سیسونتو انڈونیشیا کے ایک غریب مکینک تھے۔ یہاں تک کہ ان کی ویڈیوز نے ان کے ہمسایوں کو سٹارز بنا دیا جبکہ غریب کاشتکاروں پر مشتمل برداری کو ملک کے’یوٹیوب گاؤں‘میں بدل ڈالا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غریب سے امیر بننے کے قصے کا آغاز چار سال پہلے ہوا جب سیسوتنو نے جزیرہ جاوا پر واقع دور دراز کے گاؤں کسگرن میں اپنی آٹو ورکشاپ کو چلانے کے لیے تگ ودو کر رہے تھے۔ انڈونیشیا کے زیادہ تر لوگوں کے لیے نقشے پر ان کے گاؤں کو تلاش کرنا مشکل تھا۔
سیسونتو کے پاس پیسے نہیں تھے اور وہ اپنے بڑھتے ہوئے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اضافی آمدن کے لیے بے چین تھے۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے کباڑ سے کار آمد اشیا تلاش کرنا اور سویابین کی کاشتکاری کافی نہیں تھی۔ سیسونتو نے انڈونیشیا کے ایک انفلوئنسر کے بارے میں ٹیلی ویژن شو دیکھا جنہوں نے آن لائن ویڈیوز پوسٹ کر کے پیسہ بنایا تھا۔ شو دیکھنے کے بعد بالآخر انہوں نے یوٹیوب پر مختصر اور مزاحیہ ویڈیوز اپ لوڈ کرنی شروع کر دیں۔انڈونیشیا کے بہت سارے شہریوں کی طرح ایک لفظ پر مشتمل نام والے 38 سالہ سیسونتو کے بقول: ’کوئی ان ویڈیو کو نہیں دیکھتا تھا اس لیے میں نے انہیں اپ لوڈ کرنا بند کر دیا۔‘
انہوں نے طے کرلیا کہ وہ یوٹیوب سے پیسہ نہیں کما سکتے لیکن ایک دن ایسا آیا کہ وہ اپنے ایک گاہک کی قیمتی موٹرسائیکل ٹھیک کی کوشش میں مصروف تھے کہ انہوں نے مدد کے لیے آن لائن ویڈیوز دیکھنی شروع کر دیں۔ سیسونتو کہتے ہیں کہ مکینک ہو کر بھی انہیں یہ ویڈیوز سمجھ میں نہیں آئیں کیونکہ وہ بہت پیچیدہ تھیں۔امید کا چراغ بجھنے کے بعد سیسونتو نے خراب انجن کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنے طور پر آسان ویڈیوز بنانے کا فصلہ کیا اور اپنے اور اپنی حاملہ بیوی کے فون سے کسی تعطل کے بغیر ویڈیوز بنانی شروع کر دیں۔اپنی شروع کی ویڈیو کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ’میں کانپ رہا تھا اور میرے منہ سے بے ربط جملے نکل رہے تھے۔‘ لیکن دو سال بعد ہی یوٹیوب پر سیسونتو کے سبسکرائبرز کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔
اب وہ ویڈیو ایڈٹ کرنے والی چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ بہت مصروف رہتے ہیں۔ وہ بائیکس ٹھیک کرنے اور ایک مقامی دریا پر مچھلیاں پکڑنے کے لیے جانے کی ویڈیوز بناتے ہیں۔ اپنے بڑھتے ہوئے’کاروبار‘ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سے وہ اپنے خاندان کے لیے مقامی کرنسی میں ماہانہ 15 کروڑ روپیہ (10 ہزار ڈالر) تک کما سکتے ہیں۔ ان کی آمدن کا یہ ذریعہ گاؤں میں زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہا۔افواہیں پھیل گئیں کہ پیسے اکٹھے کرنے میں کامیابی حاصل کرنے والے میکینک سیسونتو کالے جادو سے مدد لینے میں مصروف ہیں۔ کچھ والدین نے اپنے بچوں کو ان کی ورکشاپ پر جانے سے روک دیا۔ انہیں ڈر تھا کہ ان کی کالے جادو کے لیے قربانی دی جا سکتی ہے۔
سیسونتو کے مطابق: ’گاؤں کی نشست گاہ میں ایک اجلاس ہوا جہاں میں نے وضاحت کی کہ میرے کاروبار کا نام یوٹیوب ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔‘سیسونتو نے اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے مفت اسباق کا سلسلہ شروع کر دیا اور اب کسگرن نامی گاؤں میں کم از کم دوسرے 30 دوسرے افراد نے اپنے یوٹیوب چینل شروع کر دیے ہیں جن میں سے بعض کے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔گاؤں کی برداری کے سربراہ سیف الدین کہتے ہیں کہ’پورے علاقے میں کسگرن سب سے زیادہ غریب گاؤں تھا لیکن اب ہم دوسرے دیہات کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس میں نوجوانوں کے لیے بڑی ترغیب ہے۔ اب انہوں نے اپنے موبائل فون کو بےکار کاموں کے لیے استعمال کرنا بند کر دیا ہے۔ وہ ان سے پیسہ بنا سکتے ہیں۔‘
ایک زمانہ تھا جب ممبئی کے مجگاؤں بندرگاہ کا شیر خاں پٹھان نامی ایک غنڈہ ڈاک پر کام کرنے والے قلیوں سے ہفتہ وصولی کیا کرتا تھا۔ جو بھی ہفتہ دینے سے انکار کرتا تھا اس کی زبردست پٹائی ہوتی تھی۔ ڈاک میں کام کرنے والا حاجی مستان یہ سب روزانہ دیکھا کرتا تھا۔ اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ باہر سے آنے والا ایک شخص ڈاک کے اندر داخل ہو کر قلیوں سے ہفتہ وصولی کیسے کر سکتا تھا۔حاجی مستان نے طے کر لیا کہ وہ شیر خاں اور اس کے غنڈوں کا مقابلہ کرے گا۔ اگلے جمعے جب شیر خاں اپنے غنڈوں کے ساتھ ہفتہ وصولی کرنے آیا تو اس نے دیکھا کہ قلیوں کی لمبی قطار سے دس افراد غائب ہیں۔
اس سے قبل کہ وہ کچھ سمجھ پاتا مستان اور اس کے دس ساتھیوں نے شیر خاں اور اس کے غنڈوں پر حملہ کر دیا۔شیر خاں اور اس کے ساتھیوں کے پاس ’رام پوری‘ چاقو ہونے کے باوجود مستان کے چار ساتھی ان سب پر بھاری پڑ گئے۔ شیر خاں کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ جان بچا کر وہاں سے بھاگنا پڑا۔اس واقعے نے حاجی مستان کو قلیوں کا رہنما تو بنایا ہی، ساتھ ہی یہیں سے ‘مستان لیجینڈ’ کا آغاز بھی ہوا۔اسی واقعے کے مناظر کو 1974 میں آنے والی فلم ‘دیوار’ میں فلمساز یش چوپرا نے امیتابھ بچن پر شوٹ کیا تھا۔
حال ہی میں شائع ہونے والی خود نوشت میں مشہور صحافی ویر سنگھوی لکھتے ہیں ’دیوار فلم میں امیتابھ بچن کا کردار حاجی مستان کی زندگی پر مبنی تھا۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ صرف بلہ نمبر 786 کی کہانی صحیح نہیں ہے۔‘سنگھوی بتاتے ہیں کہ ’مستان نے بعد میں مزاحیہ اداکار مُکری کی خود مستان کی زندگی پر مبنی فلم میں کام بھی کیا تھا۔ اس فلم میں ان کی زندگی کی چمک دمک کو دکھایا گیا تھا۔ فلم میں مستان نے اپنے کم ہوتے بالوں کو چھپانے کے لیے کالے بالوں والی ایک وگ پہنی تھی۔’
مستان نے کریم لالہ اور وردراجن مدالیار سے ہاتھ ملایا حاجی مستان نے ابتدائی دنوں میں ہی محسوس کر لیا تھا کہ ممبئی جیسے شہر میں طاقتور بننے کے لیے صرف پیسا ہی کافی نہیں۔ممبئی کے انڈرورلڈ کے بارے میں مشہور کتاب ‘ڈونگری ٹو ممبئی سِکس ڈیکیڈز آف دا ممبئی مافیا‘ میں ایس حسین زیدی لکھتے ہیں ’مستان کو ممبئی میں اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لیے مسل پاور یعنی انسانی شکل میں طاقت کی ضرورت تھی۔ اس کی تلاش میں اس نے دو مشہور ڈانز کریم لالہ اور وردراجن مدالیار سے ہاتھ ملایا۔‘1956 میں حاجی مستان کی دمن کے ڈان سُکر ناراین بکھیہ سے نزدیکیاں بڑھیں۔ جلد ہی دونوں پارٹنر بن گئے اور انھوں نے کچھ علاقے آپس میں بانٹ لیے۔ ممبئی بندرگاہ مستان کا علاقہ تھا تو دمن بندرگاہ بکھیہ کا علاقہ۔
حاجی مستان اور کریم لالہ
حسین زیدی لکھتے ہیں کہ ‘دبئی سے لایا گیا تسکری کا سامان دمن میں اترتا تھا۔ جبکہ دمن سے لایا گیا سامان ممبئی بندرگاہ پر اتارا جاتا تھا تو بکھیہ کے سامان کی نگرانی کی ذمہ داری مستان پر ہوتی تھی۔‘ حاجی مستان نے یوسف پٹیل کو مروانے کے لیے سُپاری دی مستان وارڈن روڈ اور پیڈر روڈ کے درمیان صوفیہ کالج لین کے ایک بنگلے میں رہنے لگے تھے۔ ویر سنگھوی لکھتے ہیں ’میں 1989 میں حاجی مستان کا انٹرویو لینے گیا تھا۔ اس کے باغیچے میں ایک پرانا ٹرک کھڑا رہتا تھا۔ اس ٹرک کے بارے میں مشہور تھا کہ اسی ٹرک کو مستان نے اپنے پہلے کانٹرابینڈ کی ڈیلیوری کے لیے استعمال کیا تھا۔ میں نے ایک بار مستان سے اس بارے میں پوچھا تھا لیکن اس نے ان دعووں کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن اس کی جگہ کوئی بھی اور ہوتا تو وہ بھی ان دعوؤں کو مسترد ہی کرتا۔‘ویر سنگھوی ممبئی انڈرورلڈ کے ایک اور شخص یوسف پٹیل سے بھی اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں ’یوسف کو اپنے پیر ہلانے کی عادت تھی۔ جب وہ ایسا کرتے تھے تہ اکثر ان کی پنڈلیاں نظر آ جاتی تھیں۔ تبھی مجھے معلوم ہوا کہ وہ اپنی پینٹ کے نیچے پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ میں نے آج تک کسی اور کو پینٹ کے نیچے پاجامہ پھنے نہیں دیکھا۔ میں نے آخر کار انھیں کچھ پرانی باتیں یاد کرنے کے لیے راضی کر ہی لیا۔‘
سنگھوی لکھتے ہیں ’انھوں نے مجھے خود بتایا کہ ایک بار حاجی مستان نے ان کے قتل کے لیے کریم لالہ کے غنڈوں کو سُپاری دی تھی۔ وہ سڑک پر چلے جا رہے تھے کہ تبھی دو افراد نے انھیں گولی مار دی۔ اور وہ انھیں مرا ہوا سمجھ کر وہاں سے بھاگ گئے۔ لیکن وہ زندہ تھے۔ انھیں ہسپتال لے جایا گیا اور وہ بچ گئے۔‘
قتل کے الزام میں حاجی مستان اور کریم لالہ کی گرفتاری اس واقعے کا ذکر حسین زیدی نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’ممبئی مافیا کی تاریخ میں پہلی سپاری حاجی مستان نے 1969 میں دس ہزار روپے میں کبھی اپنے ساتھ کام کر چکے شخص یوسف پٹیل کے قتل کے لیے دی تھی۔ یہ کام کریم لالہ کے پشتون نژاد دو غنڈوں کو سونپا گیا تھا۔ انھوں نے پٹیل پر حملے کے لیے منارا مسجد کے پاس کے علاقے کا انتخاب کیا تھا۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’ان دونوں نے ماہ رمضان میں یوسف پٹیل پر بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں گولی چلا دی۔ پٹیل زمین پر گرے اور ان کے باڈی گارڈ نے انھیں بچانے کے لیے ان پر چھلانگ لگا دی۔ حملہ آوروں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن وہاں موجود بھیڑ نے انھیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ یوسف پٹیل کے بازو پر دو گولیاں لگیں، لیکن اس کا باڈی گارڈ زندہ نا بچ سکا۔‘ بعد میں پولیس نے اس معاملے میں حاجی مستان، کریم لالہ اور دیگر گیارہ افراد کو گرفتار کر لیا۔ حاجی مستان اور یوسف پٹیل کے درمیان صلح ویر سنگھوی نے جب حاجی مستان سے اس واقعے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اقرار کیا کہ یہ بات سچ ہے۔ سنگھوی لکھتے ہیں کہ ’مستان نے مجھے بتایا کہ یوسف نے ایک معاملے میں دھوکے بازی کی تھی۔ کوئی بھی حاجی مستان کے ساتھ دھوکے کے بعد زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔‘ سنگھوی کے بقول مستان نے کہا ’جب مجھے بتایا گیا کہ پٹیل مر گیا ہے تو مجھے بہت تسلی ہوئی۔ لیکن بعد میں جب معلوم ہوا کہ یوسف پٹیل بچ گیا ہے تو میں نے اسے اللہ کی طرفٖ سے اشارہ سمجھا۔ اگر اللہ یہ نہیں چاہتا کہ یوسف ابھی مرے تو اس کی رضا کی لاج رکھنی ہو گی۔ کچھ عرصے بعد حاجی مستان اور یوسف پٹیل ایک بار پھر دوست بن گئے۔‘ رخسانہ سلطان اور حاجی مستان کی ملاقات حاجی مستان ہمیشہ سفید رنگ کے کپڑے پہنتے تھے۔ ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ اس سے ان کی شخصیت میں نکھار آ جاتا ہے۔ ویر سنگھوی لکھتے ہیں ’ایک بار اداکارہ امریتا سنگھ کی والدہ رخسانہ سلطان نے مجھے پہلی بار حاجی مستان سے ان کی ملاقات کا قصہ سنایا تھا۔ انھیں کیمے صابن استعمال کرنے کی عادت تھی۔ ان دنوں وہ انڈیا میں نہیں ملا کرتا تھا اور وہ اسے سمگلروں سے خریدا کرتی تھیں۔‘ سنگھوی کے مطابق ’ایک بار انھوں نے ممبئی کے ایک بھیڑ والے بازار میں اپنی کار پارک کی اور صابن خریدنے چلی گئیں۔ سب نے یہی کہا کہ اس صابن کی سپلائی آج کل نہیں آ رہی ہے۔ جب وہ واپس اپنی کار کے پاس لوٹیں تو وہاں لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ جب وہ کار کے اور نزدیک پہنچیں تو دیکھا کی ان کی کار کی پچھلی سیٹ کے ایک حصے پر کیمی صابن کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ان کی کار کے بغل میں سفید کپڑوں میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا۔ وہ پہلے مسکرایا، پھر اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا مجھے حاجی مستان کہتے ہیں۔‘ عام لوگوں میں وردراجن مدالیار کا اثرورسوخ جس وقت حاجی مستان ممبئی کے انڈرورلڈ میں اپنے پیر جمانے کی کوشش کر رہے تھے، ایک اور قلی وردراجن مدالیار ممبئی کے وکٹوریا سٹیشن پر روزی روٹی کمانے میں جُٹا تھا۔ مدالیار کی پیدائش جنوبی انڈیا کی ریاست تمل ناڈو میں ہوئی تھی۔ اس نے تعلیم مکمل نہیں کی تھی لیکن اپنے خاندان میں وہ واحد شخص تھا جو انگریزی اور تمل لکھ اور پڑھ سکتا تھا۔ ممبئی کے مشہور کرائم رپورٹر پردیپ شندے کا خیال تھا کہ ’وردا کے غنڈے عام لوگوں کو ممبئی کا رہائشی بنانے، انھیں راشن کارڈ، غیر قانونی طور پر بجلی اور پانی فراہم کرنے میں مقامی انتظامیہ سے کہیں زیادہ تیز تھے، اور یہی ان کی طاقت کا راز بھی تھا۔‘ ان کے بقول ’ان کی طاقت اتنی زیادہ تھی کہ عام آدمی آنکھ بند کر کے ان کے لیے کام کرتا تھا۔ تمل ناڈو سے آنے والے افراد کی مدد کے لیے وردراجن نے اپنے دو سب سے قابل اعتبار لوگوں کو ذمہ داری دی ہوئی تھی۔‘ حاجی مستان اور وردراجن مدالیار کی ملاقات حاجی مستان اور وردراجن مدالیار دونوں کا تعلق تمل ناڈو سے تھا۔ حسین زیدی ایک قصہ سناتے ہیں ’ایک بار وردا کو پولیس نے کسٹمز کے ڈاک علاقے سے اینٹینا چرانے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ پولیس نے اس سے کہا کہ وہ انھیں وہ جگہ بتا دے جہاں اس نے چوری کا وہ مال رکھا ہوا ہے ورنہ وہ اس کے خلاف تھرڈ ڈگری کے تشدد کا استعمال کریں گے۔‘ انھوں نے بتایا ’وردا لاک اپ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کیا جائے کہ تبھی انگلیوں کے درمیان سگریٹ دبائے ایک شخص جیل کی سلاخوں کے پاس آیا اور ان کے نزدیک آ کر بولا ونکم تھلئیور۔ تمل زبان میں تھلئیور لفظ کا استعمال سربراہ کے لیے ہوتا ہے۔ وردا یہ لفظ سن کر حیران رہ گیا۔‘ وردا سے اس سے قبل اتنی عزت کے ساتھ کسی نے بات نہیں کی تھی۔ ان سے اس انداز میں بات کرنے والا شخص حاجی مستان تھا۔ حسین زیدی کے مطابق ’مستان نے وردراجن سے کہا، تم اینٹینا واپس کر دو۔ میں یہ یقینی بناؤں گا کہ تم اس سے زیادہ کماؤ۔ وردراجن نے پہلے تو اعتراض کیا، لیکن مستان نے ان سے کہا میں تمہیں ایسی پیشکش کر رہا ہوں جسے کوئی عقلمند شخص نہیں ٹھکرائے گا۔ اینٹینا واپس کرو اور سونے کے کاروبار میں میرے پارٹنر بن جاؤ۔‘ وردا نے ان سے پوچھا کہ انھیں اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ مستان نے جواب دیا ’میں تمہاری مسل پاور (عوامی طاقت) کا استعمال کرنا چاہتا ہوں۔‘ حسین زیدی بتاتے ہیں کہ ’اس منظر کے گواہ پولیس والے یہ بات کبھی نہیں بھولے کہ کس طرح سوٹ اور پالش کیے ہوئے جوتے پہنے ایک شخص نے گنوار سے دکھنے والے سفید بنیان اور لنگی پہنے شخص سے ہاتھ ملایا تھا۔‘ مستان، کریم لالہ اور وردا کا اتحاد جیل سے نکلنے کے بعد مستان، وردا کا استعمال اپنے مفاد کے لیے کرنے لگے تھے۔ وردراجن کو عوام کی نبض پتا تھی۔ وہ عام لوگوں کے مسائل سننے کے لیے ہمیشہ گھر پر موجود رہتے تھے۔ مذہبی عقیدے کے پکے ہونے کے سبب وہ ماٹنگا سٹیشن کے باہر بھگوان گنیش کا خیمہ لگانے پر بہت پیسا خرچ کرنے لگے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کے بڑھتے اثر و رسوخ کے حصاب سے خیمے کا سائز بھی بڑھنے لگا۔ ورداجن کی زندگی پر بھی متعدد فلمیں بنائی گئیں، مثال کے طور پر نائکن، دیاوان اور اگنیپتھ۔ فلم اگنیپتھ میں امیتابھ بچن کو وردا کی آواز کی نقل اتارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ادھر مستان کی طاقت میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ حسین زیدی لکھتے ہیں ’مستان بیرون ممالک جو چاندی بھیجتا تھا وہ اتنی مقبول تھی کہ اسے مستان کی چاندی کہا جاتا تھا۔ مستان نے مالابار ہِل میں ایک شاندار بنگلا بنایا اور کئی گاڑیاں خریدیں۔ انھوں نے مدراس کی صبیحہ بی سے شادی کی جس سے ان کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔‘ حسین زیدی کے مطابق ’ستر کی دہائی آتے آتے جنوب اور مغربی ممبئی میں حاجی مستان، وسطی ممبئی میں وردراجن مدالیار اور کریم لالہ کی عوامی طاقت کا ایک زبردست اتحاد قائم ہو گیا۔‘ گینگ وارز میں بیچ بچاؤ حاجی مستان کو پہلے 1974 میں اور پھر 1975 میں ایمرجنسی کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جیل سے آزاد ہونے کے بعد مستان نے سمگلنگ چھوڑ کر خود کو ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں مصروف کر لیا۔ ادھر ممبئی پولیس کے اہلکار یادو راؤ نے وردراجن کو ممبئی سے بھگانے کا بیڑا اٹھایا۔ اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ وردراجن کو آخرکار ممبئی چھوڑ کر مدراس جانا پڑا، جہاں کچھ برسوں بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ اسی کی دہائی میں ممبئی کے عالم زیب اور ابراہیم خاندانوں کے درمیان گینگ وار کا آغاز ہوا۔ حاجی مستان نے ان دونوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کی۔ داؤد ابراہیم اور عالم زیب نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ اب ان دونوں کے درمیان تشدد نہیں ہو گا۔ لیکن اگلے ہی روز دونوں گینگز نے دن دہاڑے ایک دوسرے پر گولی چلانی شروع کر دی۔ کسی کو حاجی مستان کو دیے وعدے کا کوئی خیال نہیں تھا۔ ظاہر ہے مستان کا رسوخ اب کم ہو رہا تھا۔ بعد میں داؤد ابراہیم نے انڈیا چھوڑ کر دبئی میں اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ ڈان بن گیا بلڈر انڈر ورلڈ پر مبنی فلموں میں اکثر دکھایا جاتا ہے کہ ڈان گھر بنانے والوں سے پیسا وصول کر رہا ہے۔ لیکن اصل زندگی میں ممبئی کا یہ ڈان خود ہی بلڈر بن گیا تھا۔ ویر سنگھوی لکھتے ہیں ’مستان اور یوسف پٹیل جب یہ کہتے تھے کہ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار سمگلنگ سے زیادہ منافع بخش کام ہے، تو وہ مذاق نہیں کر رہے ہوتے تھے۔ جس کی وجہ تھا بامبے رینٹ ایکٹ۔‘ جس نے مالک اور کرائے دار کو ایک ہی مقام پر لا کر کھڑا کر دیا تھا اور اس سے انھوں نے بہت فائدہ اٹھایا۔ مان لیجیے آپ کے پاس ایک فلیٹ ہے، آپ نے اسے کرائے پر دیا ہوا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کرائے دار آپ کا فلیٹ خالی کر دے تو اس قانون کے تحت آپ کو عدالت میں ثابت کرنا ہو گا کہ آپ کی ضرورت آپ کے کرائے دار کی ضرورت سے زیادہ ہے۔ کرائے دار ظاہر ہے یہ دلیل پیش کرتا تھا کہ اس کے پاس جانے کی کوئی اور جگہ نہیں ہے۔ پولیس کے دباؤ میں بیرون ملک چلے گئے اس قانون کا اثر یہ پڑا کہ ممبئی کے وسطی علاقوں کی حالت بگڑنے لگی۔ مالک مکانوں نے اپنے گھروں کی دیکھ بھال چھوڑ دی۔ چالاک کرائے دار اپنے فلیٹوں کے حصے کر کے انھیں آگے کرائے پر چڑھانے لگے۔ انڈرورلڈ نے اس موقعے پر مالک مکانوں سے ان کے گھروں کو کم قیمتوں پر خریدنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد وہ کرائے داروں پر گھر خالی کرنے کا دباؤ ڈالتے اور جو انکار کرتا اسے انجام بھگتنا پڑتا۔ اس کے بعد ڈان وہاں نئے مکان بنا کر اسے مہنگے داموں پر بیچ دیتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سمگلنگ سے کہیں زیادہ اس کاروبار میں آمدن ہونے لگی۔ اسی کی دہائی میں جب ان لوگوں پر پولیس کا دباؤ بڑھنے لگا تو متعدد ڈانز نے دبئی کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ وہاں سے بھی انھوں سے انڈر ورلڈ کا کام نہیں چھوڑا لیکن اس بارے میں کہانی پھر کبھی سنائیں گے۔
وارانسی:(اردو اخبار دنیا) اترپردیش کے ضلع وارانسی میں واقع گیان واپی مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت دینے کے لئے پانچ خواتین کی جانب سے داخل عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ضلع کورٹ نے ریاستی حکومت سمیت سبھی فریقین سے اس ضمن میں جواب طلب کیا ہے۔
پانچ خواتین کی جانب سے گیان واپی مسجد میں پوجا پاٹ کرنے کے لئے عدالت میں عرضی داخل کی گئی تھی جس پر سماعت کرتے ہوئے آج وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ نے ریاست کی یوگی حکومت، مسجد انتظامیہ اور کاشی ویشوناتھ مندر کے ٹرسٹی بورڈ سے اس پر جواب طلب کیا ہے۔ڈسٹرکٹ کورٹ میں خواتین کی جانب سے داخل عرضی میں اس بات کی اجازت طلب کی گئی ہے کہ گیان واپی مسجد کے اندر مان شری نگر گوری، بھگوان گنیش، بگھوان ہنومان اوار دیگر کی پوجا ارچنا کی اجازت دی جائے۔ اس کے پیچھے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ مسجد کے پرانے احاطے میں مذکورہ بالا سبھی دیوتاؤں کے عکس کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ بنارس میں واقع گیان واپی مسجد کے سلسلے میں کچھ شرپسند عناصر کی جانب سے کورٹ میں عرضی داخل کر کے اس بات کا دعوی کیا گیا ہے کہ مسجد کو ایک مندر توڑ کر تعمیر کیا گیا ہے اس لئے مسجد کے نیچے کھدائی کر کے اس کا سروے کرایا جائے اور یہ معاملہ فی الحال نچلی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ وہیں دوسری جانب جیسے جیسے یوپی اسمبلی کے انتخابات قریب آرہے ہیں اس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ منظم سازش کے تحت ایسے حساس موضوعات کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ فرقہ واریت کو ہوا دے کر سیاسی روٹی سینکی جاسک
ناندیڑ:21اگست۔ (اردو اخبار دنیا)ڈسمبر2021تافروری 2022 کے درمیان معیاد مکمل کرنیوالے میونسپل کونسل و نگر پنچایت کے ابتدائی وارڈوں کی تشکیل کا کچہ منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت ریاستی الیکشن کمیشن نے 20 اگست کو ریاست کے تمام ضلع کلکٹرس کودیاہے۔دیڑھ سال قبل ترمیم کے مطابق ایک رکنی وارڈ کی تشکیل 2011 کی آبادی مردم شماری کے مطابق کرنے کی ہدایت کمیشن نے دی ہے ۔
ریاست کے 169 مجالس بلدیہ اور نگر پنچایت کی مدت ڈسمبر 2020تافروری 2022 کے درمیان ختم ہورہی ہے ۔ ناندیڑضلع کے نائیگاوں و حمایت نگر نگر پنچایت و بھوکر مجلس بلدیہ کا مدت ختم ہونے والی مجالس بلدیہ کی فہرست میںشمارہے ۔ضلع کے حدگاوں‘عمری ‘دھرم آبادمجلس بلدیہ و اردھاپور اورماہور نگر پنچایت کی مدت ڈسمبر میںختم ہورہی ہے۔
بلولی‘کنڈلواڑی ‘مدکھیڑ ‘مکھیڑ‘دیگلورو قندہاران چھ مجلس بلدیہ کی مدت فروری 2022 میں ختم ہورہی ہے ۔ان 11 مجالس بلدیہ کے انتخابات ڈسمبر2016میں مشترکہ طور پر منعقد کئے گئے تھے ۔ اس مرتبہ ریاستی الیکشن کمیشن نے ایکساتھ چناو کروانے پرغور کررہی ہے۔ اسی لئے وارڈوں کی تشکیل کامنصوبہ تیار کرنے کی ہدایت دی ہے۔
لکھنؤ۔ اترپردیش کے تین بار وزیر اعلیٰ رہے بی جے پی رہنما کلیان سنگھ کی موت ہوگئی ہے ۔ کلیان سنگھ اس وقت بھی وزیر اعلیٰ تھے جب بابری مسجد شھید کی گئی تھی اور کلیان سنگھ کو بھی جس میں ملزم قرار دیا گیا تھا۔ جسے بعد میں باعزت بری کر دیا گیا تھا بتادیں کہ کلیان سنگھ کو 4 جولائی کو تشویشناک حالت میں پی جی آئی منتقل کیا گیا تھا۔
سانس لینے میں دشواری بڑھنے پر 17 جولائی کو آکسیجن سپورٹ دی گئی۔ اگلے دن 18 جولائی کو گلے میں ایک ٹیوب داخل کی گئی کیونکہ پھیپھڑوں کو مطلوبہ آکسیجن نہیں مل رہی تھی۔
21 جولائی کو زیادہ مسائل کی وجہ سے وینٹیلیٹر سپورٹ پر رکھ دیا گیا، آخر میں گردوں میں دقت کے بعد ڈاکٹروں نے ڈائلیسس شروع کردی تھی اور آج انکی موت بتادیں کہ کلیان سنگھ کی طبیعت تقریبا دو مہینے سے خراب تھی ۔ لکھنو کے ایس جی پی جی آئی میں انہیں علاج کیلئے بھرتی کرایا گیا تھا ۔ انہیں لائف سپورٹ سسٹم پر رکھا گیا تھا ۔ وہ 89 سال کے تھے ۔ بی جے پی کی سینئر لیڈر کلیان سنگھ کے انتقال کے بعد وزیر اعلی یوگی نے اپنا گورکھپور کا دورہ رد کردیا ہے ۔ بتادیں کہ کلیان سنگھ اترپردیش کے وزیر اعلی رہنے کے علاوہ راجستھان کے گورنر رہ چکے ہیں ۔ انتقال کی خبر ملتے ہی بی جے پی میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے ۔
لکھنو پی جی آئی نے ہفتہ دیر شام ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اور راجستھان کے سابق گورنر کلیان سنگھ جی کا ایک طویل بیماری کے بعد آج انتقال ہوگیا ۔ انہیں چار جولائی کو سنجے گاندھی پی جی آئی کے Critical Care medicine کے آئی سی یو میں سنگین حالت میں بھرتی کیا گیا تھا ۔ طویل بیماری اور جسم کے کئی اعضا کے دھیرے دھیرے ناکام ہونے کی وجہ سے انہوں نے آج آخری سانس لی ۔
کلیان سنگھ کو 21 جون کو لکھنو کے لوہیا انسٹی ٹیوٹ میں بھرتی کیا گیا تھا ۔ چار جولائی کو جب سب سے پہلے ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تھی تو اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ انتھ ان سے ملنے کیلئے پہنچے تھے ۔
تھوڑی دیر کے بعد وزیر دفاع راجناتھ سنگھ بھی اسپتال پہنچے تھے ۔ نیز ریاست کے نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ سمیت ریاستی حکومت کے کئی وزرا بھی کلیان سنگھ کی کیفیت جاننے کیلئے اسپتال گئے تھے ۔ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا ، بی ایل سنتوش سمیت بی جے پی تنظیم کے تمام بڑے لیڈران کلیان سنگھ کی طبیعت جاننے کیلئے پی جی آئی پہنچے تھے ۔
کرونا کی ’’جائے پیدائش‘‘ کی پڑتال ہوگی۔ ڈبلیو ایچ او
کہاں سے ہوا آغاز ؟
(اردو اخبار دنیا)
جنیوا: عالمی ادارہ صحت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزنش نے کورونا کی جائے پیدائش سے متعلق تحقیق کے لیے نئے سائنسی مشاورتی گروپ کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے ماہرین سے گروپ میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کورونا کی جائے پیدائش سے متعلق تحقیق کے لیے ایک مشاورتی گرپ تشکیل دیا ہے۔ 25 ماہر ارکان پر مشتمل یہ نیا سائنسی گروپ کورونا کی اصلیت کی نشاندہی، ضروری اقدامات کے لیے تجاویز اور آج تک کیے گئے کام کا آزاد تجزیہ فراہم کرے گا۔
عالمی ادارہ صحت نے ماہرین سے اپیل کی ہے کہ 10 ستمبر تک نئے مشاورتی گروپ میں شامل ہونے کے لیے درخواست دیں۔
یہ گروپ کورونا کے ساتھ ساتھ ایبولا جیسے دیگر وائرسوں سے جڑے مسائل پر بھی عالمی ادارہ صحت کو رہنمائی فراہم کرے گا۔
قبل ازیں عالمی ادارہ صحت کی قیادت میں عالمی ماہرین نے چین میں ووہان کا دورہ کیا تھا جہاں کورونا کے کیسز سب سے پہلے سامنے آئے تھے تاہم چین کی جانب سے بے جا مداخلت اور تاخیری حربوں کے بعد منظر عام پر آنے والی رپورٹ کو انتہائی معمولی قرار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ کورونا وائرس کی ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے خدشہ ظاہر کہا جا رہا تھا کہ یہ مہلک وائرس چین کی لیبارٹریز میں تیار ہوا ہے جس کے بعد عالمی اداروں نے تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔
22 ِ اگست کو صبح 9بجے جلگاؤں مکتائی نگر میں تدفین عمل آئیں گی۔ ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن۔۔۔۔۔۔۔ اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی نہیں ہے۔ جلگاؤں (سعیدپٹیل) مہاراشٹر اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمن محمدحسین (امیرصاحب) آج ٢١ اگست بروز سنیچر کو دوپہر میں مکتائی نگر(عادل آباد) میں اس دارے فانی سے کوچ کرگئے۔إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعون مرحوم کڈنی کے مرض میں مبتلا تھے۔سابق رکن مہاراشٹر راجیہ اردو اکادمی اسلم تنویر کے مطابق ان کا جنازہ ٢٢ اگست بروز اتوار صبح ٩ بجے ان کے جونےگاؤں قاضی پورہ مکتائی نگر سے تدفین کےلیئے اٹھایا جائے گا۔
سابق وزیر ایکناتھ راؤ کھڈسے ان کے عزیز دوست ان کی سیاسی دور کے ابتدائی دنوں سے ساتھ۔ساتھ چلنے والے اور ایک دوسرے کےحامی و مددگار کے طور پربلاتفرق کے علاقہ کی سماجی ،تعلیمی ،علمی ،ادبی ،ثقافتی و سیاسی ترقی کےلیۓ جدجہد و سرگرم عمل رہتے ہوئے ہم خیال بن کر کام کیا۔ اور علاقہ میں تعلیم و تربیت کا بھرپور کام کیا۔مرحوم تبلیغی جماعت کے سرگرم عمل ساتھی و امیرصاحب تھے۔مرحوم اپنے اصل نام کے بجائے امیر صاحب کے نام سے ہی جانے جاتے تھے۔ مرحوم الفلاح ایجوکیشن سوسائٹی کے چیئرمن تھے۔جس کے ماتحت ہائی اسکول و جونیئرکالج ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
سن ٢٠١٤ ء میں بی۔جے۔پی۔کے دورے اقتدار میں ایکناتھ راؤ کھڈسے انھوں نے مرحوم سے بےلوص دوستی نبھاتے ہوئے مرحوم کو مہاراشٹر اقلیتی کمیشن کے چیئرمن کے عہدے پر تقرر کیاتھا۔مرحوم نے اپنے سیاسی دوست ایکناتھ راؤ کھڈسے ان کے ساتھ بیشمار فلاحی کام کیئے جو علاقے کے سماج کے سامنے عیاں ہے۔سن ١٩٩٥ ء میں ایکناتھ راؤ کھڈسے ان کے وزیر رہتے ہوئے امیر صاحب نے علاقے کی کئ اردو ہائی اسکولوں کو منظوری دلوائی تھی۔جو تعلیمی سرگرمیوں کو لکھنے والوں کےلیئے ایک تاریخی باب ہے۔ابھی گذشتہ ٢٤ مئ کو علاقہ خاندیش و ریاست مہاراشٹر کی تعلیمی ،علمی ،سماجی شخصیت الحاج عبدالغفار ملک ان کے چل بسنے کا صدمہ سے ابھر بھی نہ سکے کہ امیرصاحب کے انتقال سے اور ایک خلا پیدا ہوگئ ہے۔ اللا علاقہ کو ان دونوں مرحومین کا بہتر نعم البدل دے۔آمین مرحوم مہاراشٹر راجیہ اردو اکادمی کے ممبر سیکریٹری مرحوم عبدالرؤف خان ان کے برادر عزیز تھے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ و تین بھائیوں کا خاندان ہے۔