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے "(بخاری)
 اس حدیث کا تقاضا یہ ہےکہ مہمانوں کی عزت کی جائے، ان کی تکریم کی جائے، ان کی ضیافت کے ساتھ ان کی حفاظت کا بھی انتظام کیا جائے، یہ چیزیں ایک مسلمان پر صاحب ایمان ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ۲۸/سیاحوں کی جان چلی گئی، دہشت گردوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا،یہ سیاح ہی نہیں بلکہ کشمیری مسلمانوں کے لئے مہمان کا درجہ رکھتے تھے، انہیں بچایا نہیں جاسکا، ان کی جانی حفاظت نہیں ہوسکی، اور یہ سب کچھ چونکہ کشمیر میں رونما ہوا، لہذا اس بات کا سب سے زیادہ صدمہ کشمیری مسلمانوں کو پہونچاہےاور واقعی یہ لائق افسوس امر ہے۔
 آج اسی پیغام کو دینے کے لیے کشمیری عوام سڑک پر ہیں، بازار بند ہیں، مساجد کے منبر و محراب سے اس بزدلانہ حملے کی مذمت ہو رہی ہے، "ٹورسٹ ہماری جان ہیں"، ٹورسٹ ہماری شان ہیں"کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔کشمیری لوگ یہ بھی کہ رہے ہیں کہ ہم ان سیاحوں سے پیسے کماتے ہیں، ان سے ہماری روزی روٹی چلتی ہے، وہ شہید نہیں ہوئے ہیں دراصل ہم شہید ہو گئے ہیں،ہم ان کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ دے سکتے ہیں"
کشمیریوں کی معاش کابڑا دارومدار سیاحت پر ہی ہے،اس تکلیف دہ دہشت گردانہ حملے کے بعد سیر وسیاحت پر برا اثر واقع ہونا فطری بات ہے، عموما یہ کہا جاتا ہے کہ مہمانوں کی آمد سے گھر میں برکت ہوتی ہے، اسی عنوان پر جناب 
 ماجد دیوبندی نے بڑا اچھا مصرع نظم کیا ہے کہ 
 اللہ رے میرے گھر کی برکت نہ چلی جائے
 دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے
کشمیریوں کے لیے یہ مہمان برکت ہی نہیں بلکہ رزق کا سامان ہیں، ان کی آمد موقوف ہونے کا سیدھا مطلب ان کا حقہ پانی بند ہونا ہے، یہ ان کے لئے بہت زیادہ فکر وتشویش کی بات ہے۔
قرآن کریم میں مہمان فرشتوں کا ایک قصہ بھی مذکور ہےکہ حضرت لوط علیہ السلام کے پاس کچھ مہمان تشریف لائے، گاؤں والوں کو خبر ہوئی تو ان پر حملہ کرنا چاہا،حضرت لوط علیہ السلام نے مدافعت و بچاؤ کی بھرپور کوشش کی اور حملہ آوروں سے یہ کہاکہ : یہ میرے مہمان ہیں،ان کے بارے میں مجھ کوفضیحت نہ کرو، اور خدا سے ڈرو مجھے رسوا نہ کرو"( سورہ حجر)
 علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ علیہ نےاس قرآنی واقعہ سے یہ استدلال کیا ہے کہ مہمانوں کی حفاظت و مدافعت بھی ایک میزبان کے ضروری امر ہے، مہمان کے منجملہ حقوق میں سے یہ بھی ایک حق ہے۔ بحمداللہ اس آیت کی عملی تفسیر بھی ہمیں پہلگام میں دیکھنے کو ملی ہے۔کشمیری مسلمانوں نے جو وہاں موجود تھے ان کی حفاظت و مدافعت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس نازک ترین وقت میں بھی اپنے مہمانوں کو تنہا نہیں چھوڑا ہے جبکہ اپنے بھی ساتھ چھوڑ کر بھاگے جارہے تھے، قیامت کا منظرتھا،نفسی نفسی کا عالم تھا، تابڑ توڑ گولیاں چل رہی تھیں، سبھی اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے ،وہیں یہ کشمیری بھائی اپنے مہمان کی حفاظت و مدافعت میں لگے ہوئے رہے۔
ایک ویڈیو جو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہورہی جسمیں ایک جوان ایک زخمی بچے کو اپنی پشت پر لاد کر دوڑتا چلا جارہا ہے، اس کا نام ساجد ہے اور پہلگام ہی کا رہنے والا ہے، جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہ واضح کیا کہ تنہا میں نے سیاحوں کی مدد نہیں کی ہے بلکہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے کندھے پر زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر محفوظ مقامات کو منتقل کر رہے تھے،وہ گھوڑے والے جو سیاحوں کو بیسرن وادی پہنچانے کا ذریعہ تھے انہوں اپنے مہمانوں کی حفاظت کا سب سے زیادہ حق ادا کیا ہے۔ گولیوں کے خوف سےوہ اپنی جان بچا کر بھاگے نہیں بلکہ بیسرن میں ڈٹے رہے، اور مظلوموں کی مدد کرتے رہے۔
بھائی ساجد کا یہ پیغام بھی بہت اہم ہے جو انہوں نے ملک کے تمام لوگوں کو آن کیمرہ دیاہے کہ:" افواہ میں نہ پڑیں، یہ قتل اپ کے بھائی کا نہیں، بلکہ ہم کشمیریوں کا ہوا ہے۔ پورے کشمیر میں اس وقت ماتم ہے، ایک ساجد ویڈیو میں نظر ارہا ہے مگر بیسرن میں ہزاروں ساجد موجود تھے،اوروہ اپنے مہمانوں کی حفاظت و مدافعت کر رہے تھے،جنکی ویڈیوزنہیں آسکی ہیں"۔
 دوسرا نوجوان جس کا نام سید عادل حسین شاہ ہے ان کی کہانی تو مذکورہ قرآنی آیات کی مکمل عملی تفسیر ہے۔عین اس وقت جب سبھی لوگ بھاگ رہے تھے، افرا تفری کا ماحول تھا، گولیاں چل رہی تھیں، سید عادل حسین شاہ اپنے گھوڑے پر لادکر ٹورسٹ کو لے جا رہے تھے، ایک دہشت گرد نے اس سیاح کو اپنی بندوق کا نشانہ بنانا چاہا تو بے ساختہ وہی جملہ ان کی زبان سے نکل گیا جو قرانی ہے اورخدا کے نبی حضرت لوط علیہ السلام کی زبانی ہےکہ:"یہ میرے مہمان ہیں، ان کے ساتھ ایسا مت کرو!، اسی پرسید عادل حسین شاہ نے اکتفا نہیں کیا بلکہ ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوگئے اور اپنے مہمان کی حفاظت میں حسینی کردار ادا کیا ہے، دہشت گردوں سے مقابلہ کیا ہے، اس رائفل کی نوک کا خود عادل نے سامنا کیا ہے جوٹورسٹ پر چلنےجارہی تھی،گولی چلتی رہی مگر وہ ہار نہیں مانے،آخری سانس تک لڑتے رہےاور اپنے خون کا اخری قطرہ مہمانوں کے نذرکردیا ہے۔ کشمیریوں نے جو کچھ اپنی زبانی دعوے میں کہا ہےاس کی یہ عملی دلیل بھی ہے،اللہ تعالٰی اس قربانی کو قبول فرمائےاورخیر کثیر کا ذریعہ بنائے، آمین 
 آج ملک میں پہلگام حادثے سے جہاں نفرت اور دہشت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے،وہیں سید عادل حسین شہید کی یہ حسینی شہادت خوب خوب رنگ لارہی ہے،نفرت پھیلانے والوں کو منھ کی کھانی پڑ رہی ہے، پریاگ راج کے بھاجپاایم ایل اے ہرش وردھن واجپئی جی بھی خود کو یہ کہنے پر مجبور پاتے ہیں کہ ;"میں ہندو ہوں، لیکن اس مسلمان خچر والے کا بھی خیال رکھیے گاجس نے نہتے روپ سے ایم فور رائفل اتنکیوں سے چھیننے کی کوشش کی اور اسی میں اس کی جان چلی گئی ۔کشمیریوں کے بارے میں سوچیے گا ،جو مسلمان ہیں، اور اج سری نگر میں شٹ ڈاؤن چل رہا ہے، بھارتی مسلمانوں کو پاکستانوں سے کمپیئر مت کیجئے گا۔
واقعی سید عادل شاہ نے اپنی اس قربانی سےپورے ملک کے انصاف پسند لوگوں کی انکھیں کھول دی ہے اور اسلام کا یہ پیغام عملی طور پر دیا ہے کہ ایک مہمان کی قیمت صاحب ایمان کی نظر میں کیا ہے؟ ہم ان کی قربانی کو سلام کرتے ہیں۔

ہمایوں اقبال ندوی
 نائب صدر جمعیت علماء ارریہ 
 و جنرل سیکریٹری،تنظیم ابنائے ندوہ پورنیہ کمشنری
26/4/2025

جمعرات, اپریل 17, 2025

وقف ایکٹ پر عدالت عالیہ کا موقف

وقف ایکٹ پر عدالت عالیہ کا موقف              
Urduduniyanews72
     وقف ترمیمی بل جو دونوں ایوانوں سے پاس ہوتے ہوئے صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد ایکٹ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔اس کے عملی نفاذ کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے، اس سے مسلم تنظیموں اور وطن عزیز کے انصاف پسند لوگوں میں بڑی مایوسی پیدا ہوئی ہے،پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، تکلیف دہ بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کی محنت رائیگاں چلی گئی ہے،پورا سال اسی ایک بات کو سمجھانے میں گزر گیا کہ یہ وقف ترمیمی بل آئین ہند کے خلاف ہے۔ ضابطہ یہی ہے کہ قانون ساز پارٹی بھی ملکی آئین کے خلاف دستور سازی نہیں کرسکتی ہے، اس کا حق اسے قطعی حاصل نہیں ہے۔اتنی صاف اور سیدھی بات بھی حکومت وقت کی سمجھ میں نہیں آسکی کہ یہ بل جمہوری ملک میں بسنے والے شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، ارٹیکل 14،15 کے ذریعے یہاں کے ہر شہری کو مساوات کا حق حاصل ہے، ارٹیکل 25 کے ذریعے مذہب کی ازادی حاصل ہے، ارٹیکل 26 کے ذریعے مذہبی امور کے انتظام کی ازادی کا حق دیا گیا ہے، یہ بنیادی حقوق ہیں،ان سے کھلواڑ نہیں کیا جاسکتا ہے، جبکہ وقف امیڈمینٹ بل ان تمام حقوق پر کھلا ہوا حملہ ہے،پارلیمنٹ میں مذکورہ بالا دفعات کی روشنی میں مدلل اور مفصل بحث بھی ہوئی ہے، غير مسلم ممبران پارلیمنٹ نے تواس عنوان پرتاریخ رقم کی ہے اوربہترین مثال پیش کی ہے،،دنیا بھر میں یہ پیغام گیا ہے اور ہر کسی نے اس کی بڑی پذیرائی بھی کی ہے، اپوزیشن ممبران نے اس بات کو بڑی سنجیدگی سے ہاؤس میں پیش کیا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کامعاملہ نہیں ہے، بلکہ ملک کی آئین کی بقا اور اس کےتحفظ کا مسئلہ ہے، اگر اس پرفوری قدغن نہیں لگایا گیا تو ملک کا آئین ختم ہوجائے گا، چنانچہ ان تمام احباب نےاپنی ذمہ داری کا بروقت خیال کیا اور اس لمحہ کو یادگار اور تاریخ سازبھی بنادیا ہے،ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سب کاوشیں دونوں ایوانوں میں سود ہوگئیں ، حزب اقتدار کو قانون بنانا تھا سو بنا لیا گیا، اوربڑی تیزی میں اس کے نفاذ کا بھی اعلان کردیا گیا، یہ سب دیکھ کر انصاف پسند لوگوں میں بڑی بے چینی پیدا ہوئی، بالآخر مجبور ہوکر عدالت عالیہ میں اس قانون کو چیلینج کیا گیا، آج 16/اپریل 2025۶ کی تاریخ میں ان تمام عرضیوں پر پہلی سماعت کی گئی ہے اور بحمدللہ بہت ہی خوش آئندرہی ہے،پہلی شنوائی میں سپریم کورٹ نے یہی باتیں کہی ہے کہ جو گزشتہ ایک سال سے کہی جارہی ہے،جو بات گزشتہ ایک سال سے حکومت کی سمجھ میں نہیں آسکی وہ عدالت عالیہ نے اپنی پہلی سماعت میں واضح کردیاہےاور یہ کہ دیاہے کہ ;یہ پوری طرح دھارمک معاملہ ہے اور اس میں کسی طرح کی مداخلت سویکار نہیں ہے،جن آئینی دفعات کی روشنی میں اس قانون کے خلاف درخواستیں پیش گئی ہیں اور انمیں یہ بات مشترک ہے کہ یہ ملکی آئین کے خلاف ہے گویاعدالت عالیہ نے بھی اسے تسلیم کیا ہے، مذکورہ عدالتی تبصرہ سے یہ دعوٰی کیا جاسکتا ہے، علاوہ ازیں ترامیم کےاہم نکات کو سوالوں کے ذریعہ بھی آج سپریم کورٹ نے صاف کیا ہے اور یہ پوچھ لیا ہےکہ کہ; کیا آپ کسی ہندو بورڈ میں کسی مسلمان کو جگہ دیں گے، چیف جسٹس سنجید کھنہ جی سہ رکنی بینچ کا بذات خود حصہ ہیں، انہوں نے یہ تشویش ظاہر کی ہے کہ وہ وقف کی جائیداد جو طویل عرصے سے وقف کے طور پر استعمال ہورہی ہے اور اس کا کوئی وقف نامہ نہیں ہے، اگر اسے غیر موقوفہ قرار دیا جائے تو سنگین نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے۔
وقف کمیٹی کے حوالہ سے بھی باتیں آئی ہیں، عدالت عالیہ کا موقف یہی ہے کہ مرکزی کمیٹی میں مرکزی وزیر اقلتی امور کے علاوہ غیر مسلم کو جگہ نہیں مل سکتی ہے، اور ریاستی وقف کمیٹی میں ریاستی وزیر اقلتی امور کے علاوہ غیر مسلم نہیں ہوسکتے ہیں۔
عدالت عالیہ نے واقعی پہلی بحث میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ہے،یہ اگر چہ کوئی فیصلہ نہیں ہے مگر اس سے یہ تو واضح ہوگیا ہے کہ ہمارے غم کو ملک کی بڑی عدالت نے سمجھ لیا ہےاور یہ آنسو جو جاری ہیں یہ بے سبب نہیں ہیں بقول عاجز رحمہ اللہ 
یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے                  
مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے                  
بہت دشوار ہے سمجھانا غم کا                   
سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے                 
ہمایوں اقبال ندوی
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
16/4/2025

بدھ, مارچ 26, 2025

ویشالی کی بیٹی ثانیہ شفق نے بہار بورڈ انٹر آرٹس (بارہویں) میں کامیابی کا پرچم لہرایا

ویشالی کی بیٹی ثانیہ شفق نے بہار بورڈ انٹر آرٹس (بارہویں) میں کامیابی کا پرچم لہرایا
Urduduniyanews72
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ثانیہ شفق بنت ذوالفقار علی خان کو انٹر آرٹس (بارہویں) میں کامیابی پر مبارکبادی ودعائیہ نشست کا انعقاد

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 26 /مارچ 2025 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم )
ثانیہ شفق ساکن مجھولی ضلع ویشالی بہار نے انٹر آرٹس میں امتیازی نمبر سے کامیابی حاصل کر کے ریاست بہار میں چھٹا اور ضلع ویشالی میں دوسرا مقام حاصل کیا ہے ۔ ثانیہ شفق نے 467نمبر حاصل کرکے یہ کارہائے نمایاں انجام دیا ہے، ثانیہ شفق چک غلام الدین ہائی اسکول بیلسر ویشالی کی طالبہ ہیں ، انہوں نے محض اساتذۂ کرام کی نگرانی اور ذاتی مطالعہ کے ذریعہ اس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے والد ذوالفقار علی خان خود اسی ادارہ میں انگریزی کے استاذ ہیں، 
اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن میں ایک دعائیہ نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں قوم وملت کے تمام بچوں کی کامیابی اور اچھے مستقبل کے لئے دعا کی گئ،اور اظہار خیال کیا گیا، 
 محمد ضیاء العظیم اردو معلم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ثانیہ شفق چک غلام الدین ہائی اسکول کی ہونہار طالبہ ہیں، انہوں نے جہد مسلسل کے ساتھ یہ کارہائے نمایاں انجام دیا ہے، یقیناً ان کی کامیابی ہم سب کی کامیابی ہے، ہم ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے مستقبل کو تابناک بنائے ۔
ذوالفقار علی خان انگریزی معلم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کرتے ہوئے کہا کہ کامیابی حاصل کرنے والے بچوں کو زندگی کی یہ کامیابی بہت بہت مبارک ہو، میں بحیثیت والد اور استاذ ان تمام والدین، اساتذۂ کرام، اور گارجین وسرپرست کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے طلبہ وطالبات کی بھر پور رہنمائی کی جن کاوشوں کی بنا پر ایک اچھا نتیجہ ابھر کر سامنے آیا ۔ محترم انیل کمار ہندی استاذ نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ثانیہ شفق ایک ہونہار طالبہ ہے جس نے ویشالی ضلع کا نام روشن کرکے ہم سبھوں کو ایک عظیم اور نایاب تحفہ دیا ہے، میں بحیثیت استاذ ایسے شاگردہ پر فخر محسوس کرتا ہوں، ڈاکٹر امریندر کمار صدر مدرس نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی کے طلبہ وطالبات نے ہمیشہ عمدہ اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اور ثانیہ شفق نے اس روایت کو برقرار رکھا، ہم ان کے والدین سمیت تمام اساتذہ کرام کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صالحہ صدیقی چیئر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے خصوصی طور پر ثانیہ شفق اور عمومی طور پر ان تمام طلبہ وطالبات کو مبارکبادی پیش کی جنہوں نے اساتذہ کی نگرانی اور ان کی رہنمائی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، موصوفہ نے کہا کہ اس دفعہ کا نتیجہ اس بات کی علامت ہے کہ قوم وملت کے طلبہ وطالبات تعلیمی میدان میں بیدار ہورہے ہیں جو اچھے مستقبل کی علامت ہے، میں دعا گو ہوں کہ رب العالمین انہیں مزید کامیاب وکامران بنائے ۔ مولانا محمد عظیم الدین رحمانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً تعلیم اچھی سیرت سازی اور تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے، 
سماج ومعاشرہ میں اگر ایک بھی فرد کامیاب ہوتا ہے تو اس کا سہرا پورے سماج ومعاشرہ کے سر باندھا جاتا ہے، یقیناً یہ کامیابی صرف ان بچوں اور ان کے والدین کی نہیں بلکہ پورے سماج ومعاشرہ کی کامیابی ہے، تمام اساتذہ گارجین وسرپرست، طلبہ وطالبات قابل رشک ہیں جو تعلیم وتربیت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔
مبارکبادی پیش کرنے والوں میں ڈاکٹر نسرین بانو، روپیش کمار، ستروگھن رام،ابھے کمار، روپم کماری، رشمی رانی، ناہید پروین، مولانا محمد عظیم الدین رحمانی، فاطمہ خان، عفان ضیاء، زیب النساء، عفیفہ فاطمہ، ازرہ فردوس کا نام مذکور ہے۔
واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن ایک سماجی ،فلاحی اور ادبی تنظیم ہے جو دیگر ادبی خدمات میں سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے، ٹرسٹ قوم وملت کے طلبہ وطالبات کی تعلیمی میدان میں بھر پور رہنمائی کرتی ہے، ساتھ ساتھ ان شعراء وادباء، صحافی، قلمکار کو تلاش کرتی ہے جو ایک اچھے فنکار ہونے کے باوجود بھی دنیائے ادب انہیں نظر انداز کرتی ہے اور وہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرکے ان کے علوم وفنون سے دنیائے ادب کو متعارف کراتی ہے ، مذکورہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شہر پٹنہ کے قلب میں واقع مسلم اکثریتی علاقہ پھلواری شریف میں ایک ادارہ بھی چل رہا ہے جہاں بچے بچیاں اپنی علمی وادبی پیاس بجھا رہے ہیں۔

منگل, مارچ 18, 2025

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں شاندار سالانہ نتیجہ اور تقسیم انعامات کی تقریب کا انعقاد

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں شاندار سالانہ نتیجہ اور تقسیم انعامات کی تقریب کا انعقاد
Urduduniyanews72
مظفر نگر ۱۷ مارچ ۲۰۲۵ تسمیہ جونیئر ہائی اسکول نے پیر کو سالانہ نتیجہ اور تقسیم انعامات کی ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب کسی بھی اسکول کے لئے ایک اہم موقع ہوتا ہے جو طلبہ کے تعلیمی سفر میں ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ اساتذہ، طلباء اور والدین کے لئے فخر اور جذبات سے بھرا ہوتا ہے۔

تقریب کے وقار کو بڑھانے کے لئے مہمان خصوصی عزت مآب پنکج ملک (ایم، ایل، اے چر تھاول) موجود رہے۔ ساتھ ہی مہمان ذی وقار گوہر صدیقی (سماجی کارکن) نے پروگرام میں شرکت کی۔

پروگرام کے آغاز میں اسکول کے قائم مقام پرنسپل جناب جاوید مظہر نے استقبالیہ تقریر پیش کی۔ انہوں نے اسکول کی کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تسمیہ جونیئر ہائی اسکول تعلیمی میدان میں بہترین کام کر رہا ہے اور طلباء کو نہ صرف تعلیمی بلکہ اخلاقی اور سماجی طور پر بھی با اختیار بنا رہا ہے۔ انہوں نے طلباء کے روشن مستقبل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور والدین سے گزارش کی کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

مہمان خصوصی پنکج ملک (ایم ایل اے چر تھاول) نے اپنے خطاب میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ معاشرے کی ترقی کا دارومدار تعلیم یافتہ شہریوں پر ہے۔ بچے ہمارے مستقبل کی بنیاد ہیں اور ہمیں انہیں بہتر تعلیم اور اقدار دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

مہمان ذی وقار گوہر صدیقی (سماجی کارکن) نے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم صرف ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے۔ صرف محنت، لگن اور ایمانداری سے مطالعہ ہی بچوں کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔

ہونہار طلباء کو اعزاز سے نوازا گیا اس موقع پر تعلیمی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اسکول کے طلباء کو اعزاز سے نوازا گیا۔ انعامات حاصل کرنے والے طلباء میں شامل ہیں:

عائرہ قریشی، عمرہ دانش، ولیہ، یو کے جی (جی) حمزه ،صمد، عاكف ۔ یو کے جی (بی) عبداللہ صدیقی، ہدایہ سمیہ (درجہ -۱) فاطمہ ذکرہ، فیضان (درجہ ۲) نور المدیحہ، زینب منصوری، شاہ باز (درجہ ۳) حمیرا عرفان، فاطمہ سمائیرا (درجہ ۴) زویا قریشی، ام حبیبہ زین قریشی (درجہ ۵) آمنہ صدیقی، عائشہ جاوید، شیرین (درجہ ۶ جی) عبدالصمد عرفان، شعبان، عبدالصمد شہزاد (درجہ ۶ بی) اقراء نبیہ، علما (درجہ ۷ جی) ارمان خان، منا، ارمان (درجہ ۷ بی) اقصیٰ شہرزاد، ام ایمن، ارین روشن (درجہ ۸ جی) محمد ایان، محمد وارث، عبدالرحمان (درجہ ۸ بی)۔

اختتامی تقریب میں جاوید مظہر نے تقریب کو کامیاب بنانے کے لئے تمام اساتذہ، طلباء اور والدین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا "ہمارا اسکول طلبہ کی ترقی کے لئے پرعزم ہے۔ ہم ایک مشن کی طرح تعلیم کو آگے بڑھا رہے ہیں اور بچوں کو نہ صرف علم بلکہ اقدار بھی فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

تقریب کا اختتام قومی ترانے کے ساتھ ہوا۔ تسمیہ جونیئر ہائی اسکول کا عظیم الشان کانووکیشن اسکول طلباء اور والدین کے لئے ایک متاثر کن اور ناقابل فراموش تقریب بن گیا ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...